Author: عاجز جمالی

  • منیشا کی بلال سے شادی، محبت اورانسانیت کی جیت، دھرم ہارگیا

    منیشا کی بلال سے شادی، محبت اورانسانیت کی جیت، دھرم ہارگیا

    سندھ کے دیہی علاقوں میں ہندو لڑکیوں کی مسلمان لڑکوں سے پیار کی شادیاں ہمیشہ جبر اورتضادات کی صورت میں نمودار ہوتی ہیں کیونکہ زیادہ تر شادیوں میں ایک جانب مذہبی عالم اور پنڈت کود پڑتے ہیں تو دوسری جانب سول سوسائٹی کی دکانیں کُھل جاتی ہیں اور پھر محبت کے شادی کرنے والا مسلمان لڑکا اور ہندو لڑکی زندگی بھر محبت کو بھول جاتے ہیں۔

    چند روز قبل ایک خوشگوار واقعہ پیش آیا جس میں محبت اور انسانیت جیت گئی اور دھرم ہار گیا۔ میرپورخاص کے ہندو سماجی کارکن ڈاکٹر گوردھن نے ایک انوکھی مثال قائم کی اور اپنے ہاتھوں سے اپنی بیٹی منیشا کو اس کے پریمی مسلمان نوجوان بلال قائم خانی کے سپرد کیا اور اپنے گھر پر مولوی بلاکر نکاح کروا دیا۔

    میرپور خاص کی منیشا کماری اور بلال قائم خانی کی پریم کہانی کے بارے میں منیشا کے والدین با خبر تھے، محبت کی ابتدا تب سے ہوئی جب منیشا کی عمر اٹھارہ برس سے بھی کم تھی لیکن ڈاکٹرگوردھن کھتری نے انسانیت کو ترجیح دی اور اپنی بیٹی کو صبر کی تلقین کی اورپھر وہ لمحہ بھی گیا جب بلال قائم خانی کی بارات ہندو ڈاکٹر گوردھن کے گھر پہنچی۔

    مسلم عقائد کے مطابق شادی کی رسومات ہوئیں اور بلال قائم خانی اپنی دلہن منیشا کو میرپور خاص سے اپنے آبائی گاﺅں ہتھونگو لے گئے۔ دیہی ماحول میں جوڑے کا شانداراستقبال کیا گیا اور پھر ردعمل میں کھتری برادری کی پنچائیت نے ڈاکٹر گوردھن کو برادری سے نکال دیا اور اس کے خاندان کا سماجی بائیکاٹ کر دیا۔

    ڈاکٹر گوردھن کہتے ہیں کہ اس نے دھرم کے بجائے انسانیت کو ترجیح دی اس کی بیٹی اگر مسلمان لڑکے کو چاہ رہی تھی وہ شادی چاہتی تھی مسلمان ہوناچاہتی تھی تو وہ کون ہوتا ہے کہ رکاوٹ بنے۔

    ڈاکٹر گوردھن کا کہتا ہے کہ وہ پنچایت اور دھرم سے زیادہ انسانیت کو عظیم سمجھتا ہے۔ منیشا کماری اب منیشا بلال ہوگئی اورشادی کے بعد میکے بھی آگئی، جہاں منیشا اور بلال پر پھول نچھاور کئے گئے۔ منیشا اور بلال دونوں بہت خوش ہیں۔

    سندھ کے دیہات میں ہندو خاندانوں کے سماجی مسائل اور نفسیاتی پیچیدگیاں اپنی جگہ پر اورہندو لڑکیوں کی جبری شادیاں بھی ایک بھیانک پہلو ہے۔ لیکن سندھ کے مشہور سیاسی خاندانوں کے گھروں میں بیک وقت ہندو اور مسلمان دونوں بستے ہیں۔

    سندھ کے سابق وزیر اعلیٰٰ ارباب غلام رحیم کی والدہ ہندو تھیں، ارباب توگاچی کی اہلیہ سابق ایم پی اے رام سنگھ سوڈھو کی بہن تھی اس طرح رام سنگھ سوڈھو ارباب غلام رحیم کے ماموں ہیں۔

    سندھ کے اور بھی کئی خاندانوں میں ایسی مثالیں موجود ہیں لیکن ہندو لڑکیوں کی مسلمان لڑکے سے شادی کے وقت سب سے پہلا سوال یہ ہوتا ہے کہ کیا کوئی مسلمان لڑکی ہندو لڑکے سے شادی کر سکتی ہے اور سندھ کی تاریخ میں ایسی مثالیں بھی موجود ہیں لیکن ڈاکٹر گوردھن کھتری نے انوکھی تاریخ رقم کردی ہے۔
    تصیح: سوشل میڈیا اور مقامی اخبارات کے حوالے سے اس اسٹوری میں پہلے شائع شدہ تصویر متعلقہ شخصیت کی نہیں تھی۔ بعد ازاں اس غیر ارادی سہو کی تصیح کرتے ہوئے اس تصویر کو ہٹا دیا گیا ہے۔ اس سہو سے کسی کو کوئی آزار پہنچا ہوتو ہم اس کے لیے معذرت خواہ ہیں۔

  • بے نظیر آباد میں خواتین ہاسٹل پر پولیس کا قبضہ

    بے نظیر آباد میں خواتین ہاسٹل پر پولیس کا قبضہ

    وسطی سندھ کا شہر نواب شاہ جو اب شہید بے نظیر آباد کہلاتا ہے، انتہائی خوش حال اور سر سبز خطہ ہے، قومی ریلوے لائن پر موجود اس شہر کی سیاسی باگ ڈور ایک زمانے میں سید گھرانے کے ہاتھ میں تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی بننے کے باوجود سید خاندان پیپلز پارٹی کی مخالفت میں میدان میں اترا تھا لیکن بھٹو نے نواب شاہ کے خاندان کے مقابلے میں حاکم علی زرداری اور غلام مصطفیٰ جتوئی کو میدان میں اتارا تھا۔

    بھٹو حکومت کے بعد نواب شاہ کی سیاسی قیادت تبدیل ہوگئی تب سے لے کر اب تک زرداری خاندان کو بااثر خاندن کی حیثیت حاصل ہے۔ نواب شاہ کا اب تو نام بھی تبدیل ہوگیا ہے اب یہ ڈویژنل سٹی شہید بے نظیر آباد بن گیا ہے۔ پیپلز پارٹی کی سابقہ حکومت نے یہاں خواتین کی ترقی کے لیے کروڑوں روپے کی لاگت سے ویمن کمپلیکس قائم کیا تھا۔

