مشاہیرِ ادب کی آپ بیتیاں، سوانح عمریاں اور ادبی تذکرے اردو ادب کے قارئین میں مقبول رہے ہیں۔ یہ کتابیں فن و ادب سے وابستہ شخصیات کے حالاتِ زندگی کے ساتھ ہمیں کئی دل چسپ، اہم اور بسا اوقات ناقابلِ فراموش واقعات، قصّوں اور تخلیق کاروں کے ذاتی تجربات و مشاہدات سے روشناس کرواتی ہیں۔
یہ پاکستان کے نام وَر ترقی پسند نقّاد، ماہرِ لسانیات، افسانہ نگار اور مترجم اختر حسین رائے پوری کی خود نوشت سوانح عمری "گردِ راہ” سے منتخب کردہ ایک پارہ ہے جس میں اختر حسین رائے پوری نے اپنے ذوقِ مطالعہ اور کتب بینی کے شوق کی ابتدا کا احوال رقم کیا ہے۔ ملاحظہ کیجیے:
اس زمانے کا تعلیمی نظام اتنا پختہ تھا کہ تب کا پڑھا لکھا آج تک خوب یاد ہے۔ پرائمری اسکول پانچ درجوں پر مشتمل تھا اور پانچویں کلاس میں انگریزی کی ابتدا ہو جاتی تھی کیونکہ ہائی اسکول کی چھ کلاسوں مں جملہ تعلیم اسی زبان میں ہوتی تھی۔ جیسے ہی میں ہندی میں رواں ہوا، مطالعے کا شوق جنون کی طرح مجھ پر سوار ہوا اور میں کتابوں کی تلاش میں سرگرداں رہنے لگا۔ والد سرکاری
دورے پر اکثر باہر رہتے تھے۔ لہٰذا میں ان کے خالی کمرے پر قابض ہوا اور ان کی الماری کی کتابوں کو الٹنے لگا۔ زیادہ تر اردو میں تھیں اور اس وقت میری دسترس سے باہر۔ گو ابھی میں انگریزی پڑھنے سے بھی قاصر تھا، البتہ انگریزی کی موٹی موٹی کتابوں میں میرے لیے کچھ کشش تھی۔ اس وقت انھیں پڑھ تو نہ سکتا تھا لیکن ان کی تصویریں دیدہ زیب تھیں۔ خصوصا اٹلس کے رنگ برنگے نقشے مجھے پسند تھے اور میں گھنٹوں ان کی ورق گردانی کرتے ہوئے طفلانہ تخیل میں دنیا کی سیر کرتا تھا۔ اس وقت مجھے گمان بھی نہ ہو سکتا تھا کہ آگے چل کر زندگی کا بڑا حصہ سیاحت میں گزرے گا۔ انگریزی ڈکشنری کی ناقابلِ فہم عبارت بھی جاذبِ توجہ تھی کیونکہ اس میں جا بجا تصویریں چھپی ہوئی تھیں۔جیب خرچ کے لیے جو کچھ ملتا ہندی کتابوں کی واحد دکان پر صرف ہو جاتا۔ اس کا مالک ایک لوہار تھا، جس نے معلوم نہیں کیوں مختلف اوزاروں کے ساتھ کتابوں کا انبار لگا رکھا تھا۔ یہ سب سستے کاغذ پر چھپی ہوئی قصّے کہانیوں، غزلوں، گیتوں، ناٹک اور نوٹنکیوں پر مشتمل تھیں۔ زیادہ نہیں دو تین سال کی مدت میں اس سارے مواد کو میرا دماغ چاٹ گیا اور لوہار نے حیرت سے شاباش دیتے ہوئے کہا کہ تمھارے لیے اب میرے پاس کچھ نہیں رہا۔ تمھارے مطالعے کا شوق شہر میں صرف پرانی بستی کے مندر کی لائبریری میں پورا ہو سکتا ہے۔ شام وقت مندر کا پجاری ہر روز اسے کھولتا ہے، اس معاملے میں وہی تمھاری مدد کر سکتا ہے۔ لوہار کے مشورے پر فور عمل کیا۔
