Author: عابد خان

  • چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ اپنے اثاثوں کی تفصیلات منظر عام پر لے آئے

    چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ اپنے اثاثوں کی تفصیلات منظر عام پر لے آئے

    لاہور: چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ سید منصور علی شاہ اپنی خاندانی ملکیتی ٹیکسٹائل ملز کے متعلق تفصیلات منظر عام پر لے آئے۔ چیف جسٹس نے انفارمیشن کمیشن پنجاب کو تمام معلومات فراہم کردیں۔

    تفصیلات کے مطابق رجسٹرار ہائیکورٹ کی جانب سے انفارمیشن کمیشن کو مراسلہ بھجوایا گیا جس میں کہا گیا کہ انفارمیشن کمشنر نے ان کی خاندانی ٹیکسٹائل مل کے متعلق معلومات مانگیں جبکہ قانون کے تحت کسی بھی سرکاری آفیسر یا شخصیت سے عوامی معاملات پر ہی معلومات لی جاسکتی ہیں۔

    مراسلے میں کہا گیا کہ کسی بھی شخصیت کی ذاتی معلومات کو انفارمیشن ایکٹ کے تحت حاصل نہیں کیا جاسکتا۔

    چیف جسٹس نے قرار دیا کہ یہ معلومات صرف اس لیے دی جا رہی ہیں تاکہ چیف جسٹس کے عہدے کا وقار برقرار رہے. مراسلے میں مزید کہا گیا ہے کہ چیف جسٹس کی جس ٹیکسٹائل مل کے ڈائریکٹر ہونے کے حوالے سے معلومات مانگی گئیں وہ سنہ 1988 میں فروخت کردی گئی تھی۔

    ان کے مطابق سنہ 1990 میں خریدار کو ہائیکورٹ کے حکم کے مطابق یہ مل حوالے کردی گئی۔ چیف جسٹس کسی بھی کمپنی کے ڈائریکٹر نہیں ہیں نہ ہی انہوں نے کبھی خاندانی کاروبار چلایا۔

    مراسلے میں کہا گیا کہ چیف جسٹس نے قانون کی تعلیم حاصل کی اور وکالت کے بعد بطور جج اپنے فرائض منصبی ادا کرنا شروع کیے۔ چیف جسٹس کی جانب سے اس بات کی وضاحت کی گئی کہ بطور جج نہ تو کسی کمپنی کے لیے انہوں نے قرضہ حاصل کیا اور نہ معاف کروایا۔

    مراسلے میں بتایا گیا کہ چیف جسٹس کے بیٹے سخت علیل تھے جس پر میڈیکل بورڈ نے انہیں بیرون ملک علاج کروانے کا مشورہ دیا جس پر قانون کے مطابق انہیں 64 لاکھ روپے دیے گئے۔

    بیٹے کا علاج امریکا اور انگلینڈ میں ہوا جس کے بعد انہوں نے بچ جانے والے 20 لاکھ روپے بھی واپس خزانے میں جمع کروا دیے۔ چیف جسٹس سید منصور علی شاہ نے اپنے 2016 اور 2017 کی انکم اور ویلتھ ٹیکس کی تفصیلات بھی لاہور ہائیکورٹ کی ویب سائٹ پر شائع کروا دی ہیں۔

    چیف جسٹس سید منصور علی شاہ کے ٹیکسٹائل مل کے ڈائریکٹر ہونے کے حوالے سے اسلام آباد ہائیکورٹ میں بھی درخواست دائر کی گئی تھی۔


  • سانحہ بہاولپور: ذمہ داران کو نتائج بھگتنا ہوں گے، لاہورہائیکورٹ

    سانحہ بہاولپور: ذمہ داران کو نتائج بھگتنا ہوں گے، لاہورہائیکورٹ

    لاہور: سانحہ احمد پور شرقیہ کی تحقیقات کے لیے دائر درخواست کی سماعت کرتے ہوئے لاہور ہائیکورٹ نے قرار دیا ہے کہ جو بھی حادثے کاذمہ دار ہو گا اس کو نتائج بھگتنا ہوں گے اس معاملے کی تہہ تک جائیں گے۔

