Author: عابد خان

  • لوگ کہتے ہیں کہ بابا رحمتا ایسے ہی لگا رہتا ہے مگر مجھے کسی کی پرواہ نہیں، چیف جسٹس

    لوگ کہتے ہیں کہ بابا رحمتا ایسے ہی لگا رہتا ہے مگر مجھے کسی کی پرواہ نہیں، چیف جسٹس

    لاہور : پرائیویٹ میڈکل کالجز کی فیسوں کے معاملے پر از خود نوٹس کی سماعت میں چیف جسٹس آف پاکستان نے ریمارکس دیئے لوگ کہتے ہیں کہ بابا رحمتا ایسے ہی لگا رہتا ہے مگر مجھے کسی کی پرواہ نہیں۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے پرائیویٹ میڈیکل کالجزکی فیس، سہولتوں سےمتعلق سماعت کی، چیف جسٹس آف پاکستان نے میڈیکل کالجز اسٹرکچر کے حوالے سے رپورٹ طلب کر لی۔

    چیف جسٹس کہا کہ بتایاجائےمیڈیکل کالجزمیں کیاسہولتیں دی جاتی ہیں، دیکھنا چاہتے ہیں میڈیکل کالجز میں کیا سہولتیں ہیں، بھائی پھیروکریسنٹ کالج کادورہ کرلیتے ہیں۔

    جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ بہت سارے ایشوز کو اکٹھا ٹیک اپ کیا، اب ہم ہر معاملے کو علیحدہ علیحدہ دیکھیں گے، پی ایم ڈی سی کواپ ڈیٹ کرنے کی ضرورت ہے۔

    عدالت نے قرار دیا کہ کسی میڈیکل کالج کو اس وقت تک بند نہیں کیا جائے گا جب تک مجبوری نہ بن جائے، تعلیم کاروبار ہو سکتا ہے مگر میڈیکل کی تعلیم پر اتنی فیسیں نہ لگائی جائیں کہ لوگوں کی جیبیں ہی کٹ جائیں۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ ایسے ڈاکٹرز آرہے ہیں جنہیں بلڈپریشرچیک کرنانہیں آتا، کل 5بچے مرگئے،ان کا ذمہ دارکون ہے، انکوائری ہوگی اور آخر میں سارا ملبہ دھوپ پر ڈالا جائے گا، اس کا ذمہ دار کون ہے۔

    جسٹس ثاقب نثار نے حکم دیا کہ تمام میڈیکل کالجز کے اکاؤنٹس کا چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ سے آڈٹ کروائیں جبکہ سیالکوٹ میڈیکل کالج کو فارن سٹوڈنٹس کوٹے کی مد میں لی گئی فیس واپس کرنے کا حکم دے دیا۔

    عدالت نے قرار دیا کہ ہسپتالوں اور میڈیکل کالجز میں کیا سہولیات دی جا رہی ہیں، ان کا خود جائزہ لوں گا۔

    دوران سماعت چیف جسٹس نے قرار دیا لوگ کہتے ہیں کہ بابا رحمتا ایسے ہی لگا رہتا ہے مگر مجھے کسی کی پرواہ نہیں جو مرضی آئے تنقید کرے، عوام کی بھلائی کے لیے کام کرتا رہوں گا۔

    انہوں نے کہا کہ آج واضح کرتا ہوں کہ بابا رحمتا کا تصور کہاں سے لیا یہ خیال اشفاق احمد سے لیا اور بابا رحمتا ایک ایسا انسان ہے جو دوسروں کے لیے آسانیاں پیدا کرتا ہے۔

    سماعت کے بعد چیف جسٹس آف پاکستان نے جسٹس اعجاز الاحسن کے ہمراہ سروسز ہسپتال اور پی آئی سی کا دورہ بھی کیا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں۔

