Author: عابد خان

  • لاہور ہائیکورٹ کا سانحہ ماڈل ٹاؤن انکوائری رپورٹ 30 دن میں شائع کرنے کا حکم

    لاہور ہائیکورٹ کا سانحہ ماڈل ٹاؤن انکوائری رپورٹ 30 دن میں شائع کرنے کا حکم

    لاہور: لاہور ہائکیورٹ نے سانحہ ماڈل ٹاؤن رپورٹ شائع کرنے کے حکم کیخلاف حکومتی اپیل مسترد کرتے ہوئے سانحہ ماڈل ٹاؤن انکوائری رپورٹ شائع کرنے کا حکم دیدیا۔

    تفصیلات کے مطابق لاہور ہائیکورٹ میں جسٹس عابد سعیدشیخ کی سربراہی میں3رکنی بینچ نے حکومتی اپیل پر فیصلہ سناتے ہوئے رپورٹ شائع کرنے کا سنگل بینچ کا حکم برقرار رکھا۔

    لاہور ہائکیورٹ نے سانحہ ماڈل ٹاؤن رپورٹ شائع کرنے کے حکم کیخلاف حکومتی اپیل مسترد کردی اور باقرنجفی رپورٹ 30 دن میں شائع کرنے کا حکم دیدیا۔

    عدالت نے یہ بھی حکم دیا کہ متاثرین کو فوری طور پر رپورٹ کی کاپی فراہم کی جائے۔

    لاہور ہائیکورٹ کا کہنا ہے کہ انکوائری رپورٹ ماڈل ٹاون کےٹرائل پراثراندازنہیں ہوگی ، سانحہ ماڈل ٹاؤن کا ٹرائل قانون کے مطابق کارروائی جاری رکھاجائے گا۔

    باقرنجفی رپورٹ30دن میں شائع کرنےکا تحریری فیصلہ جاری


    لاہور ہائیکورٹ نے باقرنجفی رپورٹ30دن میں شائع کرنےکا تحریری فیصلہ جاری کردیا، تحریری تفصیلی فیصلہ101صفحات پرمشتمل ہے۔

    تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن متاثرین کو فوری طور پر رپورٹ فراہم کی جائے، سانحہ ماڈل ٹاؤن کا ٹرائل جاری رہے گا۔

    فیصلے میں لاہور ہائیکورٹ نے پنجاب حکومت کےسنگل بینچ کیخلاف استعمال الفاظ پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا اور کہا کہ پنجاب حکومت نےاپیل میں جج کیخلاف بعض نامناسب الفاظ استعمال کیے، کسی بھی فیصلےپرتنقید کی جاسکتی ہے مگر جج کی ذات پرنہیں، ججز پر تنقید سے عوام میں عدلیہ کی ساکھ متاثرہوتی ہے۔

    تفصیلی فیصلہ میں کہا گیا کہ ماتحت عدالت میں ماڈل ٹاؤن کیس پر کوئی اثرنہیں پڑناچاہیے، 30دن کےاندرعوام کےلئے رپورٹ شائع کی جائے۔


    مزید پڑھیں : سانحہ ماڈل ٹاؤن انکوائری رپورٹ: پنجاب حکومت کی اپیل پر فیصلہ محفوظ


    یاد رہے کہ جسٹس مظاہرعلی اکبر نے متاثرین کی درخواست پررپورٹ شائع کرنے کا حکم دیا تھا، جس کے بعد حکومت نےعدالتی حکم کے خلاف اپیل دائر کر رکھی ہے۔

    وکلا کے دلائل مکمل ہونے کے بعد 24نومبر کو عدالت نے فیصلہ محفوظ کرلیا تھا جبکہ  ہائیکورٹ میں اس معاملے سے متعلق23 سے زائد سماعتیں ہوچکی ہیں۔

    دوسری جانب پنجاب حکومت نے موقف اختیار کیا کہ سنگل بنچ نے حکومتی موقف سنے بغیر فیصلہ دیا جبکہ انکوائری حکومت نے حقائق جاننے کے لیے کروائی اسے منظر عام پر لانا یا نہ لانا حکومت کی صوابدید ہے اس لیے سنگل بنچ کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جائے۔

