Author: عبدالقادر

  • مذاکرات ناکام ہوئے تو عدالت 14 مئی کا فیصلہ لے کر بیٹھی نہیں رہے گی، چیف جسٹس

    مذاکرات ناکام ہوئے تو عدالت 14 مئی کا فیصلہ لے کر بیٹھی نہیں رہے گی، چیف جسٹس

    چیف جسٹس نے کہا ہے کہ ملک میں ایک ساتھ انتخابات کے معاملے پر مذاکرات ناکام ہوئے تو عدالت 14 مئی کا فیصلہ لے کر بیٹھی نہیں رہے گی۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق سپریم کورٹ میں ملک بھر میں ایک ساتھ انتخابات کرانے کی درخواستوں پر سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل 3 رکنی خصوصی بینچ نے سماعت کی۔

    سماعت کے آغاز میں حکومتی اتحادی جماعتوں کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے عدالت عظمیٰ سے مذاکرات کے لیے مزید وقت دینے کی استدعا کی جب کہ پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے سپریم کورٹ سے 14 مئی کو پنجاب میں الیکشن کرانے کے اپنے حکم پر عملدرآمد کی استدعا کردی۔

    سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ن لیگی اور پی ٹی آئی کے رہنماؤں کا موقف بھی سنا اور فریقین کے وکلا نے دلائل بھی دیے۔ اس دوران کئی بار ان کے چیف جسٹس سے مکالمے ہوئے جب کہ چیف جسٹس نے سخت ریمارکس بھی دیے۔

    چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے حکومت کی استدعا پر ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ یہ قومی اور عوامی اہمیت کیساتھ آئین پر عملداری کا معاملہ ہے اور عدالت 90 روز میں انتخابات کرانے پر فیصلہ دے چکی ہے۔ کل رات ٹی وی پر دونوں فریقین کا مؤقف سنا، مذاکرات ناکام ہوئے تو عدالت 14 مئی کے فیصلے کو لے کر بیٹھی نہیں رہے گی۔

    چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ملک میں معاشی، سیاسی، معاشرتی اور سیکیورٹی بحرانوں کے ساتھ آئینی بحران بھی ہے، کل بھی 8لوگ شہید ہوئے، حکومت اور اپوزیشن کو سنجیدہ ہونا ہوگا،حکومت قانون کی بات نہیں سیاست کرنا چاہتی ہے، پہلے بھی کہا تھا سیاست عدالتی کارروائی میں گھس چکی ہے، ہم سیاست کا جواب نہیں دیں گے، ہم نے اللہ کے سامنے آئین کے دفاع کا حلف لیا ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ عدالت صرف اپنا فرض ادا کرنا چاہتی ہے اور اپنے فیصلے پر آئین کے مطابق عمل کرنا چاہتی ہے۔ آئین کے مطابق فیصلے پر عمل کرانے کے لیے آئین کا استعمال کرسکتے ہیں۔

    چیف جسٹس نے مزید کہا تھا کہ معاملہ سیاسی جماعتوں پر چھوڑ دیں تو کیا قانون پر عملدرآمد نہ کرائیں، کیا عدالت عوامی مفاد سے آنکھیں چرا لے؟ سپریم صرف اللہ کی ذات ہے اور حکومت عدالتی احکامات پرعملدرآمد کرنے کی پابند ہے۔ عدالت تحمل کا مظاہرہ کر رہی ہے لیکن اسے ہماری کمزوری نہ سمجھا جائے۔ قوم کے جوانوں نے قربانیاں دی ہیں تو ہم بھی قربانیاں دینے کیلیے تیار ہیں۔ اور قانون پر عملدرآمد کیلیے قربانیوں سے دریغ نہیں کریں گے

    چیف جسٹس نے یہ بھی ریمارکس دیے کہ یہ کہا گیا ماضی میں عدالت نے آئین کا احترام نہیں کیا اور راستہ نکالا، عدالت نے احترام میں کسی بات کا جواب نہیں دیا، غصے میں فیصلے درست نہیں ہوتے اس لئے ہم غصہ نہیں کرتے، ہماری اور اسمبلی میں ہونے والی گفتگو کا جائزہ لیں اور جو بات یہاں ہو رہی ہے اس کا لیول دیکھیں۔

    واضح رہے کہ سپریم کورٹ میں ملک بھر میں ایک ساتھ انتخابات کرانے سے متعلق کیس کی آج کی سماعت مکمل ہونے کے بعد عدالت نے سماعت ملتوی کر دی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا ہے کہ عدالت آج کی سماعت پر مناسب حکمنامہ جاری کرے گی۔

