Author: افضل خان

  • کراچی : اسٹریٹ کرائم کا جن بے قابو، شہریوں کی سہولت کیلئے موبائل ایپلی کیشن تیار

    کراچی : اسٹریٹ کرائم کا جن بے قابو، شہریوں کی سہولت کیلئے موبائل ایپلی کیشن تیار

    کراچی: شکایات درج کروانے کے لیے شہریوں کو اب نہ تھانے کی ضرورت پڑے گی اور نہ ہی پولیس سے الجھنے کا مسئلہ درپیش ہوگا، کراچی پولیس نے پولیس فار یو نامی موبائل ایپلی کیشن تیار کرلی۔

    تفصیلات کے مطابق شہر قائد میں اسٹریٹ کرائم اور پرتشدد واقعات میں اضافہ ہوگیا ہے، جس کے بعد جرائم روکنا کراچی پولیس کے لئے ایک چیلنج بن گیا ہے۔

    اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے کراچی پولیس نے کرائم ریکارڈ اور شہریوں کی سہولت کیلئے ایپلی کیشن تیار کرلی، پولیس حکام نے پولیس فار یو نامی ایپلی کیشن کی ٹیسٹنگ شروع کردی ہے۔

    اس ایپ میں موبائل، موٹرسائیکل، گاڑی، کیش چھیننے یا چوری سمیت دیگر کی وارداتیں رپورٹ ہوسکیں گی، ٹیسٹنگ کے دوران ایک شہری کی شکایت درج ہوتے ہی متعلقہ ایس ایس پی دفتر کو موصول ہوگئی۔

    ضلعی سطح پر وکٹم سپورٹ سروس ڈیسک شکایات کو مونیٹر کرے گی، مذکورہ ڈیسک شکایت درج ہوتے ہی متاثرہ شہری سے متعلقہ پولیس کا رابطہ کرائے گی، ایپ کی ٹیسٹنگ مکمل ہوتے ہی اسے شہریوں کیلئے جاری کردیا جائے گا۔

    اس حوالے سے پولیس حکام کا کہنا ہے کہ ایپ کے ذریعے وہ کرائم بھی ریکارڈ ہوسکیں گے جو اب تک نہیں ہو پارہے تھے، ذرائع کے مطابق شہریوں کو اب نہ تھانے کی ضرورت پڑے گی اور نہ ہی پولیس سے الجھنے کا مسئلہ درپیش ہوگا۔

    ایپ میں شہری اپنے ساتھ پیش آنے والی واردات کی مکمل تفصیل درج کریں گے جس کے بعد پولیس از خود متاثرہ شہریوں سے رابطہ کرے گی۔

  • امریکا کو سندھ پولیس کے کاندھے سے کاندھا ملا کر کھڑے ہونے پر فخر ہے: امریکی قونصل جنرل

    امریکا کو سندھ پولیس کے کاندھے سے کاندھا ملا کر کھڑے ہونے پر فخر ہے: امریکی قونصل جنرل

    کراچی:  امریکی قونصل جنرل جو آن ویگنر اور  صوبائی وزیر ناصر حسین شاہ نے سعید آباد پولیس ٹریننگ سینٹر میں سیمیولیٹر سسٹم کا افتتاح کیا.

    تفصیلات کے مطابق آج سیمیولیٹر سسٹم کا افتتاح  کیا گیا،  اس موقع پر امریکی قونصل جنرل ، ناصر حسین شاہ اور آئی جی سندھ نے سسٹم پر نشانے بازی کی مشق کی.

    [bs-quote quote=”دہشت گردی کے خلاف امریکا پاکستان کے ساتھ کھڑا ہے” style=”style-7″ align=”left” author_name=”امریکی قونصل جنرل”][/bs-quote]

    تقریب سے خطاب کرتے ہوئے امریکی قونصل جنرل جوآن ویگنر نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف امریکا پاکستان کے ساتھ کھڑا ہے.

    امریکی قونصل جنرل جو آن ویگنر نے کہا کہ جمہوری اور پرامن معاشرے کے قیام کے لئے تعاون جاری رہے گا، پولیس اہل کار  عوام اور  امن کے لئے اپنی جانوں کو خطرے میں ڈالتے ہیں۔

    انھوں نے کہا کہ امریکا پاکستان بالخصوص سندھ پولیس کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہونے پر فخر محسوس کرتا ہے.


