Author: عابد خان

  • ٹیکس ایمنسٹی سکیم کالعدم قرار دینے کے لیے درخواست پر فیصلہ محفوظ

    ٹیکس ایمنسٹی سکیم کالعدم قرار دینے کے لیے درخواست پر فیصلہ محفوظ

    لاہور: ہائی کورٹ نے تاجروں کے لیے ٹیکس ایمنسٹی سکیم کو کالعدم قرار دینے کے لئے دائر درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا‘ ٹیکس چوروں کو عام معافی آئین پاکستان اور ملکی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق آج بروز جمعرات لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس شاہد کریم نے کیس کی سماعت کی‘ درخواست گزار کے وکیل شیراز ذکاء نے موقف اختیار کیاکہ حکومت نے سیاسی مقاصد کے لئےٹیکس ایمنسٹی سکیم کے ذریعے تاجر وں میں موجود ٹیکس چوروں کو تحفظ دیا ہے ۔

    درخواست گزار کے وکیل کا کہنا تھا کہ ٹیکس ایمنسٹی سکیم تاجروں اور عام شہریوں میں امتیازی سلوک ہے اور جزا و سزا کے اصولوں کے منافی ہے۔ ٹیکس چوروں کو عام معافی آئین پاکستان اور ملکی قوانین کی خلاف ورزی ہے‘ آئین کے تحت شہریوں سے امتیازی سلوک نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی ٹیکس چوروں کو رعایت دی جا سکتی ہے ۔

    ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوسکے: نعیم میر

    انہوں نے عدالت سے استدعا کی کہ سکیم کے لیے انکم ٹیکس ایکٹ میں ترمیم کی جائے اور سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے حکومت کی جانب سے متعارف کرائی جانے والی ٹیکس ایمنسٹی سکیم کو کالعدم قرار دیا جائے۔

    وفاقی حکومت کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ یہ سکیم ان تاجروں کےلئے ہے جنہوں نے پچھلے دس سال سے ٹیکس نہیں جمع کرایا ‘ تاجروں پر معمولی ٹیکس کے نفاذ سے ٹیکس نیٹ میں لانے کے لئے سکیم متعارف کرائی گئی۔جس پر عدالت نے فریقین کےوکلاء کے دلائل مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • ایم بی بی ایس امتحان: اےاوراو لیول پاس طلباء کو انٹری ٹیسٹ دینے کی ہدایت

    ایم بی بی ایس امتحان: اےاوراو لیول پاس طلباء کو انٹری ٹیسٹ دینے کی ہدایت

    لاہور: پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل ترامیم ایکٹ 2015 کے خلاف درخواستیں لاہور ہائی کورٹ نے ناقابل سماعت قرار دے کر مسترد کردیں۔

    جسٹس شمس محمود مرزا نے اے لیول اوراو لیول پاس طالب علموں کو ایم بی بی ایس امتحان کے لیے انٹری ٹیسٹ میں شامل ہونے کی ہدایت کردی۔

    عدالت نے پی ایم ڈی سی کو اے لیول اور او لیول کروانے والے تعلیمی اداروں کے لئے پالیسی بنانے کی ہدایت بھی کی، درخواست گزاروں کی جانب سے مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ ایف ایس سی پاس کرنے والے رٹا لگا کر امتحان پاس کرتے ہیں اس لئے انٹری ٹیسٹ لازمی ہے جبکہ انٹری ٹیسٹ کا اطلاق درخواست گزاروں پر نہیں ہوتا۔

    اس ترمیمی ایکٹ کی پارلیمنٹ نے منظوری نہیں دی، جس پر یہ ایکٹ تحلیل ہو گیا، اس قانون کے تحت ایم بی بی ایس کے داخلوں کے لئے انٹری ٹیسٹ لئے جاتے ہیں اور ایم کیٹ امتحان کااطلاق درخواست گزاروں پر نہیں ہوتا۔

    درخواست گزاروں کی جانب سے عدالت سے استدعا کی گئی کہ عدالت اے لیول اوراو لیول کرنے والے طالب علموں پر عائد اس شرط کو غیر قانونی قرار دے، عدالت نے وکلاء کے دلائل سننے کے بعد درخواستیں مسترد کردیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

     

