Author: عاجز جمالی

  • پاکستان میں کرپٹو کرنسی کی قانونی حیثیت پر رپورٹ طلب

    پاکستان میں کرپٹو کرنسی کی قانونی حیثیت پر رپورٹ طلب

    لاہور : لاہور ہائی کورٹ نے کرپٹو کرنسی کی قانونی حیثیت کے معاملے پر وفاقی حکومت سے رپورٹ طلب کرلی۔

    تفصیلات کے مطابق لاہور ہائیکورٹ میں کرپٹوکرنسی کی قانونی حیثیت کےبارےمیں درخواست پرسماعت ہوئی ، جسٹس جواد حسن نے نجی کیش کمپنی کے متاثرہ شخص اصغر کی درخواست پر سماعت کی۔

    سماعت کے دوران سرکاری وکیل نے بتایا کرپٹو کرنسی کے ذریعے کاروبار کرنے کیلئے سیکیورٹی ایکسچینج کمیشن نے کوئی لائسنس جاری نہیں کیا۔

    جس پر عدالت نے معاشی تجزیہ نگار فیصل قریشی کو عدالتی معاونت کی اجازت دے دی۔

    درخواست گزار نے موقف اختیار کیا کہ کرپٹو کرنسی کے متعلق پاکستان میں کوئی قانون موجود نہیں، بینکنگ کورٹس ایسے کیسز کی سماعت کرتی ہیں تاہم قانون موجود نہ ہونے کی وجہ سے واضح نہیں کہ ایسے کیسز کس عدالت کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں ۔

    عدالت نے کرپٹو کرنسی کے حوالے سے رپورث طب کرتے ہوئے  مزید سماعت 17 دسمبر تک ملتوی کر دی

  • پی پی کا چیئرمین سینیٹ کے لیے اپنا امیدوار لانے پر غور

    پی پی کا چیئرمین سینیٹ کے لیے اپنا امیدوار لانے پر غور

    لاہور: پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت نے اپنا چیئرمین سینیٹ لانے پر غور شروع کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق پیپلزپارٹی کااعلیٰ سطح اجلاس ہوا جس میں سینیٹ چیئرمین کےمعاملے اور سیاسی صورتحال پر تفصیلی غور کیا گیا۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے بعد پیپلزپارٹی چیئرمین سینیٹ کے لیے پیپلزپارٹی اپنا امیدوار میدان میں اتارے گی۔

    ذرائع کے مطابق سابق چیئرمین سینیٹ رضا ربانی، سلیم مانڈوی والا، رحمان ملک کے ناموں کی حتمی منظوری دی گئی، اس حوالے سے مسلم لیگ ن سمیت دیگر اتحادیوں کو اعتماد میں بھی لیا جائے گا۔ ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ رضا ربانی کے نام پر مسلم لیگ ن سمیت کسی بھی جماعت کو کوئی اختلاف نہیں ہے۔

    واضح رہے کہ گزشتہ دنوں جمعیت علماء اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد کیا تھا جس میں اپوزیشن کی تمام جماعتوں نے مختلف امور پر متفقہ فیصلہ کیا تھا، اسی اجلاس میں چیئرمین سینیٹ کو ہٹانے کا فیصلہ بھی کیا تھا۔

    مزید پڑھیں: چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کو ہٹانے کے معاملے پر اپوزیشن خدشات کا شکار

    متحدہ اپوزیشن نے اس ضمن میں ایک ’’رہبر‘‘ نامی کمیٹی بھی تشکیل دی گئی ہے جو چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد پر جماعتوں سے حمایت مانگے گی۔ دوسری جانب معاونِ خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان اور وفاقی وزیر برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چوہدری کا دعویٰ ہے کہ اپوزیشن کی تمام جماعتیں بجٹ کی طرح چیئرمین سینیٹ کے خلاف ناکام ہوں گی۔

    یاد رہے کہ گزشتہ برس چیئرمین سینیٹ کے انتخابات کے وقت مسلم لیگ ن نے رضا ربانی کے نام پر اتفاق کیا تھا البتہ پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر نے فیصلے کی مخالفت کرتے ہوئے صادق سنجرانی کی حمایت کا اعلان کیا تھا۔

    خیال رہے کہ 12 مارچ کو ایوانِ بالا کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کی نامزدگی کے  لیے آئینی طریقہ کار کے تحت ووٹنگ کا انعقاد کیا گیا تھاجس میں 103 سینیٹرز نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔ سینیٹ انتخابات میں متحدہ اپوزیشن کے امیدوار میر صادق سنجرانی 57 ووٹ لے کر چیئرمین اور سلیم مانڈوی والا 54 ووٹ لے کر ڈپٹی چیئرمین منتخب ہوئے تھے۔

    حکومتی جماعت اور اُس کے اتحادی اراکین نے چیئرمین سینیٹ کے لیے منعقد ہونے والے انتخابات کو سازش اور جمہوریت کے ساتھ سازش قرار دیا تھا، مسلم لیگ ن کے وفاقی وزراء اور پارٹی رہنماؤں نے نتائج سامنے آنے کے بعد مشترکہ اپوزیشن اور اُن کے امیدواران پر الزامات عائد کیے جبکہ حکومتی جماعت کی جانب سے نامزد کردہ امیدوار راجہ ظفر الحق نے شکست کے بعد نومنتخب چیئرمین کو مبارک باد پیش کی تھی۔

