امرتا پریتم کے تخیل کا سچ جھوٹا نہیں تھا!

amrita pritam

پنجابی زبان کی مشہور شاعرہ اور ناول نگار امرتا پرتیم کی آپ بیتی ”رسیدی ٹکٹ“ ہندوستان میں بہت مقبول ہوئی تھی۔ اس کا ہندی، انگریزی اور اردو میں ترجمہ بھی کیا گیا۔ کتاب میں امرتا پریتم نے اپنی زندگی کے کچھ نہایت خاص اور یادگار واقعات کو ورق ورق اتارا ہے۔

مشاہیرِ ادب کی تحریریں اور مضامین پڑھنے کے لیے کلک کریں
جس زمانہ میں یہ کتاب منظرِ عام پر آئی، اس وقت امرتا پریتم اور ہندوستان کے مقبول ترین شاعر ساحر لدھیانوی کا معاشقہ بھی ہر زبان پر تھا۔ ادبی دنیا ہی نہیں ان کی شاعری کے دیوانے بھی اس سے واقف ہوچکے تھے۔ امرتا پرتیم نے اپنی اس کتاب میں اسی شاعر سے متعلق چند یادیں اور واقعات کو بھی بیان کیا ہے۔ ’رسیدی ٹکٹ‘ میں ایک جگہ امرتا نے بڑا دل چسپ واقعہ درج کیا ہے جو افسانوی معلوم ہوتا ہے۔ ملاحظہ کیجیے:

’’یہ ان دنوں کی بات ہے، جب میرا بیٹا میرے جسم کی امید بنا تھا۔ ۱۹۴۶ کے آخری دنوں کی بات۔ اخباروں اور کتابوں میں کئی وہ حادثے پڑھے تھے کہ ایک ہونے والی ماں کے کمرے میں جس طرح کی تصویریں ہوں، یا جس قسم کی صورت وہ دل میں لاوے، بچے کے خط و خال ویسے ہی بن جاتے ہیں۔ اور میرے تخیل نے جیسے دنیا سے چھپ کر اس لمحے میں میرے کانوں میں کہا، اگر میں ساحرؔ کا چہرہ ہر وقت اپنی یادوں کے سامنے رکھوں تو میرے بچے کی صورت اس کے مشابہ ہوجائے گی۔

وہ مزید لکھتی ہیں: سنک اور دیوانگی کے اس عالم میں جب ۳ جولائی ۱۹۴۷ کو پیدائش عمل میں آئی، اوّل مرتبہ اس کا منہ دیکھا، اپنے خدا ہونے کا یقین آگیا۔ اور بچّے کے چہرے کی نشوونما کے ساتھ یہ خیال بھی نشوونما پاتا رہا کہ اس کی صورت واقعی میں ساحر سے مشابہ ہے۔ خیر! دیوانگی کی آخری چوٹی پر پاؤں رکھ کر ہمیشہ کھڑے نہیں رہا جا سکتا۔ پاؤں کو بیٹھنے کے لیے زمین کا قطعہ چاہیے، اس لیے آئندہ برسوں میں اس کا تذکرہ ایک پری کہانی کی طرح کرنے لگ گئی۔ ایک بار یہ بات میں نے ساحرؔ کو بھی سنائی، اپنے آپ پر ہنستے ہوئے۔ اس کے کسی اور ردِ عمل کی خبر نہیں، صرف اتنا معلوم ہے کہ وہ ہنس پڑا اور اس نے صرف اتنا کہا، ’ویری پُوور ٹیسٹ! (Very Poor Taste) ‘۔

ساحرؔ کو زندگی کا سب سے بڑا ایک کمپلیکس ہے کہ وہ خوب رو نہیں۔ اسی میں سے اس نے میرے پُوور ٹیسٹ کی بات کہی۔ اس سے پیش تر بھی ایک بات واقعہ ہوئی تھی۔ ایک روز اس نے میری بچی کو گود میں بٹھا کر کہا تھا کہ ’تم کو ایک کہانی سناؤں‘۔ اور جب میری بچی کہانی سننے کے لیے تیار ہو گئی تو وہ سنانے لگا۔

