Author: علامہ محمد اقبال

  • کبھی اے حقیقت منتظر نظر آ لباسِ مجاز میں

    کبھی اے حقیقت منتظر نظر آ لباسِ مجاز میں
    کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں مری جبینِ نیاز میں

    طرب آشنائے خروش ہو تو نوا ہے محرم گوش ہو
    وہ سرود کیا کہ چھپا ہوا ہو سکوت پردۂ ساز میں

    تو بچا بچا کے نہ رکھ اسے ترا آئنہ ہے وہ آئنہ
    کہ شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہ آئنہ ساز میں

    دم طوف کرمک شمع نے یہ کہا کہ وہ اثر کہن
    نہ تری حکایت سوز میں نہ مری حدیث گداز میں

    نہ کہیں جہاں میں اماں ملی جو اماں ملی تو کہاں ملی
    مرے جرم خانہ خراب کو ترے عفو بندہ نواز میں

    نہ وہ عشق میں رہیں گرمیاں نہ وہ حسن میں رہیں شوخیاں
    نہ وہ غزنوی میں تڑپ رہی نہ وہ خم ہے زلف ایاز میں

    میں جو سر بہ سجدہ ہوا کبھی تو زمیں سے آنے لگی صدا
    ترا دل تو ہے صنم آشنا تجھے کیا ملے گا نماز میں

    *********

  • ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں

    ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
    ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں

    تہی زندگی سے نہیں یہ فضائیں
    یہاں سیکڑوں کارواں اور بھی ہیں

    قناعت نہ کر عالم رنگ و بو پر
    چمن اور بھی آشیاں اور بھی ہیں

    اگر کھو گیا اک نشیمن تو کیا غم
    مقاماتِ آہ و فغاں اور بھی ہیں

    تو شاہیں ہے پرواز ہے کام تیرا
    ترے سامنے آسماں اور بھی ہیں

    اسی روز و شب میں الجھ کر نہ رہ جا
    کہ تیرے زمان و مکاں اور بھی ہیں

    گئے دن کہ تنہا تھا میں انجمن میں
    یہاں اب مرے رازداں اور بھی ہیں

    **********

  • ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں

    ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں
    مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں

    ستم ہو کہ ہو وعدۂ بے حجابی
    کوئی بات صبر آزما چاہتا ہوں

    یہ جنت مبارک رہے زاہدوں کو
    کہ میں آپ کا سامنا چاہتا ہوں

    ذرا سا تو دل ہوں مگر شوخ اتنا
    وہی لن ترانی سنا چاہتا ہوں

    کوئی دم کا مہماں ہوں اے اہل محفل
    چراغ سحر ہوں بجھا چاہتا ہوں

    بھری بزم میں راز کی بات کہہ دی
    بڑا بے ادب ہوں سزا چاہتا ہوں

    ********

  • ہزار خوف ہو لیکن زباں ہو دل کی رفیق

    ہزار خوف ہو لیکن زباں ہو دل کی رفیق
    یہی رہا ہے ازل سے قلندروں کا طریق

    ہجوم کیوں ہے زیادہ شراب خانے میں
    فقط یہ بات کہ پیر مغاں ہے مرد خلیق

    علاج ضعف یقیں ان سے ہو نہیں سکتا
    غریب اگرچہ ہیں رازیؔ کے نکتہ ہاے دقیق

    مرید سادہ تو رو رو کے ہو گیا تائب
    خدا کرے کہ ملے شیخ کو بھی یہ توفیق

    اسی طلسم کہن میں اسیر ہے آدم
    بغل میں اس کی ہیں اب تک بتانِ عہد عتیق

    مرے لیے تو ہے اقرار بااللساں بھی بہت
    ہزار شکر کہ ملا ہیں صاحبِ تصدیق

    اگر ہو عشق تو ہے کفر بھی مسلمانی
    نہ ہو تو مرد مسلماں بھی کافر و زندیق

    **********

  • مسلماں کے لہو میں ہے سلیقہ دل نوازی کا

    مسلماں کے لہو میں ہے سلیقہ دل نوازی کا
    مروت حسن عالم گیر ہے مردان ِغازی کا

    شکایت ہے مجھے یا رب خداوندان مکتب سے
    سبق شاہیں بچوں کو دے رہے ہیں خاک بازی کا

    بہت مدت کے نخچیروں کا انداز نگہ بدلا
    کہ میں نے فاش کر ڈالا طریقہ شاہبازی کا

    قلندر جز دو حرف لا الٰہ کچھ بھی نہیں رکھتا
    فقیہ شہر قاروں ہے لغت ہائے حجازی کا

    حدیث بادہ و مینا و جام آتی نہیں مجھ کو
    نہ کر خاراشگافوں سے تقاضا شیشہ سازی کا

    کہاں سے تو نے اے اقبالؔ سیکھی ہے یہ درویشی
    کہ چرچا پادشاہوں میں ہے تیری بے نیازی کا

    ***********