برصغیر کی چند بلند قامت اور متأثر کن شخصیات میں علّامہ اقبال وہ نام ہیں جن کی عظمت ایک نقش بن کر دلوں پر قائم ہے۔ اپنے عہد کے مشاہیر نے اقبال کی مدح سرائی کی ہے اور ایک مفکر و مصلح اور شاعر کے طور پر ان کا تذکرہ اپنے اپنے انداز میں کیا ہے۔
ادب و فنون، فلسفہ و تاریخ پر مزید تحریریں پڑھیں
آغا شورش اور عبدالمجید سالک اردو ادب اور صحافت کی دو ممتاز اور نہایت بلند پایہ شخصیات ہیں جنھیں شاعری، نثر، صحافت اور تقریر و خطابت میں کمال حاصل تھا۔ شورش نے سالک مرحوم پر ایک تحریر لکھی تو اس میں شاعرِ مشرق علّامہ اقبال کی رقت قلبی اور دل زدگی کا ایک واقعہ بھی شامل کرلیا۔ یہ واقعہ شورش نے سالک صاحب کی زبانی ہی سنا تھا اور اسی طرح بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ ملاحظہ کیجیے:
شورش لکھتے ہیں، سالک صاحب نے علّامہ اقبال کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا، عمر کی آخری تہائی میں وہ ہر چیز سے دستبردار ہوگئے تھے۔ ان کے قلب کا یہ حال تھا کہ آن واحد میں بے اختیار ہو کر رونے لگتے، حضورؐ کا نام آتے ہی ان کے جسم پر کپکپی طاری ہوجاتی، پہروں اشک بار رہتے۔ ایک دفعہ میں نے حدیث بیان کی کہ مسجد نبوی میں ایک بلّی نے بچے دے رکھے تھے، صحابہؓ نے بلی کو مار کر بھگانا چاہا، حضورؐ نے منع کیا۔ صحابہؓ نے عرض کی، مسجد خراب کرتی ہے۔ حضورؐ نے فرمایا، اسے مارو نہیں، یہ ماں ہوگئی ہے۔ حدیث کا سننا تھا کہ علامہ بے اختیار ہوگئے، دھاڑیں مار مار کر رونے لگے۔ ……”سالک صاحب کیا کہا؟ مارو نہیں ماں ہو گئی ہے، اللہ اللہ امومت کا یہ شرف؟”
سالک صاحب کا بیان تھا کہ حضرت علامہ کوئی پون گھنٹہ اسی طرح روتے رہے، میں پریشان ہو گیا۔ ان کی طبیعت بحال ہوئی تو مجھے بھی چین آیا، ورنہ جب تک وہ اشک بار رہے، میں ہلا رہا گویا مجھ سے کوئی شدید غلطی سرزد ہوگئی ہو۔