    مزید پڑھیں: چینی قونصل خانہ حملہ، سندھ پولیس کا ایکشن، مزید سہولت کارگرفتار


    انھوں نے کہا کہ ‎2012 سے امریکا پاکستان کی پارٹنر شپ جاری ہے، مشترکہ کوششوں سے آپریشنل اور پیشہ ورانہ صلاحیتوں میں اضافہ ہوگا، سیمیولیٹرز کے ذریعے سندھ پولیس کے نئے جوانوں سمیت دیگر کی فائرنگ مشق میں بہتری ہوگی.

    انھوں نے کہا کہ سندھ پولیس کی کاوشوں پر خراج تحسین پیش کرتی ہوں، امریکی قونصل جنرل نے چینی قونصلیٹ پر حملے کے موقع پر شہید ہونے والے پولیس اہلکاروں کو خراج تحسین پیش کیا۔

  • ایم کیو ایم ساؤتھ افریقا کے 2 کارندے گرفتار، بھاری مقدار میں اسلحہ برآمد

    ایم کیو ایم ساؤتھ افریقا کے 2 کارندے گرفتار، بھاری مقدار میں اسلحہ برآمد

    کراچی: شہرقائد میں چھاپہ مارکارروائی کرتے ہوئے رینجرز نے ایم کیوایم ساؤتھ افریقہ نیٹ ورک کے2ملزمان کو گرفتار کرلیا، ملزمان کی نشاندہی پر بڑی تعداد میں اسلحہ بھی برآمد ہوا ہے۔

    رینجرز ترجمان کےمطابق پہلی چھاپہ مار کارروائی کراچی کے علاقے نارتھ ناظم آباد میں کی گئی ، جس میں ایم کیو ایم ساؤ تھ افریقا نیٹ ورک کے دو کارندے مستقیم اور مقیم کو حراست میں لیا گیا۔

    ترجمان نے مزید بتایا کہ ملزمان کی نشاندہی پر کراچی ہی کے ایک اور علاقے عزیزآبادفیڈرل بی ایریامیں واقع ایک مکان پرچھاپہ مارا گیا ، جہاں سے بڑی تعدادمیں اسلحہ اوربارودکابڑاذخیرہ برآمد کیا گیا ہے۔

    برآمد ہونے والے اسلحے کے اس ذخیرے میں 195رائفل گرینیڈ،اٹھانوے40ایم ایم گرینیڈ،52 ہینڈگرینیڈبرآمد ہوئے ہیں جبکہ 13عددایلومینیٹڈگرینیڈ،19آوان بم،11آرپی جی سیون راکٹ شامل ہیں۔

    اس ذخیرے میں مزید 49سیفٹی فیوز،170ڈیٹونیٹرز،17کلوپلاسٹک ایکسپلوزیو،2آرپی جی شامل ہے جبکہ ایک گرینیڈلانچر،2ایم پی فائیو،6ایم جی،5ایل ایم جی،ایک ایچ ایم جی،2اسنائپر بھی شامل ہیں۔

    سندھ رینجرز کا کہنا ہے کہ چھپائے گئے اسلحے میں 4ایس ایم جی،ایک ٹرپل ٹوواررائفل،ایک ڈبل ٹوبوررائفل اور 6سیون ایم ایم رائفل،2جی تھری رائفل،2پستول،4ایس ایم جی گرینیڈلانچرودیگر اسلحہ شامل ہے۔

    ملزمان نے انکشاف کیا کہ مارچ 2015 میں ایم کیو ایم کے مرکز نائن زیرو پر چھاپے کے بعد سے وہ مسلسل روپوشی کی زندگی گزاررہے تھے تاہم اس دوران ایم کیو ایم ساؤتھ افریقہ نیٹ ورک کےساتھ رابطےمیں تھے۔

    تفتیش کے دوران مستقیم نامی ملزم نے بتایا کہ وہ سنہ1992میں بھارت فرارہوکرجاویدلنگڑاکےساتھ رہائش پذیررہا اور سنہ 1993 میں پاکستان آکر تخریبی کارروائیوں میں ملوث ہوگیا۔

