Author: عابد خان

  • براڈ کاسٹنگ ادارے ڈی ٹی ایچ کے اہل قرار، نیلامی دوبارہ کرنے کا حکم

    براڈ کاسٹنگ ادارے ڈی ٹی ایچ کے اہل قرار، نیلامی دوبارہ کرنے کا حکم

    لاہور: ہائی کورٹ براڈ کاسٹ اداروں کو ڈی ٹی ایچ ٹیکنالوجی کے لائسنس کا اہل قرار دیتے ہوئے ڈی ٹی ایچ ریگولیشن کی شق 12 کی سب سیکشن 3 کو کالعدم قرار دے دیا اور حکم دیا ہے کہ ڈی ٹی ایچ کی نیلامی دوبارہ کی جائے۔


    اسی سے متعلق: پاکستان کے پہلے3ڈی ٹی ایچ لائسنسزکی14ارب79کروڑ میں نیلامی


    لاہور ہائیکورٹ کی جسٹس عائشہ اے ملک کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے 33 صفحات پر مشتمل فیصلہ سنایا جس میں براڈ کاسٹ اداروں کو ڈی ٹی ایچ ٹیکنالوجی کے لائسنس کا اہل قرار دے دیا۔ عدالت نے براڈ کاسٹ اداروں کو لائسنس جاری نہ کرنے کے حوالے سے ڈی ٹی اہچ ریگولیشن کے آرٹیکل 12 کی ذیلی شق 3 کو کالعدم قرار دے دیا۔


    یہ بھی پڑھیں: پیمرا کو ڈی ٹی ایچ لائسنس کی نیلامی کی مشروط اجازت


    عدالت نے فیصلے میں قرار دیا کہ براڈ کاسٹ ادارے ڈسٹری بیوشن کا کردار ادا کر سکتے ہیں ساتھ ہی عدالت نے پیمرا کو لائسنسوں کے اجرا کے لیے از سر نو نیلامی کے احکامات بھی جاری کیے۔

    قبل ازیں درخواست گزاروں کی وکیل عاصمہ جہانگہر نے موقف اختیار کیا تھا کہ پیمرا قوانین کے تحت ایک براڈ کاسٹ ادارہ 4 میڈیا چینلز کے لائسنس رکھ سکتا ہے، قانون میں ڈی ٹی ایچ ٹیکنالوجی کے لائسنس حاصل کرنے پر کوئی پابندی نہیں ہے مگر اس کے باوجود براڈ کاسٹ اداروں کو پیمرا کی جانب سے یہ لائسنس جاری نہیں کیے جا رہے۔


    یہ ضرور پڑھیں: ڈی ٹی ایچ آخر ہے کیا؟


    سرکاری وکیل نے عدالت میں موقف اختیار کیا تھا کہ پیمرا ریگولیشن کی شق 32 کے تحت ڈی ٹی ایچ ٹیکنالوجی کے لائسنس کیبل آپریٹرز ہی حاصل کرسکتے ہیں اگر براڈ کاسٹ اداروں کو لائسنس جاری کر دئیے جائیں تو ان کی اجارہ داری قائم ہو جائے گی جو کہ مسابقتی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔

  • سپریم کورٹ: ڈبے کے دودھ اور منرل واٹر کی جانچ کیلئے کمیشن تشکیل

    سپریم کورٹ: ڈبے کے دودھ اور منرل واٹر کی جانچ کیلئے کمیشن تشکیل

    اسلام آباد: سپریم کورٹ نے ناقص دودھ اور ناقص پانی فروخت کرنے والی کمپنیوں کی انسپکشن کے لیے لوکل کمیشن تشکیل دیتے ہوئے تفصیلی رپورٹ طلب کر لی اور کہا ہے کہ بچوں کو زہر پلانے کی اجازت ہر گز نہیں دیں گے۔

    نامزد چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں از خود کیس کی سماعت کی۔

    درخواست گزار بیرسٹر ظفراللہ نے عدالت کو بتایا کہ پی سی ایس آئی آر لیبارٹری کی رپورٹ میں ثابت ہو چکا ہے کہ کھلے دودھ کے علاوہ ڈبہ بند دودھ میں ڈیٹرجنٹ پاؤڈر اور کیمیائی مادے استعمال کیے جاتے ہیں جو صحت کے لیے انتہائی خطرنا ک ہیں اور ان سے بیماریاں پھیل رہی ہیں۔