    صادق سنجرانی کون ہیں؟

    میر صادق سنجرانی کا تعلق بلوچستان کے ضلع چاغی کے علاقے نوکنڈی سے ہے، ان کے والد خان محمد آصف سنجرانی کا شمار قبائلی رہنما میں ہوتا ہے اور وہ ان دنوں ضلع کونسل چاغی کے رکن ہیں۔

    میرصادق سنجرانی 14اپریل 1978 کوبلوچستان کے ضلع چاغی کے علاقے نوکنڈی میں پیدا ہوئے، انہوں نے ابتدائی تعلیم نوکنڈی میں حاصل کی، بعد ازاں انہوں نے بلوچستان یونیورسٹی سے ایم اے کیا۔

    یہ بھی پڑھیں: آصف زرداری سے تحریک عدم اعتماد سے متعلق کوئی بات نہیں ہوئی، صادق سنجرانی

    میرصادق سنجرانی پانچ بھائیوں میں سب سے بڑے ہیں، ان کے ایک بھائی اعجاز سنجرانی ہیں جو نواب ثنا اللہ زہری کے دور حکومت میں محکمہ ریونیو کے مشیر بنے، حکومت کی تبدیلی کے باوجود وزیر اعلیٰ عبدالقدوس بزنجو نے انہیں اس عہدے پر برقرار رکھا۔

    اس کے علاوہ میر صادق سنجرانی کے ایک بھائی محمد رازق سنجرانی سینڈک پروجیکٹ کے ایم ڈی رہے ہیں، میر صادق سنجرانی 1998 میں سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کے کوآڈینیٹر رہ چکے ہیں۔

    دریں اثناء سال 2008میں جب یوسف رضا گیلانی وزیراعظم پاکستان بنے تو ان کی جانب سے قائم کئے گئے شکایات سیل کا سربراہ میر صادق سنجرانی کو بنایا گیا تھا اور وہ پانچ سال تک اس سیل کے سربراہ رہے۔

    میر صادق سنجرانی کا نام بطور امیدوار چیئرمین سینیٹ وزیراعلٰی بلوچستان نے دیا تھا جس پر پیپلزپارٹی، تحریک انصاف اور متحدہ قومی موومنٹ نے ان کی حمایت کا اعلان کیا۔

  • کراچی: گرین لائن منصوبہ تاخیر کا شکار، شہری 3 سال سے منصوبے کی تکمیل کے منتظر

    کراچی: گرین لائن منصوبہ تاخیر کا شکار، شہری 3 سال سے منصوبے کی تکمیل کے منتظر

    کراچی: شہرِ قائد میں ٹرانسپورٹ کے دیرینہ مسئلے کے حل کے لیے لایا جانا والا گرین لائن بس منصوبہ تین سال بعد بھی تاخیر کا شکار ہے، شہری تا حال منصوبے کی تکمیل کے منتظر ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی کا گرین لائن بس پروجیکٹ تا حال تاخیر کا شکار ہے، شہری تین سال سے منصوبے کی تکمیل کے منتظر ہیں۔

    وفاق اور سندھ میں اختلافات کے بعد وفاق نے یہ منصوبہ اپنے کنٹرول میں لے لیا ہے، بسوں کی خریداری کے لیے نئے بجٹ میں ڈھائی ارب روپے بھی مختص کر دیے گئے ہیں۔

    نمایش چورنگی پر زیر تعمیر انڈر پاس اور بس ڈیپو کی وجہ سے ایم اے جناح روڈ عرصہ دراز سے بند پڑا ہوا ہے، گرین لائن منصوبے کے پہلے مرحلے میں سرجانی ٹاؤن سے گرو مندر تک مکمل ہونا تھا۔

    یہ بھی پڑھیں:  گرین لائن منصوبہ، گورنر سندھ کی کراچی کے لیے بڑی خوشخبری

    24 ارب روپے کی لاگت سے کراچی انفرا اسٹرکچر ڈیولپمنٹ کمپنی نے یہ منصوبہ جب شروع کیا تھا تو سندھ حکومت بھی شراکت دار تھی، لیکن پھر یہ وفاق اور صوبے کے درمیان الزامات کی نذر ہو گیا۔

    یہ منصوبہ اب وفاقی حکومت نے مکمل طور پر اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے، نئے مالی سال کے بجٹ میں اس کے لیے ڈھائی ارب روپے بھی مختص کر دیے ہیں، جب کہ حکومتِ سندھ ایم اے جناح روڈ پر دو انڈر پاسز بنوانے کا مطالبہ کر رہی ہے۔

    22 کلومیٹر پر مشتمل گرین لائن بس منصوبے کے ٹریک پر 22 اسٹیشن تھے لیکن یہ اسٹیشنز ابھی تک مکمل نہیں کیے گئے ہیں اور تعمیراتی کام تا حال جاری ہے۔

