Author: انور خان

  • کراچی میں کالج کی طالبات کو ایڈمٹ کارڈ نہ ملنے کیخلاف مقدمہ درج

    کراچی میں کالج کی طالبات کو ایڈمٹ کارڈ نہ ملنے کیخلاف مقدمہ درج

    کراچی: گورنمنٹ ڈگری کالج فار ویمن ناظم آباد کی 81 طالبات کو ایڈمٹ کارڈ نہ ملنے پر پرنسپل نے مقدمہ درج کروا دیا۔

    پرنسپل شہلا شبیر نے ایف آئی آر نے مؤقف اپنایا کہ 3 روز قبل معلوم ہوا کہ طالبات کو ایڈمٹ کارڈ جاری نہیں کیے جا رہے، کالج سپرنٹنڈنٹ نفیس نے ان سے کیش رقم وصول کی تھی۔

    یہ بھی پڑھیں: طلبا کو ایڈمٹ کارڈ نہ ملنے کی شکایت، میٹرک بورڈ کا اہم بیان

    درج مقدمے کے متن میں کہا گیا کہ کالج سپرنٹنڈنٹ کی جانب سے 9 لاکھ روپے سے زائد کی رقم خرد برد کی گئی، رقم اے ڈی اے ون، ٹو اور تھری کی امتحانی فیس کی مد میں وصول ہوئی۔

    شہلا شبیر نے پولیس کو بتایا کہ کالج سپرنٹنڈنٹ نے رقم بینک میں جمع کروانے کے خود وصول کی، اکتوبر 2024 میں والدین اور طالبات کیلیے نوٹس بھی لگایا گیا تھا کہ کالج کے کسی اسٹاف کو نقد رقم نہ دیں بلکہ بینک واؤچر لیں۔

    ایف آئی آر میں کہا گیا کہ مزید طالبات کی جانب سے بھی شکایات آ رہی ہیں، 80 سے زائد طالبات کل امتحان میں شرکت نہیں کر سکیں گی۔

    پرنسپل نے بتایا کہ تمام متاثرہ طالبات کے ایڈمٹ کارڈز بنا دیے گئے ہیں، امتحان میں شرکت کیلیے طالبات کو جاری کیے جا رہے ہیں۔

    اس سے قبل جامعہ کراچی کے ناظم امتحانات نے کہا تھا کہ کالج کی طالبات کا سال ضائع نہیں ہوگا، کالج سپریٹینڈنٹ بھاگ گیا ہے فارم جمع ہی نہیں کروائے گئے۔

    انہوں نے کہا کہ جامعہ کراچی سے الحاق کالج کی طالبات کو انصاف فراہم کیا جائے گا، کچھ دیر بعد متاثرہ طالبات کے ایڈمٹ کارڈ انہیں جاری کر دیے جائیں گے۔

  • جامعات سے متعلق ترمیمی بل کیخلاف اساتذہ کا سندھ اسمبلی کے باہر احتجاج

    جامعات سے متعلق ترمیمی بل کیخلاف اساتذہ کا سندھ اسمبلی کے باہر احتجاج

    کراچی: جامعات سے متعلق متنازع ترمیمی بل کے خلاف اساتذہ سندھ اسمبلی کے باہر احتجاج کر رہے ہیں جس کے باعث پولیس کی نفری طلب کر لی گئی۔

    انجمن اساتذہ جامعہ اور فپواسا کا کہنا ہے کہ ترمیمی قبول نہیں کیا جائے گا لہٰذا فوری واپس لیا جائے، اساتذہ کو اعتماد میں لیے بغیر بل پیش کیا گیا۔

    صدر انجمن اساتذہ جامعہ کراچی محسن علی نے کہا کہ جامعات کی خود مختاری کسی صورت متاثر نہیں ہونے دیں گے، ہم کسی صورت جامعات کی خود مختاری متاثر نہیں ہونے دیں گے۔

