Author: محمد انیس حنیف

  • سورج مکھی کے کاشت کاروں کے لئے اہم ہدایات جاری

    سورج مکھی کے کاشت کاروں کے لئے اہم ہدایات جاری

    فیصل آباد سمیت مختلف اضلاع میں سورج مکھی کی بہاریہ کاشت یکم جنوری سے شروع ہو گی جس کیلئے منظور شدہ اقسام کا اعلان کردیا گیا ہے۔

    کہا گیا ہے کہ کاشتکار سورج مکھی کی کاشت کے شیڈول کے مطابق بہاولپور، رحیم یار خان، خانیوال، ملتان، وہاڑی،بہاولنگر کے اضلاع میں سورج مکھی کی بہاریہ کاشت یکم جنوری سے 31 جنوری تک، ڈی جی خان، مظفر گڑھ،لیہ،لودھراں،راجن پور، بھکرکے اضلاع میں 10جنوری سے 10 فروری تک، فیصل آباد، جھنگ، میانوالی،سرگودھا، خوشاب، ساہیوال اور اوکاڑہ کے اضلاع میں 15 جنوری سے 15 فروری تک، سیالکوٹ، گوجرانوالہ، لاہور، منڈی بہاؤالدین،قصور،شیخوپورہ،ننکانہ صاحب، نارووال کے اضلاع میں یکم فروری سے 25 فروری تک اور اٹک، راولپنڈی، گجرات، چکوال کے علاقوں میں یکم فروری سے 25 فروری تک کر سکتے ہیں۔

    زراعت کی خبریں- Agriculture news Pakistan

    ڈپٹی ڈائریکٹر محکمہ زراعت توسیع فیصل آبادعدیل احمد نے بتایا کہ سورج مکھی کی بھرپور پیداوار حاصل کرنے کیلئے پودوں کی مطلوبہ تعداد کیلئے بیج کی شرح 20سے25کلوگرام فی ایکڑ ہونی چاہیے۔ انہوں نے بتایاکہ کاشتکارسورج مکھی کی ہائبرڈ اقسام ہائی سن 33، ہائی سن 39، اگورہ 4،این کے 278، ڈی کے 4040، 64A93، ایف ایچ 331 وغیرہ کاشت کرکے بہتر پیداوار حاصل کرسکتے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ بھاری میرازمین سورج مکھی کی کاشت کیلئے انتہائی موزوں ہے تاہم سیم زدہ اور زیادہ ریتلی زمین میں سورج مکھی کی کاشت سے اجتناب کرنا چاہیے

    کونسا تیل سویا بین آئل سے بھی سستا

  • پاکستان میں چنے کی نئی اقسام متعارف

    پاکستان میں چنے کی نئی اقسام متعارف

    فیصل آباد: جامعہ زرعیہ فیصل آباد کے زرعی سائنسدانوں نے سیراب شدہ زمین کیلئے چنے کی نئی اقسام متعارف کروائی ہیں جس سے بارانی علاقے میں کاشت کی جانیوالی روایتی چنے کی اقسام سے حاصل ہونیوالی 5من فی ایکڑ پیداوار کے مقابلہ میں 20 سے 25من فی ایکڑپیداوار حاصل کی جا سکتی ہے۔

    جامعہ زرعیہ کے ترجمان نے اے پی پی کو بتایا کہ ملک چنے اور دیگر دالوں کی مد میں ہر سال اربوں روپے کا کثیر زرمبادلہ درآمد پر خرچ کرتا ہے جبکہ موجودہ حالات میں بارانی علاقوں میں چنے کی قابل کاشت زمین میں مختلف وجوہات کی بنا پر کمی واقع ہوئی ہے۔

    انہوں نے کہا کہ خوردنی تیل کی مد میں 5ارب ڈالر اور سویابین پر ڈیڑھ ارب ڈالر کا زرمبادلہ درآمد کیلئے خرچ کیا جاتا ہے اسلئے اگر ہم ان فصلات میں خودکفالت کے حصول کو ممکن بنا لیں تو زرعی ترقی سے خوشحالی کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔

    زراعت کی خبریں- Agriculture news Pakistan

    انہوں نے کہا کہ زرعی یونیورسٹی نے واشنگٹن سٹیٹ یونیورسٹی کے تعاون سے موسمیاتی تبدیلیوں کے خلاف قوت مدافعت رکھنے والی گندم کی نئی اقسام بھی متعارف کروائی ہیں

    ان کا کہنا تھا کہ ملک میں کاشت کی جانیوالی فصلات کی زمین کا 60فیصد سے زائد گندم اور چاول پر مشتمل ہے لہٰذا اگر گندم کی کاشت میں پانچ پانی کی بجائے تین پانی سے فصل سیراب کی جائے تو وافر مقدار میں پانی بچایا جا سکتا ہے۔

    کالے چنے کے حیرت انگیز فوائد

  • کیا اس شہر کے باسی اب ڈکیتوں کا بھی احترام کریں؟  شاہ رخ کا قتل اور  محکمہ پولیس سے چند سوال!