    ڈی جی فوڈ پنجاب نورالامین مینگل نے عدالت کو بتایا کہ ناقص اور غیر معیاری دودھ فروخت کرنے والی کمپنیوں پر جرمانے عائد کیے جا رہے ہیں اور ان کے خلاف قانون کے تحت کارروائی کی جا رہی ہے۔

    انھوں نے عدالت کو بتایا کہ ایک ادارے کی خوراک میں فنگس ملا جس کی وجہ سے اس کا لائسنس معطل کر دیا گیا، ایک بیکری کی دودھ کی پیداوار بند کر دی گئی اور جرمانہ عائد کیا گیا جس کے بعد اب صورتحال بہتر ہو گئی ہے۔

    لاشوں کو محفوظ کرنے والا کیمیکل دودھ میں ملانے کا انکشاف

    دوران سماعت ہی انکشاف ہوا کہ لاشوں کو محفوظ کرنے والا کیمیکل دودھ میں ملایا جارہا ہے، ڈی جی فوڈ پنجاب نور الامین نے عدالت کو بتایا کہ ایک برانڈ کے دودھ میں سے فارملین نکلا جس کے بعد اس کی پروڈکشن بند کر دی گئی اور اس پر جرمانہ بھی عائد کیا گیا۔

    عدالت نے استفسار کیا کہ فارملین تو مُردوں کو محفوظ کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے اسے دودھ میں استعمال کرنے کی اجازت کس طرح دی گئی جس پر ملک کمپنی کے وکیل نے بتایا کہ اب فارملین کا استعمال بند کر دیا گیا ہے ،ملک کی پروڈکشن ایک ہفتے کے لیے بند کی اور 10 لاکھ جرمانہ عائد کیا ۔

    نورالامین نے عدالت کو بتایا کہ ایک اور ملک کمپنی کی پروڈکشن روک کر پلانٹ سیل کر دیا گیا ہے وہ بالکل جعلی کام تھا، صوبے میں کئی ایسی جگہیں ہیں جہاں ہم نہیں جاسکتے جس پر عدالت نے انھیں اجازت دی کہ وہ صوبے میں جہاں جانا چاہیں جاسکتے آپ دیکھیں کہ وہاں کیا ہو رہا ہے اور دودھ میں کیا کیا ڈالا جا رہا ہے ۔

    عدالت کو بتایا گیا کہ فوڈ اتھارٹی نے پانی کے 300 اور دودھ کے 30 نمونے تجزیے کے لیے لیبارٹری بھجوا دئیے ہیں جس پر عدالت نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ عدالت فوڈ اتھارٹی کی لیبارٹری سے آگاہ ہے جہاں ترازو اور چند چیزوں کے علاوہ کوئی معیاری مشین موجود نہیں۔

    عدالت نے فوڈ اتھارٹی کی کارکردگی پر عدم اعتماد کا اظہار کیا عدالت نے ناقص دودھ فروخت کرنے والی کمپنیوں کے وکلا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ زہریلا دودھ پلا کر شہریوں کو مارنے کی کوشش نہ کی جائے، عدلیہ بچوں کو زہریلا دودھ پلانے کی اجازت نہیں دے سکتی۔

    عدالت نے دودھ اور پانی کے ارسال کردہ نمونوں کی رپورٹ آئندہ سماعت پر عدالت میں پیش کرنے کا حکم دے دیا، عدالت نے دودھ فروخت کرنے والی کمپنیوں کا معیار جانچنے کے لیے لوکل کمیشن تشکیل دیتے ہوئے جامع رپورٹ طلب کرلی اور سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دی۔

  • لاہور ہائیکورٹ، شہباز شریف کی نا اہلی کی درخواست مسترد

    لاہور ہائیکورٹ، شہباز شریف کی نا اہلی کی درخواست مسترد

    لاہور: لاہور ہائی کورٹ نے وزیر اعلٰی پنجاب شہباز شریف کی نااہلی کے لیے درخواست کو نا قابلِ سماعت قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا، درخواست نے وزیراعلیٰ کو اختیارات سے تجاوز اور حلف کی پاسداری نہ کرنے کا مرتکب کہتے ہوئے نااہل قرار دینے کی استدعا کی تھی۔