    آج کی سماعت میں حکومت کی جانب سے عدالت عظمیٰ سے مذاکرات کے لیے مزید وقت دینے جب کہ پی ٹی آئی کی جانب سے سپریم کورٹ کے 14 مئی کو پنجاب میں الیکشن کرانے کے حکم پر عملدرآمد کرانے کی استدعا کی گئی ہے۔

  • عام انتخابات کیس، حکومت کی مذاکرات کے لیے مزید وقت اور پی ٹی آئی کی 14 مئی کو الیکشن کے حکم پر عملدرآمد کی استدعا

    عام انتخابات کیس، حکومت کی مذاکرات کے لیے مزید وقت اور پی ٹی آئی کی 14 مئی کو الیکشن کے حکم پر عملدرآمد کی استدعا

    سپریم کورٹ میں ملک بھر میں ایک ساتھ انتخابات کرانے کی درخواستوں پر سماعت ہوئی وفاقی حکومت نے عدالت عظمیٰ سے مذاکرات کے لیے مزید وقت جب کہ پی ٹی آئی نے 14 مئی کو الیکشن کے حکم پر عملدرآمد کی استدعا کی ہے۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق سپریم کورٹ میں ملک بھر میں ایک ساتھ انتخابات کرانے کی درخواستوں پر سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل 3 رکنی خصوصی بینچ نے سماعت کی۔ سماعت کے آغاز میں حکومتی اتحادی جماعتوں کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے عدالت عظمیٰ سے مذاکرات کے لیے مزید وقت دینے کی استدعا کی جب کہ پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے عدالت عظمیٰ نے 14 مئی کو پنجاب میں الیکشن کرانے کے اپنے حکم پر عملدرآمد کی استدعا کردی۔

    سماعت کے دوران ن لیگ کے رہنما سعد رفیق اور پی ٹی آئی کے رہنما شاہ محمود قریشی نے بھی اپنے اپنے موقف عدالت کے سامنے رکھے جن کو سننے کے بعد عدالت نے سماعت کو ملتوی کر دیا اور چیف جسٹس نے کہا کہ آج کی سماعت کا مناسب حکم نامہ جاری کیا جائے گا۔

    آج سماعت شروع ہوئی تو وفاقی حکومت کے فاروق ایچ نائیک نے عدالت کو اتحادی حکومت کا جواب پڑھ کر سنایا جس میں کہا گیا کہ قرضوں میں 78 فیصد، سرکلر ڈیٹ میں 125 فیصد اضافہ ہوچکا ہے۔ سیلاب کے باعث 31 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ اسمبلی تحلیل سے پہلے بجٹ، آئی ایم ایف معاہدہ اور ٹریڈ پالیسی کی منظوری لازمی ہے۔ مذاکرات میں لیول پلیئنگ فیلڈ اور ایک دن انتخابات پر اتفاق ہوا ہے تاہم اسمبلی کی تحلیل کی تاریخ پر اتفاق نہیں ہوسکا۔ حکومت ملکی مفاد میں مذاکرات کا عمل بحال کرنے کو تیار ہے۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ الیکشن ہر حال میں اسی سال اور ایک ہی دن ہونے چاہئیں۔ سندھ اور بلوچستان اسمبلی قبل از وقت تحلیل پر آمادہ نہیں، مذاکرات میں کامیابی چند روز میں نہیں ہوسکتی اور ہر فریق کو مذاکرات میں لچک دکھانی پڑتی ہے۔ پیپلز پارٹی یقین رکھتی ہے کہ بغیر مداخلت معاملات حل کیے جا سکتے ہیں اس لیے مذاکرات کے لیے مزید وقت درکار ہے۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ رپورٹ فنانس منسٹر کے دستخط سے جمع ہوئی ہے۔ سیاسی ایشوز کو سیاسی قیادت حل کرے۔ موجودہ درخواست ایک حل پر پہنچنے کی ہے۔ آئی ایم ایف سے مذاکرات اور وفاقی بجٹ اس وقت بہت اہم ہیں۔

    فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ بجٹ صرف قومی اسمبلی پاس ہی کرسکتی ہے۔ آج پنجاب یا کے پی حکومت ختم نہ ہوتی تو یہ مسئلہ کھڑا نہ ہوتا اور آپ کو پھر تکلیف نہ دی جاتی، اس وجہ سے عدالت کا دوسرا کام ڈسٹرب ہوتا ہے۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ حکومتی جواب میں آئی ایم ایف معاہدے پر زور دیا گیا ہے۔ عدالت میں ایشو آئینی ہے سیاسی نہیں، سیاسی معاملہ عدالت سیاسی جماعتوں پر چھوڑتی ہے۔ آئی ایم ایف معاہدہ، ٹریڈ پالیسی کی منظوری کیوں ضروری ہے؟