    ترجمان رینجرز کا کہنا ہے کہ مستقیم ایم کیو ایم ساؤتھ افریقہ کےشجاع الدین عرف بوبی کےساتھ رابطےمیں تھا۔دونوں ملزمان کومختلف سیاسی رہنماؤں کی ریکی اورٹارگٹ کلنگ کاذمہ بھی دیاگیاتھا۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ گرفتار شدہ ملزمان کوایم کیو ایم ساؤتھ افریقہ نیٹ ورک تیاررہنےکاحکم دیاتھا۔ بر آمد شدہ مواد سے لگتا ہے کہ یہ ایک لمبی جنگ کی تیاری تھی ۔

    آپریشن کی تکمیل پر ڈی جی رینجرز نےبھی برآمد شداسلحے اور بارودی موادکامعائنہ کیا اور آپریشن میں حصہ لینےوالےجوانوں سےملاقات کی اور انہیں مبارک باددی۔ اس موقع پر ڈی جی رینجر ز کا کہنا تھا کہ رینجرزدہشت گردوں کی سرکوبی اورقیام امن کے لیے کوئی کسراٹھانہیں رکھےگی۔

  • کراچی سنٹرل پولیس آفس میں گٹکا کھانے والوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ

    کراچی سنٹرل پولیس آفس میں گٹکا کھانے والوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ

    کراچی: اے آئی جی ایڈمنسٹریشن عدیل حسین چانڈیو نے سنٹرل پولیس آفس میں پان گٹکا اور چھالیہ کھانے اور گندگی پھیلانے کے خلاف اقدامات کرنے کامطالبہ کردیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق اے آئی جی ایڈمنسٹریشن عدیل حسین چانڈیو نے سی پی او میں صفائی ستھرائی برقرار رکھنے کے لئے اعلی ٰپولیس حکام کو خط لکھ کر تعاون طلب کیا ہے۔

    خط میں سنٹرل پولیس آفس میں دفتر رکھنے والے تمام ایڈیشنل آئی جیز، ڈی آئی جیز، اے ائی جی اور دیگر افسران سے اپنے ا پنے اسٹاف کو صفائی کا خاص خیال رکھنے کےلئے پابند کرنے کی اپیل کی گئی ہے ۔

    عدیل چانڈیو کی جانب سے لکھے گئے خط میں یہ بھی مطالبہ کیا گیا ہے کہ تمام افسران اپنےاسٹاف کو پابند کریں کہ وہ کسی جگہ بھی گٹکا پان نہ تھوکیں اور اپنے اپنےدفاتر کے کمرے، راہداریاں اور اردگرد کا ماحول صاف رکھا جائے۔

    یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ سی پی او میں صفائی ستھرائی برقرار رکھنے کے لئے محدود اسٹاف ہے، سی پی او آنے والے سویلین اور یونیفارم والے بعض افسران اور اہلکار بھی پان، گٹکا اور چھالیہ جگہ جگہ تھوکتے ہیں۔

    خط کےمندرجات کے مطابق عمارت کی بالکونیوں، راہداریوں اور سیڑھیوں پر گندگی کے باعث ماحول خراب نظر آتا ہے، مشترکہ تعاون اور کوششوں سے ہی دفاتر اور اردگرد کے ماحول کو صاف ستھرا رکھنا ممکن ہوسکتا ہے۔

  • پستہ قامت افراد کا حکومت سے کوٹے کی ملازمتیں فراہم کرنے کا مطالبہ

    پستہ قامت افراد کا حکومت سے کوٹے کی ملازمتیں فراہم کرنے کا مطالبہ

    کراچی: شہر قائد میں پستہ قد والے افراد کی تنظیم نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے حکومت سے کوٹے کے تحت مختص کردہ ملازمتیں فراہم کرنے کی درخواست کردی۔

    تفصیلات کےمطابق کراچی میں پریس کلب میں لٹل پیپل آف پاکستان کے صدر کامران احمد خان نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے اپنے مسائل حکومت کے سامنے رکھ دیئے۔

