Author: عابد خان

  • ن لیگ حکومت کے لاڈلے افسران جن کی تنخواہ 3 لاکھ روپے سے کم نہیں

    ن لیگ حکومت کے لاڈلے افسران جن کی تنخواہ 3 لاکھ روپے سے کم نہیں

    لاہور : سابق حکومت میں پبلک سیکٹر کمپنیوں میں تعینات گریڈ 17 سے 21 کے کسی بھی افسر کی تنخواہ 3 لاکھ روپے سے کم نہیں۔

    تفصیلات کے مطابق سابق پنجاب حکومت گریڈ سترہ سے اکیس تک کے لاڈلے افسران کو پبلک سیکٹر کمپنیوں میں تعینات کر کے لاکھوں روپے کی تنخواہوں اور مراعات سے نوازتی رہی، کمپنیوں میں تعینات افسران میں سے کسی کی تنخواہ تین لاکھ روپے سے کم نہیں۔

    سب سے زیادہ لاڈلے افسر احد خان چیمہ بطور سی ای او قائد اعظم تھرمل پاور انیس لاکھ چھہتر ہزار پانچ سو وصول کرتے رہے۔

    بیسویں گریڈ کے مجاہد شیر دل سی ای او آئی ڈیپ کے طور پر گیارہ لاکھ وصول کرتے رہے جبکہ صاف پانی کمپنی میں نبیل جاوید کی تنخواہ چودہ لاکھ روپے مقرر کی گئی۔

    صاف پانی کمپنی میں وسیم اجمل چوہدری دس لاکھ انتالیس ہزار پانچ سو روپے وصول کر رہے ہیں، اسی طرح صاف پانی کمپنی کے سابق سی ای او بیسویں گریڈ کے خالد شیردل پندرہ لاکھ باون ہزار روپے وصول کرتے رہے۔

    بیسویں گریڈ کے کیپٹن عثمان صاف پانی کمپنی کے سابق سی ای او کی حیثیت سے چودہ لاکھ پچاس ہزار تنخواہ وصول کرتے رہے۔

    لاہور نالج پارک کے سی ای او شاہد زمان کی تنخواہ آٹھ لاکھ روپے ہے جبکہ اربن سیکٹر پلاننگ میں بیسویں گریڈ کے ڈاکٹر ناصر جاوید آٹھ لاکھ اسی ہزار روپے وصول کر رہے ہیں۔

    انیسویں گریڈ کے جاوید قریشی پنجاب پاپولیشن ڈیویلپمنٹ فنڈ میں سات لاکھ تنخواہ ہے اور اکیسویں گریڈ کے ملک علی عامر سیف سٹی اتھارٹی میں سات لاکھ نوے ہزار تنخواہ وصول کر رہے ہیں۔

    گریڈ سترہ کے عبدالرزاق لاہور نالج پارک میں آٹھ لاکھ پچاس ہزار تنخواہ وصول کرتے رہے۔

    چیف جسٹس آف پاکستان نے کمپنیوں میں بھاری تنخواہوں کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے اضافی رقوم واپس کرنے کے احکامات جاری کر رکھے ہیں، چیف جسٹس نے بھاری تنخواہوں کا معاملہ نیب کو بھی بھجوایا تھا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں

  • سپریم کورٹ نےپنجاب کمپنیزاسکینڈل کا معاملہ نیب کو بھجوا دیا

    سپریم کورٹ نےپنجاب کمپنیزاسکینڈل کا معاملہ نیب کو بھجوا دیا

    لاہور: سپریم کورٹ نے پنجاب کمپنیز اسکینڈل کا معاملہ نیب کو بھجوا دیا اور 10 دن میں رپورٹ طلب کرلی۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ رجسٹری میں پنجاب کمپنیزاسکینڈل کی سماعت کے دوران کمپنیوں کے سی ای اوز، ڈی جی نیب لاہوراور چیف سیکرٹری پیش ہوئے۔

    چیف جسٹس نے سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ اگرریفرنس بنتا ہے تو فائل کریں، 3 لاکھ سے زائد تنخواہ لینے والے افسران نیب کے روبرو پیش ہوں گے۔