    حکومتی وکیل نے عدالت کو بتایا کہ بجٹ کیلئے آئی ایم ایف کا قرض ملنا ضروری ہے۔ اسمبلیاں نہ ہوں تو بجٹ منظور نہیں ہوسکے گا، افہام وتفہیم سے معاملہ طے ہو تو بحرانوں سے نجات مل جائیگی۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ اسمبلی تحلیل پر بھی بجٹ کیلئے آئین 4 ماہ کا وقت دیتا ہے۔ انہوں نے استفسار کیا کہ آئی ایم ایف قرضہ ذخائر میں استعمال ہوگا یا قرضوں کی ادائیگی میں؟ جس پر فاروق نائیک نے کہا کہ اس کا جواب وزیر خزانہ دے سکتے ہیں۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ اخبارات کے مطابق دوست ممالک بھی قرضہ آئی ایم ایف پیکیج کے بعد دینگے، انہوں نے یہ بھی استفسار کیا کہ کیا بجٹ آئی ایم ایف کے پیکج کے تحت بنتا ہے؟ کیا پی ٹی آئی نے بجٹ کی اہمیت کو قبول کیا یا رد کیا؟

    چیف جسٹس نے کہا کہ آئین میں انتخابات کیلئے 90 دن کی حد سے کوئی انکار تو نہیں کرسکتا جس پر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ 90 روز میں انتخابات کرانے میں کوئی دو رائے نہیں ہے لیکن عدالت کو 90 روز میں انتخابات والے معاملے کا جائزہ لینا ہوگا، انتخابات کے لئے نگراں حکومتوں کا ہونا ضروری ہے، منتخب حکومتوں کے ہوتے الیکشن کوئی قبول نہیں کرے گا، یہ نظریہ ضرورت نہیں ہے۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ جب 23 فروری کا معاملہ شروع ہوا تو آپ نے انگلیاں اٹھائیں یہ سارے نکات اس وقت نہیں اٹھائے گئے اور آئینی کارروائی کو حکومت نے سنجیدہ نہیں لیا۔

    فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ ہمیں تو عدالت نے سنا ہی نہیں تھا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ دوسرے راؤنڈ میں آپ نے بائیکاٹ کیا تھا، کبھی فیصلہ حاصل کرنےکی کوشش ہی نہیں کی، آپ صرف چار تین کی بحث میں لگے رہے، جسٹس اطہر من اللہ نے اسمبلیاں بحال کا نقطہ اٹھایا تھا، حکومتی دلچسپی ہی نہیں تھی، آج کی گفتگو ہی دیکھ لیں، کوئی فیصلے یا قانون کی بات ہی نہیں کر رہا۔

    چیف جسٹس نے پھر کہا کہ یہ قومی اور عوامی اہمیت کیساتھ آئین پر عملداری کا معاملہ ہے اور عدالت 90 روز میں انتخابات کرانے پر فیصلہ دے چکی ہے۔ کل رات ٹی وی پر دونوں فریقین کا مؤقف سنا، مذاکرات ناکام ہوئے تو عدالت 14 مئی کے فیصلے کو لے کر بیٹھی نہیں رہے گی۔

    ان کا کہنا تھا کہ عدالت صرف اپنا فرض ادا کرنا چاہتی ہے اور اپنے فیصلے پر آئین کے مطابق عمل کرنا چاہتی ہے۔ آئین کے مطابق فیصلے پر عمل کرانے کے لیے آئین کا استعمال کرسکتے ہیں۔

    سماعت میں حکومتی وکیل کے دلائل مکمل ہونے کے بعد پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے روسٹروم پر آئے اور دلائل دیتے ہوئے عدالت عظمیٰ سے پنجاب میں 14 مئی کو الیکشن کرانے کے اپنے حکم پر عملدرآمد کی استدعا کردی۔

    پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے عدالت کو آگاہ کیا کہ تحریک انصاف نے ایک دن الیکشن کرانے پر اتفاق کیا ہے، تاہم حکومت سے مذاکرات میں تین شرط رکھی تھی کہ اسمبلیاں 14 مئی تک تحلیل کی جائیں دوسری شرط یہ تھی کہ جولائی کے دوسرے ہفتے میں الیکشن کرائے جائیں اور تیسری شرط یہ تھی کہ تیسری شرط تھی انتخابات میں تاخیرکو آئینی ترمیم کے ذریعے قانونی شکل دی جائے۔

    بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ حکومت نے 14 مئی کو انتخابات کے فیصلے پر نظر ثانی کی درخواست نہیں کی، 14 مئی چند دن بعد ہے لیکن فنڈز جاری نہیں ہوئے۔ فاروق ایچ نائیک نے جو نکات اٹھائے ہیں وہ غیر متعلقہ ہے، آئین سے باہر نہیں جایا جا سکتا، نظریہ ضرورت کی وجہ سے الیکشن مزید تاخیر کا شکار نہیں کرسکتے۔ انہوں نے استدعا کی کہ عدالت اپنے حکم پر عملدرآمد کراتے ہوئے فیصلہ نمٹا دے۔

    حکومتی وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ اس پر فیصلہ نمٹا دیں کہ فریقین ایک تاریخ پر الیکشن کرانے پر متفق ہیں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ معاملہ سیاسی عمل پرچھوڑا جائے۔ فاروق نائیک نے کہا کہ یہ مسئلہ حل ہو جائے گا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ صرف وعدے کرتے ہیں۔

    عدالت میں ن لیگی رہنما سعد رفیق اور پی ٹی آئی رہنما شاہ محمود قریشی نے بھی اپنا اپنا موقف پیش کیا جس کے بعد عدالت نے سماعت ملتوی کردی اور چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت آج کی سماعت پر مناسب حکمنامہ جاری کرے گی۔

  • سپریم کورٹ میں حکومت نے مذاکرات کے لیے مزید وقت کی استدعا کر دی

    سپریم کورٹ میں حکومت نے مذاکرات کے لیے مزید وقت کی استدعا کر دی

    سپریم کورٹ میں ملک بھر میں ایک ساتھ انتخابات کرانے کی درخواستوں پر سماعت شروع ہوگئی وفاقی حکومت نے حکومت نے مذاکرات کے لیے مزید وقت کی استدعا کر دی۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق سپریم کورٹ میں ملک بھر میں ایک ساتھ انتخابات کرانے کی درخواستوں پر سماعت شروع ہوگئی۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل 3 رکنی خصوصی بینچ سماعت کر رہا ہے۔ سماعت کے آغاز میں حکومتی اتحادی جماعتوں کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے عدالت عظمیٰ سے مذاکرات کے لیے مزید وقت دینے کی استدعا کردی ہے۔

    سماعت شروع ہوئی تو حکومتی وکیل فاروق ایچ نائیک نے عدالت کو اتحادی حکومت کا جواب پڑھ کر سنایا۔

    فاروق ایچ نائیک کہا کہ قرضوں میں 78 فیصد، سرکلر ڈیٹ میں 125 فیصد اضافہ ہوچکا ہے۔ سیلاب کے باعث 31 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ اسمبلی تحلیل سے پہلے بجٹ، آئی ایم ایف معاہدہ اور ٹریڈ پالیسی کی منظوری لازمی ہے۔ مذاکرات میں لیول پلیئنگ فیلڈ اور ایک دن انتخابات پر اتفاق ہوا ہے تاہم اسمبلی کی تحلیل کی تاریخ پر اتفاق نہیں ہوسکا۔ حکومت ملکی مفاد میں مذاکرات کا عمل بحال کرنے کو تیار ہے۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ الیکشن ہر حال میں اسی سال اور ایک ہی دن ہونے چاہئیں۔ سندھ اور بلوچستان اسمبلی قبل از وقت تحلیل پر آمادہ نہیں، مذاکرات میں کامیابی چند روز میں نہیں ہوسکتی اور ہر فریق کو مذاکرات میں لچک دکھانی پڑتی ہے۔ پیپلز پارٹی یقین رکھتی ہے کہ بغیر مداخلت معاملات حل کیے جا سکتے ہیں اس لیے مذاکرات کے لیے مزید وقت درکار ہے۔

    خبر اپ ڈیٹ کی جا رہی ہے

  • حکومت سے مذاکرات، تحریک انصاف بجٹ سے پہلے اسمبلی تحلیل کی تاریخ کی خواہاں

    حکومت سے مذاکرات، تحریک انصاف بجٹ سے پہلے اسمبلی تحلیل کی تاریخ کی خواہاں

    اسلام آباد: چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے وفد کو حکومت سے جلد مذاکرات مکمل کرنے کی ہدایت کردی ہے۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق تحریک انصاف کا وفد بجٹ سے پہلے اسمبلی تحلیل کی تاریخ کا خواہاں ہے، عمران کی جانب سے مذاکرات زیادہ سے زیادہ ایک ہفتے میں مکمل کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔

    تحریک انصاف ذرائع کا بتانا ہے کہ حکومت بجٹ سے پہلے اسمبلی تحلیل کی تاریخ دے، اکتوبر میں الیکشن کی حکومتی ضد قابل قبول نہیں ہے۔

    پی ٹی آئی ذرائع کا کہنا ہے کہ اسمبلی تحلیل کی تاریخ ہی سیاسی تناؤ میں فوری کمی لاسکتی ہے، سپریم کورٹ میں اگلی سماعت سے قبل ٹھوس پیشرفت چاہتے ہیں۔

    تحریک انصاف کا کہنا ہے کہ حکومتی تاخیری حربوں میں کسی صورت نہیں آئیں گے۔

    اس سے قبل فواد چوہدری نے جاری کردہ ٹوئٹ میں کہا تھا کہ حکمرانوں اور عوام کے درمیان مذاکرات کا دوسرا دور آج ہوگا، عوام کو طاقت کا مرکز تسلیم کر کے انتخابات میں جانا مذاکرات کا بنیادی نقطہ ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ کل اچھے ماحول میں بات چیت ہوئی امید ہے آج معاملات آگے بڑھیں گے، ہم سب کو ایک دوسرے کا نقطہ نظر سمجھ کر ملک کیلئے آگے بڑھنا چاہیے۔

    فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ ہمارا مؤقف سادہ ہے پی ٹی آئی نے اجتماعی استعفے دئے تاکہ عام انتخابات ہوں، جسٹس اطہر من اللہ نے اجتماعی استعفے کی تعریف ہی مسترد کردی۔

  • اداروں کو بغاوت پر اکسانے کا کیس: عمران خان کی حفاظتی ضمانت منظور

    اداروں کو بغاوت پر اکسانے کا کیس: عمران خان کی حفاظتی ضمانت منظور

    اسلام آباد: چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کو اداروں کو بغاوت پر اکسانے کے کیس میں حفاظتی ضمانت مل گئی ہے۔

    سابق وزیراعظم عمران خان نے اداروں کو بغاوت پر اکسانے کے کیس میں ضمانت کے لیے اسلام آباد ہا ئیکورٹ سے رجوع کیا۔

    عمران خان کی جانب سے دائر درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ شدید سکیورٹی تھریٹس ہیں جس وجہ سے دوبارہ قاتلانہ حملہ ہو سکتا ہے۔

    درخواست میں عمران خان کے وکیل نے استدعا کی کہ عدالت ٹرائل کورٹ کی بجائے خود عبوری ضمانت منظور کرے  اور ہائیکورٹ آج ہی ضمانت کی درخواست پر سماعت کرے۔

     اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے درخواست پر سماعت کی، جس میں عمران خان کی جانب سے وکیل سلمان صفدر، فیصل چوہدری، علی بخاری و دیگر پیش ہوئے۔

    سابق وزیر اعظم عمران خان بھی ضمانت کے لئے اسلام آباد ہائی کورٹ پیش ہوئے تاہم اسلام آباد ہائیکورٹ نے ایک لاکھ روپے کے مچلکوں کے عوض عمران خان کی ضمانت 3 مئی تک منظور کرلی ہے۔

    عمران خان ہائیکورٹ سے  روانہ

    چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان ہائیکورٹ میں پیشی کے بعد روانہ ہو گئے ہیں، عمران خان کی پیشی کے موقع پر  اسلام آباد ہائیکورٹ میں سکیورٹی کے سخت انتظامات کیےگئے تھے۔

    عمران خان کی آمد سے قبل کمرہ عدالت خالی کرا یا گیا اور کمرہ عدالت کو بم ڈسپوزل اسکواڈ نےکلیئر کیا جب کہ  ڈرون کیمروں کے ذریعے بھی ہائیکورٹ کی سکیورٹی مانیٹرنگ کی گئی۔

     اس سے قبل جب عمران خان اسلام آباد ہائیکورٹ پہنچے تو ان کی گاڑی کو گیٹ پر روک لیا گیا تھا، پولیس نے مؤقف اختیار کیا کہ عدالت نے گاڑی کے داخلے سے متعلق آگاہ نہیں کیا، ہائیکورٹ سےگاڑی کو داخلےکی اجازت ملی تو اندر جانے دینگے، عمران خان نےگاڑی ہائیکورٹ کے احاطے میں داخلے کیلئے درخواست دائر کردی۔

    تاہم پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیر اعظم عمران خان پیدل اسلام آباد ہائیکورٹ کے احاطے میں داخل ہوئے۔