    انہوں نے انکشاف کیا کہ صرف کراچی میں اس وقت پانچ ہزار سے زائد پستہ قامت افراد موجود ہیں، جنہیں اپنے معاملاتِ زندگی گزارنے کے لیے شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دنیا ہمیں کھلونا سمجھتی ہے، جبکہ سرکار بھی ہمارا مضحکہ اڑاتی ہے۔

    کامران احمد کا کہنا تھا کہ پستہ قامت افراد کے مسائل بے شمار ہیں۔ ہمیں سرکاری اور نجی دونوں طرح کی ملازمت سے محروم رکھا جاتا ہے، معذوروں کے لیے پانچ فیصد ملازمتوں کا کوٹہ مختص ہے لیکن سندھ اور وفاقی حکومت ہمیں نوکریاں دینے کے بجائے بیچ دیتی ہے۔

    انہوں وزیراعظم اور صدرِ مملکت سے اپیل کی کہ ان کی درخواست کی سنوائی کرتے ہوئے انہیں فی الفور نوکری فراہم کی جائے۔

    انہوں نے مزید بتایا کہ پستہ قامت افراد کو نہ تو نوکری میسر ہے ، اور نہ ہی ٹرانسپورٹ میں ان کے لیے سہولیات کا خیال رکھا جاتا ہے، نہ تعلیم اور نہ ہی صحت کی سہولت انہیں میسر ہے۔

    کامران احمد نے انکشاف کیا کہ ہم جب بھی حکامِ بالا سے ملنے چاہتے ہیں تو ہمارا مذاق اڑایا جاتا ہے، حکومت بس یہ بتادے کہ روزگار نہیں ہوگا تو ہم اپنی گزر اوقات کیسے کریں گے۔

  • شہرقائد کے ٹریفک پولیس اہلکارازخود خطرناک گڑھے بھرنے لگے

    شہرقائد کے ٹریفک پولیس اہلکارازخود خطرناک گڑھے بھرنے لگے

    کراچی: شہرقائد کی ٹریفک پولیس اہلکارعوام کی سہولت کو مدنظررکھتے ہوئے سڑکوں پر موجود گڑھے از خود ہی بھرنے لگے، سڑکوں پر موجود یہ گڑھے آئے دن حادثات کا سبب بنتے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی کے علاقے سلطان آباد کے این ایل سی چوک پر ٹریفک کی روانی کو برقرار رکھنے کے لیے پولیس نے اپنی مدد آپ کے تحت ان گڑھو ں کوبھرا تاکہ شہری محفوظ سفر کرسکیں۔

    ایس ایس پی ویسٹ ڈاکٹر نجیب کے مطابق پولیس اہلکاروں نےیہ کام ازخود انجام دیا اور گڑھے پر کرنے کا مقصد حادثات کی روک تھا م اور ٹریفک کی روانی کو بحال رکھنا ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ ان گڑھوں کے سبب آئے دن شہرقائد میں حادثات پیش آتے ہیں ۔ رواں اور محفوظ سڑکیں ہی شہریوں کے محفوظ سفر کی اولین ضمانت ہوتی ہیں۔ ڈاکٹر نجیب کے مطابق کچھ روز قبل سب میرین ہائی وے پر بھی ایک گاڑی گڑھے میں گرگئی تھی جس کے نتیجے میں دو افراد شدید زخمی ہوئے تھے۔

    ٹریفک پولیس کراچی

    اسی نوعیت کے واقعات کی روک تھا م کے لیے این ایل سی چوک پر متعین ٹریفک اہلکاروں نے ازخود ان گڑہوں کو بھرنے کا فیصلہ کیا جوکہ قابلَ ستائش اقدام ہے، اسی نوعیت کے اقدامات سے عوام اور پولیس کے درمیان اختلافات ختم ہوں گے اور بہتر پولیسنگ میں مدد ملے گی۔

