Author: انور خان

  • پاکستانی خواتین میں‌ چھاتی کا سرطان تیزی سے پھیل رہا ہے، ڈاکٹر محمد اقبال

    پاکستانی خواتین میں‌ چھاتی کا سرطان تیزی سے پھیل رہا ہے، ڈاکٹر محمد اقبال

    کراچی: جامعہ کراچی کے پروفیسر ڈاکٹر محمد اقبال چوہدری نے کہا ہے کہ پاکستانی خواتین میں چھاتی کا سرطان تیزی کے ساتھ پھیل رہا ہے، تحقیق کے ذریعے اس مرض کا سدباب کیا جاسکتا ہے۔

    ان خیالات کا اظہار انہوں نے بین الاقوامی مرکز جامعہ کراچی کے تحت نیچرل پروڈکٹ کیمسٹری کے موضوع پر جاری 4 روزہ14ویں سمپوزیم میں خطاب کرتے ہوئے کیا۔

    پروفیسر ڈاکٹر محمد اقبال کا کہنا تھا کہ چھاتی کے سرطان کا مرض اور اس کے پھیلنے کی وجوہات جاننے کی ضرورت ہے۔

    مزید پڑھیں: وٹامن ڈی بریسٹ کینسر کی شدت میں کمی کے لیے معاون

    پروفیسر اقبال چوہدری کا کہنا تھا کہ صرف2014 میں 17لاکھ چھاتی کے سرطان کے کیسز دنیا میں رپورٹ ہوئے، کینسر کی یہ قسم پھیلنے کے اعتبار سے سے دیگر اقسام کے مقابلے میں دوسرے نمبر پر ہے۔

    اُن کا کہنا تھا کہ  دنیا بھر میں انسانی صحت کی نگہداشت میں قدرتی مرکبات اہم کردار ادا کررہے ہیں، عالمی سطح پر انفکیشن کو ختم کرنے والی ادویات تیار نہیں کی جارہیں جس کی وجہ سے مختلف موذی امراض تیزی سے پھیل رہے ہیں۔

    یہ بھی پڑھیں: بریسٹ کینسر: تیزی سے فروغ پاتا مرض

    سمپوزیم میں شرکت کرنے والے دیگر ملکی و غیر ملکی سائنس دانوں نے بھی اپنا مقالہ پڑھا۔

    غیر ملکی ماہرین نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان میں اس مرض کے پھیلاؤ کے اسباب جاننے کی بہت ضرورت ہے اور  خواتین میں شعور بھی پیدا کرنا بھی لازم ہے۔

  • دنیا کی بہترین جامعات میں پاکستانی یونیورسٹی کا شامل نہ ہونا توجہ طلب مسئلہ ہے، صدر علوی

    دنیا کی بہترین جامعات میں پاکستانی یونیورسٹی کا شامل نہ ہونا توجہ طلب مسئلہ ہے، صدر علوی

    کراچی: صدر مملکت عارف علوی نے کہا ہے کہ دنیا کی 500 بہترین جامعات کی فہرست میں کسی بھی پاکستانی یونیورسٹی کا نہ ہونا نام شامل نہ ہونا توجہ طلب مسئلہ ہے، ملک میں تعلیمی معیار کو بہتر بنانا حکومت کی اولین ترجیح ہے۔

    ان خیالات کا اظہار صدر مملکت نے جامعہ کراچی میں بین الاقوامی مرکز برائے کیمیائی و حیاتیاتی سمپوزیم کی افتتاحی تقریب کے موقع پر کیا۔

    واضح رہے کہ کراچی یونیورسٹی میں بین الاقوامی مرکز برائے کیمیائی و حیاتیاتی علوم(آئی سی سی بی ایس) ‘نیچرل پروڈکٹ برائے مستقبل‘ کے موضوع پردوسرے بین الاقوامی سمپوزیم کا انعقاد کیا جارہا ہے۔

    اس موقع پر شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر عارف علوی کا کہنا تھا کہ ’کم پانی سے تیارہونے والی فصلوں کی پیداوار کو فروغ دینا بہت ضروری ہے، بنگلادیش اور نیپال جیسے چھوٹے ممالک میں پانی کا کم استعمال کر کے فصلیں تیار کی جارہی ہیں‘۔

    مزید پڑھیں: پاکستان کی 2 یونیورسٹیاں ایشیا کی 100 بہترین جامعات میں شامل

    پانی کی قلت اور زراعت کو فروغ دینے کے حوالے سے صدر مملکت کا کہنا تھا کہ ’ایسے طریقے کو فروغ دینے کی ضرورت ہے جس میں کم پانی سے فصلیں تیار کی جائیں، ملک میں قابلِ اطلاق تحقیق کا فروغ ناگزیر ہے‘۔