  • کراچی، عرب شہزادے شکار کرکے چلے گئے، فیس ادا نہیں کی، 13 لاکھ ڈالر واجب الادا

    کراچی، عرب شہزادے شکار کرکے چلے گئے، فیس ادا نہیں کی، 13 لاکھ ڈالر واجب الادا

    کراچی: سندھ میں شکار کے لیے آنے والے عرب شہزادے بغیر فیس ادا کیے روانہ ہوگئے، محکمہ جنگلی حیات کے 13 لاکھ ڈالر واجب الادا ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق عرب شہزادے شکار کرکے چلے گئے اور فیس ادا نہیں کی، عرب شہزادوں پر محکمہ جنگلی حیات کے 13 لاکھ ڈالر واجب الادا ہیں، سندھ حکومت نے فیس کی ادائیگی کے لیے وزارت خارجہ سے رابطے کا فیصلہ کرلیا ہے۔

    نمائندہ اے آر وائی نیوز عاجز جمالی کے مطابق وفاقی حکومت نے پہلی بار عرب شہزادوں پر ایک لاکھ ڈالر فیس مقرر کی تھی، سندھ میں 13 عرب شہزادوں نے شکار کے لیے لائسنس لیے تھے۔

    دبئی، متحدہ عرب امارات، قطر اور بحرین کے شہزادے شکار کرنے آئے تھے، بعض عرب شہزادے ابھی بھی جام شورو اور تھرپارکر میں موجود ہیں۔

    کنزرویٹر وائلڈ لائف تاج محمد شیخ کے مطابق وفاقی حکومت کی ہدایت پر لائسنس فراہم کیے گئے تھے، فیس کی ادائیگی کے لیے سفارت خانوں کو خط لکھیں گے۔

    تاج محمد نے کہا کہ عرب شہزادے دسمبر میں شکار کرنے آئے تھے، شکار کا سیزن نومبر سے جنوری تک ہے، لائسنس فیس کی رقم مذکورہ علاقوں کی ترقی پر خرچ کی جائے گی۔

    محکمہ جنگلی حیات نے صوبائی حکومت کو صورت حال سے آگاہ کردیا ہے جبکہ سندھ حکومت نے فیس کی ادائیگی کے لیے وزارت خارجہ سے رابطہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

  • شنگھائی: پاکستانی شہری ہارٹ اٹیک کے باعث جاں بحق

    شنگھائی: پاکستانی شہری ہارٹ اٹیک کے باعث جاں بحق

    بیجنگ : شنگھائی کے بین الااقوامی ہوائی اڈے پر دل کا دورہ پڑنے کا پاکستانی شہری دوران علاج اسپتال میں انتقال کرگیا.

    تفصیلات کے مطابق چین کے شہر شنگھائی کے بین الااقوامی ہوائی اڈے پر پاکستان سے چین جانے والے شہری کو اچانک دل کا دورہ پڑگیا، جسے طبی خدمات انجام دینے والے عملے سے فوری طور پر اسپتال منتقل کردیا تھا.

    چین کے ٹانگ رین اسپتال کے ترجمان کا کہنا ہے کہ دل کا دورہ پڑنے کے باعث اسپتال منتقل کیا جانے والا پاکستانی دوران علاج دم توڑ گیا ہے.

    شنگھائی کے ٹانگ رین اسپتال ترجمان کا کہنا تھا کہ متاثرہ شخص‌ کو انتہائی تشویش ناک حالت میں اسپتال منتقل کیا گیا.

    شنگھائی میں موجود پاکستانی سفارت خانے کے حکام پاکستانی شہری کو ہارٹ اٹیک آنے کی اطلاع ملتے ہی اسپتال پہنچ گئے تھے، جہاں انہوں نے شہری کے انتقال کی تصدیق کردی۔

    چین کے ہوائی اڈے پر دل کا دورہ پڑنے والے مریض کی شناخت احمد مقصود کے نام سے ہوئی ہے جو لاہور کا رہائشی ہے.

    چینی حکام کا کہنا ہے کہ پاکستانی سفارت خانے کو آگاہ کردیا گیا ہے کہ احمد مقصود اکیلے چین آئے تھے، جنہیں دورہ پڑنے کے باعث نازک حالت میں اسپتال منتقل کیا تھا.


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں۔

  • گاجی شاہ: کلہوڑا حکمرانوں کے جرنیل کے مزار پر جنوں کا میلہ

    گاجی شاہ: کلہوڑا حکمرانوں کے جرنیل کے مزار پر جنوں کا میلہ

    رباب کی موسیقی پر اپنے آنچل کو جھٹکا دیتے ہوئے زور زور سے دھمال کرتے ہوئے بلوچی لباس میں وہ لڑکی زور زور سے بولنے لگتی ہے ’اللہ تو ہار اللہ تو ہار‘ اور پھر چاروں اطراف سے کھڑے مرد عورتیں یک آواز اللہ توہار کی گونج میں گم ہوجاتے ہیں۔ (سندھی لفظ اللہ تو ہار کا مطلب ہے اللہ تمہارے سہارے ہے)۔

