Author: عابد خان

  • وزیراعلیٰ پنجاب نے عمران خان کو قانونی نوٹس بھجوادیا

    وزیراعلیٰ پنجاب نے عمران خان کو قانونی نوٹس بھجوادیا

    لاہور: وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو 26ارب روپے ہرجانے کا قانونی نوٹس بھیج دیا۔

    aaa

    تفصیلات کےمطابق وزیر اعلیٰ پنجاب نے کرپشن کے الزام لگانے پرعمران خان کوقانونی نوٹس کو بھجوا دیا۔شہبازشریف نے چودہ دن میں الزام واپس لے کر معافی نہ مانگنے پر26 ارب ہرجانے کا دعوےکرنےکی وارننگ دے دی۔

    aaaa

    عمران خان کو بھیجے گئےلیگل نوٹس میں کہا گیا ہے جاوید صادق کےحوالے سے شہباز شریف پر لگائے گئے تمام الزامات جھوٹے اور بے بنیاد ہیں،الزامات عائد کرکے ساکھ کو شدید نقصان پہنچایا،پورے خاندان اور کارکنوں کی دل آزاری ہوئی۔

    aaaaa

    شہباز شریف نے نوٹس میں کپتان کو 14دن کا وقت دیتے ہوئے کہا وہ الزامات واپس لےکر معافی مانگیں،ایسا نہ کیا تو26 ارب روپے ہرجانے کا دعوے اور فوجداری کارروائی کے لئے تیار رہیں۔

    مزید پڑھیں: شہباز شریف کا عمران خان پر 26 ارب روپے ہرجانے کا دعویٰ دائر کرنے کا اعلان

    aaaaaa

    یاد رہے کہ دوروز قبل شہباز شریف نے کہاتھاکہ عمران خان نے مجھ پر اربوں روپےکی کرپشن کے دعوے کیے لیکن ثبوت آج تک پیش نہ کرسکے،عمران خان پر 26 ارب روپے ہرجانے کا دعویٰ دائر کروں گا۔

    مزید پڑھیں:شہباز شریف کے فرنٹ مین نے ٹھیکوں سے اربوں کمائے، عمران خان

    واضح رہےکہ دوروز قبل پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کا کہناتھا کہ وزیر اعلیٰ شہباز شریف کرپشن میں ملوث ہیں،ان کے فرنٹ مین جاوید صادق ہیں جو اب تک مختلف ٹھیکوں کے ذریعے 15 ارب روپے کمیشن وصول کرچکے ہیں۔

  • اورنج لائن ٹرین منصوبے کے فریقین کو نوٹس

    اورنج لائن ٹرین منصوبے کے فریقین کو نوٹس

    لاہور: اورنج لائن ٹرین منصوبے کے لیے کیے گئے معاہدوں اور ٹینڈرز کے خلاف درخواستوں پر لاہور ہائیکورٹ نے9 نومبر کے لیے نوٹسز جاری کردیئے، آئندہ تاریخ سے کیس کی سماعت روزانہ کی بنیاد پر ہوگی۔

    تفصیلات کے مطابق جسٹس عابد عزیز شیخ اور جسٹس شاہد کریم پر مشتمل دو رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی، درخواست گزار کی جانب سے عدالت کو آگاہ کیا گیا کہ اورنج لائن ٹرین منصوبے کے لیے ایگزم بنک چائنا سے 250 ارب روپے کا قرضہ حاصل کیا جارہا ہے۔

    بتایا گیا کہ اورنج لائن ٹرین منصوبے کا بجٹ ایک صوبے کے پورے مالی سال کے بجٹ کے قریب ہے، لوگ علاج کی سہولتوں کو ترس رہے ہیں اور حکمران اربوں روپے ایک ٹرین پر خرچ کررہے ہیں۔

    عدالت کو بتایا گیا کہ لاہور کے ہسپتالوں میں بستر نہیں ہے اورنج لائن ٹرین کیسے بن سکتی ہے، اڑھائی سو ارب روپے صرف دو فیصد لوگوں کےلیے خرچ کیے جارہے ہیں درخواست گزار نے اعتراض کیا کہ پنجاب ماس ٹرانزٹ اتھارٹی کی جانب سے کیا گیا قرضے کا معاہدہ پنجاب ماس ٹرانزٹ اتھارٹی ایکٹ 2015 کی سیکشن 10 کی خلاف ورزی ہے۔