    درخواست کی سماعت لاہور ہائی کورٹ کی جسٹس عائشہ اے ملک نے کی۔ عدالت کے روبرو تحریک انصاف کے رہنما اعجاز چوہدری کے وکیل بابر اعوان نے کہا کہ وزیر اعلی پنجاب نے اپنے اثاثے چھپائے، رقم غیرقانونی طور پر بیرون ملک منتقل کی اور قوم سے غلط بیانی کی،وزیر اعلی پنجاب نے اپنے اختیارات کا غلط استعمال کرتے ہوئے صوبے میں من پسند افسران کو میرٹ کے برعکس سیاسی مقاصد کے لیے تعینات کیا۔

    انہوں ںے کہا کہ  وزیر اعلی پنجاب میاں شہباز شریف نے قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنی شوگر ملیں ایک سے دوسرے علاقے میں منتقل کیں جب کہ قانون اس کی اجازت نہیں دیتا، وزیراعلی نے اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کر کے بہت سے غیر قانونی احکامات جاری کیے لہذا انھیں نااہل قرار دیا جائے ۔

    سرکاری وکیل شان گل نے عدالت کو بتایا کہ درخواست گزار نے کمپنی کے حوالے سے درخواست دائر کی جو ناقابل سماعت ہونے کی بناءپر مسترد کی جائے۔

    عدالت نے ریمارکس دئیے کہ منتخب نمائندے کے خلاف فورم موجود ہونے کے باوجود درخواست گزار نے عدالت سے کیوں رجوع کیا۔

    عدالت نے ریمارکس دئیے کہ کسی رکن اسمبلی کے خلاف ریفرنس بھیجوانا اسپیکر کا اختیار ہے لہذا درخواست گزار کو ان سے رجوع کرنا چاہیے تھا۔

    عدالت نے فریقین کے وکلا کے دلائل سننے کے بعد درخواست خارج کردی۔

  • خواجہ سراؤں کے حقوق کے لیے حکومت سے جواب طلب

    خواجہ سراؤں کے حقوق کے لیے حکومت سے جواب طلب

    لاہور: لاہور ہائیکورٹ نے خواجہ سراؤں پر ہونے والے تشدد کی روک تھام اور ان کے بنیادی حقوق کی بحالی کے لیے دائر درخواست پر وفاقی حکومت سے جواب طلب کر لیا۔

    تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ سید منصور علی شاہ نے کیس کی سماعت کی۔ درخواست گزار خواجہ سرا وقار کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ خواجہ سرا بھی دیگر شہریوں کی طرح ملک میں برابر کے شہری ہیں لیکن ان کے بنیادی حقوق کا تحفظ نہیں کیا جارہا۔

    درخواست میں کہا گیا کہ خواجہ سراؤں کو مردم شماری میں شمار کیا جاتا ہے نہ ہی قومی شناختی کارڈ کی سہولت میسر ہے۔ خواجہ سراؤں کی جنس کے متعلق کوئی خانہ بھی موجود نہیں ہے۔

    تیسری جنس معاشرے کے لیے ناقابل قبول کیوں؟ *

    انہوں نے کہا کہ خواجہ سراؤں پر عمرہ کی ادائیگی پر پابندی کے سبب مذہبی امور کی ادائیگی کے لیے بھی مشکلات کا سامنا ہے۔

    درخواست گزار کے مطابق خواجہ سراؤں کو درجہ دوئم کا شہری سمجھا جاتا ہے اور انہیں تشدد کا نشانہ بنایا جانا معمول کی بات ہے جبکہ پولیس سارے معاملے کی پشت پناہی کرتی ہے۔ درخواست میں اپیل کی گئی کہ عدالت خواجہ سراؤں کو تشدد سے بچانے کے لیے حکومت کو مؤثر قانون سازی کا حکم دے۔

    عدالت میں مزید استدعا کی گئی کہ عدالت خواجہ سراؤں کے بنیادی اور مذہبی حقوق کو بحال کرنے کے بھی احکامات جاری کرے۔

