Author: امجد جاوید

  • تقسیم کی ادھوری کہانی – امرت کور

    تقسیم کی ادھوری کہانی – امرت کور

    وہ اپریل کے آخری دن کی ایک صبح تھی ۔ جب میں اور بھان سنگھ امرتسر ایئر پورٹ سے ضروری کاغذی کارروائی کے بعد باہر آئے۔ ہم ائیر پورٹ عمارت میں کھڑے تھے اور سامان کا انتظار کر رہے تھے۔ وہاں ہر طرف مختلف رنگوں کی پگڑیوں والے سنگھ حضرات دیکھ کر ایک دم سے مجھے لاہور اسٹیشن یاد آگیا۔ اکثر سکھ یاتریوں کو وہاں دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ ویسا ہی ماحول مجھے یہاں بھی لگا۔گورمکھی اور انگریزی میں لکھے ہوئے سائن بورڈ کے علاوہ مجھے وہاں قطعاً اجنبیت محسوس نہیں ہوئی تھی۔ شاید یہ پنجاب کی ہواؤں کا اثر تھا۔ میں اردگرد کے ماحول سے اپنے اندر اٹھنے والے تاثرات میں کھویا ہوا تھا کہ اچانک ہمارے سامنے ایک جواں سال لڑکی آن کھڑی ہوئی۔ سرمئی رنگ کی شلوار قمیص پہنے، جس کے ہاف سلیو میں سے گوری بانہیں اور زرد چوڑیاں اپنی جانب متوجہ کر رہی تھیں۔ تیکھے نقوش والی اس لڑکی کے چہرے پر خوشی پھوٹ رہی تھی۔ اس کا آنچل گلے میں تھا اور وہ پُرشوق نگاہوں سے ہمیں دیکھ رہی تھی۔ اسے دیکھتے ہی بھان سنگھ خوشی سے بولا۔
    ”اوئے بلے بلے…. آگئی پرتیو“۔ پھر میری طرف دیکھ کر تعارف کراتے ہوئے بولا۔ ”اس سے ملو، یہ ہے میری منگیتر پریت کور“۔
    ”اچھا تو یہ ہے اپنی پریتو….!“ میں نے خوشگوار انداز میں کہا تو وہ کافی حد تک شرماتے ہوئے دونوں ہاتھ جوڑ کر بولی۔
    ”ست سری اکال…. اور خوش آمدید، بہت خوشی ہوئی آپ کو یہاں دیکھ کر۔ ورنہ صرف بھان ہی سے آپ کے بارے میں سنتی تھی“۔
    ”میں نے بھی اس سے تمہاری بڑی باتیں سنی ہیں، بہت پیار کرتا ہے تمہیں“۔ میں نے اس کے چہرے پر بکھرتے ہوئے رنگوں کو دیکھ کر کہا تو وہ ایک دم سے شرما گئی۔ پھر بھان کی طرف دیکھ کر بولی۔
    ”اب کھڑے کیوں ہو، چلتے کیوں نہیں“۔
    ”اوئے سو ہنیو….! سامان لے لیں۔ یاا نہیں ہی دے جانا ہے“۔ بھان نے اندر کی طر ف دیکھتے ہوئے کہا پھر اس سے مخاطب ہو کر بولا۔ ”پر تو اکیلی کیوں آگئی۔ تیرے ساتھ کوئی اور نہیں آیا“۔


    اس ناول کی گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے لنک پر کلک کریں


    ”بتا، کس نے آنا تھا، تیری بے بے باپو نے یا میری بے بے باپو نے…. وہ وہاں تیرے گھر میں اکٹھے ہو کر تیرا انتظار کر رہے ہیں“۔
    بھان سنگھ اسے کوئی جواب نہ دے سکا۔ بلکہ اس پورٹر کی طرف متوجہ ہو گیا جو ہمارا سامان لے آیا تھا۔ ہم نے سامان لیا اور عمارت سے باہر آگئے۔ پریت کور ہمارے آگے آگے جارہی تھی۔ پھر ایک فور وہیل جیپ کے پاس رک گئی۔ اسے کھولا تو ہم نے سامان رکھا۔ تبھی وہ پچھلی نشست پر بیٹھنے لگی۔
    ”نا پریت….! تو ادھر بھان کے ساتھ پسنجر سیٹ پر بیٹھ، اتنے عرصے بعد وہ واپس آیا ہے۔ گپ شپ لگا اس کے ساتھ میں ادھر….“
    ”میں روز گپ لگاتی ہوں اس کے ساتھ ، آپ بیٹھو“۔ یہ کہتے ہوئے اس نے چابی بھان سنگھ کی طرف اچھال دی۔ اس نے پکڑی اور ڈرائیونگ پر جا بیٹھا۔ ائیرپورٹ سے نکل کر جب ہم کشمیر روڈ پر آگئے تو بھان سنگھ نے پوچھا۔
    ”اوئے پرتیو….! سنا امرت کور کیسی ہے؟“
    ”ٹھیک ہے وہ، اسے کیا ہونا ہے، آج کل اس نے نیا ڈرامہ شروع کیا ہوا ہے“۔ وہ یوں بولی جیسے یہ اس کے لیے غیر دلچسپ سی بات ہو۔
    ”وہ کیا ہے؟“ بھان سنگھ نے تجسس سے پوچھا۔
    ”کوئی دو ہفتے ہوئے ہیں، اپنے گھر سے کوئی نہ کوئی میٹھی شے لے کر نکلتی ہے۔ اسے اپنے ساتھ رکھتی ہے، پھر گرو دوارے کے باہر بچوں میں بانٹ دیتی ہے۔ خوشی خوشی گھر چلی جاتی ہے“۔ وہ اپنی رو میں کہتی چلی گئی مگر میں اپنے طور پر چونک گیا۔ کوئی دو ہفتے پہلے ہی تو ہم میں بات ہوئی تھی۔ کیا یہ ہماری وجہ سے ہوا؟ اگر ایسا ہے تو یہ کیسے ہوا؟ میں اس نہج پر سوچنے لگا۔ مجھے اس کی کوئی منطق سمجھ میں نہ آئی تو خود پر ہنس دیا۔ میں نے یونہی خواہ مخواہ امرت کور کو اپنے ذہن پر سوار کر لیا تھا۔ یہ ایسے اتفاق ہی ہو گا جو میں اپنے ساتھ جوڑنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ میں خاموش تھا اور وہ دونوں باتیں کرتے جارہے تھے۔ بھان سنگھ اور پریت کور دونوں کزن تھے۔ چاچے تائے کی اولاد، دونوں ہی اکلوتے تھے۔ ان دونوں کے والدین میں یہ طے ہو چکا تھا کہ ان کی شادی کر دی جائے گی۔ اس لیے وہ ایک دوسرے سے خاصے بے تکلف تھے۔ تبھی ایک خیال میرے ذہن میں آگیا کہ بھان سنگھ نے پریت کور کو میرے بارے میں ضرور بتا دیا ہو گا کہ میں یہاں کیوں آیا ہوں۔ یاممکن ہے نہ بتایا ہو۔ سو خاموشی ہی ٹھیک تھی۔
    تقریباً پچیس منٹ کے سفر کے بعد وہ بڑی سڑک پر سے ایک ذیلی سڑک پر مڑ گیا اور اس کے ساتھ ہی خوشی سے لبریز لہجے میں بولا۔
    ”لے بھئی بلال….! آگئے اپنے گاؤں وہ دیکھ سامنے“۔
    میں نے دیکھا سامنے کچھ فاصلے پر گاؤں نظر آرہا تھا۔ وہ خاصا بڑا گاؤں تھا۔ ان میں ایک بھی گھر مجھے کچا دیکھنے کو نہیں ملا۔ ممکن ہے کوئی ہو۔ تاہم اردگرد کی زرخیز فصلوں سے میں ہی اندازہ لگا سکتا تھا کہ اس گاؤں کے لوگ خوشحال ہوں گے۔ اس گاؤں میں سب سے اونچا ایک مینار نما برج تھا جو دور ہی سے دکھائی دے رہا تھا۔ میں نے اس کے بارے میں پوچھا۔
    ”وہ گرو دوارہ ہے…. سنت ہردوار جی کی یاد میں بنایا ہے۔ امرت کور یہیں روزانہ آتی ہے۔ ابھی ہم اس کے قریب ہی سے گزر کر جائیں گے“۔ بھان سنگھ نے عام سے انداز میں کہا تو پریت کور تیزی سے بولی۔
    ”ویسے بلال….! آپ کا آنا سر آنکھوں پر، ہمیں خوشی ہے کہ آ پ آئے، گرو کی مہر ہوتی ہے کوئی مہمان گھر میں آئے، لیکن یہ جس وجہ سے آپ کو یہاں لے کر آیا ہے نا…. مجھے کوئی یقین نہیں ہے اس پر“۔
    اس سے پہلے کہ میں کچھ کہتا، وہ تیزی سے بولا۔
    ”یار پریت بات سن….! تمہیں یقین نہیں ہے تو نہ سہی۔ پر یہ یاد رکھ، یقین کامل ہوتا ہے ، پیر کامل نہیں ہوتا“۔
    ”پر وہ کون سی سادھو سنت ہے پاگل عورت ہے“۔ وہ اکتائے ہوئے لہجے میں بولی۔
    ”اچھا ایک بات سن ، یہ بات میں نے تمہیں بتائی ہے۔ تم نے گھر والوں سے تو نہیں کی“۔ بھان سنگھ نے تشویش سے پوچھا۔
    ”نہیں، میں ایسی فضول بات نہیں کرتی، بلال کا سارا تاثر ہی ختم ہوتا، میں بھی تم سے یہ کہنے والی تھی، تم بھی ایسی کوئی بات نہ کرنا“۔پریت نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا۔ میں ان دنوں کی باتوں سے بہت کچھ اخذ کر چکا تھا اور اس وقت میرے ذہن میں یہی خیال آرہا تھا کہ بھان سنگھ نے محض میرا دھیان زویا سے ہٹانے کے لیے یہ سب کچھ کیا ہے۔مجھے بھان سنگھ پر غصے کی بجائےپیار آنے لگا تھا۔ میں مسکرا دیا۔ اس وقت ہم گاؤں میں داخل ہو چکے تھے۔
    پھر چند گلیاں پار کرنے کے بعد وہ ایک بڑی ساری حویلی نما گھر کے پھاٹک کے اندر گاڑی لے گیا اور پھر بڑے صحن میں ایک طرف گاڑ ی روک دی۔
    برآمدے میں گھر کے افراد بیٹھے ہوئے تھے۔ ہم دونوں آگے بڑھے، ہمارے پیچھے پریتو تھی۔ وہاں پانچ افراد تھے۔ جیسے ہی ہم ان کے قریب پہنچے ، بھان سنگھ ایک درمیان سے بدن والے لمبے قد کے ادھیڑ عمر شخص کے قدموں میں جھکا، اس نے جلدی سے بھان کو سینے سے لگا لیا۔ پھر وہ قریب کھڑے ایک موٹے سے شخص کے قدموں جھکا اس نے بھی بھان کو گلے لگا لیا۔ وہیں اور پتلی سی خواتین تھیں، وہ ان کے قدموں میں لگا، پھر قریب ہی چوکی پر
    بوڑھی خاتون کے پاس گیا اور اسے پیار سے ملا۔ ان سب سے ملنے کے بعد میری طرف متوجہ ہوا۔ جس ترتیب سے وہ ان کے ساتھ ملا تھا ویسے ہی تعارف کراتا گیا۔


