Author: عابد خان

  • نجی میڈیکل کالجز کیس، چیف جسٹس کی سماعت میں پیش نہ ہونے والوں کو وارننگ

    نجی میڈیکل کالجز کیس، چیف جسٹس کی سماعت میں پیش نہ ہونے والوں کو وارننگ

    لاہور : چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے پرائیویٹ میڈیکل کالجز سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران قرار دیا ہے کہ آئندہ چار ہفتوں میں نجی میڈیکل کالجز کے حوالے سے اقدامات اور پالیسی کے خدوخال واضح ہونا شروع ہو جائیں گے جبکہ وارننگ دی کہ سماعت میں پیش نہ ہونے والوں کیخلاف کارروائی کی جائے گی۔

    تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں نجی میڈیکل کالجوں سے متعلق کیس کی سماعت کی، چیف جسٹس نے ڈاکٹر عاصم کے وکیل کی عدم پیشی پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وکیل پیش نہ ہوئے توڈاکٹرعاصم کانام ای سی ایل میں ڈال دینگے، میڈیاپرڈاکٹرعاصم چنگےبھلےنظرآتےہیں، عدالت میں پیش ہوتے ہیں تو ہاتھ میں لاٹھی پکڑ لیتے ہیں۔

    چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ اندھابانٹےریوڑیاں،اپنےپاس ہی آئیں، ہریونیورسٹی نےاپنانظام تعلیم بنالیاہے، جس کاجو جی چاہتا ہے وہ کررہا ہے، سمجھ نہیں آتی اتنی زیادہ پرائیویٹ یونیورسٹیاں کیسے بن گئیں۔

    میڈیکل کالجز کے پرنسپلز کے پیش نہ ہونے پر چیف جسٹس کا اظہاربرہمی کیا اور کہا کہ میں روزانہ کیسزکیلئےاسلام آبادلاہورآتاجاتارہتاہوں، سماعت میں پیش نہ ہونے والوں کیخلاف کارروائی کی جائے گی، میڈیکل کالجزکےافسران کوبتایاجائے وہ ملک میں واپس آجائیں۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ ہمارا مقصد میڈیکل کالجزمیں کمی کوپوراکرناہے، انصاف کرناہے اور ڈاکٹرز اور اداروں کا وقار بھی قائم رکھناہے۔

    بعد ازان ڈاکٹر عاصم کے وکیل سردار لطیف خان کھوسہ عدالت میں پیش ہوئے۔


    مزید پڑھیں : کوئی نجی میڈیکل کالج 6 لاکھ 45 ہزار سے زائد فیس وصول نہیں کرے گا، چیف جسٹس


    دوران سماعت چیف جسٹس نے قرار دیا کہ پرائیویٹ میڈیکل کالجز کے حوالے سے قانون سازی کے لیے ڈاکٹر عاصم کی ضرورت ہو گی، ڈاکٹرعاصم کو بتا دیں کہ بلانے پر وہ عدالت میں پیش ہوں۔

    چیف جسٹس نے مزید قرار دیا کہ آئندہ چار ہفتوں میں نجی میڈیکل کالجز کے حوالے سے اقدامات اور پالیسی کے خدوخال واضح ہونا شروع ہو جائیں گے، خواہش ہے کہ اس حوالے سے قانون سازی سے قبل عوامی بحث کروائی جائے اور رائے لی جائے۔

    جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ ایک سینئر ڈاکٹر نے انہیں بتایا ہے کہ نہیں معلوم 10 سال بعد علاج کرنے کے لیے کوئی ڈاکٹر موجود ہو گا بھی یا نہیں، ہمارے ملک میں ڈاکٹرز کی یہ صورتحال ہو گئی ہے کہ سینئر ڈاکٹر بھی پریشان ہیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں ازخود نوٹس کیسز کی سماعت

    سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں ازخود نوٹس کیسز کی سماعت

    لاہور : سپریم کورٹ لاہور رجسٹری ماحولیاتی آلودگی کےبڑھنے ، پانی کی آلودگی اور اسپتالوں کےفضلہ جات ٹھکانےنہ لگانے سے متعلق کیسز کی سماعت پر چیف جسٹس نے چھ مقامات پرآلودگی جانچ کر رپورٹ طلب کرلی جبکہ  سیکرٹری ماحولیات کو وارننگ دیدی۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں چیف جسٹس ثاقب نثار نے ازخود نوٹسز کی سماعت کی، لاہور میں ماحولیاتی آلودگی کے بڑھنے پر ازخودنوٹس کیس کی سماعت میں چیف جسٹس نے حکم دیا کہ لاہور کے 6 مقامات پر آلودگی جانچ کر کل تک رپورٹ پیش کی جائے، تین مقامات لاہور کے اطراف اور تین مقامات لاہور کے اندر سے منتخب کر کے آلودگی جانچی جائے۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ماحولیاتی حد کاصحیح اندازہ لگاکررپورٹ پیش کریں، کاغذی کارروائی پوری نہیں کرنے دی جائےگی، جھوٹے اعداد وشمار پیش کیے تو سخت کارروائی ہوگی۔

