امرتا پریتم کی ہتھیلی اور ادبی کانفرنس کا بیچ

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ امرتا پریتم پنجابی ادب کی ایک مایہ ناز ادیب اور شاعرہ ہیں، لیکن اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ہندوستان بھر میں انھیں جو شہرت نصیب ہوئی، اس کی ایک وجہ ساحرؔ لدھیانوی سے ان کی گہری وابستگی رہی ہے۔ ساحر اور امرتا کا معاشقہ ادبی دنیا میں مشہور تھا۔

ادبی مضامین اور اقتباسات پڑھنے کے لیے کلک کریں
امرتا پریتم کی تخلیقات کا اردو زبان میں بھی ترجمہ ہوا۔ ان کی آپ بیتی رسیدی ٹکٹ میں اپنے وقت کے مشہور شاعر اور کئی لازوال فلمی گیتوں کے خالق ساحر لدھیانوی سے عقیدت اور رومانس کی لفظی جھلکیاں بھی پڑھنے کو ملتی ہیں۔ یہ دو پارے اسی کتاب سے نقل کیے جارہے ہیں۔ ملاحظہ کیجیے۔

’’ایک دفعہ ایک اردو مشاعرے پر لوگ ساحرؔ سے آٹو گراف لے رہ تھے۔ کچھ لوگ منتشر ہوئے تو میں نے ہنس کر ہاتھ کی ہتھیلی اس کے آگے کر دی اور کہا: ’آٹو گراف‘!

ساحرؔ نے ہاتھ میں پکڑے پین کی سیاہی اپنے انگوٹھے پر لگا کر وہ انگوٹھا میری ہتھیلی پر لگا دیا جیسے میری ہتھیلی کے کاغذ پر دستخط کر دیے۔ اس میرے کاغذ کی کیا عبارت تھی جس کے اوپر اس نے دستخظ کیے، یہ سب ہواؤں کے حوالے ہے۔ یہ عبارت نہ کبھی اس نے پڑھی، نہ زندگی نے، اسی لیے کہہ سکتی ہوں، ساحرؔ ایک خیال تھا۔ ہوا میں چمکتا ہوا، شاید میرے اپنے ہی خیالوں کا ایک جادو۔‘‘

اسی کتاب رسیدی ٹکٹ میں امرتا لکھتی ہیں:
’’ملک کی تقسیم سے پہلے تک میرے پاس ایک چیز جو سنبھال سنبھال کر رکھا کرتی تھی۔ یہ ساحرؔ کی نظم ’تاج محل‘ تھی جو اس نے فریم کروا کر مجھے دی تھی۔ لیکن ملک کی تقسیم کے بعد جو کچھ میرے پاس آہستہ آہستہ جمع ہوا ہے۔ آج اپنی الماری کا اندرونی خانہ ٹٹولنے لگی ہوں تو دبے ہوئے خزانے ایسا معلوم ہوا ہے۔

ایک، ٹالسٹائی کی قبر سے لایا ہوا پتّا ہے اور ایک کاغذ کا گول ٹکڑا۔ جس کے ایک طرف چھپا ہوا ہے ’ایشین رائٹرز کانفرس۔‘ اور دوسری طرف ہاتھ سے لکھا ہوا ہے ساحرؔ لدھیانوی۔

یہ کانفرس کے موقع کا بیچ ہے جو کانفرس میں شامل ہر ادیب کو ملا تھا۔ میں نے اپنے نام کا اپنے کوٹ پر لگایا ہوا تھا اور ساحرؔ نے اپنے نام کا اپنے کوٹ پر کہ ساحرؔ نے اپنے والا اتار کر میرے کوٹ پر لگا دیا اور میرے والا اپنے کوٹ پر لگا لیا۔ اور آج وہ کاغذ کا ٹکڑا، ٹالسٹائی کی قبر سے لائے ہوئے پتّے کے ساتھ پڑا ہے۔ مجھے یوں محسوس ہو رہا ہے گویا یہ بھی میں نے ایک پتّے کی طرح اپنے ہاتھ سے اپنی قبر پر سے توڑا ہو۔‘‘