    عدالتی فیصلے کے بعد متاثرین اور عوامی تحریک کے رہنماوں نے رپورٹ کے حصول کے لیے درخواست ہوم سیکرٹری کے دفتر جمع کروا دی ہے۔

    واضح رہے کہ 3 سال قبل لاہور کے علاقے ماڈل ٹاؤن میں پولیس کی جانب سے منہاج القرآن مرکز کے ارد گرد سے رکاوٹیں ہٹانے کے نام پر آپریشن کیا گیا جہاں کارکنوں اور پولیس کے درمیان سخت مزاحمت ہوئی۔

    اس دوران پولیس کے شدید لاٹھی چارج کے سبب 14 افراد جاں بحق اور درجنوں زخمی ہوگئے تھے۔

    اسی روزایس ایچ او کی مدعیت میں ڈاکٹرطاہرالقادری کے بیٹے حسین محی الدین سمیت 56 اورتین ہزار نامعلوم افراد خلاف ایف آئی آر کاٹ دی گئی ‌تھی، معاملہ سنگین ہوا توحکومت نےاکیس جون دو ہزارچودہ کو صوبائی وزیر قانون رانا ثناءاللہ سے استعفیٰ لے لیا مگرملزمان کا تعین نہ کیا جاسکا۔

    ڈاکٹر طاہر القادری اسلام آباد کی طرف قصاص مارچ کیا، جس کے بعد دھرنے کے نتیجے میں ماڈل ٹاون واقعہ کی ایف آئی آر درج ہوئی، ایف آئی آر میں وزیراعظم نواز شریف ، وزیراعلی پنجاب شہباز شریف اور متعدد وزراء کو نامزد کیا گیا۔

    عوامی تحریک نے وزیراعلی پنجاب کی بنائی جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم کا بائیکاٹ کرتے ہوئے اسے ماننے سے انکارکر دیا، جے آئی ٹی نے چند پولیس والوں کو قصور وار ٹھہراتے ہوئے ایف آئی آر میں نامزد تمام افراد کو بے گناہ قرار دیا گیا۔ یوں پنجاب کی وزرات قانون کا قلم دان ایک بار پھر رانا ثنااللہ کےسپرد کردیا گیا۔

    پنجاب حکومت کی ہدایت پر 5 رکنی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم ) تشکیل دی گئی تھی، جس کے ممبران میں کوئٹہ پولیس چیف عبدالرزاق چیمہ، آئی ایس آئی کے کرنل احمد بلال، آئی بی کے ڈائریکٹر محمد علی، ایس ایس پی رانا شہزاد اکبر اور ڈی ایس پی سی آئی اے خالد ابوبکر شامل ہیں۔

    سانحے میں ذمہ دار ٹھہرائے جانے والے سابق ایس پی سیکیورٹی علی سلمان بیرون ملک پرواز کرچکے ہیں جبکہ ایک انسپکٹر عامر سلیم سمیت پانچ پولیس اہلکار جیل میں قید ہیں۔

    رپورٹ کے مطابق مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے تمام ممبران نے واقعے کے مقدمے میں نامزد وزیر اعلیٰ پنجاب اور سابق وزیر قانون کے خلاف موجود الزامات کو مسترد کرتے ہوئے انہیں بے گناہ قرار دیا۔

    وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف اور وزیر قانون رانا ثناء اللہ کو سانحہ ماڈل ٹاؤن میں کلین چٹ دیئے جانے پر پاکستان عوامی تحریک (پی اے ٹی) نے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی رپورٹ مسترد کرتے ہوئےملک گیر احتجاج کا اعلان کیا۔

    اس موقع پر عوامی تحریک کی طرف سے کچھ مطالبات بھی پیش کیے گئے۔ اس کیس کو فوجی عدالت میں منتقل کیا جائے۔ جے آئی ٹی رپورٹ کو شائع کیا جائے۔ ایک نئی ،غیر جانبدار جے آئی ٹی تشکیل دی جائے۔ چونکہ پولیس ماڈل ٹاؤن سانحے میں ملوث تھی، لہذا اسے جے آئی ٹی کا حصہ نہیں بنانا چاہیے۔