  • عمران خان کی 7 مقدمات میں حفاظتی ضمانت منظور

    عمران خان کی 7 مقدمات میں حفاظتی ضمانت منظور

    پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان کی 7 مختلف مقدمات میں حفاظتی ضمانتیں منظور کر لی گئی ہیں۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ میں پی ٹی آئی چیئرمین کی مختلف مقدمات میں ضمانتوں کی درخواستوں کی سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے سماعت کی۔ اس موقع پر عمران خان خود ذاتی حیثیت میں پیش ہوئے۔ عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد اور عمران خان کے وکیل کے دلائل سننے کے بعد عمران خان کی 7 مختلف مقدمات میں حفاظتی ضمانتیں منظور کر لی ہیں۔

    سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کی درخواست پر اعتراض دور ہو گئے ہیں۔ پہلے بھی بتایا تھا کہ بائیو میٹرک تو کہیں سے بھی ہو سکتی ہے۔

    عمران خان کے وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ میں معذرت خواہ ہوں اگلی بار دیکھ لیں گے۔ 60 سال سے زائد عمر بائیو میٹرک کا ایشو ہوتا ہے۔

    اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کیا 60 سال والوں کے انگھوٹے کا نشان نہیں ہوتا۔ اب تو ہم نے بائیو میٹرک کا بہت آسان کر دیا ہے، آپ جہاں بھی ہوں وہیں قریب سے بائیو میٹرک کررا سکتے ہیں۔

    سلمان صفدر ایڈووکیٹ نے عدالت کو آگاہ کیا کہ عمران خان نے 17 مارچ حفاظتی ضمانت ہائیکورٹ سے کرائی تھی، پھر 18 مارچ کو یہاں آئے لیکن انسداد دہشت گردی عدالت سے ضمانت نہیں لے سکے۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیوں ٹرائل کورٹ نہیں گئے؟ پہلے اس پر عدالت کی معاونت کریں۔ اس موقع پر پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان روسٹرم پر آگئے۔ چیف جسٹس نے انہیں بیٹھنے کا حکم دیا جس پر عمران خان نے کہا کہ وہ عدالت کو کچھ بتانا چاہتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کرسی پر تشریف رکھیں۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ عمران خان کو سیکیورٹی خدشات ہیں جو جینوئن ہوں گے۔ ان پر ایک مرتبہ حملہ بھی ہوچکا ہے۔ عمران خان بطور سابق وزیراعظم کس سیکیورٹی کے حقدار ہیں؟ وہ سیکیورٹی تو ساتھ ہی ہوتی ہو گی۔ جس پر فواد چوہدری نے عدالت کو آگاہ کیا کہ عمران خان سے سیکیورٹی واپس لے لی گئی ہے۔

    عدالت نے کہا کہ حکومت نے سابق وزیراعظم کی سیکیورٹی واپس لے کرغلط کام کیا اور اس حوالے سے وفاقی حکومت کو نوٹس بھی جاری کیا۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پٹیشنر اب اسلام آباد میں ہیں تو یہاں سیکیورٹی کس نے دینی ہے؟ فواد چوہدری نے بتایا کہ سیکیورٹی وزارت داخلہ نے دینی ہے اور وفاقی وزیر داخلہ کا بیان تو آپ نے دیکھ ہی لیا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ بدقسمتی سے سلمان تاثیر کا واقعہ بھی ادھر ہی ہوا ہے۔

    دوران سماعت ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد جہانگیر جدون اور فواد چوہدری کے درمیان تلخ کلامی بھی ہوئی۔

    ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ میں نے بھی سیکیورٹی کے حوالے سے بات کی ہے، جس پر فواد چوہدری نے کہا کہ نہیں، آپ نےیہ بات نہیں کی، آپ جھوٹ بول رہے ہیں۔ ایڈووکیٹ جنرل نے فوری ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ آپ سے زیادہ جھوٹ کوئی نہیں بولتا۔ اس موقع پر عدالت نے فواد چوہدری اور ایڈووکیٹ جنرل کو کراس ٹاک سے منع کر دیا اور

    عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد جہانگیر جدون کو روسٹرم پر بلا لیا اور جسٹس میاں گل حسن نے ان سے کہا کہ عدالت نے متعدد بار چیف کمشنر کو سیکیورٹی فراہم کرنے کا کہا تھا۔

    ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ ٹرائل کورٹ کو ایف 8 کچہری سے جوڈیشل کمپلیکس شفٹ کیا گیا۔ یہ عمران خان کی ذمے داری ہے کہ وہ پُر امن ماحول یقینی بنائیں۔ یہ وہاں گاڑی سے نہیں اترے اور لوگوں نے وہاں گاڑیاں جلا دیں۔