شوق کا یہ عالم تھا کہ تنِ تنہا شام کے اندھیرے میں اس مندر کی طرح چل پڑا۔ شہر کے آخری سرے پر ایک تالاب کے کنارے اور اس سنسان جھاڑی کے قریب جہاں ایک ٹوٹے ہوئے قلعے کے آثار پوشیدہ تھے، یہ مندر چراغوں کی روشنی میں جھلملا رہا تھا اور اس کے اندر دیویوں کی مورتیں پھولوں کے ہار پہنے اپنی پتھرائی آنکھوں سے مجھے گھور رہی تھیں۔ پھر بھی میں ہمّت باندھ کر احاطے کی اس عمارت میں داخل ہو گیا جس پر لائبریری کا بورڈ لگا ہوا تھا۔ میں نے کتابوں کا اتنا بڑا ذخیرہ بھی نہ دیکھا تھا جو کئی الماریوں میں سلیقے سے سجی ہوئی مجھے قریب آنے کا اشارہ کر رہی تھیں۔ پجاری کو میں ایک نظر میں پہچان گیا کیونکہ وہ ماتھے پر تلک لگائے کرسی پر بیٹھا بڑے سے رجسٹر میں کچھ لکھ رہا تھا۔ جب میں اس کے پاس جاکر کھڑا ہوا تو اس نے سوالیہ انداز میں مجھے دیکھا۔
میرے مطالعے کے شوق کی اس نے یہ کہہ کر ہمّت افزائی کی کہ آج تک اتنا کم عمر بچہ یہاں نہ آیا تھا اور پھر جب اس نے میرے مرحوم نانا کا نام سنا جو اپنے زمانے کے مشہور وکیل تھے تو بولا یہ شوق اسے وراثت میں ملا ہے۔ غرض پجاری نے مجھے لائبریری سے بیک وقت ایک کتاب گھر لے جانے کی اجازت دے دی اور مجھے یوں محسوس ہوا جیسے میں مالا مال ہو گیا۔ اسکول کے بعد میں ہم جولیوں کے ساتھ بہت کم کھیلتا یا تو انھیں اپنے مطالعے کا حاصل کنویں کی جگت پر بیٹھ کر ایسے دل نشیں طریقے سے سناتا کہ وہ دم بخود رہ جاتے، تا آنکہ ان کے بڑھے بوڑھے تلاش میں نہ نکل آتے اور میں پھر نئی کتاب کی فکر میں تیز قدم اسی لائبریری کی طرف چل پڑتا۔ ظاہر ہے کہ عموما ان کتابوں کا تعلق جاسوسی، عیاری، طلسم وغیرہ سے ہوتا تھا لیکن کچھ کا تعلق تاریخ سے بھی تھا اور ایسی ہی کتابیں مجھے بطورِ خاص مرغوب بھی تھیں۔ اُنھیں دنوں نپولین بونا پارٹ کی سوانح عمری پڑھنے میں آئی اور اس کے عزم اور حوصلے کا اثر ایسا ہوا کہ میں اسے بارہا دہراتا گیا اور پھر بھی دل نہ بھرا۔ سچ تو یہ ہے کہ اس وقت تک ہندی زبان کے ادب کا دائرہ محدود تھا اور سنجیدہ ذوق کے لیے لیے اس میں مواد کم تھا۔
اتنے میں ایک ایسا واقعہ ہیں جس نے میرے مطالعے کی راہ موڑ دی۔ میری عمر بارہ سال ہوگی جب میں ہائی اسکول کی ساتویں جماعت میں تھا۔ اسکول میں ایک اچھی خاصی لائبریری تھی جس میں انگریزی اور ہندی کے علاوہ اردو کتابیں بھی موجود تھیں۔ جن طلبہ کو کتب بینی کا شوق ہوتا وہ باری باری فرصت کے وقت اس کے انتظام میں استاد کا ہاتھ بٹاتے۔ جب میری باری آئی تو اتفاق سے اردو کتابوں کا پارسل موصول ہوا اور استاد نے جو ایک ہندو بنگالی تھا، یہ سوچ کر کہ میں انھیں پڑھ سکوں گا، ارشاد کیا کہ ان کے نام اردو کتابوں کے رجسٹر میں درج کر دو۔ یہ سن کر میں سہم گیا، کیونکہ بغدادی قاعدہ چھوڑنے کے بعد میں اردو سے یکسر بے خبر ہو گیا تھا۔ پارسل سے پندرہ یا بیس کتابیں نکلیں جن کی طباعت و کتابت خوب روشن تھی۔ اور سر ورق پر نظر جمائی تو بلا دقّت میں ان کے عنوان پڑھ گیا۔ جو خوشی ہوئی وہ الفاظ میں بیان نہیں ہو سکتی۔ رجسٹر پر نام چڑھا کر انھیں میں گھر لے آیا اور بستہ فرش پر پھینک کر انھیں پڑھنے بیٹھ گیا۔ ان کی عبارت اتنی صاف تھی کہ بلا دقّت میں انھیں پڑھتا چلا گیا اور سرخوشی کا یہ عالم تھا جیسے کوئی مہم جیت لی ہو۔ میرے بھائی بھی حیران ہوئے اور کہنے لگے کہ اردو تمہیں آتی ہے اور اب اس کی طرف توجہ دو۔ وقت کے ساتھ اردو سے میرا شوق بڑھتا گیا کیونکہ اس کے ادب کا دائرہ ہندی سے زیادہ وسیع تھا۔
میٹرک تک پہنچتے پہنچتے ہندی پر میری گرفت اتنی مضبوط ہو گئی تھی کہ رسائل میں میرے مضمون شائع ہونے لگے۔ 1928 میں میرا پہلا افسانہ جس کا تعلق سراج الدّولہ سے تھا اور جو "پراجت” (شکست خوردہ) کے عنوان سے لکھنؤ کے معروف ہندی رسالہ مادھوری میں شائع ہوا۔ منشی نول کشور کے انتقال کے بعد ان کے ایک جانشیں نے یہ رسالہ شائع کیا تھا اور اسی نے پہلی مرتبہ پریم چند سے ہندی کا تعارف کروایا۔ اب اردو پر بھی اتنا عبور ہو چکا تھا کہ سالانہ امتحان میں اپنے ہم نشیں طلبہ کو اردو کا پرچہ حل کرانے کے الزام میں پکڑا گیا مگر صفائی سے چھوٹ گیا کیونکہ میں خود ہندی اور سنسکرت کا طالبِ علم تھا۔
ہمارے ہائی اسکول میں انگریزی کا معیار بلند تھا۔ ہیڈ ماسٹر ایک اینگلو انڈین مسٹر ٹمبے کیمبرج کے فارغ التحصیل تھے۔ اسکول کی تعلیم گیارھویں درجے پر ختم ہوتی تھی اور آخری تین جماعتوں میں انگریزی کا درس ان کی نگرانی میں ہوتا تھا۔ شکسپیئر کے دو ڈرامے نصاب میں شامل تھے جن میں سے ایک کو بعد ازاں ملک کے کالج کے نصاب میں شامل پایا۔ اب درس میں قومی اور کلاسیکی زبانوں کی حیثیت ثانوی رہ گئی اور زیادہ توجہ انگریزی پر مرکوز ہو گئی۔ اس طرح میں انگریزی کی طرف مائل ہوا اور جیسے جیسے انکشاف ہوتا گیا کہ نہ صرف اس کا اپنا ادب بے پایاں ہے بلکہ یہ زبان اپنے دامن میں تمام دنیائے علم و ادب کو سمیٹے ہوئے ہے، میں اس کا گرویدہ ہوتا گیا۔ غرض یہ کہ 1928ء میں بہ عمر سولہ سال جب میں میٹرک کے امتحان سے امتیاز کے ساتھ فارغ ہوا تو انگریزی، ہندی اور اردو پر مجھے خاصا عبور حاصل ہو چکا تھا۔