’ایک تھا لکڑہارا۔ وہ شب و روز جنگل میں لکڑیاں چیرتا تھا۔ پھر ایک روز اس نے جنگل میں ایک شہزادی کو دیکھا۔ بڑی حسین! لکڑہارے کا جی چاہا وہ شہزادی کو لے کو دوڑ جائے۔‘ پھر۔۔ میری بیٹی کہانی میں ہوں کرنے کی عمر کی تھی۔ اس لیے بڑی توجہ سے کہانی سن رہی تھی۔ میں صرف ہنس رہی تھی۔ کہانی میں دخل نہیں دے رہی تھی۔ وہ کہہ رہا تھا۔ ’لیکن تھا تو لکڑہارا نا۔‘ وہ شہزادی کو صرف دیکھتا رہا۔ دور فاصلے پر کھڑے ہو کر، اور پھر اداس ہو کر لکڑیاں کاٹنے لگ پڑا۔

سچی کہانی ہے نا؟‘ہاں! میں نے بھی دیکھا تھا۔ معلوم نہیں بچی نے یہ کیوں کہا۔ ساحرؔ ہنستا ہوا میری طرف دیکھنے لگا۔ ’دیکھ لو اس کو بھی معلوم ہے!‘ اور بچی سے پوچھنے لگا۔ تم وہیں تھی نا جنگل میں؟‘بچی نے ہاں میں سر ہلایا۔

امرتا اس واقعے کو کہانی کے انجام کے ساتھ آگے بڑھاتے ہوئے لکھتی ہیں: ‘پھر برسوں بیت گئے۔ ۱۹۶۰میں جب میں بمبئی گئی تو ان دنوں راجندر سنگھ بیدی مہربان دوست تھے۔ اکثر ملا کرتے۔ ایک شام بیٹھے باتیں کر رہے تھے کہ اچانک سے پوچھا۔ ’پرکاش پنڈت سے ایک بات سنی تھی کہ نوراج ساحرؔ کا بیٹا ہے۔‘ اس شام میں نے بیدی صاحب کو اپنے اس عالمِ دیوانگی کی بات سنائی، کہا۔’یہ تخیل کا سچ ہے، حقیقت کا سچ نہیں!‘انہی دنوں ایک روز نوراج نے بھی سوال کیا۔ اس کی عمر قریب تیرہ سال تھی۔’ایک بات پوچھوں، سچ سچ بتا دو گی؟‘

’ہاں‘…. کیا میں ساحرؔ انکل کا بیٹا ہوں؟‘

’نہیں….‘۔ ’لیکن اگر ہوں تو بتا دیجیے، مجھے ساحرؔ انکل اچھے لگتے ہیں۔‘

’ہاں بیٹے! مجھے بھی اچھے لگتے ہیں، لیکن اگر یہ سچ ہوتا تو تم کو ضرور بتا دیتی!‘

سچ کی اپنی ایک طاقت ہوتی ہے۔ میرے بچے کو یقین آگیا۔ سوچتی ہوں تخیل کا سچ جھوٹا نہیں تھا، تاہم وہ صرف میرے لیے تھا، صرف میرے لیے۔ اس قدر کہ وہ ساحرؔ کے لیے بھی نہیں۔لاہور جب کبھی ساحرؔ ملنے آیا کرتا تھا تو گویا میری ہی خاموشی میں سے خاموشی کا ٹکڑا، کرسی پر بیٹھتا اور چلا جاتا تھا۔ وہ چپ چاپ سگریٹ پیتا رہتا تھا۔ قریب آدھا سگریٹ پی کر راکھ دانی میں بجھا دیتا اور پھر نیا سگریٹ سلگا لیتا اور اس کے جانے کے بعد صرف سگریٹوں کے بڑے بڑے ٹکڑے کمرے میں رہ جاتے تھے۔ اس کے جانے کے بعد، میں اس کے چھوڑے ہوئے سگریٹوں کے ٹکڑے سنبھال کر الماری میں رکھ لیتی تھی اور پھر ایک ایک ٹکڑے کو تنہائی میں بیٹھ کر جلاتی تھی اور جب ان کو انگلیوں میں پکڑتی تھی، محسوس ہوتا تھا جیسے اس کا ہاتھ چھو رہی ہوں۔ ‘‘