  • انسانی تاریخ کا پہلا فنکار

    انسانی تاریخ کا پہلا فنکار

    اگر ہم کمہار کو انسانی تاریخ کا پہلا فنکار کہیں تو یہ غلط نہ ہوگا۔ چکنی مٹی، پانی اور آگ سے تیار ہونے والے مٹی کے برتن فن پاروں سے کم نہیں۔ گذشتہ کئی ہزار برس سے کمہار تخلیق کے خوبصورت سفر پر گامزن ہے۔کمہار کےہنر مند ہاتھ خیال کو وجود میں ڈھالتے ہیں اور چکنی مٹی کو برتنوں کی شکل میں ڈھالتے ڈھالتے اپنی ساری زندگی اس کام کو دے گزارد دیتے ہیں ۔

    گزرتے وقت کے ساتھ اس کے کام کی اہمیت کم نہیں ہوئی بلکہ اس میں وسعت آئی ہے پہلے صرف نادی، گملے، گڑھے، ہانڈی، گلک اور صراحیاں بنائی جاتی تھی لیکن اب ان تمام چیزوں کے علاوہ گھریلو سجاوٹ کے لئے شو پیس، دلکش گملے اور کھلونےدیگر اشیاء بڑی تعداد میں تیار ہورہی ہیں۔ گرمی کے موسم میں بہت سے گھرانے صراحیوں اور مٹکوں کا شیریں اور ٹھنڈا پانی پی کر گزرے زمانوں کی یاد تازہ کرتے ہیں جس کی وجہ سے کمہاروں کا روزگار بھی لگا رہتا ہے اور اب تومٹی سے برتن بنانے کا کام صنعت کی شکل اختیار کرگیاہے۔

    کراچی کے علاقے نیوکراچی کا رہائشی ناصر اور اس کا خاندان تین نسلوں سے اس پیشے سے منسلک ہیں ‘ بہت ہی انہماک سے چکنی مٹی کے گولے پر کام کرتے ناصر کو دیکھ کر ہی اندازہ ہوجاتا ہے کہ اس کے ذہن میں پیدا ہونے والا خیال ایک مجسم تصویر بننے جارہی ہے۔

    ناصر کا گھر بھی اس کے کارخانے یا کمہار واڑے سے متصل ہے‘ زندگی کے بارے میں بات کرتے ہوئے ناصر کا کہنا ہے کہ یہی کام ہی اس کی زندگی ہےصبح گھر سے کمہار واڑے میں آجاتے اور پھر شام تک کام میں ہی لگے رہتے ہیں ۔ہم لوگ بہت سادہ زندگی گزارتے ہیں ، سارا کام ذہنی اور جسمانی مشقت کا ہے۔ مٹی کے برتن بنانے کے لیے پیروں سے چلنے والا چرخہ استعمال کیا جاتا ہے، ہم اس کام کے دوران کمپیوٹر یا کسی بڑی مشینری کو استعمال نہیں کرتے۔

    ناصر کو حکومت سے شکوہ ہے کہ سرکاری سطح پر اس گھریلو صنعت کو مزید فروغ دینے کے لئے کوئی اقدمات نہیں کئے گئے‘ نہ ہی ان کو کام کو ایک فن سمجھ کر سرکاری سطح پر کبھی کوئی داد و تحسین کی گئی ہے‘ ہنر مند ہاتھوں اور ذہین آنکھوں والے ناصر کا کہنا ہے کہ اگرسستے قرضے ، بجلی اور پانی کی بلا تعطل فراہمی ہوجائے تو اس کے اس کام کو مزید فروغ دینے کے لئے اس کے ذہن میں کئی آئیڈیاز موجود ہیں لیکن پھر ناصر نے خود ہی افسردہ سی مسکراہت کے ساتھ کہا کہ ہمیں ہمارے کام پر کم از کم کوئی واہ واہ ہی کردے تو اچھا لگتا ہے ۔ہمارے کام کے حوالے سے مقابلے ہونے چا ہئے اور حکومتی سطح پر پاکستانی فن کے ان نمونوں کو دیگر ممالک میں نمائش کے لئے پیش کرنا چاہئے۔