    چیف جسٹس نے قرار دیا کہ محکمہ ماحولیات حکومت کا خدمتگار بنا ہوا ہے، کل صبح تفصیلی رپورٹ پیش کی جائے۔

    لاہور کے اسپتالوں کےفضلہ جات ٹھکانےنہ لگانے پر ازخودنوٹس

    چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے ہسپتالوں کے فضلہ جات ٹھکانے نہ لگانے پر ازخود نوٹس لے لیا، عدالت نے کل تک سیکرٹری صحت سے تفصیلی رپورٹ طلب کر لی۔

    جسٹس میاں ثاقب نثار نے سیکریٹری ماحولیات پر اظہاربرہمی کیا، چیف جسٹس نے سیکریٹری ماحولیات سے استفسار کیا کہ کیاآپ کوپتہ ہےکہ ماحولیات کا حال کتنا برا ہے، محکمہ ماحولیات سب سے نکما محکمہ ہے، کیا اورنج ٹرین کے این اوسی آپ نے جاری کیے۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ جب پنجاب حکومت نے کوئی منصوبہ بنانا ہو تو محکمہ سب اچھا کی رپورٹ دیتا ہے، محکمہ ماحولیات کی غیر ذمہ داری کی وجہ سے ماحولیاتی آلودگی خوفناک حد تک بڑھ گئی، جلد وہ وقت آنے والا ہے جب ماسک کے بغیر کوئی چل پھر نہیں سکے گا، آپ سیکرٹری ماحولیات ہیں، کیا آپ کے پاس آلودگی چیک کرنے والا آلہ موجود ہے۔

    چیف جسٹس نے سیکرٹری ماحولیات کو تنبیہ کیا کہ یہ لوگوں کی زندگیوں کا معاملہ ہے، عوام کی صحت سے کھیلا جا رہا ہے، اگر اعداد و شمار اور رپورٹ میں ابہام ہوا تو معطل کر دیا جائے گا۔

    پانی کی آلودگی پرازخودنوٹس کیس

    پانی کی آلودگی پرازخودنوٹس کیس کی سماعت کے دوران چیف سیکرٹری پنجاب کی جانب سےپانی کےنمونوں کی رپورٹ پیش کی گئی، رپورٹ ایک سو انتالیس ٹیوب ویلوز کے پانی کےنمونوں سےمتعلق ہے۔

    ڈی جی پنجاب فوڈاتھارٹی نےچوبیس کمپنیوں سےمتعلق رپورٹ جمع کرائی، ۔ چیف سیکرٹری پنجاب کی جانب سے آگاہ کیا گیا کہ 5 ٹیوب ویلوں کے نمونے درست نہیں آئے، دوبارہ ٹیسٹ کرا رہے ہیں، ٹیوب ویلوں کے پانی میں آرسینک کی مقدار مضر صحت نہیں ہے۔

    ڈی جی پنجاب فوڈ اتھارٹی نے بھی 24 کمپنیوں سے متعلق رپورٹ جمع کرائی، جس میں بتایا گیا کہ مضر صحت ہونے پر 24 پانی کمپنیاں سربمہر کر دی گئی ہیں۔

    چیف جسٹس آف پاکستان نے حکم دیا کہ جب تک عدالت اجازت نہ دے یہ 24 کمپنیاں کھلنی نہیں چاہیئیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • چیف جسٹس نے ملکی جامعات کوکسی بھی نئے لاء کالج کےساتھ الحاق سے روک  دیا

    چیف جسٹس نے ملکی جامعات کوکسی بھی نئے لاء کالج کےساتھ الحاق سے روک دیا

    لاہور : چیف جسٹس نے ملکی جامعات کو کسی بھی نئے لاء کالج کےساتھ الحاق سےروک دیا اور یونیوسٹیوں کے وائس چانسلرز کو لاکالجز کی انسپکشن کا حکم دیدیا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں غیر معیاری لاکالجز سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی، چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کیس کی سماعت ہوئی،دوران سماعت ملک بھرکی یونیورسٹیوں کے وی سیزعدالت میں پیش ہوئے۔