    [bs-quote quote=”بنگلا دیش اور نیپال کی طرح کم پانی سے فصلوں کی پیداوار ضروری ہے” style=”style-8″ align=”left” author_name=”صدر مملکت”][/bs-quote]

    انہوں نے کہا کہ سائنس کے حوالے سے ایسی تحقیق کو عام کیا جائے جس کا اطلاق ممکن ہو، پاکستان میں محکمہ زراعت اور فصلوں کی پیداوار کے حوالے سے تحقیق نہ ہونے کے برابر ہے، ہمیں فلپائن اور بنگلادیش کی طرز پر زراعت کو فروغ دینے کی ضرورت ہے ۔

    اُن کا کہنا تھا کہ دنیا کی پانچ سو بہترین جامعات کی فہرست میں کسی بھی پاکستانی یونیورسٹی کے نام کا شامل نہ ہونا توجہ طلب مسئلہ ہے، حکومت ترجیح بنیادوں پر پرائمری اور سیکنڈری سطح پر تعلیمی نظام کو بہتر بنانے کے اقدامات کررہی ہے۔

    اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان میں اعلیٰ تعلیمی اداروں کا معیار بلند کرنے کی ضرورت ہے تاکہ دنیا کی بہترین جامعات کی فہرست میں پاکستانی جامعات کا نام بھی شامل ہوں اور قوم کو نوجوانوں کو بہترین روزگار کے مواقع بھی مل سکیں۔

    صدر مملکت کا کہنا تھا کہ ’تعلیم اور تحقیق کے میدانوں میں کثیر فنڈنگ کی ضرورت ہے لیکن اس کے ساتھ ان میدانوں میں تعلیمی و تحقیقی اداروں کا معیاری ہونا بھی وقت کی اہم ضرورت ہے‘۔ ڈاکٹر عارف علوی کا کہنا تھا کہ جہاں تک اعلیٰ تعلیم اور سائنس اور ٹیکنالوجی کے فروغ کا تعلق ہے تو اس میدان میں پاکستان کو دنیا کے نقشے پربھرپور انداز سے اُبھرنا ہے۔

    دنیا کی 500 بہترین جامعات کی فہرست میں پاکستان کی کسی بھی یونیورسٹی کا شامل نہ ہونا تشویشناک بات ہے

    صدر مملکت نے بین الاقوامی مرکز کی انتظامیہ کو یقین دہانی کروائی کہ حکومت معروف بین الاقوامی تحقیقی مرکز سے بھرپور تعاون جاری رکھے گی۔ انہوں نے تعمیر و ترقی میں کلیدی کردار ادا کرنے والی شخصیات پروفیسر سلیم الزماں صدیقی، ڈاکٹر عطا الرحمان، لطیف ابراہیم جمال، حکیم محمد سعید کو خراجِ تحسین بھی پیش کیا۔

    یہ بھی پڑھیں: اساتذہ کی تربیت کے لیے عالمی اسکالرز کو پاکستان بلائیں گے: صوبائی وزیر تعلیم

    اس موقع پر پروفیسر عطا الرحمن کا خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ’دنیا اب بدل چکی اور اب تبدیلی کے ساتھ قدرتی وسائل کی اہمیت ختم ہوچکی ہے، عصر حاضر  میں کامیاب معیشت کے لیے تعلیم کا فروغ بہت ضروری ہے یہی وجہ ہے کہ دنیا میں وہی ممالک ترقی کررہے ہیں جو جدت طرازی اور تحقیقی میدان میں کھل کر سرمایہ کاری کررہے ہیں، پاکستان کو بھی ترقی کرنے کے لیے بیس سال سے کم عمر کے 20 لاکھ نوجوانوں کو جدید تعلیم و تربیت فراہم کرنا ہوگی۔

    ڈاکٹر اجمل خان کا کہنا تھا کہ ’موجودہ حکومت نے اپنی ترجیحات میں معیشت اور اعلیٰ تعلیم کا فروغ شامل کیا جو بہت حوصلہ افزا بات ہے‘۔

    افتتاحی تقریب میں وفاقی وزیر برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ٹیلی کمیونیکیشن ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی، شیخ الجامعہ کراچی پروفیسر ڈاکٹر محمد اجمل خان، سابق وفاقی وزیر برائے سائنس اور ٹیکنالوجی، سابق چیئرمین ایچ ای سی پروفیسر ڈاکٹر عطا الرحمن،آئی سی سی بی ایس جامعہ کراچی کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹرمحمد اقبال چوہدری سمیت فرانسیسی اسکالر پروفیسر ڈاکٹر جارج میتھیوزنے بھی شرکت کی۔