    تفصیلات کے مطابق لاہور ہائیکورٹ میں چیف جسٹس سید منصورعلی شاہ نے احمد پور شرقیہ کیس کی سماعت کی۔ ایکسپلوسیو ڈیپارٹمنٹ، اوگرا اور ہائی وے پولیس کے افسران بھی عدالت میں پیش ہوئے۔

    ایکسپلوسیو ڈیپارٹمنٹ نے عدالت کو بتایا کہ جس ٹینکر کو حادثہ پیش آیا اس کا لائسنس ختم ہو چکا ہے اور اسے ابھی تک اس کی تجدید بھی نہیں کی گئی ہے انہوں نے عدالت کو بتایا کہ اس جرم پر پہلی بار پانچ سو اور دوسری بار دو ہزار جرمانہ ہوتا ہے جبکہ کمپنی کو شوکاز نوٹس بھی جاری کر دیا گیا ہے۔

    عدالت نے اس بیان پر اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ شوکاز نوٹس کے بعد کیا کارروائی ہوئی؟ اس طرح تو ہر بندہ بغیر لائسنس ٹینکر چلا کر پانچ سو جرمانہ دے کر جان چھڑاتا رہے گا۔ ایسے واقعات کو روکنے کے لیے عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔

    عدالت کا مزید کہنا تھا کہ یہ شرمناک بات ہے کہ ایسے جرم پر معمولی جرمانہ رکھا گیا، کیا آئل کمپنی کو بھی محض پانچ سو روپے ہی جرمانہ ہوا، موٹر وے اتھارٹی اور نیشنل ہائی وے گاڑیوں کی فٹنس کی ذمہ داری قبول کرنے کو تیار نہیں کمپنی بتائے کہ تیل بھرنے سے قبل کنٹینر کو چیک کرنا کس کی ذمہ داری ہے؟

    عدالت نے کہا کہ بتایا جائے کہ حکومت نے کس قانون کے تحت جاں بحق افراد کو جو معاوضہ ادا کیا ہے کیا کابینہ سے منظوری لی گئی؟ عدالت نے استفسار کیا کہ انشورنس کمپنیاں کہاں ہیں اور آئل کمپنی نے متاثرین کے لیے کیا پالیسی اختیار کی۔


    مزید پڑھیں: سانحہ بہاولپور: جاں بحق افراد کی تعداد 214 ہوگئی


    اوگرا نمائندے نے بیان دیا کہ کمپنی کو جاں بحق افراد کو دس لاکھ اور زخمیوں کو پانچ لاکھ روپے دینے کی ہدایت کی گئی مگراس پر عمل درآمد نہیں ہوا جس پر آئل کمپنی کے وکیل نے اس حوالے سے جواب داخل کروانے کے لیے مہلت کی استدعا کی۔ عدالت نے تمام فریقین سے واقعہ کی تفصیلی رپورٹ طلب کرتے ہوئے سماعت ایک ہفتہ تک ملتوی کر دی۔


    مزید پڑھیں: شیل آئل کمپنی سانحہ احمد پور شرقیہ کی ذمہ دار قرار


    یاد رہے کہ آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) نے اپنی تحقیقاتی رپورٹ میں سانحہ احمد پور شرقیہ کا ذمہ دار شیل آئل کمپنی کو قرار دے دیا ہے۔ کمپنی کو شو کازنوٹس جاری کرکے اس پر 1 کروڑ روپے جرمانہ بھی عائد کردیا گیا ہے۔

    اوگرا کا کہنا ہے کہ کمپنی کا آئل ٹینکرغیر معیاری تھا، ٹینکر نے اوگرا اور ایکسپلوسیو ڈیپارٹمنٹ کے قوانین پورے نہیں کیے۔

    اوگرا کے مطابق آئل ٹینکر کا فٹنس سرٹیفکیٹ بھی جعلی تھا جبکہ ٹینکر تکنیکی معیار پر بھی پورا نہیں اترتا تھا۔ 50 ہزار لیٹر تیل کی ترسیل کے لیے 5 ایکسل کا ٹینکر استعمال ہوتا ہے جبکہ حادثے کا شکار ٹینکر 4 ایکسل کا تھا۔