    خام مٹی اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کی وجہ سے مٹی کے برتنوں کی قیمت میں بھی نمایاں اضافہ ہوا ہے، کمہاروں نے شکوہ کرتے ہوئے کہاکہ انھیں ان کی محنت کاثمر نہیں ملتا ۔زیادہ تر کمہار مال آرڈر پر صرف تیار کرتے ہیں اور بازار میں خرید و فروخت کرنے والے تاجر ان سے مختلف چیزیں بنوا کر مارکیٹ میں بیچتے ہیں لیکن کمہار کو اس کی محنت کا اتنا صلہ نہیں ملتا جتنا اس ملنا چاہئے مارکیٹ سے تعلق رکھنے والے تاجر کمہاروں سے بہت کم قیمت میں مال خرید کر دگنی قیمت پر بیچ کر زیادہ منافع کماتے ہیں۔

    مٹی کے برتنوں کے لیے زیادہ تر مٹی نوری آباد اور حب کے علاقے سے لائی جاتی ہے ۔گزشتہ چند سال کے دوران مٹی کی قیمت میں نمایاں اضافہ ہوا ہے‘ مٹی سے برتن اور دیگر اشیاءبنانے کے لئے ایک خاص قسم کی مٹی کو رات بھر پانی میں ملا لیا جاتا ہے اور اس کے بعد صبح کے وقت اس کے بڑے بڑے ڈھیر تیار کیے جاتے ہیں۔ ابتدامیں چکنی مٹی کے گولے تیار ہوتے ہیں جس کو برتن کی ابتدائی شکل میں ڈھالا جاتا ہے ‘ اور ان سارے مراحل کے ایک مرحلہ وہ بھی آتا ہے جب مٹی سے بنی سجاوٹ کی اشیاء، کو مزید دلکش بنانے کے لئے نقش و نگار سے مزین بھی کیا جاتا ہے۔ ایسے ہی نقش و نگار کے ماہر ایک کمہار عارف کا کہنا ہے کہ ماضی میں بنائے جانے والی مٹی کی اشیاءسادہ ہوتی تھی لیکن اب چونکے زیادہ تر لوگ مٹی سے بنی ان اشیاء کو گھروں میں شوپیس کے طور پر رکھتے ہیں اس لئے ان برتنوں کو مزید دیدہ زیب بنانے کے لئے ان پر مختلف اقسام کی ڈیزائننگ بھی ضروری ہوگئی ہے۔ مٹی کی اشیاءتیار ہونے میں ایک دن لگتا ہے اور اس کے بعد ان اشیاءکو کم ازکم دو روز دھوپ میں سکھایا جاتا ہے اور آخر میں تین روز انہیں بھٹی میں پکایا جاتا ہے۔

    مٹی کے برتنوں پر نقش و نگار بنانے کے ماہر عارف کا کہنا ہے کہ کمہار کا کام سیکھنے میں کئی برس لگ جاتے ہیں‘ ابتدائی دو سال تو صرف مٹی میں پانی ملا کر اسے تیار کرنا سیکھنا پڑتا ہے پھر ذہن میں پیدا ہوتے خیالوں کو چکنی مٹی میں ڈھالنے کا فن سیکھنا ایک طویل جدوجہد ہے‘ یہ کام سخت ذہنی اور جسمانی مشقت کا متقاضی ہے اس لئے عام طور پر لوگ اس پیشے کی طرف نہیں آتے صرف شوق یا خاندانی طور پر اس کام کو اپنانے والے ہی اس کام کو اپنا تے ہیں۔

    خیال رہے کہ کوزہ گری کا یہ فن کوئی آج یا چند صدی قدیم نہیں بلکہ ہمارے خطے کی قدیم ترین صنعت ہے‘ آج سے پانچ ہزار سال قبل جب دنیا کے دیگر علاقوں میں لوگ ابھی غاروں میں رہ رہے تھے ‘ موہن جو دڑو اور ہڑپہ کے مکین پکی مٹی کے برتن استعمال کیا کرتے تھے اور ان پر ایسے نادر و نایاب رنگوں سے سجاوت کرتے تھے کہ آج پانچ ہزار سال گزرنے کے بعد ‘ جب کہ یہ نوادرات کئی ہزار سال مٹی میں دفن بھی رہے‘ سجاوٹی رنگ پھیکے نہیں پڑے ہیں ۔ آج بھی کراچی سے لے کر ملک کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے میوزیم میں رکھے یہ آثارِ قدیمہ ہمارے پر شکوہ ماضی کی گواہی دیتے ہیں‘ اور ناصر جیسے لوگ اسی شاندار ماضی کے امین ہیں۔