    14111628_1055189297892671_1802661716_n

    خواتین کی ترقی کی وزارت کا ایک خواب تھا کہ یہاں دیہی خواتین کے لیے ورکنگ ویمن ہاسٹل بنے گا، یہاں کارو کاری جیسی بھیانک رسومات سے ستائی ہوئی غریب خواتین کی پناہ گاہ تعمیر ہوگی، یہاں خواتین کی قانونی امداد ہوگی، تربیتی مرکز ہوگا، بے نظیر کا خواب پورا ہوگا لیکن شاندار عمارت میں اچانک تھانہ بن گیا اور ڈویژن بننے کے بعد ڈی آئی جی صاحب کو پولیس نے مشورہ دیا کہ صاحب عمارت موجود ہے بس حکم کریں اور پھر پولیس کے بڑے صاحب بھی خواتین کے مرکز پر قابض ہوگئے اس طرح دو سال قبل ویمن کمپلیکس پولیس کمپلیکس بن گیا۔

    14081378_1055189294559338_2001013971_n

    سندھ میں پولیس گردی سے تو ہر کوئی ڈرتا ہے، کون بولے گا، ہاف فرائی یا فل فرائی ہونے میں دیر نہیں لگتی۔ وزارت ترقی نسواں خط لکھتی رہی مگر پولیس کہاں سنتی ہے اور وزارت بھی ایسی کہ جس کی کوئی وزیر ہی نہ ہو۔ اب جب نئی کابینہ آگئی اور سندھ اسمبلی کی ایک سرگرم خاتون رکن ارم خالد کو خواتین کی ترقی کی وزارت ملی تو منسٹری کے افسران بھی جاگ اٹھے۔

    14102105_1055189287892672_1413764487_n

    ارم خالد نے اے آر وائی نیوز کو بتایا کہ خواتین کی ترقی کی وزارت کے کئی ادارے بند پڑے ہیں، ڈائریکٹوریٹ ہی بند پڑا ہوا تھا فنڈز کا کچھ پتا نہیں۔ نواب شاہ ویمن کمپلیکس کے بارے میں ارم خالد نے آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ سے بات کی اور ایک خط بھی لکھا جس میں وزیر اعلی سندھ کا حوالہ دیتے عمارت سے قبضہ ختم کرانے کا مطالبہ کیا گیا۔

    14112020_1055189291226005_2008323770_n

    وزیر اعلیٰ کی معاون خصوصی برائے ترقی نسواں ارم خالد کا کہنا ہے کہ سندھ میں خواتین کے ساتھ لاتعداد مسائل ہیں لیکن المیہ یہ ہے کہ مسائل حل ہونے کے بجائے مسائل پیدا کیے جاتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ خواتین کے لیے بنائی گئی شاندار عمارت پر پولیس نے قبضہ کرلیا ہے دو سال ہوگئے پولیس عمارت پر براجمان ہے۔ وزیر اعلیٰ سندھ نے یقین دلایا ہے کہ عمارت خالی کرائی جائے گی۔ ارم خالد کہتی ہیں کہ اب ہم کوئی کام کرنا چاہتے ہیں کام کریں گے تو آئندہ انتخابات میں عوام ووٹ دیں گے دیکھنا یہ ہے کہ ارم خالد کو کتنی کامیابی ہوتی ہے اور خواتین کے لیے بنایا گیا ویمن کمپلیکس خالی ہوتا ہے یا حائل رکاوٹیں ڈالنے والے مضبوط ہیں۔

  • مراد علی شاہ پرقسمت کی دیوی کیسے مہرباں ہوئی؟

    مراد علی شاہ پرقسمت کی دیوی کیسے مہرباں ہوئی؟

    سیہون شریف کو زیادہ ترلوگ قلندرشہباز کی مناسبت سے جانتے ہیں لیکن نیشنل ہائی وے پرسیہون کی طرف جاتے ہوئے پہلے لکی کا پہاڑی سلسلہ ملتا ہے جو لکی شاہ صدرکے نام سے منسوب ہے۔ یہ خطہ سندھ کے لکیاری خاندان کی وجہ سے مشہوراورلکیاری سید سندھ میں بسنے والے چارطاقت ورسید گھرانوں میں سے ایک ہے۔ سہون سے مغرب کی جانب جاتے ہوے پہلے باجارہ اورجھانگارہ نامی چھوٹے شہرآتے ہیں جو لکیاری سیدوں کے شہرکہلاتے ہیں۔

    باجارہ میں میں مشہوربزرگ نجف علی شاہ کا مزار ہے جبکہ جھانگارہ سندھ کے سابق وزیراعلیٰ عبداللہ شاہ مرحوم کا آبائی شہر ہے جنہیں ایک زمانے میں عبداللہ شاہ واہڑائی بھی کہا جاتا تھا۔ عبداللہ شاہ لکیاری بنیادی طورپرسندھ کے زمیندار طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔ عبداللہ شاہ پیپلز پارٹی میں اس وقت شامل ہوئے جب ذوالفقارعلی بھٹو نے اپنی نو مولود جماعت کے لئے سندھ بھرکا دورہ کیا تھا۔

    عبداللہ شاہ سندھ اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے، کابینہ میں بھی رہے لیکن جنرل ضیا کے مارشل لاء کے دوران پیپلز پارٹی کا ساتھ چھوڑ گئے تھے، بعد ازاں پھرشامل ہوئے۔ 1988 میں رکن سندھ اسمبلی منتخب ہوئے، سندھ اسمبلی کے اسپیکر بنے، بعد میں سینٹر بھی بنے اور 1993 میں محترمہ بے نظیر بھٹو نے عبداللہ شاہ کو سندھ کا وزیر اعلیٰ بنوایا۔