  • لاہور ہائی کورٹ بار کا نوازشریف کے خلاف تحریک چلانے کا اعلان

    لاہور ہائی کورٹ بار کا نوازشریف کے خلاف تحریک چلانے کا اعلان

    لاہور: پاناما کیس کے فیصلے کے بعد وزیراعظم سے استعفے کا مطالبہ زور پکڑ گیا، لاہور ہائی کورٹ بار نے نواز شریف سے استعفے کا مطالبہ کرتے ہوئے ملک گیر تحریک چلانے کا اعلان کردیا۔

    لاہور ہائیکورٹ بار نے وزیر اعظم کو استعفی دینے کے لیے رات بارہ بجے کی ڈیڈ لائن دے دی اگر میاں نواز شریف  مستعفی نہ ہوئے تو   تیرہ مئی کو آل پاکستان وکلاء نمائندہ کنونشن طلب کرکے آئندہ کا لائحہ عمل طے کیا جا ئے گا ۔ ہائی کورٹ بار کا اعلان

     لاہور ہائیکورٹ بار کے صدر ذوالفقار چوہدری نے دیگر عہدیداروں کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاناما لیکس کے بعد دنیا بھر سے استعفے آئے مگر سپریم کورٹ سے فیصلہ آنے کے باوجود وزیر اعظم مستعفی نہیں ہوئے جو پوری قوم کے لیے باعث شرم بات ہے۔

    انہوں نے کہا کہ وکلاءنے وزیر اعظم کو استعفی کے لئے سات دن کا الٹی میٹم دیا تھا الٹی میٹم کے باوجود وزیر اعظم کا مستعفی نہ ہونا قابل مذمت ہےآنے والے دنوں میں وکلا سڑکوں پر ہوں گے۔

    سیکرٹری لاہورہائیکورٹ بار عامر سعید  نے کہا کہ نوااز شریف ملکی سالمیت کے لئے خطرہ بن چکے ہیں، وزیر اعظم کو بھارتیوں سے خفیہ ملاقاتیں کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی، وفاقی وزیر کا استعفی بارش کا پہلا قطرہ ہے۔

    صدر لاہور ہائی کورٹ بار نے کہا کہ وزیر اعظم کو مستعفیٰ ہونے کے لیے دی جانے والی مہلت آج رات 12 بجے ختم ہورہی ہے، اگر نوازشریف مستعفیٰ نہ ہوئے تو تیرہ مئی کو آل پاکستان وکلا نمائندوں کا کنونشن طلب کر کے اگلے لائحہ عمل طے کریں گے۔

    لاہور ہائی کورٹ بار بار کے نائب صدر راشد لودھی نے کہا کہ مراعات یافتہ چند وکلاء وزیراعظم کے استعفی کے خلاف ہیں۔شہریوں کو انصاف اور ایک وقت کا کھانا دستیاب نہیں دوسری طرف حکمرانوں کی کرپشن نمایاں ہو چکی ہے۔ سپریم کورٹ کے پانچوں ججوں نے وزیراعظم کو کرپشن میں ملوث قرار دیا جس کے بعد اب ان کا عہدے پر رہنے کا کوئی اخلاقی جواز نہیں انہوں نے کہا کہ خود مختار وکلاء کرپشن کے خلاف ہمارے ساتھ ہیں اور مل کرتحریک چلائیں گے۔

    پڑھیں: ’’ پاناما فیصلہ: جماعت اسلامی کی نظرثانی درخواست کیلئے مشاورت ‘‘

    یاد رہے کہ پاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ بار کونسل بھی وزیر اعظم سے استعفے کا مطالبہ کرچکی ہیں، وکلا کی جانب سے وزیراعظم کے خلاف تحریک کے مطالبے نے دوہزار سات میں چلنے والی  وکلا تحریک کی یاد دلادی جس کے نتیجے میں سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری بحال ہوئے تھے۔

    مزید پڑھیں: پاناما معاملے پر خاموش رہنے کے لیے 10 ارب کی پیش کش ہوئی، عمران خان

    واضح رہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے پاناما فیصلے آنے کے بعد اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے نوازشریف سے مسلسل مطالبہ کیا جارہا ہے کہ وہ وزارتِ عظمیٰ کے عہدے سے مستعفیٰ ہوں ساتھ ساتھ اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے دھرنوں، مظاہروں، جلسے جلوسوں کا انعقاد بھی جارہا ہے، تاہم اب وکلا نے بھی ملک گیر تحریک چلانے کا اشارہ دے دیا۔

