کراچی (13 اگست 2025): گزشتہ روز ڈسٹرکٹ ملیر جیل سے قیدی محمد جاوید کے فرار کے واقعے کا مقدمہ درج ہو گیا۔
تفصیلات کے مطابق ملیر جیل کے قیدی کے فرار ہونے کے واقعے کا مقدمہ شاہ لطیف ٹاؤن تھانے میں کورٹ پولیس کے اے ایس آئی طلعت انور کی مدعیت میں درج کر لیا گیا ہے۔
مقدمے میں گرفتار 2 پولیس کانسٹیبلز محمد خالد اور نور احمد کو ایف آئی آر میں نامزد کیا گیا ہے، مدعی مقدمہ کے مطابق قیدی محمد جاوید سٹی کورٹ پیشی کے وقت پولیس حراست سے اچانک غائب ہو گیا تھا۔
اے ایس آئی نے بتایا ’’میں سٹی کورٹ سے پرانے 14 قیدی اور 24 نئے قیدی جمع کرنے کے لیے ڈسٹرکٹ جیل ملیر کے گیٹ پر پہنچا تھا، میں پرانے 14 قیدیوں کو میں جیل کے اندر جمع کرانے چلا گیا، اور نئے 24 قیدیوں کو گیٹ کے باہر بٹھایا اور ان قیدیوں کو پر ڈیوٹی کے لیے پولیس کانسٹیبل محمد خالد اور نور احمد کو مامور کیا۔‘‘
مدعی نے بتایا ’’جب میں قیدی جمع کروا کر واپس باہر آیا اور قیدیوں کی گنتی کی تو ایک قیدی کم تھا، وہاں 23 قیدی موجود تھے، معلومات کرنے پر ملزمان نے بتایا کہ ایک قیدی ہتھکڑی نکال کر بھاگ گیا ہے۔‘‘
اے ایس آئی کے مطابق فرار ہونے والے قیدی کو کافی تلاش کیا لیکن اس کا کچھ پتا نہیں چل سکا، تحقیق کرنے پر یہ پتا چلا کہ قیدی محمد جاوید کو کینٹ ریلوے پولیس نے چوری کے مقدمے میں گرفتار کیا تھا۔
خیال رہے کہ گزشتہ روز قیدی کے فرار ہونے پر کورٹ پولیس کے 2 اہلکاروں کو گرفتار کیا گیا تھا، جنھیں اب ایف آئی آر میں نامزد کیا گیا ہے۔
کراچی : راشد منہاس روڈ حادثے پر ٹریفک پولیس کے خصوصی یونٹ کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ ڈمپر کا نہ فٹنس سرٹیفکیٹ ہے اور نہ ہی حادثے سے بچاؤ کیلئے حفاظتی رکاوٹ لگی تھی۔
تفصیلات کے مطابق کراچی میں راشد منہاس روڈ پر پیش آنے والے ہولناک ٹریفک حادثے کی تحقیقاتی رپورٹ ٹریفک پولیس کے خصوصی یونٹ "کراچی روڈ ایکسیڈنٹ تجزیاتی ٹیم” نے جاری کر دی۔
جس میں بتایا حادثہ 10 اگست کی صبح 3 بج کر 15 منٹ پر پیش آیا، حادثہ موٹر سائیکل کے سلپ ہونے کے بعد پیش آیا جب ایک ڈمپر ڈرائیور نے موٹر سائیکل کو ٹکر ماری، جس کے نتیجے میں سوار نوجوان احمد رضا اور ماہ نور ڈمپر کے پچھلے ٹائروں کے نیچے آ کر جاں بحق ہو گئے۔
کراچی روڈایکسڈنٹ تجزیاتی ٹیم نے انکشاف کیا کہ ڈمپر میں حادثات سے بچاؤ کے لیے کسی قسم کی حفاظتی رکاوٹ نصب نہیں تھی۔ مزید برآں، گاڑی کا فٹنس سرٹیفکیٹ بھی موجود نہیں تھا، جبکہ ڈمپر میں اسپیڈ ٹریکنگ ڈیوائس اور ٹریکر سسٹم بھی نصب نہیں تھے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ ڈمپر ڈرائیور مغرب کی سمت سے گاڑی چلا رہا تھا اور یہ اس کا تیسرہ چکر تھا۔ حادثہ گلبرگ ٹریفک سیکشن اور تھانہ یوسف پلازہ کی حدود میں پیش آیا۔ اس وقت ڈمپر خالی تھا۔
تجزیاتی ٹیم نے مزید بتایا گیا کہ اس حادثے میں شامل ڈمپر ان ہی ڈمپرز میں سے تھا جنہیں حالیہ احتجاج کے دوران نذرِ آتش کیا گیا تھا، اور ان میں سے کسی بھی ڈمپر میں حفاظتی یا مانیٹرنگ سسٹم موجود نہیں تھا۔