    دھرنے کے دوران ہم سے معاہدہ کیا گیا تھا کہ باہمی معاہدے کے تحت جے آئی ٹی بنائی جائے گی، لیکن جے آئی ٹی بنانے سے پہلے ہمارے تحفظات نہیں سنے گئے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پر شیئرکریں۔

  • عدالت کا خصوصی بچوں کے اسکول میں کیمرے نصب کرنے کا حکم

    عدالت کا خصوصی بچوں کے اسکول میں کیمرے نصب کرنے کا حکم

    لاہور: چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ سید منصور علی شاہ نے خصوصی بچوں پر تشدد کی روک تھام کو یقینی بنانے کے لیےہر بس کے ساتھ پولیس کا ایک اہلکار تعینات کرنے اور اسکولوں میں کیمرے نصب کرنےکا حکم دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق آج لاہور ہائی کورٹ میں کے چیف جسٹس سید منصور علی شاہ نے بیرسٹر سارہ بلال کی درخواست پر سماعت کی‘ درخواست میں کہا گیا ہے کہ خصوصی بچوں پر تشدد کی روک تھام کے لیے اقدامات کیےجائیں۔

    سماعت کے دوران ڈی پی او سیالکوٹ نے عدالت کو بتایا کہ بچوں کو تشدد کا نشانہ بنانے والے بس کنڈیکٹر پر مقدمہ درج کرکے گرفتار کر لیا گیا ہے جبکہ محکمہ اسپیشل ایجوکیشن کی جانب سے عدالت کو بتایا گیا کہ پنجاب بھر میں خصوصی بچوں کے سکولوں کے لیے 6000 کے قریب اسٹاف ہےجسے مرحلہ وار تربیت دی جاتی ہے‘ جبکہ ان بچوں کو لانے اور لے جانے کے لیے 377 بسیں موجود ہیں ۔

    مکمل معلومات اور رپورٹ پیش نہ کرنے پر عدالت نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ افسران کو علم ہی نہیں کہ ان کے نیچے کیا ہورہا ہے ‘ افسران آرام کر رہے ہیں‘ عملے کی تربیت کا انتظام کوئی نہیں ‘ بسوں میں کیمرے کی وجہ سے یا موبائل ویڈیو سے معاملہ سامنے آیا ہے دیگر مقامات اور سکولوں میں کیا ہو رہا ہے کیسے پتہ چلے گا۔

    عدالت نے استسفار کیا کہ پہلے بھی بچوں پر تشدد کے واقعات سامنے آتے رہے ہیں‘ ان میں ذمہ داروں کے خلاف کیا کارروائی کی گئی۔ اس قبل ہونے والی سماعت میں عدالت نے خصوصی بچوں کی ہر بس کے ساتھ پولیس کا ایک اہلکار تعینات کرنے کا حکم دیا تھا ۔ آج کی سماعت میں اسکولوں میں کیمرے نصب کرنے کا حکم دیتے ہوئے کیس کی سماعت چودہ دسمبر تک ملتوی کر دی۔

    یاد رہے کہ خصوصی بچوں پر بڑھتے ہوئے تشدد کے بعد عدالت میں درخواست دائر کی گئی جس میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ ’گونگے بہرے بچوں پر سرکاری کنڈیکٹر کا تشدد غیر انسانی سکول ہے، واقعے میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کی جائے اور گونگے بہرے بچوں پر تشدد روکنے کے لیے خصوصی اقدامات کا فوری حکم دیا جائے‘۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

     

  • مریم نواز کے عدلیہ مخالف ٹویٹ‘ عدالت نے نوٹس جاری کردیا

    مریم نواز کے عدلیہ مخالف ٹویٹ‘ عدالت نے نوٹس جاری کردیا

    لاہور : ہائیکورٹ نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کی بیٹی مریم نواز کے عدلیہ مخالف سوشل میڈیا پر میسیجز کے خلاف درخواست پر  نوٹس جاری کر دیے   جبکہ نواز شریف کے خلاف توہین عدالت کی تمام درخواستیں یکجا کرنے کا حکم دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس شاہد کریم نے سول سوسائٹی کی رکن آمنہ ملک کی درخواست پر سماعت کی ۔ درخواست گزار کے  وکیل نے بتایا کہ پانامہ کیس کے فیصلے کے بعد  نواز شریف مسلسل عدلیہ سمیت اہم ملکی اداروں کو ہدف تنقید بنا رہے ہیں اور توہین آمیز تقاریر کر رہے ہیں۔