    کراچی میں تیار کیے جانے والے مٹی کے کولر، گملے، مٹکے، آرائشی گلدان وغیرہ ایکسپورٹ بھی کیے جاتے ہیں ‘ اور اکثر اوقات دیگر ممالک سے لوگ آکر یہاں اس فن کی تربیت حاصل کرتے ہیں اور پھر اپنے ملکوں میں واپس جاکر اس سے خطیر رقم کماتے ہیں۔ اگر حکومت اس فن کی سرپرستی بحیثیت ثقافتی ورثے کے کرنا شروع کردے اور باقاعدہ ترقی یافتہ ممالک سے اس سلسلے میں معاہدے کرے تو ہمارے یہ کمہار اور کوزہ گر اپنی اس محنت اور تاریخی امانت کا مناسب صلہ پاسکتے ہیں۔

  • کراچی پولیس نے آٹھ سالہ بچی سے زیادتی کے ملزم کو گرفتارکرلیا

    کراچی پولیس نے آٹھ سالہ بچی سے زیادتی کے ملزم کو گرفتارکرلیا

    کراچی: سندھ پولیس نے زیادتی کیس میں اہم پیش رفت کرتے ہوئے مبینہ مرکزی ملزم سمیت چار افراد کو حراست میں لے لیا ‘ مذکورہ ملزمان کا ڈی این اے ٹیسٹ کرایا جارہا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی کے علاقے لانڈھی ظفر ٹاؤن میں گزشتہ سال 22 دسمبر کو زیادتی کا نشانہ بننے والی آٹھ سالہ کمسن بچی کے کیس میں اہم پیش رفت کرتے ہوئے پولیس نے مرکزی ملزم کی گرفتاری کا دعویٰ کیا ہے۔

    پولیس کا کہنا ہے کہ مبینہ ملزم کو سی سی ٹی وی فوٹیج کی مدد سے گرفتار کیا گیا ہے اور اس کا نادرا سے ڈیٹا حاصل کیا جارہا ہے اور اس کی جیو فینسنگ بھی کرائی جارہی ہے

    یادرہے کہ یہ واقعہ گزشتہ سال 22 دسمبر کو پیش آیا جب مغرب کے وقت بچی گھر سے باہر نکلی اور گیند اٹھانے کچھ آگے گئی تو ایک نامعلوم شخص اسے اغوا کرکے لے گیا۔ کچھ دیر بعد جب بچی روتی ہوئی گھرآئی اور والدین کو سانحے کی اطلاع دی تو انہوں نے فوری طور پر اس کا میڈیکل کرایا اور پولیس کو رپورٹ کیا۔

    متاثرہ بچی کے مطابق اسے اغوا کرنے والا شخص اجنبی تھا اور اس نے سرمئی رنگ کی جیکٹ پہن رکھی تھی‘ مذکورہ درندے نے بچی کے گھر سے کچھ دور ریل کی پٹری پر اسے زیادتی کا نشانہ بنایا۔ میڈیکل رپورٹ نے بھی بچی کے ساتھ زیادتی کی تصدیق کردی ہے۔

    والدین کا کہنا تھا کہ واقعے کی تفتیش میں پولیس نے ان کے ساتھ تعاون نہیں کیا‘ پڑوسی کے گھر پر لگے سی سی ٹی وی کیمرے کی مدد سے اغوا کار کی پہچان کرنے کی جانب متاثرہ بچی کے اہلِ خانہ نے توجہ کرائی تو پولیس نے ڈیٹا حاصل کیا تھا۔

    یاد رہے کہ گزشتہ دنوں قصور میں زینب زیادتی کیس کے بعد پنجاب پولیس کی کارکردگی پر کئی سوالیہ نشان اٹھ کھڑے ہوئے ہیں جو کہ تاحال واقعے میں ملوث ملزمان اور ان کے مبینہ منظم گروہ کو گرفتار کرنے میں ناکام رہی ہے۔

