Author: Aayesha Saddiqua

  • میرے  ‘پیارے’  ہمسائے کے نام

    میرے ‘پیارے’ ہمسائے کے نام

    یہ بات ہے کچھ عرصہ پہلے کی، میں گھر سے باہر تھی۔ مجھے میری بہن کا”ایس-ایم-ایس” موصول ہوا۔ اُس انگریزی ایس-ایم-ایس کا اردو رترجمہ کرنے میںمجھے کافی دِقت محسوس ہو رہی ہے لہٰذا ‘اردو’ مفہوم ہی پیشِ خدمت کئے دیتی  ہوں”ہمارے محلے میں ایک نئی فیملی رہنے کے لیےتشریف فرما ہوئی ، فیملی میں دو بھائی ایسے تھے جنکو ‘اردو’ اور پنجابی لغت کے کچھ ایسے الفاظ پر مہارت حاصل تھی جو ہم اکثر اوقات گھروں میں ماؤں بہنوں کے سامنے بولتے حتٰی کہ سُنتے ہوئے بھی ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں”خیر میں نے اپنی بہن کے ایس-ایم-ایس پر کوئی خاص توجہ نہ دی۔ کافی عرصہ گزر گیا، ایک دن میرے کانوں کو کچھ ایسے الفاظ سُننے کو ملے جو معمول میںآج سے پہلے کبھی نا سنے تھے، اور اگر سُنے بھی ہونگے تو اس قسم کے’کمبینیشن’کے ساتھ تو ہرگز نہیں۔ مجھے اپنی کمر پر عجیب سے سرسراہٹ محسوس ہونےلگی۔ میں جو کہ ایک بہت ‘بولڈ’ شخصیت کی مالک ہوں فوراً یہاں وہاں دیکھنے لگی کے کمرے میں میرے علاوہ کوئی اور تو نہیں؟ شکر کا سانس لیا، یہ جان کر کہ میں اکیلی ہی بیٹھی اپنی پنجابی ‘لغت’ میں نت نئے فحش الفاظ کا اضافہ کر رہی ہوں۔ شرمندگی سے میرا منہ مجھے گرم ہوتا ہوا محسوس ہونے لگا اوردلکی دھڑکن اس خوف سے بڑھنے لگی کہ کہیں کوئی آ ہی نا جائے ،اس دوران میرے موبل فون پر بھی مسلسل کال آرہی تھی جسے میں اٹینڈ نہیں کر رہی تھی کیوں؟یہ تو آپ بھی باخوبی سمجھ گئے ہونگے۔۔۔۔جو الفاظ میں تنہائی میں بھی ہضم کرنے سے قاصر تھی بھلاکسی اور کے سامنے سُننے کی کیسے متحمل ہو سکتی تھی؟ کافی دیر تک دونوں بھائیوں کے درمیان اُن الفاظ تبادلہ ہوتا رہا جن میں اُنہی کی ماں بہن کے پوشیدہ حساس مقامات کا تفصیلی ذکر سننے میں آرہا تھا۔اتنا تو مجھے یقین ہو چکا تھا کہ میرے باقی گھر والے اور دیگر ہمسائے بھی یہی سب سن رہے ہیں مگر اردگرد کی خاموشی میری شرمندگی میں مسلسل اضافے کا باعث بنتی چلی جا رہی تھی۔ اتنے میں میرے کانوں کو کسی صنفِ نازک کی آواز سنائی دی۔ ماصوفہ نے جو الفاظ بولے وہ لکھنے کی بھی "یہ ناچیز "ہرگز جُرت نہیں کر سکتی۔ بس اتنا کہے دیتی ہوں کہ ان دونوں بھائیوں نے اپنی زبان کی روانگی کی بدولت گھر کی عورتوں کی بھی اچھی خاصی تربیت کر ڈالی ہوئی تھی۔ پنجابی میں کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ "ساریاں دے چاکے لتھ گئے ہوے سن”۔ چند گھنٹے تک ان جملوں کا تبادلہ ہوتا رہا جن میں کافی زیادہ الفاظ تہذیب کی لکیر سے نیچے بلکہ کافی زیادہ نیچے تھے۔ اس بات کوغالباً دو سے تین سال گزر گئے ہونگے۔ میری بھی پنجابی لغت میں اس دوران خاطر خواں اضافہ ہوا، بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ ابھی بھی ہو رہا ہے۔ دن میں تین سے چار راونڈ اسی قسم کی گفتوشنید پر مشتمل پورے محلے کے کانوں میں سے گزرتے ہیں۔ یہ صرف کسی ایک محلے یا کسی قصبے کی کہانی نہیں ہے بلکہ ہر دوسرے تیسرے گھر کا یہی حال ہے۔سڑکوں پر آتے جاتے ہم بے وجہ گالی گلوچ کو اپنی گفتگو کا حصہ بنائے پھر رہے ہوتے ہیں ، بنا یہ دیکھے کے آس پاس سے کوئی خاتون تو نہیں گزر رہی ، ہم دل کھول کر” آزادیِ رائے” کے حق کو کیش کروا رہے ہوتے ہیں ۔ ڈرتی ہوں کہ اگر یہی حال رہا تو گھر کی شریف عوتوں کی بھی ایک دن زبان ایسی ہی ہو جائے گی۔ یہ قوم اپنی تہذیب اپنا تمدن کھو دے گی پنجابی میں کہوں تو "ساریاں دے چاکے کھل جان گے”۔ شرم و حیا ناپید ہو جائے گی اور نبیؐ کی محبت کے دعوی ٰدار ذلیل و رسوا ہو کر رہ جائیں گے۔