    وکیل نے نشاندہی کی کہ حال میں  ہی نواز شریف  نے ایبٹ آباد میں عدلیہ کے بارے میں توہین آمیز تقریر کی‘ ان کا یہ خطاب عدلیہ پر حملے اور توہین عدالت کے زمرے میں آتا ہے، درخواست گزار نے استدعا کی کہ سابق وزیراعظم کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی عمل میں لائی جائے ۔

    دوران سماعت عدالت نے استفسار کیا کہ دنیا بھر میں توہین عدالت کا قانون   ختم ہو رہاہے۔ آپ نے اس معاملے پر سپریم کورٹ کیوں نہیں  رجوع کیا‘ جس پر وکیل نے بیان دیا کہ لاہور ہائی کورٹ بھی اس معاملے کی سماعت کا مکمل دائرہ اختیار رکھتی ہے۔

    درخواست گزار کے مطابق نواز شریف کی بیٹی مریم نواز نے بھی عدلیہ مخالف ٹویٹس کیے اور عوام میں ملکی اداروں کو متنازعہ بنانے کی کوشش کی ۔ عدالت نے مریم نواز کے خلاف درخواست پر نوٹس جاری کر دیے جبکہ نواز شریف کے خلاف توہین عدالت کی درخواستیں یکجا کرنے کا حکم دے دیا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئرکریں۔

  • فیض آباد دھرنا، آرمی نے ملک کو بڑے سانحے سے بچا لیا، جسٹس قاضی امین

    فیض آباد دھرنا، آرمی نے ملک کو بڑے سانحے سے بچا لیا، جسٹس قاضی امین

    لاہور: ہائیکورٹ نے لا پتہ شیعہ رہنما ناصر عباس کو ایک ہفتے کے اندر بازیاب کروا کے عدالت میں پیش کرنے کا حکم جاری کردیا،جج نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ پاک فوج نے دھرنے کے معاملے پر ملک کو بڑے سانحہ سے بچایا اگر یہ معاملہ نہ سلجھتا تو بڑی لاشیں گرتیں۔

    تفصیلات کے مطابق ناصر عباس کی گمشدگی سے متعلق لاہور ہائیکورٹ دائر درخواست کی سماعت جسٹس قاضی محمد امین نے کی، جج نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ پاک فوج نے دھرنے کے معاملے پر ملک کو بڑے سانحہ سے بچایا اگر یہ معاملہ نہ سلجھتا تو بڑی لاشیں گرتیں۔

    اُن کا کہنا تھا کہ میجر اسحاق کی شہادت پاک فوج کی قربانیوں کا ثبوت ہے ان کے تابوت پر بیٹھی ننھی بیٹی کی تصویر دیکھ کر ساری رات سو نہیں سکا۔

    دورانِ سماعت شیعہ رہنما کے بھائی علی عباس نے عدالت کو بتایا کہ ناصر عباس نے رانا ثنااللہ کی جانب سے جسٹس باقر نجفی کی رپورٹ کے بارے میں متنازع بیان دینے پر ان کی نا اہلی کے لیے لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کیا تھا جس کے بعد بھائی کو اغوا کر لیا گیا لہذا عدالت ان کی بازیابی کا حکم دے۔

    پولیس کی جانب سے عدالت کو بتایا گیا کہ ناصر عباس کی بازیابی کے لئے مشتبہ جگہوں پر چھاپے مارے گئے تاہم کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔

    عدالت نے پولیس رپورٹ پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حکومت مصالحے لگا کر بات کرنا بند کرے، سرکاری سطح پر عدلیہ کے خلاف باتیں ہو رہی ہیں، وزیروں کو عدلیہ کی عزت کا کوئی خیال نہیں۔

