مودی کے دورے سے قبل امریکا کا بھارت پر سخت دباؤ

بھارتی وزیراعظم نریندر مودی رواں ماہ امریکا کے دورے پر جا رہے ہیں تاہم دورے سے قبل بائیڈن انتظامیہ نے بھارت پر امریکی ساختہ مسلح ڈرونز کی خریداری کے لیے دباؤ بڑھا دیا ہے۔

برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق بھارتی وزیراعظم نریندر مودی جو رواں ماہ جون کے آخر میں امریکا کے دورے پر جا رہے ہیں لیکن ان کی آمد سے قبل بائیڈن انتظامیہ نے بھارت پر امریکی ساختہ مسلح ڈرونز کے کئی بلین ڈالرز معاہدے کو مکمل کرنے کے لیے دباؤ بڑھا دیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق بھارت طویل عرصے سے امریکا سے بڑے مسلح ڈرون خریدنے میں دلچسپی ظاہر کرتا رہا ہے لیکن ممکنہ طور پر 2 بلین ڈالر سے 3 بلین ڈالر کے اس بڑے معاہدے کی تکمیل میں بیوروکریٹک رکاوٹیں حائل ہوتی رہی ہیں جس کی وجہ سے بائیڈن انتظامیہ خوش نہیں ہے۔

بھارتی وزیراعظم جن کی دورہ امریکا میں 22 جون کو وائٹ ہاؤس میں صدر بائیڈن سے ملاقات طے ہے اس حوالے سے امریکی مذاکرات کار پُرامید ہیں کہ اس ملاقات میں ڈرونز خریداری معاہدے کے حوالے سے جمود ٹوٹ جائے گا اور ذرائع کا کہنا ہے کہ مودی اور بائیڈن ملاقات میں ہتھیاروں اور زمینی گاڑیوں کی مشترکہ پیداوار جیسا کہ بکتر بند پرسنل کیریئرز پر بھی بات چیت کی ہوسکتی ہے۔

رپورٹ میں‌ ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ مودی کے دورے کی تاریخ طے ہونے کے بعد امریکی محکمہ خارجہ، پینٹاگون اور وائٹ ہاؤس نے ہندوستان سے کہا ہے کہ وہ جنرل ایٹمکس کے ذریعے بنائے گئے 30 سے زیادہ مسلح MQ-9B سی گارڈین ڈرونز کے معاہدے پر پیشرفت دکھائے۔

اس حوالے سے امریکی صدر کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان مودی کے دورے سے قبل تیاریوں کو حتمی شکل دینے کے لیے منگل کو نئی دہلی پہنچے ہیں لیکن بات چیت سے واقف ایک شخص کے مطابق گزشتہ ہفتے تک بھارتی وزارت دفاع نے اس بات کا فیصلہ نہیں کیا تھا کہ وہ کتنے ڈرون خریدنا چاہتی ہے۔ پہلے یہ تعداد 30 بتائی گئی تھی لیکن بعد میں اسے 24 کر دیا گیا اور پھر پچھلے مہینے مزید کم کر کے 18 کر دیا گیا لیکن ذرائع کا کہنا ہے کہ اس میں سے کوئی بھی تعداد حتمی قرار نہیں دی جاسکتی ہے۔

امریکی حکام کا کہنا ہے کہ مسلح ڈرونز کی خریداری معاہدے پر بھارت کے بیورو کریٹک لاگ جام کو توڑنے اور اس حوالے سے دستاویز کی تیاری مودی سرکار کی داخلی میٹنگ پر منحصر ہے جو غیر ملکی فوجی فروخت کے عمل کو شروع کرنے کے لیے ایک رسمی "لیٹر آف ریکوسٹ” کا پیش خیمہ ہوگا۔ تاہم منگل کی شام تک یہ معلوم نہیں ہوسکا تھا کہ نئی دہلی نے ان ضروری دستاویز کو تیار کر لیا ہے یا نہیں۔

ان تمام معاملات سے باخبر بائیڈن انتظامیہ کے ایک سینیئر اہلکار کا کہنا ہے یہ ایک ایسا فیصلہ ہے جو مودی حکومت کو کرنا ہوگا کیونکہ اس معاہدے کو ہم دونوں ممالک کے لیے بہتر سمجھتے ہیں لیکن حتمی فیصلے کا اختیار بھارت کے ہاتھ میں ہے۔

دوسری جانب ان تمام معاملات اور مذاکرات پر وائٹ ہاؤس، محکمہ خارجہ اور پینٹاگون کے ترجمان نے تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔

واضح رہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن نے چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے کے لیے بھارت کے ساتھ گہرے تعلقات کو اپنی پالیسی کا اہم ستون بنایا ہے اور باوجود اس کے کہ دنیا کی ان دو سب سے بڑی جمہوریتوں کا باضابطہ سیکیورٹی اتحاد نہیں ہے رواں سال دونوں ممالک کے درمیان جدید فوجی ٹیکنالوجی کے تعاون پر خصوصی توجہ دی گئی ہے۔

تاہم نئی دہلی جو اکثر بیرون ملک بڑی طاقتوں کے درمیان تنازعات میں خود کو غیر جانبدار قرار دیتا ہے لیکن یوکرین پر حملے کے بعد روس کے ساتھ کچھ دفاعی اور اقتصادی تعلقات برقرار رکھنے سے واشنگٹن کو مایوسی ہوئی ہے جب کہ بھارت مقامی طور پر تیار ہونے والے آلات کے پُرزے بھی تلاش کر رہا ہے جو دونوں ممالک کے درمیان معاہدے کو مزید پیچیدہ بنا سکتے ہیں۔