    دوام – مکمل ناول پڑھنے کے لیے لنک پر کلک کریں


    ”یہ میرے باپو جی ہیں، سردار پردیب سنگھ جی“۔ اس نے کہا تو میں نے مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھایا۔ انہوں نے نہ صرف مصافحہ کیا بلکہ مجھے گلے لگا لیا۔ تبھی وہ بولا۔ ”اور یہ میرے چا چا جی سردار امریک سنگھ جی“۔ میں نے مصافحہ کیا تو انہوں نے بھی ایسے ہی گلے لگا لیا۔ ”یہ میری ماں جی اور یہ میر ی چا چی“۔ ان خواتین نے بھی باری باری میرے سر پر ہاتھ پھیر اور بڑے پیار سے اپنے ساتھ لگا کر اپنی محبت کا اظہار کیا۔ ”اور یہ ہے میری دادی پرونت
    کور…. ہمارے گھر کی سب سے بڑی….“میں ان کے پاس گیا وہ میری طرف بڑے غور سے دیکھ رہی تھیں۔ شاید ان کی نگاہ کمزور تھی، لیکن نہیں ، بات یہ نہیں تھی، وہ میری طرف یوں دیکھ رہی تھیں جیسے مجھے پہچاننے کی کوشش کر ہی ہوں، ان کے چہرے پر تعجب، حقیقت اور تجسس کے ملے جلے آثار تھے، جنہیں دیکھ کر میں چند لمحوں کے لیے الجھا تو سہی، لیکن پھر یہی سوچ کر اس الجھن کو خود سے دور کر دیا کہ ممکن ہے انہوں نے میری تصویر دیکھی ہو، بھان سنگھ نے لاتعداد تصویریں اپنے گھر میں بھجوا ئی تھیں۔ پرونت کور کی نگاہ مجھ میں ہی تھی۔ میں ان سب کے ساتھ وہیں کرسیوں پر بیٹھ گیا۔ جبکہ دونوں خواتین اندر چلی گئیں۔
    ”یہ میرا دوست ہے بلال، ہم اکٹھے ہی بریڈ فورڈ میں پڑھے ہیں۔ اب یہ پاکستان جا رہا تھا تو میں اسے اپنا گاؤں دکھانے کے لیے اپنے ساتھ لے آیا۔ دو چار دن کے بعد….“ وہ کہہ رہا تھا کہ پردیب سنگھ نے اسے ٹوکتے ہوئے کہا۔
    ”او نہ پتر اوئے….! دو چار دن نہیں، دو چار ہفتوں کی بات کر…. اب قسمت سے ہمارا مہمان بنا ہے، پھر پتہ نہیں یہاں آبھی سکے گا یا نہیں“۔
    ”وہ کچھ ویزے کا مسئلہ بھی ہو گا ۔ ابھی تو یہاں چوکی میں اس کے آنے کی اطلاع کرنی ہے“۔ بھان سنگھ نے کہا۔
    ” وہ میں تھانے دار کو بلوا کر کہہ دوں گا۔ بہر حال جب تک پتر بلال کا دل کرے یہاں رہے۔ مہمان تو رب کی مہربانی ہوتے ہیں“۔ ان باتوں کے بعد وہ ہماری پڑھائی، لندن کا ماحول،گاؤں کی باتیں کرنے میں مشغول ہو گئے۔
    اس دوران وہ دونوں خواتین ہمارے سامنے چائے کے ساتھ بسکٹ، حلوے اور نہ جانے کیا کیا رکھ دیا۔ سب کچھ بہت مزے کا تھا۔ تبھی انیت کور بولیں۔
    ”اچھا پتر….! اب تم دونوں آرام کرو، اتنا سفر کر کے آئے ہو۔ میں تم لوگوں کے لیے کھانا بتاتی ہوں“۔ پھر میری طرف دیکھ کر بولیں۔ ”پتر بلال ….! آج تو تمہیں یہاں گوشت نہیں مل سکے گا۔ یہاں کوئی مسلمان گھرانہ تو ہے نہیں جو وہ تم لوگوں کے طریقے کے مطابق گوشت بنائیں۔ تم بنا لینا۔ میں تمہیں پکادوں گی۔ باقی گاؤں کی جو چیزکہو گے وہ مل جائے گی۔ اپنی پسند بنا دینا“۔
    ”ماں….! آپ جو بھی بنا کر کھلائیں گی، میں وہ شوق سے کھالوں گا۔ بہت عرصہ ہو گیا ماں کے ہاتھ کا بنا کھانا نہیں کھایا“۔
    میں نے یونہی جذباتی ہوتے ہوئے کہا۔ ان کا گھر دیکھ کر مجھے اپنے شدت سے یاد آنے لگے تھے۔
    ”ماں صدقے جائے، جو کہے گا میں اپنے پتر کو کھلاؤں گی۔ جاؤ اب آرام کرو، جا بھان لے جااسے اپنے کمرے میں“۔ انیت کور نے صدقے واری جاتے ہوئے کہا۔
    ہم دونوں وہاں سے اٹھے اور کمرے کی جانب چل دیئے۔ وہاں بیٹھے ہوئے ایک بات میں نے خاص طور پر نوٹ کی تھی۔ پرونت کور مسلسل میری طرف دیکھتی رہی تھی۔ وہ جو حیرت، تعجب اور تجسس میں نے ان کے چہرے پر دیکھا، وہ ذرا بھی کم نہیں ہوا تھا۔ میں نے محسوس کیا کہ جب تک میں وہاں سے ہٹ نہیں گیا۔ ان کی نگاہ مجھ میں ہی رہی تھی۔ اب پتہ نہیں وہ کیا سوچ رہی تھیں۔ ہم سیڑھیاں چڑھ کر اوپر والی منزل پر موجود ایک کشادہ کمرے میں آ گئے تھے۔ جہاں ایک طرف کھڑکی سے گاؤں کے گھر اور پھر اس سے آگے کھیت کھلیان دکھائی دے رہے تھے۔”اس طرف کی زمینیں ہماری ہیں، شام کو ادھر چلیں گے“۔
    ”وہ تو ٹھیک ہے یار، امرت کور سے کب ملیں گے“۔ میں اپنے اندر کے تجسس پر قابو نہ رکھ سکا۔
    ”لو یار اس سے بھی مل لیں گے۔ فی الحال تو ایزی ہو اور سو جا۔ اس وقت وہ گرودوارے میں ہو گی، یا چلی گئی ہو گی۔ کل صبح صبح اس کے لیے نکلیں گے“۔ بھان سنگھ نے گاؤں میں آ کر بھی ایک دن انتظار کا علان سنا دیا۔ اس پر میں خاموش رہا۔ پھر ایزی ہو کر بستر جا لیٹا۔ کچھ دیر بعد مجھے ہوش نہ رہا کہ میں کہاں ہوں۔
    دوپہر کے بعدایک بڑا سارا دستر خوان زمین پر بچھا دیا گیا ۔ اس پر گھر کے سبھی افراد بیٹھے ہو ئے تھے۔ درمیان میں کھانا رکھا ہوا تھا۔ ہمارے بیٹھتے ہی چا چی جسمیت کور نے کھاناسرو کیا۔ پرتیو بالکل ہمارے سامنے بیٹھی ہوئی تھی۔
    پرونت کور کے چہرے پر اب بھی تجسس، تعجب اور حیرت تھی لیکن بہت حد تک کم ہو چکی تھی۔ جس پر میں نے دل ہی دل میں شکر ادا کیا۔ نہ جانے وہ اپنے دماغ میں کیا لے بیٹھی ہوئی ہیں۔ اس وقت میرے ذہن میں یہی تھا کہ یہ بوڑھی پرونت کور تقسیم ہند کے وقت بلاشبہ جوان ہوں گی اور اس وقت کے لوگوں کے دلوں میں مسلمانوں کے خلاف بے انتہا نفرت تھی۔ یہ نفرت کیوں تھی اور کس نے پیدا کی، مجھے اس سے سروکار تو نہیں تھا، لیکن یہ
    حقیقت کہ اس نفرت کے شاخسا نے میں مہاجرین کے لیے پاکستان پہنچ جانا آگ کا دریا عبور کرنے کے مترادف ہو گیا تھا۔ میں نے اپنے دادا جی سے بہت ساری باتیں سنی تھیں۔ وہ بھی ہجرت کر کے ہی پاکستان پہنچے تھے۔ انہوں نے جو بتایا تھا، اگر میرے ذہن میں بھی ویسا ہی کچھ تازہ ہو جاتا تو میں اس سکھ گھرانے کے ساتھ بیٹھ کر کھانا تو کیا، ان کے ساتھ بات کرنا بھی مناسب نہ سمجھتا، ممکن ہے پرونت کور کے دماغ میں وہی نفرت کلبلا رہی ہو۔ اسے میرا
    وجود اس گھر میں بہت برا لگ رہا ہو۔ یہ بھی ممکن تھا کہ اس کے مذہبی عقائد ایسے کٹڑ قسم کے ہوں کہ وہ ایک مسلم کو اپنے گھر میں برداشت نہ کر پار ہی تھی۔ ایسے ہی کئی خیال میرے دماغ میں آتے چلے گئے۔ کھانا بہت اچھا اور لذیذ تھا۔ گوشت کے علاوہ وہاں دال اور سبزیوں سے بنائی گئی ڈشیں، حلوے اور کھیر نہ جانے کیا کچھ تھا۔ تاہم اس کھانے کی لذت کو پرونت کور کی نگاہیں کرکرا کر رہی تھیں۔ بھان اپنے گھر والوں سے گپ شپ کرنے لگا تو میں
    وہاں سے اٹھ کر کمرے میں چلا گیا۔ تاکہ وہ اپنے گھر کی باتیں کھل کرسکیں۔ میں بیڈ پر لیٹا تو مجھے پتہ ہی نہ چلا کہ کب نیند نے غلبہ پالیا۔ سہ پہر کے بعد جب مجھے بھان نے جگایا تو دیکھا پریت کور سامنے کھڑی ہے۔ مجھے جاگتا ہوا پا کر بولی۔
    ”فریش ہو کر جلدی سے نیچے آجائیں۔ بڑے باپو جی کے پاس تھانے دار آیا بیٹھا ہے ۔ آتے ہوئے اپنے کاغذات لیتے آئیے گا“۔
    ”اوکے….!“ میں نے سر ہلاتے ہوئے کہا تو وہ پلٹ گئی۔
    وہ ایک روایتی سکھ تھانے دار تھا۔ چائے پینے کے دوران ہی ضروری کاغذی کارروائی مکمل ہو گئی۔ چائے پی کر وہ چلا گیا۔ تب میں نے محسوس کیا کہ بھان کے باپو کی گاؤں میں خاص عزت اور احترام ہے۔ ورنہ مجھے گاؤں کی چوکی میں جا کر حاضری دینا پڑتی۔ ہم تینوں صحن ہی میں بیٹھے ہوئے تھے کہ انیت کور وہیں آگئی۔ وہ بھان سنگھ کی طرف دیکھ کر بولی۔
    ”پتر….! میں نے تیرے خیر سے گھر آنے پر گوردوارے میں ارداس رکھی ہے۔ اب جدھر جانا ہے ہو آؤ ، لیکن کل صبح جلدی اٹھنا ہے اور گرودوارے جانا ہے“۔
    ان کے یوں کہنے پر مجھے احساس ہوا کہ جیسے وہ بھان سنگھ کو نہیں اپنے خاوند کو سنا رہی ہیں کہ اِدھر اُدھر کہیں نہ جانا، صبح گرودوارے میں ارداس ہے۔ کیونکہ اس پر پردیپ سنگھ نے اپنی بیوی کو بڑے غور سے دیکھا تھا۔
    ”اچھا ماں جی“۔ بھان سنگھ نے احترام سے جواب دیا تو پردیپ سنگھ وہاں سے اٹھ گیا۔ انیت کور بھی اندر کی طرف چلی گئی۔ تب میں نے کہا۔
    ”اوئے بھان….! صبح سے تُو نے پریت کور کو ذرا بھی وقت نہیں دیا۔ میں چلتا ہوں کمرے میں اور تو….“
    ”پرتیو کا یہ مسئلہ نہیں ہے، میں گھر میں ہوں۔ اس کے لیے اتنا ہی کافی ہے۔ تو چل آکھیتوں کی طرف چلتے ہیں۔ بہت عرصہ ہوا ہے ادھر نہیں گیا۔ چل اٹھ“۔
    ”کیا تیرے ادھر گاؤں میں دوست نہیں ہیں“۔ میں نے اٹھتے ہوئے پوچھا۔
    ”ہیں….! مگر وہ شاید ہی ہوں اس وقت گاؤں میں ہر کوئی اپنے کام میں الجھا ہوا ہے۔ اتوار کو شاید ملیں۔ اگر کوئی ہوا بھی تو کل شام ہی کو ملیں گے“۔ اس نے یوں بے پروائی سے کہا جیسے اب گاؤں کے دوستوں کی اسے ضرورت نہیں ہے۔ ایک طرح سے وہ ٹھیک ہی کہہ رہا تھا۔ اس مشینی دور میں ہر کوئی اپنے اپنے کام کاج میں الجھا ہوا تھا۔ ہم دونوں حویلی سے نکلے تو پیدل ہی چلتے چلے گئے۔ اس وقت سورج مغرب میں چھپ گیا تھا۔ جب ہم واپس پلٹے۔
    اگلی صبح میں جلد ہی جگالیا گیا۔ ہم جب تیار ہو کر نیچے آئے تو سبھی نے صاف ستھرے اجلے لباس پہنے ہوئے تھے۔ پریت کور کی سج دھج دیدنی تھی۔ اس نے انڈوں کا حلوہ اور چائے ہمارے سامنے رکھتے ہوئے کہا۔ ”جلدی سے چائے پی لو اور، آجانا گرو دوارے ہم جارہے ہیں“۔
    ”سوہنیو، آپ چلو، ہم آپ کے پیچھے پیچھے ہی آرہے ہیں“۔ بھان سنگھ نے خوشگوار لہجے میں کہا اور حلوے کی طرف ہاتھ بڑھا دیا۔ میں ان دونوں کے چہرے پر پھیلی بھینی بھینی مسکراہٹ سے لطف انداز ہو رہا تھا۔ تبھی میں نے دیکھا دائیں طرف کے ایک کمرے سے پرونت کور بر آمد ہوئی۔ اس نے بھی صاف ستھرا لباس پہنا ہوا تھا، ہاتھ میں بڑی ساری لاٹھی جس کے سہارے وہ چل رہی تھی۔ حالانکہ اسے چا چی جسمیت کور نے سہارا دیا ہوا تھا۔ ایک لمحے کو اس نے میری طرف دیکھا اور پھر آگے بڑھ گئی۔ وہ سب پہلے صحن میں اکٹھے ہوئے، پھر باہر نکلتے چلے گئے۔
    ”یار….! سب گھر والے چل دیئے یہاں گھر کی نگرانی کے لیے کون ہے….“ میں نے پوچھا۔
    ”ملازم ہیں نا….“ یہ کہہ کر اس نے چائے کا بڑا سپ لیا۔ پھر ہم بھی چائے پی کر چل دیے۔حویلی سے نکلتے ہی مجھے خیال آیا۔
    ”یار یہ تم لوگوں کی کوئی مذہبی محفل ہو گی، میں اس میں کہیں….“