    مزید پڑھیں: قائم علی شاہ کے سیاسی سفر پر ایک نظر

     عبداللہ شاہ اپنے دورکے بہت سرگرم وزیراعلیٰ بنے اورکراچی میں دہشت گردی کے خلاف آپریشن جاری رکھا۔ اسی زمانے میں وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کے خاوند آصف علی زرداری سے عبداللہ شاہ کے اختلافات کے چرچے بھی عام تھے لیکن بے نظیر بھٹو کا مکمل اعتماد عبداللہ شاہ پر تھااوراسی زمانے میں متحدہ قومی موومنٹ کے بھائی کے ساتھ عبداللہ شاہ کے بھائی احسان شاہ بھی دہشت گردی کا نشانہ بنے۔


    murad-new-post

    عبداللہ شاہ کے دور میں ان کے سب سے بڑے مخالف وزیراعظم کے بھائی مرتضیٰ بھٹو تھے اورپھروزیراعظم کے بھائی مرتضیٰ بھٹو بھی اسی دہشت گردی کے بھینٹ چڑھ گئے جس نے ہزاروں گھر اجاڑدیے تھے اوریہ بڑی وجہ بنی عبداللہ شاہ اوربے نظیر بھٹو کی حکومے کے خاتمے کی۔ جس کے بعدعبداللہ شاہ ملک چھوڑ گئے تھے۔

    سندھ کے نئے وزیراعلیٰ کے لئے نامزد سید مرادعلی شاہ انہی مرحوم عبداللہ شاہ کے فرزند ہیں جو سندھ حکومت میں ہی افسربھی رہ چکے ہیں۔ مراد علی شاہ بنیادی طورپرانجنیئر ہیں، این ای ڈی یونیورسٹی سے ’بی ای‘ کرنے کے بعد سرکاری ملازمت میں چلے گئے۔ واپڈا میں جونیئرانجنیئر رہے، پورٹ قاسم اتھارٹی میں ایگزیکٹو انجنیئر، اورفش ہاربر اتھارٹی میں ڈائریکٹر رہے، بعد ازاں مراد علی شاہ امریکہ چلے گئے اورکیلیفورنیا کی یونیورسٹی سے ماسٹرزکی ڈگری لی۔

    یہ بھی پڑھیں: وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ کو تبدیل کرنے کا فیصلہ

    مراد علی شاہ نے2002 کے عام انتخابات میں حصہ لیا، رکن سندھ اسمبلی منتخب ہوئے۔ مراد علی شاہ نے پڑھا لکھا ہونے کا حق ادا کیا اورحزب اختلاف میں بھرپورکردارادا کیا۔ مالی معاملات اور اسمبلی قوائد کے معاملے اس نوجوان سیاست داں کا کردار اچھا رہا۔ یہ ہی وجہ تھی کی 2008 میں انتخاب جیتنے کے بعد سندھ کے وزیر آب پاشی اورپھروزیر خزانہ بنے۔ جب سے قائم علی شاہ وزیر اعلیٰ ہیں، تب سے مراد علی شاہ سندھ کے خزانے کے مالک ہیں۔

    مراد علی شاہ نا اہل بھی قرار دیئے گئے تھے لیکن پھرمشیر خزانہ بنادیے گئے، اپنے آبائی حلقے سے اپنے کزن کو منتخب کرالیا۔ اب بھی آب پاشی سے متعلق معاملات بھی مرادعلی شاہ ہی دیکھ رہے تھے۔ گزشتہ برس مراد علی شاہ کو سینئروزیرکا بھی ٹائٹل دیا گیا۔ یہ ہی ٹائٹل برسوں سے نثارکھوڑو کے پاس بھی ہے لیکن نثار کھوڑو ہمیشہ وزیراعلیٰ کے امیدوار ہی رہے، قسمت کی لکیروں نے ہمیشہ کھوڑو کے راستے بند رکھے اورقسمت کی دیوی نے کبھی نثار کھوڑو کی سینیارٹی کو اہمیت نہیں دی۔

    murad-post-2

    وزیر اعلیٰ کے امیدواروں میں اپنے نام گنوانے والوں میں ویسے تو منظور وسان، آغا سراج درانی، خورشید شاہ، مخدوم جمیل زماں، میرہزارخان بجارانی بھی شامل رہےلیکن قسمت کی دیوی کی ساری مہربانیاں تین دن قبل دبئی چلی گئیں، بہانہ تو بنے رینجرز کے اختیارات، لیکن یہ ملاقات ایک بہانہ تھی، مراد علی شاہ سے پیار کا سلسلہ پرانا نکلا۔ پارٹی کے جواں سال چیئرمین بھی ان پرراضی نکلے، بڑے صاحب تو پہلے سے ہی مہرباں تھے اوراس طرح قسمت کی دیوی کی پھرکیا مجال تھی۔ اوراس طرح قائم علی شاہ کے مقابلے میں جوان دکھائی دینے والے چوون سالہ مراد علی شاہ سندھ کے نئے وزیراعلیٰ نامزد ہوئے ہیں۔

    قلندر شہباز کی نگری میں مراد علی شاہ کے حامی دھمال لگا کر خوشیاں منا رہے ہیں لیکن سندھ کے پڑھے لکھے طبقے کا خیال ہے کہ مراد علی شاہ بھی قائم علی شاہ کی طرح فیصلوں میں آزاد نہیں ہوں گے۔ ان کی کابینہ میں کچھ نئے چہرے ہوں گے کچھ وزراء کے قلم دان تبدیل ہوں گے، لیکن سندھ کے حالات جس قسم کی تبدیلی کے خواہاں ہیں وہ کہیں اور پنہاں ہے۔ چہرے کی تبدیلی شاید ہی سندھ کی قسمت کو تبدیل کر سکے۔

  • پاکستان میں شدید گرمی کی وجہ بھارتی بجلی گھر ہیں، این ڈی ایم اے کا انکشاف

    پاکستان میں شدید گرمی کی وجہ بھارتی بجلی گھر ہیں، این ڈی ایم اے کا انکشاف

    کراچی:نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) نے انکشاف کیا ہے کہ بھارت میں کوئلے پر چلنے والے بجلی گھر پاکستان میں گرمی کی شدت کی ایک وجہ ہیں کیونکہ ڈارک کول کی وجہ سے پاکستان کے گلیشیئرز پر بھیانک اثرات پڑ رہے ہیں جس کی وجہ سے گلیشیئرز پھٹ رہے ہیں۔

    یہ انکشاف این ڈی ایم اے ڈی آر آر کمیٹی کے ممبر اور اس ضمن میں وزیراعظم ہاوس کے مقررہ افسر احمد کمال نے ایک ورکشاپ کے بعد اے آروائی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ 