  • سرکاری جامعات کے وائس چانسلر کی تقرری‘عدالت نے پنجاب حکومت کا اختیار دے دیا

    سرکاری جامعات کے وائس چانسلر کی تقرری‘عدالت نے پنجاب حکومت کا اختیار دے دیا

    لاہور: ہائیکورٹ کے دو رکنی بنچ نے حکومت پنجاب کو پبلک سیکٹر یونیورسٹیوں کےوائس چانسلرز کی تعیناتیوں کا اختیار دیتے ہوئے ہائی کورٹ کے سنگل بنچ کی جانب سے چار یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز کی تعیناتی غیر قانونی قرار دینے کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔

    لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس سید منصور علی شاہ اور جستس شجاعت علی خان پر مشتمل دو رکنی بنچ نے فیصلہ سنایا۔عدالت نے حکومت پنجاب اور پنجاب یونیورسٹی کی جانب سے دائر اپیلوں کو منطور کرتے ہوئے فیصلے میں کہا ہے کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد پبلک سیکٹر یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز کی تعیناتیاں کرنا حکومت پنجاب کا اختیار ہے۔حکومت پنجاب سرچ کمیٹی کی سفارشات کی روشنی میں وائس چانسلرز کی تعیناتیاں کرے۔

    عدالت نے فیصلے میں کہا ہے کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن سرچ کمیٹی کو کم سے کم رہنمائی فراہم کرنے کا پابند ہے۔عدالت نے کہا ہے کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن یکساں معیار تعلیم قائم کرنے کے لئے مشترکہ مفادات کونسل سے منظوری حاصل کرئے۔

    پنجاب کی 4 جامعات کے وائس چانسلرز کی تقرریاں کالعدم قرار

     مشترکہ مفادات کونسل چھ ماہ کےعرصے میں یکساں معیار تعلیم قائم کرنے کے لئے پالیسی وضع کرے۔عدالت نے پنجاب یونیورسٹی کے موجودہ وائس چانسلر ظفر معین ناصر کی تعیناتی کے خلاف دائر درخواست بھی مسترد کردی۔عدالت نے فیصلے میں کہا ہے کہ سنگل بنچ کے فیصلے سے سات دیگر یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز کی تعیناتیوں سے ابہام پیدا ہوا، ساتوں یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز کی تعیناتیاں قانون کے مطابق کی گئیں ہیں۔

    عدالت نے سرچ کمیٹی کوپنجاب یونیورسٹی، لاہور کالج وویمن یونیورسٹی،، سرگودھا یونیورسٹی اور نواز شریف انجئینرنگ اینڈ ٹیکنالوجی یونیورسٹی ملتان کے وائس چانسلرز کی تعیناتیاں عدالتی فیصلے کے مطابق کرنے کی ہدایت کردی۔

    پنجاب یونیورسٹی کی جانب سے ملک اویس خالد ایڈووکیٹ عدالت میں پیش ہوتے رہے جبکہ ڈاکتر مجاہد کامران سمیت دیگر وائس چانسلرز کی تعیناتیوں کے خلاف درخواست گزار اورنگزیب کےوکیل صفدر شاہین پیرزادہ کیس میں پیش ہوتے رہے۔

  • شریف خاندان شوگر ملز کیس ، وزیراعظم کے بھتیجے یوسف عباس شریف سمیت تین قریبی رشتہ دار طلب

    شریف خاندان شوگر ملز کیس ، وزیراعظم کے بھتیجے یوسف عباس شریف سمیت تین قریبی رشتہ دار طلب

    لاہور: لاہور  ہائی کورٹ نے شریف خاندان شوگر ملیں منتقلی کیس میں وزیراعظم کے بھتیجے یوسف عباس شریف سمیت تین قریبی رشتہ داروں کو طلب کرلیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ سید منصور علی شاہ کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی . جہانگیر ترین کے وکیل اعتزاز احسن نے دلائل دیے کہ پابندی کے باوجود ایک خاندان کو فائدہ پہنچانے کے لیے پابندی ختم کی گئی، ان ملوں کی منتقلی کی وجہ سے جنوبی پنجاب میں پانی اور کپاس کی فصل کو شدید خطرات لاحق ہیں۔