    ”او نہیں یار….! چلو تم“۔ یہ کہہ کر وہ چند لمحے رکا پھر چل پڑا“۔ یہ ارادس جو ہوتی ہے، ایک قسم کی تم اسے دعائیہ محفل کہہ لو، اس میں گرو گرنتھ صاحب پڑھی جاتی، جسے ہم پاٹھ کہتے ہیں۔ پھر کھڑے ہو کر گروجی کی فتح کی دعا ہوتی ہے۔ پھر اپنے لیے رب سے مانگتے ہیں۔ یہ ہر خوشی یا غمی کے موقع پر بنالی جاتی ہے“۔
    ”یار میں نے یہ نہیں پوچھا کہ تم کیا کرتے ہو، میں تو اپنے بارے میں پوچھ رہا ہوں کہ تم مجھے وہاں لے جا تو رہے ہو کہیں وہ….“ میں نے جان بوجھ کر فقرہ ادھورا چھوڑ دیا۔ میرے سامنے پرونت کور کا چہرہ آگیا تھا۔
    ”او نہیں….! تو میرے ساتھ وہاں ارداس میں میں بیٹھنا“۔ اس نے تیزی سے کہا تو میرے ڈھیلے پڑتے ہوئے قدم تیز ہو گئے۔ دراصل مجھے اندر سے یہ افسوس ہو رہا تھا کہ میں آج امرت کور سے نہیں مل پاؤں گا۔ آج کی صبح تو اس ارداس کی نذر ہو جائے گی۔ میں نے بھان سے نہیں کہا، کیونکہ بہر حال یہ اس کا مذہبی معاملہ تھا اور خصوصاً اس کی والدہ نے اس کا اہتمام کیا تھا۔ راستے میں وہ مجھے گرودوارے کے آداب بتاتا چلا گیا۔جسے میں نے بڑے غور سے سنا ۔ کچھ ہی دیر بعد ہم زرد چونے والی ایک بڑی ساری عمارت کے سامنے جارکے۔ ہم نے جوتے اتارکے ایک طرف رکھے پاؤں دھوئے اور اندر چلے گئے وہ ایک کھلی سی عمارت تھی چاروں طرف کمرے تھے۔ صرف داخلی دروازہ کھلا تھا، کمروں کے آگے بر آمدہ اور بالکل سامنے ایک ہال نما بڑا سارا کمرہ تھا۔ کافی سارے لوگ اس ہال کی طرف بڑھ رہے تھے۔
    ”یہاں عبادت کے لیے روزانہ اتنے ہی لوگ آتے ہیں؟“ میں نے انہیں دیکھ کر پوچھا۔
    ”نہیں ، آج ارداس ہے نا، یہ سب ماں جی کی دعوت پر آئے ہیں، گاؤں کے لوگ ہیں نا….“ بھان سنگھ نے اِدھر اُدھر دیکھتے ہوئے کہا۔ تبھی سامنے سے پرتیو آتی دکھائی دی جس کے ہاتھ میں بسنتی رنگ کا رومال پکڑا ہوا تھا۔ وہ
    میری طرف بڑھا کر بولی۔
    ”یہ سر پر باندھ لو، گرودوارے میں ننگے سر نہیں آتے“۔
    میں نے وہ رومال اس کے ہاتھ سے لے کر سر پر باندھ لیا اور پھر ہم تینوں اس ہال میں جا پہنچے۔ مرد حضرات ایک طرف اور خواتین ایک طرف بیٹھی ہوئی تھیں۔ ہمارے اندر داخل ہوتے ہی کچھ لوگ ہماری طرف متوجہ ہوئے،
    پھر وہ اس طرف متوجہ ہو گئے جہاں سیوا دار موجود تھا۔ اس کے آگے گرو گرنتھ صاحب پڑی تھی اور وہ چھور صاحب ہلا رہا تھا۔ کچھ دیر بعد ایک مذہبی آدمی جسے وہ لوگ گیانی کہتے تھے آگیا۔ وہ دھیمے لہجے میں تقریر کرنے لگا۔ ہم مردوں کی طرف بیٹھے ہوئے تھے۔ مجھے اس کی کچھ سمجھ آئی، کچھ نہ آئی اور پھر مجھے سمجھنے کی ضرورت بھی نہیں تھی۔ کچھ دیر بعد اس کی تقریر ختم ہو گئی تو لوگ دعائیہ انداز میں کھڑے ہو گئے، انہوں اپنے ہاتھ جوڑے اور جذب کے عالم میں اپنی اپنی دعا پڑھنے لگے۔ میں ان سب کی طرف دیکھنے لگا۔ ایک سپرطاقت کو ہر کوئی مانتا ہے۔ بس فرق یہ ہے کہ ہر کوئی اپنے انداز سے مانتا ہے۔ہر مذہبی آدمی یہی خیال کرتا ہے کہ وہ سچ کی راہ پر ہے۔ اب سچ کیا ہے۔
    اس کی تحقیق بہت کم لوگ کرتے ہیں۔ کچھ ہی دیر بعد وہ دعائیہ دورانیہ بھی ختم ہو گیا تو لوگ آرام دہ حالت میں آگئے۔
    ”اب کیا ہو گا؟“ میں نے پوچھا۔
    ”اب لنگر تقسیم ہو گا۔ ایک دوسرا کمرہ ہے۔ لوگ ادھر زمین پر بیٹھ جائیں گے اور لنگر….“ یہ کہتے ہوئے وہ ایک دم سے خاموش ہو گیا۔ پھر سرسراتے ہوئے انداز میں بولا۔”وہ …. امرت کور…. وہ سامنے…. جو ابھی ہال میں داخل ہوئی ہے۔ وہ جس نے سفید لباس پہنا ہوا ہے“۔
    ایک دم سے میرا خون کا دورانیہ تیز ہو گیا۔ میں نے داخلی دروازے کی طرف دیکھا۔ قابل رشک صحت کی مالک، ایک لمبے قد کی خاتون سب سے بے نیاز دھیمے قدموں سے چلتی ہوئی اس جانب بڑھ رہی تھی، جہاں منجی صاحب کے اوپر گرو گرنتھ صاحب دھری ہوئی تھی اور سیوا دار چھور صاحب ہلا رہا تھا۔ کسی نے بھی اس کی آمد کا نوٹس نہیں لیا تھا۔ یوں جیسے وہ اس سارے ماحول میں فالتو شے ہے۔ جیسے اس کا ہونا اور نہ ہونا ایک برابر ہے۔ میں نے غور
    سے اس کی طرف دیکھا۔ بلاشبہ اپنے دور میں وہ بہت خوبصورت خاتون رہی ہو گی۔ اچھا خاصہ قد کاٹھ، پتلی سی، گورے رنگ کی، سفید لباس میں مزید دمک رہی تھی، اس کے سارے بال چھپے ہوئے تھے۔ چہرے کے نقوش تیکھے، آنکھیں بڑی بڑی اور تیکھی چتون، گہری نیلی آنکھیں، جن میں سے تجسس اور ماورایت جھلک رہی تھی۔ تیکھا ناک، پتلے پتلے لب، گول چہرہ، لمبی گردن اور جسم کی ساخت ڈھیلے ڈھالے لباس میں چھپی ہوئی تھی۔ کسی نے
    اگر اس کی آمد کا نوٹس نہیں لیا تھا تو وہ بھی سب سے بے نیاز تھی۔ وہ سیدھی وہاں گئی ہاتھ میں پکڑ ہوا کٹورہ ایک طرف زمین پر رکھا اور اونچی آواز میں بولی۔
    ”آد ہ سچ، جگادسچ…. ہے بھی سچ…. نانک ہوسی بھی سچ….“
    (وہ ازل سے سچا ہے ا ور ابد میں بھی سچا ہے۔ اصل میں و ہ ہے ہی سچا۔ نانک وہ ہمیشہ سچ ہی ثابت ہو گا۔)
    یہ کہہ کر ا س نے گرو گرنتھ صاحب کے آگے سجدے کی سی حالت میں ماتھا ٹیک دیا۔ چند لمحے وہ اسی حالت میں رہی، پھر اٹھ کر کھڑی ہو گئی۔ اس نے دونوں ہاتھ جوڑ کر سینے کے برابر کر لیے تھے۔ اس کی آنکھیں بند تھیں اور نہ جانے کیا سوچے چلی جاری تھی، دعا مانگ رہی تھی، مناجات پڑھ رہی تھی،یا حمد کہہ رہی تھی، اس کے لب دھیرے دھیرے ہل رہے تھے۔ وہ جو بھی پڑھ رہی تھی مگر اس کا جذب متاثر کن تھا۔ اتنے لوگوں کے درمیان بھی وہ
    تنہا تھی، اس کو دیکھ کر یوں لگ رہا تھا کہ جیسے یہ سب اس کی نگاہ میں کچھ بھی نہیں ہے اور وہ ویرانے میں کھڑی اپنے رب کی حمد و ثناءکر رہی ہے۔ اس کا جذب دیکھ کر لگتا تھا کہ وہ اپنے آپ کو فنا کر چکی ہے۔ یہ فنائیت کیسی تھی؟ اس کے بارے میں بھلا کیا کہا جا سکتا تھا۔ تب اچانک وہ اونچی آواز میں بڑے نرم لہجے میں بولی۔
    ”سنجوگ ُ و جوگ ُ دوءِ کار چلاوہِ
    لیکھے آوہ ِ بھاگ
    آدیس ُ تِسَے آدیس ُ….“
    (وصل اور ہجر دونوں ہی اس دنیا کے کام چلاتے ہیں ہماری قسمت میں جو مقدر لکھ دیا گیا ہے، وہی ہمیں ملنا ہے۔)
    اس نے جو کہا تھا، وہ فوری طور پر میری سمجھ نہیں آیا تھا۔ میں نے تجسس آمیز نگاہوں سے بھان سنگھ کی طرف دیکھا تو وہ بولا۔
    ”یہ اس نے گرو گرنتھ صاحب کے ابتدائی حصے میں سے گرونانک جی مہاراج کا کلام پڑھا ہے“۔ یہ کہہ کر اس نے اِدھر اُدھر دیکھا اور پھر بولا۔ ”اب ایسے کرو آہستہ سے باہر نکلو، تاکہ ہم امرت کور کے باہر نکلنے سے پہلے نکل جائیں“۔
    وہاں موجود لوگ آہستہ آہستہ باہر نکل رہے تھے۔ چند منٹوں میں بڑے سکون سے ہال کے باہر آگئے۔ وہاں اردگرد کافی لوگ موجود تھے۔ بھان سنگھ ان سے مل رہا تھا۔ وہ گاؤں والے ہی تھے اور اس کی خیروعافیت سے واپس آجانے پر خوش تھے۔ ظاہر ہے میں ان کے لیے اجنبی تھا، وہ میرے بارے میں بھی متجسس تھے۔ مصافحہ کرنے کی حد تک میں ان سے ہاتھ ملاتا رہا۔ ہر مرد یا خاتون اپنے اپنے انداز میں باتیں کر رہی تھیں، لیکن ان کی طرف میرا
    دھیان نہیں تھا۔ میں تو امرت کور کے باہر نکلنے کا منتظر تھا۔ وہ کب باہر آتی ہے اور میں اس کے سامنے جا کر اپنے سر پر پیار لیتا ہوں۔ ایسا ہی کچھ حال بھان سنگھ کا بھی تھا۔ وہ تھوڑی بہت بات کر کے انہیں لنگر خانے کی طرف جانے کی راہ دکھا رہا تھا۔ اس وقت بھی ہمارے پاس کچھ لوگ کھڑے باتیں کر رہے تھے، جب امرت کور ہال سے باہر نکلی، وہ مست الست حالت میں ننگے پاؤں باہر آئی۔ وہ صحن بھی گرودوارے کا ایک حصہ ہی تھا۔ بھان سنگھ نے مجھے ٹہوکا کا دیا تو میں فوراً اس کے سامنے جا کھڑا ہوا۔ اس نے اپنی گہری نیلی آنکھوں سے میری طرف دیکھا۔ ایک لمحے کے لیے ان آنکھوں میں اجنبیت تھی۔ پھر اگلے ہی لمحے اس کے چہرے پر خوشی کا سورج طلوع ہو گیا۔ ساکت و صاحت ، جذبات سے بے نیاز چہرے پر جیسے خوشیاں پوری طرح آ کر رقص کناں ہو گئی تھیں۔ سفید چہرہ ایک دم سے سرخ ہو گیا۔ پلکوں سے لے کر گالوں تک سے خوشی پھوٹنے لگی تھی۔ وہ اس قدر خوشی سے بھرپور تھی کہ
    دھیرے دھیرے لرزنے لگی۔ وہ بنا پلکیں جھپا کے ایک ٹک میری طرف دیکھتی چلی جارہی تھی۔ اس کے ہونٹ ہولے ہولے لرزنے لگے تھے۔ جیسے وہ کچھ کہنا چاہتی ہے مگر کہہ نہیں پارہی ہے۔ اس کے پاؤں جیسے زمین نے باندھ لیے تھے۔ وہ بت بنی میری جانب دیکھے چلی جارہی تھی۔ کتنے ہی لمحے اسی حالت میں گزر گئے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ اس وقت میں امرت کور کی حالت دیکھ کر اندر سے خوف زدہ ہو گیا تھا کہ یہ کیا ہو گیا ہے اسے؟ ممکن ہے
    میری طرح کچھ اور لوگوں نے بھی یہ محسوس کیا ہو۔ مگر میں اس وقت امرت کور کے ٹرانس میں تھا۔ یوں جیسے اس کی تیز چمکتی ہوئی گہری نیلی آنکھوں نے مجھے باندھ لیا ہو۔ اس حالت میں چند منٹ گزر گئے۔ تبھی اس نے اپنا ہاتھ دھیرے دھیرے اٹھایا اور میرے سر پر رکھ دیا ۔ اس کے ساتھ ہی وہ آسمان کی طرف دیکھ کر بولی۔
    ”واہ گرو دی جے۔ اتے واہ گروہ دی فتح“۔ پھر میری طرف دیکھ کر بولی۔ ”تجھے آنا ہی تھاآگیا ہے نا تو میرے بچے رب نے میری سن لی…. اور سب سچ کر دیا جو میں چاہتی تھی۔ تُو آگیا….“
    یہ کہتے ہوئے اس نے پھر سے اپنا ہاتھ میرے سر پر سے اٹھایا۔ پھر وہ ہاتھ یوں بڑھائے جیسے کوئی ماں اپنے بچے کو گود میں لینا چاہتی ہے۔ میں ایک لمحے کو جھکا پھر میں آگے بڑھ گیا۔ اس نے زور سے پیار بھری شدت کے ساتھ مجھے بھینچ لیا۔ میں اس کے سینے کے ساتھ لگا ہوا تھا۔ اس میں سے ایک الگ خوشبو کا احساس میرے اندر سرائیت کر گیا۔ وہ بالکل ایک انوکھی مہک تھی، جسے میں کوئی نام نہیں دے پاتا ہوں اور نہ ہی اس کی کوئی مثال میرے سامنے
    تھی۔ اس کا دل اس قدر تیزی سے دھڑک رہا تھا کہ جیسے ابھی سینے سے نکل کر باہر آ جائے گا۔ چند لمحوں تک وہ مجھے اپنے ساتھ بھینچے رہی، پھر آہستگی کے ساتھ چھوڑتے ہوئے میرے چہرے کو اپنے دونوں ہاتھویں لے لیا۔ میری طرف دیکھتی رہی۔ پھر مسکراتے ہوئے زور سے بولی۔