  • سانحہ ماڈل ٹاؤن رپورٹ کیس، حکومتی وکیل کے تاخیری حربوں پر بنچ برہم

    سانحہ ماڈل ٹاؤن رپورٹ کیس، حکومتی وکیل کے تاخیری حربوں پر بنچ برہم

    لاہور: سانحہ ماڈل ٹاون رپورٹ کیس میں حکومتی وکیل خواجہ حارث کی جانب سے اپنی غیر حاضری کی درخواست میں الگ موقف اختیار کرنے جب کہ سرکاری وکیل کی جانب سے الگ وجہ تراشے جانے پر عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے اسے تاخیری حربہ قرار دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق ہائی کورٹ کے جسٹس عابد عزیز شیخ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی رپورٹ سے متعلق حکومتی اپیل کی سماعت کی آج لاہور ہائی کورٹ میں ہوئی۔

    آج کی سماعت میں‌ پنجاب حکومت کے وکیل خواجہ حارث کی طرف سے غیر حاضری کی درخواست بھجوائی گئی جس میں موقف اختیار کیا گیا کہ آج وہ سپریم کورٹ میں پیش ہو رہے ہیں چنانچہ آج کی سماعت ملتوی کی جائے۔

    تاہم سرکاری وکیل جو شاید حکومتی وکیل خواجہ حارث کی درخواست سے بے خبر تھے نے عدالت کو بتایا کہ خواجہ حارث اس وقت ملک سے باہر ہیں اس لیے آج کی سماعت کے لیے دستیاب نہیں ہوں گے۔

    حکومتی وکلاء کے اس متضاد موقف پر بنچ نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ خواجہ حارث کی درخواست اور سرکاری وکیل کے موقف میں تضاد ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پنجاب حکومت تاخیری حربے استعمال کررہی ہے.

    عدالت نے مزید کہا کہ چوں کہ حکومتی اپیل ایڈووکیٹ جنرل آفس کی طرف سے دائر کی گئی تھی اور سرکاری وکیل نے پہلی سماعت پر بحث بھی کی تھی اس لیے خواجہ حارث صاحب کی غیر موجودگی سے کوئی فرق نہیں پڑتا چنانچہ آج بھی سرکاری وکیل بحث کرلیں۔

    دوران سماعت متاثرین کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ پنجاب حکومت کے وکلاء اس کیس کے حوالے سے بد نیتی کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور روایتی تاخیری ہتھکنڈے اختیار کر رہے ہیں۔

    انہوں نے مزید کہا کہ سرکاری وسائل انصاف کی فراہمی کی بجائے قاتلوں کو بچانے پر صرف ہورہے ہیں اس لیےعدالت سے استدعا کی جاتی ہے کہ کیس کی روزانہ کی بنیاد پر سماعت ہونی چاہیے اور جلد سے جلد فیصلہ ہونا چاہیے تاکہ متاثرین کو انصاف مل سکے۔

    خیال رہے اس کیس میں سرکاری وکلاء نے روزانہ کی بنیاد پر سماعت کے حوالے سے عدالت میں حاضر ہونے کی یقین دہانی کرائی تھی مگر اس پرعمل درآمد نہیں ہو رہا ہے۔

  • اداکارہ میرا تکذیب نکاح کیس ‘ فیصلہ محفوظ

    اداکارہ میرا تکذیب نکاح کیس ‘ فیصلہ محفوظ

    لاہور : عائلی عدالت نے اداکارہ میرا تکذیب نکاح کیس کی سماعت مکمل کرتے ہوئے فیصلہ محفوظ کر لیا ‘ یونین کونسل نے نکاح نامہ بوگس قرار دے دیا

    تفصیلات کے مطابق اداکار ہ میرا کی جانب سے دائر دعوے میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ ان کی عتیق الرحمان کے ساتھ شادی نہیں ہوئی‘ نکاح کا دعویٰ جھوٹا ہے ۔

    درخواست میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ عتیق الرحمان نے نے انہیں بلیک میل کرنے کے لیے جعلی نکاح نامہ بنوایا ‘ جبکہ متعلقہ ہونین کونسل نے بھی اسے بوگس قرار دیا ہے جس کے بعد ثابت ہو چکا ہے کہ یہ شادی نہیں ہوئی۔