    عدالت نے ابتدائی سماعت کے بعد وفاقی اور صوبائی حکومتوں، نادرا سمیت فریقین کو 7 دسمبر کے لیے نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کر لیا۔

    اس سے قبل بھی پشاور میں مردم شماری کے فارم میں خواجہ سراؤں کا خانہ شامل نہ ہونے پر خواجہ سراؤں نے احتجاج کیا تھا اور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کردی تھی۔

    چند روز قبل سیالکوٹ میں چند با اثر افراد کی جانب سے خواجہ سرا پر بہیمانہ تشدد کی ویڈیو منظر عام پر آئی تھی جس پر اعلیٰ حکام نے نوٹس لیتے ہوئے ملزمان کو گرفتار کرنے کا حکم دیا تھا۔

    واقعہ کے خلاف خواجہ سراؤں نے احتجاج بھی کیا تھا۔ سینیٹ میں جے یو آئی ف کے رہنما حافظ حمد اللہ نے بھی اس معاملے کو اٹھایا اور کہا تھا کہ خواجہ سرا ہونا جرم نہیں ہے۔ پاکستان میں خواجہ سراؤں کے ساتھ اچھوتوں والا سلوک ہوتا ہے۔

  • عدالت نے ترک اساتذہ کی ملک بدری روکنے کا حکم جاری کردیا

    عدالت نے ترک اساتذہ کی ملک بدری روکنے کا حکم جاری کردیا

    لاہور:عدالت نے ترک اساتذہ کی جانب سے دائر کردہ درخواستوں کی سماعت کرتے ہوئے ملک بدری روکنے کے احکامات جاری کردیے۔

    تفصیلات کے مطابق ہائی کورٹ کے جسٹس شمس محمود مرزا نے ترک اساتذہ کی جانب سے دائر درخواستوں کی سماعت کی۔

    درخواست گزار وں کے وکلا ءنے عدالت کو بتايا کہ 108 اساتذہ ترکی سے آکر يہاں بچوں کو تعليم دے رہے ہيں،وفاقی حکومت پہلے تو ويزہ ميں توسيع ديتی رہی مگر گيارہ اور چودہ نومبر کو دوبارہ توسيع کی مگر درخواست مسترد کر کے ملک سے نکل جانے کا کہا گيا،عالمي قوانين کے تحت منصوبے کی تکميل تک غير ملکی ورکرز کو ملک بدر نہيں کيا جا سکتا ۔

    پاک ترک اسکول بند اورعملے کو ملک بدر کرنے کا فیصلہ

    درخواست گزاروں نے استدعا کی عدالت نے وزارت داخلہ کا جاری نوٹفکيشن منسوخ کر کے ملک بدری روکنے کا حکم جاری کرےعدالت نے دلائل سننے کے بعد وزارت داخلہ کا نوٹی فکيشن معطل کرتے ہوئے اساتذہ کی ملک بدری روکنے کا حکم ديتے ہوئےوفاقی اور پنجاب حکومت کو نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت 17 جنوری تک ملتوی کر دی

    یاد رہے کہ طیب ایردوان کی پاکستان آمد سے قبل ملک بھر میں قائم فتح اللہ گولن گروپ کے تحت چلنے والے تعلیم اداروں کو بند اور اساتذہ کو ملک چھوڑنے کا حکم نامہ جاری کردیا گیا، خلاف ورزی کرنے والے افراد کو ملک بدر کردیا جائے گا۔

    وزارتِ داخلہ کے ذرائع نے اس بات کی تصدیق کی تھی کہ ملک بھر میں قائم پاک ترک اسکولوں کو فتح اللہ گولن گروپ کی سربراہی حاصل ہے۔ جس میں 108 ترک اساتذہ تعینات ہیں۔

    پاک ترک اسکولوں میں تعینات ٹیچرز کے خاندان سے تعلق رکھنے والے 400 افراد بھی ملک کے مختلف علاقوں میں رہائش پذیر ہیں جنہیں 20 نومبر تک ملک چھوڑنے کا حکم نامہ جاری کردیا گیا ہے۔