    فپواسا نے کہا کہ دو ہفتوں سے جامعات احتجاج جاری ہے حکومت توجہ دینے کو تیار نہیں، اساتذہ کو اعتماد میں لیے بغیر بل پیش کیا گیا ہے۔

    چند روز قبل وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے قانون سازی کو واپس نہ لینے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ باہر سے وفد آیا ان کے نام پر ہوٹل اور ٹکٹ کے پیسے وی سی کھا گیا، میں اس وائس چانسلرکو نہیں نکال سکتا کیونکہ وہ عدالت چلے گئے اس کیلیے قانون سازی ضروری ہے۔

    وزیر اعلیٰ کا کہنا تھا کہ اپنی غلطی تسلیم کرتا ہوں، ایسے بھی وائس چانسلرز منتخب ہوئے جو جنسی ہراسگی میں اور بعض وائس چانسلرز مالی فراڈ میں ملوث نکلے، پروفیسرز میدان میں آئیں وائس چانسلر بنیں کس نے روکا، یہ کہنا غلط ہے کہ بیوروکریٹس کیلیے وائس چانسلرز کی راہ ہموار کی۔

    انہوں نے کہا تھا کہ بہت سارے وائس چانسلرز کے پاس فائنانشل اسکلز نہیں، انہوں نے جامعات کو تباہ کر دیا ہے، یہ صوبے کے بچوں کے پیسے ہیں، ہمیں فیڈرل ایچ ای سی سے خیرات نہیں چاہیے یہ رقم بھی خود دیں گے۔

    سندھ بھر کی سرکاری جامعات کے اساتذہ ترمیمی ایکٹ کے خلاف سراپا احتجاج ہیں اور ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی صورت سول سرونٹس جامعات میں وائس چانسلرز تعینات ہونے نہیں دیں گے۔

  • ہیپاٹائٹس سی کا پھیلاؤ: کراچی کیلیے خطرے کی گھنٹی بج گئی

    ہیپاٹائٹس سی کا پھیلاؤ: کراچی کیلیے خطرے کی گھنٹی بج گئی

    کراچی میں موذی مرض ہیپاٹائٹس تیزی سے پھیل رہا ہے اور صرف ایک علاقے کی 13 فیصد آبادی اس کا شکار ہو چکی ہے۔

    بین الاقوامی غیرسرکاری ادارے کے مطابق پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں موذی مرض ہیپاٹائٹس سی تیزی سے پھیل رہا ہے اور اس کے صرف ایک علاقے مچھر کالونی کی 13 فیصد آبادی اس موذی مرض کا شکار پائی گئی ہے۔

    مچھر کالونی میں گزشتہ روز بین الاقوامی غیر سرکاری ادارے نے 74 ہزار افراد کی اسکریننگ کی۔ جب نتائج سامنے آئے تو یہ ہولناک انکشاف ہوا کہ علاقے کے 10 ہزار سے زائد آباد ہیپاٹائٹس سی سے متاثر ہوچکی ہے۔

    طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ سرنجز کا غیر ضروری اور دوبارہ استعمال، غیر محفوظ انتقال خون اور حجام کی دکانیں ہیپاٹائٹس سی کے پھیلاؤ کا بڑا سبب ہیں جب کہ مچھر کالونی میں اتائی ڈاکٹر بھی کالے یرقان کے پھیلاؤ کی بڑی وجہ ہیں۔

    کراچی کے علاقے مچھر کالونی میں بین الاقوامی غیر سرکاری ادارے نے 74 ہزار افراد کی اسکریننگ کی 10 ہزار سے زائد میں ہیپاٹائٹس سی کی تشخیص ہوئی

    بین الاقوامی غیر سرکاری ادارے کے مطابق مچھر کالونی میں ہیپاٹائٹس کا شکار 9,000 سے زائد افراد کو مفت علاج کی سہولیات فراہم کی گئی ہیں۔