    3-7

    احمد کمال کا کہنا ہے کہ پاکستان کی ناردرن سرحد کے قریب بھارت 9ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کرتا ہے، یہ بجلی کوئلے پر چلنے والے بجلی گھروں سے حاصل ہوتی ہے لیکن ان بجلی گھروں میں استعمال ہونے والا کوئلہ پاکستان کے گلیشیئرز کے لیے خطرہ ثابت ہوا ہے،تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ ڈارک کول کی وجہ سے خطرناک دھواں اٹھتا ہے جس کی وجہ سے ہمارے گلیشیئرز بھی ڈارک ہو رہے ہیں اور بھارت کی کول امیشن سے ہمارے گلیشیئرز پھٹ رہے ہیں جس کی وجہ سے گرمی بھی پڑتی ہے اور موسم کا توازن بھی تبدیل ہور ہاہے ،پاکستان سفارتی سطح پر بھی بھارت سے اس مسئلے پر بات چیت کر رہا ہے۔

    2-7

     اتوار کو مقامی ہوٹل میں این ڈی ایم اے کے ذمے داروں کی کراچی کے صحافیوں سے ماحولیاتی تباہی کے حوالے سے منعقدہ ورکشاپ میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے چیئرمین ڈاکٹر کریم خواجہ، وزیر اعظم ہاﺅس میں مقرر این ڈی ایم کے افسر احمد کمال اور این ڈی ایم اے کے ماہر پاک فوج کے ریٹائرڈ میجر ایوب شاہ کی چونکا دینے والی باتیں ملکی قدرتی آفات کی شرح میں خوف ناک حد تک اضافے کی جانب نشاند ہی کرتی ہیں لیکن ان کی باتوں سے یہ بھی محسوس ہوا کہ قومی سطح پر یا وفاقی حکومت کی حد تک ابھی تک کوئی بہت بڑی سنجیدگی نہیں نظر آرہی، البتہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے وفاقی بجٹ میں خطیر رقم مختص کی گئی ہے۔

    سینیٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے ماحولیات کے چیئرمین ڈاکٹر کریم خواجہ نے بتایا کہ سندھ میں سمندری تباہی معمولی نوعیت کی نہیں ہے اب تو کراچی کے ساحل کو بھی خطرہ موجود ہے جس کی وجہ سے سینیٹ کمیٹی نے وفاقی حکومت کو تجویز دی ہے کہ کراچی کے کلفٹن کے ساحل کے سامنے دیوار تعمیر کی جائے تاکہ سمندر کی سطح میں کوئی اضافہ ہونے کی صورت میں خدانخواستہ فوری طور پر کسی تباہی سے بچا جا سکے۔

    سینیٹر کریم خواجہ کا کہنا تھا کہ ٹھٹھہ کی کوسٹل بیلٹ پر 22 لاکھ ایکڑ زرخیز زمین کو سمندر نگل چکا ہے اور انڈس ڈیلٹا بھیانک دور سے گزر رہا ہے، دریائے سندھ میں ڈاﺅن اسٹریم کوٹری پانی نہ ہونے کی وجہ سے سمندر آگے بڑھ رہا ہے اور تمام سمندری کریکس ختم ہو رہے ہیں۔

    4-3

    سینیٹ کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی سمندری حدود میں واقع سرکریک پر بھارت کا دعویٰ غیر منطقی ہے کیونکہ سر کریک سے لے کر کورنگی کریک تک تمام سمندری کریکس تک دریائے سندھ سے میٹھا پانی داخل ہوتا تھا جس کی وجہ سے سمندر کی طغیانی رک جاتی تھی۔

    این ڈی ایم اے کے ماہر اور پاک فوج کے ریٹائرڈ میجر ایوب شاہ کا کہنا تھا کہ 2012ءتا 2015ءپاکستان میں سیلاب اور زلزلے دونوں ہی آرہے ہیں، سمندری طوفان اور زمینی طوفان دونوں بڑھ رہے ہیں، چند روز قبل اسلام آباد میں آنے والا طوفان بھی انتہائی خطرناک طوفان تھا جو بڑی تباہی پھیلاتا لیکن جلد طوفان کا رخ تبدیل ہوگیا اور زور ٹوٹ گیا ،ایسا طوفان کسی بھی وقت آ سکتا ہے۔محکمہ ماحولیات ہو یا این ڈی ایم اے ،دونوں میں سہولیات کا فقدان ہے، ہمارے پاس اپنا سیٹلائٹ سسٹم بھی نہیں ہے، اب پرانا ری ایکٹر اسکیل بھی استعمال نہیں ہوتا، تربیت کے فقدان کو مد نظر رکھ کر 1092 افسران کو تربیت دی گئی ہے۔

    1-6

    ان کا کہنا تھا کہ دنیا میں تمام صنعتوں کے نقشے آن لائن ہوتے ہیں، این ڈی ایم اے کی کوشش ہے کہ پاکستان کی تمام فیکٹریوں کے نقشے آن لائن ہونے چاہئیں تاکہ کسی بھی فیکٹری میں حادثے یا آفت آنے کی صورت میں فوری طور پر پہنچا جا سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ ماحولیاتی توازن بگڑنے سے ہمارے ملک میں گرمیوں کی شدت بڑھ رہی ہے، ہیٹ اسٹروک بھی اس کی ایک بڑی علامت ہے، خشک سالی بڑھ رہی ہے، پانی کی سطح کم ہو رہی ہے اور بارشیں ایک سو کلومیٹر مشرق سے مغرب کی طرف چلی گئی ہیں لیکن ہم سب قومی سطح پر قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

    چار گھنٹے کے اس ڈائیلاگ میں وجیہ احمد اور الوینہ آغا نے بھی حصہ لیا۔ گفتگو کے دوران کراچی کے صحافیوں کے سوالات بھی بڑے تلخ تھے اور جملے بھی تند و ترش لیکن مذکورہ ماہرین بہرحال سرکار نہیں تھے کہ ہمارے سوالات کے جوابات دیتے۔ پوری گفتگو میں ایک بات سمجھ میں آگئی کہ ماحولیات کا عالمی دن منانے سے کچھ نہیں ہوگا، آئندہ چند برس میں پاکستان کے بھی بھیانک ماحولیاتی مسائل سے دوچار ہونے کا خدشہ ہے جس سے نمٹنے کے لیے وفاقی حکومت کو انتہائی سنجیدہ رویہ اختیار کرنا ہوگا۔