    رائیں سائیں سبھیں تھائیں، رب دیاں بے پروائیاں….
    سوہنیاں پرے ہٹایاں نیں تے کوجھیاں لے گل لائیاں….
    جیہڑا سانوں سیّد سدے، دوزخ ملن سزائیاں….
    جو کوئی سانوں رائیں آکھے، بہشتیں پینگھاں پائیاں….
    جے تو لوڑیں باغ بہاراں چاکر ہو جا رائیاں۔

    حضرت بلھے شاہ سرکار کے کلام میں سے آگے پیچھے کر کے اس نے بڑے رسان سے پڑھا اور پھر میرے چہرے کو اس نے چھوڑ دیا۔ پھر جیسے اسے کچھ یاد آگیا۔ وہ تیزی سے واپس ہال کی طرف پلٹی اور تیز تیز قدموں سے اندر چلی گئی۔ میں نے ساتھ کھڑے بھان سنگھ کی طرف حیرت سے دیکھا تو وہ مجھ سے بھی زیادہ حیرت میں ڈوبا ہوا کھڑا تھا ۔ اس کی آنکھیں پھیلی ہوئی تھیں اور چہرے پر انتہائی تجسس پھیلا ہوا تھا۔ ایسی ہی حالت وہاں پر کھڑے چند خواتین و حضرات کی بھی تھی وہ سب تجسس حیرت اور تعجب سے میری طرف دیکھ رہے تھے۔ ان کے چہروں پر بھان سنگھ سے بھی زیادہ سولات پڑھے جا سکتے تھے۔ میں کافی حد تک پریشان ہو گیا۔ کیونکہ سب کی نگاہیں مجھ پر ٹکی ہوئی تھیں اور کوئی ایک لفظ بھی نہیں کہہ پارہا تھا۔ میرے پاس کوئی لفظ نہیں تھے کہ میں کچھ کہتا۔ وہاں جو بھی تھے سب ٹرانس کی حالت میں تھے۔ جیسے کسی نے ان پر جادو کر دیا ہو۔ وہ حیرت سے تکے جارہے ہیں۔ اس سے پہلے کہ کوئی بات کرتے امرت کوراسی تیزی سے واپس پلٹ آئی۔ اس کے ہاتھ میں وہی کٹوری تھی جو وہ اپنے ساتھ لے کر آئی تھی۔اس میں زرد رنگ کا حلوہ تھا۔ اس نے اپنی دو انگلیوں اور انگوٹھے سے ذرا سا حلوہ لیا اور میری طرف بڑھایا تاکہ میں کھا لوں۔ میں ایک لمحے کو جھجکا پھر وہ حلوہ کھالیا۔ بہت لذیذ حلوہ تھا۔ وہ سوجی، آٹے کا حلوہ تھا۔
    اس نے مجھے دو چار لقمے کھلائے، پھر کٹوری بھان سنگھ کی طرف بڑھاتے ہوئے بولی۔
    ”لے پتر کھا….! میٹھی مراد دی ہے تو میٹھی مرادپا…. جب تک میں نہ کہوں…. اسے یہاں سے جانے نہ دینا۔ واہ گرو کی مہر ہو تم پر….“۔
    اس نے کہا چند لمحے میری طرف دیکھا اور پھر بے نیازی سے گرو دوارے سے باہر نکلتی چلی گئی۔ میرے سمیت سب اسے حیرت سے دیکھتے رہے جب تک وہ باہر نہیں چلی گئی۔ تبھی ایک بوڑھی سی خاتون شدت جذبات میں بولی۔
    ”واہ پترواہ….! تجھ میں ایسی کیا بات ہے جو اتنے برس کی خاموشی توڑ دی امرت کی۔ آج پہلی بار اسے یوں بولتے ہوئے سنا ہے“۔
    اس کے یوں کہنے پر میں بری طرح چونک گیا۔ مجھ میں ایسی کون سی بات ہو سکتی ہے کہ وہ مجھے دیکھ کر اپنی خاموشی توڑنے پر مجبور ہو گئی ہے؟ میرے پاس اس سوال کا جواب نہیں تھا، لیکن میرے اردگرد کھڑے لوگ اپنے اپنے طور پر تبصرہ آرائی کرنے لگے تھے۔ میں ان سب کی نگاہوں میں تھا۔ یہ ضروری نہیں تھا کہ میرے لیے سب کی نگاہوں میں مثبت انداز ہی ہو۔ وہ اپنے طور پر پتہ نہیں کیا سوچ رہے تھے۔ تبھی بھان سنگھ نے میرے بازو سے مجھے مضبوطی کے ساتھ پکڑا اور گرو دوارے کے باہر چلنے کا اشارہ کیا۔ میں تیزی کے ساتھ چل پڑا۔ اپنے جوتے اٹھا کر پہنے اور گرودوارے کے باہر آ کر میں نے ایک طویل سانس لیا۔
    ” یہ کیا ہو گیا یار….؟“ بھان سنگھ نے یوں پوچھا جیسے یہ سب کچھ اس کی سمجھ میں نہ آیا ہو۔ تب میں نے اپنے حواس بحال کرتے ہوئے کہا۔
    ”میں کیا کہہ سکتا ہوں یار….! جب تُو کچھ نہیں سمجھ سکا تو مجھے کیا سمجھ آئی ہو گی“۔
    ”یہ تو انہونی ہو گئی یار، وہ اتنے برس صرف اس ہال میں شری گرنتھ صاحب کے سامنے ہی بولی ہے۔ کبھی کسی نے باہر اسے بولتے ہوئے نہیں سنا، اور پھر ان شبدوں پر غور کرو، جو اس سے تم سے کہے…. ضرور اس میں کوئی بات ہے۔ ان شبدوں میں، تم میں…. اور میں اس کی خاموشی ٹوٹنے میں کوئی تعلق کوئی رشتہ ضرورہے“۔ اس کی حیرت ابھی تک کم نہیں ہوتی تھی۔
    ”دیکھ بھان….! اب اگر تمہاری اس مذہبی محفل میں مطلب ارداس میں تمہاری ضرورت ہے تو تم جاؤ اندر، میں حویلی تک چلا جاﺅں گا۔ واپس آؤ گے نا تو اس پر بات کرتے ہیں“۔ میں نے اس کا دھیان بٹانے کے لیے کیا۔
    کیونکہ مجھے بھی سمجھ نہیں آرہا تھا تو میں اس کے ساتھ کیا بحث کرتا۔ اس وقت میں خود تنہائی کی شدت سے طلب محسوس کر رہا تھا۔بھان نے میرے چہرے پر دیکھا۔ پھر نفی میں سرہلاتے ہوئے بولا۔
    ”نہیں….! دونوں چلتے ہیں حویلی…. وہیں بات کرتے ہیں“۔ اس نے کہا تو ہم دونوں حویلی کی جانے چل دیئے۔ہمارے ساتھ ایک انجانی خاموشی بھی چل دی