  • ترمیمی ایکٹ کے خلاف کراچی سے کشمیر تک جامعات میں یوم سیاہ

    ترمیمی ایکٹ کے خلاف کراچی سے کشمیر تک جامعات میں یوم سیاہ

    کراچی: ترمیمی ایکٹ کے خلاف آج جمعرات کو کراچی سے کشمیر تک جامعات میں یوم سیاہ منایا جا رہا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق فاپواسا پاکستان کے تحت ملک بھر کی جامعات میں یوم سیاہ کی کال دی گئی ہے، جس پر آج پنجاب، خیبرپختونخوا، بلوچستان، گلگت بلتستان، آزاد جموں و کشمیر کی جامعات میں یوم سیاہ منایا جا رہا ہے۔

    سندھ بھر کی جامعات میں ترمیمی ایکٹ کے خلاف 11 ویں دن بھی تدریسی عمل کا بائیکاٹ جاری ہے، اساتذہ کا کہنا ہے کہ ترمیمی ایکٹ کی منسوخی تک کلاسیں غیر معینہ مدت تک ملتوی رہیں گی، وزیر اعلیٰ سندھ فوری طور پر جامعات سے متعلق ایکٹ کو منسوخ کریں۔

    اساتذہ یوم سیاہ

    فاپواسا سندھ چیپٹر کا کہنا ہے کہ سندھ کی سرکاری جامعات میں بیوروکریٹ وائس چانسلر قبول نہیں کیے جائیں گے، ایکٹ کی منسوخی تک سندھ کی جامعات میں تدریسی عمل غیر معینہ مدت تک معطل رہے گا، اس لیے وزیر اعلیٰ سندھ ترمیمی ایکٹ فوری منسوخ کریں۔

    کراچی یونیورسٹی یوم سیاہ

    اساتذہ کی تنظیم سپلا نے خبردار کیا ہے کہ سندھ بھر کی جامعات کے بعد کالجز میں بھی کلاسوں کے بائیکاٹ کا سلسلہ شروع کیا جائے گا، تنظیم نے سندھ کے تعلیمی بورڈ سے متعلق ترمیمی بل بھی ناقابل قبول قرار دے دیا، اور کہا کہ ترمیمی بل سے سندھ کے تعلیمی بورڈ کی خودمختاری متاثر ہوگی، بیوروکریٹ کی تقرریاں نظام تعلیم کو شدید متاثر کرے گی۔

    پیکا ترمیمی بل پر دستخط سے قبل فضل الرحمان اور صدر زرداری میں کیا بات چیت ہوئی؟

    فاپواسا کے مرکزی صدر ڈاکٹر امجد مگسی نے کہا ہے کہ سندھ کی جامعات کی خودختیاری کو مکمل طور پر ختم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، حکومت اکثریت کے بل بوتے پر اسمبلی سے من مانے بل منظور کرانے میں سرگرم ہے، جس کو کسی صورت قبول نہیں کیا جائے گا، کنٹریکٹ پر اساتذہ کی تقرریاں بھی ناقابل قبول ہیں۔

    فاپواسا پاکستان نے اس بات کا فیصلہ کیا ہے کہ سندھ کی جامعات کے اساتذہ کے ساتھ احتجاج میں بھرپور شرکت کی جائے گی اور آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان فاپواسا پاکستان کے اجلاس میں کیا جائے گا۔

  • کراچی کے سول اسپتال میں بجلی معطل

    کراچی کے سول اسپتال میں بجلی معطل

    کراچی: سول اسپتال کے مختلف شعبوں میں بجلی کی فراہمی معطل ہو گئی۔

    تفصیلات کے مطابق سندھ کا سب سے بڑا سرکاری اسپتال اندھیرے میں ڈوب گیا۔ سول اسپتال کے آرتھوپیڈک، اوٹی کمپلیکس، میڈیکل ون ٹو، سرجیکل ون ٹو میں بجلی کی فراہمی معطل ہو گئی۔