    کیا اس شہر کے باسی اب ڈکیتوں کا بھی احترام کریں؟ شاہ رخ کا قتل اور  محکمہ پولیس سے چند سوال!

    کراچی کا شاہ رخ اپنی والدہ اور بہن کے سامنے قتل ہوا اور اسے قتل کرنے والا ایک پولیس اہلکار تھا جو اس وقت ڈکیت کےروپ میں تھا یا یوں کہیے کہ ایک ڈکیت تھا جس نے پولیس کے محکمے میں پناہ حاصل کی ہوئی تھی-

    جو بھی کہیے مگر شاہ رخ کے اندوہناک قتل پر ہر آنکھ اشکبار تو تھی مگر اس حقیقت نے مجھے اور مجھ سمیت ہر حساس شہری کو سخت تشویش میں مبتلا کردیا کہ وہ سفاک قاتل جسے وہ کوئی بےرحم رہزن سمجھ رہے تھے وہ ایک پولیس اہلکار تھا اور کئی وارداتوں میں ملوث تھا ،پہلے بھی گرفتار ہوا تھا، اس پر ڈکیتی اور منشیات فروشی کے الزامات تھے-

    حیران کن امر تو یہ ہے کہ اس قدر عادی مجرم مرتے  دم تک پولیس کا حصہ تھا اور سپیشل انوسٹی گیشن یونٹ میں تعینات تھا-

    سوالات کا ایک انبار ہے جو ہر حساس شہری کے دل و دماغ پر  طاری ہے کہ کیا اس شہر میں ایک پولیس اہلکار پر بھی بھروسہ نہیں کیا جاسکتا، کیا ہمارا محافظ بھی رہزن ہوسکتا ہے؟ کیا وہ اس قدر سفاک بھی ہوسکتا ہے کہ جس عوام کے ٹیکس کے پیسے سے اسے تنخواہ ملتی ہے اسی پر گولی چلادے؟ کیا جن تھانوں اور پولیس کے ذیلی محکموں میں وہ تعینات رہا وہاں اسکے "باخبر”ساتھی اسکی ان کارروائیوں سے بے خبر تھے؟

    اسکے زیر استعمال سرکاری اسلحہ سے جو کارروائیاں وہ کرتا رہا کیا محکمہ کے افسران اور ساتھی ان کارروائیوں سے بے خبر تھے؟ کیا منشیات فروشی جیسے قبیح جرم کے ارتکاب پر بھی محکمہ آنکھیں بند کئے ہوئے تھا؟

    یہ سوالات تو میں اسلئے پوچھ رہا ہوں کہ ایک خبر کے مطابق پولیس کا کہنا ہے کہ ملزم ان مقدمات میں عدالت سے بری ہو کر عہدے پر تعینات ہوا تھا، ورنہ سوالوں کی فہرست مزید طویل ہوتی۔

    سوال تو یہ بھی بنتا ہے کہ عدالت کو  آپ کے "پیٹی بھائی” کے خلاف ثبوت  فراہم کرنا کس کی ذمہ داری تھی؟ کیا ایسے مجرم کا بری ہوجانا اور دوبارہ محکمے کا حصہ بن جانے کے عمل کو آپ کی "نااہلی” نہیں کہا جانا چاہئیے؟

    ایک رپورٹ کے مطابق ملزم معمولی تنخواہ کے باوجود شاہانہ زندگی بسر کررہاتھا اور کوئی یہ کیسے مان لے کہ محکمہ بے خبر تھا اور اسکے ساتھی اور بالا افسران جو اپنے علاقے میں پتہ ہلنے تک کی خبر رکھتے ہیں اسکے کارناموں سے ناواقف ہوں؟

    کیا اس شہر کے باسی اب ڈکیتوں کا بھی احترام کریں کہ نجانے ان میں سے کوئی پولیس اہلکار نہ نکل آئے اور گولی ہی چلادے؟ کیا یہ المیہ نہیں کہ جن علاقوں میں یہ مجرم تعینات رہا اور وارداتیں کرتا رہا اس کے ظلم کے کچھ شکار اس کے پاس ہی اپنی دادرسی کے لئے آتے رہے ہوں گے؟

    کیا آپ کو اپنے محکمے میں موجود ان مجرموں کی اسطرح کے کسی سانحے کے رونما ہونے سے پہلے ہی بیخ کنی نہیں کرنی چاہئے؟  کیا ان مجرمان کی فہرست جاری نہیں ہونی چاہیے-