    مزید پڑھیں: رانا ثنا اللہ کی نااہلی درخواست دائر کرنے والے شہری کی مبینہ گمشدگی

    عدالتی حکم پر ملٹری انٹیلی جنس کے افسر کرنل احمد عدالت میں پیش ہوئے، انہوں نے جج کو بتایا کہ ناصر عباس شیرازی ملٹری انٹیلی جنس (ایم آئی) کی تحویل میں نہیں ہیں۔

    عدالت نے تمام ملکی ایجنسیوں کو مربوط انداز میں وحدت المسلمین کے لاپتہ رہنما ناصر عباس شیرازی کو بازیاب کرا کے عدالت میں چار دسمبر تک پیش کرنے کا حکم دیا۔

    عدالت نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہماری ایجنسیوں کے لئے لاپتہ شخص کو بازیاب کرانا کوئی بڑی بات نہیں کیونکہ ہم ان کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں سے واقف ہیں۔

  • نیوزچینل بندکرنے کا اقدام لاہورہائی کورٹ میں چیلنج

    نیوزچینل بندکرنے کا اقدام لاہورہائی کورٹ میں چیلنج

     

    لاہور: فیض آباد آپریشن کے دوران نیوز چینلز کو آف ائیر کرنے کا حکومتی اقدام لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا گیا‘ جبکہ ہائی کورٹ بار نے حکومت سے فیض آباد آپریشن اور اس سے پیدا ہونے والی صورتحال پر معافی مانگنے کا مطالبہ کیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق شہری آمنہ ملک کی جانب سے دائر کردہ درخواست میں وفاقی حکومت اور پیمرا کو فریق بنایا گیا ہے ‘ درخواست گزار نے موقف اختیار کیا کہ حکومت نے فیض آباد آپریشن کے دوران تمام نیوز چینلز کو آف ایئر کر دیا جبکہ تمام چینلز لائیسنس کے تحت کام کر رہے ہیں۔

    درخواست میں کہا گیا ہے کہ بغیر کسی وجہ کہ لائسنس یافتہ چینلز کو آف ایئر نہیں کیا جا سکتا‘ کسی بھی چینل کو آف ایئر کرنے کے لیے قوانین اور طریقہ کار موجود ہے ‘جس پر عمل کیے بغیر ایسا اقدام قوانین کی خلاف ورزی ہے ۔

    درخواست گزار کےمطابق بغیر کسی وجہ کے چیئرمین پیمرا نے تمام چینلز کو آف ایئر کر دیا‘ جس سے کروڑوں عوام کو ذہنی اذیت کا سامنا کرنا پڑا اور چینلز بند ہونے سے ملک میں غیر یقینی صورت حال پیدا ہوئی ۔

    آمنہ ملک نے موقف اختیار کیا کہ اطلاعات تک رسائی پاکستان کے ہر شہری کا بنیادی حق ہے اور چینلز بند کر کے اس حق کی نفی کی گئی لہذا عدالت ذمہ دار افراد کے خلاف کارروائی کرے اور مستقبل میں ایسے اقدام سے روکنے کا حکم دے۔

    دوسری جانب لاہور ہائی کورٹ بار نے فیض آباد دھرنے کے شرکا ءپر تشدد اور ملک میں حالات خراب کرنے پر حکومت سے معافی مانگنے کامطالبہ کر دیا۔

    ہائی کورٹ بارنے یہ بھی مطالبہ کیا کہ حکومت اس فعل پر پوری قوم سے معافی مانگے اور مقدمات واپس لے کر قیدیوں کو رہا کرے ۔ بار نے قرارداد منظور کی کہ جاں بحق اور زخمی ہونے والوں کو مالی امداد دی جائے جبکہ ذمہ داروں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • سرکاری پروٹوکول: سابق وزیراعظم اورمریم نواز کو نوٹس جاری

    سرکاری پروٹوکول: سابق وزیراعظم اورمریم نواز کو نوٹس جاری

    لاہور: ہائی کورٹ نے میاں نواز شریف اور مریم نواز کے پروٹوکول استعمال کرنے کے خلاف دائر درخواست سماعت کے لیے منظور کرتے ہوئے  سابق وزیراعظم اور مریم نواز سمیت فریقین کو نوٹس جاری کردیے۔