  • سینیٹرزکی دہری شہریت‘ سماعت 10 مارچ تک ملتوی

    سینیٹرزکی دہری شہریت‘ سماعت 10 مارچ تک ملتوی

    لاہور : چیف جسٹس آف پاکستان نے آج لاہور رجسٹری میں سینیٹرز کی دہری شہریت کیس کی سماعت کرتے ہوئے عدالت نے کہا کہ نہیں چاہتے کہ ووٹرز کی حق تلفی ہو لیکن عوامی نمائندوں کا بھی دو طرفہ مفادات حاصل کرنے کی روش اختیارات کرنا درست نہیں ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے سینیٹرز کی دہری شہریت سے متعلق کیس کی سماعت کی‘ تحریک انصاف کے رہنماء اور نومنتخب سینیٹر چوہدری سرور نے عدالت میں اپنا بیانِ حلفی جمع کرایا۔

    تحریکِ انصاف کے رہنما اور پنجاب اسمبلی سے پی ٹی آئی اے کے واحد رکن سینیٹ چوہدری سرورنے کہا کہ میں 2013 میں برطانوی شہریت چھوڑ چکا ہوں ۔ عدالت نے اس موقع پر چوہدری سرور کو بیان حلفی جمع کرانے کی ہدایت کر دی ۔

    پی ٹی آئی کی رہنما عندلیب عباسی نے عدالت کو بتایا کہ وزیر اعظم کی بہن سعدیہ عباسی اور نزہت صادق پانچ پانچ سال دوہری شہریت کے ساتھ پارلیمنٹ کی رکن رہ چکی ہیں جبکہ انہوں نے سینیٹر بننے کے لیے دوہری شہریت چھوڑنے کا فیصلہ کیا جو کہ اہل امیدواروں کے حقوق سلب کرنے کے مترادف ہے۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آپ کے حقوق کے تحفظ کے لئے بیٹھے ہیں ‘ دوہری شہریت کا فیصلہ سنہ 2012 میں آیا اس کے مطابق ان کی نااہلی تو پھر تب سے شروع ہونی چاہیے۔د وسری جانب نزہت صادق اور سعدیہ عباسی کے وکیل نے استدعا کی کہ اس کیس کی سماعت جلدی کرلی جائے تاکہ حلف برداری کا مرحلہ مکمل ہو سکے۔

    اس موقع پر چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں یہ بھی کہا کہ نوٹیفکیشن جاری ہوگا تو حلف برداری ہوگی‘ عدالت نے پہلے سماعت 13 مارچ تک ملتوی کی تاہم بعد میں تاریخ تبدیل کر دی گئی ۔عدالت نے قرار دیا کہ 12 کو چیئرمین سینٹ کا الیکشن ہے‘ اس لیے نہیں چاہتے کہ کسی اہل ووٹر کی حق تلفی ہو ۔ عدالت نے سماعت 10 مارچ تک ملتوی کردی۔

    یاد رہے کہ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے 5 مارچ کو سینٹ کے چار نو منتخب ارکان کی کامیابی کا نوٹی فکیشن نا جاری کرنے کا حکم دیا تھا۔ انہوں نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ سینیٹرز کو پہلے مطمئن کرنا ہوگا کہ وہ دہری شہریت ترک کر چکے ہیں۔ عدالت عظمیٰ نے الیکشن کمیشن کو چاروں سینیٹرز کے نوٹیفکیشن جاری کرنے سے روکتے ہوئے حکم دیا کہ کیس کے فیصلے تک الیکشن کمیشن نوٹیفکیشن جاری نہ کرے۔

    خیال رہے کہ نومنتخب سینیٹرز میں سے چوہدری سرور کا تعلق پاکستان تحریک انصاف جبکہ ہارون اختر، نزہت صادق اور سعدیہ عباسی کا تعلق مسلم لیگ (ن) سے ہے اور چاروں افراد پنجاب سے سینیٹرز منتخب ہوئے ہیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات  کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں

  • شہباز شریف کو سرکاری اشتہار کے پیسے قومی خزانے میں جمع کروانے کا حکم

    شہباز شریف کو سرکاری اشتہار کے پیسے قومی خزانے میں جمع کروانے کا حکم

    لاہور: چیف جسٹس نے سرکاری اشتہارات از خود نوٹس کیس میں وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کو سرکاری اشتہار کے 55 لاکھ روپے قومی خزانے میں جمع کروانے کا حکم دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ نے سرکاری اشتہارات از خود نوٹس کیس کی سماعت کی۔

    عدالت نے سرکاری اشتہارات کی تقسیم کے معاملے پر پنجاب حکومت، مسلم لیگ ن، وزیر اعلیٰ اور اے پی این ایس کو نوٹسز جاری کر دیے۔

    سیکریٹری انفارمیشن نے عدالت کو بتایا کہ ایک مہینے میں 12 کروڑ روپے کے اشتہارات دیے گئے جس پر چیف جسٹس نے قرار دیا کہ اس طرح تو ایک سال میں ڈیرھ ارب روپے کے اشتہارات بنتے ہیں۔ بتایا جائے کہ اشتہار دینے کے لیے کیا معیار اور طریقہ کار اختیار کیا گیا۔

    اس موقع پر کمرہ عدالت میں وزیر اعلیٰ کی تصویر والا اشتہار دکھایا گیا جس پر عدالت نے استفسار کیا کہ اس اشتہار پر کتنی لاگت آئی۔

    چیف سیکریٹری پنجاب نے بتایا کہ اس اشتہار پر 55 لاکھ روپے ادا کیے گئے. اس کا مقصد 5 سالہ ترقی بتانا تھا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس پیسے سے بہت سے غریبوں کی ادویات آسکتی تھیں، 55 لاکھ اشتہار پر خرچ کردیے کیا یہ بادشاہت ہے۔

    انہوں نے کہا کہ الیکشن قریب ہے اور سرکاری خزانے سے اشتہار چلائے جا رہے ہیں اگر باقی دنیا میں ایسا ہوتا ہے تو بتایا جائے۔

    عدالت نے حکم دیا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب اشتہار پر اٹھنے والے 55 لاکھ روپے اپنی جیب سے ادا کریں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • این اے 120 میں جعلی ووٹوں کے خلاف درخواست، کلثوم نواز کو جواب داخل کرنے کا آخری موقع مل گیا

    این اے 120 میں جعلی ووٹوں کے خلاف درخواست، کلثوم نواز کو جواب داخل کرنے کا آخری موقع مل گیا

    لاہور : لاہور ہائیکورٹ نے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 120 میں 29 ہزار جعلی ووٹوں کےخلاف درخواست پر وفاقی حکومت، الیکشن کمیشن اور کلثوم نواز کے وکیل کو جواب داخل کرنے کا آخری موقع دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس امین الدین خان نے تحریک انصاف کی رہنما ڈاکٹر یاسمین راشد کی درخواست پر سماعت کی، سماعت کے دوران کلثوم نواز، الیکشن، نادرا سمیت دیگر فریقین نے جواب داخل کرانے کیلئے مزید مہلت مانگی۔

    جس پر عدالت نے فریقین کو جواب داخل کرانے کیلئے آخری موقع دے دیا۔

    درخواست گزار کے وکیل نے بتایا مسلم لیگ ن کی امیدوار کلثوم نواز کا تعلق حکمران جماعت سے تھا وہ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی اہلیہ ہیں، کلثوم نواز کو کامیاب کرنے کیلئے 29 ہزار جعلی ووٹ بنوائے گے اور ان ووٹوں کا اندراج بھی نہیں کیا گیا۔

    درخواست کے مطابق الیکشن کمیشن نے عدالت کے روبرو ان جعلی ووٹوں کو تسلم کیا لیکن انکو منسوخ نہیں کیا گیا، اگر 29 ہزار جعلی ووٹوں کو منسوخ کر دیا جاتا تو انتخابی نتائج مختلف ہوتے۔