  • محبت کی شادی کرنے والے ڈاکٹر کی ڈاکو بننے کی کربناک داستان

    محبت کی شادی کرنے والے ڈاکٹر کی ڈاکو بننے کی کربناک داستان

    روہن کی پہلی سالگرہ ہمیں دھوم دھام سے منانی چاہئے، کیونکہ روہن ہمارے پیار کی پہلی نشانی ہے۔ سنیتا نے اپنے من میں دبی ہوئی خواہش کا اپنے پریمی شوہر سے کرہی ڈالا تھا، لیکن ڈاکٹر دیپک جانتا تھا کہ پورا سال تو تکالیف اور معاشی تنگ دستی میں گزر گیا،ابھی تو کلینک کی آمدنی بھی بمشکل اتنی ہو رہی تھی کہ گھر کا گذارہ ہو سکے، لیکن ڈاکٹر دیپک نے اپنی پریمکا سنیتا کے گال پر تھپکی دیتے کہا ’’ایسے ہی ہوگا میری جان‘‘۔

    کراچی کے علاقے کورنگی میں چھپ کر چوروں کی طرح زندگی بسر کرنے والے ڈاکٹر دیپک اور سنیتا کو یہ شہر بہت مہنگا پڑرہا تھا اور دوسری جانب دونوں سے خاندان نے سماجی بائیکاٹ کر رکھا تھا، کیونکہ خاندان کی نظر میں ڈاکٹر دیپک اور سنیتا کا پریم بندھن خاندان کے ناک کاٹ دینے کے مترادف تھا۔اس لئے خاندان نے اپنی ناک بچاتے ہوئے دونوں سے خاندان کے تمام حقوق چھین لیئے تھے لیکن دیپک اور سنیتا نے پیار کی شادی کرکے کوئی گناہ نہیں کیا تھا لیکن خاندان کی نظر کزن میرج دھرم کے خلاف تصور کیا جاتا تھا۔


    ڈھائی سالہ روہن کی پہلی سالگرہ کے بعد کوئی سالگرہ نہیں ہوسکی

    اوروہ حالات سے بہت خوفزدہ ہے لیکن سنیتا نے ہمت نہیں ہاری


    deepak-post-1

    سندھ کے شہر ٹنڈو الہیار سے تعلق رکھنے والا ڈاکٹر دیپک اور قریبی شہر ٹنڈو غلام علی میں بسنے والی اس کی کزن سنیتا اسکول کے زمانے میں ہی ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے، ایک دوسرے کو خط لکھتے تھے اور انہوں نے موبائل فون کے شارٹ میسج سروس ( ایس ایم ایس ) کو لانگ میسج سروس میں تبدیل کردیا تھا۔لیکن جب شادی کی بات نکلی تو خاندان میں طوفان برپا ہوا جس نے دونوں کو چھپ کر شادی کرنے پر مجبور کردیا تھا اور گاؤں چھوڑ کر دونوں کراچی میں کرائے کے گھر میں خوش و خرم رہنے لگے،ان کے پیار کی پہلی نشانی روہن کے جنم کے بعد دونوں بہت ہی خوش تھے۔

    deepak-post-2

    بدقسمتی سے خوشی کی یہ گھڑیاں طویل ثابت نہ ہوئی اوروہ بھیانک گھڑی ان کی زندگی میں داخل ہوئی جس نے اس کایا ہی پلٹ دیا اور پندرہ ماہ سے یہ خاندان قانون اور انصاف کی چکی میں ایسے پس رہا ہے کہ دیپک اور سنیتا کو زندگی تو کیا بھگوان پر ہی شک ہونے لگا ہے۔

    پندرہ ماہ قبل پولیس پارٹی نے حیدر آباد ہالہ ناکہ کے قریب ایک ایسا کارنامہ سرانجام دیا کہ حیدر آباد کے ایماندار ایس ایس پی کا سر شرم سے جھک جانا چاہئے تھا لیکن ایک غریب ہندو ڈاکٹر سے ڈرامہ رچانے والے پیٹی بھائیوں کو بچانے کے لئے پولیس افسر کی ایمانداری ڈھٹائی میں تبدیل ہوگئی۔ پولیس پارٹی نے گاڑی کو روک کر ڈاکٹر دیپک کو نیچے اتارا، منہ پر کپڑا ڈال کر پولیس موبائل میں ہی خوب دھلائی کی اور پھر تھانے جا کر ہاف فرائی کیا( سندھ میں ہاف فرائی اور فل فرائی جیسی شرمناک ٹرمنالاجی پولیس نے متعارف کرائی ہے ہاتھ،پیر اور ٹانگیں توڑنے کو ہاف فرائی کہتے ہیں ) پولیس نے دیپک کو گولیاں مار کر ایک ٹانگ اور ایک بازو ضائع کردیا،کیونکہ پولیس کو مقابلہ دکھانا تھااور یہ ہی ہوا کہ اخبارات میں بڑے شد و مد سے خبر شایع ہوئی کہ حیدرآباد ہالہ ناکہ کے قریب پولیس مقابلے میں بدنام زمانہ ڈاکو شریف پہنور کو زخمی حالت میں گرفتاری کیا گیا ہے۔

    deepak-post-6

    ایمانداری کے عوض حیدر آباد پریس کلب سے اعزاز حاصل کرنے والے ایس ایس پی حیدر آباد عرفان بلوچ نے جعلی مقابلہ کرنے والے ایس ایچ او علی محمد مغل کے خلاف کاروائی کرنے کے بجائے ڈھٹائی کے ساتھ دیپک کو شریف پہنور قرار دے کر سندھ کی سول سوسائٹی کی نظروں میں خود کو گرا دیا۔


