Author: عابد خان

  • علی امین گنڈاپور و دیگر ملزمان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری

    علی امین گنڈاپور و دیگر ملزمان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری

    لاہور: انسداد دہشتگردی عدالت (اے ٹی سی) نے وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے۔

    علی امین گنڈاپور کے وارنٹ گرفتاری 5 اکتوبر کو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے لاہور میں احتجاج اور پولیس پر تشدد کے مقدمہ میں جاری کیے گئے۔

    اے ٹی سی ایڈمن جج منظر علی گل نے پی ٹی آئی رہنماؤں حماد اظہر، سعید سندھو اور شہباز احمد کے بھی ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے۔

    یہ بھی پڑھیں: گنڈاپور نے مائنز اینڈ منرلز بل بانی پی ٹی آئی کا وژن قرار دے دیا

    مقدمے میں پولیس نے مؤقف اختیار کیا کہ علی امین گنڈاپور سمیت دیگر ملزمان شامل تفتیش نہیں ہو رہے، انہیں کئی بار شامل تفتیش ہونے کیلیے طلب کیا گیا۔

    واضح رہے کہ آڈیو لیک کیس میں بھی علی امین گنڈاپور کے وارنٹ گرفتاری برقرار ہیں۔ 18 اپریل 2025 کو انسداد دہشتگردی عدالت اسلام آباد میں کیس کی سماعت کے دوران ان پر فرد جرم کی کارروائی مؤخر کی گئی تھی۔

    وزیر اعلیٰ کے پی کے خلاف آڈیو لیک کیس کی سماعت ایڈیشنل سیشن جج رانا مجاہد رحیم کی عدم دستیابی کے باعث بغیر کارروائی ملتوی کر دی گئی تھی۔

    کیس کی آئندہ سماعت 6 مئی 2025 تک ملتوی کی گئی۔ علی امین گنڈاپور اور اسد فاروق خان کے خلاف تھانہ گولڑہ میں مقدمہ درج ہے۔

    جنوری میں تھانہ حسن ابدال کے جلاؤ گھیراؤ کیس میں علی امین گنڈاپور کے وارنٹ گرفتاری اور اشتہاری قرار دینے کے معاملے پر اہم پیشرفت سامنے آئی تھی۔

  • خلع لینے والی خواتین کے حق مہر کے حوالے سے اہم فیصلہ

    خلع لینے والی خواتین کے حق مہر کے حوالے سے اہم فیصلہ

    لاہور : لاہور ہائیکورٹ کا خلع کی صورت میں خواتین کے حق مہر کے حوالے سے اہم فیصلہ سامنے آگیا۔

    تفصیلات کے مطابق جسٹس راحیل کامران شیخ نے شہری آصف محمود کی درخواست پر فیصلہ جاری کیا، عدالتی فیصلے میں قرآنی آیات کا بھی ذکر کیا گیا جس میں اس نے خلع کی بنیاد پر حق مہر اور جہیز کی رقم دینے کی ڈگری کو چیلنج کیا۔

    درخواست گزار نے خلع لینے پر بیوی کے مہر طلب کرنے کو چیلنج کیا تھا، عدالت نے اپنے فیصلہ میں قرار دیا کہ بیٹی کو جہیز دینا ہمارے معاشرے میں سرائیت کرچکا ہے، والدین جتنی بھی استطاعت رکھتے ہوں وہ اپنی بیٹی کو جہیز لازمی دیتے ہیں۔

    عدالت کا کہنا تھا کہ طلاق دینا بنیادی طور پر شوہر کا حق ہوتا ہے، سورۃ البقرہ کی روشنی میں طلاق کی صورت میں شوہر اہلیہ سے تحائف و حق مہر واپس نہیں مانگ سکتا اور سورۃ النساء میں بھی شوہر کو بیوی کو دیئے گئے مال اور تحائف واپس مانگنے سے روکا گیا ہے۔

    طلاق یا خلع ، معاشرتی عتاب کا نشانہ صرف عورت ؟

    عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے تحت خلع کی صورت میں خاتون کو حق مہر واپس کرنا ہوگا، خاوند کے تشدد، برے رویے کی وجہ سے خلع پر عدالت خاتون کو حق مہر کی رقم واپس نہ کرنے کا حکم دے سکتی ہے، محض خلع لینے کی بنیاد پر خاتون کو حق مہر کی رقم سے محروم نہیں کیا جاسکتا۔