    ڈاکٹر یاسمین کی جانب سے استدعا کی گئی کہ جعلی ووٹوں کو منسوخ کیا جائے۔

    کلثوم نواز کے کے وکیل نے جواب داخل کرانے کیلئے مہلت کی استدعا کی، جسے عدالت نے منظور کرتے ہوئے مزید کارروائی 15 مارچ تک ملتوی کر دی۔


    مزید پڑھیں: این اے 120 کا معرکہ کلثوم نواز نے سَر کرلیا، یاسمین راشد کو شکست


    یاد رہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے پاناما کیس میں نوازشریف کو نااہل قرار دیے جانے کے بعد حلقہ این اے 120 کی نشست خالی ہوئی تھی جس پر 17 ستمبر 2017 کو ضمنی انتخابات منعقد کیے گئے تھے۔

    تحریک انصاف نے ضمنی انتخابات میں حصہ لیتے ہوئے ڈاکٹر یاسمین راشد کو مسلم لیگ ن کی امیدوار کلثوم نواز کی مخالفت میں کھڑا کیا تھا، دونوں امیدواروں کے درمیان کانٹے دار مقابلے کے بعد مسلم لیگ ن کی امیدوار نے 13268 ووٹ کی برتری سے فتح اپنے نام کی تھی۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • سینیٹ انتحابات کالعدم قرار دینے کی درخواست پر الیکشن کمیشن سے جواب طلب

    سینیٹ انتحابات کالعدم قرار دینے کی درخواست پر الیکشن کمیشن سے جواب طلب

    لاہور : لاہور ہائیکورٹ نے سینیٹ انتحابات کالعدم قرار دینے کی درخواست پر الیکشن کمیشن سے جواب طلب کر لیا۔

    تفصیلات کے مطابق لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس شاہد کریم نے سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد کی سینیٹ انتحابات کالعدم قرار دینے کی درخواست پر سماعت کی، جس میں سینیٹ انتخابات میں ہارس ٹریڈنگ کو چیلنج کیا گیا۔

    درخواست گزار کے وکیل باقر حسین ایڈووکیٹ نے مؤقف اختیار کیا کہ سینیٹ انتحابات میں ہارس ٹریڈنگ ہوئی، جس پر اب الیکشن کمیشن نے بھی نوٹس لیا ہے. سینیٹ انتخابات میں ہارس ٹریڈنگ کے افسوس ناک عمل ہے اس کی روک تھام نہ کرنا الیکشن کمشن کی ناکامی ہے۔

    درخواست گزار کے وکیل نے دلائل دیے کہ حزب اختلاف کی جماعتیں الیکشن کمیشن کو ہارس ٹریڈنگ کے بارے ثبوت پیش کریں گی، جس کے بعد مزید کارروائی ہو گی۔

    درخواست میں استدعا کی کہ درخواست کے فیصلے تک کامیاب سینٹرز کے نوٹیفیکیشن معطل کئے جائیں اور الزامات ثابت ہونے پر سینیٹ انتحابات 2018 کالعدم قرار دیا جائے، درخواست پر مزید کارروائی 2 اپریل کو ہوگی۔

    یاد رہے کہ سینیٹ انتخابات میں اراکین کی خرید و فروخت کے حوالے سے ہارس ٹریڈنگ کا انکشاف بھی سامنے آیا، مختلف سیاسی جماعتوں نے الزام عائد کیا کہ اُن کے امیدوار کو ووٹ دینے کے لیے بھاری رقم کے عوض اراکین اسمبلی کو کروڑو روپے کی پیش کش کی گئی۔


    مزید پڑھیں : ہارس ٹریڈنگ کا الزام لگانے والے رہنماؤں‌ کی الیکشن کمیشن میں‌ بمع ثبوت طلبی


    جس کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سینیٹ انتخابات میں ہارس ٹریڈنگ کے الزامات لگانے والے 8 رہنماؤں کو نوٹس جاری کرتے ہوئے 14 مارچ کو بمع ثبوت طلب کرلیا ہے۔