  • وزیراعظم نااہلی ریفرنس‘ اسپیکر قومی اسمبلی کے فیصلے پرعدالت نے جواب طلب کرلیا

    وزیراعظم نااہلی ریفرنس‘ اسپیکر قومی اسمبلی کے فیصلے پرعدالت نے جواب طلب کرلیا

    لاہور : ہائی کورٹ نے وزیراعظم کی نااہلی کے ریفرنس کو مسترد کرنے کے سپیکر قومی اسمبلی کے فیصلے کو کالعدم قرار دینے کی درخواست پر وفاقی وزارت ِقانون اور الیکشن کمیشن کودوبارہ نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کر لیا۔

    لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس سید منصور علی شاہ نے کیس کی سماعت کی‘ درخواست سابق چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری کی جماعت جسٹس اینڈ ڈیمو کریٹک پارٹی کی جانب سے دائر کی گئی ۔

    درخواست گزار کے وکلاء نے عدالت کو بتایا کہ وزیر اعظم میاں نوازشریف پر منی لانڈرنگ‘ دھاندلی‘ اقربا پروری‘ ٹیکس چوری اور ناجائز اثاثے بنانے کے سنگین الزامات ہیں اور پانامہ لیکس میں اس کے ٹھوس شواہد موجود ہیں اس لیے وزیراعظم آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 پر پورا نہیں اترتے ۔

    درخواست میں مزید کہا گیا کہ وزیراعظم کی نااہلی کے لیے سپیکر قومی اسمبلی کو ریفرنس بھجوایا گیا تاہم سپیکر نے وزیر اعظم کے ریفرنس الیکشن کمیشن کو بھجوانے کی بجائے کسی قانونی جواز کے بغیر مسترد کر دیا.انہوں نے عدالت سے استدعا کی کہ سپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے ریفرنس مسترد کئے جانے کے فیصلے کوکالعدم قرار دیا جائے۔

    ایڈیشنل اٹارنی جنرل نصیر بھٹہ نے عدالت کو آگاہ کیا کہ آئین کے آرٹیکل 69 کے تحت عدلیہ سپیکر کے فیصلے کو کالعدم قرار نہیں دے سکتیں لہذا درخواست غیر موثر قرار دے کر مسترد کی جائے۔ سابق اٹارنی جنرل اوروزیر اعظم کے وکیل سلمان بٹ کی جانب سے عدالت میں میاں نواز شریف کا جواب جمع کرایا گیا ۔ 20 صفحات پر مشتمل جواب میں کہا گیا کہ وزیراعظم کے خلاف درخواست کی سماعت ہائی کورٹ کے دائرہ اختیار میں ہے نہ ہی عدالتیں وزیراعظم کو طلب کر سکتیں ہیں ۔

    سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی پارٹی متاثرہ فریق نہیں یہ ریفرنس صرف ناکام امیدوار ہی سپیکر کو بھجوا سکتا ہے ۔ جواب میں مزید کہا گیا کہ سپیکر کو جو ریفرنس بھجوایا گیا وہ محض اخباری تراشوں پر مشتمل تھا اس میں کوئی ٹھوس ثبوت فراہم نہیں کیا گیا جس کی بنا پر سپیکر نے ریفرنس مسترد کیا جو قانون کے مطابق ہے۔

    وفاقی وزارت قانون اور الیکشن کمیشن کی جانب سے جواب داخل کرنے کے لئے عدالت سے مزید مہلت کی استدعا کی گئی جس پر عدالت نے کیس کی مزید سماعت یکم دسمبر تک ملتوی کرتے ہوئے وفاقی وارت قانون اور الیکشن کمیشن کودوبارہ نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کر لیا۔

  • لاہور ہائیکورٹ میں نیوز لیکس کمیشن کے خلاف درخواست مسترد

    لاہور ہائیکورٹ میں نیوز لیکس کمیشن کے خلاف درخواست مسترد

    لاہور: لاہور ہائیکورٹ نے نیوز لیکس کی انکوائری کے لیے کمیشن کے قیام کے خلاف دائر درخواست مسترد کردی۔

