پاکستان ٹیلی وژن کے اداکاروں میں محمود صدیقی کو ان کے منفرد انداز اور دلنواز لب و لہجے کی بدولت پہچانا جاتا تھا۔ ان کا شمار سینئر اداکاروں میں ہوا۔ انھوں نے پی ٹی وی کے کئی ڈراموں میں یادگار کردار نبھائے۔
محمود صدیقی 2000ء میں آج ہی کے روز وفات پاگئے تھے۔ ان کا تعلق سندھ کے مشہور شہر سکھر سے تھا۔ محمود صدیقی نے 1944ء میں ایک چھوٹے سے قصبے میں آنکھ کھولی۔ ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد انھوں نے قانون کی مضمون میں ڈگری حاصل کی۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب سندھ سے تعلق رکھنے والے نام ور شاعر اور ادیب شیخ ایاز بھی وکالت کے پیشے سے وابستہ تھے۔ محمود صدیقی نے ان کے جونیئر کے طور پر وکالت کا آغاز کیا تھا۔ شیخ ایاز کی صحبت میں انھیں بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا محمود صدیقی شروع ہی سے انسانی حقوق کا شعور رکھتے تھے اور سیاسی و سماجی کاموں میں دل چسپی لیتے تھے۔
انھوں نے ایک نظریاتی کارکن کے طور پر خود کو سیاسی پلیٹ فارم سے متحرک کرنے کا فیصلہ کیا تو سندھ پیپلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن ان کا انتخاب تھی۔ وہ اس سے وابستہ ہوگئے۔ اس زمانہ میں محمود صدیقی نے قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔
محمود صدیقی نے مختصر عرصہ ریڈیو پاکستان میں بطور اناؤنسر بھی گزارا اور قلیل مدّت کے لیے روزنامہ ’’ہلالِ پاکستان‘‘ سے بھی وابستہ رہے۔ 1973ء میں محمود صدیقی نے پاکستان ٹیلی وژن کے ایک سندھی ڈرامہ بدمعاش سے اداکاری کا آغاز کیا۔ بعد کے برسوں میں وہ زینت، گلن وار چوکری، تلاش اور رانی جی کہانی میں نظر آئے اور اپنے مخصوص انداز کی وجہ سے پی ٹی وی کے ناظرین میں خاصے مقبول ہوئے۔ تاہم ان کی وجہِ شہرت اردو زبان میں پی ٹی وی کا ڈرامہ ’’دیواریں‘‘ تھا۔ اس ڈرامہ نے محمود صدیقی کو ملک گیر شہرت دی اور پھر انھیں مزید ڈراموں میں کام کرنے کا موقع ملا اور یہ سبھی یادگار ثابت ہوئے۔ ان میں مشہور ڈرامہ جنگل، قربتوں کی تلاش، دنیا دیوانی اور کارواں شامل ہیں۔ محمود صدیقی کو ڈرامہ کارواں میں بہترین اداکاری پر پی ٹی وی ایوارڈ بھی دیا گیا۔
محمود صدیقی نے پرائیویٹ سیکٹر کے لیے ایک سیریل نہلے پہ دہلا کے نام سے بنائی تھی جو بہت مقبول ہوئی تھی۔
اداکار محمود صدیقی کراچی میں ڈالمیا روڈ پر ایک قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