    واضح رہے کہ تین مارچ کو سینیٹ کی 52 نشتوں پر نمائندے منتخب کرنے کے لیے چاروں صوبائی اور قومی اسمبلی میں ووٹنگ کا عمل منعقد کیا گیا، جس میں اراکین اسمبلی نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔

    سرکاری نتائج کے مطابق مسلم لیگ ن کے حمایت یافتہ امیدواروں نے پنجاب سے 11، اسلام آباد سے 2 اور خیبرپختونخواہ سے 2 نشتیں حاصل کر کے واضح برتری حاصل کی، علاوہ ازیں پیپلزپارٹی دوڑ میں 12 نشتیں اپنے نام کرکے دوسرے نمبر پر رہی۔


    .خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں

  • عدلیہ مخالف تقاریر، نواز شریف اور مریم نواز کے خلاف توہین عدالت کی درخواست پر  پیمرا سے جواب طلب

    عدلیہ مخالف تقاریر، نواز شریف اور مریم نواز کے خلاف توہین عدالت کی درخواست پر پیمرا سے جواب طلب

    لاہور : لاہور ہائیکورٹ نے عدلیہ مخالف تقاریر پر میاں نواز شریف اور مریم نواز کے خلاف دائر توہین عدالت کی درخواست پر پیمراء کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کر لیا۔

    تفصیلات کے مطابق لاہور ہائیکورٹ میں جسٹس شاہد کریم نے میاں نواز شریف اور مریم نواز کے خلاف دائر توہین عدالت کی درخواست پر سماعت کی۔ درخواست گزار آمنہ ملک کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ میاں نوازشریف ، مریم نواز اور ن لیگی اراکین پارلیمنٹ پانامہ کیس کے فیصلے کے حوالے سے عدلیہ مخالف بیان بازی کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں جو کہ وا ضح طور پر توہین عدالت ہے۔

    انہوں نے کہا کہ اسپیکر قومی و صوبائی اسمبلی متعصب ہیں، ن لیگ سے تعلق رکھتے ہیں، اسی لئے عدلیہ مخالف بیان بازی پر ان کے خلاف کارروائی نہیں کر رہے۔

    درخواست میں کہا گیا کہ عدالت پیمراء کو عدلیہ مخالف تقاریر کو میڈیا پر نشر کرنے سے روکنے اور میاں نواز شریف سمیت توہین عدالت کے مرتکب افراد کے خلاف کارروائی کرے۔

    سرکاری وکیل نے کہا کہ لاہور ہائیکورٹ میں براہ راست اس قسم کی درخواست قابل سماعت نہیں ہے، محض الزامات کی بنیاد پر درخواست پر سماعت ممکن نہیں۔

    عدالت نے پیمرا کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کر لیا، عدالت نے آئندہ سماعت پر پیمراء کے ذمے دار افسر کو ریکارڈ سمیت پیش ہونے کی بھی ہدایت کی۔


    مزید پڑھیں :  جتنے فیصلے دو گےعوام اتنا ہی ہمارا ساتھ دیں گے‘ نوازشریف


    یاد رہے احتساب عدالت میں پیشی پر کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مسلم لیگ ن کے قائد نوازشریف نے عدلیہ پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کیا ہمارانشان چھیننے سے آپ ہمارا نشان مٹائیں دیں گے؟ جتنےفیصلے دو گےعوام اتنا ہی ہمارا ساتھ دیں گے، جتنے فیصلے دو گےعوام اتنا ہی ہمارا ساتھ دیں گے، اب عوام روزبروزباشعورہو رہے ہیں، عوام اب یہ سکھا شاہی برداشت کرنے کو نہیں۔

    نوازشریف کا کہنا تھا کہ بغیر کسی وجہ کے وزیراعظ‌م کو باہر نکال کر پھینک دیا گیا، منتخب وزیراعظم کو اس طرح سے نکال کر باہر پھینکا عوام اب برداشت نہیں کریں گے، جو ظم برداشت کرتا رہتا ہے اور ظلم کے خلاف کھڑا نہیں ہوتا وہ سب سے بڑا ظالم ہے۔