    جاری ہے
    **************

  • تقسیم کی ادھوری کہانی – امرت کور

    تقسیم کی ادھوری کہانی – امرت کور

    زویا سے میری پہلی ملاقات بریڈ فورڈ ہی میں ہوئی تھی۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب مجھے وہاں گئے چند دن ہوئے تھے۔ میرا ابھی وہاں کوئی دوست نہیں بنا تھا۔ بس چند پاکستانی شناسا تھے یا پھر یہ بھان سنگھ تھا اس دن ہم کھانے پینے کے لیے کینٹین پر گئے تھے جو کہنے کو کینٹین ہے لیکن اچھا خاصا ریستوران ہے۔ وہاں انڈین فوڈ کے نام پر کچھ پاکستانی کھانے بھی مل جاتے تھے۔ ہم اس دن چار یا پانچ شناسا وہاں گئے تھے۔ ہمارے درمیان اتنی بے تکلفی بھی نہیں تھی۔ جیسے ہی ہم وہاں بیٹھے تو میری نگاہ لڑکیوں کے ایک گروپ پر پڑی۔ وہ بھی چند ایک ہی تھیں لیکن ان میں زویا بالکل ہی منفرد دکھائی دے رہی تھی۔ اس وقت میں زویا کا نام تک نہیں جانتا تھا۔ اس کی انفرادیت یہ تھی کہ اس نے اپنے سر پر سیاہ رنگ کااسکارف لیاہوا تھا اور عبایا طرز کے لبادے میں اپنا بدن ڈھکا ہوا تھا۔ سیاہ اسکارف میں اس کا گورے رنگ کا چہرہ دمک رہا تھا۔ اس کے پتلے پتلے ہونٹوں پر دھیمی دھیمی مسکراہٹ تھی۔ بڑی بڑی سیاہ آنکھوں سے وہ سامنے والی لڑکی کی طرف دیکھتے ہوئے اس کی بات بڑے غور سے سن رہی تھی۔ تیکھا ناک اور بھرے بھرے گال والی زویا، انہی لمحوں میں سیدھی میرے دل میں اتر گئی۔ وہ میرے دل میں کس قدر گھر کر چکی ہے، اس کا احساس مجھے اس وقت ہوا جب وہ اٹھ کرچلی گئی۔ تب سارا ریستوران ہی سُونا ہو گیا۔ میں چونکا اس وقت جب ایک پاکستانی شناسا کلاس فیلو اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہہ رہا تھا۔
    ”میں پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ اسکارف والی لڑکی پاکستان سے ہے، چند دن ایسے ہی رہے گی اور پھر چند مہینوں یہ یہاں کی انگریز لڑکیوں کو بھی پیچھے چوڑ جائے گی“۔
    ”تم یہ دعویٰ کیسے کر سکتے ہو؟“ میں نے یوں کہا جیسے مجھے اس کی بات بہت بری لگی ہو۔
    ”او یار !ایسے ہی ہوتا ہے پہلے پہل یہ بڑی نیک پروین بنتی ہیں اور پھر جو اپنا رنگ دکھاتی ہیں، تب دیکھنے والی ہوتی ہیں“۔ اس نے اپنے طور پر تبصرہ کیا۔ میں اس پر کچھ کہہ نہیں سکتا تھا، ممکن ہے اس کے تجربے میں ایسی کوئی بات ہو، لیکن زویا کے بارے میں اس کا یہ تبصرہ مجھے ذرا بھی اچھا نہیں لگا تھا۔ پھر کھانے اور دوسری باتوں کے دوران یہ بات آئی گئی ہو گی۔
    اگلے دن یہ جان کر خوشگور حیرت ہوئی کہ وہ میری کلاس فیلو ہے۔ اگرچہ اس سے بات کرنے، اس سے ملنے یا تعارف کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں تھی لیکن ایک فطری جھجک نے مجھے روکے رکھا۔ اس طرح کئی ہفتے گزر گئے اور ہم دونوں میں ایک لفظ کا بھی تبادلہ نہیں ہوا۔ اس دوران میں نے محسوس کیا کہ وہ صرف لڑکیوں ہی میں زیادہ تر رہنا پسند کرتی ہے۔ کلاس اور کینٹین ہی دوایسی جگہیں ہوا کرتی تھیں جہاں ہمارا آمنا سامنا ہوتا۔ ان دونوں جگہوں پر وہ لڑکیوں ہی میں گھری دکھائی دیتی تھی۔ چند لڑکیوں میں اچھی خاصی تبدیلی آگئی تھی۔ وہ شلوار قمیص کی جگہ پتلون یا جینز پہننے لگی تھیں۔ مگر زویا نے نہ اسکارف اتارا اور نہ ہی عبایا۔ جس طرح میں نے اسے پہلے دن دیکھا تھا،وہ وہی تھی۔ نہ جانے کیوں میں دل ہی دل میں یہی چاہتا تھا کہ زویا ویسی کی وہی ہی رہے۔ وہ خود کو نہ بدلے ۔ میں نے اسے کبھی تنہا نہیں دیکھا تھا۔ شاید اس کے اندر مشرقی لڑکی بہت مضبوط تھی۔
    وہ خزاں کے آخری دن تھے۔ یخ ہوا نے خوشگواریت میں بدلنا شروع کر دیا تھا۔ میں ان دنوں ہاسٹل میں رہتا تھا۔ اس دن میری کلاس کودیر ہو گئی تھی اور میں تیزی سے اپنے کلاس روم جانے کے لیے جارہا تھا اچانک دائیں طرف کی راہ سے مجھے زویا آتی ہوئی دکھائی دی۔ پہلی بار میں نے اسے تنہا دیکھا تھا۔دن کے پہلے پہر میں ہاسٹل سے نکلتے ہی اس سے سامنا ہو جانے پر میں انتہائی خوشگواریت محسوس کرنے لگا۔ ہم دونوں تقریباً ایک ساتھ ہی کلاس روم جانے والے راستے پر آگئے۔ تبھی اس نے بڑے اعتماد سے مجھے السلام علیکم کہا، تب میں نے اسے پُر شوق انداز میں جواب دیا تو اس نے پوچھا۔
    ”آپ لاہور سے ہیں؟“
    ”ہاں…. اور آپ….؟“ میں نے پُرتجسس انداز میں پوچھا۔
    ”میں بھی وہیں کی ہوں، آپ کے بارے میں چند دن پہلے پتہ چلا ہے“۔اس نے یوں کہا جیسے بڑی اہم معلومات مجھے دے رہی ہو۔ تب تک ہمارا وہ چند قدم کا فاصلہ طے ہو گیا تھا۔ تب میں نے کہا۔


    اس ناول کی گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے لنک پر کلک کریں