    عدالت نے پنجاب یونیورسٹی میں مستقل وائس چانسلرز کی عدم تعیناتی پر برہمی کا اظہار کیا اور چیف جسٹس پنجاب کو فوری طلب کر لیا۔

    چیف جسٹس  نے چیف سیکرٹری سے استفسار کیا کہ مستقل تعیناتیاں ابھی تک کیوں نہیں کی گئیں، جس پر چیف سیکرٹری نے جواب دیا کہ سرچ کمیٹی بنادی گئی ہے جلد تعیناتیاں کر دی جائیں گی۔

    عدالت نے سرکاری یونیورسٹیوں کو نئے لاکالجز کے الحاق سے روک دیا اور وی سیز کو انسپکشن کا حکم دے دیا، چیف جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کیوں نہ وکالت کیلئے انٹری ٹیسٹ ختم کردیں،اگرنقل مار کر وکیل بنناہے توایسے سسٹم کوختم کردیں۔

    چیف جسٹس نے سینئر وکیل حامد خان کی سر براہی میں کمیٹی قائم کردی اور کہا کہ کمیٹی قانون کی تعلیم میں اصلاحات،لا کالجز میں بہتری کے لئے کام کرے ، وہ وکیل نہیں چاہتے جو پان ،دودھ بیچیں اور انہیں ڈگری مل جائے۔

    سپریم کورٹ نے ہائیکورٹس کو لاء کالجز سے متعلق کیسز کی سماعت سے روک دیا ہے۔


    مزید پڑھیں : سرکاری جامعات کے غیرمعیاری نجی کالجز سے الحاق کا مقدمہ، یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز کو طلب


    چیف جسٹس نے لاء کالجز سے متعلق وائس چانسلرز کو بیان حلفی جمع کرانے کا حکم دیتے ہوئے ریمارکس میں کہا کہ سمجھ نہیں آتی اتنی پرائیویٹ یونیورسٹیاں کھل کیسےگئیں۔

    یاد رہے گذشتہ سماعت میں سرکاری جامعات کے غیرمعیاری نجی لاء کالجز سے الحاق کے مقدمہ میں سپریم کورٹ نے یونیورسٹیوں کےوائس چانسلرز کو طلب کر لیا، چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار کا کہنا ہے ہفتے اور اتوار کو بھی عدالت لگےگی، چھ ماہ میں سب کچھ ٹھیک کریں گے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • متحدہ اپوزیشن کومال روڈ پراحتجاج کی اجازت مل گئی، رات 12 بجےتک احتجاج ختم کرنےکاحکم

    متحدہ اپوزیشن کومال روڈ پراحتجاج کی اجازت مل گئی، رات 12 بجےتک احتجاج ختم کرنےکاحکم

    لاہور: لاہور ہائیکورٹ نے پاکستان عوامی تحریک کی زیر قیادت اپوزیشن کو رات 12 بجے تک دھرنے کی اجازت دے دی، عدالت نے حکم دیا کہ رات 12بجے کے بعد انتظامیہ ٹریفک نظام بحال کرائے گی۔

    تفصیلات کے مطابق لاہور ہائیکورٹ میں جسٹس محمد امین الدین ، جسٹس شاہد جمیل اور جسٹس شاہد کریم پر مشتمل فل بنچ نے پی اےٹی کادھرنا رکوانےکی درخواستوں پر سماعت کی، عدالت نے سیکریٹری داخلہ کی عدم پیشی پر اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ سیکریٹری داخلہ کوخودآکرصورتحال واضح کرنی چاہیے تھی۔

    ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے بتایا کہ مال روڈ پر سکیورٹی خدشات ہیں اس حوالے سےدھرنے کے منتظمین کو آگاہ کیا گیا ہے اور انھیں دھرنے کی اجازت نہیں دی گئی، عدالتی حکم کے تحت مال روڈ پر پابندی کا نوٹیفیکیشن جاری کیا گیا۔

    جس پر عدالت نے کہا کہ دھرنوں کے حوالے سے کوئی قانون پاس کیا گیا ہے تو عدالت میں پیش کیا جائے ، حکومت نے دھرنے روکنے کے حوالے سے نوٹیفیکیشن کس قانون کے تحت جاری کیا، لگتا ہے حکومت خود بھی اس معاملے میں سنجیدہ نہیں کیونکہ اس نے بھی مال روڈ پر جلسے جلوس کرنےہوتے ہیں۔