    ایڈووکیٹ جنرل کی اس دلیل پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کہ آپ سیکورٹی فراہم نہیں کرتےتو پھر وہ کیا کریں۔ جب انتظامیہ غیر ذمے دارانہ رویہ دے گی تو پھر کیا ہوگا؟ کسی شہری سے متعلق کیا انتظامیہ ایسا کوئی بیان دے سکتی ہے۔

    اس موقع پر عمران خان کے وکیل نے کہا کہ پاکستان کی تاریخ میں دو سابق وزرائے اعظم قتل ہوچکے۔ ایک وزیراعظم پر قاتلانہ حملہ ہو چکا ہے۔ آج میں نے ضمانت کی 7 درخواستیں دائر کی ہیں۔ ضمانت کی درخواستیں 18 مارچ کو انسداد دہشت گردی عدالت چلی گئی تھیں۔ ہمیں جوڈیشل کمپلیکس داخلے کی اجازت نہیں ملی۔

    اسلام آباد ہائیکورٹ نے دلائل سننے کے بعد 7 مقدمات میں عمران خان کی حفاظتی ضمانت منظور کرلیں۔

  • پی ٹی آئی رہنماؤں کی یورپین و مسلم ممالک کے سفیروں کے ساتھ بریک فاسٹ میٹنگ

    پی ٹی آئی رہنماؤں کی یورپین و مسلم ممالک کے سفیروں کے ساتھ بریک فاسٹ میٹنگ

    اسلام آباد: پی ٹی آئی رہنماؤں نے ملک میں سیاسی صورت حال کے تناظر میں پارٹی مؤقف سے آگاہی دینے کے لیے یورپین و مسلم ممالک کے سفیروں کے ساتھ بریک فاسٹ میٹنگ کی۔

    تفصیلات کے مطابق سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور سینیئر پی ٹی آئی رہنما اسد عمر نے اسلام آباد میں ڈپلومیٹک کور کے ساتھ بریک فاسٹ میٹنگ کی، اس میٹنگ کا اہتمام پاکستان میں آسٹریلیا کے ہائی کمشنر نیل ہاکنز کی جانب سے کیا گیا تھا۔

    بریک فاسٹ میٹنگ میں پی ٹی آئی کے سینئر قائدین اور پاکستان میں تعینات یورپین و مسلم ممالک کے سفرا کی کثیر تعداد نے شرکت کی، ملاقات میں علاقائی اور ملک کی مجموعی سیاسی صورت حال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

    شاہ محمود قریشی نے بتایا کہ انھوں نے تحریک انصاف کے نقطہ نظر سے شرکا کو آگاہ کیا، سفرا کو شفاف الیکشن اور سیاسی عدم استحکام کی فضا کے خاتمے کے حوالے سے بھی آگاہی دی گئی۔

    شاہ محمود نے بریک فاسٹ میٹنگ کے انعقاد پر شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا ’’ملاقات کے اہتمام پر آسٹریلین ہائی کمشنر نیل ہاکنز کے تہہ دل سے ممنون ہیں۔‘‘

  • چیف جسٹس سے عمران خان کو جوڈیشل کمپلیکس پہنچنے سے روکنے کی کوششوں کا نوٹس لینے کا مطالبہ

    چیف جسٹس سے عمران خان کو جوڈیشل کمپلیکس پہنچنے سے روکنے کی کوششوں کا نوٹس لینے کا مطالبہ

    اسلام آباد: اسد عمر نے چیف جسٹس سے عمران خان کو جوڈیشل کمپلیکس پہنچنے سے روکنے کی کوششوں کا نوٹس لینے کا مطالبہ کر دیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق رہنما پی ٹی آئی اسد عمر نے چیف جسٹس سپریم کورٹ کو خط لکھ دیا، جس میں انھوں نے کہا کہ عدالت نے عمران خان کو پیش کرنے کا حکم دیا ہے، چیف جسٹس انھیں جوڈیشل کمپلیکس پہنچنے سے روکنے کی غیر قانونی کوششوں کا نوٹس لیں۔

    اسد عمر نے لکھا کہ پی ڈی ایم حکومت عمران خان کو انتقام کا نشانہ بنانا چاہتی ہے، عدالت نے حکام کو عمران خان کے خلاف ظالمانہ انتقامی کارروائیوں سے منع کیا لیکن پولیس نے عدالتی احکامات کو پیروں تلے روندتے ہوئے ان کی رہائش گاہ پر دھاوا بولا، حملے کے دوران گھر کے دروازے توڑے گئے اور دیواریں منہدم کر دی گئیں۔