    ”کلاس کے بعد اگر آپ فری ہوں تو؟“
    ”ہاں کیوں نہیں، میں یہیں آپ کا انتظار کروں گی“۔ اس نے خوشگواریت سے کہا اور ہم کلاس میں داخل ہو گئے۔ اس دن مجھ سے اچھی طرح نہیں پڑھا گیا۔ میں یہی سوچتا رہا کہ اس سے کیا باتیں کروں گا۔ اس دن کلاس بھی مجھے طویل لگی۔ یوں خود سے الجھتے ، سوچتے اور خود کلامی کرتے کلاس ختم ہو گئی۔ میں نے جان بوجھ کرکلاس روم سے نکلتے ہوئے دیر کی۔ تب میں نے دیکھا، وہ راستے کے کنارے کھڑی ہوئی تھی۔ میں اس کے قریب پہنچا اور کہا ۔ ”آئیں کینٹین میں چل کر بیٹھتے ہیں“۔
    ”سوری بلال….! میرے پاس اتنا وقت نہیں ہے۔ میں نے آج ہی لندن کے لیے نکلنا ہے۔ تھوڑا سا وقت ہے، چونکہ میں نے آپ سے وعدہ کیا تھا، سو یہاں منتظر تھی“۔ اس نے معذرت خواہانہ انداز میں کہا۔
    ”آپ نے تنہا جانا ہے یا ساتھ میں کوئی دوسرے بھی ہیں“۔ میں نے اس سے پوچھا۔
    ”نہیں، میں نے تنہا جانا ہے۔ دراصل وہاں ہمارے کچھ رشتے دار رہتے ہیں۔ میں ایک ویک اینڈ ان کے ساتھ گزارتی ہوں۔ اس لیے معذرت۔ ویک اینڈ کے بعد ہم بہت ساری باتیں کریں گے“۔ اس نے مسکراتی ہوئی آنکھوں سے کہا۔
    ”اوکے…. ! تم جاؤ“۔ میں نے خوش دلی سے کہا تو سلام کر کے اس راہ پر مڑ گئی۔ جدھر ان کا ہوسٹل تھا۔ بلاشہ اسے ہاسٹل پہنچے کے لیے بھی وقت چاہئے تھا۔
    ویک اینڈ کے بعد میری اور اس کی طویل ملاقات ہوئی۔ زویا، ایک پیر گھرانے سے تعلق رکھتی تھی۔ پنجاب کے ایک دورافتادہ علاقے میں درگاہ تھی۔ جہاں ان کا خاندان متولی تھا۔ کچھ عرصہ پہلے تک وہ اتنے کشادہ ذہن نہیں تھے کہ اپنے بچوں کو اور خصوصاً بچیوں کو اتنی دور تعلیم کے لیے بھیج سکیں۔ چونکہ یہ اکلوتی تھی اور اس کے والد یہاں سے پڑھ کر جا چکے تھے۔ اس لیے اسے بھی اجازت مل گئی۔ و ہ سیّد تھے۔ ان کے خاندان کا سیاسی پس منظر بھی تھا۔ اس کے کزن بھی دنیا کے مختلف تعلیمی اداروں میں پڑھ رہے تھے۔ زویا کو پوری امید تھی کہ وہ اپنے خاندان کی سیاسی وارث ضرور ثابت ہو گی۔ میں اس کا تعارف سن کر ہی بہت متاثر ہوا۔ دولت کی ان کے پاس کمی نہیں تھی اور حکومتی ایوانوں تک ان کی رسائی تھی۔ میں اس کے تعارف سے اس لیے متاثر ہوا تھا کہ ایسے گھرانوں کی لڑکیاں اس طرح دیارغیر میں تعلیم حاصل کرنے نہیں آتیں، لیکن ایک طرف جہاں زویا کی ضد تھی کہ وہ بریڈ فورڈ پڑھنے جائے گی تو دوسری طرف ان کی کچھ خاندانی کی مجبوریاں بھی تھیں۔ اس کا باپ نہیں چاہتا تھا کہ زویا کسی طرح بھی اپنے خاندان کے لڑکوں سے پیچھے رہے اور احساس کمتری میں مبتلا ہو جائے۔ یہاں ان کی اپنی سیاسی ساکھ کا بھی سوال تھا۔
    ”تم نے اپنے بارے میں نہیں بتایا بلال؟“ زویا نے اپنے بارے تفصیل سے بتا کر مجھ سے پوچھا تو میں نے بڑے انکسار سے کہا۔
    ”میرے پاس بتانے کے لیے کیا ہے؟ دادا جی زمینداری کرتے رہے اور والد صاحب بزنس میں آگئے بھلے وقتوں میں انہوں نے ایک فوڈپراڈکٹ کی فیکٹری لگائی تھی جو اب پورے پاکستان میں مشہور ہے“۔
    ”تو سیدھا کہو نا تم لوگ صنعت کار ہو“۔ اس نے ہنستے ہوئے کہا۔
    ”میں تو نہیں ہوں نا ابھی“۔ میں نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا۔ پھر ہمارے درمیان دیگر موصنوعات پر باتیں ہوتی چلی گئیں۔
    اس پہلی طویل ملاقات کے بعد ہمارے درمیان اکثر لمبی لمبی باتیں ہوتیں۔ یہاں تک کہ اچھا خاصا مضبوط تعلق بن گیا۔ اس کے اور میرے ہاسٹل کے درمیان خاصا فاصلہ تھا۔ پہلے پہل وہ اپنا ویک اینڈ لندن میں گزارتی تھی۔ پھر میرے ساتھ گزارنے لگی۔ زندگی کا کون سا ایسا موضوع تھا جو ہمارے زیر بحث نہیں آیا۔ کچھ دوست مجھے چھوڑ گئے اور کئی دوستوں کو میں چھوڑ گیا، لیکن ایک یہی بھان سنگھ اور دوسرا اسد جعفری، یہ دونوں میرے دوست رہے۔ زویا کی اپنی چند سہیلیوں سے کمپنی تھی یا پھر وہ فقط میرے ساتھ ملتی۔ بریڈ فورڈ کی ہر جگہ ہم نے گھوم پھر لی۔ ایک دوبار لندن سے بھی ہو آئے۔ یوں ایک سال سے زیادہ عرصہ گزر گیا ۔
    ایک دن ایسے ہی میں، بھان سنگھ اور اسد جعفری ہم یونیورسٹی کے لان میں سبز گھاس پر بیٹھے ہوئے تھے کہ اسد نے اچانک کہا۔
    ”اوئے بلال….!یہ زویا سے تیرے تعلق کی گاڑی محبت کے اسٹیشن پر پہنچی ہے کہ نہیں یا ابھی نان اسٹاپ چلتے ہی چلے جارہے ہو“۔
    ”میں سمجھا نہیں، محبت مطلب …. وہ ایک اچھی دوست ہے اور بس….“ میں نے واقعتا اس کی بات نہ سمجھتے ہوئے کہا۔
    ”اوئے تُو اتنا معصوم بھی نہیں ہے۔ میں ہوتا نا تو اس وقت تک اس سے شادی بھی کر چکا ہوتا، جتنا تُو نے اس کے ساتھ وقت گزار دیا ہے۔ آخر اس تعلق کی کوئی منزل تو ہو گی نا یار؟“ اسد جعفری نے طنزیہ انداز میں کہا تو بھان سنگھ نے بھی اپنے خیال کا اظہار فرما دیا۔
    ”ہاں یار….! اسد ٹھیک کہہ رہا ہے۔ اتنی دیر میں تو بہت کچھ ہو جاتا ہے، تم ابھی دوستی ہی لیے پھرتے ہو“۔
    ”مجھے یہ سمجھ نہیں آرہی کہ کیا ہونا چاہئے مزید، بس چلتا ہے تو چلتا رہے، تم لوگوں کو کیا تکلیف ہے۔ ہمارے تعلق میں زویا کی وجہ سے کوئی….“ میں نے کہنا چاہا تو اسد جعفری نے تیزی سے کہا۔
    ”اونہیں….! تم ہمارے اچھے دوست ہو، ہمیں زویا سے بھی کوئی اعتراض نہیں۔ ہم تو یہ سننے کو بے تاب ہیں کہ حضور کو اس سے محبت ہو گی ہے۔ اس نے یا تم نے اظہار محبت کر دیا ہے اور ایک نئی لّو اسٹوری کے ہم گواہ بن جائیں؟“
    ”نہیں یار….! میں اس سے کبھی اپنے جذبات کا اظہار نہیں کروں گا۔ وہ کسی اور ہی دنیا سے تعلق رکھتی ہے اور میں کسی اور دنیا سے، میں اسے کسی مشکل میں نہیں ڈالناچاہتا۔ بس یہاں جو اچھا وقت گزر جائے، میں اسے ہی اپناحاصلِ زندگی سمجھ لوں گا“۔ میں نے پوری دیانت داری سے اپنے دل کا حال اس سے کہہ دیا۔
    ”لیکن اگر اس نے تم سے اظہارِ محبت کر دیا تو….؟“ بھان سنگھ نے پورے خلوص سے اور سنجیدگی سے پوچھا۔
    ”تب دیکھ لوں گا۔ کم از کم میں اسے کسی امتحان میں نہیں ڈالنے والا“۔ میں نے جواب میں کہا۔
    ”چلو اچھا ہے یار….! تمہارا پتہ تو چلا، میں تو سمجھ رہا تھا کہ تم یونہی فلرٹ کئے جارہے ہو۔ پر یہ دیکھ لو، اگر تم دونوں میں محبت ہو گئی نا، تو پھر واقعی بہت مشکل وہ جائے گا“۔ اسد نے کہا۔
    ”میں سمجھتا ہوں اس لیے محتاط ہوں“۔ میں نے اس کی بات سمجھ کر ہی جواب دیا۔ بھان سنگھ بھی سمجھتا تھا کہ آنے والے وقت میں ہمارے درمیان کیا رکاوٹیں آنے والی ہیں۔ سو بات وہیں پر ختم ہو گئی۔
    دو برس گزرنے کا پتہ ہی نہیں چلا۔ زویا میرے اس قدر قریب آگئی تھی کہ میں اس کے سوا کسی دوسرے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ بریڈ فورڈ جیسے ماحول میں کیا کچھ ایسا نہیں تھا، جسے میں اپنے تصرف میں نہ لے آتا۔ یہاں دوستی اور تعلق کے معنی ہی کچھ اور تھے اور تھوڑے عرصے کا تعلق چلتا اور ایک خاص منزل تک پہنچ کر ختم ہو جاتا، نئی ترجیحات سامنے آجاتیں۔ رستے بدل جاتے۔ زندگی کا لطف کئی ایسی دلچسپیوں میں دیکھا جاتا جو کم از کم مشرقی ماحول میں انتہائی ناپسندیدہ تھیں۔ ایسے ماحول میں میرا اور زویا کا تعلق عجیب سی نگاہوں سے دیکھا اور ہم دونوں ایک دوسرے سے تعلق نبھاتے چلے جارہے تھے۔ سوچے بغیر کہ کون ہمیں کس انداز میں دیکھتا ہے۔
    وہ ایک انتہائی خوشگوار شام تھی۔ جب میں اور زویا لندن میں دریائے ٹیمز کے کنارے بینچ پر بیٹھے ہوئے باتیں کر رہے تھے۔ تب اچانک میں نے اس سے پوچھا۔
    ”زویا….!تم نے کامرس کی تعلیم ہی کیوں پسند کی۔ ایسا کیا تھا جس نے تمہیں ایسا کرنے پر مجبور کیا۔ تم کوئی دوسری تعلیم بھی تو حاصل کر سکتی تھی جو آگے چل کر تیرے کام آئے“۔
    ”دنیا بدل رہی ہے بلال….! اگر میں سیاست میں آئی تو وہ میری مجبوری ہو گی۔ زمینداری مجھے بالکل پسند نہیں کیونکہ میں نے ہمیشہ خود کو صنعت کار سوچا ہے۔ میں اس شعبہ میں آؤں گی ضرور“۔ اس نے اپنے خیالوں میں نہ جانے کیا سوچتے ہوئے کہا۔ پھر میری طرف دیکھ کر مسکراتے ہوئے بولی۔ ”اور کیا میں ادب پڑھتی اور یہاں بیٹھ کر محسوس کرتی کہ دریائے ٹیمز کا پانی بہہ رہا ہے اور اس پر کیا رومانوی ماحول ہے۔ کتنے انگریز شاعروں نے کیا کیا جذبات کا اظہار کیا ہے۔ مجھے بتاؤ، اس کا آج کی زندگی پر کیا اثر ہے“۔
    ”زویا….! تم اپنے من سے رومانوی جذبوں کو الگ نہیں کر سکتی ہو، یہ بھی اسی طرح ضروری ہیں، جیسے کہ سانس لینا“۔ نہ جانے کیوں میں نے اپنی رو میں کہہ دیا۔ تب وہ انتہائی کی جذباتی انداز میں بولی۔
    ”میں مانتی ہوں بلال کہ محبت بھی انسان کے لیے اتنی ضروری ہے جتنی ہوا اس کے لیے اہم ہے۔ یہ جو ہمارے اردگرد رنگینیاں ہیں یہ ساری اسی وجہ سے ہیں، لیکن ….! اس کا حصول بھی کمتر درجے میں نہیں ہونا چاہئے۔ نہ جانے کیوں محبت کے بارے میں یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ اس میں ملنا ضروری ہے اور اس کے لیے اپنے ان پیاروں کو نظر انداز کر دینا جوان کی زندگی کا حصہ ہیں۔ ہم جس معاشرے سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہاں ہمیں بہت سارے لوگوں کے ساتھ جینا ہے۔ ان کی نگاہوں میں گر کر اپنی محبت کا حصول…. میں اسے محبت کی توہین سمجھتی ہوں“۔
    ”تم ایسا کیوں سوچتی ہو، اس کے برعکس بھی تو ہو سکتا ہے“۔ میں نے یونہی بات بڑھا دی۔
    ”ہونے کو تو کیا نہیں ہو سکتا، ہم ابھی اور اسی وقت ساری حدیں پار کر سکتے ہیں، لیکن اتنا وقت گزار دینے کے باوجود ہم نے ایسا کیوں نہیں کیا؟ ہمارے جسم ایک دوسرے کے لیے ابھی تک انجان جزیرے کیوں ہیں؟ یہ صرف اس لیے بلال کہ ہم ایک دوسرے کی عزت انتہائی درجے تک کرناچاہتے ہیں اور یہ عزت اس طرح سے ممکن ہے کہ ہم پورے مان اور وقار کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ چلیں۔ ورنہ بدن بھنبھوڑنے کی خواہش چند ٹکوں میں بھی پوری کی جا سکتی ہے“۔ اس نے انتہائی جذباتی انداز میں میرے چہرے پر دیکھتے ہوئے کہا۔


    دوام – مکمل ناول پڑھنے کے لیے لنک پر کلک کریں


    ”تم ٹھیک کہتی ہو زویا….! ہم ایک دوسرے کے اتنے قریب ہونے کے باوجود بھی بہت دور ہیں۔ اچھا ہے جب ہم یہاں سے چلے جائیں گے تو ہمیں ایک دوسرے کو بھولنے میں مشکل نہیں ہو گی“۔ میں نے خود پر قابو پاتے ہوئے سکون سے کہا تو وہ تڑپ اٹھی۔ اس نے شدت جذبات میں میرا ہاتھ پکڑ لیا اور تقریباً بھنچتے ہوئے کہا۔
    ”تم غلط کہہ رہے ہو بلال….! ہم ایک دوسرے کو بھول ہی نہیں سکتے، شاید تم بھول جاؤ، مگر میں نہیں، کیونکہ میں تم سے محبت کرتی ہوں۔ شدید محبت اور اپنی محبت کو کبھی کوئی نہیں بھلا سکتا“۔
    میں اس کے چہرے پر دیکھ رہا تھا۔ دھواں دھواں ہوتا ہوا چہرہ، لرزتے لب، بند آنکھوں کی تھرکتی ہوئی پلکیں جو دھیرے دھیرے آنسوؤں سے بھیگ رہی تھیں۔ وہ ہولے ہولے کانپنے لگی تھی۔ نہ جانے وہ اپنے اندر جذبات کا کس قدر جوار بھاٹا محسوس کر رہی تھی۔ تبھی میں نے ا س کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑتے ہوئے کہا۔
    ”زویا….! کیا تم مجھ سے اتنی شدید محبت کرتی ہو؟“
    ”ہاں….! شاید اس سے بھی کہیں زیادہ، میں چاہتی ہوں کہ اپنی باقی زندگی تمہارے ساتھ گزاوں، میری محبت نہ جانے مجھے کیسے کیسے خواب دکھاتی ہے، لیکن میں کسی کی اور اپنی نگاہوں میں گر کے تجھے نہیں پانا چاہتی۔ میں پورے عزت و وقار کے ساتھ تمہاری ہو جاناچاہتی ہوں۔ میں مانتی ہوں کہ ہمارے اس ملن میں بہت ساری رکاوٹیں آئیں گی۔ ان رکاوٹوں کو میں خود پار کرنے کی پوری کوشش کروں گی۔ مل گئے۔ تو ٹھیک ، ورنہ ہماری محبت کا سفررائیگاں تو نہیں جائے گا۔ میں تم سے اپنی آخری سانس تک محبت کرتی رہوں گی“۔ وہ لرزتے ہوئے لہجے میں کہتی چلی گئی تھی۔
    دریائے ٹیمز کے کنارے اس بینچ پر بیٹھنے سے قبل میرے ذہن میں بھی نہیں تھا کہ زویا اپنی محبت کا اظہار اس شدت سے کرے گی کہ مجھے بولنے کا موقع تک نہیں ملے گا۔ میں اس سے اختلاف کرہی نہیں سکتا تھا۔ اس لیے اس کا ہاتھ چھوڑتے ہوئے بولا۔
    ”میں اس سفر میں تمہارے ساتھ ہوں زویا“۔
    ”میں اپنے والدین کوتمہارے لیے قائل کرنے کی ہر ممکن کوشش کروں گی۔ انہیں مناؤں گی، وہ مان گئے تو ٹھیک ، وہ اپنے ہاتھوں سے مجھے تمہارے حوالے کر دیں گے تو ٹھیک، ورنہ میں اپنا آپ نہیں گراؤں گی۔ اس کے لیے تم مجھے معاف کر دینا“۔یہ کہتے ہوئے اس نے اپنا سر میرے کاندھے سے ٹکا دیا۔ میرے پا کہنے کے لیے کچھ نہیں تھا۔ اس لیے خاموشی ہمارے درمیان میں آئی۔ پھر کافی دیر یونہی خاموش بیٹھے رہنے کے بعد ہم وہاں سے اٹھ گئے۔
    زندگی میں ایک عجیب ٹھہراؤ آگیا ہوا تھا۔ زویا میری ہو گی یا نہیں؟ یہی سوال میری زندگی پرچھا گیا جس کا جواب ابھی وقت کی پنہایوں میں تھا۔ میں اس بارے حتمی طور پر کچھ بھی نہیں کہہ سکتا تھا۔ اب سارا کچھ زویا ہی نے کرنا تھا۔ اسے ہی اپنے والدین کو بتانا تھا، انہیں قائل کر کے راضی کرنا تھا۔ جبکہ ہماری تعلیم کا آخری سال شروع ہوئے ایک مہینہ گزر چکا تھا۔ زویا نے اپنے طور پر اپنی والدہ کو اعتماد میں لینا شروع کر دیا تھا۔ میرے سامنے فون پر اس نے میرے بارے تمام تر اپنی والدہ کو بتا دیا تھا۔ پھر اس وعدے پر بات ختم ہوئی تھی کہ وہ اس کے والد سے بات کرے گی۔ تقریباً دو ہفتے اس گفتگو میں گزر گئے۔ جواب کیا ملتا ہے، اس کا کچھ احساس تو تھا لیکن وہ پُر امید بھی تھی ۔ تب جو جواب آیا وہ ہی تھا کہ میرا اور اس کا ملن ناممکن ہے۔ ہمارے درمیان سب سے بڑی رکاوٹ ذات پات کی تھی۔ وہ سیّد زادی تھی اور میں ارائیں ذات سے تعلق رکھتا تھا۔ دوسرا وہ خاندان کے لڑکوں کو چھوڑ کر باہر کیوں اس کی شادی کریں۔ اس کے ساتھ یہ پیغام آگیا کہ اس خناس کو دماغ سے نکال دے۔ اگر نہیں نکلتا تو فوراً واپس آجائے۔ اگر والدین سے ہٹ کر اپنی مرضی کرے گی تو پھر وہ ان میں سے نہیں ہے۔ پلٹ کر اپنا منہ نہ دکھائے۔ یہ سب بتاتے ہوئے زویا بہت روئی تھی۔ تب میں نے اسے حوصلہ دیتے ہوئے کہا۔
    ”تمہیں اپنی محبت پر مان ہونا چاہئے زویا۔ نہیں مل سکتے، کوئی بات نہیں“۔
    ”مگر میں کوشش کرتی رہوں گی۔ یہاں تک کہ وہ عزت و وقار کے ساتھ مجھے تمہارے ساتھ شادی کے بندھن میں باندھ دیں“۔ اس نے بھیگے ہوئے لہجے میں مجھے حوصلہ دیتے ہوئے کہا۔
    زویا اپنے طور پر بھرپور کوشش کرتی رہی۔ اس نے اپنے والدین کو یہ باور کرا دیا تھا کہ میں ایسا ویسا کچھ نہیں کروں گی، لیکن آپ سے بہتر فیصلے کی امیدوار ہوں۔ اپنے فیصلے پر نظر ثانی کریں۔ وہ جس قدرکہتی اسی قدر کوئی سخت حکم مل جاتا۔ یہاں تک کہ اسے یہ تک بتا دیا گیا کہ اس کی شادی اس کے کس کزن سے ہو گی۔اس کے واپس جاتے ہی اس کی شادی کر دینے کے پورے انتظامات تھے۔ زویا سے یہ بھی کہا گیا کہ وہ اپنی تعلیم ادھوری چھوڑ کر واپس چلی آئے۔ تقریباً آٹھ ماہ تک یہی چلتا رہا۔ یہاں تک کہ اس کے والد نے اسے یہاں سے لے جانے کے لیے خود لندن آنے کی دہمکی دے دی۔ تب زویا نے اپنی تعلیم مکمل کی اور واپس جانے کے لیے تیار ہو گئی۔
    تین دن پہلے میں، بھان سنگھ اور اسد جعفری اسے ائیر پورٹ تک چھوڑنے گئے تھے۔ تمام راستے وہ روتی رہی تھی اور جس وقت وہ جانے کے لیے تیار تھی۔ اس وقت مجھے پہلی ملاقات میں کسی کا تبصرہ یاد آیا تھا۔ وہ اپنے تعلیمی دورانئے میں ذرا نہیں بدلی تھی۔ وہی اسکارف وہی عبایہ…. وہ میری طرف بھیگی آنکھوں سے دیکھ رہی تھی۔ جہاز تیار ہونے کا اعلان ہوا تو نہ جانے اسے کیا ہوا۔ وہ میرے گلے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر رو دی تھی۔ میں نے اسے خود سے الگ کہا۔ اس کی آنکھوں میں دیکھا اور مسکراتے ہوئے کہا۔
    ”یہ سوچ کر خود پر مان کرو کہ ہمارے محبت کتنی پاکیزہ ہے۔ جاؤ، میں تجھے خدا کے سپرد کرتا ہوں“۔
    اس سے کچھ بولا ہی نہیں گیا۔ اس نے اپنے آنسو صاف کئے، دھیرے سے مسکرائی۔ ہم سب کی طرف دیکھا اور نگاہوں سے اوجھل ہو گئی۔