    درخواست گزار نے کہا کہ آرٹیکل 168،169 اور 170 کی خلاف ورزی ہونے پر قرضے کا معاہدہ غیر قانونی ہے، ناقص انتظامات کی وجہ پلر گرنے سے 27 سے زائد افراد جاں بحق ہو چکے ہیں،منصوبے کے لیے کسی قسم کے ٹینڈر جاری نہیں کیے گئے اور نیسپاک کو ٹھیکہ دے دیا گیا جو کہ منصوبے کی شفافیت پر ایک بڑاسوالیہ نشان ہے،نیسپاک اور ایل ڈی اے تاریخی عمارات کے حوالے سے نہ کوئی تجربہ رکھتے ہیں اور نہ ہی اس حوالے سے اس کے اہل ہیں۔

    درخواست گزار کی جانب سے عدالت سے استدعا کی گئی کہ اورنج لائن ٹرین منصوبے کے لیے حاصل کیے جانے والے قرضے کے معاہدے کو کالعدم قرار دینے کا حکم دیا جائے اور شفاف معاہدے نہ ہونے کی بنا پر اورنج لائن ٹرین منصوبے کو کالعدم قرار دے کر نئے سرے سے ٹینڈر طلب کرنے کا حکم دیا جائے۔

  • متنازع خبر کا معاملہ، مقدمہ درج نہ کرنے پر پولیس اور ایف آئی اے سے جواب طلب

    متنازع خبر کا معاملہ، مقدمہ درج نہ کرنے پر پولیس اور ایف آئی اے سے جواب طلب

    لاہور : لاہور کی ایک سیشن عدالت نے قومی سلامتی کے اجلاس کی خبر لیک کرنے والوں کے خلاف مقدمہ درج کرنے سے متعلق درخواست کی سماعت میں نوٹس جاری کرتے ہوئے تھانہ گلبرگ اور ایف آئی اے سے جواب طلب کرلیا۔

    تفصیلات کے مطابق ایڈیشنل سیشن جج لاہور ظفر اقبال سیال نے مقامی شہری طاہر خلیق کی درخواست پر سماعت کی جس میں میاں نواز شریف،خواجہ آصف، پرویز رشید، سعد رفیق، مریم نواز، فواد حسن فواد، امبر سہگل،سرل المیڈا اور محی الدین وانی کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی استدعا کی گئی ہے۔

    درخواست گزار نے موقف اختیار کیا کہ قومی سلامتی کے ان کیمرا اجلاس کی خبر منصوبہ بندی کے تحت لیک کی گئی اور انگریزی اخبار میں خبرشائع کروا کر دنیا بھر میں پاک فوج کو باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت بدنام کرنے کی کوشش کی گئی۔

    درخواست گزار کا کہنا تھا کہ حکومت نے قومی سلامتی کے اجلاس کی خبر لیک ہونے کی انکوائری کا اعلان بھی کیا تھا مگر اس پر بھی تاحال عمل نہیں ہوسکا،ملکی سلامتی کے متعلق خبر لیک کرنا غداری کے مترادف ہے جس کی تحقیقات کے لیے حکومت سنجیدہ نظر نہیں آتی۔

    درخواست گزار نے معزز عدالت کو بتایا کہ قومی سلامتی سے متعلق خبر لیک کرنے کے ذمہ داروں کے خلاف مقدمے کے اندراج کے لیے آئی جی پنجاب اور ایف آئی اے کو درخواستیں دیں مگر کوئی کارروائی نہیں کی گئی لہذا معزز عدالت ملکی سلامتی سے متعلق حساس خبر لیک کرنے پر ذمہ داروں کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا حکم دے۔

    کیس کی ابتدائی سماعت کے بعد لاہور ہائی کورٹ نے یکم نومبر تک تھانہ گلبرگ لاہور اور ایف آئی اے سے ایف آئی آر درج نہ کرنے اور کیس کی نوعیت کے حوالے سے رپورٹ طلب کرلی۔

  • لاہور ہائیکورٹ،متحدہ پابندی کیس سے متعلق کارروائی کی رپورٹ طلب

    لاہور ہائیکورٹ،متحدہ پابندی کیس سے متعلق کارروائی کی رپورٹ طلب

    لاہور : لاہور ہائيکورٹ نے ايم کيو ايم پابندی کيس ميں وفاقی سيکریٹری داخلہ سے اب تک کی گئی کارروائی کی تحريری رپورٹ طلب کرلی۔