     

  • سینیٹ انتخابات میں ہارس ٹریڈنگ‘ عدالت کی الیکشن کمیشن اور وفاقی حکومت سے جواب طلبی

    سینیٹ انتخابات میں ہارس ٹریڈنگ‘ عدالت کی الیکشن کمیشن اور وفاقی حکومت سے جواب طلبی

    لاہور :ہائی کورٹ نے ہارس ٹریڈنگ کی بنیاد پر سینیٹ انتخابات کالعدم قرار دینے کے لئے دائر درخواست پر الیکشن کمیشن اور وفاقی حکومت سمیت فریقین سے جواب طلب کر لیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق آج لاہور ہائی کورٹ میں جوڈیشل ایکٹوازم پینل کی جانب سے دائر کردہ درخواست کی سماعت کی گئی‘ درخوات میں کہا گیا کہ سینیٹ انتخابا ت میں بدترین دھاندلی اور خلاف آئین اقدامات کیے گئے ہیں۔

    درخواست میں کہا گیاہے کہ نہال ہاشمی کی خالی ہونے والی نشست پر انتخابات میں خفیہ رائے شماری نہیں کی گئی۔انہوں نے کہا کہ آئین کے تحت انتخابات خفیہ رائے شماری کے ذریعے ہی کئے جا سکتے ہیں مگر ن لیگی اراکین اسمبلی ووٹ دکھا کر کاسٹ کرتے رہے جو کہ آئین اور عوامی نمائندگی ایکٹ کی سنگین خلاف ورزی ہے۔

    یہ بھی کہا گیا ہے کہ سینیٹ انتخابات میں خفیہ رائے شماری نہ ہونا واضح طور پر دھاندلی اور آئین سے بغاوت ہے جس کی بنیاد پر انتخابات کو یہ عدالت کالعدم قرار دے۔

    درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ عدالت نہال ہاشمی کی خالی ہونے والی نشست کے علاوہ سینٹ انتخابات میں ہارس ٹریڈنگ کی گئی اورآرٹیکل باسٹھ تریسٹھ پر پورا نہ اترنے والے کامیاب ہوئے ‘ لہذا سینیٹ کی تمام نشستوں پر ہونے والے انتخابات کو کالعدم قرار دیا جائے‘ جس پر عدالت نے الیکشن کمیشن، وفاقی حکومت اور دیگر فریقین سے جواب طلب کر لیا۔

    خیال رہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے نہال ہاشمی کو توہین عدالت کا مرتکب قرار دیے جانے کے بعد سینیٹ کی نشست خالی ہوئی تھی۔الیکشن کمیشن آف پاکستان نے گزشتہ ماہ 2 فروری کو سپریم کورٹ کی جانب سے نااہل قرار دیے جانے والے مسلم لیگ ن کے سینیٹر نہال ہاشمی کی نشست خالی قرار دینے کا نوٹیفکیشن جاری کیا تھا۔

    نہال ہاشمی کی خالی نشست پر مسلم لیگ ن کے حمایت یافتہ ڈاکٹر اسد میدان میں تھے جبکہ پاکستان تحریک انصاف نے ان کے مقابلے میں ڈاکٹر زرقا کو نامزد کیا تھا‘ ڈاکٹر اسد یہ مقابلہ جیت گئے تھے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات  کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں

  • احد چیمہ اورشاہد شفیق 15 روزہ جسمانی ریمانڈ پرنیب کےحوالے

    احد چیمہ اورشاہد شفیق 15 روزہ جسمانی ریمانڈ پرنیب کےحوالے

    لاہور: احتساب عدالت نے آشیانہ ہاؤسنگ اسکیم اسکینڈل میں گرفتار ملزم سابق ڈی جی ایل ڈی اے احد چیمہ اور شاہد شفیق کو15 روزہ جسمانی ریمانڈ پرنیب کےحوالے کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق لاہورکی احتساب عدالت میں آشیانہ اقبال ہاوسنگ اسکیم ریفرنس پرسماعت ہوئی جہاں آشیانہ ہاؤسنگ اسکیم اسکینڈل میں گرفتار ملزم سابق ڈی جی ایل ڈی اے احد چیمہ اور شاہد شفیق کو پیش کیا گیا۔