    واضح رہے کہ جامعہ کراچی میں ہونے والے سمپوزیم میں 600 ملکی و غیر ملکی سائنسدان اور محقق شرکت کریں گے۔

  • سرکاری اسپتالوں کی بہتری کے لیے ڈاکٹروں کی تربیت ضروری ہے، ڈاکٹرعبد الباری خان

    سرکاری اسپتالوں کی بہتری کے لیے ڈاکٹروں کی تربیت ضروری ہے، ڈاکٹرعبد الباری خان

    کراچی : انڈس اسپتال کے سی ای او ڈاکٹر عبد الباری خان نے کہا ہے کہ سرکاری اسپتالوں کی حالت زار کو بہتر بنانے کے لیے ڈاکٹروں کی تربیت کی ضرورت ہے، مریضوں اور ڈاکٹروں کے مابین رابطوں کا فقدان نہیں ہونا چاہیے۔

    ان خیالات کا اظہار انہوں نے مقامی ہوٹل میں انسٹی ٹیوٹ آف لرننگ ایکسی لینس کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا، تقریب سے معروف امریکی پیشنٹ سیفٹی کے ماہر پروفیسر پال باراش، انسٹی ٹیوٹ آف لرننگ ایکسی لینس کے ڈائریکٹر ڈاکٹر ذکی الدین احمد، معروف صنعت کار ہارون قاسم نے بھی خطاب کیا۔

    اس موقع پر پروفیسر زمان شیخ، معروف فارماسسٹس عبدالطیف شیخ ،معروف ماہر امراض قلب ڈاکٹر بشیر حنیف سمیت دیگر بھی موجود تھے، انڈس اسپتال کے چیف ایگزیکٹو آفیسر اور معروف ماہر امراض قلب ڈاکٹر عبد الباری خان نے کہا ہے کہ پاکستان میں سرکاری اسپتالوں کو چلانے والے ڈاکٹرز اور سرجنز اپنی فیلڈ میں تو نمایاں تجربہ رکھتے ہیں جبکہ ان کے پاس مینجمنٹ کی تربیت یا ڈگری نہیں ہوتی جس کی وجہ سے مریضوں اور ان کے عزیزو اقارب کے ساتھ ساتھ طبی اور نیم طبی عملے کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔

    ایک اچھا سرکاری اسپتال وہ ہے جہاں پر اس کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ اور اہل خانہ کا علاج بھی کیا جا سکے، دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ اکثر اسپتالوں کے سربراہان اپنے علاج کے لیے نجی اسپتالوں کا رخ کرتے ہیں،اسپتالوں کو چلانے والے ڈاکٹروں کو مینجمنٹ کی تربیت دینے کی ضرورت ہے تاکہ وہ اسپتالوں کو کامیابی سے چلاسکیں۔

    پروفیسر ڈاکٹرعبد الباری خان کا کہنا تھا کہ سرکاری اسپتالوں کی حالت زار کو بہتر بنانے کے لیے ڈاکٹروں کی تربیت کی ضرورت ہے تاکہ وہ مریضوں کے بڑھتے ہوئے سیلاب سے نبردآزما ہو سکیں، ان کا کہنا تھا کہ سرکاری اسپتالوں میں مریضوں اور ڈاکٹروں کے مابین رابطوں کا فقدان ہوتا ہے جسے پورا کرکے مریضو ں کو مطمئن کیا جا سکتا ہے۔

    معروف امریکی پیشنٹ سیفٹی کے ماہر ڈاکٹر پال باراش کا کہنا تھا کہ پوری دنیا بشمول پاکستان میں لاکھوں مریض اسپتالوں میں صرف اس لیے مر جاتے ہیں کیوں کہ ان کی دیکھ بھال کرنے والے ڈاکٹر اور نیم طبی عملہ مایوسی اور تھکان کا شکار ہو چکا ہے، ان کا کہنا تھا کہ کام کرنے کے نامناسب حالات لمبی شفٹیں اور اسٹیریس کی وجہ سے 40سے 50فیصد طبی عملہ ڈپریشن کا شکار ہو چکا ہے جس کی وجہ سے وہ مریضوں کوبہتر طبی سہولیات فراہم کرنے سے قاصر ہیں۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستانی طبی و نیم طبی عملے کی دماغی صحت سے متعلق لاعلم ہیں لیکن یہاں چند اسپتالوں کے دورے کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ پاکستانی اسپتالوں کے طبی اور نیم طبی عملے کی دماغی صحت کا معائنہ کیا جانا چاہیے اور انہیں بہتر سہولیات مہیا کی جانی چاہئیں۔

