امریکی اخبار فنانشل ٹائمز نے کہا ہے کہ عرب رہنما غزہ جنگ بندی اور فلسطینی ریاست کا ارادہ رکھتے ہیں۔
اخبار کے مطابق عرب ریاستوں نے دیرپا امن کیلئے امریکی اور یورپی حکومتوں سے مشاورت کی ہے۔ عرب ریاستوں نے تعلقات کو معمول پر لانے کے بدلے آزاد فلسطینی ریاست کی تجویز دی۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تجویز میں سعودی عرب اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانا شامل ہے تجویز میں فلسطین کواقوام متحدہ میں مکمل رکنیت دینابھی شامل ہے۔
رپورٹ میں امکان ظاہر کیا گیا ہے کہ اسرائیلی وزیراعظم تجویز کی راہ میں رکاوٹ بن سکتےہیں۔
https://urdu.arynews.tv/arab-states-not-keen-to-rebuild-gaza-without-long-term-solution-blinken/
وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان آل سعود نے کہا ہے کہ فلسطین کا مسئلہ حل ہونے کی صورت میں سعودی عرب اسرائیل کو تسلیم کر سکتا ہے۔
یہ پوچھے جانے پر کہ کیا سعودی عرب فلسطینی تنازع کے حل کے بعد اسرائیل کو وسیع معاہدے کے حصے کے طور پر تسلیم کر سکتا ہے؟ تو سعودی عرب کے وزیر خارجہ نے جواب دیا "یقینی طور پر۔”
ریپبلکن سینیٹر لنڈسے گراہم کا کہہ چکے ہیں کہ اگر اسرائیل سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانا چاہتا ہے تو اسے دو ریاستی حل کو قبول کرنا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس دو آپشن ہیں: موت کے چکر کو جاری رکھیں یا 7 اکتوبر کو تبدیلی کے طور پر استعمال کریں۔
نیتن یاہو نے اس بات پر فخر کا اظہا کیا کہ انہیں فلسطینی ریاست کے قیام کو روکنے پر فخر ہے اور انہوں نے اوسلو معاہدے کو ایک عبرتناک غلطی قرار دیا۔