    حال ہی میں لندن میں ہونے والے واقعے میں جب میں ایک پولیس افسر نے اپنی طاقت کا غلط استعمال کرتے ہوئے ایک خاتون کا جنسی استحصال کیا تو وہاں عوام کے سخت احتجاج کے بعد پولیس نے نئے طریقے وضع کرکے انہیں تسلی دلائی– کیا یہاں بھی ایسا ممکن ہے؟  یا  پاکستان کی مائیں ایک کے بعد ایک اپنے شاہ رخ کھوتی رہیں گی؟

  • آپ بھی عثمان مرزا کے ساتھی ہیں؟

    آپ بھی عثمان مرزا کے ساتھی ہیں؟

    کیا آپ نے بھی اپنی اولاد کو جائز خواہشات کے اظہار سے روک رکھا ہے؟ کیا آپ بھی ذات پات، سماجی مرتبے، مالی حیثیت یا دیگر خودساختہ معیارات کی بنیاد پر ان کی شادی میں تاخیر کررہے ہیں؟ تو آپ بھی عثمان مرزا کے ساتھی ہیں۔

    اگر آپ کے بھی قول و فعل اور عمل اور ردعمل کی امید میں اتنا تضاد ہے کہ آپ معاشرے کو تو پاک دیکھنا چاہتے ہیں مگر اس کا آغاز اپنے گھر سے نہیں کرنا چاہتے- آپ نے بھی اپنے بچوں کو کہا یہی ہے کہ امیر وغریب، کالے اور گورے میں فرق نہیں کرنا چاہیے مگرعملاً نوکر یا کسی کمزور شخص سے اچھا برتاؤ کرنے پر اس کی سرزنش کی ہے یا "اوقات میں رکھو” کہا ہے تو جی ہاں آپ بھی عثمان مرزا کے ساتھی ہیں۔

    اگر آپ نے بھی شرافت کو معیار بنانے کا دعویٰٰ کیا ہے مگر بیٹی کے لئے آیا ہوا رشتہ یا بیٹے کی پسند کو صرف اور صرف مالی حیثیت یا ذات پات اور رنگ ونسل جیسے خودساختہ معیار پر ٹھکرایا ہے تو آپ بھی عثمان مرزا کے ساتھی ہیں۔

    آپ نے انھیں اس فلیٹ میں دھکیلا ہے ہراساں ہونے کے لیے۔

    کیا آپ نے بھی کبھی کسی رشتہ دار یا جاننے والے کی جانب سے ہراساں کیے جانے پر اپنے بچوں کو  عزت کی خاطر خاموش رہنے کا کہا ہے؟ تو آپ بھی عثمان مرزا کا حوصلہ بڑھانے کے مجرم ہیں۔

    فرد ہی معاشرہ تخلیق کرتا ہے اور بچے آپ کے الفاظ نہیں اعمال کی نقل کرتے ہیں۔

    ایک اور صورت بھی ہے-

    آپ کو نہیں معلوم کہ آپ کی اولاد آپ کی دولت سے کیا کرتی آئی ہے اور کیا کررہی ہے؟ کیا آپ بھی آج اس کی معمولی چوریوں، لوگوں کے ساتھ بدسلوکی اور کمزوروں کے ساتھ حقارت سے پیش آنے کو مذاق میں ٹال رہے ہیں؟ کیا اس کے پکڑے جانے پر اسی کے سامنے پولیس کو رشوت دے کر چھڑا رہے ہیں؟  تو اس بار آپ ساتھی نہیں بلکہ اپنے گھر میں ایک عثمان مرزا پال رہے ہیں۔

    آپ ناراض تو ہوں گے مگر کہتے ہیں نا کہ

    وقت کرتا ہے پرورش برسوں
    حادثہ ایک دم نہیں ہوتا

    تو یادرکھیں ایک معاشرے میں ہونے والے ایک گھناؤنے جرم کے ارتکاب اور مجرم کے اعتماد کے پیچھے بہت سارے عوامل کارفرما ہوتے ہیں اور جانے انجانے میں مجرم کے بہت سارے مددگار  ہوتے ہیں۔ اگرچہ وہ بلاواسطہ جرم میں شریک نہ ہوں۔

    وہ آپ بھی ہوسکتے ہیں۔ عمدہ اوصاف اور اعلٰی اخلاق صرف الفاظ نہیں اعمال کے متقاضی ہوتے ہیں۔

    معاشرہ تب ہی انصاف اور پاکیزگی پر مبنی ہوگا جب آپ کے قول و فعل میں تضاد نہ ہو اور آپ تعصبات سے بالاتر ہوکر اس کا آغاز اپنے گھر سے کریں گے۔