    یہ منظر پہاڑ کی چوٹی پر قائم مزار کا ہے جہاں پر ہر سو ایسے مناظر ملیں گے۔ دور دراز علاقوں سے آنے والی خواتین دھمال کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ ان خواتین کے ساتھ ان کے رشتے داربھی ہوتے ہیں جو بتاتے ہیں کہ دھمال کرنے والی خاتون کو جن دھمال کرواتا ہے کیونکہ اس کا جسم جن کے قبضے میں ہے۔

    گنج بخش عرف گاجی شاہ کے مزار پر 3 دن کے میلے کے دوران اس طرح کے ہزاروں لوگ ہر سال آتے ہیں اور وہ ہی لوگ ہر سال اسی مزار پر اس ہی دن آکر دھمال کرتے ہیں۔ ہر سال آنے کا وعدہ ان سے گاجی شاہ کے گدی نشین لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آئندہ سال دھمال کرنے نہیں آؤگی تو فقیر (جن) تمہاری گردن توڑ دے گا، اور پھر مزار پر ایک بار دھمال کرنے والے کو ہر سال آنا پڑتا ہے۔

    گاجی شاہ کے میلے پر سندھ، بلوچستان اور پنجاب کے سرائیکی علاقے سے بڑی تعداد میں بلوچ قبائل سے تعلق رکھنے والی وہ خواتین پہنچتی ہیں جو عام طور پر گھروں سے نکلنے کا تصور بھی نہیں کر سکتیں۔ گاجی شاہ کے میلے پر ان خواتین کے ساتھ ان کے مرد اور دیگر مرد بھی تین دن تک یہاں سخت سردی میں ٹہرتے ہیں۔ جنوں کے قبضے میں صرف خواتین کی ہی نہیں مردوں کی جان بھی ہوتی ہے اور مرد بھی دھمال کرتے ہیں۔

    کراچی سے 300 کلو میٹر کے فاصلے پر ضلع دادو کے پہاڑی خطے میں کیرتھر کے پہاڑی سلسلے کی گود میں واقع ٹنڈو رحیم سے تین چار کلومیٹر کے فاصلے پر گاجی شاہ کا مزار ہے اور گاجی شاہ کو ان کی وصیت کے مطابق پہاڑی کی چوٹی پر دفن کیا گیا تھا۔

    راوی بتاتے ہیں کہ گاجی شاہ نے وصیت کی تھی کہ ان کی لاش کو ان کی اونٹنی پر رکھ کر اونٹنی کو چھوڑدیا جائے، جہاں اونٹنی بیٹھ جائے وہاں تدفین کروائی جائے۔ روایت یہ ہے کہ اونٹنی پہاڑ کی چوٹی پر بیٹھ گئی جہاں پر اب گاجی شاہ کا مزار ہے۔

    سہ روزہ میلہ مقامی افراد کے لیے تفریحی سامان بھی میسر کرتا ہے۔ ارد گرد کے دیہات اور چھوٹے شہروں سے ہزاروں افراد میلہ گھومنے کے لیے آتے ہیں۔ بچے، بزرگ، نوجوان ہر عمر کے لوگ یہاں آتے ہیں، منتیں مانگنے اور دھمال کرنے والوں کے مقابلے میں تفریح کے لیے آنے والے افراد کی تعداد زیادہ ہوتی ہے۔

    بارہ فروری سے تین روزہ میلہ جاری ہے، ان تین دنوں کے دوران عارضی بازار لگتے ہیں، ہوٹل کھولے جاتے ہیں، ایک ٹینٹ سٹی بن جاتا ہے اور میلے پر آنے والے لوگوں کی بڑی تعداد اس چشمے کو بھی دیکھنے ضرور جاتی ہے جو پہاڑوں کی وسط سے بڑے طمطراق کے ساتھ برق رفتاری سے پانی پھینکتا ہوا گاجی شاہ کے مزار کے سامنے سے بہتا ہے۔

    موسیقی پر گردن ہلا کر زور زور سے دھمال کرنے کی وجہ کیا ہو سکتی ہے؟ رباب، الغوزہ، اور سرندہ کی موسیقی پر مست ہوجانے کا جواز ان لوگوں کے سامنے بیشک جنوں کی کہانی ہو لیکن نفسیاتی ماہرین اس عمل کو نفسیاتی بیماری تصور کرتے ہیں۔

    نفسیاتی ماہرین ہسٹریا اور دیگر بیماریوں کا ذکر کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ اس طرح کی دیگر بیماریوں کے شکار لوگ موسیقی پر دھمال کرنے کے بعد خود کو پرسکون محسوس کرتے ہیں اور ایسا تصور کرنے لگتے ہیں کہ اب ان کی بیماری ختم ہوگئی یا ان کی نظر میں اب آسیب یا جن بھاگ گئے، لیکن ضروری نہیں کہ اس طرح کے عمل میں شامل تمام لوگ نفسیاتی مریض بھی ہوں البتہ دھمال کرنے والوں کچھی تعداد ایسی ہوتی ہے۔

    اب سوال یہ کہ آخر گاجی شاہ کون ہیں؟ اور ہزاروں جن ان کے مزار پر کہاں آتے ہیں؟ گنج بخش یا گاجی شاہ سولہویں صدی کا فوجی کمانڈرتھا جنہوں نے سندھ میں کلہوڑا راج سے قبل مقامی افراد کی مزاحمتی تحاریک کو کمانڈ کیا تھا۔