    چیف جسٹس نے قرار دیا کہ جو ملیں پہلے سے منتقل کی گئیں ان سے کپاس اور پانی کو کتنا نقصان پہنچا اس کے لیے ماہرین پر مشتمل کمیشن قائم کیا جائے گا، جو وہاں جا کر تمام صورتحال کا جائزہ لے کر رپورٹ پیش کرے گا۔

    عدالت نے قرار دیا کہ جنوبی پنجاب کے عوام کا تحفظ بھی عدالت کی ذمہ داری ہے شوگر ملیں مفاد عامہ سے بڑھ کر نہیں۔


    مزید پڑھیں : شریف خاندان کی شوگر ملز کا خام مال استعمال میں لانے کی اجازت کی استدعا مسترد


    عدالتی حکم امتناعی کے باوجود کرشنگ کرنے پر توہین عدالت کی درخواست پر ہائی کورٹ نے وزیراعظم کے بھتیجے یوسف عباس شریف . جاوید شفیع اور حسیب ریاض کو نوٹس جاری کرتے ہوئے 8 مئی کو ذاتی حیثیت میں پیش ہونے کا حکم دیتے ہوئے سماعت ملتوی کر دی۔

    گذشتہ سماعت میں لاہور ہائیکورٹ نے شریف خاندان کی چودھری شوگر ملز کا خام مال استعمال میں لانے کی اجازت دینے کی استدعا مسترد کر دی تھی۔

    یاد رہے کہ گذشتہ ماہ کے آغاز میں لاہور ہائیکورٹ نے شریف فیملی کی حسیب وقاص اور چوہدری شوگر ملز کو سیل کرنے کا حکم دیا تھا جبکہ اس سے قبل لاہور ہائیکورٹ نے شریف خاندان کی تینوں شوگر ملزکو کرشنگ سے روک دیا تھا، چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے وکیل کو وارننگ دیتے ہوئے کہا تھا کہ اگر کرشنگ ہوئی تو ذمے داری آپ پر عائد ہوگی۔


    مزید پڑھیں : ہائیکورٹ کا شریف خاندان کی 2 شوگر ملز کو سیل کرنے کا حکم


    واضح رہے وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف پر الزام ہے کہ انہوں نے قوائد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے نئی شوگر ملوں کے قیام پر پابندی کے باوجود تین نئی شوگر ملز قائم کی تھیں

  • ماڈل ٹاؤن استغاثہ کیس: وزیر اعظم کو طلب کرنے کے حوالے سے فیصلہ محفوظ

    ماڈل ٹاؤن استغاثہ کیس: وزیر اعظم کو طلب کرنے کے حوالے سے فیصلہ محفوظ

    لاہور: لاہور کی انسداد دہشت گردی عدالت نے ماڈل ٹاؤن استغاثہ کیس میں وزیر اعظم، وزیر اعلیٰ پنجاب، رانا ثنا اللہ اور خواجہ سعد رفیق سمیت 37 شخصیات کو طلب کرنے کے حوالے سے فیصلہ محفوظ کرلیا۔

    تفصیلات کے مطابق انسداد دہشت گردی عدالت کے جج چوہدری اعظم نے عوامی تحریک کی جانب سے دائر استغاثہ کی سماعت کی۔

    عوامی تحریک کی جانب سے دائر استغاثہ میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ وزیر اعظم، وزیر اعلیٰ پنجاب، خواجہ سعد رفیق، پرویز رشید اور رانا ثنا اللہ سمیت مسلم لیگ ن کے 37 رہنماؤں کے ایما پر ماڈل ٹاؤن میں فائرنگ کر کے 14 بے گناہ افراد کو قتل اور 100 سے زائد افراد کو زخمی کیا گیا۔

    مؤقف میں کہا گیا کہ ماڈل ٹاؤن میں قتل و غارت کے لیے باقاعدہ میٹنگز کی گئیں جن کی صدارت وزیر اعلیٰ اور رانا ثنا اللہ نے کی۔

    عوامی تحریک کے مطابق بیریئر ہٹانے کے نام پر اس طرح قتل و غارت کی کوئی مثال نہیں۔ یہ سانحہ اس لیے پیش آیا کہ عوامی تحریک کرپشن کے خلاف ایک تحریک چلانا چاہتی تھی جسے روکنے کے لیے بے گناہوں کا خون بہایا گیا۔

