اصغر وجاہت: معروف ادیب کے زمانۂ طالبِ علمی کا ایک دل چسپ قصّہ

آپ بیتیاں اور شخصی خاکے یا تذکرے صرف ان قارئین کی توجہ اور دل چسپی حاصل نہیں کرتے جو ادب کا ذوق رکھتے ہیں بلکہ ان سے سبھی لطف اندوز ہوتے ہیں‌۔

یہ ہندوستان کے معروف افسانہ اور ڈرامہ نگار اصغر وجاہت کی آپ بیتی سے چنا گیا ایک دل چسپ قصّہ ہے جس کا ترجمہ اعجاز عبید نے کیا ہے۔ یہ ہندی ادب کے مصنّف کے زمانۂ طالبِ علمی کی یادوں پر مبنی ہے جس میں وہ اپنی اور اپنے دوستوں کی تعلیم میں‌ عدم دل چسپی ، اپنے رجحانات اور شرارتوں کا تذکرہ کر رہے ہیں۔ ملاحظہ کیجیے:

سائنس کی پڑھائی میں میرا ہی نہیں، ہم تینوں دوستوں کا دل نہ لگتا تھا۔ ہم سب اپنے آپ کو آرٹسٹ سمجھنے لگے تھے۔ کلاس میں نہ جانا، پراکسی حاضری لگوانا، آوارہ گردی کرنا، چائے پینا، راتوں میں ٹہلنا، سگریٹ پینا، شعر و شاعری میں دل چسپی لینا، لڑکیوں کو دیکھنے کے لئے میلوں چلے جانا، فن کاروں جیسے کپڑے پہننا، کرایہ کی سائیکل پر شہر کی اجازت نہیں تو سڑکوں کے چکر کاٹنا، ادبی ثقافتی کاموں میں جان لڑا دینا، اپنے سے بڑی عمر کے لوگوں سے دوستی کرنا، مذہب میں ‘ خدا ہے یا نہیں’ موضوع پر تنازع کرنا وغیرہ وغیرہ کرتے تھے۔ اس لیے ظاہر ہے سائنس کی تعلیم کے لئے وقت نہ ملتا تھا۔

اساتذہ سے ہمارا رشتہ بھی دلچسپ تھا۔ جو ہمیں نہیں پڑھاتے تھے، ان سے ہمارے بڑے اچھے تعلقات تھے۔ مطلب، سائنس پڑھانے والے اساتذہ کو ہم جانتے بھی نہ تھے، پر ادب اور فن کے اساتذہ سے ہماری دوستی تھی۔ کیمسٹری پریکٹکل میں ہم کبھی نہ جاتے تھے لیکن فن نمائش میں جانا اپنا پہلا فرض سمجھتے تھے۔ نتیجہ جو نکلنا تھا وہی نکلا۔ پہلے سال میں فیل۔ دوسرے سال میں سوچا سفارش کرائی جائے۔ ایسا موقع کچھ اس طرح مڑ گیا کہ سفارش کرنے والا ہی تکلیف میں پڑ گیا۔ ہمیں معلوم تھا کہ کیمسٹری پریکٹکل میں ہم فیل ہو ہی جائیں گے۔ پڑھانے اور امتحان لینے والے اساتذہ کے پاس ہم تینوں دوست سفارش کرنے والے نیک آدمی کے ساتھ پہنچے۔ سفارش کرنے والے صاحب نے بات چیت شروع کی، ‘یہ تینوں آپ کے اسٹوڈنٹ مجھے یہاں لائے ہیں ۔۔’ استاد کی بات کاٹ کر بولے، ‘یہ تینوں؟ نہیں، یہ تو میری کلاس میں نہیں ہیں۔ ‘ سفارش کرنے والے اساتذہ سٹپٹائے۔ جلدی ہی سمجھ گئے کہ معاملہ کیا ہے۔ انہوں نے ہم لوگوں کی طرف عجیب نظروں سے دیکھا۔ انہیں لگا کہ ہم نے انہیں بہت غلط کام کے لئے راضی کر لیا تھا اور دھوکہ دیا تھا۔ ہم نے نظریں جھکا کر بھری آواز میں کہا، "جی، ہم آپ کی کلاس میں ہی ہیں۔’

استاد نے پھر غور سے دیکھ کر بڑی بے اعتنائی بھری آواز میں کہا، ‘نہیں، یہ لوگ میری کلاس میں نہیں ہیں۔ انہیں کلاس میں کبھی نہیں دیکھا۔’

اب کاٹو تو خون نہیں۔ بے شرموں کی طرح سر جھکائے کھڑے رہے۔ یہ سچ ہے کہ ہم تینوں دوست کلاس میں نہ جاتے تھے۔ اس کے علاوہ ہمیں کہیں بھی دیکھا جا سکتا تھا۔ بی ایس سی کے دوسرے سال میں تھے۔ سیشن ختم ہو گیا تھا۔ حاضری نکلی تو ہم سب کی حاضریاں کم تھیں اور امتحان میں نہیں بیٹھ سکتے تھے۔ پڑھائی یا امتحان کی تیاری نہیں تھی۔ ہوسٹل اور فیس وغیرہ کا جو پیسہ واجب الادا تھا وہ بہت زیادہ تھا، کیونکہ ہم اسے اڑا گئے تھے۔ ہم تینوں ہوسٹل کے کمرے میں بیٹھے سوچ رہے تھے کہ اس مصیبت سے کس طرح نمٹا جائے۔ کوئی راستہ نہ نظر آتا تھا۔