    تاجر رہنماء نعیم میر نے کہا کہ دھرنوں سے کاروبار تباہ ہو گیا ہے ، حکومتی پالیسی کے تحت دھرنے کو ناصر باغ تک محدود کیا جائے اور میڈیا کو مال روڈ پر دھرنے کے شرکاء کی کوریج سے روکا جائے۔

    اے کے ڈوگر ایڈووکیٹ نے دلائل دیے کہ 2014 سے اپوزیشن حکومت کے خلاف احتجاج کر رہی ہے حالانکہ ہائی کورٹ نے اس سے قبل عوامی تحریک اور پی ٹی آئی کو اسلام آباد مارچ اور دھرنے سو روکا تھا مگر اس پر عمل نہیں ہوا۔

    پیپلز پارٹی کے وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ ہم یقین دلاتے ہیں کہ ایک پتہ بھی نہیں ہلے گا ، جس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ تاجروں سے زیادہ حقوق ان بچوں اور مریضوں کے ہیں جو اسکول اور اسپتال نہیں پہنچ سکتے . سیاسی جماعتوں کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔

    عدالت نے عوامی تحریک کے وکیل سے استفسار کیا کہ بتایا جائے عوامی تحریک کا کیا پلان ہے وہ دھرنا دے گی یا جلسہ کے بعد مال سے چلے جائیں گے۔

    جس پر عوامی تحریک کے وکیل اظہر صدیق نے آگاہ کیا کہ رات گئے تک جلسہ ختم کیا جا سکتا ہے تاہم اگر حکومت نے تشدد کا راستہ اختیار کیا تو پھر دھرنا ختم کرنے کا کوئی وقت نہیں دے سکتے۔

    لطیف کھوسہ نے کہا کہ وزیراعظم کی جانب سے عدالتی فیصلےکو ردی کی ٹوکری میں پھینکنے کی باتیں کی جارہی ہیں ، متحدہ اپوزیشن کا جلسہ آئین کی حکمرانی کے لئے دھرنا دے رہی ہیں، عدالت کو یقین دلاتے ہیں کہ رات گئے دھرنا ختم کر دیا جائے گا اور پرامن رہنے کی مکمل ضمانت دیتے ہیں، احتجاج کرنا ہمارا آئینی اور قانونی حق ہے۔

    جس پر عدالت نے قرار دیا کہ احتجاج کا حق شہریوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کے ساتھ مشروط ہے۔

    عدالت نے محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے پاکستان عوامی تحریک کو احتجاج کیلئے مال روڈپر 12بجے تک کی اجازت دیدی اور حکم دیا کہ میڈیارات 12بجے کے بعد دھرنے کی کوریج نہیں کریگا اور رات 12بجےکےبعدانتظامیہ ٹریفک نظام بحال کرائے گی۔

    عدالت نے احتجاجی تحریک چلانے کیخلاف درخواست پر وکلا31جنوری کو بحث کیلئے طلب کرلیا۔


    مزید پڑھیں : سانحہ ماڈل ٹاؤن، تخت لاہورگرانے کے لئے متحدہ اپوزیشن بڑے احتجاج کیلئے تیار


    گذشتہ روز لاہور ہائی کورٹ کے فل بنچ نے سیاسی جماعتوں کے مال روڈ پر 17جنوری کو ہونے والا دھرنا روکنے کی درخواستوں پر نوٹس جاری کرتے ہوئے عوامی تحریک اور پنجاب حکومت سمیت فریقین سے جواب طلب کیا تھا۔

    درخواست گزاروں نے عدالت کو بتایا کہ عوامی تحریک ، پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی سمیت سیاسی جماعتوں نے 17 جنوری کو مال روڈ پر دھرنا دینے کا اعلان کیا ہے، جو آئین کی خلاف ورزی ہے اس دھرنے سے معاشی سرگرمیاں متاثر ہوں گی اور امن وامان کے خدشات پیدا ہوں گے لہذا عدالت سیاسی جماعتوں کے دھرنے کو غیر آئینی اور کالعدم قرار دے۔

    درخواست گزاروں نے دھرنے کے خلاف حکم امتناعی کی استدعا کی جس پر عدالت نے قرار دیا کہ اگر مال روڈ پر جلسے جلوسوں کے حوالے سے کوئی پالیسی موجود ہے تو حکومت اس پر عمل کروائے اور قانون کے مطابق عمل کرے ۔عدالت نے قرار دیا کہ فریقین کو سنے بغیر حکم امتناعی جاری نہیں کیا جائے گا۔


    اگرآپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • معذور افراد کو ’خصوصی فرد‘ لکھا جائے، عدالت کا حکم