    درخواست میں کہا گیا کہ سانحہ کی پہلی ایف آئی آر بد نیتی پر مبنی تھی جسے عوامی تحریک نے مسترد کیا۔ بعد ازاں سابق آرمی چیف کے حکم پر وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ سمیت دیگر افراد کے خلاف مقدمہ درج ہوا تاہم اس کے بعد انہیں جے آئی ٹی میں الجھا دیا گیا۔ اس لیے عدالت وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ سمیت 37 شخصیات کے خلاف سانحہ ماڈل ٹاؤن پر کارروائی کا حکم دے۔

    عدالت نے سماعت کے بعد میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف سمیت مقدمے کے ملزمان کو طلب کرنے پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔ استغاثہ میں عوامی تحریک کی جانب سے 56 گواہان کی شہادتیں ریکارڈ کروائی گئیں جبکہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کی فوٹیج سمیت اہم دستاویزات بھی پیش کی گئیں۔

  • مضرصحت دودھ بیچنے والوں کے خلاف خصوصی عدالت کا قیام

    مضرصحت دودھ بیچنے والوں کے خلاف خصوصی عدالت کا قیام

    لاہور: سپریم کورٹ کی جانب سے مضرصحت دودھ کی کھلے عام فروخت پر لیے گئے نوٹس کے بعد حکومت کو بھی ہوش آہی گیا، حکومت کی جانب سے مضر صحت دودھ اور خوراک فروخت کرنے والوں کو سزائیں دینے کے لیے اسپیشل عدالتیں قائم کرنے کی تیاری مکمل کر لی گئی۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کی جانب سے مضر صحت دودھ اور پانی کے معاملے کا نوٹس لیتے ہی سالہا سال سے خواب غفلت میں پڑی پنجاب حکومت کو بھی عوام کی صحت کا خیال آ ہی گیا اور حکومت نے پہلی بار مضر صحت دودھ اور خوراک فروخت کرنے والوں کو سزائیں دینے کے لیے اسیشل ٹریبونلز قائم کرنے کی تیاری کر لی ہے۔

    لاشوں کے کیمیکل کی ملاوٹ والا ہزاروں لیٹردودھ برآمد

    ڈبے کے دودھ اور منرل واٹر کی جانچ کیلئے کمیشن تشکیل

    ذرائع کا کہنا ہے کہ وہ لوگ جو حکومتی اہلکاروں کی ملی بھگت اور حکومت کی ناک تلے سالہا سال سے عوام کو خوبصورت پیکنگ میں دودھ اور خوراک کی دیگر چیزوں کے نام پر زہر کھلا رہے تھے اور حکومت نے کبھی ان کے خلاف کارروائی کو درخور اعتنا ہی نہ سمجھا یکایک ان کا یہ عمل انسانیت کے خلاف سنگین جرم قرار دے دیا گیا۔

    اس حوالے سے حکومت پنجاب کی جانب سے صوبے بھر کے ضلعی افسران اور متعلقہ سیکریٹریز کو مراسلہ بھی بھجوا دیا گیا ہے جس میں ان کو ہدایت کی گئی ہے کہ اسپیشل کورٹس کے لیے دو دو افراد کو نامزد کیا جائے تاکہ انھیں تعینات کیا جاسکے۔

    پنجاب حکومت کی جانب سے اسپیشل کورٹس میں تعیناتی کے لیے ایم بی بی ایس، فوڈ ٹیکنالوجی، کیمسٹری یا بایو کیمسٹری، بیالوجی اور وٹرنری میں ماسٹرز کی ڈگری کی شرط رکھی گئی ہے۔

    پنجاب حکومت کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ سید منصور علی شاہ سے درخواست کی جائے گی کہ وہ اسپیشل کورٹس کے لیے جوڈیشل افسران کو نامزد کریں تاکہ ان عدالتوں کا جلد قیام ممکن ہو سکے ۔11-post