    تفصیلات کے مطابق لاہور ہائيکورٹ کے جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کی سربراہی ميں فل بنچ نے کيس کي سماعت شروع کی تو درخواست گزار نے عدالت کو بتايا کہ عدالتی حکم کے باوجود ايم کيو ايم کے رہنما پريس کانفرنسز کر رہے ہيں جب کہ حکومت خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔

    درخواست گذار نے موقف اپنایا تھا کہ قائد ایم کیو ایم ملک کے خلاف تقاریر کر رہے ہیں اور ایم کیو ایم کے قائدین اس کی توثیق کرتے ہیں مگر حکومت اس معاملے پر سیاست کر رہی ہے اور اتنے اہم مسئلے کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے حالانکہ آئین کے مطابق ایسی کسی سیاسی جماعت کو پاکستان میں سیاست کی اجازت نہیں جو ملکی سالمیت کے خلاف کام کرے۔

    درخواست گذار کے وکیل نے کہا کہ قائد متحدہ کے بیانات سے ثابت ہوتا ہے کہ ایم کیو ایم ملک کے خلاف کام کر رہی ہے لہذا عدالت ایم کیو ایم پر پابندی عائد کرے اور قائد متحدہ سمیت رہنماؤں کے خلاف غداری کا مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا جائے۔

    عدالت میں موجود سيکریٹری وزارت داخلہ عارف احمد خان نے دلیل دیتے ہوئے موقف اپنایا کہ عدالت کو بتايا کہ وفاقی حکومت بھی ايم کيو ايم بانی کی تقرير کا گہرائی سے جائزہ لے رہي ہے يہ ايک حساس معاملہ ہے،سندھ اور وزارت قانون سے معاونت طلب کی گئی ہے ان کی رائے کے بعد وفاقی حکومت کارروائی کرے گی لہذا معزز سے مزید مہلت دیے جانے کی استدعا ہے۔

    عدالت نے ريمارکس ديتے ہوئے کہا کہ لگتا ہے حکومت نے ابھي تک کوئی سنجيدہ اقدامات نہيں کيے واقعے کو دو ماہ گزر گئے وزارت داخلہ کیوں خاموش ہے اس کا جواب دیا جائے یہ ملکی سالمیت کا معاملہ ہے،اگر پاکستان ہے تو ہم ہیں، آج ہم جو بھی ہیں پاکستان کی وجہ سے ہیں۔

    معزز جج نے وفاقی سیکریٹری داخلہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہر دوسرا شخص جاننا چاہتا ہے کہ پاکستان مخالف تقارير کرنے والوں کے خلاف کيا کارروائی کی گئی ہے؟ بلوچستان کی صورتحال آپ کے سامنے ہے،آپ نے پاکستانی ہونے کے ناطے سوچنا ہے کیوں کہ آپ وفاق کے سیکریٹری ہیں حکمران جماعت کے نہیں۔

    بعد ازاں عدالت نے وفاقی سيکریٹری وزارت داخلہ کو اب تک کی گئی کارروائی کی تحريری رپورٹ پيش کرنے کا حکم ديتے ہوئے سماعت 10 نومبر تک ملتوی کر دی۔

  • پی ٹی آئی کا دھرنا رکوانے کی درخواست پر فل بینچ تشکیل

    پی ٹی آئی کا دھرنا رکوانے کی درخواست پر فل بینچ تشکیل

    لاہور: لاہور ہائیکورٹ نے پی ٹی آئی کا دھرنا رکوانے کی درخواست پر فل بینچ تشکیل دیدیا، بینچ چھبیس اکتوبر سے درخواست کی سماعت شروع کرے گا۔

    لاہور ہائیکورٹ میں پی ٹی آئی کا دھرنا رکوانے کیلئے عدالت نے سماعت کیلئے فل بینچ تشکیل دیدیا ہے، لاہور ہائیکورٹ میں پی ٹی آئی کا دو نومبرکا دھرنا رکوانے کیلئے درخواست دائر کی گئی۔

    درخواست گزار نے مؤقف اختیار کیا کہ عمران خان کے دھرنے سے انتشار پھیلنے کا خدشہ ہے، دھرنے سے اسلام آباد میں کاروباری زندگی تباہ اور عالمی سطح پر ملک کی بدنامی ہوگی۔


