وہ اردو فلم جس کا ٹائٹل ہی مزاحیہ اداکار منور ظریف کے نام پر رکھا گیا

منور ظریف

منور ظریف کا نام پاکستانی فلموں کے مشہور کامیڈین کے طور پر لیا جاتا ہے جو بے مثال شہرت اور مقبولیت کے حامل رہے۔ منور ظریف نے ابتدائی دور ہی میں اپنی بے ساختہ پرفارمنس اور چہرے کے تاثرات سے شائقین کو اپنا گرویدہ بنا لیا تھا اور وہ مقبول ترین مزاحیہ اداکاروں میں شامل ہوئے۔

منور ظریف کی آج برسی منائی جا رہی ہے اور اس مناسبت سے ہم اُس فلم کا تذکرہ کریں گے جو اپنے ٹائٹل کی وجہ سے پاکستان کی تاریخ کی واحد فلم کہی جاسکتی ہے جسے دو مزاحیہ اداکاروں‌ کے نام سے ریلیز کیا گیا۔ یہ اداکار تھے رنگیلا اور منور ظریف۔ فلم کا نام ’’رنگیلا اور منور ظریف‘‘ تھا۔ نذر آرٹ پروڈکشنز کے بینر تلے عکس بند ہونے والی اس فلم کو شباب کیرانوی نے ہدایت کار نذر شباب اور موسیقار ایم اشرف کے ساتھ مل کر بنایا تھا۔ فلم میں صاعقہ اور شائستہ قیصر بالترتیب ان دونوں کے مقابل ہیروئن تھیں اور دیگر فن کار اورنگ زیب، ممتاز، نذر، آشا پوسلے، ساقی، نجمہ محبوب، اسلم پرویز اور دیگر شامل تھے۔

یہ مزاحیہ اور نغماتی فلم لاہور پنجاب سرکٹ میں 30 نومبر 1973ء کو ریلیز ہوئی، جب کہ کراچی سندھ سرکٹ میں 5 جنوری 1974ء کو اسکرین کی زینت بنی۔ پورے ملک میں اس فلم نے باکس آفس پر خوب بزنس کیا۔ اس میں بھی رنگیلا اور منور ظریف کی کامیڈی سے شائقین بہت محظوظ ہوئے۔ منور ظریف نے اس فلم کی کہانی کے تناظر میں ایک ڈبل رول خان بہادر اشتیاق علی کا نبھایا۔ باقی پوری فلم میں اُن کے کردار کا نام منور ظریف ہی تھا۔ یہ وہ فلم تھی جس سے ثابت ہوا کہ اس زمانے میں ان اداکاروں کے نام پر فلمیں بزنس کرتی تھیں۔

اداکار منور ظریف 1976ء میں آج ہی کے دن انتقال کر گئے تھے۔ منور ظریف 2 فروری 1940ء کو لاہور کے علاقے قلعہ گجر سنگھ میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے فلم اونچے محل سے اپنے مزاحیہ فلمی کیریئر کا آغاز کیا تھا، لیکن اس فلم کی نمائش سے پہلے ان کی ایک اور فلم ڈنڈیاں ریلیز کردی گئی تھی۔ یوں اسی کو منور‌ ظریف کی پہلی فلم کہا جاتا ہے۔ منور ظریف نے پنجابی اور چند اردو فلموں میں بھی کام کیا۔ اداکار منور ظریف کا فلمی کیریئر 15 سال پر محیط رہا جس میں انھوں نے ساڑھے تین سو فلمیں کیں۔ اداکار کی پہلی سپر ہٹ فلم ہتھ جوڑی تھی۔ منور ظریف کی مقبولیت اور فلمی دنیا میں‌ ان کی اہمیت کا اندازہ اسی بات سے کیا جاسکتا ہے کہ ایک تو فلم کا ٹائٹل ان کے نام پر تھا اور دوسرا فلم سازوں نے ان کی شخصیت کے مطابق فلمی سین اور مکالمے لکھوانے کا سلسلہ شروع کر دیا تھا۔

بنارسی ٹھگ، جیرا بلیڈ، رنگیلا اور منور ظریف، نوکر ووہٹی دا، خوشیاں، شیدا پسٹل، چکر باز، میرا ناں پاٹے خاں، حکم دا غلام، نمک حرام ان کی کام یاب ترین فلموں میں سے ایک ہیں۔ منور ظریف کی آخری فلم لہو دے رشتے تھی جو 1980ء میں ریلیز ہوئی۔

منور ظریف لاہور کے ایک قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