    انھوں نے مزید لکاھ کہ اسلام آباد میں پولیس نے بدترین خوف و ہراس کا ماحول قائم کر رکھا ہے، میڈیا اور وکلا سمیت اہم لوگوں کو عدالت میں داخلے سے روک دیا گیا، عمران خان کو نامعلوم مقدمے میں گرفتار کرنے کے عزائم واضح طور پر دکھائی دے رہے ہیں۔

    اسد عمر کا کہنا تھا کہ عمران خان کی زندگی اور بنیادی حقوق کے تحفظ کے لیے معزز عدالت فوری از خود نوٹس لے، عمران خان عدالت میں پیشی کے لیے اسلام آباد آ رہے ہیں، انھوں نے کل لاہور ہائیکورٹ سے 9 مقدمات میں ضمانت بھی حاصل کی۔

  • عمران خان نے ایمرجنسی کمیٹی قائم کر دی

    عمران خان نے ایمرجنسی کمیٹی قائم کر دی

    چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان نے اپنی گرفتاری کی صورت میں پارٹی معاملات چلانے کے لیے 6 رکنی کمیٹی قائم کردی۔

    نمائندہ اے آر وائی نیوز کے مطابق عمران خان گرفتار ہوئے تو 6 رکنی ایمرجنسی کمیٹی پارٹی معاملات دیکھےگی ۔ چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے6رکنی کمیٹی قائم کر دی ہے۔

    کمیٹی میں شاہ محمودقریشی، سینیٹرسیف اللہ نیازی، اعظم سواتی، اعجازچوہدری، مرادسعیداور علی امین گنڈاپور شامل ہیں۔

    https://urdu.arynews.tv/threat-of-arrest-imran-khan-issued-an-important-message/

    ایمرجنسی کمیٹی عمران خان کی گرفتاری کی صورت میں آئندہ کا لائحہ عمل کے حوالے سے گائیڈ لائنز تیار کرے گی اور پارٹی کے معاملات چلائے گی۔

    اس اہم فیصلے کے حوالے سے باقاعدہ نوٹیفکیشن جاری کر کے پارٹی عہدیداروں کو آگاہ کر دیا جائے گا اور انہیں کمیٹی کے فیصلوں پر عمل درآمد کی پابندی کی ہدایت کی جائے گی۔

  • لاہور میں دفعہ 144 کیخلاف عمران خان کی ہدایت پر پٹیشن تیار

    لاہور میں دفعہ 144 کیخلاف عمران خان کی ہدایت پر پٹیشن تیار

    لاہور میں دفعہ 144 کے نفاذ کے خلاف پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی ہدایت پر بابر اعوان ایڈووکیٹ نے پٹیشن تیار کرلی۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق پنجاب کی نگراں حکومت کی جانب سے لاہور میں دفعہ 144 کے نفاذ کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے پارٹی رہنما ڈاکٹر بابر اعوان ایڈووکیٹ سے رابطہ کیا اور انہیں دفعہ ایک سو چوالیس کو الیکشن کمیشن میں چیلنج کرنے کی ہدایت کی جس کے بعد بابر اعوان نے پٹیشن تیار کرلی ہے۔

    ڈاکٹر بابر اعوان آج الیکشن کمیشن میں یہ پٹیشن دائر کریں گے۔ پی ٹی آئی کی جانب سے تیار کردہ درخواست میں الیکشن کمیشن سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ لاہور میں دفعہ 144 کے نفاذ کو ختم کیا جائے۔

    درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ لاہور میں تحریک انصاف کی ریلی پر دفعہ 144 کا نفاذ غیر قانونی ہے۔ پنجاب حکومت پی ایس ایل میچ کو جواز بنا کر ریلی روکنے کی کوشش کر رہی ہے۔

    درخواست میں کہا گیا ہے کہ تحریک انصاف کی ریلی اور پی ایس ایل کے میچ کا روٹ مختلف ہے۔ ریلی ساڑھے 5 بجے ختم ہوگی جب کہ پی ایس ایل کا میچ شام 7 بجے شروع ہوگا جب کہ اس سے قبل کسی شہر میں پی ایس ایل کے دوران دفعہ 144 کا نفاذ نہیں کیا گیا۔

    درخواست میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ الیکشن مہم تحریک انصاف کا آئینی حق ہے جب کہ پنجاب حکومت غیر قانونی طور پر پی ٹی آئی کی الیکشن مہم کو روک رہی ہے۔