    تفصیلات کے مطابق لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس سید منصور علی شاہ نے نیوز لیکس کی انکوائری کے لیے کمیشن کے قیام کے خلاف دائر درخواست کی سماعت کی۔

    درخواست گزار عوامی تحریک کے رہنما خرم نواز گنڈا پور کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ وفاقی حکومت نے متنازعہ خبر کے لیک ہونے کے معاملے پر انکوائری کے لیے جسٹس ریٹائرڈ عامر رضا کی سربراہی میں کمیشن تشکیل دیا ہے جن کے شریف خاندان کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں، اس وجہ سے شفاف تحقیقات ممکن نہیں۔

    درخواست گزار کے مطابق کمیٹی کی تشکیل سے متعلق نوٹیفیکیشن قانونی ضابطے کے بغیر جاری کیا گیا۔ نوٹیفیکیشن جاری کرتے ہوئے کمیشن اینڈ انکوائریز ایکٹ 1956 کا حوالہ بھی نہیں دیا گیا جو حکومتی بدنیتی کو ظاہر کرتا ہے۔ عدالت نیا کمیشن تشکیل دینے کا حکم دے۔

    نیوز لیکس تحقیقاتی کمیٹی: تحریک انصاف، عوامی تحریک اور ق لیگ نے مسترد کردی *

    ڈپٹی اٹارنی جنرل نے بیان دیا کہ کمیشن کی تشکیل میں تمام قانونی تقاضے پورے کیے گئے ہیں۔ درخواست غیر ضروری طور پر دائر کی گئی ہے۔

    عدالت نے وکلا کے دلائل مکمل ہونے کے بعد درخواست ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے مسترد کردی۔

    واضح رہے کہ قومی سلامتی سے متعلق خبر شائع ہونے سے متعلق انکوائری کمیٹی تشکیل دی گئی تھی جس کی سربراہی جسٹس ریٹائرڈ عامر خان رضا کریں گے۔

    تحقیقاتی کمیٹی قومی سلامتی سے متعلق خبر لیک ہونے پر اس میں ملوث افراد سے تفتیش کرے گی۔ شفاف تحقیقات کے لیے حکومت پہلے ہی اپنے وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید کو عہدے سے فارغ کر چکی ہے جب کہ کمیٹی کی تحقیقات کی روشنی میں مزید کارروائی بھی کی جائے گی۔

    کمیٹی میں حساس اداروں آئی ایس آئی، آئی بی اور ایم آئی سے تعلق رکھنے والے ایک ایک افسر کو بھی شامل کیا گیا ہے جو کہ انٹیلی جنس کی بنیاد پر تحقیقات میں معاونت کریں گے اور کمیٹی کو حقائق پیش کریں گے۔

    اس کے علاوہ کمیٹی میں سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ طاہر شہباز، ڈائریکٹر ایف آئی اے عثمان انور اور محتسب اعلیٰ پنجاب نجم سعید بھی بہ طور رکن کمیٹی خدمات انجام دیں گے اور حساس نوعیت کے معاملے پر اپنی پیشہ ورانہ تجاویز اور رائے دیں گے۔

  • گورنرسندھ کی تعیناتی لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج

    گورنرسندھ کی تعیناتی لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج

    لاہور: سابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ریٹائرڈ سعیدالزماں صدیقی کی بطور گورنرسندھ تعیناتی لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کردی گئی۔

    تفصیلات کےمطابق جسٹس ریٹائرڈ سعید الزماں صدیقی کی گورنر سندھ کے عہدے پر تقرری کے خلاف درخواست لاہور ہائیکورٹ میں دائر کی گئی ہے اور درخواست میں وفاقی حکومت کو فریق بنایا گیا ہے۔

    درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ سعیدالزماں صدیقی گورنر کی اہلیت پر پورا نہیں اترتے،وہ طبی بنیادوں پر اس عہدے کے قابل نہیں ہیں اس لیے عدالت گورنر سندھ کی تقرری کالعدم قرار دے۔

    واضح رہے کہ جسٹس ریٹائرڈ سعید الزماں صدیقی نے گزشتہ روز گورنر سندھ کی حیثیت سے حلف اٹھایا تھاان کی عمر 80 برس ہے اوروہ جسمانی طور پر فٹ نہیں اس لیے فرائض کےانجام نہیں دےسکتے۔