    لاہور ہائیکورٹ نے کہا کہ حق مہر کی رقم کو خاتون کے لئے ایک سکیورٹی تصور کیا جاتا ہے، اگر خاوند کا رویہ خاتون کو خلع لینے پر مجبور کرے تو وہ حق مہر لینے کی مکمل حقدار ہے۔

    عدالت نے قرار دیا کہ درخواست گزار آصف محمود نے بیوی پر تشدد اور ظلم کے الزامات کی تردید فیملی عدالت میں نہیں کی، جو خاتون اپنے شوہر کے برے رویے، ظلم سے تنگ آکر خلع لے اسے حق مہر سے محروم نہیں کیا جاسکتا۔

    عدالت نے شہری آصف محمود کی جانب سے ماتحت عدالت کی ڈگری کے خلاف دائر اپیل کو مسترد کردی اور خلع کی صورت میں خاتون کو حق مہر کا حق دار قرار دے دیا۔

  • 10 ارب ہرجانے کا کیس: وکیل بانی پی ٹی آئی کی وزیر اعظم کے بیان پر جرح

    10 ارب ہرجانے کا کیس: وکیل بانی پی ٹی آئی کی وزیر اعظم کے بیان پر جرح

    لاہور: سیشن عدالت میں بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے وکیل نے 10 ارب ہرجانے کے کیس کی سماعت کے دوران وزیر اعظم شہباز شریف کے بیان پر جرح کی۔

    بانی پی ٹی آئی کے خلاف شہباز شریف کے ہرجانے کے کیس کی سماعت ایڈیشنل سیشن جج یلماز غنی نے کی جس میں وزیر اعظم بذریعہ ویڈیو لنک پیش ہوئے جہاں عمران خان کے وکیل نحمد حسین چوٹیا نے ان کے بیان پر جرح کی۔

    وزیر اعظم نے کہا کہ میں نے عمران خان کے خلاف ہرجانہ دعویٰ پر خود دستخط کیے جس کی تصدیق کیلیے اوتھ کمشنر خود میرے پاس آیا تھا، بانی پی ٹی آئی نے آج تک میرے آمنے سامنے یہ الزام نہیں لگایا بلکہ عمران خان نے یہ الزامات دو ٹی وی چینلز کے پروگرام میں لگائے، مجھے علم نہیں کہ دونوں چینلز کے یہ پروگرام کس شہر سے نشر ہوئے۔

    یہ بھی پڑھیں: شہباز شریف نے برطانوی اخبار پر ہتک عزت کا مقدمہ کر دیا

    وکیل نے استفسار کیا کہ کیا یہ درست ہے کہ عمران خان نے آج تک آپ کے خلاف ازخود بیان نشر یا شائع نہیں کیا؟ اس پر شہباز شریف نے جواب دیا کہ بانی پی ٹی آئی نے ٹی وی چینلز پر تمام الزامات خود ہی لگائے ہیں۔

    ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ مجھے یاد نہیں کہ میں 2017 میں جب الزام لگا تو مسلم لیگ (ن) کا صدر تھا یا نہیں مگر یہ درست ہے کہ 2017 میں میرا پارٹی سے تعلق تھا جو آج بھی ہے، جب 2017 میں الزام لگا تو عمران خان اپنی جماعت کے چیئرمین تھے۔

    شہباز شریف نے کہا کہ جب سے عمران خان نے سیاست شروع کی تب سے مسلم لیگ (ن) کے حریف رہے ہیں، وہ آج تک کبھی پارٹی کے اتحادی نہیں رہے۔

    وزیر اعظم پر وکلا کی جرح جاری تھی کہ عدالت نے سماعت 25 اپریل 2025 تک ملتوی کر دی۔ عدالت میں جرح کے دوران ایک موقع پر بجلی اچانک منقطع ہونے کی وجہ سے جرح کا سلسلہ تعطل کا شکار ہوگیا تھا۔

    واضح رہے کہ عمران خان نے پانامہ کیس واپس لینے کیلیے 10 ارب کی پیشکش کا الزام لگایا تھا۔ وزیر اعظم نے اس بیان پر بانی پی ٹی آئی کے خلاف ہرجانہ کا دعویٰ دائر کر رکھا ہے۔