    مزید پڑھیں : سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی کا دھرنا روکنے کیخلاف درخواست مسترد کردی


    درخواست گزار کا کہنا ہے کہ عدالت دھرنے کو غیر آئینی قرار دیکر اسے روکنے کے احکامات جاری کرے، عدالت نے درخواست کی سماعت کیلئے جسٹس شاہد حمیدڈار کی سربراہی میں فل بینچ تشکیل دے دیا ہے، بینچ چھبیس اکتوبر سے درخواست کی سماعت کرے گا۔

    اس سے قبل سپریم کورٹ نے تحریک انصاف کو دھرنے سے روکنے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے دائر درخواست پر فریقین کو نوٹسسز جاری کردیے تھے، چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کیا اب یہ کام بھی ہم نے کرنا ہے ؟ جن کا کام ہے وہ خود کریں ، سیاسی معاملات میں مداخلت نہیں کریں گے۔


    مزید پڑھیں : بدھ 2 نومبر کو اسلام آباد بند کردیں گے،عمران خان


    واضح رہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ نے اعلان کیا تھا کہ 2 نومبر کی دوپہر 2 بجے سے دارالخلافہ کو بند کرنا شروع کردیں گے، دھرنا وزیر اعظم کے استعفیٰ تک جاری رہے گا،کوئی ہمارے پُرامن احتجاج کے سامنے نہ آئے ورنہ نتائج کا ذمہ دار خود ہوگا۔

  • ایم کیو ایم پر پابندی ‘ وفاقی سیکرٹری داخلہ کو عدالت نے طلب کرلیا

    ایم کیو ایم پر پابندی ‘ وفاقی سیکرٹری داخلہ کو عدالت نے طلب کرلیا

    لاہور: ہائی کورٹ نے ایم کیو ایم پر پابندی کے لیے دائر درخواست پر وفاقی سیکرٹری داخلہ کو چوبیس اکتوبر کو طلب کر لیا، عدالت میں کہا گیا کہ حکومت معاملے پر ٹال مٹول سے کام لے رہی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی ، جوڈیشل کمیشن کے اجلاس کے باعث اٹارنی جنرل آف پاکستان پیش نہ ہوئے۔

    عدالت نے سرکاری وکیل سے استفسار کیا کہ حکومت یہ بتائے کہ اس نے ابھی تک پاکستان مخالف نعروں پر کیا کارروائی کی یہ کام حکومت کے کرنے کا ہے عدلیہ کا نہیں ۔

    درخواست گزار نے عدالت کو بتایا کہ عدالتی احکامات کے باوجود ایم کیو ایم پریس کانفرنسیں کر رہی ہے اور حکومت خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے حکومت کی جانب سے بار بار عندیہ دیا جا رہا ہے کہ وہ ایم کیو ایم کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کر رہی ۔ عدالت نے قرار دیا کہ یہ ملکی سالمیت کا معاملہ ہے اور اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔

    وزارت داخلہ کے افسر کی عدم پیشی اور ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب کے لیے مزید مہلت مانگنے پر اظہار برہمی کرتے ہوئے عدالت نے قرار دیا کہ اس سے حکومت کی اس معاملے میں غیر سنجیدگی نظر آتی ہے۔

    عدالت نے سماعت چوبیس اکتوبر تک ملتوی کرتے ہوئے وفاقی سیکرٹری داخلہ کو ذاتی حیثیت میں طلب کر لیا تاکہ وہ پیش ہو کر ایم کیو ایم.کے متعلق کیے گئے اقدامات کی تفصیلی رپورٹ پیش کریں۔

    درخواست گزار آفتاب ورک نے موقف اختیار کیا کہ قائد متحدہ پاکستان مخالف تقاریر کرتے ہیں اور ایم کیو ایم کے قائدین اس کی توثیق کرتے ہیں۔ آئین کے مطابق ایسی کسی جماعت کو پاکستان میں سیاست کی اجازت نہیں دی جا سکتی جو ملکی مفادات کے خلاف کام کرے ۔

    قائد متحدہ کی تقاریر سے ثابت ہوچکا ہے کہ ایم کیو ایم ملکی سالمیت کے خلاف سرگرمیوں میں ملوث ہے لہذا عدالت ایم کیو ایم پر پابندی عائد کرے اور اس کے اراکین پارلیمنٹ کو نااہل قرار دے جبکہ قائد متحدہ سمیت دیگر رہنماوں کے خلاف غداری کا مقدمہ درج کر کے کارروائی کا حکم دیا جائے۔