    گھرپرقبضے کا الزام ، ادکارہ میرا کے خلاف درخواست دائر*

    اداکارہ میرا کے وکیل نے استدعا کی کہ عدالت جعلی نکاح نامے کو کالعدم قرار دے اور عتیق الرحمان کو پابند کرےکہ وہ آئندہ خود میرا کا خاوندظاہر نہ کرے‘ عدالت میں یہ بھی کہا گیا کہ جعلی نکاح نامہ بنانے پر عتیق الرحمان کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا جائے۔

    عدالت نے دونوں جانب کے وکلاء کے دلائل مکمل ہونے کے بعد مقدمے کا فیصلہ محفوظ کر لیا ہے جسے آئندہ پیشی میں سنایا جائے گا۔

    یاد رہے کہ عتیق الرحمان نامی شخص کی جانب سے میرا کے خاوند ہونے کا دعویٰ کیا گیا تھاجس پر گزشتہ کئی سالوں سے دونوں کے درمیان مختلف عدالتوں میں مقدمات بھی زیر سماعت رہے ہیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • کمسن ملازم کا قتل ‘ مسلم لیگی رکن اسمبلی کی بیٹی مقدمے سے بری

    کمسن ملازم کا قتل ‘ مسلم لیگی رکن اسمبلی کی بیٹی مقدمے سے بری

    لاہور : مقامی عدالت نے مسلم لیگ ن کی ممبر صوبائی اسمبلی شاہ جہاں کی بیٹی کو کمسن ملازم کے قتل کے مقدمے سے بری کر دیا‘ ملزمہ کے خلاف مقدمہ اکبری گیٹ تھانے میں درج تھا۔

    تفصیلات کے مطابق آج ہونے والی سماعت میں ایڈیشنل سیشن جج اعجاز الحسن نے ایم پی اے شاہ جہاں کی بیٹی ملزمہ فوزیہ کے خلاف دائر کردہ کیس پر فیصلہ سنایا ۔

    عدالت میں مقدمے کے مدعی مقتول اختر کے لواحقین نے بیان حلفی جمع کروایا ‘ جس میں عدالت کو بتایا گیا کہ مدعی نے ملزمہ کو معاف کر دیا ہے اور وہ اب اس کے خلاف مقدمے کی پیروی کرنا نہیں چاہتے ۔

    ملازم کی لاش کی برآمدگی‘ لیگی ایم پی اے کی نا اہلی کے لئے درخواست دائر*

    دوسری جانب کیس کے گواہان اپنے سابقہ بیانات سے منحرف ہو گئے جس پر عدالت نے کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے ملزمہ کو کمسن ملازم کو تشدد کرکے قتل کرنے کے مقدمے سے بری کر دیا۔

    یاد رہے کہ مسلم لیگ سے تعلق رکھنے والی ایم پی اے شاہ جہاں کی بیٹی فوزیہ اسلام پر اپنے کمسن گھریلو ملازم اختر علی پر تشدد کر کے اس کو قتل کرنے کا الزام تھا‘ ملزمہ کے خلاف تھانہ اکبری گیٹ پولیس نے قتل کا مقدمہ درج کر رکھا تھا۔

    ملزمہ فوزیہ کے تشدد سے اختر نامی ملازم جاں بحق اور اس کی بہن زخمی ہوئی تھی تاہم ملزمہ نے موقف اختیار کیا تھا کہ ملازم کی موت تشدد سے نہیں ہوئی ‘ وہ پہلے سے بیمار تھا۔

    خیال رہے کہ اسی مقدمے کے سبب مسلم لیگ ن کی ایم پی اے شاہ جہاں کی نا اہلی کے لیے بھی ایک درخواست دائر کی گئی ہے ‘ جس میں درخواست گزار نے موقف اختیار کیا تھا کہ لیگی ایم پی اے شاہ جہاں کی بیٹی کے گھر سے 15 سالہ ملازم کی تشدد شدہ لاش برآمد ہوئی جو ایک سنگین جرم ہے ۔

    درخواست گزار کے مطابق ان جرائم کی وجہ سے مسلم لیگی رکن اسمبلی پارلیمنٹ کا حصہ بننے کے اہل نہیں رہیں ‘ لہذا عدالت لیگی ایم پی اے شاہ جہاں کو نا اہل قرار دے کر گرفتاری کا حکم دے جبکہ کیس کے فیصلے تک شاہ جہاں اور ان کی بیٹی کا نام ای سی ایل میں شامل کیا جائے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

     