  • ارشد چائے والا کا شناختی کارڈ  اور پاسپورٹ کیوں بلاک کیا گیا؟ نادرا نے بتادیا

    ارشد چائے والا کا شناختی کارڈ اور پاسپورٹ کیوں بلاک کیا گیا؟ نادرا نے بتادیا

    لاہور : نادرا نے ارشد عرف چائے والا کا شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بلاک کرنے کے حوالے سے رپورٹ عدالت میں جمع کرادی۔

    تفصیلات کے مطابق لاہور ہائیکورٹ میں ارشد عرف چائے والا کا شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بلاک ہونے کیخلاف درخواست پر سماعت ہوئی۔

    نادرا نے لاہور ہائیکورٹ راولپنڈی بینچ میں رپورٹ جمع کرادی، جس میں کہا کہ ارشد خان کے والد زارمحمد کی پیدائش سرگودھا کی ہے جبکہ ارشد کی پیدائش اسلام آباد جبکہ والدہ کے نام میں تضاد ہے۔

    نادرا کا کہنا تھا کہ متعلقہ اداروں کی رپورٹ کے مطابق ارشد افغانی ہے۔

    عدالت نے اداروں کی ارشد خان سے متعلق رپورٹ پر شوکاز نوٹس جاری کردیا اور درخواست گزار نے مزید شواہد جمع کروانے کےلیے مہلت مانگ لی۔

    بعد ازاں جسٹس جواد حسن نےدرخواست پرسماعت22اپریل تک ملتوی کردی۔

    مزید پڑھیں : شہرت پانے والے ارشد چائے والا کی پاکستانی شہریت پر سوال اٹھ گئے

    یاد رہے ارشد خان چائے والا نے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بلاک کرنے پر لاہور ہائی کورٹ راولپنڈی بنچ سے رجوع کیا تھا۔

    درخواست گزار کا کہنا تھا کہ نادرا حکام کی جانب سے 1978 سے قبل کے رہائشی شواہد مانگے جارہے، ارشد خان نے 17برس کی عمر میں اسلام آباد میں چائے بیچتے شہرت حاصل کی تھی۔

    ارشد کی تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی تاہم شہرت پانے والے ارشد کی پاکستانی شہریت پر سوال اٹھ گئے۔

  • قصور میں مبینہ ڈانس پارٹی سے گرفتار ملزمان کی ویڈیو وائرل کرنے والے اہلکار نوکری سے برخاست

    قصور میں مبینہ ڈانس پارٹی سے گرفتار ملزمان کی ویڈیو وائرل کرنے والے اہلکار نوکری سے برخاست

    لاہور : قصور میں مبینہ ڈانس پارٹی سے گرفتار ملزمان کی ویڈیو بنانے اور وائرل کرنے والے اہلکاروں کو نوکری سے برخاست کردیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس علی ضیا باجوہ نے شہری وشال شاکر کی توہین عدالت کی درخواست پر سماعت کی۔

    ڈی پی او قصور عیسی سکھیرا عدالتی حکم پر پیش ہوئے، عدالت نے ڈی پی او سے استفسار کیا کہ ویڈیو وائرل کی گئی تو انہوں نے اس حوالے سے کیا کیا۔

    انہوں نے پوچھا کہ پولیس اہلکار کی جرات کیسے ہوئی لڑکیوں کے بال کھینچ کر ویڈیو بنانے کی، ڈی پی او قصور نے آگاہ کیا کہ متعلقہ پولیس اہلکاروں کو نوکری سے برخاست کر دیا ہے۔

    ڈی پی او قصور کا کہنا تھا کہ 48 گھنٹوں میں واقعے پر ایکشن لے کر پولیس اہلکاروں کو گرفتار کیا۔یہ کوئی نجی ایونٹ نہیں تھا، اس کی باقاعدہ سوشل میڈیا پر تشہر کی گئی تھی، متعلقہ ایس ایچ او ڈانس پارٹی منعقد کروانے والوں کے ساتھ رابطے میں تھا۔

    ایس ایچ او نے ریڈ سے پہلے پارٹی منعقد کروانے والوں کو آگاہ کیا اور کمزور ایف آئی آر دی۔