کراچی : ٹریفک پولیس کے جرمانے اور سختیوں سے پریشان کراچی والوں نے چھ ماہ میں ڈھائی لاکھ سے زائد ڈرائیونگ لائسنس بنوالئے۔
تفصیلات کے مطابق کراچی میں ٹریفک پولیس کے جرمانے اور سختیوں کے بعد ڈرائیونگ لائسنس بنوانے والوں کا رش لگا ہوا ہے۔
سندھ پولیس کی جانب سے اعداد و شمار میں بتایا گیا کہ گذشتہ چند ماہ سے شہری ریکارڈ تعداد میں ڈرائیونگ لائسنس بنوا رہے ہیں جبکہ رش کی وجہ سے شہریوں کو قطار اور انتظار کی زحمت کا سامنا بھی کرنا پڑ رہا ہے۔
پولیس حکام نے انکشاف کیا کراچی والے چھ ماہ میں ڈھائی لاکھ سے زائد ڈرائیونگ لائسنس بنوا چکے ہیں، ناظم آباد اور کلفٹن برانچ میں سب سے زیادہ رش دیکھا گیا تاہم شہری کراچی میں قائم 6 دیگر برانچوں سے بھی مستفید ہوسکتے ہیں۔
کراچی میں سعید آباد، ملیر ۔ کورنگی اور سعو دآباد میں بھی ڈرائیونگ لائسنس برانچیں کام کررہی ہیں جہاں تمام کیٹگریز کے لائسنس کا اجراء کیا جاتا ہے۔
شہری ڈرائیونگ لائسنس برانچ کی ویب سائٹ کے ذریعے بھی آن لائن لرننگ لائسنس حاصل کرسکتے ہیں۔
خیال رہے ڈرائیونگ لائسنس ایک سرکاری دستاویز ہے جو حکومت کسی فرد کو جاری کرتی ہے، تاکہ وہ قانونی طور پر سڑکوں پر گاڑی چلانے کا اہل ہو۔ یہ لائسنس اس بات کا ثبوت ہوتا ہے کہ متعلقہ شخص نے ٹریفک قوانین، گاڑی چلانے کی تربیت اور ٹیسٹ مکمل کر لیا ہے۔
پاکستان سمیت دنیا کے بیشتر ممالک میں ڈرائیونگ لائسنس کے بغیر گاڑی چلانا قانوناً جرم ہے۔ لائسنس مختلف اقسام میں جاری ہوتا ہے جیسے موٹر سائیکل، کار، ٹرک یا بس کے لیے علیحدہ علیحدہ لائسنس۔
یہ لائسنس نہ صرف شناخت کا ذریعہ ہوتا ہے بلکہ کسی حادثے یا خلاف ورزی کی صورت میں ذمہ داری کا تعین بھی اسی کے ذریعے کیا جاتا ہے۔
کراچی (28 جولائی 2025): شہر قائد کے علاقے گارڈن میں ٹریفک پولیس چوکی کے قریب سے رات گئے ملنے والی لاش کی شناخت عبداللہ اعوان کے نام سے ہو گئی ہے۔
اے آر وائی نیوز کے مطابق گزشتہ رات گارڈن ٹریفک پولیس چوکی کے قریب سے ایک لڑکے کی لاش ملی تھی، جسے سول اسپتال کے مردہ خانے میں منتقل کیا گیا تھا، مقتول کے پاؤں میں چپل بھی نہیں تھی، اور عینی شاہدین نے بتایا تھا کہ انھوں نے علاقے میں فائرنگ کی کوئی آواز نہیں سنی۔
پولیس نے تحقیقات شروع کیں تو معلوم ہوا ہے کہ لڑکے کو قتل کیا گیا تھا اور اس کی شناخت عبداللہ اعوان کے نام سے ہوئی، جو پولیس اہلکار مبارک کا بیٹا اور گارڈن ہیڈ کوارٹر کا رہائشی تھا۔
پولیس حکام نے بتایا کہ تفتیش میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ مقتول عبد اللہ 2 روز سے گھر سے غائب تھا، وہ نشے کا عادی تھا اور اکثر گھر سے باہر رہتا تھا، تاہم اس بار شاید اس کی گم شدگی ممکنہ طور پر اغوا ہونے کی وجہ سے تھی، جس کے بعد اسے گولیاں مار کر قتل کیا گیا۔
مقتول کا والد پولیس اہلکار مبارک شیٹ کلرک ہے، پولیس نے واقعے کی تحقیقات کا دائرہ وسیع کر دیا ہے، اور بتایا کہ عبد اللہ کی لاش جہاں سے ملی ہے وہاں کیمرے موجود ہیں، ہو سکتا ہے اسے کسی اور جگہ قتل کیا گیا ہو اور لاش یہاں پھینک دی گئی ہو، پولیس کا کہنا ہے کہ واقعے کی ہر پہلو سے تحقیقات کی جا رہی ہے۔
