علی سردار جعفری ایک درد مند اور انسان دوست شخصیت کے طور پر مشہور تھے۔ وہ ان اہلِ قلم میں شامل تھے جنھوں نے قوم اور فرد کی آزادی و ترقی کا خواب دیکھا اور اپنی انقلابی شاعری سے عوام کے جذبات کی ترجمانی کی۔
علی سردار جعفری نے ہندوستان میں وہ دور دیکھا جب ترقی پسند ادب کے عروج کے ساتھ برصغیر میں آزادی اور تقسیمِ ہند کے لیے انقلابی نعروں کی گونج ہر طرف سنائی دے رہی تھی۔ وہ بلرام پور (ضلع گونڈہ، اودھ) میں 29 نومبر 1913ء کو پیدا ہوئے اور 2000ء میں یکم آج ہی کے روز ان کا انتقال ہوگیا تھا۔ وہ بھارت کے شہر ممبئی میں مقیم تھے۔
شاعر اور مصنّف علی سردار جعفری بھی ترقی پسند تحریک سے متاثر تھے۔ انھوں نے اس پلیٹ فارم سے اپنے افکار و نظریات کے اظہار کے ساتھ اپنی تخلیقات کے ذریعے ہندوستان میں بھائی چارے اور انسان دوستی کا پرچار کیا۔ ان کی نظمیں فرد کی آزادی اور ترقی و خوش حالی کے خیالات سے آراستہ ہیں۔ علی سردار جعفری اپنے وقت کے مقبول انقلابی شاعروں میں سے شامل تھے۔ ان کی نظموں کو ہندوستان بھر میں پڑھا گیا۔ نئے قلم کاروں کو متاثر کرنے والے علی سردار جعفری شاعر ہی نہیں ادبی نقّاد اور ایسے مصنف تھے جن کا قلم شخصی خاکے، تذکرے، تنقیدی مضامین، افسانے اور ڈرامے بھی لکھتا رہا اور پھر ان کی یادداشتوں پر مشتمل کئی تحریریں بھی یادگار ثابت ہوئیں۔
شاعری کی بات کی جائے تو وہ بنیادی طور پر نظم کے شاعر تھے لیکن ان کی غزلیں اور گیت بھی پسند کیے گئے جن میں خاص طور پر ایک جذباتی رو پائی جاتی ہے۔ علی سردار جعفری کے کلام وہ صوتی آہنگ ملتا ہے جو اپنی مثال آپ ہے۔
اپنے ایک انٹرویو میں علی سردار جعفری نے اپنے حالاتِ زندگی، تعلیم و تربیت کے مراحل اور اپنے ادبی سفر کے بارے میں بتایا تھا کہ: میرا نام اس اعتبار سے غیر معمولی ہے کہ آج تک اس نام کا دوسرا آدمی نہیں ملا۔ ہاں سردار علی نام کسی قدر عام ہے۔ حافظ شیرازی کے ایک قصیدے میں علی سردار اس طرح استعمال ہوا ہے کہ میرے نام کا سجع بن جاتا ہے۔ سب سے پہلے گھر پر بہار کے ایک مولوی صاحب نے اردو، فارسی اور قرآن کی تعلیم دی۔ وہ رات کو قصص الانبیاء سناتے تھے۔ اس کے بعد دینی تعلیم کے لیے سلطان المدارس لکھنؤ بھیج دیا گیا، وہاں جی نہیں لگا۔ ایک مولوی صاحب کے گھر قیام تھا۔ وہاں بھی جی نہیں لگا اور میں فرار ہو کر بلرام پور واپس چلا گیا۔ بلرام پور کے انگریزی اسکول لائل کالجیٹ ہائی اسکول میں داخلہ لیا۔ کھلی فضا تھی، اچھے استاد تھے، ہم عمر لڑکوں سے دوستیاں تھیں۔ صبح ناشتہ کر کے گھر سے اسکول جانا اور شام کو چار بجے پھر واپس آکر ناشتہ کرنا، اور میل ڈیڑھ میل دور ایک پریڈ گراؤنڈ میں پیدل جا کر دو گھنٹے کرکٹ، ہاکی کھیلنا روز کا معمول تھا۔
علی سردار جعفری کے مطابق، اسی زمانے میں انیسؔ کے زیرِ اثر شاعر شروع کی۔ 1933ء میں بیس سال کی عمر میں ہائی اسکول کی تعلیم مکمل کر کے علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی میں داخلہ لیا۔ (ابتدائی تعلیم کے چند سال ضائع ہوگئے تھے)