    واضح رہے کہ قصور واقعے نے سب کے دل دہلا دیئے ہیں، کمسن زینب کو چندروز پہلے اغوا کیا گیا تھا، جس کے بعد سفاک درندوں نے بچی کو زیادتی نشانہ بنا کر قتل کردیا تھا، جس کے خلاف ملک بھر میں لوگ سراپا احتجاج ہیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • محنت کش کے بچے پراسرار بیماری کا شکار

    محنت کش کے بچے پراسرار بیماری کا شکار

    کراچی: کشمور سے تعلق رکھنے والے محنت کش کے بچے ایک عجیب و غریب بیماری کا شکار ہیں جنہیں ڈاکٹر فی الحال کوئی نام دینے سے قاصر ہیں۔

    اس دور کے ہر دوسرے شخص کی طرح کشمور سے تعلق رکھنے والے محنت کش دودا خان اور اسکی بیوی سلطانہ کو میڈیا سے ہی امید ہے، وہ سمجھتے ہیں اگر ان کے بچوں کی بیماری کے حوالے سےکوئی نیوزپیکچ بنا دیا جائے تو شاید سرکار حرکت میں آجائے یا پھرمخیر حضرات میں سے کوئی ان بچوں کے علاج کی ذمہ داری اٹھالے۔

    دودا خان اور سلطانہ جب اے آر وائی نیوز کے دفتر پہنچے تو اس وقت 8سالہ امتیاز اور 3 سالہ قاسم بھی ان کے ساتھ تھے ان بچوں کی حالت کافی تکلیف دہ ہے پیدائش کے ایک ماہ بعد سے ہی یہ بچے کئ بیماریوں کا شکار ہیں اور مناسب علاج نہ ہونے کی وجہ سے جسمانی معذوری کا شکار ہورہے ہیں کیونکہ ان بچوں کے ہاتھوں پیروں کے ساتھ ساتھ جسم کے دیگر حصے بھی گزرتے وقت کے ساتھ کام کرنا چھوڑ رہے ہیں۔

    11

    سلطانہ بی بی بھی اپنے بیٹوں کی اس حالت کی وجہ سے ہر وقت دکھ کی کیفیت میں رہتی ہے اس نے روتے ہوئے بتایا کہ جب وہ خاندان میں اپنے بیٹوں کے ہم عمر دوسرے بچوں کو ہنستے کھیلتے اور شرارتیں کرتے ہوئے دیکھتی ہے تو اس کے دل میں بھی حسرت جاگتی ہے کہ کب اس کے بیٹوں کی ہنسی کی آوازیں اس گھر میں گھونجیں گیں جہاں اب صرف ان بچوں کی تکلیف سے کراہنے اور رونے کی آوازیں ہیں۔

    پانچ سو روپے یومیہ کمانے والے دودا خان نے بتایا کہ وہ کرائے کے مکان میں رہتا ہے اور اپنی قلیل آمدنی میں اس کے لئے گھر کی ضرورتیں اور بیمار بچوں کے علاج کا خرچ برداشت کرنے کی سکت نہیں، اس کا کہنا ہے کہ پرائیوٹ اسپتالوں میں علاج کرانے کے لئے درکار رقم اس کے پاس نہیں اور سرکاری اسپتالوں میں علاج نہ ہونے کے برابر ہے۔

    22

    دوداخان کا کہنا تھا کہ ان چند سالوں میں وہ اپنے بچوں کو کئی سرکاری اسپتالوں میں لے جاچکا ہے لیکن اب تک اس کے بچوں کے مرض کی تشخیص نہیں ہوسکی، کچھ ڈاکٹرزاس بیماری کو گردن توڑ بخار، تو کوئی کالا یرقان اور بعض ڈاکٹرز اسے پیلیا کی بگڑی ہوئی شکل قراردیتے ہیں۔

    کشمور کے اس محنت کش کو امید ہے کہ غریب پرور شہر میں اس کے بچوں کے علاج کے لئے کوئی صاحبِ حیثیت شخص آگے آئے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ ہمیں پیسے نہیں چاہیے ہیں، کوئی بھی شخص یا ادارہ ان کے ان بچوں کا مکمل علاج معالجہ کروا کرانہیں اس تکلیف سے نجات دلادے۔