    ایم ایس سول اسپتال ڈاکٹر خالد بخاری کا کہنا ہے کہ اندرونی فالٹ کی وجہ سے  بجلی فراہمی معطل ہوئی، سول اسپتال کی پی ایم ٹی  بہت پرانی ہوچکی ہے اب پی ایم ٹی تبدیل کرنے کیلئے کےالیکٹرک سے مدد کی درخواست کی۔

    ان کا کہنا تھا کہ کےالیکٹرک کی ٹیم نے پہلے ہی کام شروع کر دیا ہے اور آئندہ چندگھنٹوں میں بجلی بحال ہو جائےگی۔

  • پاکستان میں عدالت کے علاوہ تنازعات کے حل کے متبادل راستے کیا ہیں؟ جسٹس منصور بتاتے ہیں

    پاکستان میں عدالت کے علاوہ تنازعات کے حل کے متبادل راستے کیا ہیں؟ جسٹس منصور بتاتے ہیں

    کراچی: تنازعات کے متبادل حل کے موضوع پر آئی بی اے میں آج ایک سیمینار ہوا، جس میں سپریم کورٹ کے سینیئر جج جسٹس منصور علی شاہ اور لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس جواد حسن شریک ہوئے۔

    جسٹس منصور علی شاہ نے خطاب میں کہا کہ پاکستان میں 24 لاکھ کیسز زیر التوا ہیں، اور 86 فی صد زیر التوا کیسز ضلعی عدالتوں میں ہیں، ملک میں یہ ایک طریقہ رائج ہو گیا ہے کہ کسی کو بھی مسئلہ ہوتا ہے تو عدالت آتا ہے، حالاں کہ ثالثی سمیت دیگر مختلف راستے بھی موجود ہیں۔

    انھوں نے کہا ہمارے پاس ججز کی تعداد کم ہے، پاکستان میں اوسطاً 13 ججز فی ملین ہیں، جب کہ دنیا میں 90 ججز فی ملین ہیں، اس لیے تنازعے کی صورت میں فوری طور پر عدالت آنے کی بجائے ثالثی کی کوشش کی جانی چاہیے، اگر ثالثی سے مسئلہ حل نہ ہو تو عدالت سے رجوع کیا جانا چاہیے۔

    جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کمپنیوں کو پہلے داخلی طور پر تنازعات حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، اس سے عدالتوں پر دباؤ بڑھتا ہے، انصاف تک رسائی تمام شہریوں کا حق ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ عدالت سے رجوع کیا جائے، اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسا فورم ہو جہاں مسائل حل ہو سکیں۔

    انھوں نے کہا ’’میڈیئیشن اور آربٹریشن سمیت دیگر آپشن بھی موجود ہیں، تنازعات کا یہ متبادل حل عدالتی نظام ہی کا حصہ ہے، عدالتی سسٹم عدالت سمیت دیگر طریقہ کار فراہم کرتا ہے، صرف عدالتوں کو ہی انصاف کی فراہمی کا ذمہ دار نہیں سمجھنا چاہیے، اگر ہر کوئی عدالت سے رجوع کر کے حکم امتناع حاصل کرے گا تو معیشت کیسے چلے گی، حکم امتناع اور ضمانتوں کی بنیاد پر قومیں ترقی نہیں کرتیں۔‘‘

    سیمینار سے جسٹس جواد حسن نے خطاب میں کہا ’’پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جہاں تنازعات کے متبادل حل کا قانون موجود ہے، جسٹس منصور علی شاہ نے ثالثی کے موضوع پر تفصیلی فیصلے تحریر کیے ہیں، پاکستان دنیا کے 3 ممالک میں شامل ہے جہاں ثالثی کے عدالتی احکامات موجود ہیں۔‘‘

    جسٹس جواد نے مزید کہا ’’دنیا میں ثالثی رضاکارانہ بنیادوں پر ہوتی ہے، آئین کے مطابق سپریم کورٹ کے احکامات تمام ماتحت عدالتوں پر لاگو ہوتے ہیں، عدالتوں کا کام ہے کہ غیر ملکی سرمایہ کاروں کو غیر ضروری مقدمہ سازی سے بچاتے ہوئے ثالثی کے ذریعے اعتماد فراہم کریں۔‘‘