    عدالت میں نیب کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ احد چیمہ اورخاندان نے 32 کنال اراضی اپنے نام منتقل کرائی، کروڑوں کی زمین کے عوض احد چیمہ نے 25 لاکھ ادا کیے، باقی رقم پیراگون سٹی کے اکاؤنٹ سے ٹرانسفر کی گئی۔

    نیب کے وکیل نے کہا کہ ساڑھے 19 کنال مزید زمین بہن اورکزن کے نام منتقل ہوئی، 3 بار نوٹس دیے، احد چیمہ کی بہن اوردیگر افراد شامل تفتیش نہیں ہورہے، آشیانہ اقبال پیراگون سٹی سےملحق سوسائٹی ہے۔

    قومی احتساب بیورو کے وکیل نے کہا کہ تفتیش جاری ہے کہیں پیراگون سٹی نے بھی فائلیں فروخت نہ کی ہوں، پی ایل ڈی سی کے 3 سال میں 17 چیف ایگزیکٹو تبدیل کیے گئے، تمام سی ای اوز کو صرف ٹھیکا چلتا رہنےکے لیےتبدیل کیا گیا۔

    نیب کے وکیل نے کہا کہ احد چیمہ کے 2 موبائل، لیپ ٹاپ اور دیگر فائلیں تحویل میں لے لی ہیں، ملزم شاہد شفیق نےجعلی دستاویزات پرٹھیکا حاصل کیا، ٹھیکا لیتے وقت اسپارکو کو مرکزی کمپنی ظاہر کیا گیا۔

    قومی احتساب بیورو کے وکیل نے کہا کہ ٹھیکا لیتے وقت تینوں کمپنیوں کا حصہ ظاہر نہیں کیا گیا، بعد میں شاہد شفیق نے خود کو90 اوردیگر2 کمپنیوں کو10 فیصد کاحصہ دیا۔

    نیب کے وکیل کی جانب سے آشیانہ ہاؤسنگ اسکیم اسکینڈل میں گرفتار ملزم سابق ڈی جی ایل ڈی اے احد چیمہ اور شاہد شفیق کے جسمانی ریمانڈ میں توسیع کی درخواست پرعدالت نے فیصلہ محفوظ سناتے ہوئے دونوں ملزمان کو 15 روزہ ریمانڈ پر نیب کے حوالے کردیا۔


    آشیانہ ہاؤسنگ اسکیم میں بدعنوانی : سابق ڈی جی ایل ڈی اے گرفتار


    یاد رہے کہ گزشتہ ماہ 21 جنوری کو قومی احتساب بیورو نے سابق ڈی جی ایل ڈی اے احد چیمہ کو بدعنوانی کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • اجینو موتو کی فروخت پر پابندی عائد

    اجینو موتو کی فروخت پر پابندی عائد

    لاہور: سپریم کورٹ لاہور رجسٹری نے کھانوں میں شامل کیے جانے والے جز اجینو موتو یعنی چائینز سالٹ (نمک) کی فروخت پر پابندی عائد کردی۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں اجینو موتو کے خلاف از خود نوٹس کیس کی سماعت ہوئی۔

    دوران سماعت چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ اجینو موتو صحت کے لیے نقصان دہ ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اجینو موتو میں موجود مونو سوڈیم گلومیٹ سر درد، دل کی دھڑکن کے مسائل، دماغی اور بیماریوں کا سبب بن سکتا ہے۔

    یاد رہے کہ اس سے قبل پنجاب فوڈ اتھارٹی اور محکمہ داخلہ سندھ نے بھی اجینو موتو کی فروخت پر پابندی عائد کی تھی۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • احدچیمہ کی گرفتاری پر کوئی افسر احتجاج نہیں کرے گا، جسے استعفی دینا ہے وہ  دے دے، چیف جسٹس

