افضل خان ( اسٹاف رپورٹر) ۔ عوام کے جان اور مال کا تحفظ ہی پولیس کی بنیادی ذمہ داری ہے اس لئے ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ روزینہ انصاف کے حصول کیلئے درد رکے دھکے نہ کھاتی بلکہ پولیس ابتداء میں ہی اس کی شکایت سن لیتی مگر ایسا نہیں ہوا کیونکہ عام آدمی کو جائز قانونی مدد درکار ہوتو اسے پولیس تک رسائی حاصل کرنا ہی آسان نہیں ہوتا۔ شاید اسی لئے عمر بھر کی جمع پونجی سے رابعہ سٹی میں فلیٹ خریدنے کے دوسرے دن ہی جب کچھ جرائم پیشہ لوگوں نے اس غریب خاتون کے فلیٹ پر قبضہ کیا تو کئی روز تک شارع فیصل تھانے،ایس پی گلشن اقبال ٹاون آفس اور ایس ایس پی ایسٹ کے دفتر کے چکرکاٹنے کے بعد جب کوئی شنوائی نہ ہوسکی تویہ خاتون میرے دفتر آگئی۔
روزینہ کا کہنا تھا کہ اسے صرف جائز قانونی مدد چاہئے مگر کسی تک اس کی رسائی نہیں ہوپارہی اور میں اسکی مدد کردوں،معلوم نہیں بحیثیت صحافی میرا یہ کام تھا یا نہیں مگر میں نے خالص انسانی ہمدردی کے تحت پہلے مرحلے میں ایس ایچ او شارع فیصل خالد ندیم بیگ کو فون کیا انہوں نے حامی بھری مگر پھر نہ خاتون کی مدد کی اور نہ ہی میرا فون ریسیو کیا،ڈی ایس پی چوہدری سعید نے کہا کہ ایس ایچ او سے بات کرلیں مجبورا ایس پی گلشن اقبال عابد قائمخانی سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ کل میرے دفتر بھیج دیں مگر دوسرے دن انہوں نے بھی وہی طریقہ اپنایا جو اس سے قبل ان کا ماتحت ایس ایچ او اپنا چکا تھا بالاخر میں نے ایس ایس پی ایسٹ سید پیر محمد شاہ کو تمام تفصیلات سے آگاہ کیا اور زور دے کر درخواست کی کہ متاثرہ خاتون کو صرف جائز قانونی مدد فراہم کی جائے انہوں نے دو روز تک میرے اصرار کرنے پر فلیٹ کے بلڈر کی مدعیت میں کیس درج کروا دیا مگر پھر اس کے بعد شارع فیصل پولیس نے جیسے قسم کھالی کے اب یہ کام نہیں کرنا (اس دوران روزینہ کس امتحان سے گذری؟ تحریر نہیں کرنا چاہتا کیونکہ روزینہ نے منع کیا ہے)۔
اس سلسلے میں ایک دفعہ پھرمیں متعدد بار ایس ایس پی پیر محمد شاہ سے رابطے کی کوشش کرچکاہوں مگر لگتا ہے ایس ایچ او سے لے کر ایس ایس پی تک سبھی کا ایک ہی وطیرہ ہے لحاظ تادم تحریر اپنے گھر سے بے گھر روزینہ اور اسکے اہلخانہ جائز قانونی مدد اور انصاف کے منتظر ہیں اور اسکے نئے فلیٹ سے جرائم پیشہ افراد کے ہاتھوں باہر پھینکا جانے والا سامان ایک اپارٹمنٹ کے کمپاؤنڈ میں کھلے آسان تلے خراب ہورہا ہے۔
اس کہانی کو بیان کرنے کا مطلب یہ تھا کہ عام آدمی کیلئے اس دور میں اپنے جائز کاموں کیلئے جتنے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں اس کا اندازہ نہ صحافی کرسکتا ہے نہ ہی کوئی بیوروکریٹ۔ مجھے نہیں معلوم کے روزینہ کو انصاف ملے گا بھی یا نہیں مگر میں سوچتا ہوں کہ اس شہر میں کتنے ایسے لوگ ہیں جو تعلقات یا رشوت کیلئے پیسے نہ ہونے کی وجہ سے اپنے حقوق کیلئے آواز بھی نہیں اٹھا سکتے۔ چلتے چلتے کچھ روز قبل جامعہ کراچی کے شعبہ کرمنالوجی میں عوام الناس اور پولیس کے درمیان تعلق کے حوالے سے ہونے والے ایک سیمنار کا ذکر جس میں ایڈیشنل آئی جی کراچی غلام قادر تھیبو نے خطاب کے دوران پولیس کی عوامی خدمات پرروشنی ڈالتے ہوئے کہا تھا کہ’’اب اگر کسی شہر ی کی گاڑی چوری ہو جائے تو میں 24گھنٹوں میں گاڑی واپس دونگا‘‘ جس پرایک طالبہ نے کراچی پولیس چیف سے سوال کیا کہ’’سر آپ گاڑی 24گھنٹے میں دے دیں گے مگر پہلے یہ بتائیں کے آپ ہمیں ملیں گے کہاں؟‘‘ جس پرہال تالیوں سے گونج اٹھا۔
Comments
ایک تبصرہ برائے “انصاف سے محروم بے گھرخاتون کا نوحہ”