  • وزير اعظم کے بھائی کی شوگر مل کی منتقلی کا حکم کالعدم قرار

    وزير اعظم کے بھائی کی شوگر مل کی منتقلی کا حکم کالعدم قرار

    لاہور ہائيکورٹ نے وزير اعظم میاں نواز شریف کے بھائی کی شوگر مل کی ساہیوال سے رحیم یار خان منتقلی کے حکومتی نوٹی فکیشن کو کالعدم قرار دے ديا۔

    لاہور ہائی کورٹ کی جسٹس عائشہ اے ملک نے جہانگير ترين کی شوگر مل کی جانب سے دائر درخواست پر فيصلہ جاری کر ديا۔ تحریک انصاف کے رہنما جہانگیر ترین کے وکيل نے عدالت کو بتایا کہ حکومت نے 2006 سے نئی شوگر ملز کے قیام اور پہلے سے قائم شوگر ملز کی ایک ضلع سے دوسرے ضلع منتقلی پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔

    حکومت کی جانب سے عائد پابندی درست ہے کیونکہ حکومت نے گنے کی کاشت کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ پابندی عائد کی ہے اگر چوہدری شوگر ملزم کو رحیم یار خان منتقل کر دیا گیا تو اس سے وہاں پہلے سے قائم شوگر ملوں کو گنے کی سپلائی متاثر ہوگی اور ان ملوں کا کاروبار متاثر ہوگا۔

    درخواست گزار کے مطابق وزيراعظم پاکستان کے بھائی عباس شريف کی چوہدری شوگر مل کو ساہيوال سے رحيم يار خان منتقل کرنا نئی شوگر مل لگانے کے مترادف ہے جو قانون کی خلاف ورزی ہے لہٰذا عدالت شوگر مل کی منتقلی کو روکنے کا حکم دے۔

    چوہدری شوگر مل کے وکيل نے عدالت کو بتايا کہ شوگر مل کو صرف دوسرے ضلع ميں لگايا جا رہا ہے نئی مل نہیں لگائی جارہی۔ آئین کے تحت ہر شہری کو پاکستان کے کسی بھی حصہ میں کاروبار کرنے کا بنیادی حق حاصل ہے۔ مل منتقلی کے لیے حکومت سے اجازت بھی حاصل کر لی گئی ہے۔

    عدالت نے دلائل سننے کے بعد چوہدری شوگر مل کو ساہيوال سے رحيم يار خان منتقل کرنے کے عمل کو غير قانونی قرار ديتے ہوئے حکومتی نوٹیفیکیشن کو کالعدم قرار دے ديا۔

  • سرکاری خزانے سے جاری اشتہارات کے خلاف درخواست لاہور ہائیکورٹ کو ارسال

    سرکاری خزانے سے جاری اشتہارات کے خلاف درخواست لاہور ہائیکورٹ کو ارسال

    لاہور ہائیکورٹ نے پاناما لیکس پر وزیر اعظم کے دفاع کے لیے سرکاری خزانے سے جاری اشتہارات کے خلاف عوامی تحریک کی درخواست چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کو بھجواتے ہوئے فل بنچ تشکیل بنانے کی سفارش کردی۔

    لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس شاہد وحید نے پاکستان عوامی تحریک کی درخواست پر سماعت کی جس میں پاناما لیکس پر وزیر اعظم کے دفاع کے لیے سرکاری خزانے سے رقم کے استعمال کے اقدام کو چیلنج کیا گیا ہے۔

    سماعت کے دوران درخواست گزار جماعت کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ پاناما لیکس میں وزیر اعظم کے بارے میں انکشافات کے بعد جب ملک میں اس مسئلہ پر اپوزیشن جماعتوں نے تحریک شروع کی تو حکومت نے وزیر اعظم نواز شریف کی صفائی پیش کرنے کے لیے اشتہاری مہم چلائی جس پر رقم قومی خزانے سے ادا کی جارہی ہے۔

    درخواست گزار کے مطابق قومی خزانہ عوامی ملکیت ہے جسے ذاتی مقاصد کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا لہٰذا وزیر اعظم نواز شریف اس مہم کے لیے اشتہارات کی رقم خود ادا کریں اور قومی خزانے کو نقصان نہ پہنچائیں۔