    جسٹس علی ضیا باجوہ نے ریمارکس دیے کہ جو کام پولیس اہلکاروں نے کیا ہے وہ کسی بھی معاشرے میں قابل قبول نہیں ۔

    انہوں نے ڈی پی او سے استفسار کیا کہ کیا وہ یقین دہانی کروا سکتے ہیں کہ دوبارہ ان کے ضلع میں یہ نہیں ہو گا۔

    جس پی ڈی پی او نے یقین دہانی کرائی کہ ان کے ضلع میں دوبارہ ایسا نہیں ہوگا، پراسیکیوٹر جنرل پنجاب نے آگاہ کیا کہ ملزمان کی ٹک ٹاک بنا کر پولیس پراسیکیوشن کا کیس خراب کرتی ہے۔

    جسٹس علی ضیا باجوہ نے ہدایت کی کہ آئندہ سماعت پر ایڈوکیٹ جنرل پنجاب بھی عدالت میں پیش ہوں، ایڈوکیٹ جنرل عدالت کی معاونت کریں کہ کیا کسی ملک میں ملزمان کو ایسے ایکسپوز کرنے کا قانون ہے۔

    قصور میں مبینہ ڈانس پارٹی سے گرفتار ملزمان کی ویڈیو بنانے اور وائرل کرنے والے اہلکاروں کو نوکری سے برخاست کردیا گیا۔

    لاہور ہائیکورٹ نے تفتیشی افسر اور ایس ایچ او کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کردیا اور ڈی آئی جی کو کل پیش ہونے کا حکم دے دیا۔

  • پانی کی کمی سے بچاؤ کیلئے  واٹر ایمرجنسی نافذ کرنے کی تجویز

    پانی کی کمی سے بچاؤ کیلئے واٹر ایمرجنسی نافذ کرنے کی تجویز

    لاہور: لاہور ہائیکورٹ نے خشک سالی سے بچاو کیلئے واٹر ایمرجنسی نافذ کرنے کی تجویز کرنے کی تجویز دے دی اور ہدایت کی کہ واٹر ایمرجنسی کا معاملہ کابینہ میں پیش کرا کر آئندہ سماعت پر اس بارے میں رپورٹ پیش کی جائے۔

    تفصیلات کے مطابق لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس شاہد کریم نے سموگ تدارک کیلئے گزشتہ سماعت کا تحریری حکم جاری کر دیا۔

    جس میں عدالت نے باور کرایا کہ یہ وقت کی ضرورت ہے کہ پانی کی کمی سے بچاو کیلئے کورونا کی طرز پر ایمرجنسی کا نافذ کیا جائے اور واٹر ایمرجنسی کیلئے اس کی سمری کابینہ میں پیش کی جائے۔

    عدالت نے واٹر ایمرجنسی پر کابینہ کی رپورٹ بھی مانگ لی، فیصلے میں نشاندہی کی گئی کہ ڈی جی پی ڈی ایم اے نے ماحولیاتی تبدیلی کے پیش نظر دریائوں میں پانی کی کمی کا خدشہ ظاہر کیا۔

    عدالت نے زور دیا کہ پی ڈی ایم اے کو خشک سالی سے بچاو کیلئے بنیادی کردار ادا کرنا ہو گا، اسی پی ڈی ایم اے پانی کے بچاؤ کیلئے پنجاب میں دیگر محکموں کیساتھ ملکر پیشگی اقدامات کرے۔

    عدالت نے قرار دیا کہ ایمرجنسی کا نفاذ پی ڈی ایم اے کو پانی کے تحفظ کیلئے اقدامات میں مزید مضبوط کرے گا اور پانی کے تحفظ کیلئے مخلتف محکموں کے فوکل پرسنز کی کمیٹی بنائی جائے۔

    فیصلے میں کہا گیا کہ فوکل پرسن پانی کے تحفظ کے بارے میں اقدامات کی رپورٹ بھی عدالت پیش کریں جبکہ دو صفحات کے فیصلے میں عدالت نے گھروں میں پانی ضائع کرنیوالوں اور سوسائٹی انتظامیہ کیخلاف بھی کارروائی کا حکم دے دیا۔