  • الیکشن ایکٹ: وزیراعظم‘ اراکینِ پارلیمنٹ کے خلاف سماعت 20 اکتوبر تک ملتوی

    الیکشن ایکٹ: وزیراعظم‘ اراکینِ پارلیمنٹ کے خلاف سماعت 20 اکتوبر تک ملتوی

    لاہور:ہائی کورٹ نے انتخابی اصلاحات ایکٹ کے حق میں ووٹ دینے پر وزیرشاہد خاقان عباسی اور اراکین پارلیمنٹ کی نااہلی کے لیے دائر درخواست کی سماعت بیس اکتوبر تک ملتوی کر دی ۔

    تفصیلات کے مطابق آج بروز پیر لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سید منصور علی شاہ نے وزیرشاہد خاقان عباسی اور اراکین پارلیمنٹ کی نااہلی کے لیے دائر کردہ درخواست کی سماعت کی ۔

    درخواست تحریک انصاف کے رہنما گوہر نواز سندھو اورعوامی تحریک کے اشتیاق چوہدری کی جانب سے دائر کی گئی جس میں موقف اختیار کیا گیا کہ الیکشن ایکٹ میں ترمیم کرکے نواز شریف کو پارٹی کا صدر بنانا سپریم کورٹ کے احکامات کو چیلنج کرنے کے مترادف ہے۔

    عدالت عظمیٰ نے پانامہ لیکس میں سابق وزیراعظم نواز شریف کو نااہل قرار دیا اور عدالتی فیصلے کے بعد آئین کے مطابق وہ اپنی سیاسی جماعت مسلم لیگ ن کی صدارت کی بھی اہل نہ رہے‘ تاہم ن لیگ اور اس کے اتحادیوں نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو بے اثر کرنے کے لیے آئین میں ترمیم کی اور اب انتخابی اصلاحاتی ایکٹ کے ذریعے نواز شریف دوبارہ مسلم لیگ ن کے صدر بن گئے ہیں۔

    پیپلزپارٹی نے بھی انتخابی اصلاحات بل کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا*

    انہوں نے کہا کہ مطابق انتخابی اصلاحات ایکٹ صرف ایک نااہل شخص کو صدر بنانے کے لیے لایا گیا جو اسلامی تعلیمات اور آئین کی روح کے منافی ہے‘ الیکشن ایکٹ 2017 کے لیے ووٹ دینے والے اراکین پارلیمان نے آئین کے آرٹیکل 62 جی کی خلاف ورزی کی ۔

    درخواست گزار کے مطابق آئین کے آرٹیکل 62 جی کے تحت کسی ایسے شخص کو عوامی عہدے کے لیے منتخب نہیں کیا جا سکتا جو ملکی وقار اور نظریہ کے خلاف کام کرے ۔

    عدالت کے روبرو درخواست گزار نے استدعا کی کہ آئین سے متصادم قانون منظور کرنے پر وزیراعظم شاہد خاقان عباسی سمیت ووٹ دینے والے اراکین پارلیمان کو نااہل قرار دیا جائے۔

    عدالت نے ریمارکس دیئے کہ معاملہ سپریم کورٹ میں چلا گیا ہے ‘ لہذا درخواست گزاروں کو سپریم کورٹ سے رجوع کرنا چاہئیے۔ عدالت نے کیس کی سماعت بیس اکتوبر تک ملتوی کر دی۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پرشیئر کریں۔

  • پی آئی اے افسران کی بھاری تنخواہیں عدالت میں چیلنج

    پی آئی اے افسران کی بھاری تنخواہیں عدالت میں چیلنج

    لاہور: ہائی کورٹ نے پی آئی اے میں بھاری تنخواہوں پر خلافِ قانون کنٹریکٹ پر بھرتیوں کے خلاف درخواست پرپی آئی اے کے چیف آپریٹنگ آفیسر اور ڈائریکٹر لیگل کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کر لیا۔

    تفصیلات کے مطابق جسٹس ساجد محمود سیٹھی نے ممبر لیگل پی آئی اے ناصر میر کی درخواست پر سماعت کی اور قومی ایئر لائن کے متعلقہ حکام کو لیگل نوٹس بھی جاری کیے۔