کراچی: لانڈھی جیل میں قیدیوں سے ملاقات کے لیے آنے والی خواتین کو ہراساں کرنے اور ان سے رشوت طلب کیے جانے کا انکشاف ہوا ہے۔
تفصیلات کے مطابق لانڈھی جیل کے ایک قیدی طارق عزیز کی بیٹی رمشا طارق نے سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کیا ہے، اور چیف جسٹس کو ایک خط کے ذریعے معاملے سے آگاہ کیا ہے۔
رمشا طارق کے مطابق لانڈھی جیل میں تعینات اے ایس آئی عزیز اللہ ان سے غیر مناسب تعلقات قائم رکھنے کے لیے دباؤ ڈالتا ہے، اور غیر مناسب تعلقات قائم نہ رکھنے پر جیل میں قید ان کے والد کو نقصان پہنچانے کی دھمکی دی جاتی ہے۔
درخواست گزار نے شکایت کی کہ ’’ اے ایس آئی عباس ابڑو اور سپاہی علی شیر سومرو والد سے ملاقات کے لیے رشوت طلب کرتے ہیں، ابتدا میں 3 ہزار روپے ایک ملاقات کے لیے مانگے جا رہے تھے، اب رشوت کی رقم بڑھا کر ایک ملاقات میں 5 ہزار مانگے جا رہے ہیں۔‘‘
رمشا طارق نے مطالبہ کیا ہے کہ انھیں ہراساں کرنے والے اے ایس آئی عزیز اللہ کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے، اور رشوت مانگنے والے اے ایس آئی عباس ابڑو اور سپاہی علی شیر سومرو سے بھی تحقیقات کی جائے، اور اس تمام معاملے کی کسی ایمان دار افسر سے شفاف تحقیقات کروائی جائے۔
ادھر ڈی آئی جی جیل ملک اسلم نے بتایا کہ خاتون کی شکایت انھیں مل گئی ہے جس کا جائزہ لیا جا رہا ہے، جن افسران اور اہلکاروں پر الزام ہے ان کے خلاف محکمانہ انکوائری شروع کر دی گئی ہے، انکوائری میں الزامات ثابت ہونے پر ملوث افسران اور اہلکاروں کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔
کراچی: سی ویو پر ویگو ڈالا لے جانا شہری کو مہنگا پڑ گیا۔
اے آر وائی نیوز کے مطابق کراچی میں سی ویو پر ویگو ڈالے کو تیز لہروں نے الٹ دیا، گزشتہ شب شہری گاڑی سمیت سمندر میں گیا تھا۔
پولیس کا بتانا ہے کہ گاڑی مہران سومرو نامی شہری کے نام پر رجسٹرڈ ہے۔
ریسکیو ٹیموں نے رسی کی مدد سے سمندر سے گاڑی کو نکالا اس دوران رسی ٹوٹنے سے ایک ریسکیو اہلکار بھی زخمی ہوگیا۔
ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ شہری کو گاڑی کو نقصان بھی پہنچا ہے۔
واضح رہے کہ سمندر میں دفعہ 144 نافذ ہے اور کسی بھی قسم کی گاڑی کو لے جانے پر پابندی عائد ہے لیکن شہری پھر بھی مختلف مقامات پر پہنچ جاتے ہیں اور شہری بھی رات گئے سی ویو پر گاڑی لے کر پہنچا تھا۔
کراچی : ملزمان کی بچی کے سامنے شہری سے لوٹ مار کے واقعے کی سی سی ٹی وی فوٹیج سامنے آگئی۔
تفصیلات کے مطابق کراچی میں اسٹریٹ کرمنلز کا سر عام دن دہاڑے شہریوں سے لوٹ مار کا سلسلہ جاری ہے۔
بفرزون کے علاقے میں ملزمان کی بچی کے سامنے شہری سے لوٹ مار کا واقعہ سامنے آیا، واردات کی سی سی ٹی وی فوٹیج اےآروائی نیوز نے حاصل کرلی۔
جس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ شہری بچی کو اسکول چھوڑنے کیلئے گھر کے باہر کھڑا تھا کہ موٹرسائیکل سواردوملزمان اسلحہ کےزورپرموبائل اورنقدی چھین کرفرار ہوئے۔