    معذور افراد کو ’خصوصی فرد‘ لکھا جائے، عدالت کا حکم

    لاہور: ہائی کورٹ نے معذور افراد کے لیے قانون مین گونگا، بہرا اور لنگڑا کے الفاظ حذف کرنے کا حکم دیتے ہوئے ہدایت کی ہے کہ قانون میں معذور افراد کو خصوصی اہمیت کا حامل فرد قرار دیا جائے۔

    تفصیلات کے مطابق لاہور ہائی کورٹ میں معذور افراد کے لیے مخصوص الفاظ استعمال کرنے کے خلاف درخواست دائر کی گئی جس میں قانون میں درج ہونے والے مختلف الفاظ کو چیلنج کیا گیا۔

    درخواست میں نشاندہی کی گئی کہ  1981کے آرڈیننس میں معذور افراد کے لیے  گونگے ،بہرے اور اندھے کے الفاظ درج ہیں جن کی وجہ سے معذور افراد کی معاشرے میں تضحیک ہوتی ہے لہذا ایسے تمام الفاظ کو قانون سے حذف کیا جائے.

    سرکاری وکیل نے عدالت کو بتایا کہ معذور افراد کے حوالے سے قانون میں ترمیم کرکے اصلاحات متعارف کروائی جا رہی ہیں جس کے بعد ان پر عملدرآمد شروع کیا جائے گا۔

     چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس منصور علی شاہ نے درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے حکم دیا کہ معذور افراد کو خصوصی فرد کہا اور لکھا جائے۔

    لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے حکم دیا کہ 1981 کے آرڈیننس سے  گونگے، بہرے اور اندھے کے الفاظ حذف کیے جائیں اور اندھے کے لیے بینائی سے محروم کا لفظ استعمال کیا جائے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • عوامی تحریک دھرنا: ہائی کورٹ نے دھرنے کے خلاف درخواست مسترد کردی

    عوامی تحریک دھرنا: ہائی کورٹ نے دھرنے کے خلاف درخواست مسترد کردی

    لاہور: ہائی کورٹ نے 17 جنوری کو سیاسی جماعتوں کا دھرنا روکنے کی استدعا مسترد کر دی ‘ عدالت نے وفاقی حکومت کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کیس کی سماعت کے لیے لارجر بنچ بنانے کی سفارش کردی۔

    تفصیلات کے مطابق لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس شاہد کریم نے کیس کی سماعت کی جہاں درخواست گزار نے دھر نوں کو آئین کی خلاف ورزی قراردیتے ہوئے روکنے کی استدعا کی تاہم عدالتِ عالیہ نے معاملہ لارجر بنچ کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا۔

    درخواست گزار’اے کے ڈوگر ایڈووکیٹ‘نےدلائل دیتے ہوئے کہا کہ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والی حکومت کے خلاف دھرنے کا اعلان غیر آئینی اور غیر قانونی ااقدام ہے . عوامی تحریک سمیت سیاسی جماعتوں کی جانب سے دھرنے کا اعلان آئین کی خلاف ورزی ہے ۔

    انہوں نے یہ بھی کہا کہ سیاسی جماعتوں کے دھرنے سے ملک میں انتشار پھیلنے کا خدشہ ہے اور شہری زندگی مفلوج ہونے سے معیشت کو شدید خطرات لاحق ہوں گے‘ انہوں نے استدعا کی کہ عدالت سیاسی جماعتوں کو سترہ جنوری کو دھرنا دینے سے روکنے کا حکم دے اور سترہ جنوری کے احتجاج کے خلاف حکم امتناعی جاری کرے ۔

    عدالت نے دھرنا روکنے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے وفاقی حکومت کو نوٹس جاری کر دئیے، اور کیس لارجر بنچ کے پاس سماعت کے لیے بھجوانے کی سفارش کرتے ہوئے کیس چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کو بھجوا دیا۔ .

