کبوتر کو بچانے کے لیے بادل خاں خود بندوق کے چھرّے کا ہدف بن گئے!

ادا جعفری

اردو شاعری میں ادا جعفری کو ان کے منفرد لب و لہجے اور شستہ طرزِ کلام کی بدولت امتیازی مقام حاصل ہوا۔ تہذیبی شائستگی اور معیار ان کے کلام کا بنیادی وصف ہے جس کے ساتھ ادا جعفری کی غزلیں اور نظمیں روایت و جدّت کا حسین امتزاج ہیں۔

فنونِ لطیفہ اور اردو ادب سے متعلق مزید تحریریں‌ پڑھیں

ادا جعفری بدایوں میں پیدا ہوئیں۔ والد کے انتقال کے بعد ان کی پرورش ننھیال میں ہوئی۔ ان کے شعری مجموعوں کے علاوہ 1995ء میں ایک خودنوشت بھی بعنوان "جو رہی سو بے خبری رہی” شایع ہوئی تھی جس میں انھوں نے اپنے ننھیال کے ایک پرانے اور وفادار نوکر کا تذکرہ کیا ہے جن کا نام بادل خاں تھا۔ ادا جعفری نے اُنھیں ایک ذمہ دار، اصولوں کا پابند اور بامروّت شخص بتایا ہے۔ خودنوشت سے یہ اقتباس ملاحظہ کیجیے۔

بدایوں کے شب و روز کی یاد کے ساتھ بادل خاں کا ہیولا بھی سامنے آ جاتا ہے۔ بادل خاں چھوٹی حویلی اور بڑی حویلی کے باورچی خانوں کے نگران اعلیٰ تھے۔

جب میں نے انہیں دیکھا بوڑھے ہو پہلے تھے۔ ڈھکتا ہوا رنگ۔ لحیم شحیم۔ اودھ کے رہنے والے تھے۔ بیٹے سے کسی بات پر ناراض ہو کر آئے تھے اور پھر مڑ کر نہیں گئے۔ بیٹا کئی بار منانے کے لیے آیا لیکن وہ اس کا سامنا نہیں کرتے۔ جیسے ہی اطلاع ملتی گھر کے کسی کونے کھدرے میں ایسے روپوش ہوتے کہ ڈھونڈے نہ ملتے۔ تنخواہ البتہ ہر مہینے بڑی پابندی سے پوتی پوتوں کے لیے بھیج دیتے تھے۔

عجیب و غریب زبان بولتے تھے جسے لکنت بھی نہیں کیا جا سکتا۔ بعض حروف کی صحیح ادائیگی سے معذور تھے لیکن بولتے فراٹے سے تھے۔ کوئی نیا آدمی ان کی بات نہیں سمجھ سکتا تھا۔ گھر میں اتنے عرصے سے تھے کہ مطلب بہرحال سب کو سمجھا دیتے۔

غلّہ کی کوٹھری کے انچارج تھے۔ ہر صبح چاول، دالیں، آٹا، گھی، ترازو میں تول کر پکانے کے لیے دیتے۔ روٹی پکانے والی سے خاص طور پر لڑائی رہتی۔ کیا مجال کہ وہ مقررہ وزن سے چٹکی بھر زیادہ آٹا ترازو کے پلڑے میں ڈال سکے۔ کھانا تیار ہو جاتا تو ہانڈیوں کے ڈھکن اتار کر معائنہ کرنا بھی ضروری سمجھتے۔ روٹی کا کٹور دان بھی کھول کر ضرور دیکھتے۔

گھٹنوں کے نیچے کمر بند سے بندھا ہوا چابیوں کا وزنی گچھا لٹکا رہتا تھا۔ غلّہ کی کوٹھڑی میں ایک تالا پڑتا جس کی ظاہر ہے کہ ایک ہی چابی ہو گی لیکن نہ جانے کہاں کہاں سے ان گنت چابیاں جمع کر رکھی تھیں جو اُن کی پوشاک کا حصہ بن چکی تھیں۔

دیگلچیوں کے معائنے کے دوران میں خاموش رہنا گوارا نہیں تھا۔ گھر کے سب ملازم پرانے تھے۔ وفادار بھی اور ایمان دار بھی۔ لیکن ان کی کسی نہ کسی حرکت سے بادل خاں کو ہمیشہ چوری کا ثبوت ملتا رہتا تھا۔ کبھی خود ہی کہہ سن کر خاموش ہو جاتے، کبھی مالکوں تک رپورٹ پہنچانا ضروری سمجھتے۔ مجرم کو قرار واقعی سزا نہ ملتی تو لاکھ کے گھر کو خاک کرنے کے ملال کا اظہار برملا کرتے۔ انہیں گھر کی خواتین کے احساسِ ذمہ داری سے بڑے شکوے تھے۔