    11-post-1

  • مردم شماری، ضلعی افسران کی فوج سے تعاون میں ہچکچاہٹ

    مردم شماری، ضلعی افسران کی فوج سے تعاون میں ہچکچاہٹ

    اسلام آباد : مردم شماری کے لیے پنجاب اور سندھ کی ضلعی حکومتوں کے افسران، پاک فوج سے تعاون کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہو گئے ہیں، محکمہ مردم شماری نے سندھ اور پنجاب حکومتوں کو صورت حال سے آگاہ کرنے کے لیے مراسلہ بھجوا دیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق محکمہ مردم شماری کی جانب سے پنجاب اور سندھ حکومتوں کو بھیجوائے گئے مراسلے میں کہا گیا ہے کہ فوجی افسران نے مردم شماری کے حوالے سے جب پنجاب اور سندھ کی ضلعی حکومتوں کے افسران سے رابطہ کیا تو انھوں نے کسی بھی قسم کا تعاون کرنے سے انکار کر دیا جب کہ وفاقی حکومت نے ملک بھر میں مردم شماری کو دو مرحلوں میں مکمل کرنے کے لیے فوج سے 1 لاکھ 20 ہزار جوان تعینات کرنے کی سفارش کی تھی۔

    اس حوالے سے ضلعی افسران کا کہنا ہے کہ انھیں حکومت کی جانب سے تاحال کوئی ہدایات موصول نہیں ہوئیں لہذا حکومتی ہدایات ملنے تک وہ اس معاملے پر فوجی افسران سے کسی قسم کا تعاون نہیں کر سکتے۔

    محکمہ مردم شماری نے پنجاب اور سندھ حکومتوں کو صورت حال سے آگاہ کیا اور استدعا کی کہ ضلعی حکومتوں کو مردم شماری کی انجام دہی کے لیے فوجی افسران سے تعاون کریں تاکہ مردم شماری کا عمل شروع ہونے میں رکاوٹ ختم ہو سکے۔

    واضح رہے کہ مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی)کے فیصلے کے مطابق مردم شماری کے لیے فوج کی خدمات حاصل کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا، فوج اس وقت ضرب عضب اور سرحدوں کی صورتحال کے باعث بہت مصروف ہے مگر اس کے باوجود مردم شماری کے لیے فوج نے مکمل تعاون کا اظہار کیا۔

    یاد رہے فوج سے مدد لینے کا مقصد مردم شماری کے عمل کو محفوظ اور شفاف بنانا ہے اور ایک لاکھ بیس ہزار فوجی جوان مردم شماری کے لیے اپنی خدمات پیش کریں گے۔

  • بیٹی کو زندہ جلانے والی ماں کو سزائے موت

    بیٹی کو زندہ جلانے والی ماں کو سزائے موت

    لاہور: انسداد دہشت گردی عدالت نے بیٹی کو زندہ جلانے والی ماں کو سزائے موت سنادی۔ جرم میں شریک بھائی کو بھی عمر قید کی سزا سنادی گئی۔

    تفصیلات کے مطابق لاہور کی انسداد دہشت گردی عدالت کے جج محمد الیاس نے کیس کی سماعت مکمل ہونے کے بعدفیصلہ سنا دیا۔ عدالت نے زندہ جلائی جانے والی لڑکی کی والدہ پروین بی بی کو پھانسی کی سزا سنا دی جبکہ شریک جرم بیٹے انیس کو عمر قید کی سزا سنا دی۔

    مقدمہ میں نامزد بہنوئی ظفر اقبال کو بری کرنے کا حکم دے ديا گیا۔

    یاد رہے کہ کچھ عرصہ قبل زندہ جلائی جانے والی نوجوان لڑکی زینت نے احسن نامی نوجوان سے پسند کی شادی کی تھی۔ والدین نے صلح کے بعد اسے گھر واپس بلوایا جس کے بعد ماں اور بھائی نے اسے تیل چھڑک کر آگ لگا دی تھی۔

    لڑکی کے خاوند احسن خان کی مدعیت میں لڑکی کی ماں پروین بی بی، بھائی انیس احمد اور بہنوئی ظفر اقبال کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ بعد ازاں لڑکی کا بہنوئی ظفر تمام واقعہ میں بے گناہ ثابت ہوا۔

    دوران تفتیش لڑکی کی ماں پروین بی بی نے اپنا گناہ بھی تسلیم کر لیا تھا۔ ماں کا کہنا تھا کہ مقتولہ زینت نے گھر میں اس کے ساتھ ہنگامہ آرائی کے بعد خود پر تیل ڈال لیا اور اسے بار بار آگ لگانے کے لیے اکساتی رہی جس پر غصے میں آ کر اس نے ماچس کی تیلی پھینک دی جس سے وہ بری طرح جھلس گئی اور بعد ازاں جاں بحق ہوگئی۔