فوٹیج میں اسکول یونیفارم میں بچی کودیکھاجاسکتا ہے ، پولیس کا کہنا ہے کہ شہری کی جانب سے ابھی تک کوئی رپورٹ درج نہیں، تاہم سی سی ٹی وی فوٹیج کی مدد سے ملزمان کی تلاش جاری ہے۔
انچارج ایدھی فاؤنڈیشن کے مطابق بس ٹھٹھہ بائی پاس پر سڑک سے کچے میں اتر کر الٹ گئی تھی، ورثا کا کہنا ہے کہ جاں بحق اور زخمی افراد آپس میں دوست، رشتے دار اور ایک ہی محلے کے رہائشی ہیں۔
وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے حادثے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے ڈپٹی کمشنر ٹھٹھہ کو زخمیوں کو طبی امداد فراہم کرنے کی ہدایت کی ہے۔
کراچی: شہر قائد کے علاقے کورنگی، مہران ٹاؤن میں شوہر کے ہاتھوں جلائی گئی خاتون نے دم توڑ دیا۔
تفصیلات کے مطابق لواحقین کا کہنا ہے کہ 23 سالہ رابعہ کو 14 مارچ کو اس کے شوہر وقاص نے جھگڑے پر پٹرول چھڑک کر آگ لگا دی تھی، جس کے بعد وہ سول اسپتال کے برنس سینٹر میں زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا تھی، تاہم جاں بر نہ ہو سکی۔
برنس سینٹر کے ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ رابعہ کا چہرہ اور سینہ بری طرح متاثر ہوا تھا، اور جسم 50 فی صد جھلس گیا تھا، کئی ماہ زندگی اور موت کی کشمکش میں رہنے والی رابعہ کی لاش ضابطے کی کارروائی کے بعد لواحقین کے حوالے کر دی گئی ہے۔
وقاص، جس نے اپنی بیوی کو پیٹرول چھڑک کر جلا دیا، کراچی کورنگی
ادھر کورنگی صنعتی ایریا پولیس نے رابعہ کے شوہر وقاص کو گرفتار کر کے اس کے خلاف مقدمہ درج کر لیا ہے، ملزم کو جیل بھیجا جا چکا ہے، تفتیشی پولیس کا کہنا ہے کہ رابعہ کی موت کے بعد اب کیس میں قتل کی دفعہ بھی شامل کی جائے گی۔
تفتیش کے دوران ملزم وقاص کے والد کا بھی رابعہ کو جلانے کے واقعے میں کردار سامنے آیا تھا، پولیس کا کہنا ہے کہ اگر یہ کردار ثابت ہو گیا تو ملزم کے والد کو بھی گرفتار کریں گے، مضبوط کیس بنا رہے ہیں اور ملزم کو عدالت سے سخت سزا دلوائیں گے۔
دریں اثنا، کراچی کے علاقے لیاقت آباد ڈاکخانے کے قریب فائرنگ سے 2 لڑکے زخمی ہوئے ہیں، پولیس حکام کا کہنا ہے کہ زخمیوں میں 16 سال کا انس اور 14 سال کا عبدالواسع شامل ہے، جنھیں عباسی شہید اسپتال میں طبی امداد فراہم کی جا رہی ہے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ زخمی لڑکے دوستوں کے ہمراہ موٹر سائیکلوں پر گلیوں میں گھوم رہے تھے، نامعلوم شخص نے لڑکوں کو ڈرانے کے غرض سے زمین پر فائر کر دیے، تاہم گولی زمین سے ٹکرا کر لڑکوں کو لگ گئی، اس سلسلے میں تحقیقات جاری ہیں اور فائرنگ کرنے والے شخص کو بھی تلاش کیا جا رہا ہے۔
کراچی (15 جولائی 2025): پولیس نے ڈیفنس فیز 6 میں گھر سے مردہ حالت میں ملنے والی اداکارہ و ماڈل حمیرا اصغر کے موبائل فون کا مکمل ڈیٹا حاصل کر لیا۔
تفتیشی حکام نے بتایا کہ حمیرا اصغر کا مکمل موبائل ڈیٹا حاصل کر لیا گیا تاہم فون سے تاحال کوئی اہم شواہد نہیں ملے، اداکارہ نے 7 اکتوبر 2024 کو 14 افراد سے رابطہ کیا لیکن کسی نے جواب نہیں دیا۔