    عدالت نے ہدایت کی کہ کوآپریٹو ڈیپارٹمنٹ گھروں میں گاڑیاں دھونے والے اور سوسائٹی انتظامیہ کو بھی جرمانے کرے اور گھروں میں پائپ لگا کر صاف پانی ضائع کرنے پر بھی مکمل پابندی عائد کی جائے تاہم درخواستوں پر آئندہ سماعت 11 اپریل کو ہوگی۔

  • بیٹی کو وراثت میں حصہ دینے سے متعلق ہائیکورٹ کا بڑا فیصلہ

    بیٹی کو وراثت میں حصہ دینے سے متعلق ہائیکورٹ کا بڑا فیصلہ

    لاہور ہائیکورٹ نے ٹرائل کورٹ کافیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے 27سال بعد بیوہ کو بھائی سے جائیداد میں حصہ دلوا دیا۔

    جسٹس خالد اسحاق نے صدیقاں بی بی کی اپیل کا تحریری فیصلہ جاری کر دیا جس کے مطابق خاندانوں میں عام طور پر جائیداد کے حوالے سے جھوٹے دعوے کیے جاتے ہیں ایسےدعوؤں کیلئے سب سےبہترین طریقہ یہ کہنا ہےکہ جائیداد مجھے زبانی تحفے میں ملی۔

    فیصلہ میں کہا گیا کہ بھائی نے مشکل گھڑی میں بیوہ بہن کی مدد کے بجائے شکاری کی طرح وراثتی حق چھینا، افسوسناک ہے مرد شریعت کی خلاف ورزی کرتے ہوئے خواتین سے وراثتی حق چھین لیتے ہیں خواتین کے وراثتی حقوق کی پوری شدت کےساتھ حفاظت کرنی چاہیے۔

    تحریری فیصلے میں عدالت نے کہا کہ کسی خاتون نے خود اپنا وراثتی حق چھوڑ دیا ہے اس کا دعویٰ صحیح ثابت کرنا ہو گا، والد کے انتقال کے بعد بھائی نےساری جائیداد پر قبضہ کر لیا خاتون کےمطابق والدکی وفات کےبعدبھائی نےجائیداد میں حصہ دینے کی یقین دہانی کرائی تھی، خاتون کےمطابق کچھ عرصے تک بھائی زمین سے ہونے والی آمدن کا حصہ بھجواتا رہا لیکن بہنوئی کی وفات کےبعدبھائی نےجائیداد میں حصہ دینے سے انکار کر دیا۔

    فیصلے کے مطابق 2011 میں خاتون نے وراثتی جائیداد میں حصے کیلئے ٹرائل کورٹ میں دعویٰ دائر کیا بھائی کے مطابق والد نے اپنی زندگی میں ہی 59کنال اراضی اسے بطور تحفہ دیدی تھی جس پر ٹرائل کورٹ نے 2014 میں خاتون کا دعویٰ مسترد کر دیا تھا۔

  • ایکس پر پابندی کی قانونی حیثیت کیا ہے؟  اٹارنی جنرل پاکستان عدالت میں طلب

    ایکس پر پابندی کی قانونی حیثیت کیا ہے؟ اٹارنی جنرل پاکستان عدالت میں طلب

    لاہور : لاہور ہائیکورٹ نے  ایکس کی بندش کیخلاف درخواست پر اٹارنی جنرل پاکستان کو 17 اپریل کیلئے طلب کر لیا اور کہا آکر بتائیں ٹویٹر پر پابندی کی قانونی حیثیت کیا ہے؟

    تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس عالیہ نیلم کی سربراہی میں تین رکنی فل بنچ نے ایکس کی پابندی کے معاملے پر سماعت کی۔

    فل بنچ نے ہدایت کی کہ اٹارنی جنرل پاکستان بتائیں کہ سوشل میڈیا ایکس پر پابندی کے نوٹیفکیشن کی کیا قانونی حیثیت ہے؟

    سماعت کے دوران عدالتی حکم پر پی ٹی اے سمیت دیگر متعلقہ اداروں کے افسر پیش ہوئے، ایڈیشنل اٹارنی جنرل مرزا نصر احمد نے بتایا کہ پی ٹی اے کی طرف سے جواب اور رپورٹ داخل ہوچکا ہے۔

    چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے باور کرایا کہ فل بنچ یہ چاہتا ہے اٹارنی جنرل پاکستان عدالت میں موجود ہوں اور وہ عدالت میں آکر ٹویٹر پر پابندی کی قانونی حیثیت کا بتائیں۔

    فل بنچ نے ریمارکس دیئے کہ اٹارنی جنرل پاکستان کی وجہ سے ہی یہ کیسز رکے ہوئے ہیں۔

  • خلیل الرحمان قمر اغوا برائے تاوان کیس میں اہم پیش رفت

    خلیل الرحمان قمر اغوا برائے تاوان کیس میں اہم پیش رفت

    لاہور : ڈرامہ نگار خلیل الرحمان قمر اغوا برائے تاوان کیس کا ٹرائل مکمل ہونے کے بالکل قریب پہنچ گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ڈرامہ نگار خلیل الرحمان قمر کو جھانسہ دیکر تاوان کیلئے اغوا کرنے کے کیس میں ملزمہ آمنہ عروج اورحسن شاہ سمیت دیگر کیخلاف مقدمے کی سماعت ہوئی۔

    انسداد دہشت گردی عدالت کے جج ارشد جاوید نے مقدمے پر سماعت کی ، پراسیکیوٹر عبدالجبار ڈوگر نے حتمی دلائل دیئے اور موقف احتیار کیا کہ مقدمے کے شواہد یہ ثابت کرتے ہیں کہ ملزموں نے تاوان کیلئے ڈرامہ نگار کو اغوا کیا۔

    سرکاری وکیل نے استدعا کی کہ آمنہ عروج اور حسن شاہ سمیت دیگر ملزموں کو واضح ثبوتوں پر سزا سنائی جائے۔

    سماعت کے دوران آمنہ عروج اور حسن شاہ سمیت دیگر ملزموں کو عدالت میں پیش کیا گیا تاہم مقدمے پر اب مزید کارروائی کل ہوگی۔

    ستوکتلہ پولیس نے خلیل الرّحمٰان قمر کی درخواست پر انہیں تاوان کیلئے اغوا کرنے کا مقدمہ درج کیا، لاہور ہائیکورٹ نے مقدمے پر کارروائی ایک ماہ میں مکمل کرنے کا حکم دے دیا۔

    انسداد دہشت عدالت نے مقدمے میں ملزموں کے وکلا کو کل حتمی دلائل کیلئے طلب کر لیا ہے، عدالت حتمی بحث کےبعد مقدمےکا فیصلہ سنائے گی۔

  • شوہر کے قتل کے مقدمے میں سزائے موت پانیوالی بیوی کو بری کردیا گیا

    شوہر کے قتل کے مقدمے میں سزائے موت پانیوالی بیوی کو بری کردیا گیا

    لاہور : شوہر کے قتل کے مقدمے میں سزائے موت پانیوالی بیوی اور ساتھی کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے بری کردیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق لاہور ہائیکورٹ میں شوہر کے قتل کے مقدمے کے ملزمان کی سزا کے کیخلاف اپیلوں پر سماعت ہوئی۔

    لاہور ہائیکورٹ نے شک کا فائدہ دیتے ہوئے ملزمان کی اپیلوں کو منظور کرلیا اور شوہر کے قتل کے مقدمے میں سزائے موت پانیوالی بیوی اور ساتھی بری کردیا۔

    جسٹس شہرام سرور کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے تفصیلی فیصلہ جاری کردیا ، جس میں کہا کہ مقدمےکے مطابق بیوی حنااور منیر احمد شادی کی تقریب میں گئے، شادی کی تقریب سےمنیر واپس نہ آیا تلاش کرنے پر اس کی لاش ملی۔

    پراسیکیوشن کے مطابق اہلیہ اور دلاور نےدو نامعلوم افراد کیساتھ ملکر شوہر کو قتل کیا، پراسیکیوشن کیس ثابت کرنے میں ناکام رہی،موقع پر کوئی گواہ نہیں تھا، اعلیٰ عدلیہ کے فیصلے کی روشنی میں شک کا فائدہ ملزم کو دیا جاتا ہے۔

    خیال رہے ملزمان کیخلاف تھانہ سرگودھا پولیس نے 2019 میں قتل کا مقدمہ درج کیا تھا۔