    انسٹی ٹیوٹ آف لرننگ ایکسی لینس کے ڈائریکٹر ڈاکٹر زکی الدین احمد کا کہنا تھا کہ ان کا ادارہ اسپتالوں کو چلانے والے طبی اور غیر طبی عملے کو لیڈر شپ ٹریننگ فراہم کرے گا تاکہ وہ دستیاب وسائل میں رہتے ہوئے سرکاری اسپتالوں کوکی سہولیات کو بہتر بناسکیں گے۔

  • اٹلی کی قونصل جنرل کا قومی ادارہ برائےامراضِ اطفال کا دورہ

    اٹلی کی قونصل جنرل کا قومی ادارہ برائےامراضِ اطفال کا دورہ

    کراچی: اٹلی کی قونصل جنرل اینا روفینو نے اپنے ملک کے ماہرین اطفال کے ہمراہ قومی ادارہ برائے امراضِ اطفال کراچی کا دورہ کیا ، اس دورے کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان تکنیکی روابط بڑھانا ہے۔

    تفصیلات کےمطابق اٹلی کے طبی ماہرین کی ٹیم جب قونصل جنرل اینا روفینو کی قیادت میں قومی ادارہ برائے امراضِ اطفال پہنچی تو ادارے کے سربراہ ڈاکٹر جمال رضا نے ان کا استقبال کیا اور انہیں اسپتال کا دورہ کروایا۔

    اس موقع پر ڈاکٹر جمال رضا کا کہنا تھا کہ خیرسگالی کے اس دورے کا بنیادی مقصد اٹلی کے ماہرین صحت برائے اطفال کو پاکستان میں بچوں کو فراہم کی جانے والی طبی سہولیات کی صورتحال سے آگاہ کرنا ہے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ بچوں کو علاج معالجے کی بہترین سہولیات فراہم کرنے کے لیے دنیا کے بہترین ہیلتھ سینٹرز کا مسلسل رابطے میں رہنا ضروری ہے، اس سے کسی ہنگامی نوعیت کے کیس کو فوراً حل کرنے میں مدد ملتی ہے اور مریضوں کو بہتر طبی امداد فراہم کی جاسکتی ہے۔

    اس موقع پر اٹلی کی قونصل جنرل اینا روفینو کا کہنا تھا کہ یہاں آکر بے حد خوشی ہوئی، این آئی سی ایچ کے ڈاکٹرز اور عملہ انتہائی دل جوئی اور جانفشانی سے مریضوں کی خدمت کررہا ہے۔

    اس موقع پر انہوں نے اعلان کیا کہ جلد ہی این آئی سی ایچ اور اٹلی کے اسپتال کے درمیان معاہدہ یقینی بنائیں گے جس کے تحت یہاں کے ڈاکٹرز اور عملے کو اٹلی بھیجا جائے گا، اور اٹلی کے ڈاکٹر اور طبی عملہ یہاں آکر تربیت حاصل کریں گے ۔ اس معاہدے کا مقصد یہ ہے کہ دونوں ممالک ایک دوسرے کی مہارتوں سے فائدہ اٹھا سکیں۔

  • جناح اسپتال میں ایک اور کانگو کے مریض کی تصدیق

    جناح اسپتال میں ایک اور کانگو کے مریض کی تصدیق

    کراچی: شہرقائد میں جان لیوا موذی وائرس کانگو کا ایک اور متاثرہ مریض سامنے آگیا، جناح اسپتال انتظامیہ نے مریض میں وائرس کی تصدیق کردی۔

    تفصیلات کے مطابق جناح اسپتال کراچی کی ڈائریکٹر ڈاکٹر سیمی جمالی کے مطابق جام گوٹھ ملیر کے رہائشی 28 سالہ نہال میں کانگو وائرس کی تصدیق ہوچکی ہے،کراچی میں کانگو وائرس کے خطرات بدستور موجود ہیں۔

    ڈاکٹر سیمی جمالی کے مطابق نہال نامی اس مریض کو دو روز قبل کانگو کی علامات نمایاں ہونے پر اسپتال میں داخل کرایا گیا تھاجہاں علاج کے دوران کیے گئے ٹیسٹوں کی نتیجے میں مریض میں کانگو وائرس کی تصدیق ممکن ہوئی ، یاد رہے کہ رواں سال صرف جناح اسپتال میں اب تک کانگو کے وائرس سے متاثرہ 18 مریض داخل کرائے جاچکے ہیں۔ ماہ اگست میں اس مرض میں مبتلا دو مریض انتقال کرگئے تھے۔