    پندرہ ماہ گزر جانے کے باوجود پولیس اپنے جھوٹ پر قائم ہے اور ایک ٹانگ سے معذور

    ڈاکٹر دیپک کو ہتھکڑی لگا کر جناح ہسپتال کے اسپیشل وارڈ میں بند رکھا ہوا ہے


    ڈاکٹر دیپک کی ایک ٹانگ اور ایک بازو کاٹ دیے گئے ہیں اور دیپک کے ساتھ اس کی بیوہ سنیتا اور ڈھائی سالہ بیٹا روہن بھی اسپتال میں قیدی جیسی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ سنیتا نے سندھ ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔ جناح اسپتال میں قید ڈاکٹر دیپک سے میں نے پوچھا کہ آخر پولیس کی تم سے کیا دشمنی تھی جو تم پر فائرنگ کی گئی۔؟ ڈاکٹر نے جواب دیا کہ ’’میرے سسرال والوں نے جاسوسی کی تھی، وہ پولیس کے ہاتھوں مجھے ذلیل کروانا چاہتے تھےکیونکہ انہیں ہماری شادی پسند نہیں تھی،پولیس تک غلط اطلاع پہنچائی گئی کہ ڈاکو شریف پہنور جا رہا ہے۔جب مجھے پکڑا گیا تھا تو میں نے کہا کہ میں دیپک ہوں،میں نے اپنا قومی شناختی کارڈ بھی ظاہر کیا لیکن کسی نے ایک بات نہین سنی،مارتے رہے، سڑک کنارے گاڑی روک کر اندھا دھند فائرنگ کی گئی،ٹانگوں سمیت جگہ جگہ پر گولیاں ماری گئیں اور وہ مجھے قتل کر چکے تھے‘‘۔

    deepak-post-5

    اس ساری صورتحال کے سبب ڈھائی سالہ روہن کی پہلی سالگرہ کے بعد کوئی بھی سالگرہ نہیں ہوئی اور روہن بہت ہی خوف زدہ نظر آتا ہے لیکن مشکلات جھیلنے والی سنیتا نے با لکل بھی ہمت نہیں ہاری۔ سنیتا کہتی ہے کہ ’’ہمارے ساتھ بہت بڑا ظلم ہوگیا ہے، ہمارا پورا ریکارڈ نادرا سے بھی چیک کیا گیا ہے نادرہ کے ریکارڈ میں بھی ثابت ہوگیا ہے کہ میرا شوہر دیپک ہے اور میں سنیتا ہوں۔ بھگوان نے تو میرے شوہر کو دیپک پیدا کیا لیکن پولیس اب بھی اس کو شریف پہنور کہتی ہے۔ آخر ہم کہان جائیں ہم تو مکمل برباد ہو چکے ہیں در در بھٹک رہی ہوں کہ سچ کو ثابت کرسکوں‘‘۔

    deepak-post-4

    سنیتا کہتی ہیں کہ ’’حالات سے تنگ ہوکر میں نے سندھ ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کی ہے کہ بس یہی آخری سہارا ہے۔ ہماری زندگی میں ایک بہت بڑا طوفان آچکا ہے اور کوئی ہماری مدد کرنے کو تیار نہیں ہے‘‘۔

    دیپک اور سنیتا کی درد بھری کہانی تو بڑی طویل ہے اور کربناک و دردناک ہے وہ خود بھی جب اپنی کہانی بیان کرتے ہیں تو آنکھوں سے نکلنے والے موتی گالوں پر ٹپک پڑتے ہیں لیکن سندھ پولیس نے نہ جانے ایسی کتنی داستانیں رقم کرکے نا جانے کتنے بے گناہ لوگوں کو فل فرائی اور ہاف فرائی کا نشانہ بنایا،کیا جمہوری راگ الاپنے والوں کو انسانیت کا یہ درد کہیں نظرآتا ہے۔

  • زمیں کے تارے فٹ پاتھ پر حصولِ علم میں مشغول

    زمیں کے تارے فٹ پاتھ پر حصولِ علم میں مشغول

    کراچی: سانولی سلونی سی تیز ترار بچی دوسرے بچے کو دھکیلتی ہوئی آگے بڑھ رہی تھی،گویا خود کو لیڈر ثابت کرتی ہوئی کہنے لگی کہ’’ میں بتاتی ہوں کہ ہمیں پڑھنا ہے ،اب ہم بھیک نہیں مانگیں گے‘‘۔ ایک ننھی سی بغاوت تھی فٹ پاتھ پر بسیرا کرنے والی بچی کی اور پھر تین چار اور بچوں نے بھی یک آواز ہوکر غیر سرکاری تنظیم کے رضاکاروں کو بولا کہ ہم پڑھیں گےاور یوں پل کے نیچے ترپال بچھا کر فٹ پاتھ اسکول کا آغاز کردیا گیا۔

    کراچی کے سفید پوشوں کے علاقے میں عبد اللہ شاہ غازی کے مزار کے سامنے ایک ماہ سے جاری فٹ پاتھ اسکول میں اب ایک سو کے لگ بھگ وہ بچے تعلیم کے زیور سے آراستہ ہو رہے ہیں جو اپنے مسقتبل سے بے خبر ہیں۔یہ سڑک چھاپ بچے جو اسکول سے پہلے بھی اسی فٹ پاتھ پر بغیر کسی آشیانے کے سو جاتے تھے اور کچھ بچے قریب کی نیلم کالونی سے آئے ہیں جو پہلے بھیک مانگتے تھے،پھول بیچتے تھے یا پھر غازی کے مزار پر پکنے والی دیگوں سے چاول جمع کرکے گھر والوں کو کھلاتے پلاتے تھے۔

    school-post-2

    لیکن اب سماجی تنظیم اوشین ویلفیئر ایسو سی ایشن نے ان بچوں کے ہاتھ میں کتابیں تھما دی ہیں، اور اس کے ساتھ ہر بچے کو روزانہ پچاس روپے نقد رقم بھی دی جاتی ہے۔ نیلم کالونی کے ایک ہی گھر سے آنے والے تین بہن بھائی روازانہ شام کو دو سو روپے جب اپنی ماں کے سپرد کرتے ہیں تو ماں کہتی ہے، ’’میں صدقے جاواں میں واری تھیواں‘‘۔ اور یوں اس طرح غریب بچوں کو اسکول کے ساتھ ساتھ اسکول میں پڑھنے کا معاوضہ بھی دیا جاتا ہے۔شاید یہ دو کروڑ آبادی کا پہلا اسکول ہے جہاں طلبہ اور طالبات تعلیم بمع معاوضہ وسول کرتے ہیں۔