    یاد رہے کہ پاکستان عوامی تحریک نے سانحہ ماڈل ٹاؤ ن میں حکومت کی جانب سے موثر کارروائی نہ کیے جانے کے سبب پنجاب حکومت کے خلاف 17 مارچ کو احتجاج کا اعلان کیا ہے جبکہ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے بھی احتجاج کی بھرپور حمایت کرتے ہوئے اپنے کارکنان کو تیار رہنے کا حکم دے رکھا ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • لاہور ہائیکورٹ کی زینب کے قاتل کی گرفتاری کے لئے  مزید  48 گھنٹوں کی مہلت

    لاہور ہائیکورٹ کی زینب کے قاتل کی گرفتاری کے لئے مزید 48 گھنٹوں کی مہلت

    لاہور : لاہور ہائیکورٹ نے زینب کے قاتل کی گرفتاری کے لئے آئی جی پنجاب کو 48 گھنٹوں کی مزید مہلت دے دی، چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر پولیس پہلے واقعات کے بعد سنجیدہ اقدامات کرتی تو زینب اور دیگر بچیوں کو بچایا جا سکتا تھا۔

    تفصیلات کے مطابق لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس سید منصور علی شاہ کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی۔ آئی جی پنجاب قصور میں مصروفیت کی بناء پر عدالت پیش نہ ہوئے۔

    ایڈیشنل آئی جی کی جانب سے عدالت میں رپورٹ پیش کی گئی۔

    ایڈیشنل آئی جی نے کہا کہ زینب کے ملزم کی گرفتاری کے لئے تفتیشی ٹیمیں تشکیل دے دی گئی ہیں جلد ملزم تک پہنچ جائیں گے۔

    انہوں نے عدالت کو بتایا کہ پنجاب میں گذشتہ دو برسوں میں دس سال سے کم عمر بچوں اور بچیوں سے زیادتی کے تیرہ سو چالیس واقعات پیش آئے، قصور شہرمیں دو برسوں کے دوران چوبیس کم سن بچوں اور بچیوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

    آئی جی کی رپورٹ میں کہا گیا کہ زینب کا قتل کرنے والا سیریل کلر ہے، قتل کرنے والےشخص کی ڈی این اے کی رپورٹ آگئی، زینب کاقاتل وہی ہےجس نے پہلے 7بچیوں کوقتل کیا، سیریل کلر نے پہلا قتل جون2015میں کیا۔

    ڈی جی فرانزک سائنس لیبارٹری نے عدالت کو آگاہ کیا کہ گذشتہ چھ دنوں میں گیارہ سو مشتبہ افراد سے پوچھ گچھ کی گئی، چھیانوے مشتبہ افراد کے ڈین این اے کے نمونے لئے گئے۔

    چیف جسٹس منصورعلی شاہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ بچے سب کے سانجھے ہیں ، پہلےملزم کوگرفتارکرنےکیلئےکارروائی کیوں نہیں کی گئی، 4ماہ میں صرف67لوگوں کاڈی این اےٹیسٹ ہوا، اب 100،100افرادکاڈی این اےٹیسٹ کیاجارہاہےاگر پہلے سنجیدہ اقدام ہوتا توآج زینب زندہ ہوتی۔

    ڈی جی فرانزک نے بتایا کہ 200افرادکےڈی این اےٹیسٹ کیےمگرمیچ نہیں ہوا ملزم قصورمیں ہے توبچ نہیں پائے گا۔

    عدالت نے قصور میں دو چائلڈ کورٹس تشکیل دیتے ہوئے بچوں سے زیادتی کے مقدمات کی روزانہ کی بنیاد پر سماعت کی ہدایت کر دی جبکہ عدالت نے قصور میں جنسی زیادتی کا شکار ایک اور بچی کائنات کا مکمل علاج کروانے کا حکم دے دیا۔


    مزید پڑھیں : چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کا زینب کے قاتل کو گرفتار کرنے کیلئے 36گھنٹے کا الٹی میٹم


    عدالت نے کیس کی سماعت سترہ جنوری تک ملتوی کرتے ہوئے آئی جی پنجاب، جے آئی ٹی کے سربراہ، سیکرٹری صحت پنجاب اور سیکرٹری ایجوکیشن کو ذاتی حیثیت میں طلب کر لیا۔

    یاد رہے گذشتہ سماعت میں چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے آئی جی پنجاب کو قصور میں سات سالہ بچی کے قاتل کو گرفتار کرنے کے لئے چھتیس گھنٹے کا الٹی میٹم دیتے ہوئے پنجاب بھر میں معصوم بچیوں اور بچوں سے زیادتی کے تمام مقدمات کا ریکارڈ طلب کر لیا تھا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پر شیئر کریں۔