حکام نے بتایا کہ حمیرا اصغر نے جن سے رابطہ کیا ان میں شوبز کا ایک ڈائریکٹر بھی شامل ہے جو اس وقت اسلام آباد میں موجود ہیں، پولیس نے ان سے رابطہ کر لیا ہے۔
’حمیرا اصغیر کے فلیٹ سے 3 موبائل فونز، ٹیبلٹ، ڈائری اور مختلف دستاویز ملے ہیں۔ اداکارہ کے زیر استعمال ٹیبلٹ خراب ہے تاحال نہیں کھولا جا سکا۔ ان کے نام پر 3 سمز تھیں جو موبائل فونز میں لگی تھیں۔‘
تفتیش حکام کے مطابق ان کے 2 موبائل فونز پر کوئی پاسورڈ نہیں تھا جبکہ ڈائری میں ایک موبائل فون اور ٹیبلیٹ کا پاسورڈ لکھا تھا، ان کے تینوں موبائل میں 2215 نمبرز موجود ہیں، فون ریکارڈ کے مطابق اکتوبر 2024 کے ابتدا میں انہوں نے اپنے بھائی سے بھی رابطے کی کوشش کی تھی۔
13 جولائی 2025 اداکارہ و ماڈل کی پراسرار موت کی تحقیقات کیلیے پولیس نے کمیٹی تشکیل دی جس کی سربراہی ایس پی کلفٹن عمران جاکھرانی کریں گے جبکہ کمیٹی میں ایس ڈی پی او ڈیفنس اورنگزیب خٹک، اے ایس پی ندا اور ایس ایچ او تھانہ گزری فاروق سنجرانی شامل ہیں۔
اب تک کی تحقیقات کے حوالے سے پولیس حکام نے بتایا تھا کہ تحقیقاتی ٹیم نے حمیرا اصغر کے زیر استعمال موبائل فونز اور ٹیبلٹ کو ان لاک کر لیا جبکہ ان میں موجود ڈیٹا اور چیٹ کا تجزہ کیا جا رہا ہے۔
پولیس حکام نے بتایا تھا کہ حمیرا اصغر کا لیپ ٹاپ ابھی ان لاک نہیں کیا گیا، اداکارہ و ماڈل کی ڈائری میں ان کے موبائل فونز اور ٹیبلٹ کے پاس ورڈ محفوظ تھے، ڈیٹا کی مدد سے مزید سراغ حاصل کرنے کی کوششیں تیز کر دیں۔
انہوں نے بتایا تھا کہ حمیرا اصغر کی موت کے سلسلے میں دو افراد کے بیانات بھی ریکارڈ کیے جا چکے ہیں، بلڈنگ کے چوکیدار اور صفائی کا کام کرنے والوں کو بھی پوچھ گچھ کیلیے بلایا ہے جبکہ اداکارہ جس جم میں جاتی تھیں وہاں کے ٹرینر سے معلومات لی جائیں گی۔
حمیرا اصغر جس بیوٹی پارلر میں جاتی تھیں وہاں سے اور متعلقہ افراد سے بھی معلومات لیں گے، اداکارہ کے اہل خانہ نے تاحال قانونی کارروائی کیلیے رابطہ نہیں کیا۔
پس منظر
اداکارہ و ماڈل حمیرا اصغر، جن کی عمر بیالیس برس تھی، کی لاش 8 جولائی 2025ء کو کراچی کے ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی (ڈی ایچ اے) فیز VI میں ان کے کرائے کے اپارٹمنٹ سے ملی۔ یہ دریافت بقایا کرایہ نہ ادا کرنے کی وجہ سے عدالتی حکم پر بے دخلی کے دوران ہوئی۔
لاش انتہائی گل سڑی حالت میں تھی جو اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ ان کی وفات ممکنہ طور پر اکتوبر 2024ء میں ہوئی۔
پولیس نے ابتدائی طور پر قتل کا امکان مسترد کر دیا ہے کیونکہ اپارٹمنٹ اندر سے بند تھا اور کوئی زبردستی داخلے کے آثار نہیں ملے، فورنزک رپورٹس کا انتظار ہے تاکہ موت کی وجہ معلوم ہو سکے۔
اداکارہ و ماڈل تماشا گھر اور فلم جلیبی (2015) میں اپنے کرداروں کی وجہ سے مشہور تھیں، وہ ایک ماہر مصورہ اور مجسمہ ساز بھی تھیں جن کے انسٹاگرام پر 715,000 فالوورز ہیں اور ان کی آخری پوسٹ 30 ستمبر 2024ء کو تھی۔