    فٹ پاتھ اسکول کی روح رواں سیدہ انفاس علی شاہ کا کہنا تھا کہ ’’ یہ سارے بچےاسی علاقے کے ہیں، ہم ان بچوں کو یہاں پڑھانا چاہتے ہیں لیکن حیرت کی بات ہے ان اسٹریٹ چلڈرن کی تعلیم پر اعتراض کیا جا رہا ہے اور سڑک سے اسکول ہٹانے کے لئے دباؤ دالا جا رہا ہے۔اگر یہ ہی بچے اسی مقام پر نشہ استعمال کر رہے ہوں، غیر اخلاقی سرگرمیوں میں ملوث ہوں یا بھیک مانگ رہے ہوں تو کسی کو اعتراض نہیں ہوتا‘‘۔

    انفاس علی شاہ کا خیال ہے کہ ’’وہ چاہتی ہیں کہ پورے کراچی کے فٹ پاتھوں پر اسٹریٹ چلڈرین کے لئے اسکول قائم کیئے جائیں لیکن یہ بات مافیا کو پسند نہیں،پولیس کو بھی صرف اسکول پر ہی اعتراض ہے۔یہ کہتی ہیں کہ بحریہ ٹاؤن نے بہت ہی خوب صورت فلائی اوور بنایا ہے اسی فلائی اوور کے ایک کونے پر ہم اسٹریٹ چلڈرین،غریب،یتیم بچوں کا اسکول چلا رہے ہیں ہم ہر وقت سیکیورٹی خطرہ بھی رہتا ہے بعض لوگ دھمکیاںبھی دیتے ہیں،اس لئے بحریہ ٹاؤن ان اسکولوں کی کفالت کرے،تعلیم ان بچوں کا بھی حق ہے‘‘۔

    بچوں کے جمگھٹے میں زمیں پر بیٹھ کر یونیورسٹی کی طالبہ سحرش ان بچوں کو اے فار ایپل پڑھا رہی تھیں، سحرش نے بتایا کہ وہ کوئی تنخواہ نہیں لیتی روزانہ تین گھنٹے فٹ پاتھ اسکول کو دیتی ہے۔سحرش نے بتایا کہ ہم ان بچوں کو پچاس روپے بھی روزانہ دیتے ہیں تاکہ ان کے گھروں میں معاشی مسئلہ نا ہو ورنہ ان کے والدین بچوں کو پڑھنے نہیں دیں گے۔

    school-post-1

    میں نے سحرش سے پوچھا کہ آپ کا کیا خیال ہے میں ان پچاس ساٹھ بچوں میں کتنے ایسے بچے ہوں گے جو واقعی بھی تعلیم حاصل کرکے کچھ بن سکتے ہیں؟۔ جواب بڑا حیرت ناک تھا، انہوں نے کہا کہ ’’ یہ بچے گھروں میں بیٹھے بچوں سے زیادہ ذہین اور زیادہ تیز ہیں اور اکثر بچے تعلیم کی حاصلات چاہتے ہیں‘‘۔

    ایک دوسری ٹیچر عظمیٰ گل ہے،جو ایک رضاکار ہے، میں دیکھ رہا تھا شدید گرمی میں دوپٹہ لپیٹ کر ننھی بچیوں کو کاپی پر انگریزی اے بی سی لکھوا رہی تھیں اور نوشاد نامی ٹیچر ان بچوں کو پاکستان کا ترانہ یاد کراتے ہوئے زندگی میں کچھ بننے کی تربیت دے رہا تھا۔

    ابھی ہم کتاب تھامے پانچ سالہ نیہا سے بات ہی کر رہے تھے کہ مزار کی جانب سے دو بچے ہ بھاگتے ہوئے آئے اور گھبرائے ہوئے لہجے میں کہنے لگے’’ انک انکل وہ دیکھیں پولیس والا ہمیں مار رہا ہے‘‘۔ میں دیکھا کہ دور سے ایک سپاہی ہاتھ میں لاٹھی لیے چلا آرہا تھا، لیکن ہمارا کیمرہ دیکھ کر وہ عجلت میں پولیس موبائل میں بیٹھ کر روانہ ہوگیا۔مجھے بات سمجھ میں آنے لگی تھی کہ پولیس کو اعتراض کیوں نا ہو؟ کیونکہ این جی او کے لوگ، میڈیا کے لوگ، شہریوں کا جمگھٹا، پھر مزار کے سامنے چلنے والی دکان کا کیا ہوگا، پولیس اپنا کاروبار سڑک چھاپ بچوں کے لئے تو خراب نہیں کر سکتی نا۔البتہ پولیس کے افسران کا کہنا ہے کہ فٹ پاتھ پر اسکول کی موجودگی سیکیورٹی خدشہ ہے ۔

    زمین پر اوڑھنا،بچھونا،کھانا پینا اور پھر زمین پر ہی سو جانا،در اصل یہ ہی زندگی ہے ان زمین کے تاروں کی۔جو اب علم کی روشنی سے چمکنا چاہتے ہیں،سچ ان بچوں کی آنکھوں میں بڑی چمک ہے اور یہہی مستقبل میں امید کی کرن بھی بن سکتے ہیں۔

  • سندھ کے بلدیاتی انتخابات پرروایتی خاندانی سیاست حاوی

    سندھ کے بلدیاتی انتخابات پرروایتی خاندانی سیاست حاوی

    شمالی سندھ کے آٹھ اضلاع میں اکتیس اکتوبر کو بلدیاتی انتخابات کا پہلا مرحلہ ہونا ہےجس میں یونین کونسلوں، تعلقہ کونسلوں،ضلع کونسلوں اورمیونسپل کمیٹیوں کے لئے براہ راست کونسلروں، چیئرمینوں اوروائیس چیئرمینوں کا انتخاب کیا جائے گا۔ قبائلی اثرات میں جکڑے ہوئے سکھر اورلاڑکانہ ڈویژن میں ہونے والے انتخابات ہوں یا سندھ بھرکے دیہی علاقوں میں جمع ہونے والے کاغذات نامزدگی کا جائزہ لیتے ہیں تو نظر آتا ہے کہ سندھ میں ہرسو روایتی سیاسی خاندانوں کا بلدیاتی اداروں پر بھی غلبہ ہوگا۔ یہ تو بالکل پہلی بارہی نظرآرہا ہے کہ سندھ کی ہر یونین کونسل میں حکمراں جماعت کے وزرا، اراکین اسمبلی، سینٹرزاور قبائلی طورپرطاقت ورمانے جانے والے افراد کے قریبی رشتے دار ہی بلدیاتی امیدوار ہیں۔ بیٹے، بھتیجے، بھانجے، بھائی، بیٹیاں، بھابھیاں، منشی، خاص کارندے ہی سندھ بھر میں چیئرمین اورکونسلرز بنیں گے۔