    درخواست گزار نے موقف اختیار کیا کہ پی آئی اےکے بڑے عہدوں پر خلاف ضابطہ بھرتیاں کی گئیں۔ اعلی ٰعہدوں پر من پسند افراد کو نوازنے کے لئے کنٹریکٹ پر افسران کی تعیناتیاں کی گئیں ۔

    موجودہ انتظامیہ کے ساتھ پی آئی اے کی بحالی ممکن نہیں*

    عدالت میں یہ بھی کہا گیا کہ قومی ادارہ پہلے ہی خسارے کا سامنا کر رہا ہے مگر پی آئی اے کو مل کر لوٹا جا رہا ہے جس کی وجہ سے پی آئی اے تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے ۔

    ناصر میر نامی درخواست گزار نے عدالت کو بتایا کہ چیف کمرشل آفیسر بلال شیخ کو کنٹریکٹ پر 20 لاکھ تنخواہ جبکہ مستقل افسر کو محض دو لاکھ روپے تنخواہ فراہم کی جا رہی ہے ۔

    انہوں نے یہ بھی بتایا کہ پی آئی اے کے ہیومن ریسورس کا شعبہ موجود ہونے کے باوجود راحیل احمد کو کنٹریکٹ پر پندرہ لاکھ تنخواہ دی جارہی ہے جبکہ ڈائریکٹر ویجیلنس کی اسامی تخلیق کر کے دس لاکھ تنخواہ پر کنٹریکٹ بھرتی کی گئی ۔

    پی آئی اے میں جونیئر افسران اہم عہدوں پر تعینات*

    انہوں نے استدعا کی کہ بھاری تنخواہوں پر خلاف ِقانون بھرتیاں کالعدم قرار دی جائیں ۔ سماعت کے بعد عدالت نے تمام فریقین کونوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کر لیا۔

    یاد رہے کہ کچھ عرصہ قبل پی آئی اے ہیڈ آفس کراچی میں چیئر مین پی آئی اے رانا حیات کی سربراہی میں ہونے والے اجلاس میں قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی نے طیارے کی فروخت اور ادارے کی زبوں حالی پر اظہار برہمی کرتے ہوئے انتظامیہ کو نا اہل اور فضائی قزاق قرار دے دیا تھا۔

    اجلاس میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ موجودہ ٹیم کے ساتھ پی آئی اے کی بحالی ممکن نہیں ،اٹھارہ ماہ پہلے پارلیمنٹ میں جو مشترکہ فیصلے کیے گئے ان پر عمل نہیں کیا گیا ،پی آئی اے انتظامیہ میں اہلیت ہی نہیں ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پرشیئر کریں۔

  • رانا ثنا اللہ کی ہائی کورٹ بار کی رکنیت معطل

    رانا ثنا اللہ کی ہائی کورٹ بار کی رکنیت معطل

    لاہور : ہائی کورٹ بار نے صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ رکنیت معطل کرتے ہوئے ان کی بار میں داخلے پر پابندی عائد کر دی ‘ رانا ثنااللہ کے خلاف وکلاء نے لاہور ہائی کورٹ بار کے احاطے میں احتجاجی مظاہرہ کیا‘ صوبائی وزیرقانون کو عہدے سےبرطرف کرنے کا مطالبہ بھی کیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق آج بروز جمعہ رانا ثناء اللہ کے بیان کے خلاف لاہور ہائی کورٹ بار کا مذمتی اجلاس منعقد ہوا ‘ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سیکرٹری آفتاب باجوہ نے کہا کہ رانا ثناللہ کے خلاف توہینِ رسالت کا مقدمہ درج کروائیں گے۔

    انہوں نے کہا کہ صوبے کے وزیرِ قانون نےختم نبوت کو چیلنج ہے‘ جس پر وکلاء خاموش نہیں رہیں گے ۔ بار کے نائب صدر راشد لودھی‘ سیکرٹری عامر سعید اور یگرعہدیداروں نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ملکی پارلیمنٹ نے متفقہ طور پر قادیانیوں کو غیر
    مسلم قرار دیا تھا‘ اب اس موضوع کو جان بوجھ کر چھیڑاگیا ۔

    اجلاس میں یہ بھی مطالبہ کیا گیا کہ رانا ثنااللہ ‘ میڈیا کے سامنے ختم نبوت پر ایمان نہ رکھنے والوں کو غیر مسلم قرار دیں اور اپنے بیان پر معافی مانگیں ۔

