Author: احمد فراز

  • لے اڑا پھر کوئی خیال ہمیں

     لے اڑا پھر کوئی خیال ہمیں
    ساقیا‘ ساقیا سنبھال ہمیں​

    رو رہے ہیں کہ ایک عادت ہے ​
    ورنہ اتنا نہیں ملال ہمیں

    ​اختلافِ جہاں کا رنج نہ تھا
    دے گئے مات ہم خیال ہمیں

    خلوتی ہیں ترے جمال کے ہم
    آئینے کی طرح سنبھال ہمیں

    کیا توقع کریں زمانے سے
    ہو بھی گر جراتِ سوال ہمیں

    ہم یہاں بھی نہیں ہیں خوش لیکن
    اپنی محفل سے مت نکال ہمیں

    ہم ترے دوست ہیں فرازؔ مگر
    اب نہ اور الجھنوں میں ڈال ہمیں

    *********

  • سلسلے توڑ گیا، وہ سبھی جاتے جاتے

    سلسلے توڑ گیا، وہ سبھی جاتے جاتے
    ورنہ اتنے تو مراسم تھے، کہ آتے جاتے​
    شکوۂ ظلمتِ شب سے، تو کہیں‌ بہتر تھا
    اپنے حِصّے کی کوئی شمع جلاتے جاتے​
    کتنا آساں تھا ترے ہجر میں مرنا جاناں
    پھر بھی اک عمر لگی، جان سے جاتے جاتے​
    جشنِ مقتل ہی نہ برپا ہوا، ورنہ ہم بھی
    پابجولاں ہی سہی، ناچتے گاتے جاتے​
    اِس کی وہ جانے اُسے پاسِ وفا تھا کہ نہ تھا
    تم فراز! اپنی طرف سے تو، نبھاتے جاتے​
    *******
  • گفتگو اچھی لگی ذوقِ نظر اچھا لگا

    گفتگو اچھی لگی ذوقِ نظر اچھا لگا
    مدتوں کے بعد کوئی ہمسفر اچھا لگا

    دل کا دکھ جانا تو دل کا مسئلہ ہے پر ہمیں
    اُس کا ہنس دینا ہمارے حال پر اچھا لگا

    ہر طرح کی بے سر و سامانیوں کے باوجود
    آج وہ آیا تو مجھ کو اپنا گھر اچھا لگا

    باغباں گلچیں کو چاہے جو کہے ہم کو تو پھول
    شاخ سے بڑھ کر کفِ دلدار پر اچھا لگا

    کون مقتل میں نہ پہنچا کون ظالم تھا جسے
    تیغِ قاتل سے زیادہ اپنا سر اچھا لگا

    ہم بھی قائل ہیں وفا میں استواری کے مگر
    کوئی پوچھے کون کس کو عمر بھر اچھا لگا

    اپنی اپنی چاہتیں ہیں لوگ اب جو بھی کہیں
    اک پری پیکر کو اک آشفتہ سر اچھا لگا

    میر کے مانند اکثر زیست کرتا تھا فراز
    تھا تو وہ دیوانہ سا شاعر مگر اچھا لگا

    **********

  • قربت بھی نہیں دل سے اتر بھی نہیں جاتا

    قربت بھی نہیں دل سے اتر بھی نہیں جاتا
    وہ شخص کوئی فیصلہ کر بھی نہیں جاتا

    آنکھیں ہیں کہ خالی نہیں رہتی ہیں لہو سے
    اور زخم جدائی ہے کہ بھر بھی نہیں جاتا

    وہ راحت ِجاں ہے مگر اس در بدری میں
    ایسا ہے کہ اب دھیان ادھر بھی نہیں جاتا

    ہم دوہری اذیت کے گرفتار مسافر
    پاؤں بھی ہیں شل شوق سفر بھی نہیں جاتا

    دل کو تری چاہت پہ بھروسہ بھی بہت ہے
    اور تجھ سے بچھڑ جانے کا ڈر بھی نہیں جاتا

    پاگل ہوئے جاتے ہو فرازؔ اس سے ملے کیا
    اتنی سی خوشی سے کوئی مر بھی نہیں جاتا

    *********

  • آنکھ سے دور نہ ہو دل سے اتر جائے گا

    آنکھ سے دور نہ ہو دل سے اتر جائے گا
    وقت کا کیا ہے گزرتا ہے گزر جائے گا

    اتنا مانوس نہ ہو خلوت غم سے اپنی
    تو کبھی خود کو بھی دیکھے گا تو ڈر جائے گا

    ڈوبتے ڈوبتے کشتی کو اچھالا دے دوں
    میں نہیں کوئی تو ساحل پہ اتر جائے گا

    زندگی تیری عطا ہے تو یہ جانے والا
    تیری بخشش تری دہلیز پہ دھر جائے گا

    ضبط لازم ہے مگر دکھ ہے قیامت کا فرازؔ
    ظالم اب کے بھی نہ روئے گا تو مر جائے گا

    *********

  • سراپا عشق ہوں میں اب بکھر جاؤں تو بہتر ہے

    سراپا عشق ہوں میں اب بکھر جاؤں تو بہتر ہے
    جدھر جاتے ہیں یہ بادل ادھر جاؤں تو بہتر ہے

    ٹھہر جاؤں یہ دل کہتا ہے تیرے شہر میں کچھ دن
    مگر حالات کہتے ہیں کہ گھر جاؤں تو بہتر ہے

    دلوں میں فرق آئیں گے تعلق ٹوٹ جائیں گے
    جو دیکھا جو سنا اس سے مکر جاؤں تو بہتر ہے

    یہاں ہے کون میرا جو مجھے سمجھے گا فراز
    میں کوشش کر کے اب خود ہی سنور جاؤں تو بہتر ہے

    *********