  • زینب قتل کیس، مبینہ قاتل  کی ایک اور اہم سی سی ٹی وی فوٹیج سامنے آگئی

    زینب قتل کیس، مبینہ قاتل کی ایک اور اہم سی سی ٹی وی فوٹیج سامنے آگئی

    قصور : سانحہ قصور میں زینب کے قتل میں ملوث مبینہ شخص کی سی سی ٹی وی فوٹیج سامنے آگئی ، جس میں ملزم کو مقتولہ کے گھر کے باہر چکر لگاتے باآسانی دیکھا جاسکتا ہے جبکہ پولیس نے تفتیش کا دائرہ کار بڑھا دیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق زینب قتل کیس کے حوالے سے ایک اہم ویڈیو سامنے آئی، فوٹیج میں مشکوک شخص کو زینب کے گھر کے سامنے چکر لگاتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے، فوٹیج میں نظر آنے والا مشکوک شخص مبینہ ملزم سے مشابہت رکھتاہے۔

    فوٹیج میں نظرآنے والے ملزم کا قد تقریباً5فٹ 10انچ ہے، شلوار قمض میں ملبوس شخص مشکوک انداز میں گلی کاچکرلگارہا ہے، ملزم 4 جنوری شام پانچ بج کر چھبیس منٹ پر گلی کے باہر گھوم رہا ہے جبکہ زینب اسی روز لاپتہ ہوئی تھی۔

    https://youtu.be/LSUlaOJFplM

    سی سی ٹی وی فوٹیج سامنے آنے کے بعد تحقیقاتی اداروں نے مشکوک شخص سے متعلق تفتیش شروع کردیں۔

    یاد رہے کہ اس سے قبل بھی واقعے میں مبینہ ملزم کی ملتی جلتی فوٹیج سامنے آئی ہیں، جس میں ملزم زینب کا ہاتھ پکڑ کر اسے ساتھ لے جارہا تھا۔

    تحقیقاتی ادارے نے قصور واقعہ سے متعلق شواہد اکٹھے کر رہے ہیں اور نئی سی سی ٹی وی کی بنیاد پر بھی انہوں نے تفتیش کا دائرہ کار بڑھا دیا ہے اور اس بات کا جائزہ لیا جا رہا ہے کہ آیا نئی فوٹیج میں نظر آنے والے شخص کا زینب کے قتل کیس سے کوئی تعلق ہے یا نہیں۔

    امید کی جا رہی ہے کہ سکیورٹی ادارے ملزم کو پکڑنے میں جلد کامیاب ہو جائیں گے۔

    دوسری جانب زینب قتل کیس میں چارروز بعد بھی ملزم کاسراغ نہ لگایا جا سکا، چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کی 36 گھنٹےکی ڈیڈ لائن ختم ہونےمیں کچھ وقت باقی ہے۔ 100 سے زائد افراد کے ڈی این اےٹیسٹ کیے گئے جبکہ جیو فینسنگ کےذریعے247افراد واچ لسٹ میں شامل ہوئے۔

    سات سالہ زینب کی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں زیادتی کی تصدیق ہوئی ، زینب کو زیادتی کے بعد گلا گھونٹ کر ہلاک کیا گیا جب کہ زینب کی نازک کلائیوں کو بھی تیز دھار آلے سے کاٹنے کی کوشش کی گئی اور بچی کے جسم پر تشدد کے نشانات بھی نمایاں تھے۔

    گذشتہ روز پنجاب حکومت کے ترجمان ملک احمد خان نے دعویٰ کیا ہے کہ زینب قتل کیس کی تحقیقات کے دوران ملنے والے ثبوت کی بدولت ملزم کے قریب پہنچ چکے ہیں۔

    آئی جی پنجاب نے بتایا تھا کہ گذشتہ دو برسوں میں قصور میں ننھی بچیوں سے زیادتی کے گیارہ واقعات ہوئے، دو سو ستائیس مشتبہ افراد کرفتار کیا گیا، جن میں سے سڑسٹھ افراد کا ڈی این اے ٹیسٹ کرایا گیا جبکہ زیادتی کے چھ واقعات میں ایک ہی ملزم کا ڈی این اے میچ ہوا ہے۔

    واضح  رہے کہ قصور میں 7 سالہ زینب 5 جنوری کی شام ٹیوشن پڑھنے کے لیے گھر سے نکلی تھی اور پانچ دن بعد اس کی لاش کچرا کنڈی سے ملی تھی جب کہ زینب کے والدین عمرے کے لیے گئے ہوئے تھے، بچی کی لاش ملنے پر قصور میں ہنگامے پھوٹ پڑے تھے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کا زینب کے قاتل کو گرفتار کرنے کیلئے 36گھنٹے کا الٹی میٹم

    چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کا زینب کے قاتل کو گرفتار کرنے کیلئے 36گھنٹے کا الٹی میٹم