    یاد رہے کہ دو ماہ قبل عید الاضحیٰ کے موقع پر محکمہ صحت نے کانگو وائرس سے متاثرہ اشخاص کے لیے خصوصی گائیڈ لائن جاری کی تھیں۔

    گائیڈ لائنز کے مطابق کانگو بخار خطرناک نیرو نامی وائرس سے پھیلتا ہے۔ کانگو مویشی کی کھال سے چپکی چیچڑوں میں پایا جاتا ہے، چیچڑی کے کاٹنے سے وائرس انسان کو منتقل ہوتا ہے۔

    قومی ادارہ صحت کے مطابق نیرو وائرس صرف انسانوں میں کانگو بخار پھیلاتا ہے۔ نیرو وائرس انسانی خون، تھوک اور فضلات میں پایا جاتا ہے۔

    قومی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ تیز بخار، کمر، پٹھوں، گردن میں درد، قے، متلی، گلے کی سوزش اور جسم پر سرخ دھبے کانگو کی علامات ہیں۔

    گائیڈ لائنز کے مطابق بچوں کو مویشی منڈی لے جانے سے گریز کیا جائے، قربانی کے وقت ہاتھوں پر دستانوں کا استعمال کریں۔ کانگو وائرس کی ویکسین تا حال ایجاد نہیں ہوئیں۔

    یاد رہے کہ کانگو وائرس کی ویکسین تاحال ایجاد نہیں ہوئی ہے ، لہذا قبل اس وقت احتیاط اور مرض ظاہر ہوجانے کی صورت میں بروقت علاج ہی سے اس مرض کا خاتمہ ممکن ہے۔ اگر آپ کے ارد گرد کوئی شخص مذکورہ بالا علامات میں مبتلا ہے تو اس کی رہنمائی کیجیے کہ یہ ممکنہ طور پر کانگو ہوسکتا ہے لہذا فی الفور کسی اچھے معالج یا اسپتال سے رجو ع کیا جائے۔

  • گمبٹ انسٹی ٹیوٹ: حکومتِ سندھ نے گرانٹ 2000 ملین روپے کر دی

    گمبٹ انسٹی ٹیوٹ: حکومتِ سندھ نے گرانٹ 2000 ملین روپے کر دی

    خیر پور: صوبہ سندھ کے ضلع خیر پور کے شہر گمبٹ میں قائم پیر سید عبد القادر شاہ جیلانی انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز اسپتال کی گرانٹ حکومتِ سندھ نے 1500 ملین سے بڑھا کر 2000 ملین روپے کر دی۔

    تفصیلات کے مطابق گمبٹ انسٹی ٹیوٹ اپنی نوعیت کا ایک نہایت جدید ترین اور ہزاروں مریضوں کے لیے زندگی کی نوید بن گیا ہے، رواں سال حکومتِ سندھ نے بھی اسپتال کے گرانٹ میں اضافہ کر دیا۔

    [bs-quote quote=”گمبٹ انسٹی ٹیوٹ اعضا کی پیوند کاری کے سلسلے میں مثال بن گیا ہے” style=”style-7″ align=”left” color=”#dd3333″][/bs-quote]

    پاکستان میں جہاں اعضا کی خرابی کے باعث ہر سال ایک لاکھ 50 ہزار سے زائد لوگ زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں، جن کا علاج اعضا کی پیوند کاری ہی سے ممکن ہو، وہاں گمبٹ انسٹی ٹیوٹ اعضا کی پیوند کاری کے سلسلے میں ایک مثال بن گیا ہے۔

    گمبٹ انسٹی ٹیوٹ کو ڈاکٹر رحیم بخش بھٹی نے 43 برس میں اپنی پُر عزم ٹیم کے ساتھ مل کر صرف 2 کمروں پر مشتمل ڈسپنسری سے ترقی دیتے ہوئے 800 بستروں پر مشتمل جدید اسپتال میں تبدیل کیا۔

    یہاں جدید ترین مشینری کے ذریعے جنرل میڈیسن کے علاوہ مختلف سرجریز، ڈائیلیسز، انجیو گرافی، انجیو پلاسٹی، بائی پاس اور بون میرو ٹرانسپلانٹ کی سہولیات مفت فراہم کی جا رہی ہیں۔


    یہ بھی پڑھیں:  سندھ کے سرکاری طبی مراکز کی مخدوش صورتِ حال، کرپشن عروج پر


    گمبٹ انسٹی ٹیوٹ میں نو مولود بچوں کے لیے وینٹی لیٹرز، انکیوبیٹرز، ایڈوانس آئی سی یو اور خواتین کے تمام آپریشنز بھی مفت کیے جاتے ہیں۔