    سولہویں صدی کی یہ تحاریک مغل بادشاہوں کی سلطنت کے خلاف شروع ہوئیں جس میں میاں وال تحریک نے اہم کردار ادا کیا تھا جس کے بعد مغل بادشاہوں نے سندھ کی حکمرانی مقامی کلہوڑا حکمرانو ں کے حوالے کی تھی۔

    میاں نصیر محمد کلہوڑو کی قیادت میں پہلی لڑائی لڑی گئی تھی جس میں گاجی شاہ نے خدا آباد سے لے دادو ضلع کے پورے پہاڑی خطے میں میاں وال تحریک کی قیادت کی تھی۔ 1696 عیسوی میں میاں نصیر محمد، کلہوڑا دور کا پہلا حکمران بنا۔ اس کے بعد میاں یار محمد کلہوڑو، میاں غلام شاہ اور میاں نور محمد حکمران بنے۔

    تقریباً ایک صدی پر مشتمل کلہوڑا راج کا 1783 عیسوی میں خاتمہ ہوا تھا۔ اس کے بعد نہ صرف کلہوڑا حکمرانوں اور ان کے خلیفوں اور ساتھیوں کے مقبرے بنے، گاجی شاہ کا مقبرہ بھی اسی دور کی علامت ہے لیکن عقیدت مندوں نے گاجی شاہ کو ایک جرنیل اور نڈر کمانڈر سے جنوں کا پیر بنا دیا ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • پیپلز پارٹی سینٹ میں پہلی ہندو خاتون کو منتخب کرانے کے لیے متحرک

    پیپلز پارٹی سینٹ میں پہلی ہندو خاتون کو منتخب کرانے کے لیے متحرک

    کراچی: پیپلزپارٹی نے تھر کی ہندو خاتون کو سینیٹ کا ٹکٹ الاٹ کردیا، کرشنا کئی برس سے تھر کی خواتین کے حقوق کیلئے کام کر رہی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق پیپلزپارٹی نے تھر کی نچلی ذات کی خاتون کو سینیٹ کا ٹکٹ الاٹ کردیا، کرشنا کولھی آج کاغذات نامزدگی جمع کرائے گی، پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کرشنا کولھی کو ٹکٹ جاری کیا۔

    کرشنا کا تعلق برطانوی سامراج کیخلاف لڑنے والے روپلو کولھی  خاندان سے ہے اور کولھی قبیلے کے ایک غریب خاندان میں فروری 1979 میں پیدا ہوئیں، وہ اور انکے اہلخانہ تین سال تک وڈیرے کی نجی جیل میں قید رہے ، نجی جیل سے رہائی پانے کے بعد تھر کی عورت کیلئے جدوجہد شروع کی تھی۔

    کرشنا کی 16 سال کی عمر میں لال چند سے شادی ہوگئی تھی، شادی کے وقت وہ نویں جماعت کی طالبہ تھیں تاہم ان کے شوہر نے انہیں تعلیم حاصل کرنے میں مدد کی اورکرشنا نے  2013 میں سوشیالوجی میں سندھ یونیورسٹی سے ماسٹر کی ڈگری حاصل کی۔

    ننگرپارکر کی انتیس سالہ کرشنا سماجی کارکن ہے، اور کئی برس سے تھر کی خواتین کے حقوق کیلئے کام کر رہی ہے۔

    اگر کرشنا کماری نگراں ضلع سے انتخاب جیت لیتی ہیں تو مسلم اکثریت پاکستان میں سینیٹر بننے والی پہلی ہندو خاتون ہوگی۔

    خیال رہے یہ پہلا موقع ہیں جب کسی پارٹی نے سینیٹ سیٹ کیلئے ہندو خاتون کا انتخاب کیا ہو۔

    واضح رہے پیپلز پارٹی اس سے قبل بھی پاکستان کوکئی خواتین لیڈر فراہم کر چکی ہے، جن میں  بینظیر بھٹو، پہلی خاتون وزیراعظم، فہمیدہ مرزا نیشنل اسمبلی کے پہلے خاتون اسپیکر، حنا ربانی کھر پہلی خاتون خارجہ وزیر شامل ہیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں۔

  • مکلی کانفرنس – عالمی ورثے کی حفاظت کس کی ذمہ داری ہے؟

    مکلی کانفرنس – عالمی ورثے کی حفاظت کس کی ذمہ داری ہے؟

    یہ کسی جنگی میدان کا منظر تو نہیں لیکن جنگوں میں مارے جانے والے لاکھوں افراد کی قبروں پر مشتمل مکلی کا تاریخی ورثہ ہے،جو عالمی ورثے کی فہرست سے نکلتے نکلتے دوبارہ شامل ہوگیاہے۔گذشتہ ماہ سندھ کے وزیر ثقافت سردار شاہ نے جب یونیسکو کے تحت منعقدہ عالمی کنونشن کو جب یقین دلایا تھا کہ سندھ حکومت مکلی کے آثار قدیمہ کی حفاظت کے لے تمام تر اقدامات کرے گی۔عالمی برادری کو یقین دلانے کے لیے یہ ضروری تھا کہ مکلی کے ورثے کا مشاہدہ کیا جائے۔