    انہوں نے کہا کہ اگر کوئی پیسے واپس نہیں کرے گا تو ہم نکوالیں گے، کسی کو خیال ہی نہیں کہ یہ عوام کے ٹیکس کا پیسہ ہے، اورنج لائن ٹرین ودیگرمنصوبے ایک ہی ٹھیکیدار کو دیے گئے۔

    پنجاب کمپنیز اسکینڈل: نیب نے شہباز شریف کو پھر طلب کرلیا

    دوسری جانب پنجاب کمپنیز اسکینڈل سے متعلق سابق وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کو قومی احتساب بیورو نے 20 اگست کوطلب کررکھا ہے۔

    یاد رہے کہ شہباز شریف کو گزشتہ ماہ 17 جولائی کو نیب لاہور میں پیش ہونا تھا جہاں ان سے پنجاب پاور کمپنی اسکینڈل سے متعلق سوالات ہونے تھے تاہم وہ پیش نہیں ہوئے تھے، سابق وزیراعلیٰ پر بے ضابطگیوں اور میرٹ کے بغیر بھرتیوں کا الزام ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں۔

  • سپریم کورٹ نےلاہورکالج فارویمن یونیورسٹی کی وی سی کوعہدے سےفارغ کردیا

    سپریم کورٹ نےلاہورکالج فارویمن یونیورسٹی کی وی سی کوعہدے سےفارغ کردیا

    لاہور: سپریم کورٹ لاہور رجسٹری نے لاہورکالج فارویمن یونیورسٹی کی وائس چانسلر کو عہدے سے فارغ کرکے 30 روز کے اندر نیا وائس چانسلرتعینات کرنے کا حکم دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں چیف جسٹس کی سربراہی میں لاہورکالج فارویمن یونیورسٹی میں وی سی کی میرٹ کے خلاف تقرری کے کیس کی سماعت ہوئی۔

    عدالت نے وائس چانسلر ڈاکٹرعظمیٰ کوعہدے سے فارغ کرکے 30 روز کے اندر نیا وائس چانسلر تعینات کرنے کا حکم دے دیا۔

    چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ڈاکٹرعظمیٰ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ رپورٹ آپ کےخلاف آئی ہے، کسی کے ساتھ ناانصافی نہیں ہونے دیں گے۔

    چیف جسٹس آف پاکستان نے ریمارکس دیے کہ یونیورسٹی میں سینئرپروفیسرکوایکٹنگ وائس چانسلر تعینات کیا جائے۔

    نظام تعلیم کا بیڑاغرق کردیا، یہ ہے پنجاب حکومت کی کارکردگی‘ چیف جسٹس

    خیال رہے کہ رواں سال 22 اپریل کو سپریم کورٹ نے سرکاری جامعات کے متعدد وائس چانسلرز کواستعفے دینے کی ہدایت کرتے ہوئے نئی سرچ کمیٹیاں قائم کرکے وائس چانسلرز کی جلد تعیناتیاں کرنے کے احکامات جاری کیے تھے۔

    چیف جسٹس نے سیکرٹری ہائر ایجوکیشن کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر6 ہفتوں میں مستقل وائس چانسلر کی تعیناتی نہ ہوئی تو آپ ذمہ دار ہوں گے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • چیف جسٹس نے 3لاکھ روپے سے زائد تنخواہ لینے والے تمام افسران کو کل طلب کرلیا

    چیف جسٹس نے 3لاکھ روپے سے زائد تنخواہ لینے والے تمام افسران کو کل طلب کرلیا

    لاہور: پنجاب کی کمپنیز پر لیے گئے از خود نوٹس کیس میں سپریم کورٹ نے تین لاکھ روپے سے زائد تنخواہ لینے والے تمام افسران کو کل طلب کر لیا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے پنجاب کی کمپنیز پر لیے گئے از خود نوٹس کیس کی سماعت کی، ڈی جی نیب لاہور اور چیف سیکرٹری عدالت میں پیش ہوئے۔