    مزید پڑھیں:سعید الزماں صدیقی نے گورنرسندھ کا حلف اٹھا لیا

    واضح رہے کہ گزشتہ روز کراچی میں سابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس (ر) سعید الزماں صدیقی نے گورنر سندھ کی حیثیت سے حلف اٹھایاتھا۔ان سے حلف سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ نے لیاتھا۔

  • ہائیکورٹ میں اسموگ سے متعلق حفاظتی اقدامات کی تفصیلات طلب

    ہائیکورٹ میں اسموگ سے متعلق حفاظتی اقدامات کی تفصیلات طلب

    لاہور: لاہور ہائیکورٹ کے روبرو حکومت کی جانب سے اسموگ کا ملبہ بھارت پر ڈالنے کی کوشش ناکام ہوگئی۔ عدالت نے حکومتی بیان مسترد کرتے ہوئے سموگ کے حوالے سے حفاظتی اقدامات اور آگاہی مہم کی تفصیلات طلب کرلیں۔

    تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس سید منصور علی شاہ نے تحریک انصاف کے رہنما ولید اقبال سمیت دیگر شہریوں کی جانب سے اسموگ کے خلاف درخواستوں پر سماعت کی۔ درخواست گزاروں نے مؤقف اختیار کیا کہ اسموگ کی وجہ سے لاہور سمیت پنجاب بھر میں بچے، خواتین متاثر ہو رہے ہیں لیکن حکومت کوئی اقدامات نہیں کر رہی۔

    درخواست میں کہا گیا کہ ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے نہ صرف شہری بیمار ہو رہے ہیں بلکہ اسموگ نے لوگوں کو ذہنی طور پر بھی خوفزدہ کر رکھا ہے اور اس پر حکومت کی جانب سے عوام کو یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ اسموگ کیا چیز ہے اور اس کی وجوہات کیا ہیں۔

    زہریلی اسموگ سے کیسے بچا جائے؟ *

    عدالتی حکم پر سیکریٹری صحت ڈاکٹر ساجد، سیکریٹری ماحولیات سیف انجم اور چیف میٹرو لوجسٹ محمد ریاض عدالت میں پیش ہوئے۔ سیکریٹری ماحولیات نے عدالت کو بتایا کہ بھارت کے علاقے ہریانہ میں 32 ملین ٹن چاول کی فصل کی باقیات کو آگ لگائی گئی جس کا دھواں پاکستانی پنجاب میں دھند کے ساتھ مل کر اسموگ بن گیا۔

    لاہور میں زہریلی دھند کی وجہ بھارتی پنجاب میں فصلوں کا جلانا ہے، ناسا *

    عدالت نے سیکریٹری ماحولیات کے بیان پر حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ بھارت کی بات چھوڑیں، آپ یہ بتائیں کہ آپ نے کیا اقدامات کیے ہیں۔ صرف ہوا میں باتیں کرنے سے کام نہیں چلے گا۔ حکومت تب کہاں سوئی ہوئی تھی جب بچے بیمار ہو رہے تھے۔

    سرکاری وکیل کی جانب سے بتایا گیا کہ عوام میں اسموگ سے متعلق آگاہی مہم چلائی جا رہی ہے کہ اسموگ کے مضر اثرات سے کیسے بچا جا سکتا ہے جس پر عدالت نے آگاہی مہم پر مشتمل دستاویزات طلب کیں تاہم حکومتی سیکریٹریز اور سرکاری وکلا کوئی اشتہار پیش نہ کر سکے۔

    زہریلی اسموگ بچوں کی تعلیم کی راہ میں رکاوٹ بن گئی *

    عدالت نے ریمارکس دییے کہ اس وقت پاکستان کو سب سے بڑا سیکیورٹی خطرہ ماحولیاتی تبدیلی سے ہے لیکن اس طرف کسی کا دھیان نہیں جا رہا۔ عدالت نے سیکریٹری صحت اور سیکریٹری ماحولیات کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کے پاس اسموگ پر قابو پانے کے لیے عملی طور پر کوئی بھی بات موجود نہیں ہے۔ سب باتیں ہوا میں کر کے محض وقت گزارا جا رہا ہے۔