    اسی سلسلے میں ایک عالمی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا اور سندھ کے محکمہ ثقافت کی جانب سے دو روزہ عالمی مکلی کانفرنس تو اختتام پذیر ہوچکی‘ کانفرنس میں غیر ملکی مندوبین نے شرکت بھی کی لیکن یہ کانفرنس اپنے پیچھے کچھ سوال بھی چھوڑ گئی ہے جن کے جوابات بہرحال سندھ حکومت کے پاس ہی ہیں۔سندھ کے سابقہ دارالخلافہ ٹھٹھہ کی پہاڑیوں پر موجود مکلی کا شہر خموشاں سندھ میں پندرہویں اور سولہویں صدی کی بادشاہتوں کے زندہ نقوش پر مشتمل ہے اور فن خطاطی سے تاریخی مقبروں پر نقش تاریخ کو پڑھنے کی کوشش کی جائےتو بادشاہوں اور حکمرانوں کے ساتھ ساتھ درویشوں،صوفیا،محب وطن سپاہیوں اور تاریخ کے غداروں کی قبریں بھی یہاں پر موجود ہیں جہاں حملہ آوروں کے نقش موجود ہیں وہاں پر مزاحمت کاروں اور سندھ کے وطن دوست حکمراں جام نظام الدین سموں کا بھی عالیشان مقبرہ موجود ہے۔سندھ پر حکمرانی کرنے والے ترخان، ارغون، مغل اور سماں حکمرانوں کے مختلف ادوار میں لگنے والی جنگوں میں مارے جانے والے لاکھوں گمنام سپاہیوں کی قبروں کی تاریخ منہدم تو نہیں گمنام ضرور ہے۔

    پہلی عالمی کانفرنس کا آغاز ہی ڈھول اور شہنائی پر رقص کرنے والے فنکاروں کے استقبال سے ہوا۔ کانفرنس کا افتتاح وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کیا۔وزیر ثقافت سندھ سردار شاہ کے علاوہ سینٹر سسی پلیجو،صوبائی وزیر محمد علی ملکانی،حمید آخوند نے ابتداعی سیشن سے خطاب کیا۔ عالمی کانفرنس برطانیہ،امریکہ،جرمنی۔فرانس،اور دیگر ممالک کے ماہرین نے اپنے تحقیقی مقالہ جات کے ذریعے حکومت سندھ کو اپنی سفارشات سے آگاہ کیا وہیں مقامی ماہرین نے بھی مکلی کی حفاظت اور تاریخ کے حوالے سے اہم نقاط اٹھائے۔

    وزیر ثقافت نے خود ہی بتا دیا کہ مکلی کے سولہ ایکڑ پر پھیلے ہوئے رقبے کے اندر مختلف سرکاری دفاتر اور با اثر لوگوں کے گھر تعمیرہو ئے جن کو منتقل کرنے کے لیے ان افراد کو متبادل جگہ فراہم کی جائے گی۔سردار شاہ نے اپنے خطاب میں کہا کہ وہ مکلی کو طویل ترین دیوار سے محفوظ کرنا چاہتے ہیں اور مکلی میوزیم قائم کرنا چاہتے ہیں۔وزیر اعلی سندھ مراد علی شاہ کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت کانفرنس کی تمام تر سفارشات پر عمل کرے گی اور سندھ کابینہ سے ان کی منظوری لی جائے گی۔

    عالمی کانفرنس سے انڈیانا یونیورسٹی کی ڈاکٹر مارگریٹ ایس گریوز، برطانیہ کے اسکالر ڈاکٹر رتھ یونگ،پیرس کے ماہر آثارقدیمہ تھامس لورین، سمیت ۲۲ ماہرین نے اپنے مقالاجات اور ریسرچ پیپرز پڑھے۔ عالمی ماہرین نے مکلی کو عالمی ورثہ کی حیثیت کو تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ سندھ میں لگنے والی جنگوں،حملوں اور بادشاہوں کی طرز حکمرانی پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔

    کانفرنس کے دوران مکلی پر سووینئر شاپ قائم کردی گئی اور سیاحوں کے لئے شٹل سروس بھی شروع کردی گئی،لیکن یہ محض ابتدا ہے ۔پانچ سو سالہ تاریخ و تہذیب کی حفاظت کے لئے سندھ حکومت کو لاتعداد چیلنجوں کا سامنا ہے۔ڈاکٹر رفیق مغل،حمید آخوند،کراچی آرٹس کونسل کے صدر احمد شاہ،یاسمین لاری،علی جبران صدیقی،فاطمہ قریشی،داکٹر ولید زید،غلام محمد لاکھو،عبدالعلیم لاشاری،محمد شاہ بخاری،ڈاکٹر حمیرہ ناز اور دیگر نے کانفرنس کو اپنی اپنی تجاویز سے آگاہ کیا۔