    سوال میرا مختصر سا ہے، آخر اس کا حل کیا ہے؟ باحثیتِ قوم ہم کیا کر رہے ہیں؟ ہم جو اپنے آپ کو بہت بڑا عاشقِ رسول مانتے ہیں کیا یہ نہیں جانتے کہ ہمارے نبیؐ نے بےہودہ گفتاری کو کس قدر ناپسند فرمایا تھا؟ الفاظ کے چُناؤ میں ہم ہمیشہ ایسے الفاظ ہی کیوں چُنتے ہیں جن میں ہماری مائیں بہنیں بھی "چُنی”جاتی ہیں؟ کیا مہذب معاشروں کی یہ پہچان ہوتی ہے؟ اگر نہیں تو کس منہ سے ہم اپنے آپ کو مسلمان بلکہ عاشقِ رسول ﷺ کہتے ہیں؟قیامت کے روز کیا جواب دیں گے اپنے رب کو کہ آخر ” ہمارے نبیؐ کی زندگی سے ہم نے کیا سیکھا؟ زندگی اصلاح کے مواقعے بار بار نہیں دیتی، کب کہاں کیسے ” بُلاوا” آجائے،یہ نہ تو میں جانتی ہوں نہ ہی آپ، پھر کیوں نا آج سے ہی اپنے اصلاح کا آغاز کریں؟منہ سے عاشقِ رسولؐ ہونے کے دعوی چھوڑیں، عملاً ثابت کریں کہ "ہاں ہم عاشقِ رسولؐ ہیں دعا ہے کہ اللہ مجھے، آپ کو اور ہم سب کو سچ میں ایک ” سچا عاشقِ” رسولؐ بنائے۔
    آمین

  • کیوں؟

    یہ ان دنوں کی بات ہے جب "ریمنڈ ایلن ڈیوس” نامی شخص جو کے ایک سابق امریکی سپاہی بھی رہ چکاتھا اور سینٹرل انٹیلی جنٹ سروس (سی-آئی-اے)کے لیے بطورِ کنٹریکٹر اپنی خدمات سرانجام دے رہا تھا نے 27 جنوری 2011 میں دو پاکستانیوں کا دن دہاڑے گولیاں مار کے قتل کیا۔ ایک اور تیز رفتارگاڑی جو ڈیوس کو” بیک اپ” دے رہی تھی نے سڑک کی الٹی سمت میں جاتے ہوئے ایک تاجر کو بھی ٹھوک ڈالا جو غالباً موقعے پر ہی سر پر شدید چوٹ لگنے سے دم توڑ گیا تھا ۔ یہ تینوں افراد اس حادثے میں جاں بحق ہو گئے اور پورے ملک میں کہرام مچ گیا۔

    شروع شروع میں بہت شورشرابا برپا ہوا ، لواحقین کو کبھی دھمکیاں تو کبھی منہ بند کرنے کے لیے رشوتوں کی پیشکش کی جانے لگیں مگر وہ "خون کے بدلے خون” پر ڈتے رہے۔ پوری قوم شدید غم وغصے میں تھی۔ ہر کوئی لواحقین کے ساتھ کھڑا تھا۔ مگر اچانک گیم نے کلٹی بدلی،آنکھ جھپکتے ہی 16 مارچ 2011 کو ” دية”کے اسلامی قانون کے مطابق ورثا کو رقم کی ادائیگی کی جاتی ہے،ریمنڈ صاحب کو رہائی ملتی ہے اور دوسرے ہی لمحے حضرت مآب کو "بھاگم دوڑ” کر کے ائیر پورٹ لے جایا جاتا ہے جہاں ایک پرائیویٹ جہاز ان کا پہلے سےمنتظر تھا۔ محترم اس پرپوری شان و شوکت سے کسی ہالی وڈ کے فلمی ہیرو کی طرح سوار ہوتے ہیں، اور پوری پاکستانی قوم کو اّلو بلکہ ” الو کا پٹھا ” بنا کے نکل جاتے ہیں۔