    احدچیمہ کی گرفتاری پر کوئی افسر احتجاج نہیں کرے گا، جسے استعفی دینا ہے وہ دے دے، چیف جسٹس

    لاہور : چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے احدچیمہ کی گرفتاری پر افسران کواحتجاج سے روک دیا اور کہا کہ کوئی افسر احتجاج نہیں کرے گا، جسے استعفی دینا ہے وہ دے دے، جسے بلایا جائے وہ تعاون کرے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں چیف جسٹس آف پاکستان نے ایل ڈی اے ازخودنوٹس کیس کی سماعت کی ، دوران سماعت چیف جسٹس نے تمام بیوروکریٹس کو احد چیمہ کی گرفتاری پر احتجاج سے روک دیا۔

    چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ کوئی افسر احتجاج نہیں کرے گا، جس نے استعفیٰ دینا ہے دے دے، جسے بلایا جائے وہ مکمل تعاون کرے، نیب کو کوئی بھی ہراساں نہیں کرے گا۔

    جسٹس ثاقب نثار نے پنجاب اسمبلی سے احد چیمہ کے حق میں قرارداد منظور ہونے کے حوالے سے سوال کیا کہ اسمبلی سے کیسے احد چیمہ کے حق میں قرارداد منظور ہوئی، ایسےتو قرارداد آجائے گی کہ سپریم کورٹ نہیں بلا سکتی۔

    چیف جسٹس نے احد چیمہ کے کیس کا مکمل ریکارڈ طلب کرلیا اور سوال کیا کہ آج کل احد چیمہ کہاں ہے، جس پر ڈی جی ایل ڈی اے نے جواب میں کہا کہ احد چیمہ نیب کی حراست میں ہے۔

    جسٹس ثاقب نثار نے سوال کیا کہ گریڈ 19 کی کیا تنخواہ ہے اور احد چیمہ کتنی لیتے تھے،چیف سیکرٹری نے بتایا کہ تنخواہ ایک لاکھ ہو سکتی ہےلیکن مراعات کے ساتھ 14 لاکھ لے رہے ہیں۔


    مزید پڑھیں : سابق ڈی جی ایل ڈی اے کی گرفتاری: نیب اورپنجاب حکومت آمنے سامنے


    دوران سماعت چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کس قانون کے تحت نجی کمپنیوں سے معاہدہ کیا، جس پر ڈی جی ایل ڈی اے نے کہا کہ ایل ڈی اےقوانین کےتحت 6کمپنیوں سے معاہدہ کیا، جسٹس ثاقب نثار نے مزید کہا کہ قانون پڑھ کرسنائیں،کہیں نہیں لکھا نجی کمپنی سے معاہدہ کیا جاسکتا ہے، ترقیاتی کام تو ایل ڈی اے نے کروانے ہیں۔

    چیف جسٹس نے کمپنیوں کے مالکان ،شیئرہولڈرز کی تفصیلات کی عدم فراہمی پر اظہاربرہمی کرتے ہوئے سوال کیا کہ معاہدے کے وقت ڈی جی ایل ڈی اے کون تھا؟ ڈی جی ایل ڈی اے نے جواب دیا کہ اُس وقت ڈی جی ایل ڈی اے احد چیمہ تھے۔

    جسٹس ثاقب نثار نے استفسار کیا کہ اس احد چیمہ کا نیا عہدہ کیا ہے،ڈی جی ایل ڈی اے نے بتایا کہ احد چیمہ قائد اعظم پاور پلانٹ کے سی ای او ہیں، جس کے بعد عدالت نے احد چیمہ کی سروس پروفائل اورتنخواہوں کاریکارڈطلب کرلیا جبکہ پیراگون سٹی کا ریکارڈ بھی طلب کر لیا۔

    بعد ازاں کیس کی مزید سماعت 2 ہفتوں کیلئے ملتوی کردی۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانےکے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