    کانفرنس کے دوران سماں حکمران جام تماچی اور غریب مچحیرن نوری کی عشقیہ داستان پر مشتمل ڈرامہ نوری جام تماچی بھی پیش کیا گیا اور دوسرے دن سندھ کے صوفیانہ فنکاروں نے صوفیانہ کلام گایا۔مکلی سندھ کی تاریخ اور تہذیب کے ساتھ پانچ سو سالہ طرز حکمرانی اور سیاسی نشیب و فراز کی روداد بھی ہےاور ایک اہم عالمی عالمی ورثہ بھی‘ جس کی حفاظت حکومت سمیت ہم سب پر فرض ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • غیرت کے نام پر قتل کے خلاف قانون سازی کر رہے ہیں:‌ارم خالد

    غیرت کے نام پر قتل کے خلاف قانون سازی کر رہے ہیں:‌ارم خالد

    کراچی: سندھ اسمبلی میں خواتین پر تشدد کی روک تھام کے حوالے سے دن منایا گیا‘ اس موقع پر رکن سندھ اسمبلی ارم خالد کا کہنا تھا کہ غیرت کے نام پر قتل کے خلاف قانون سازی کر رہے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق سندھ اسمبلی میں آج خواتین پر تشدد کی روک تھا م کا حوالے سے خصوصی دن منایا گیا اور اس سلسلے میں خصوصی تقریب منعقد کی گئی‘ تقریب سےوزیر اعلیٰ سندھ کی معاون خصوصی برائے ترقی نسواں ارم خالد ‘ جسٹس (ر) ماجدہ رضوی ‘ سیکرٹری ویمن ڈولپمنٹ ہارون احمدخان ‘ سائرہ شہلیانی‘ مسرت جبیں ‘ ایس ایچ او شبانہ‘ نزہت شیریں اور دیگر نے خطاب کیا۔

    اس حوالے سے وزیر اعلیٰ سندھ کی معاون خصوصی برائے ترقی نسواں ارم خالد نے سندھ اسمبلی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ غیرت کے نا م پر قتل کی روک تھام کے لیے قانون سازی کررہے ہیں‘ قانون کا ڈرافٹ زیرِ غور ہے۔

    انہوں نے کہا کہ سندھ میں پہلی بار یہ دن منایا جارہا ہے‘ صوبے میں خواتین کے حقوق کے لیے بہت سے قوانین بنائے جاچکے ہیں اور سندھ حکومت خواتین پر تشدد کے واقعات کو روکنے کے لئے سنجیدہ کوشش کر رہی ہے۔

    رکن صوبائی اسمبلی کا کہنا تھاکہ سندھ اسمبلی میں اورنج لائیٹس کے تلے خواتین پر تشدد کی روک تھام کا دن منا کر عالمی برادری کی جانب سے خواتین کی حفاظت کے لیے کی جانے والی کاوشوں کا خیر مقدم اور ان کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کیا گیا ہے۔

    کوہستانی جرگے کے حکم پرکراچی میں دوہرے قتل کی واردات*

     ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس سے قبل اس نوعیت کے واقعات رپورٹ نہیں کیےجاتے تھے لیکن اب صورتحال تبدیل ہوچکی ہے ‘ لوگوں میں شعور بڑھ رہا ہے اور اس حوالے سے فراہم کی جانے والی آگہی کے سبب واقعات رپورٹ ہورہے ہیں ‘ جن سے اس نوعیت کے مسائل پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔

    یاد رہے کہ دو دن قبل کراچی میں غیرت کے نام پر قتل کا واقعہ رپورٹ ہوا تھا کہ جس میں کوہستان کے قبائلی جرگے کے فیصلے پر شوہر اور بیوی کو قتل کرکے خاموشی سے دفن کردیا گیا تھا۔ پولیس نے قاتلوں کا سراغ ڈھونڈ نکالا اور انہیں گرفتار بھی کرلیا تھا۔

    اس خبر پر نوٹس لیتے ہوئے وزیراعلیٰ سندھ نے اظہارِ برہمی کرتے ہوئے متعلقہ افسران کو واقعے میں ملوث کرداروں کو کیفرِ کردا رتک پہنچانے کا حکم دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ کراچی ہے یہاں کس طرح جرگہ منعقد ہوا اور اس کے فیصلے پر دو قتل بھی ہوگئے‘ قانون کو فوری حرکت میں لایا جائے اور ذمہ داروں کو قرار واقعی سزا دی جائے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • نبیل گبول چھوٹا کھلاڑی نہیں

    نبیل گبول چھوٹا کھلاڑی نہیں

    سردار اللہ بخش گبول کراچی کی سیاسی تاریخ کے الگ تھلگ سیاسی رہنما تھے، انگریز سرکار سے خان بہادر کا لقب پانے والے سردار اللہ بخش گبول سندھ کی ممبئی سے علیحدگی کے بعد تحریک پاکستان کے اہم رہنماء سر عبداللہ ہارون کو ۱۹۳۷ میں شکست دے کر کراچی سے رکن سندھ اسمبلی بنے اور سندھ اسمبلی کے پہلے ڈپٹی اسپیکر منتخب ہوئے۔

    خان بہادر اللہ بخش گبول کراچی کی قد آور سیاسی شخصیت سمجھے جاتے تھے تاہم وقت کو مدنظر رکھتے ہوئے وہ بھی تحریک پاکستان کا حصہ بنے، اللہ بخش گبول دو بار کراچی کے میئر بھی رہ چکے ہیں اور اُن کے پوتے سردار نبیل گبول کراچی کے بلوچ علاقوں لیاری اورملیر میں مقبول سیاسی رہنما تصور کیے جاتے ہیں۔