    مجھے آج بھی یاد ہے کہ میں کیسے بے بسی اور لاچاری کے ساتھ وہ تمام رپورٹنگ ٹی-وی پر دیکھ اور سن رہی تھی۔ میرے غصے میں غم کی شدت کم اور بےبسی کی شدت کہیں زیادہ تھی۔مقتولین میں سے ایک کی بیوی جس کا نام شمائلہ کنول تھا اس نے 6 فروری کو خودکشی بھی کر لی تھی۔ وجہ؟ "اس کا ماننا تھا کہ اسے انصاف نہیں مل رہا اور نا ہی ملنے کی امید نظر آرہی ہے، شمائلہ کا کہنا تھا کہ وہ جانتی ہے کے ریمنڈ کو بنا کسی "ٹرئیل” ہی رہائی مل جائے گی” ، اور اُس کی یہ بات سچ بھی ثابت ہوئی۔ خیر ، کوئی لاکھ کہانیاں بنائے بلآخرہوا وہی جس کا شمائلہ کو ڈر تھا۔ کوئی کچھ بھی کہے، حقیقت یہی ہے ہے کہ لواحقین کا زبرداستی منہ بند کروادیا گیا تھا۔کیوں؟ یہ آپ جانتے ہی ہیں، کیسے؟ میں اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتی۔

    اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر” میں” چاہتی کیا ہوں؟ اتنے سالوں بعد یہ گڑھے مردے کیوں اُکھاڑ رہی ہوں؟ یقیناً اسکے پیچھے میرا کوئی مقصد ہو گا۔ بہت سے لوگ یہ بھی کہیں گے کہ یہ بی بی کسی "غیر ملکی ایجنڈے” پر کام کر رہی ہے، کچھ کہیں گے یہ اس عورت کے "سستی شہرت” کمانے کے گھٹیا ہتھکنڈے ہیں۔۔۔ پر ان سوالوں سے مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا، البتہ اس بات سے ضرور پڑتا ہے کہ آخر شمائلہ کی اس بہن کا کیا ہوا ، جو غالباً اس کی دیورانی بھی لگتی تھی۔
    مجھے یاد ہے اس کا وہ انٹرویو بھی، جو اس نے طلعت حسین کو دیا تھا۔ وہ بار بار یہی کہہ رہی تھی کہ اُس نے کسی کو معاف نہیں کیا۔ وہ اپنے سسرال سے بھی رابطے میں نہیں تھی۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ اس کے سسرالی اس سے رابطہ رکھنا ہی نہیں چاہ رہے تھے۔ وہ پریشان حال یہی سوچ رہی تھی کے آخر وہ اپنے بچے کو کیا بہانا بنا کے ٹالے گی کے اس کے باپ نے کیوں اس سے لاتعلقی اختیار کی ، آخر وہ اس سے رابطہ کرنے سے کیوں کترا رہا تھا؟ وہ کہاں گیا اور اب وہ لڑکی کہاں جائے گی؟ اور آج کا میرا سوال ، وہ لڑکی "اب”کہاں ہے؟ کیا وہ خیریت سے ہے؟ کسی نے دوبارہ اس کا حال دریافت کرنے کی کوشش کی؟
    یہ صرف ایک واقعہ ہے، ایسے کئی واقعات آئے دن اخباروں اور نیوز چینلز کی زینت بنتے ہیں ، پھر کوئی نئی نیوز اس کی جگہ لے لیتی ہے اور بس ایک کے بعد ایک معاملہ اللہ کے سپرد کر کے ہم چلتے چلے جاتے ہیں۔ آخر کیوں؟ ہماری حکومتیں، عدلیہ اور سول سوسائٹی نے اس سب کے لیے کیا کیا؟ کیا معاشرے میں ایسی عورتوں کے لیے کسی قسم کے تحفظ کی یقین دہانی کبھی کرائی گئی ؟ اگر نہیں تو کیوں؟