    صرف یہی نہیں بلکہ آٹھ اضلاع میں لا تعداد با اثرافراد کے جانشین بلا مقابلہ ہی منتخب ہو چکے ہیں جیسے گھوٹکی میں علی گوہرمہر،علی محمد مہر،خالد احمد لوند، اور رحیم بخش بوزدار کے بیٹے، بھائی بلا مقابلہ کامیاب ہوگئے۔ جیکب آباد میں ہزار خان بجارانی،عابد سندرانی، کشمور میں سہراب سرکی، مقیم کھوسو، عابد سندرانی، سکھرمیں خورشید شاہ، اسلام دین شیخ اورناصرحسین شاہ کے بیٹے منتخب ہوگئے ہیں۔

    لاڑکانہ میں نثار کھوڑو کی بیٹی نزاء کھوڑو، سہیل انورسیال کا بھائی طارق سیال، ایم پی اے سردارچانڈیو کے بھائی بھی بلا مقابلہ منتخب ہوکرآچکے ہیں،ان کے سامنے کسی نے بھی مقابلہ کرنے کی ہمت نہیں کی۔ دادو میں ایم این اے رفیق جمالی کے دو بھائی، نواب شاہ میں صوبائی وزیر طارق مسود آرائیں کے بھائی، اورسابق صدر کے کئی قریبی رشتے دار،بلا مقابلہ کونسلر یا چیئرمین منتخب ہوگئے۔ اب یہ ہی لوگ اگلے مرحلے میں ضلع کونسلوں کی چیئرمین شپ کے امیدوار ہوں گے۔

    سندھ میں بلدیاتی انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہونے کے بعد پیپلز پارٹی کے جواں سال چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’آنے والے بلدیاتی انتخابات میں روایتی سیاست کا خاتمہ کیا جائے گا اور پارٹی کارکنوں کو بلدیاتی اداروں میں ٹکٹ دیئے جائیں گے‘‘۔ بلاول بھٹو کے ان الفاظ پر پیپلز پارٹی کے ٹکٹوں سے محروم اکثر کارکنوں کا یہ کہنا ہے کہ پارٹی پر قابض وڈیروں نے اپنے اپنے خاندانوں کو نوازنے کے لئے پارٹی چیئرمین کی پالیسی کو ناکام بنا دیا اس لئے سندھ بھر میں پیپلز پارٹی کے دو دو گروپوں کے امیدوار ایک دوسرے سے ہی مقابلے کریں گے۔

    سندھ کے بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے کے آٹھ اضلاع میں دو سو کے لگ بھگ امیدوار ایسے ہیں جو با اثر سیاسی خاندانوں کے با اثرامیدوار ہیں۔ یہ روایتی خاندانی سیاست صرف حکمران پارٹی میں ہی نہیں ہے بلکہ مخالف پارٹیوں کی بھی یہی صورتحال ہے۔ دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ روایتی سیاسی حریفوں نے بھی ایک دوسرے کی اولادوں یا رشتے داروں کے سامنے مقابلہ نہیں کیا۔اس وجہ سے بڑے لوگوں کی اولادیں بلا مقابلہ منتخب ہوگئیں۔ شکارپور میں سندھ اسمبلی کے اسپیکر آغا سراج درانی کے تین بھائی امیدوارہیں تو اسی ضلع میں پیپلز پارٹی کے مخالفین میں غوث بخش مہرکے دو بیٹے، امتیاز شیخ کے دو بیٹے اور مقبول شیخ کے دو بیٹے امیدوار ہیں۔ دادو میں اگرپیرمظہرالحق کا بیٹا میدان میں ہے تو مخالف پارٹی کے لیاقت جتوئی کے دو بیٹے اور بھائی میدان میں ہیں توعمران لغاری اور فیاض بٹ کے بھائی بھی امیدوارہیں۔ پیپلزپارٹی کا مقابلہ کرنے والی مسلم لیگ (ن) اور مسلم لیگ ( ف ) میں بھی روایتی خاندانوں کے بیٹے اوربھائی، بھتیجے امیدوارہیں۔ خیرپور میں منظور وسان اور قائم علی شاہ کے ہی رشتے دار امیدوار نہیں پیر پگارا کے خاندانی امیدوار اورمرید، خلیفے میدان میں ہیں۔

    نوشہرو فیروز میں مراد علی شاہ کے دو بیٹے، سانگھڑ میں فدا ڈیرو، روشن جونیجو اور شازیہ مری کے قریبی رشتے دار تو مقابلے پرفنکشنل لیگ کے امام الدین شوقین اورجام مدد علی کے بھائی بھتجے میدان میں ہیں۔ مٹیاری میں مخدوم رفیق زماں اورمخدوم خاندان کے نوجوان امیدوارہیں تو جام شورو میں ملک اسد سکندر کے بھائی، ٹنڈو الہیارمیں عبدالستار بچانی کے بیٹوں کا راحیلہ گل مگسی کے بیٹوں سے ہوگا۔ مسلم لیگ ن کی سینٹر راحیلہ گل مگسی کے بھائی عرفان گل اور چھوٹی بہن ادیبہ گل نے حال ہی میں پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کی ہےاور غالباً ان کی اولادوں کا بھی ایک دوسرے سے ہی مقابلہ ہوگا۔

    سندھ میں جہاں پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت اپنی سات سالہ کارکردگی کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بن رہی ہے وہاں پیپلزپارٹی نے بلدیاتی انتخابات میں کارکنوں اورنئی قیادت کو آگے لانے کے بجائے سندھ کے بلدیاتی اداروں کی کمان بھی ان چند گنے چنے سیاسی خاندانوں کے ہاتھ میں رکھنے کا فیصلہ کیا ہے جو گزشتہ سات سالہ سرکار میں اہم عہدوں پر رہے، یہ وہ ہی سیاسی خاندان ہیں جو کرپشن کی لپیٹ میں ہیں اوراب انہی کی اولادیں مقامی حکومتوں کی باگ ڈورسنبھالیں گی۔