ظاہر ہے کہ جس لہجے اور جن الفاظ میں اپنا مافی الضمیر بیان کرتے اس کا نتیجہ اور جواب ہمیشہ زیرِ لب تبسم ہوتا تھا۔ ان کی مشکل یہ تھی کہ بیبیوں کا احترام بھی لازم تھا۔ ان کی ڈانٹ ڈپٹ سے کبھی کوئی ملازمہ یا ملازم بد دل نہیں ہوا نہ کسی نے کبھی اس کی شکایت کی۔ جس کی بڑی وجہ ان کی غرابتِ گفتار تھی۔

نماز کے سخت پابند تھے اور ہمیشہ بلند آواز سے پڑھتے۔ عربی الفاظ کی قرأت ایسی کہ سننے والے کو روزِ قیامت بھی یاد آتا اور ہنسی روکنا بھی دشوار ہوتا۔

حویلیوں میں زندگی رواں دواں تھی اور بادل خان کی موجودگی سے خاصی بشاش بھی کہ ایک غیر معمولی واقعہ ظہور پذیر ہوا۔

ان دنوں نانا نے صدقی کو چھرّے والی چھوٹی سی بندوق خرید کر دی تھی اور اب ننھّا شکاری تھا اور اس کا اشتیاق۔ سارا سارا دن نشانہ لگانے کی مشق جاری رہتی اور شکار کی تلاش بھی۔ مگر کسی چڑیا یا کوّے نے اس شوقِ بے پایاں کی پذیرائی معقول اور معروف طریقے سے نہیں کی۔ ادھر صدقی نشانہ باندھتے ادھر پرندہ مائلِ پرواز ہو جاتا۔ ایک دن سامنے کبوتر تھا۔ بادل خاں ادھر سے گزرے اور ٹھٹک گئے۔ اپنی زبان میں جو ہم لوگ سمجھ لیتے تھے، کہنے لگے۔ کبوتر کو مارنا جائز نہیں ہے، کیونکہ کبوتر روضۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر حاضری دیتے ہیں۔ یہ انہیں کسی حاجی نے بتایا تھا۔

آخر بچوں کی ضد کے آگے کبوتر کو بچانے کے لیے وہ خود ہدف بننے پر تیار ہو گئے۔ دیوار کی طرف منھ کر کے کھڑے ہوئے اور اپنی پیٹھ برہنہ کر دی۔ اب یہ سوچ تھی کہ پیٹھ کے کس حصے پر نشانہ آزمایا جائے۔ عین اس وقت جب اس کا فیصلہ ہو گیا بادل خاں نے مڑ کر تاخیر کا سبب جاننا چاہا۔ چھرّا بندوق کی نالی سے آزاد ہو چکا تھا۔ ان کی آنکھ کے نیچے پیوست ہو گیا۔ یہ دیکھ کر ہم سب تماشائیوں کا بھی خون خشک ہو گیا کہ اب نانا کو علم ہو گا اور خیر نہیں ہے۔ ہوا یہ کہ نانا نے ان کے چہرے پر پٹی بندھی دیکھی اور سبب پوچھا تو انہوں نے اپنا پیر پھسلنے اور کسی گستاخ اینٹ پتّھر کے بارے میں اتنی طویل تقریر کی کہ گھبرا کر نانا نے کچھ سمجھنے یا ہمدردی کرنے کی کوشش ہی ترک کر دی۔ بندوق کا چھرّا ان کے چہرے کو زخمی کر گیا تھا۔

زخم کے معالج وہ خود ہی تھے۔ چنانچہ بخار آگیا اور ایسا کہ کئی دن پلنگ پر پڑے رہے۔ گھر والوں نے ان کا علاج تو کروایا لیکن ایک فروگزاشت ایسی ہوئی جو بادل خاں کی شان کے خلاف تھی۔ ان کے آرام کے خیال سے گھر کی کسی بی بی نے غلّہ کی کوٹھڑی کی دوسری چابی چند دن کے لیے ایک پرانی ملازمہ کو دے دی۔ اس سانحہ کا انکشاف جس دن ان پر ہوا اسی رات وہ بغیر اطلاع ہمارے گھر سے ہمیشہ کے لیے چلے گئے۔