    جاری ہے
    **************

  • تقسیم کی ادھوری کہانی – امرت کور

    تقسیم کی ادھوری کہانی – امرت کور

    ”کاش تم میرے گاؤں کی اس پاگل عورت سے مل سکتے۔ یقین کرو یار، تجھے تیری محبت یوں مل جائے کہ خود تجھے احساس نہ ہو۔یہ جو درمیان میں رکاوٹیں ہیں نا، ان کے دور ہو جانے کا تجھے پتہ ہی نہ چلے اور زویا تیرے ہو جائے“۔ بھان سنگھ نے میرے چہرے پر دیکھتے ہوئے بے ساختہ کہا تو میں چونک کر اس کی طرف دیکھنے لگا۔ اگرچہ اس نے کھوئے ہوئے انداز میں بڑے خلوص کے ساتھ یقین بھرے لہجے میں کہا تھا، لیکن میں خود کچھ دیر کے
    لیے سمجھ ہی نہ سکا کہ وہ میرا مذاق اڑا رہا ہے۔ مجھ پر طنز کر رہا ہے، ترس کھاتے ہوئے مجھے حوصلہ دینے کی ناکام کوشش کر رہا ہے یا پھر اس کی بات میں کوئی سچائی بھی ہے سوچند لمحوں بعد میں نے اس کا اصل مدعا جاننے کے لیے بڑے سکون سے پوچھا۔
    ”تم اس عورت کو پاگل بھی کہہ رہے ہو اور میرے اتنے بڑے گھمبیر مسئلے کا حل بھی بتا رہے ہو۔ اپنے لفظوں پر غور کرو، کہیں تم نے بے وقوفی والی بات تو نہیں کر دی ہے“۔
    ”نہیں یار….! میں سچ کہہ رہا ہوں“۔ اس کے لہجے میں یقین پہلے سے بھی پختہ ہو گیا تھا۔
    ”کیسے؟ کیا تم مجھے سمجھا سکتے ہو؟“ میں نے کچھ سوچتے ہوئے اس کی طرف دیکھ کر کہا جو خود کہیں کھویا ہوا تھا۔ میری بات سن کر اس نے مسکراتی ہوئی آنکھوں سے کہا۔
    ”بس ایک بار وہ تیرے سر پر ہاتھ پھیر دے نا تو تیری محبت تجھے مل جائے گی۔ یہ بات میں پورے یقین ہی سے نہیں دعویٰ سے بھی کہہ سکتا ہوں“۔ اس نے جوش بھرے انداز میں کہا تو چند لمحوں پہلے والی کیفیت مجھ پر پھر سے طاری ہو گئی۔ میں سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ وہ میرے ساتھ مذاق کے موڈ میں ہے یا پھر حقیقت میں وہ میرے دوا کی دوا بارے آگاہ کر رہا ہے۔