    تفصیلات کے مطابق آج بروز جمعہ لاہور ہائی کورٹ میں جسٹس شاہد کریم نے پاکستان تحریک ِ انصاف کی رہنما عندلیب عباس کی جانب سے دائر درخواست کی سماعت کی ۔

    درخواست گزار نے موقف اختیار کیا کہ میاں نواز شریف کو سپریم کورٹ نے نااہل قرار دیا‘ مگر نااہلی کے باوجود سابق وزیراعظم سرکاری پروٹوکول استعمال کر رہے ہیں ۔ درخواست میں یہ بھی کہا گیا کہ میاں نواز شریف اور مریم نواز کی پیشیوں پر اب تک 218 ملین روپے خرچ ہوئے جو قومی خزانے کا ضیاع ہے ۔

    عندلیب عباس کی جانب سے دائر کردہ درخواست میں یہ بھی کہا گیا کہ میاں نواز شریف نااہل ہونے کے باوجود پنجاب ہاوس میں سرکاری اجلاسوں کی صدارت کرتے ہیں جو قانون اور سپریم کورٹ کے فیصلے کی کھلی خلاف ورزی ہے لہذا عدالت پروٹوکول واپس لینے اور میاں نواز شریف کی سرکاری اجلاسوں میں شرکت روکنے کا حکم دے ۔

    عدالت نے درخواست پر نوٹس جاری کرتے ہوئے نواز شریف ، مریم نواز ، وفاقی اور صوبائی حکومت  سمیت فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کر لیا۔

    یاد رہے کہ دو روز قبل احتساب عدالت میں نا اہل وزیراعظم کی پیشی کے موقع پر نوازشریف کا قافلہ سخت سیکیورٹی حصارمیں احتساب عدالت پہنچایا گیا‘ اس موقع پر کارکنان نے گاڑی کو گھیرے میں لے لیا اور ان کی حمایت میں نعرے بازی کی۔اس موقع پر وفاقی وزرا بھی کارکنان سے پیچھے نہیں رہے اور نا اہل وزیر اعظم کی پیشی کے موقع پر پیشی کو یقینی بنایا ۔

    اس سے قبل وطن واپسی کے موقع پر اسلام آباد ایئر پورٹ سے نااہل نوازشریف کا قافلہ جب ائیرپورٹ سے باہر نکلا تو شاہانہ انداز میں ایک یا دو نہیں پوری چھپن گاڑیاں ان کے آگے پیچھے تھیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئرکریں۔

  • شاہی قلعے میں ریسٹورنٹ کی تعمیر عدالت میں چیلنج

    شاہی قلعے میں ریسٹورنٹ کی تعمیر عدالت میں چیلنج

    لاہور: پنجاب حکومت کےترقیاتی منصوبوں نے لاہو ر کے تاریخی ورثے کے لیے خطرات کے سبب عدالت میں درخواست دائر کردی گئی‘ اورنج لائن کی وجہ سے شالامار باغ کی حیثیت متاثر ہونے کا خدشہ پیدا ہوا‘ اور اب شاہی قلعہ میں ریسٹورنٹ کی تعمیر شروع کر دی گئی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق آج بروز جمعرات چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ منصور علی شاہ نے کیس کی سماعت کی ‘ درخواست گزار کا کہنا تھا کہ حکومتِ پنجاب کے تعمیراتی کاموں سے عالمی ورثے کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔

    درخواست گزار کے وکیل عامر سعید نے عدالت کو بتایا کہ حکومت شاہی قلعہ کے اندر ایک ریسٹورنٹ بنا رہی ہے جبکہ قانون کےمطابق تاریخی عمارات کے دو سو فٹ کے احاطے میں کسی قسم کی تعمیرات نہیں کی جا سکتیں۔

    حکومت کی جانب سے شاہی قلعہ میں 300 افراد کے لیے زیر تعمیر ریستوران کو رائل کچن کی بحالی کا نام دیا گیا ہے لیکن بحالی کے بجائے نئی عمارت تعمیر کی جارہی ہے جو قانون کی خلاف ورزی ہے ‘ اور اس سے عالمی ورثے کے طور پر شاہی قلعہ کی حیثیت متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔

    درخواست میں یہ بھی کہا گیا کہ اس سے قبل بھی اورنج لائن ٹرین منصوبے کی وجہ سے شالامار باغ متاثر ہوا‘ جس پر یونیسکو نے حکومت ِپاکستان کو اس منصوبے کی تعمیر روکنے کے لیے مراسلہ بھی بھیجا۔

    درخواست گزار نے عدالت کو بتایا کہ ہائی کورٹ نے تعمیر کے خلاف حکم ِامتناعی جاری کر رکھا ہے مگر اس کے باوجود تعمیر جاری ہے جو کہ توہین عدالت کے زمرے میں آتا ہے ۔

    دوسری جانب سرکاری وکیل نے عدالت کو بتایا کہ نئی عمارت تعمیر نہیں کی جا رہی بلکہ شاہی باورچی خانے کو ہی بحال کیا جا رہا ہے جس کے اندر عوام کی سہولت کے لیے ریسٹورنٹ بنایا جائے گا ۔

    عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد رائل کچن کی بحالی سے متعلق نوٹیفیکیشن سمیت ریکارڈ طلب کرتے ہوئے مقدمے کی سماعت دسمبر کے دوسرے ہفتے تک ملتوی کر دی۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • ماڈل ٹاؤن انکوائری رپورٹ: پنجاب حکومت کا وکیل 24 نومبرکو طلب

    ماڈل ٹاؤن انکوائری رپورٹ: پنجاب حکومت کا وکیل 24 نومبرکو طلب

    لاہور: ہائی کورٹ نےسانحہ ماڈل ٹاؤن جوڈ یشل انکوائری رپورٹ منظر عام پر لانے کے عدالتی فیصلے کے خلاف حکومتی اپیل کی سماعت چوبیس نومبر تک ملتوی کرتے ہوئے حکومت پنجاب کے وکیل خواجہ حارث کوحتمی دلائل کے لئے طلب کر لیا۔

    تفصیلات کے مطابق آج بروز بدھ لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس عابد عزیز شیخ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے اپیل کی سماعت کی ۔

    سانحہ ماڈل ٹاون کے متاثرین کے وکلاء اظہر صدیق اور خواجہ طارق رحیم نے دلائل مکمل کر لیے جبکہ ادارہ منہاج القرآن کےوکیل علی ظفر پہلے ہی دلائل مکمل کر چکے ہیں ۔

    ہائی کورٹ ماڈل ٹاؤن رپورٹ کا بند کمرے میں جائزہ لے گی*

    متاثرین کے وکلا نے دلائل دیتے ہوئے کہاکہ سانحہ ماڈل ٹاون کی رپورٹ عوامی دستاویز ہیں جسے منظر عام پر لایا جائے ۔ حکومت جوڈیشل انکوائری رپورٹ منظر عام پر نہ لا کر ملزموں کو تحفظ فراہم کرنا چاہتی ہے جبکہ سانحہ ماڈل ٹاون کے شہداء کے لواحقین کو یہی نہیں پتا کہ ان کے پیاروں کا قاتل کون ہے ۔

    متاثرین کے وکلا کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ ن کی جانب سے رپورٹ اور انکوائری کمیشن کو متنازعہ بنایا جا رہا ہے جوڈیشل انکوائری کرنے والےجسٹس علی باقر نجفی کے خلاف توہین آمیز بیانات بھی دیے گئے‘ اس لیے حکومتی انٹرا کورٹ اپیل توہین عدالت کی بنیاد پر ہی خارج کر دی جائے۔

    انہوں نے کہا کہ پنجاب حکومت کا انکوائری رپورٹ شائع نہ کرنا بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے ۔معلومات تک رسائی کا قانون موجود ہے‘ مگر انفارمیشن کمشنر موجود نہیں لہذا معلومات کس سے لی جائیں۔

    متاثرین کے وکلاء کے اس بیان پر عدالت نے حیرت کا اظہار کیا کہ یہ کیسا کمیشن ہے جس کا کمشنر ہی موجود نہیں ہے۔

    بعد ازاں عدالت نے سماعت چوبیس نومبر تک ملتوی کرتے ہوئے حکومت پنجاب کے وکیل خواجہ حارث کوحتمی دلائل کے لئے طلب کرلیا ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پرشیئر کریں۔