    انسٹی ٹیوٹ میں خطے کا جدید ترین اینمل ہاؤس اور ٹری پلانٹ قائم کیا گیا ہے، جہاں آنے والے دور میں زیرِ تعلیم طلبہ و طالبات کو ریسرچ کے بہترین مواقع میسر آئیں گے۔

    ادارے کے ڈائریکٹر ڈاکٹر رحیم بخش بھٹی کا کہنا ہے کہ اگر آپ ایمان داری، ارادے اور جنون سے کام کریں تو ہر چیز ممکن ہے، سب کچھ کیا جا سکتا ہے۔

  • سرکاری اسکول جہاں صرف ایک طالبہ تعلیم حاصل کررہی ہے

    سرکاری اسکول جہاں صرف ایک طالبہ تعلیم حاصل کررہی ہے

    کراچی: شہرقائد میں ایک ایسا اسکول بھی ہے جہاں اساتذہ تو موجود ہیں لیکن تعلیم حاصل کرنے کے لیے صرف ایک لڑکی روزانہ آتی ہے، اسکول میں بنیادی سہولیات کا فقدان ہے۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی کے علاقے گڈاپ ٹاؤن کے گوٹھ یار محمد جوکھیو میں قائم گرلز مڈل اسکول ایک الگ ہی منظر پیش کرتا ہے، یہاں خواتین اساتذہ تو موجو د ہیں لیکن طالب علموں کا دور دور تک نام و نشان نہیں ہے۔

    اسکو ل کی عمارت دو کمروں پر مشتمل ہےجن میں سے ایک کمرہ اسٹاف کے زیراستعمال ہے تو دوسرے کمرے میں چھٹی ، ساتویں اور آٹھویں جماعت کی کلاسز کا انتظام ہے ۔ لیکن یہ سارا انتظام لاحاصل ہے کہ کلاس روم میں محض چھٹی جماعت کی ایک طالبہ زیرِ تعلیم ہے۔

    دو کمروں پر مشتمل اسکول کی عمارت

    طالبہ کا کہنا ہے کہ وہ گزشتہ تین ماہ سے اسکول میں ہے ، شروع میں یہاں کچھ لڑکیاں تھیں جن کی تعداد لگ بھگ آٹھ کے قریب ہے۔ ان میں سے کچھ کے والدین یہ علاقہ چھوڑ گئے تو کچھ نے بغیر کسی سبب کے اسکول آنا چھوڑدیا ہے، کبھی کبھی دو تین لڑکیاں اسکول کا رخ کرلیتی ہیں تو اس کی اپنی ہم جماعتوں سے ملاقات ہوجاتی ہے۔ طالبہ کے مطابق اپنی تمام ہم جماعتوں میں صرف وہی اپنے شوق کے سبب باقاعدگی سے آتی ہے اور اسکول میں موجود ٹیچرز بھی اسے پڑھاتی ہیں۔

    شہر کے دور دراز علاقے میں قائم یہ اسکول بنیادی سہولیات سے بھی محروم ہے ، نہ یہاں پینے کے لیے صاف پانی کی ٹنکی ہے جبکہ خواتین اساتذہ اور طالبات کے لیے صرف ایک ہی بیت الخلا ہے جو کہ ناقابلِ استعمال حالت میں ہے۔

    پانی کی ٹنکی کی حالتِ زار

    اسکول میں موجود خواتین اساتذہ کا کہنا ہے کہ حکومت نے ان کی یہاں ڈیوٹی لگائی ہے تو کم از کم بنیادی سہولیات تومہیا کرے ۔ یہاں چوکیدار بھی موجود نہیں ہے جس کے سبب جتنا وقت ہم یہاں گزارتے ہیں ، خوف کے عالم میں رہتے ہیں۔ نہ صرف یہ کہ بطور خواتین ہمیں اپنی سیکیورٹی کی فکر رہتی ہے بلکہ گنتی کی جو چند بچیاں یہاں تعلیم حاصل کرنے آتی ہیں ، ان کی حفاظت بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔

    اسکول میں آٹھ اساتذہ موجود ہیں جن میں سے کچھ تو سنہ 1980 سے یہاں موجود ہیں تو کچھ کو حال ہی میں این ٹی ایس کے ذریعے بھرتی کیا گیا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ علاقے میں ایک بھرپور مہم چلائے جس سے طالبات حصول علم کے لیے اسکول کا رخ کریں۔