    درخواست گزار نے استدعا کی کہ وزیر اعظم کے پاناما لیکس میں دفاع کے لیے قومی خزانے سے ادا کردہ رقم کی تمام تفصیلات طلب کی جائیں اور حکم دیا جائے کہ یہ رقم وزیر اعظم اپنی جیب سے ادا کریں۔

    عدالت نے کیس چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کو بھجواتے ہوئے سماعت کے لیے لارجر بنچ تشکیل دینے کی سفارش کر دی۔ عدالت نے کہا دیا کہ معاملہ اہم اور قومی نوعیت کا ہے لہٰذا سماعت لارجر بنچ کرے۔

  • لاہور: ضمانت خارج ہونے پرملزم کی خودکشی کی کوشش

    لاہور: ضمانت خارج ہونے پرملزم کی خودکشی کی کوشش

    لاہور : لاہور ہائی کورٹ میں ملزم نے  ضمانت خارج ہونے پر زہر کھا لیا، پولیس اور عدالتی عملے نے ایمرجنسی 1122 کی ایمبولینس کے ذریعے تشویش ناک حالت میں ملزم کو اسپتال منتقل کر دیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق لاہور ہائی کورٹ میں خالدہ نامی خاتون کی اپنے منہ بولے باپ پر دھوکا دہی کے ذریعے رقم ہتھیانے کی مقدمے کی سماعت جسٹس شہرام سرور کی عدالت میں ہوئی۔

    سماعت کے دوران خالدہ نامی خاتون نے عدالت کو بتایا کہ تاج محمد نے اسے بیٹی بنایا ہوا تھا اور وقتاً فوقتاً رقم لیتا رہتا تھا اس طرح ملزم نے ساڑھے تین لاکھ روپے ہتھیا لیے بعد ازاں فراڈ کے ذریعے لی گئی رقم وصول کرنے کا جعلی اسٹامپ پیپر لکھوا لیا جس پر تھانہ نصیر آباد میں مقدمہ درج کرایا تھا۔

    lahore-post-1

    ملزم تاج محمد نے اپنے جوابی بیان میں دعویٰ کیا کہ اس نے پیسے واپس کر دیے ہیں مدعی خاتون نے مزید رقم حاصل کرنے کے لیے مجھ پر جھوٹا مقدمہ درج کروایا ہے تاکہ مجھے دباؤ میں لے کر مزید رقم ہتھیالی جائے۔

    عدالت نے دونوں جانب کے وکلاء کے دلائل سننے کے بعد ملزم کی درخواستِ ضمانت مسترد کرکے پولیس کو ہدایت جاری کی کہ ملزم کو گرفتار کر کے تحقیقات مکمل کر کے عدالت کو آگاہ کیا جائے تاکہ انصاف کے تقاضوں کو پورا کیا جائے۔

    lahore-post-2

    عدالت کی جانب سے ضمانت مسترد ہونے کے بعد ملزم نے عدالت سے نکلتے ہی اچانک زہریلی گولیاں کھا لیں جس سے اس کی حالت غیر ہو گئی،موقع پر وہاں موجود پولیس اہلکاروں اور عدالتی عملے نے ملزم کو اٹھا کر 1122 کی ایمبولینس کے ذریعے سروسز اسپتال منتقل کر دیا۔

    ملزم کے زہر کھانے کے بعد اس کی بیوی اور بیٹی نے آہ وزاری اور سینہ کوبی کرتے ہوئے مدعی خاتون خالدہ کو زدوکوب کیا اور عدالت کے باہر شدید ہنگامہ آرائی بھی کی۔

  • ایم کیوایم پر پابندی کیلئے دائر درخواست کی سماعت، اٹارنی جنرل طلب

    ایم کیوایم پر پابندی کیلئے دائر درخواست کی سماعت، اٹارنی جنرل طلب

    لاہور : ہائی کورٹ نے ایم کیو ایم کی سیاسی جماعت کی حیثیت سے رجسٹریشن کی منسوخی، ایم کیو ایم کے قائد کے خلاف غداری کے مقدمے کے اندراج سے متعلق درخواستوں اٹارنی جنرل آف پاکستان کو 17 اکتوبر کو طلب کر لیا ہے۔

    لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کی سربراہی میں فل بنچ نے آفتاب ورک سمیت متعدد درخواستوں پر سماعت کی، درخواست گزاروں کی جانب سے مؤقف اختیار کیا گیا کہ آئین کے تحت سیاسی جماعت کا محب وطن ہونالازم ہے، ایم کیوایم کے قائدین کے بیانات سے ثابت ہوچکا ہے کہ یہ جماعت محب وطن نہیں، عوامی نمائندگی ایکٹ کے تحت ملک مخالف سرگرمیاں کرنے پر کسی بھی سیاسی جماعت کی رجسٹریشن منسوخ کی جا سکتی ہے۔

    درخواست گزاروں نے عدالت کو بتایا کہ ایم کیو ایم کے خلاف وفاقی حکومت کو درخواست دی مگر اس پر کوئی کاروائی نہیں کی گئی لہذا عدالت ایم کیو ایم کی بطور سیاسی جماعت کی حیثیت سے رجسٹریشن منسوخ کرنے کے احکامات جاری کرے جبکہ اشتعال انگیز بیانات پر ایم کیو ایم کے قائد اور رہنماؤں کے خلاف غداری کے مقدمات کے اندراج کا حکم دیا جائے۔

    عدالت نے ڈپٹی اٹارنی جنرل حنا اسحاق سے استفسار کیا کہ وفاقی حکومت نے ایم کیو ایم کے خلاف درخواست پر کیا کاروائی کی ہے جس پر ڈپٹی اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ وفاقی حکومت درخواست پر کارروائی کیلئے غور کررہی ہے، قائد متحدہ کے پاکستان مخالف بیان کے بعد رینجر کراچی میں روزانہ کاروائی کر رہی ہے۔

    عدالت نے استفسار کیا کہ رینجرز کے ایک سب انسپکٹر کی کاروائی وفاقی حکومت کی کاروائی کے برابر کیسے ہوسکتی ہے . وزارت داخلہ کی جانب سے سیکشن آفیسر عبدالسلام عدالت میں پیش ہوئے، سیکشن آفیسر نے عدالت کو بتایا کہ وزارت داخلہ ایم کیو ایم کے خلاف الیکشن کمیشن سمیت قانون نافذ کرنے والے اداروں سے مشاورت کررہی ہے۔

    جس پر عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کیا وزارت داخلہ کی سنجیدگی کا عالم یہ ہے کہ ابھی تک مشاورت ہی کی جارہی ہے، عدالت نے ڈپٹی اٹارنی جنرل حنا اسحاق سے استفسار کیا کہ کیا انھوں نے وزارت داخلہ کا عدالت میں جمع کرایا گیا جواب پڑھا ہے جس پر حنا اسحاق نے انکار میں جواب دیا۔

    عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انکی اس کیس میں سنجیدگی کا اندازہ اسی بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انھوں نے وزارت داخلہ کی فائل ہی نہیں دیکھی، جبکہ عدالت نے رپورٹ پر اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ فائل جس طرح تیار کی گئی ہے اس سے بہتر تو ایڈووکیٹ جنرل کے دفتر کی ٹی اے . ڈی اے رپورٹ ہوتی ہے۔

    وفاقی حکومت کی وکیل نے عدالت سے جواب داخل کرانے کیلئے مہلت کی استدعا کی جس پر عدالت نے اٹارنی جنرل اشتر اوصاف کو سترہ اکتوبر کو طلب کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت ملتوی کردی، عدالتی سماعت کے بعد وکلا نے احاطہ ہائی کورٹ میں قائد متحدہ اور ایم کیو ایم کے خلاف شدید نعرے بازی کی اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ متحدہ کی رجسٹریشن فوری طور پر منسوخ کی جائے۔

    یاد رہے کہ درخواست گزار کا مؤقف تھا کہ ڈیڑھ سال قبل قائد متحدہ نے پاکستان اور اداروں کیخلاف بیان بازی کی اگر اسوقت حکومت کارروائی کرتی تو آج قائد متحدہ کو ایسی تقرریں کرنیکی جرات نہ ہوتی۔

    درخواست گزار نے عدالت سے استدعا کی کہ عدالت ایم کیوایم پر پابندی عائد کرے اور قائد متحدہ کے بیانات کی توثیق کرنیوالے رہنماؤں کیخلاف کارروائی کرے، ایم کیو ایم پر پابندی کے لئے دائر درخواست کی سماعت کے بعد وکلاء نے قائد متحدہ اور ایم کیو ایم کیخلاف شدید نعرے بازی کی۔