    چیف سیکرٹری نے عدالت کو بتایا کہ 346 سول سرونٹ افسران جو کمپنیز میں گئے، انکی فہرست نیب کو دے دی ہے۔

    عدالت نے پبلک سیکٹر سے کمپنیز میں جانے والے تمام افسران کو بھی نوٹس جاری کر دیئے اور حکم دیا کہ کل تمام افسران سپریم کورٹ پیش ہوں، اگر کوئی اپنا موقف دینا چاہتا ہے تو کل تک دے دے۔

    چیف جسٹس نے پبلک سیکٹر سے کمپنیز میں جانے والے تمام سی ای اوز کی لسٹ آج ہی سپریم کورٹ میں پیش کرنے کا حکم دیا۔

    دوران سماعت چیف جسٹس نے پیچیدہ پرفارما بنانے پر ڈی جی نیب لاہور پر برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ ڈی جی صاحب آپ معاملے کو پیچیدہ کیوں کر رہے ہیں؟

    جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ ہم افسران کو دیئے جانے والے سارے پیسے واپس لیں گے اور ڈیم فنڈ کے لیے جمع کرائیں گے، یہ عوام کے پیسے ہیں، بندر بانٹ کی اجازت نہیں دے سکتے۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ کیپٹن عثمان پنجاب حکومت سے ایک لاکھ چالیس ہزار لے رہا تھا، کمپنی میں جا کر 14 لاکھ لے رہا ہے۔ ہسپتالوں میں مریضوں کے لیے دوائیاں نہیں ہیں اور افسران عیاشیاں کر رہے ہیں۔

    بعد ازاں عدالت نے تین لاکھ روپے سے زائد تنخواہ لینے والے تمام افسران کو کل طلب کرلیا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں۔

  • کسی کو غریب عوام کے ٹیکسوں کے پیسے برباد کرنے کی اجازت نہیں دیں گے، چیف جسٹس

    کسی کو غریب عوام کے ٹیکسوں کے پیسے برباد کرنے کی اجازت نہیں دیں گے، چیف جسٹس

    لاہور : سول ایوی ایشن اور پی آئی اے افسران کے تفریحی دورے کی ویڈیو سے متعلق ازخود نوٹس پر سماعت میں چیف جسٹس نے قرار دیا کہ کسی کو غریب عوام کے ٹیکسوں کے پیسے برباد کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے سول ایوی ایشن اور پی آئی اے افسران کے تفریحی دورے کی ویڈیو سے متعلق ازخود نوٹس پر سماعت کی۔

    قائم مقام ڈی جی سول ایوی ایشن اور دیگر افسران نے ٹکٹ سمیت اخراجات کی رسیدیں جمع کرا دیں، عدالت نے قائم مقام ڈی جی سول ایوی ایشن اور افسران پر برہمی کا اظہار کیا۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا یہ عیاشی کیلئے مفتے کا ملک ہے، کتنے ٹکٹ لئے گئے اور کیا اخراجات آئے؟ آپ کو ادارے کے لیے اصول وضع کرنے چاہیئیں تھے۔ کیا آپ کو دعوت دی گئی تھی؟ آپ نے دعوت پر جانے کیلئے خود ہی اپنی انسپکشن کی ڈیوٹی لگالی۔

    چیف جسٹس نے مزید استفسار کیا کہ نانگا پربت دیکھنے کیلئے تفریحی دورے پر کتنے افسران گئے، رپورٹ کے مطابق کل 42 افسران تفریحی دورے پر گئے اور 23 لاکھ روپے سے زائد اخراجات آئے۔

    چیف جسٹس نے قرار دیا کہ کسی کو غریب عوام کے ٹیکسوں کے پیسے برباد کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔

    بعد ازاں عدالت نے کیس پر مزید سماعت 31 جولائی تک ملتوی کردی۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں

  • میں چلا گیا تو ان لوگوں کا احتساب کسی نے نہیں کرنا، چیف جسٹس

    میں چلا گیا تو ان لوگوں کا احتساب کسی نے نہیں کرنا، چیف جسٹس

    لاہور :  چیف جسٹس نے پی کےایل آئی سربراہ ڈاکٹرسعید کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کا حکم دیا اور کہا کہ میراوقت نکل جائے گا تو ان لوگوں نے بھاگ جانا ہے، میں چلا گیا تو ان لوگوں کا احتساب کسی نے نہیں کرنا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں پاکستان کڈنی اینڈ لیور ٹرانسپلانٹ انسٹی ٹیوٹ سے متعلق ازخود کیس کی سماعت ہوئی ، سماعت میں عدالتی حکم پرفرانزک آڈٹ رپورٹ عدالت میں جمع کرائی گئی۔

    عدالت میں جمع کرائی گئی رپورٹ میں مالی بےضابطگیوں کاانکشاف ہوا ، جس پر چیف جسٹس ثاقب نثار نے قرار دیا کہ اگر کرپشن ثابت ہو گئی تو ذمہ دار کو معافی نہیں ملے گی۔

    چیف جسٹس نے کہا 10 کروڑ روپے ماہانہ تنخواہوں کی مد میں جا رہے ہیں، 20 لاکھ روپے ماہانہ پی کے ایل آئی کے سربراہ کے گھر جا رہے ہیں اور جگر کا ایک ٹرانسپلانٹ نہیں کیا گیا، تعمیراتی کمپنی زیڈ کے بی ہر معاملے میں گھسی معلوم ہوتی ہے۔

    جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ میرا وقت نکل جائے گا تو ان لوگوں نے بھاگ جانا ہے اور ان کا احتساب کسی نے نہیں کرنا۔

    چیف جسٹس نے پی کے ایل آئی کی جانب سے رپورٹ داخل کرنے کے لیے مزید مہلت کی استدعا مسترد کر دی۔

    جسٹس ثاقب نثار نے پی کے ایل آئی کے سربراہ ڈاکٹر سعید اختر سے استفسار کیا کہ عدالت نے آپ سے کس چیز کی معافی مانگی، اس حوالے سے سوشل میڈیا پر مہم بند کریں، سب کچھ عدالت کے علم میں ہے، تبہیہ کر رہا ہوں اگر مہم بند نہ ہوئی تو سخت کارروائی ہوگی۔

    عدالت نے پی کے ایل آئی کے وکیل کی جانب سے عدالتی کارروائی روکنے کی استدعا مسترد کر دی اور قرار دیا کہ میڈیا شفاف رپورٹنگ کرتا ہے، آپ جس میڈیا پر مہم چلا رہے ہیں اس کے حقائق جان لیں تو آپ اپنے موکل کی وکالت چھوڑ دیں گے۔

    عدالت نے پی کے ایل آئی کے سربراہ ڈاکٹر سعید کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کا حکم دیتے ہوئے فرانزک آڈٹ رپورٹ پر حکومت پنجاب اور پی کے ایل آئی سے 20 اگست کو جواب طلب کر لیا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • اسلام آباد ایئرپورٹ میں پانی بھرجانےسےمتعلق کیس کی سماعت

    اسلام آباد ایئرپورٹ میں پانی بھرجانےسےمتعلق کیس کی سماعت

    لاہور: سپریم کورٹ میں اسلام آباد ایئرپورٹ میں بارش کا پانی بھرجانے سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ غلط رپورٹ پرکیوں نہ توہین عدالت کی کارروائی کی جائے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں اسلام آبادایئرپورٹ میں بارش کا پانی بھرجانے سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔

    سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت کے دوران غلط رپورٹ پیش کرنے پربرہمی کا اظہار کیا، عدالت میں ایئرپورٹ پرپانی کھڑے ہونے کی فوٹیج بھی دکھائی گئی۔

    عدالت نے ریمارکس دیے کہ فوٹیج میں بہت پانی دکھایا گیا رپورٹ میں معمولی پانی کا ذکرہے جس پر ڈپٹی ڈائریکٹرجنرل نے جواب دیا کہ پانی زیرتعمیرعمارت میں جمع ہوا۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ عدالت کی منظوری کے بغیرآپ کوڈی جی کس نے لگایا جس پر ڈی جی سی اے اے نے جواب دیا کہ سی ای اوپی آئی اے کی منظوری سے تعیناتی کی گئی۔

    چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے کہا کہ خود ہی کمیٹی بنا کرخود ہی فیصلے کررہے ہیں۔

    ڈپٹی ڈی جی نے کہا کہ بارش بہت زیادہ تھی جس کی وجہ سے پانی اندرآگیا جس پرجسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ تعمیرشدہ بلڈنگ میں پانی آنے کا سوال ہے۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ پیش کی گئی رپورٹ سے مطمئن نہیں، کیوں نہ آپ کا کیس ایف آئی اے میں بھیجا جائے،غلط رپورٹ پرکیوں نہ توہین عدالت کی کارروائی کی جائے۔

    بعدازاں سپریم کورٹ لاہور رجسٹری نے اسلام آباد ایئرپورٹ میں بارش کا پانی بھرجانے سے متعلق کیس کی سماعت 31 جولائی تک ملتوی کردی۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں۔

  • صحافی ذیشان بٹ قتل کیس: ملزم کی عدم گرفتاری پر چیف جسٹس کا اظہار برہمی

    صحافی ذیشان بٹ قتل کیس: ملزم کی عدم گرفتاری پر چیف جسٹس کا اظہار برہمی

    لاہور: سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں صحافی ذیشان بٹ کے قتل سے معلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت ہوئی، ملزم کی عدم گرفتاری پر چیف جسٹس نے سخت اظہار برہمی کیا اور ایک ہفتے میں رپورٹ طلب کرلی۔

    تفصیلات کے مطابق لاہور رجسٹری میں صحافی ذیشان بٹ کے قتل سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت ہوئی، عدالت نے مرکزی ملزم کو دبئی سے گرفتار کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے ایک ہفتے میں رپورٹ طلب کرلی ہے۔

    دوران سماعت ڈی پی او سیالکوٹ نے بتایا کہ دبئی میں شریک ملزم ثاقب کی گرفتاری کے لیے ٹیم بھجوادی ہے، اطلاعات ہیں کہ ملزم ثاقب نے مرکزی ملزم عمران عرف عمرانی کو پناہ دی ہے، شریک ملزم ثاقب کی گرفتاری سے مرکزی ملزم تک پہنچا جائے گا۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ شریک ملزم کو بعد میں اور اصل ملزم کو پہلے گرفتار کریں، چیف جسٹس ثاقب نثار نے مرکزی ملزم کو دبئی سے گرفتار کرنے کی ہدایت دیتے ہوئے رپورٹ ایک ہفتے میں طلب کرلی، عدالت نے واقعہ میں گرفتار ملزمان کی درخواست ضمانت پر فیصلے رجسٹرار سپریم کورٹ کو بھجوانے کی ہدایت بھی کی۔

    یاد رہے کہ صحافی ذیشان بٹ کو 27 مارچ کو سمبڑیال میں اس وقت قتل کیا گیا تھا جب وہ دکانداروں پرعائد کیے جانے والے ٹیکس کے حوالے سے معلومات لینے یونین کونسل بیگوالا کے دفتر پہنچنے تھے۔

    ذیشان بٹ پر تین گولیاں فائر کی گئی تھیں جس کے بعد مرکزی ملزم یوسی چیئرمین عمران چیمہ موقع سے فرار ہوگیا تھا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں۔

  • مریم نواز کی سزا، حلقہ این اے 127 کا الیکشن ملتوی کرنے کے لیے درخواست دائر

    مریم نواز کی سزا، حلقہ این اے 127 کا الیکشن ملتوی کرنے کے لیے درخواست دائر

    لاہور : سابق وزیراعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز کی سزا کے بعد حلقہ این اے 127 کا الیکشن ملتوی کرنے کے لیے درخواست دائر کر دی گئی، جس میں کہا گیا کہ آئین کے تحت تمام شہری برابر ہیں مگر الیکشن کمیشن نے مریم نواز کے ساتھ امتیازی سلوک برتا۔