    وکلا نے ہائی کورٹ بار کے احاطے میں رانا ثناءاللہ کے خلافا حتجاجی مظاہرہ کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ رانا ثناء اللہ کے خلاف توہین رسالت کا مقدمہ درج کیا جائے اور عہدے سےبرطرف کیا جائے جبکہ بار نے رانا ثناء اللہ کی ممبر شپ معطل کرتے ہوئے ان کے داخلے پر بھی پابندی عائد کر دی۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • فیسو ں میں اضافے کی حد مقرر‘ معاملہ عدالت پہنچ گیا

    فیسو ں میں اضافے کی حد مقرر‘ معاملہ عدالت پہنچ گیا

    لاہور: ہائی کورٹ نے پرائیوٹ سکولز کی فیسوں میں اضافے اور سکولوں کو جاری شوکاز نوٹسز کے خلاف اپیل پر پنجاب حکومت کو نوٹس جاری کردیئے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس عابد عزیز شیخ کی سربراہی میں 3رکنی بنچ نے پرائیوٹ سکولز کی اپیل پر سماعت کی جس میں فیسوں میں اضافے پر پنجاب حکومت کے شوکاز نوٹسز کو چیلنج کیا گیا ہے۔

    پرائیوٹ سکولز کے وکلا نے دلائل دیے کہ فیسوں میں اضافہ کی حد حکومت مقرر نہیں کر سکتی‘ لیکن اس کے باوجود پنجاب حکومت نے زیادہ سے زیادہ اضافے کی حد 8 فیصد مقرر کر دی جبکہ سکولز کے اخراجات پورے کرنے کیلئے فیس میں اضافہ کیا گیا ہے۔

     پنجاب حکومت اورپرائیوٹ اسکول فیڈریشن مدمقابل*

    درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ اساتذہ کی تنخواہوں، سکول عمارت کی دیکھ بھال اور سیکیورٹی کے انتظامات سمیت دیگر معلامات پر بھاری اخراجات اٹھتے ہیں ۔

    پنجاب حکومت کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ حد اس لیے مقرر کی گئی ہے کہ سکولز نے پچھلے سال 30 فیصد تک اضافے کیے۔ طلبا کے وکیل نے بیان دیا کہ آئین میں تعلیم مفت دینے کا کہا گیا ہے‘ اس کو کاروبار نہیں بنایا جاسکتا لہذا اضافہ کالعدم قرار دیا جائے ۔

    اس کیس کی سماعت کے بعد عدالت نے پنجاب حکومت کو نوٹس جاری کرتے تفصیلی رپورٹ طلب کر لی۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • پٹرولیم پر اضافی ٹیکس‘ عدالت کی حکومت سے جواب طلبی

    پٹرولیم پر اضافی ٹیکس‘ عدالت کی حکومت سے جواب طلبی

    لاہور: ہائی کورٹ نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی نہ کرنے اور اضافی سیلز ٹیکس کی وصولی کے خلاف اپیل پر وفاقی حکومت اور اوگرا سے جواب مانگ لیا۔

    تفصیلات کے مطابق لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس شاہد بلال حسن اور جسٹس عابد عزیز شیخ نے انٹرا کورٹ اپیل دائر کی ہے جس میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے اور اضافی سیلز ٹیکس کے اقدام کو چیلنج کیا گیا ہے۔

    درخواست گزار نے موقف اختیار کیا کہ عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمتوں میں کمی واقعی ہوئی لیکن وفاقی حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کی بجائے سیلز ٹیکس میں اضافہ کردیا۔

    حکومت نے پیٹرولیم مصنوعات پرسیلزٹیکس بڑھا دیا*

    درخواست میں یہ بھی کہا گیا کہ حکومت پہلے ہی پیٹرولیم مصنوعات پر اضافی سیلز ٹیکس وصول کر رہی ہے جبکہ سیلز ٹیکس میں اضافے کی قومی اسمبلی اور کابینہ سے منظوری نہیں لی گئی ہے۔

    اپیل میں استدعا کی گئی ہے کہ سنگل بنچ کے فیصلے کو کالعدم قرار دے کر پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی اور اضافی سیلز ٹیکس کی وصولی روکی جائے‘ یاد رہے کہ اس سے قبل ہائی کورٹ کے سنگل بنچ نے درخواستیں مسترد کردی تھیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