    دوام – مکمل ناول پڑھنے کے لیے لنک پر کلک کریں


    ”یار تجھے پتہ ہے کہ میری اور زویا کی کہانی بالکل ختم ہو چکی ہے۔ اس کے والدین نے صاف انکارکر دیا ہے اور جن وجوہات کی بنا پر انہوں نے انکار کیا ہے۔ وہ ٹھیک ہیں۔ انہیں میں بھی سمجھتا ہوں اور تم بھی جانتے ہو۔ زویا جو آج بھی میری محبت میں تڑپ رہی ہے اس نے بھی اپنے دل پر بھاری پتھر رکھ لیا ہے۔ چند دن بعد وہ بھی ہمیشہ کے لیے مجھ سے بچھڑ جائے گی۔ ایسے وقت میں تمہارا یہ مذاق، کچھ سجتا نہیں ہے یار۔ یہ تو زخموں پر نمک چھڑکنے والی
    بات ہے“۔ میں نے شکوہ بھرے لہجے میں اس سے کہا تووہ پھر اسی یقین بھرے انداز میں بولا۔
    ”چاہے کچھ ہو جائے یارا، بھی زویا کی شادی تو نہیں ہوئی نا۔ میں پھر تجھے یقین دلاتا ہوں کہ ایک بار امرت کور سے مل لو، تجھے پتہ ہی نہیں چلے گا کہ تیری راہ کی رکاوٹیں کس طرح دور ہو گئیں ہیں اور تیری محبت زویا تجھے کتنی آسانی سے مل جائے گی“۔
    میں اس کی بات پر کوئی فیصلہ نہیں کر پارہا تھا، لیکن بھان سنگھ کے چہرے پر پھیلی ہوئی امید کی روشنی مجھے بتارہی تھی کہ وہ سچ کہہ رہا ہے۔ کیونکہ بھان سنگھ نے کم از کم زویا کے معاملے میں کبھی مجھ سے مذاق نہیں کیا تھا۔ بلکہ سب کچھ ختم ہو جانے باوجود بھی وہ ہمیشہ خوش گمان رہا تھا۔ وہ میرا کلاس فیلو تھا اور اس کا شمار میرے قریب ترین دوستوں میں سے ہوتا تھا۔ وہ امرتسر کے قریب ایک گاؤں جھتیوال سے تعلق رکھتا تھا۔ میں لاہور سے بریڈ فورڈ آیا تھا۔
    ہم دونوں کامرس کی تعلیم کے لیے وہاں تھے۔ پنجابی زبان بولنے اور پنجاب سے تعلق ہونے کی بناءپر ہم دونوں کے درمیان دوستی ہوئی تھی۔ جوبہر حال بہت خوشگوار تھی۔ ہمارے مزید مشترکہ دوست بھی تھے، لیکن بھان سنگھ اپنی فطری معصومیت، خلوص اور کشادہ دلی کے باعث میرے پسندیدہ دوستوں میں سے ایک تھا۔ دوسرے دوستوں کی طرح اسے بھی اچھی طرح معلوم تھا کہ میں اور زویا ایک دوسرے کو کس حد تک چاہتے ہیں۔ مگرشاید قسمت میں ہم دونوں کا سنجوگ نہیں تھا۔ باوجود شدید خواہش کے ہمارے ملن کے درمیان ایسی رکاوٹیں تھیں جنہیں کم از کم میں ختم نہیں کر سکتا تھا۔ بریڈ فورڈ میں ہماری تعلیم ختم ہو گئی تھی اور چند دنوں بعد ہم وہاں سے جانے والے تھے۔ زویا کے لاہور جاتے ہی اس کے والدین نے اس کی شادی کر دینا تھی۔ کیونکہ وہ ساری تیاریاں مکمل کر کے بیٹھے ہوئے تھے۔ شاید وہ اس قدر جلدی میں نہ ہوتے، لیکن ہماری جو کوشش تھی، انہی کے باعث وہ سخت ہوگئے تھے۔زویا نے اپنے والدین کو منانے کی بھرپور کوشش کی تھی۔ مگر بری طرح ناکام رہی۔ ہم ناامید ہو کر اسے قسمت کا لکھا سمجھ کر ایک دوسرے سے بچھڑ جانے کا فیصلہ بھی کر چکے تھے۔ درمیان میں کیا رکاوٹیں تھیں، ان کے بارے بھان سنگھ بخوبی واقف تھا۔ وہ میری بے بسی کے دن تھے۔ زویا دو دن پہلے لاہور کے لیے روانہ ہو گئی ہوئی تھی۔ مجھ سے بچھڑتے ہوئے وہ کس قدر روئی تھی،یہ میں ہی جانتا تھا اور بھان سنگھ ان لمحات کا چشم دیدگواہ تھا۔ زویا کے چھن جانے پر میں اس قدر دل گرفتہ تھا کہ مجھے اپنا ہوش ہی نہیں رہا تھا۔ اس دن بھان سنگھ میرے فلیٹ پر آیا اور میری حالت دیکھ کر پریشان ہو گیا۔ پھر اصرار کر کے وہ مجھے یونیورسٹی لے آیا میں جانتا تھا کہ ایسا وہ صرف میرا ذہن ہٹانے کے لیے کر رہا ہے۔ ہم دونوں ایک لان میں لکڑی کی بینچ پر آبیٹھے تھے۔ گپ شپ کے دوران جب ہم زویا کی باتیں کر کے تھک گئے تو اس کے منہ سے بے ساختہ نکلنے والے اس انکشاف نے مجھے اس خاتون امرت کور کے بارے میں سوچنے پر مجبور کر دیا۔ نہ جانے کیوں میرے اندر تجسس ابھر آیا تھا۔ تب میں نے دلچسپی سے پوچھا۔
    ”بھان….! کیا تم مجھے اس خاتون امرت کور کے بارے میں مزید کچھ بتا سکتے ہو“۔
    میرے یوں پوچھنے پر وہ چند لمحے خاموش رہا۔ مجھے یوں لگا جیسے وہ الجھ رہا ہو وہ کھوسا گیا۔ مجھے یوں لگا جیسے وہ خود سے کچھ گھڑنے کے لیے سوچ رہا ہے۔ حقیقت ہوتی تو وہ فوراً بتاتا۔ میں یہ سوچ رہا تھا کہ وہ کھوئے ہوئے انداز میں بولا۔
    ”کیوں نہیں بلال، میں کیوں نہیں اس کے بارے میں بتا سکتا، پر مجھے یہ سمجھ نہیں آرہی کہ اس کے بارے میں کیا بتاؤں؟“
    ”وہی جو تمہیں پتہ ہے؟“ میں نے تیزی سے کہا۔
    ”دراصل میری معلومات وہی ہیں جو میں نے اپنے والدین سے سنی ہیں یا پھر اِدھر اُدھر سے گاؤں والوں کی زبانی۔ میں تمہیں وہی بتا سکتا ہوں۔ اصل حقیقت کیا ہے، وہ میرے سمیت کوئی بھی نہیں جانتا“۔ اس نے پھر اسی الجھے
    ہوئے لہجے میں کہا۔
    ”جو بھی معلومات ہیں وہی بتادو“۔ میں نے کرید کی۔
    ”وہ خاتون امرت کور….! اس وقت ستریا اسّی سال کے دورانئے میں ہوگی۔ مگر اس کی صحت اس قدر قابل رشک ہے کہ پچاس سے زیادہ کی نہیں لگتی۔ تقسیم ہند کے وقت اس کی عمریہی کوئی پندرہ سولہ سال کی رہی ہو گی۔ اس وقت وہ بڑی شوخ وشنگ، خوبصورت اور بڑی جرات والی لڑکی مانی جاتی تھی۔ انہی دنوں جب تقسیم ہند کے بعد فسادات پھوٹے، اس کے ساتھ کوئی ایسی ٹریجڈی ہو ئی کہ وہ نہ صرف بولنا چھوڑ گئی، بلکہ اس کی حالت پاگلوں جیسی ہوگئی۔ یوں سمجھ لو کہ اس کا دماغی توازن خراب ہوا تو ایک دم سے خاموش ہو گئی۔ وہ اپنے والد بلوندا سنگھ کی ایک بیٹی تھی۔ دو بھائی تھے اس کے۔ بلوندا سنگھ اپنی بیٹی کی حالت پر بہت پریشان تھا۔ بہت علاج کروایا، مگر کچھ بھی نہ ہوا“۔
    ”کیسی حالت تھی اس کی ؟“ میں نے پوچھا۔
    ”یہی بتاتے ہیں کہ وہ بالکل گم صم ہو گئی۔ کئی کئی دن تک نہ کھاتی تھی اور نہ پیتی تھی۔ ایک کمرے میں بند رہتی۔ خوف زدہ ہو گئی تھی۔ کئی برس بعد جب اس کا باپ نہ رہا۔ بھائیوں کی شادی ہو گئی۔ ان کے بچے ہو گئے۔ ان کے درمیان جائیداد بھی تقسیم ہوگئی۔ تب اس کی حالت کچھ سدھرنے لگی۔ وہ جو ہر وقت غلاظت میں رہتی تھی۔ خود کو صاف ستھرارکھنے لگی۔ مگر وہ کوئی بات نہیں کرتی تھی۔ کھایا پیا اور اپنے کمرے تک محدود رہتی تھی۔ بہت عرصے تک گاؤ ں والوں نے اسے دیکھا تک نہیں“۔بھان نے بتایا اور خاموش ہو گیا۔
    ”اس کے ساتھ کیا ہوا، یہ کسی کو معلوم نہیں ہو سکا“۔ میں نے پوچھا۔
    ”وہ کچھ بولتی تب نا ایسے کسی کو کیا معلوم ہوتا۔ خیر….! تقریباً دس پندرہ سال پہلے اس کے معمولات ہی بدل گئے۔وہ صبح سویرے اٹھتی ہے، نہاتی ہے، خود کو سجاتی سنوارتی ہے اور گاؤں کے مغرب کی طرف چلی جاتی ہے۔
    وہاں کافی دیر گھومتی پھرتی رہتی ہے۔ ایک جگہ کھڑی ہو کر نہ جانے کیا بڑبڑاتی ہے مگر اس کی آواز نہیں آتی۔ بہت سوں نے سننے کی کوشش کی لیکن کسی کی سمجھ میں کچھ نہیں آسکا۔ دن چڑھے وہ واپس ہوتی ہے اور سیدھی گرودوارے جاتی ہے۔ وہاں جا کر ماتھا ٹیکتی ہے۔ پھر گروجی کی بانیوں میں سے کچھ پڑھتی ہے۔ وہ وہاں صرف گرو دوارے میں بولتی ہے۔ اگر کسی نے اس کی آواز سننی ہو تو وہیںسن سکتا ہے“۔ بھان نے خاصے جوش میں کہا تو میں
    نے اضطرابی انداز میں پوچھنا چاہا۔
    ”یہ کوئی پاگل پن“۔ اس نے میری بات ٹوکتے ہوئے کہا۔
    ”او یار تم سنو گے بھی….“ یہ کہہ کر اس نے میری طرف دیکھا۔ میں خاموش رہا تو وہ کہتا چلا گیا۔ ”کسی طرح کا بھی موسم ہو، اس کے معمول میں کبھی فرق نہیں آیا۔ گرودوارے کے باہر اسے کبھی کسی نے بولتے ہوئے نہیں سنا۔ وہ کسی کے معاملے میں کبھی دخل نہیں دیتی۔ اپنے آپ میں مست رہتی ہے۔ اس کی کوئی معاشرتی زندگی نہیں۔ مگر پورا گاؤں اس کی عزت کرتا ہے اور اسے احترام دیتا ہے۔ میں نہیں جانتا یہ کب سے ہے لیکن اس کے بارے میں مشہور یہی ہے کہ وہ جس کے سر پر ہاتھ رکھ کر پیار دے دے اس کے بگڑے ہوئے کام سنور جاتے ہیں“۔ وہ بڑے سکون سے کہہ کر خاموش ہو گیا۔
    ”پاگل تو وہ پھر بھی نہ ہوئی، تم اسے سادھو، سنت، بھگت یا درویش قسم کی خاتون کہہ سکتے ہو“۔ میں نے اس کی طویل بات سن کر اپنے طور پر تجزیہ کیا۔
    ”چلو….! تم یہ کہہ لو، مگر کوئی نارمل بندہ یہ سب نہیں کر سکتا۔ گاؤں میں بھی اس کے بارے میں ایسی ہی ملی جلی رائے ہے کوئی اسے پاگل کہتا ہے اور کوئی تمہاری طرح سنت بھگت قسم کی کوئی چیز۔ میری اپنی ذاتی رائے یہ ہے کہ اس کے ساتھ ہونے والی ٹریجڈی نے اسے ایب نارمل کر دیا ہے اور تمہیں معلوم ہے ہمارے ہاں ایسے لوگوں کو بڑی پہنچی ہوئی مخلوق سمجھ کر اس سے امیدیں باندھ لیتے ہیں ۔ پھر بس مشہوری ہونے کی دیر ہے“۔ اس نے
    اپنی ہی رو میں کہا تو میں نے اسے جتایا۔
    ”ہاں….! یہ آخری بات تم نے ٹھیک کہی۔ میں مانتا ہوں اسے لیکن سردار بھان سنگھ جی، کچھ دیر قبل جو تم نے اتنے یقین سے امرت کوربارے کہا ہے، تم خود ہی اپنی اس بات کی تردید کر رہے ہو“۔
    ”یہ سچ ہے کہ میرا ذہن نہیں مانتا۔ میری اپنی رائے جو ہے وہ میں نے تمہیں بالکل سچ بتا دی ہے، لیکن….! بلال تم یقین کرو، اس کے بارے میں یہی مشہور ہے۔ میں نے اپنے طور پر اس کی توجیہہ یہ گھڑی ہوئی ہے کہ جو اندر سے صاف دل ہوں۔ ان کے کام ہو جاتے ہیں۔ یا مثال کے طور پر یوں سمجھ لو کہ جس جوڑے کی شادی ہو جاتی ہے، وہ پُرخلوص اور پاکیزہ محبت کرنے والے ہوں گے اور جو نہیں پاتے ان کے من میں کہیں نہ کہیں کھوٹ ہوتا ہوگا۔ مطلب، پاکیزہ اور سچی محبت والے ہی اس سے مراد پاسکتے ہیں اور میں جانتا ہوں کہ تیری اور زویا کی محبت پوتر ہے،سچی ہے۔ اس خیال سے میں نے تمہیں امرت کور کے بارے میں بتایا“۔ آخر کار بھان سنگھ نے اپنی بات کی وضاحت کردی تو میں نے یونہی مزاح میں کہا۔
    ”اب دو باتیں ہیں بھان….! ایک تو یہ کہ فرض کرو، میں اس کے پاس چلا جاتا ہوں، وہ میرے سر پر ہاتھ پھیر دیتی ہے اور ہم مل نہ پائے تو کیا ہماری محبت جھوٹی ہوئی اور دوسری بات، میں یہ رسک لے لیتا ہوں۔ میں تمہارے ساتھ تمہارے گا ؤں جاتا ہوں ممکن ہے ا س خاتوں کی پرارتھنا میرے کام آجائے۔اس سے کم از کم مجھے یہ حوصلہ تو رہے گا کہ میں نے زویا کو پانے کےلیے ہر ممکن کوشش کی“۔
    ”تیرے من میں کیا ہے تُو بہتر سمجھتا ہے۔ زویا تیری قسمت میں ہے یا نہیں، میں اس بارے بھی کچھ نہیں کہہ سکتا، لیکن یہ جو دوسری بات کی ہے نا تم نے…. میرے دل کو لگتی ہے۔ تُو اگر میرے ساتھ چلنے کو تیار ہے تو چل میں تجھے لے چلتا ہوں“۔ وہ ایک دم سے تیار ہو گیا۔
    ”اوکے….! میری طرف سے پکا سمجھ، اب تیرے گاؤں تک پہنچنے میں جو سرکاری ریاستی اجازت نامے کی ضرورت ہے، وہ کس طرح ہو گا۔ یہ میں نہیں جانتا“۔ میں نے ایک بڑی رکاوٹ بارے اس کی توجہ دلائی تو وہ چند لمحے سوچتا رہا، پھر بولا۔
    ”کچھ کر لیتے ہیں یار۔ تم ذہنی طورپر تیار ہو جاؤ تو مجھے بتا دینا“۔
    ”میں ذہنی طور پر تیار ہوں۔ میری طر ف سے تو ابھی یہاں سے اٹھ اور چل گاؤں، میں تیرے ساتھ ہوں“۔
    میں نے اپنا ارادہ ظاہر کیا۔
    ”چل ٹھیک ہے، میں کرتا ہوں کچھ“۔ بھان سنگھ نے پورے خلوص سے کہا تو میں بھی اندر سے اس کے ساتھ گاؤں جانے کے لیے تیار ہو گیا۔ ہم وہاں کچھ دیر تک بیٹھے رہے۔ وہ مجھے اپنے گاؤں کے بارے میں بتانے لگا۔ میں خیالوں ہی خیالوں میں امرت کور کو اس گاؤں میں پھرتے ہوئے محسوس کرنے لگا۔ اس وقت میرا حال اس پروانے کے جیسا تھا، جسے امید کی ہلکی سی روشنی دکھائی دے جائے تو وہ اس کی طرف دیوانہ وار لپکتا ہے۔ ہمیں یونیورسٹی کے لان میں بیٹھے ہوئے کافی دیر ہو چکی تھی۔ شام کے سائے ڈھل کر رات ہونے کا عندیہ دینے لگے تھے۔ سو ہم دونوں دوسرے دوستوں سے گپ شپ لگانے اور ہوٹلنگ کا ارادہ کر کے اٹھ گئے۔
    اس شام میں امرت کور کو اپنے قریب تر محسوس کرنے لگا۔ ایک ہیولاسا میرے دماغ میں بن گیا۔ مجھے یوں لگا جیسے وہ میرے اردگرد ہی کہیں موجود ہے۔ میں ایک خاص طرح کی کشش اس میں محسوس کرنے لگا تھا۔ جس کے بارے میں بھان سنگھ سے میں نے کوئی ذکرنہیں کیا۔ رات گئے تک ہم اکٹھے رہے تھے، اس نے بھی دوبارہ امرت کور کا ذکر نہیں کیا۔ میں اس کے گاؤں جا سکوں گا یا نہیں، یہی سوال لیے میں اپنے فلیٹ چلا گیا۔

    جاری ہے
    **************