    اسکول کا بیت الخلا مخدوش حالت میں

    نہ صرف حکومت بلکہ علاقہ معززین اور والدین کی بھی یہ اولین ذمہ داری ہے کہ جب سرکار کی جانب سے انہیں تعلیم حاصل کرنے کے لیے اساتذہ مہیا کیے گئے ہیں تو ان کی موجودگی سے فائدہ اٹھائیں اور اپنے بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کریں۔

    اسکول کی پرنسپل نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ انہیں فی الفور یہاں بنیادی سہولیات مہیا کی جائیں اور ساتھ ہی ساتھ ان کی حفاظت کے لیے چوکیدار کا بھی انتظام کیا جائے۔

  • جناح اسپتال کراچی کے لیے چھ جدید ایمبولنس گاڑیاں

    جناح اسپتال کراچی کے لیے چھ جدید ایمبولنس گاڑیاں

    کراچی: جناح پوسٹ گرایجویٹ میڈیکل کالج یونی ورسٹی میں مریضوں کو بہتر سہولت فراہم کرنے کے لیے چھ جدید ایمبولینس گاڑیاں سسٹم میں شامل کردی گئیں۔

    تفصیلات کے مطابق جناح پوسٹ گرایجویٹ میڈیکل کالج یونی ورسٹی کی ڈائریکٹر ڈاکٹر سیمی جمالی نے نئی ایمبولینس سروس کا افتتاح کیا، ان کا کہنا تھا کہ مریضوں کو بہتر سہولت فراہم کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔

    اس موقع پر ڈاکٹر سیمی جمالی کا مزید کہنا تھا کہ جناح اسپتال کی پہلے سے موجود ایمبولینس گاڑیاں اور یہ نئی ایمبولنسیں صرف اسپتال میں زیرعلاج مریضوں کے استعمال میں رہیں گی۔ انہوں نے بتایا کہ نئی ایمبولینسیں اسپیشل وارڈ اور گائنی وارڈ کے مریضوں کے لیے مختص کی جارہی ہیں۔

    ان کا کہنا تھا کہ اسپتال انتظامیہ مریضوں کو بہترین علاج کے ساتھ انتہائی عمدہ اور معیاری سہولیات فراہم کرنے کے لیے کوشاں رہتی ہے اور یہ ایمبولینس سروس بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔

    بتایا جارہا ہے کہ جناح اسپتال کو جدید سہولیات سے لیس یہ ایمبولنس گاڑیاں سندھ حکومت کی جانب سے عطیہ کی گئیں ہیں اور ان میں سے ہر ایک کی مالیت جدید آلات کی تنصیب کے سبب لاکھوں روپے ہے۔

    یاد رہے کہ رواں سال فروری میں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے جناح اسپتال کراچی کا اچانک دورہ کیا تھا اور اسپتال انتظامیہ کی بہتر کارکردگی کا اعتراف کرتے ہوئے ڈاکٹر سیمی جمالی کو ایک لاکھ روپے کا انعامی چیک بطور عطیہ دیا تھا۔ اس سے قبل کئی اسپتالوں کے اچانک دورے پر چیف جسٹس معیار کے مطابق انتظامات نہ ہونے اسپتال انتظامیہ کو شدید تنقید کا نشانہ بھی بنا چکے تھے۔

  • کراچی میں طلبہ وطالبات کی جانب سے شجر کاری مہم

    کراچی میں طلبہ وطالبات کی جانب سے شجر کاری مہم

    کراچی: شہرقائد میں نجی اسکول اور اپوا گورنمنٹ گرلز کالج کے اشتراک سے شجر کاری مہم کا آغاز کردیا گیا، مہم میں دونوں اداروں کے طالب علموں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔

    تفصیلات کے مطابق اس شجرکاری مہم میں اپوا گورنمنٹ گرلز کالج کی طالبا ت اور نجی اسکول کے طالب علم شریک تھے ، اس موقع پر 500 پودے لگائے گئے ۔

    دلچسپ بات یہ ہے کہ اس مہم میں صرف طلبہ و طالبات ہی نہیں بلکہ دونوں اداروں کے اساتذہ اور طلبہ و طالبات کے والدین بھی شریک ہوئے اور درخت لگانے میں بچوں کے ہمراہ پیش پیش رہے ۔

    اس موقع پر طلبہ وطالبات کے والدین نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ادارے کی انتظامیہ کو سراہا کہ ان کے بچوں کی سماجی تربیت کے لیے یہ ایک بہتر اقدام ہے اور انہیں خوشی ہے کہ مذکورہ بالا تعلیمی اداروں کی انتظامیہ ان کے بچوں کی تعلیم کے ساتھ ان کی سماجی تربیت کا بھی خیال کررہی ہے۔