    تفصیلات کے مطابق لاہور ہائی کورٹ میں ایوان فیلڈ ریفرنس میں سابق وزیراعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز کو سزا ہونے کے بعد حلقہ این اے 127 کا الیکشن ملتوی کرنے کے لیے درخواست دائر کر دی گئی۔

    درخواست حلقہ این اے 127 کے ووٹر عمران بٹ کی جانب سے دائر کی گئی۔

    درخواست گزار نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ الیکشن کمیشن نے حنیف عباسی کو سزا کے بعد حلقہ این اے 60 سے الیکشن ملتوی کر دیئے ہیں۔ مریم نواز کو بھی سزا ہوئی مگر ان کے حلقہ کا الیکشن ملتوی نہیں کیا گیا۔

    دائر درخواست میں کہا گیا کہ آئین کے تحت تمام شہری برابر ہیں مگر الیکشن کمیشن نے مریم نواز کے ساتھ امتیازی سلوک برتا، عدالت این اے 60 کی طرح این اے 127 میں بھی الیکشن ملتوی کرنے کا حکم دے۔


    مزید پڑھیں : ایفی ڈرین کوٹہ کیس، حنیف عباسی کو عمر قید کی سزا


    یاد رہے کہ انسداد منشیات عدالت نے ایفی ڈرین کوٹا کیس میں مسلم لیگ ن کے رہنما اور امیدوار حنیف عباسی کو عمر قید کی سزا سنائی تھی۔

    ن لیگ کے رہنما حنیف عباسی راولپنڈی این اے 60 سے الیکشن لڑ رہے تھے ، جہاں ان کا مقابلہ شیخ رشید سے تھا۔

    حنیف عباسی کی عمر قید کی سزا کے بعد الیکشن کمیشن نے این 60 پر انتخابات ملتوی کردیئے تھے اور کہا تھا کہ تمام جماعتوں کویکساں موقع دینا چاہتے ہیں۔

    واضح رہے کہ احتساب عدالت نے رواں ماہ 6 جولائی کو ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ سناتے ہوئے نوازشریف کو 11، مریم نوازکو 8 اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کو ایک سال قید سنائی تھی۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • گورنراسٹیٹ بینک کی تقرری کا معاملہ: سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت سے جواب طلب کرلیا

    گورنراسٹیٹ بینک کی تقرری کا معاملہ: سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت سے جواب طلب کرلیا

    لاہور: سپریم کورٹ نے گورنراسٹیٹ بینک طارق باجوہ کی تقرری کا مکمل ریکارڈ آئندہ سماعت پرطلب کرلیا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں گورنراسٹیٹ بینک طارق باجوہ کی تقرری کے خلاف درخواست پرچیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سماعت کی۔

    سپریم کورٹ میں گورنراسٹیٹ بینک طارق باجوہ کی تقرری پیپلزپارٹی کے سینیٹرتاج حیدرنے چیلنج کی۔

    سینیٹرتاج حیدر کی جانب سے دائر کی گئی درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ تقرری بغیر اشتہار اورقواعد کے برعکس کی گئی۔

    انہوں نے درخواست میں موقف اختیار کیا کہ تقرری کے لیے طارق باجوہ میرٹ پرپورانہیں اترتے، عدالت طارق باجوہ کی تقرری کالعدم قرار دے۔

    اسٹیٹ بینک کےگورنر کی تقرری قانون کےمطابق قرار

    خیال رہے کہ گزشتہ ہفتے اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے 22 سینیٹرز کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے گورنراسٹیٹ بینک طارق باجوہ کی تقرری کو قانون کے مطابق قراردیا تھا۔

    واضح رہے کہ ایف بی آر کے سابق چیئرمین طارق باجوہ کو 7 جولائی 2017 کو 3 برس کے لیے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا گورنرتعینات کیا گیا تھا۔

    بعدازاں 16 اگست 2017 کو سینیٹرتاج حیدر، فرحت اللہ بابر، سسی پلیج، فاروق ایچ نائیک اور دیگر سینیٹرز نے اس تقرری کو چیلنج کیا تھا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