    لاہور : لاہور ہائیکورٹ نے آئی جی پنجاب کو قصور میں سات سالہ بچی کے قاتل کو گرفتار کرنے کے لئے چھتیس گھنٹے کا الٹی میٹم دے دیا جبکہ عدالت نے پنجاب بھر میں معصوم بچیوں اور بچوں سے زیادتی کے تمام مقدمات کا ریکارڈ طلب کر لیا۔

    تفصیلات کے مطابق لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس سید منصور علی شاہ اور جسٹس صداقت علی خان پر مشتمل دو رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی۔ درخواست گزار صفدر شاہین پیرزادہ ایڈووکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ پنجاب بھر میں بچوں اور بچیوں سے زیادتی کے واقعات میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ موثر قانون نہ ہونے سے ملزمان کو قانون کا ڈر نہیں اور وہ آزاد گھوم رہے ہیں۔

    عدالتی حکم پر آئی جی پنجاب عارف نواز خان نے عدالت کو آگاہ کیا کہ زینب کے قاتل کی گرفتاری کے لئے ٹیمیں تشکیل دے دی گئی ہیں۔ ملزم کی نشاندہی کرنے والے کے لئے ایک کروڑ انعام بھی رکھ دیا گیا ہے۔

    آئی جی پنجاب نے بتایا کہ گذشتہ دو برسوں میں قصور میں ننھی بچیوں سے زیادتی کے گیارہ واقعات ہوئے، دو سو ستائیس مشتبہ افراد کرفتار کیا گیا، جن میں سے سڑسٹھ افراد کا ڈی این اے ٹیسٹ کرایا گیا جبکہ زیادتی کے چھ واقعات میں ایک ہی ملزم کا ڈی این اے میچ ہوا۔

    جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ بچے سب کے سانجھے ہیں، زینب کا معاملہ افسوس ناک ہے پہلے بھی ایسے واقعات ہوئے ان کے مقدمات کہاں درج ہوئے۔


    مزید پڑھیں : قصورمیں دوروزبعد معمولات زندگی بحال


    جسٹس سید منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ واقعہ سے معاشرے میں بے چینی پھیلی ہے، عدالت نے زینب سے زیادتی کے ملزم کو چھتیس گھنٹے میں گرفتار کرنے کا حکم دیتے ہوئے پنجاب بھر میں بچیوں اور بچوں سے زیادتی کا ریکارڈ طلب کر لیا۔

    عدالت نے سماعت پندرہ جنوری تک ملتوی کرتے ہوئے آئندہ سماعت پر ڈی جی فرانزک سائنس لیبارٹری کو بھی طلب کر لیا۔

    واضح رہے کہ قصور میں کمسن زینب کو پانچ روز پہلے اغوا کیا گیا تھا، جس کے بعد سفاک درندوں نے بچی کو زیادتی نشانہ بنا کر قتل کردیا تھا، جس کے خلاف ملک بھر میں لوگ سراپا احتجاج ہیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پر شیئر کریں۔

  • نواز شریف ، شہباز شریف سمیت 16 لیگی اراکین کیخلاف توہین عدالت کی درخواست پر فیصلہ محفوظ

    نواز شریف ، شہباز شریف سمیت 16 لیگی اراکین کیخلاف توہین عدالت کی درخواست پر فیصلہ محفوظ

    لاہور : لاہور ہائیکورٹ نے سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف ، وزیر اعلی شہباز شریف سمیت سولہ لیگی اراکین کے خلاف توہین عدالت کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔

    تفصیلات کے مطابق لاہور ہائی کورٹ میں لاہور ہائی کورٹ میں سابق وزیر اعظم نواز شریف ، وزیر اعلی شہباز شریف سمیت سولہ لیگی اراکین کے خلاف توہین عدالت کی درخواست پر سماعت ہوئی۔

    درخواست گزار سول سوسائٹی کی آمنہ ملک کی جانب سے مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ لیگی اراکین اعلی عدلیہ کے خلاف نازیبا الفاظ استعمال کر رہے ہیں۔ اعلی عدلیہ کے خلاف بیان بازی توہین عدالت کے زمرے میں آتی ہے۔


    مزید پڑھیں : توہین عدالت کیس، نواز شریف سمیت 14 مسلم لیگی رہنماؤں کو نوٹس جاری


    درخواست میں استدعا کی گئی کہ ن لیگی رہنما عوام کو اداروں کے خلاف اکسا رہے ہیں ہے، ان شخصیات کے عدلیہ کے خلاف بیانات پر پابندی اور توہین عدالت کی کارروائی کی جائے۔

    عدالت نے دلائل سننے کے بعد درخواست کے قابل سماعت ہونے پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پر شیئر کریں۔