    اس موقع پر طلبہ وطالبات کا جوش و خروش دیدنی تھا اور پودے نصب کرنے کے بعد انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ حتی الامکان اپنے لگائے ہوئے پودوں کی نگہداشت کریں گے اور ان کی حفاظت بھی کریں گے۔

    یاد رہے کہ پاکستان میں بڑھتی ہوئی گرمی اور ماحولیاتی تبدیلیوں کی روک تھام کے لیے ماہرین کی جانب سے شجر کاری کو وقت کی اہم ضرورت قرار دیا گیا ہے ۔

    اس حوالے سے موجودہ وزیراعظم عمران خان کی جماعت تحریک انصاف کی خیبرپختونخواہ حکومت کی جانب سے شروع کردہ ’بلین ٹری سونامی‘ مہم کو عالمی سطح پر بھی پذیرائی ملی ہے۔

    یہاں یہ بات بھی قابل ِ ذکر ہے کہ پاکستان سنہ 2015 میں ماحولیات کے تحفظ کے لیے کیے گئے عالمی معاہدے ’ پیرس ایگریمنٹ‘ کا دستخط کنندہ بھی ہے، جس کے تحت پاکستان نے اپنی سرزمین پر گلوبل وارمنگ کو روکنے کے لیے متعدد اقدامات کرنے ہیں جن میں جنگلات کے رقبے میں اضافہ سرفہرست ہے۔

  • کراچی میں 62 افراد سگ گزیدگی کا شکار بن گئے

    کراچی میں 62 افراد سگ گزیدگی کا شکار بن گئے

    کراچی : شہرقائد کے مختلف علاقوں میں سگ گزیدگی کے واقعات میں ایک دم اضافہ دیکھنے میں آیا ہے ، جناح اسپتال میں کل رات سے آج تک کتوں کے کاٹنے کے 62 واقعات رپورٹ ہوچکے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق شہر کے جن علاقوں میں سگ گزیدگی کے واقعات رپورٹ ہوئے ان میں ملیر ماڈ ل کالونی سرفہرست ہے جبکہ محمود آباد، ناظم آباد اورکلفٹن کے علاوہ شہر کے دیگر علاقوں میں بھی اس نوعیت کے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔

    جناح اسپتال کی ڈائریکٹر ڈاکٹر سیمی جمالی کے مطابق گزشتہ رات سگ گزیدگی کے 12 کیسز لائے گئے ، جبکہ صبح سے اب تک پچاس کیسز صرف جناح اسپتال میں آچکے ہیں۔ مجموعی طور پر یہ تعداد 62 بنتی ہے ۔

    متاثرہ افراد کو جناح اسپتال کے ڈاگ بائٹ یونٹ میں ابتدائی طبی امداد دے کر ڈسچارج کردیا گیا، کتے کے کاٹنے کے باعث ایک متاثرہ مریض کو ابتدائی طور پر ویکسین کی 2ڈوز فراہم کی جاتی ہے ۔متاثرہ مریضوں کو مزید ویکسین فراہم کرنے کے لیے شیڈول فراہم کردیا گیا ہے۔

    یاد رہے کہ کراچی میں صرف جناح اور سول وہ سرکاری اسپتال ہیں جہاں کتے کے کاٹنے کی ویکسین موجود ہوتی ہے ، اس کے علاوہ کسی سرکاری اسپتال میں یہ سہولت میسر نہیں ہے ، اس کے علاوہ کچھ نجی اسپتال بھی سگ گزیدگی کی ویکسین فراہم کرتے ہیں تاہم نجی اسپتالوں میں ویکسین اور ابتدائی ٹریٹمنٹ کی قیمت ہزاروں میں وصول کی جاتی ہے جبکہ سول اور جناح میں یہ سہولت بالکل مفت فراہم کی جاتی ہے۔

    یاد رہے کہ گزشتہ کچھ عرصے میں شہر میں کتوں کی تعداد میں ہوش ربا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے ، زیادہ تر علاقوں میں گزشتہ کئی سال سے کتا مار مہم نہیں چلی اور شہر میں بڑھتے ہوئے کوڑے کے ڈھیر ان آوارہ کتوں کی افزائش ِ نسل میں اضافے کا سبب بن رہے ہیں۔

    گزشتہ سال کراچی کے کچھ علاقوں میں کتا مار مہم چلانے پر سول سوسائٹی اور جانوروں سے محبت کرنے والی سوسائٹیز کی جانب سے ردعمل سامنے آیا تھا اور انہوں نے کتوں کو مارنے کے بجائے سگ گزیدگی کی وارداتوں کو روکنے کے لیے دیگر طریقے اختیار کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