    دوران تفتیش لڑکی کی ماں پروین بی بی نے اپنا گناہ بھی تسلیم کر لیا تھا۔ ماں کا کہنا تھا کہ مقتولہ زینت نے گھر میں اس کے ساتھ ہنگامہ آرائی کے بعد خود پر تیل ڈال لیا اور اسے بار بار آگ لگانے کے لیے اکساتی رہی جس پر غصے میں آ کر اس نے ماچس کی تیلی پھینک دی جس سے وہ بری طرح جھلس گئی اور بعد ازاں جاں بحق ہوگئی۔

  • بچوں کی فروخت قابلِ افسوس امر ہے، چیف جسٹس

    بچوں کی فروخت قابلِ افسوس امر ہے، چیف جسٹس

    لاہور : سپريم کورٹ کے دو رکنی بنچ نے پنجاب میں بچوں کے اغواء کی بڑھتی ہوئی وارداتوں پر وجوہات جاننے کے لیے بنائی گئی کمیٹی سے مزید تجاویز طلب کرتے ہوئے پولیس کو ایک ماہ کے اندر تفصیلی رپورٹ جمع کرانے کا حکم جاری کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار اور جسٹس عمر عطا بندیال پر مشتمل بنچ نے پنجاب میں بچوں کے اغواء ہونے کی بڑھتی ہوئی واردتوں پر ازخود نوٹس کی سماعت سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں کی۔

    اس موقع پر اغواء شدہ بچوں کی تفصیلات جاننے کے ليے عاصمہ جہانگیر کی سربراہی ميں بنائی گئی کميٹی نے اپنی رپورٹ جمع کراتے ہوئے عدالت کو بتايا کہ ملک میں بچوں سے مشقت لینے کی روک تھام کے حوالے سے کوئی قدم نہیں اُٹھایا گیا ہے۔

    عاصمہ جہانگیر کی سربراہی میں کام کرنے والی کمیٹی نے اپنی سفارشات میں بچوں سے مشقت لینے والوں کے لیے سخت سزائیں تجویز کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ بچوں سے مشقت لینے والوں کے خلاف سخت کارروائی سے ہی اس لعنت سے نجات حاصل کی جاسکتی ہے۔

    سماعت کے دوران معزز جج صاحبان نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ازخود نوٹس سے بچوں کے اغوا کے حوالے سے خوف کم ہوا ہے تا ہم افسوسناک بات یہ ہے کہ والدین خود اپنے بچے فروخت کر دیتے ہیں حالانکہ بچے فروخت کرنے کی چیز نہیں ہیں۔

    اس موقع پر جسٹس عمرعطا بندیال نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ بچوں کی فروخت کا سلسلہ پسماندہ علاقوں میں ہو رہا ہے جہاں والدین معمولی مالی فائدے کے عوض اپنے بچوں کو فروخت کر دیتے ہیں۔

    سماعت کے دوران ایک سوال پر چائلڈ پروٹیکشن بیورو نے عدالت کو بتایا کہ بچوں کے اعضاء نکالنے کے حوالے سے خبریں غلط ہیں اور ایسا واقعہ ابھی تک سامنے نہیں آیا۔

    پولیس کی جانب سے عدالت کو اپنی کارکردگی سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ دوگمشدہ بچیوں کو بازیاب کروا کران والد کے حوالے کر دیا گیا ہے، جس پر عدالت نے بچیوں کے ماں اور باپ کو طلب کرلیا۔

    اس موقع پر گم شدہ بچوں کے والدین نے عدالت کو بتایا کہ بچوں کی تلاش میں روز مرتے اور روز جیتے ہیں مگر ان کا کوئی پرسانِ حال نہیں جب کہ سینئر سول جج یوسف نے اپنے بیٹے کو اغواء کرنے والے ملزم کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کی درخواست بھی دائر کی۔

    عدالت نے پولیس سے تفصیلی رپورٹ طلب کرنے کے ساتھ ساتھ بچوں کے اغواء سے متعلق حکومت اور سول سوسائٹی سے مزید تجاویز طلب کرتے ہوئے سماعت ملتوی کر دی۔