یہ ایک طوفانی زمانہ تھا جب تحریکِ آزادی اپنے شباپ پر تھی۔ اس عہد کے علی گڑھ نے اردو زبان کو اختر حسین رائے پوری، سبط حسن، منٹو، مجاز، جاں نثار اختر، جذبی، خواجہ احمد عباس، جلیل قدوائی، اختر انصاری، شکیل بدایونی، عصمت چغتائی اور 1940ء کے آس پاس اخترالایمان کا تحفہ دیا۔ وہاں خواجہ منظور حسین، ڈاکٹر عبدالعلیم، ڈاکٹر رشید جہاں، ڈاکٹر محمد اشرف وغیرہ سے تعارف ہوا اور جن کی صحبت اور فیض نے ذوقِ ادب اور آزادی کے جذبے کو جلا عطا کی۔ ایک ہڑتال میں حصہ لینے کی وجہ سے مسلم یونیورسٹی کو خیر باد کہنا پڑا اور دہلی جا کر اینگلو عربک کالج میں داخلہ لیا۔ یہ وہ تاریخی کالج تھا جو دہلی کالج کے نام سے ایک بڑا تعلیمی کردار ادا کرچکا تھا۔ وہاں داخلہ دلوانے میں جلیل قدوائی اور اختر انصاری نے مدد کی۔ اس واقعہ کے پچاس سال بعد 1986ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے ڈی لٹ (D.Litt.) کی اعزازی ڈگری سے عزت افزائی کی۔ یہ میرے لیے اس اعتبار سے بہت بڑا اعزاز تھا کہ مجھ سے پہلے اعزازی ڈگری شعراء کی فہرست میں علامہ اقبال، مسز سروجنی نائیڈو اور حضرت جگر مراد آبادی کو عطا کی گئی تھی۔
اس پس منظر اور زندگی کے مختلف ادوار کی جھلک کے بعد علی سردار جعفری پر بات کی جائےتو بجا طور پر وہ اردو ادب میں اپنی شاعری کے ذریعے مقام بنانے میں کام یاب رہے اور ترقی پسند دانش ور اور مصنّف کے طور پر ان کو امتیاز حاصل ہے۔ اس کے ساتھ انگریزوں سے آزادی کے لیے ان کی سیاسی جدوجہد کا زمانہ بھی یہی تھا اور علی سردار جعفری کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے متحرک اور فعال رکن بھی بن چکے تھے۔ وہ لکھتے ہیں، جواہر لال نہرو سے اسی زمانے میں ملاقات ہوئی اور ملاقات کا یہ شرف آخر دن تک قائم رہا۔ ان کے انتقال سے دو ماہ قبل تین مورتی ہاؤس میں اندرا گاندھی نے ایک چھوٹا سا مشاعرہ پنڈت جی کی تفریح طبع کے لیے کیا تھا، جس میں فراقؔ، سکندر علی وجدؔ اور مخدوم محی الدّین بھی شامل تھے۔ میں نے اپنی نظم “میرا سفر” فرمائش پر سنائی تھی۔
علی سردار جعفری کا تعلیمی سفر جس زمانہ میں جاری تھا، اسی زمانہ میں وہ کمیونسٹ پارٹی کے بینر تلے اپنی سیاسی سرگرمیاں بھی شروع کرچکے تھے اور قید یا نظر بندی بھی ان کے حصّہ میں آئی۔ یوں نوجوانی میں وہ ادب کی دنیا سے ایک نہایت فعال اور متحرک شخصیت کے طور پر بھی سب کے سامنے آتے رہے۔ سردار صاحب اس بارے میں لکھتے ہیں، دہلی سے بی۔ اے کرنے کے بعد میں لکھنؤ آ گیا۔ پہلے مجازؔ کے ساتھ قانون کی تعلیم کے لیے ایل۔ ایل۔ بی میں داخلہ لیا۔ ایک سال بعد اس کو چھوڑ کر انگریزی ادب کی تعلیم کے لیے ایم۔ اے میں داخلہ لیا۔ لیکن آخری سال کے امتحان سے پہلے جنگ کی مخالفت اور انقلابی شاعری کے جرم میں گرفتار کر لیا گیا اور لکھنؤ ڈسٹرکٹ جیل اور بنارس سنٹرل جیل میں تقریباً آٹھ ماہ قید رہا اور پھر بلرام پور اپنے وطن میں نظر بند کر دیا گیا۔ یہ نظر بندی دسمبر 1941ء میں ختم ہوئی۔ لکھنؤ میں سجاد ظہیر، ڈاکٹر احمد وغیرہ کی صحبت رہی۔ وہیں پہلی بار ڈاکٹر ملک راج آنند سے ملاقات ہوئی۔ 1938ء میں کلکتہ میں ترقی پسند مصنفین کی دوسری کانفرنس منعقد ہوئی۔ اس موقع پر شانتی نکیتن جا کر ٹیگور سے ملاقات کرنے کا شرف حاصل ہوا۔ وہیں بلراج ساہنی سے ملاقات ہوئی جو ہندی پڑھاتے تھے۔
علی سردار جعفری مزید لکھتے ہیں: 1943ء میں بمبئی آنا ہوا۔ سجاد ظہیر کے ساتھ کمیونسٹ پارٹی کے ہفتہ وار اخبار ’قومی جنگ‘ میں صحافتی فرائض انجام دیتا رہا۔ اس محفل میں بعد کو سبط حسن، مجازؔ، کیفیؔ، محمد مہدیؔ وغیرہ شامل ہوئے۔ آہستہ آہستہ بمبئی اردو ادب کا مرکز بن گیا۔ 1949ء کے بعد بمبئی میں جوشؔ، ساغر نظامی، کرشن چندر، راجندر سنگھ بیدی، عصمت چغتائی، میرا جی، اخترالایمان، سجاد ظہیر، ساحرؔ، کیفیؔ، مجروحؔ، حمید اختر اور بہت سارے سربرآوردہ ادیب جمع ہوگئے۔ اس زمانے کی انجمن ترقی پسند مصنفین کے ادبی اجلاس نے پوری اردو دنیا میں ایک دھوم مچا رکھی تھی۔ باہر سے آنے والے ادیب ان اجلاسوں میں بڑی مسرت سے شریک ہوتے تھے۔ 1949ء میں جو ہندوستانی سیاست کا ہیجانی دور تھا اور کمیونسٹ پارٹی کی انتہا پسندی اپنے شباب پر تھی، حکومت ہند کی طرف سے پارٹی پر پابندی عاید کر دی گئی۔ پورے ملک میں بڑے پیمانے پر گرفتاریاں شروع ہوئیں۔ میں بمبئی میں دو بار گرفتار کیا گیا۔ پہلی بار پندرہ دن کے لیے۔ دوسری بار ڈیڑھ سال کے لیے۔ یہ زمانہ بمبئی کے آرتھر روڈ جیل اور ناسک کی سنٹرل جیل میں گزرا۔ 1950ء میں یکایک رہا کر دیا گیا۔ وہ عید کی شام تھی۔ دوسرے دن صبح ہی صبح بمبئی آ کر گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ وہ عید کا دن تھا۔
علی سردار جعفری کے تحریر کردہ ڈرامے اور افسانے بھی مختلف ادبی پرچوں کی زینت بنے۔ وہ ممبئ سے جاری ہونے والے سہ ماہی "نیا ادب” کے مدیر بھی تھے۔ انھوں نے انگریزی سے کئی مصنفین کی تحریروں کا اردو ترجمہ بھی کیا۔ علی سردار جعفری کی ادبی تخلیقات پر مشتمل کتابوں میں ان کی نظموں کے مجموعہ پرواز (1943)، نئی دنیا کو سلام (طویل تمثیلی نظم، 1948)، امن کا ستارہ (دو طویل نظمیں 1950ء)، ایک مجموعہ پتھر کی دیوار (1953ء) اور لہو پکارتا ہے (1968ء) میں شایع ہوئے جب کہ افسانوں کی کتاب منزل (1938ء)، ڈراموں کا مجموعہ یہ خون کس کا ہے (1943ء) شایع ہوئی۔ اس کے علاوہ کتاب بعنوان لکھنؤ کی پانچ راتیں (1965ء)، اقبال شناسی (1969ء) میں منظر عام پر آئی۔ فلم کے لیے بطور گیت نگار اور مصنّف بھی کام کیا۔
بھارتی حکومت نے علی سردار جعفری کی ادبی خدمات کے اعتراف میں پدم شری ایوارڈ اور 1997ء میں گیان پیٹھ ایوارڈ دیا۔ حکومت پاکستان کی جانب سے 1978ء میں انھیں اقبال میڈل (تمغائے امتیاز) سے نوازا گیا جب کہ روس نے خصوصی تمغائے ماسکو (ستّر سالہ جشنِ پیدائش پر) 1984ء میں دیا تھا۔