  • مریم نواز کے خلاف توہین عدالت کی درخواست پر سماعت 20 دسمبر تک ملتوی

    مریم نواز کے خلاف توہین عدالت کی درخواست پر سماعت 20 دسمبر تک ملتوی

    لاہور : لاہور ہائیکورٹ نے عدلیہ مخالف بیانات دینے پر مریم نواز کے خلاف توہین عدالت کی درخواست پر سماعت 20 دسمبر تک ملتوی کر دی۔

    تفصیلات کے مطابق لاہور ہائیکورٹ میں عدلیہ مخالف بیانات دینے پر مریم نواز کے خلاف توہین عدالت کی درخواست پر سماعت ہوئی۔ عدالت کے روبرو درخواست گزار کے وکیل اظہر صدیق اسلام آباد میں ہونے کی وجہ سے پیش نہیں ہوئے، جس پر سماعت 20 دسمبر تک ملتوی کر دی گئی۔

    رخواست گزار نے مؤقف اپنایا تھا کہ سپریم کورٹ کی جانب سے پانامہ نظرثانی درخواستوں کے فیصلے کے بعد مریم نواز نے توہین آمیز ٹوئٹ کیے، عدلیہ کا مذاق اڑایا گیا۔


    مزید پڑھیں:  مریم نواز کےخلاف توہین عدالت کی درخواست دائر


    دائر درخواست میں کہا گیا کہ فیصلے اور فاضل ججوں کو متنازع بنانے کی کوشش کی، مریم نواز ججوں کی مسلسل کردار کشی کر رہی ہیں اور عدلیہ کے خلاف مہم شروع کر رکھی ہے، مریم نواز کے بیانات کی وجہ سے پورے ملک میں انتشار پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔

    درخواست میں استدعا کی گئی کہ عدالت مریم نواز کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی عمل میں لائی جائے۔


    مزید پڑھیں : عدالتی فیصلے سے قانون اورانصاف شرمندہ ہیں، مریم نواز کا ٹوئٹ


    یاد رہے مریم نواز سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کئی بار عدلیہ کو تنقید کا نشانہ بنا چکی ہے۔

    مریم نواز نے سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ قانون اورانصاف شرمندہ ہیں اسی طرح اقلیت اکثریت کو بدنام کرتی ہے، شکارنوازشریف نہیں نظام عدل ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • پولیس نے کمسن بچوں کے خلاف جائیداد ہتھیانے کا مقدمہ درج کرلیا

    پولیس نے کمسن بچوں کے خلاف جائیداد ہتھیانے کا مقدمہ درج کرلیا

    لاہور: پولیس نے تین کم سن بچوں کے خلاف پراپرٹی کی جعلی دستاویزات بنانے اور جائیداد پر قبضہ کرنے کا مقدمہ درج کرلیا۔

    تفصیلات کے مطابق لاہور کے علاقے شاہدرہ میں پولیس نے دو کمسن بھائیوں اور ان کے کزن کے خلاف جائیداد پر قبضہ کا مقدمہ درج کیا ‘ ان بچوں میں پانچ سالہ علی احمد ، چار سالہ حسیب احمد اور بارہ سالہ شعیب حسن شامل ہیں ۔

    پولیس نے محمد آصف نامی شخص کی درخواست پر مقدمہ درج کیا‘ جس میں مدعی کا کہنا ہے کہ ان بچوں نے اپنے والد کے ساتھ جعلی دستاویزات بنا کر اس کے مکان پر قبضہ کر لیا ہے ۔

    جب بچے عدالت کے سامنے پیش ہوئے تو عدالت نے پولیس پر اظہار برہمی کرتے ہوئے قرار دیا کہ پولیس آنکھیں بند کر کے سوئی رہتی ہے اور رشوت لے کر مقدمات درج کرتی ہے۔

    عدالت نے انکوائری افسر سے سوال کیا کہ یہ معصوم بچے جعلی دستاویزات بنا کر کسی کی جائیداد پر قبضہ کر سکتے ہیں؟‘ عدالت نے صورتحال کی وضاحت کے لیے متعلقہ ایس پی اور ایس ایچ او کو طلب کر لیا ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