    عدالت نے کیس کی سماعت 14 دسمبر تک ملتوی کرتے ہوئے سیکریٹری ماحولیات اور سیکریٹری صحت سے اسموگ پر قابو پانے کے لیے حفاظتی اقدامات اور آگاہی مہم کی تفصیلات طلب کرلیں۔

    دھند کے موسم میں احتیاطی تدابیر اختیار کریں *

    یاد رہے کہ گزشتہ ایک ہفتے سے لاہور زہریلی اسموگ کی لپیٹ میں ہے جس کے باعث اب تک کئی افراد جاں بحق ہوچکے ہیں، جبکہ پورا شہر مختلف امراض کی زد میں آچکا ہے۔

  • سپریم کورٹ: پاناما لیکس کی کاروائی روکنے کی درخواست دائر

    سپریم کورٹ: پاناما لیکس کی کاروائی روکنے کی درخواست دائر

    اسلام آباد: سپریم کورٹ میں پاناما لیکس کی کاروائی روکنے کے لیے درخواست دائر کردی گئی، درخواست گزار کا مؤقف ہے کہ پاناما لیکس کے معاملے پر پارلیمنٹ قانون سازی کررہی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں پاناما لیکس کی کاروائی روکنے کے لیے درخواست دائر کردی گئی، وطن پارٹی کے بیرسٹر ظفراللہ خان کی جانب سے درخواست دائرکی گئی، جس میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ میں پاناما لیکس کی کارروائی روکی جائے۔

    درخواست گزار نے مؤقف اختیار کیا کہ سپریم کورٹ پاناما لیکس کا کیس نہیں سن سکتی، سپریم کورٹ کے پاس پاناما لیکس پر کاrروائی کا اختیار نہیں۔

    درخواست گزار کا کہنا ہے کہ پاناما لیکس کے معاملے پر پارلیمنٹ قانون سازی کررہی ہے، سپریم کورٹ نہ تو قانونی جواز رکھتی ہے، اور نہ ہی ٹی او آرز بناسکتی ہے، عدالت سیاسی و انتظامی امور میں داخل اندازی نہیں کرسکتی، استدعا کی ہے کہ پاناما لیکس کے معاملے پہ سپریم کورٹ میں جاری کاروائی کو روکتے ہوئے اسے کالعدم قرار دے۔


    مزید پڑھیں : پانامہ کیس ، وزیراعظم کے بچوں کو پیر تک جواب جمع کرانے کی ہدایت


    یاد رہے کہ سپریم کورٹ میں پاناما لیکس کیس کی سماعت جاری ہے، گزشتہ سماعت میں وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے جواب داخل کرایا گیا تھا، جواب میں کہا گیا تھا کہ وہ لندن فلیٹس،آف شورکمپنیوں اور دیگر جائیدادوں کے مالک نہیں، ٹیکس قانون کے مطابق اداکرتے ہیں، بچے میرے زیرکفالت نہیں اور سال 2013ء میں تمام اثاثوں کا اعلان کرچکے ہیں۔

    دوسری جانب عدالت نے مریم نواز اور دیگر کو پیر تک جواب جمع کرانے کی ہدایت کر رکھی ہے، عدالت کا کہنا ہے کہ قانون کے مطابق اگرجواب جمع نہ کرایا تو الزامات تسلیم کرلیں گے۔

    اس سے قبل سماعت میں سپریم کورٹ نے پاناما لیکس کی تحقیقات اور وزیراعظم کی نااہلی کے لیے دی گئی درخواستوں پر سماعت میں نواز شریف اور اُن کے اہل خانہ کو 2 روز میں جواب طلب کرنے کا حکم دیا تھا جبکہ فریقین سے ٹی او آر اور کمیشن کی تجویز سے متعلق حتمی جواب 3 نومبر تک تحریری طور پر طلب کیا تھا۔

    واضح رہے کہ پاکستان تحریک انصاف،جماعت اسلامی، عوامی مسلم لیگ، جمہوری وطن پارٹی اور طارق اسد ایڈووکیٹ نے پاناما لیکس کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ میں آئینی درخواستیں دائر کی تھیں۔