    لیاری سے کئی بار رکن سندھ اسمبلی اور ممبر قومی اسمبلی منتخب ہونے والے نبیل گبول نے پیپلز پارٹی کی سابقہ وفاقی حکومت کے خلاف اس وقت آواز بلند کی کہ جب رحمان بلوچ یا رحمان ڈکیت کو ایس ایس پی چوہدری اسلم نے ایک نام نہاد پولیس مقابلے میں قتل کرنے کا دعویٰ کیا۔

    nabil-gabol-7

    رحمان بلوچ جو کہ ایک زمانے میں لیاری کا بادشاہ ہوا کرتا تھا اور لیاری جو نبیل گبول کا حلقہ تھا تاہم رحمان کے قتل کے بعد حالات نے خلاف توقع کروٹ لی اور نبیل کا حلقہ انہی کے لیے نو گو ایریا بن گیا۔ ان حالات کا فائدہ اٹھاتے ہوئےنادیہ گبول نے متحدہ کو خیبر باد کہہ کر پیپلزپارٹی میں شمولیت کی اور لیاری میں پی پی کی راہیں ہموار کرنے میں مدد فراہم کی۔

    نادیہ گبول کی پی پی میں شمولیت کے بعد نبیل گبول کو پیپلزپارٹی سے راہ فرار اختیار کرتے ہوئے متحدہ قومی موومنٹ میں شمولیت اختیار کرنی پڑی، پارٹی بدلنے کے بعد 2013 کے انتخابات میں متحدہ نے مضبوط ترین حلقے این اے 246 سے نبیل گبول کو نشست تحفے میں دی تاہم یہ حلقہ رکن اسمبلی کے لیے اچھا ثابت نہیں ہوا اور عوامی شکایات کو مدنظر رکھتے ہوئے بانی ایم کیو ایم نے رابطہ کمیٹی کو نبیل گبول سے استعفیٰ لینے یا کام کرنے کی ہدایت کی جس کے بعد حالات نے ایک بار پھر کروٹ لی۔ طیارہ اڑانے والے پائلٹ نبیل گبول طوفانوں کے رخ مڑنے سے ہمیشہ باخبر رہتے ہیں تو مناسب وقت آنے پر ایم کیو ایم کو بھی خیر باد کہہ کر نشست سے استعفیٰ دیا اور بھائی کو خیرباد کہہ دیا۔

    nabil-gabol-1

    گزشتہ ڈیڑھ سال سے سردار گبول کے بارے میں سیاسی سٹے بازی کے عالم میں کئی تکے لگتے رہے، کبھی سنا کہ نبیل گبول عمران خان سے ملنے جا رہے تو کبھی پتا چلا نواز شریف کے رابطے میں ہیں مگر نبیل گبول چھوٹا کھلاڑی نہیں، وہ سب سے بڑے کھلاڑی سے ملنے کی خواہش لیے سیاسی تیر پھینکتے رہے اور بالآخر بدھ کی شام بلاول ہاؤس کے دروازے ایک بار پھر 55 سالہ گبول شہزادے کے لیے کھول دیے گئے۔

    شریک چیئرمین آصف علی زرداری سے کامیاب ملاقات کے بعد اب ممکنہ طور پر نبیل گبول کے لیے لیاری آنا جانا آسان ہوجائے گا اور وہاں پر وہ سب سے مضبوط سیاسی شخصیت کے طور پر سامنے آئیں گے۔

    نبیل گبول بغیر کسی دھوم دھام کے خاموشی کے ساتھ پیپلز پارٹی میں واپس آگئے جس کے لیے وہ گزشتہ چند ماہ سے ماحول سازگار بنا رہے تھے اس جدوجہد میں انہوں نے جہاں کئی مراحل گزارے وہیں حال ہی میں لیاری کا بھی دورہ کیا۔

    nabil-gabol-3

    پیپلزپارٹی میں اپنی واپسی پر مسرت کا اظہار کرتے ہوئے نبیل گبول نے کہا کہ وہ اپنے گھر واپس آگئے، ہم یہاں یہ سوال نہیں کرتے کہ گھر چھوڑا کیوں تھا؟ لیکن پاکستانی سیاست میں دروازے کھلے رہنے کا فلسفہ ہر جماعت میں ایک ہی طریقے سے موجود ہے۔

    سیاسی جماعتوں کے دروازوں پر لگے پھاٹک ہر آنے جانے والے کے لیے ہر وقت کھلے رہتے ہیں بس ووٹ بینک کی چابی مضبوط لیڈر کے ہاتھ میں ہی رہنی چاہیے۔

    سردار احمد خان گبول کے فرزند سردار اللہ بخش گبول کے پوتے سردار نبیل گبول کو پیپلز پارٹی نے اپنا سمجھ کر قبول کر لیا لیکن نادیہ گبول بھی پیپلز پارٹی کی اپنی ہیں اب دیکھنا یہ کہ آئندہ انتخابات میں ان دونوں کے عوض لیاری سے پیپلز پارٹی کس کو نشست پر ٹکٹ جاری کرتی ہے۔