  • اُردو یونیورسٹی کے اساتذہ و ملازمین کا پینشن کی عدم ادائیگی پراحتجاج

    اُردو یونیورسٹی کے اساتذہ و ملازمین کا پینشن کی عدم ادائیگی پراحتجاج

    کراچی: وفاقی اُردو یونیورسٹی کے اساتذہ اور ملازمین نے پینشن اور واجبات کی عدم ادائیگی کیخلاف کراچی پریس کلب پر احتجاجی مظاہرہ کیا۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق وفاقی اُردو یونیورسٹی کے اساتذہ اور ملازمین نے اس موقع پر پریس کلب سے گورنر ہاؤس تک احتجاجی مارچ بھی کیا۔

    مظاہرین نے کراچی پریس کلب پر احتجاج میں بینرز اور پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے اور مطالبات کے حق میں شدید نعرے بازی کررہے تھے۔

    احتجاجی مظاہرین کا کہنا تھا کہ واجبات اور پینشن کی ادائیگی انتہائی تاخیر کا شکار ہوچکی ہے۔

    کنوینر ریٹائرڈ ملازمین کمیٹی ڈاکٹر توصیف کا کہنا تھا کہ کئی ماہ سے پینشن سے محروم بعض ملازمین بروقت علاج نہ ملنے کے سبب دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں۔

    بابائے اُردو ڈاکٹر مولوی عبدالحق ؒ کی علمی کاوشیں

    ملازمین نے گورنر ہاؤس پہنچ کر بیل آف ہوپ کا بھی استعمال کیا، جہاں گورنر ہاؤس کے عملے نے مظاہرین کی جانب سے دی جانے والی درخواست وصول کی جبکہ ڈاکٹر توصیف احمد کی سربراہی میں تین رکنی وفد نے گورنر ہاؤس جا کر تحریری یاداشت گورنر ہاؤس کے عملے کو پیش کی۔

  • وفاقی ’مجبور‘ یونیورسٹی نے کانووکیشن میں طلبہ کو خالی لفافے پکڑا دیے، گورنر سندھ کا دلچسپ خطاب

    وفاقی ’مجبور‘ یونیورسٹی نے کانووکیشن میں طلبہ کو خالی لفافے پکڑا دیے، گورنر سندھ کا دلچسپ خطاب

    کراچی: وفاقی اردو یونیورسٹی نے کانووکیشن میں طلبہ کو خالی لفافے پکڑا دیے، جس پر گورنر سندھ نے دل چسپ خطاب میں زبردست تنقید کی۔

    گورنر سندھ کامران ٹیسوری نے آج منگل کو اردو یونیورسٹی کے کانووکیشن سے خطاب میں کہا ’’وفاقی اردو یونیورسٹی کی عمارات کھنڈرات کا منظر پیش کر رہی ہیں، طلبہ کو اسناد کے نام پر جو لفافے دیے جا رہے ہیں وہ بھی خالی ہیں۔‘‘

    کامران ٹیسوری نے کہا ’’شاید اسناد پرنٹ ہو کر نہیں آئیں، اس کے پیسے نہیں دیے گئے، اردو یونیورسٹی کو تو وفاقی ’مجبور‘ یونیورسٹی کا نام دیا جانا چاہیے۔‘‘

    انھوں نے وفاق پر شدید طنز کرتے ہوئے مزید کہا ’’لگتا ہے یونیورسٹی تب درست ہوگی جب اردو کا نام یونیورسٹی سے ہٹا دیا جائے گا، کئی سالوں سے یونیورسٹی میں تقسیم اسناد نہیں ہوئی، اگر یہ یونیورسٹی لاہور میں ہوتی تو ہر سال تقسیم اسناد ہوتی۔‘‘

    گورنر سندھ نے کہا کہ کھنڈرات نما عمارت کو اردو یونیورسٹی کے نام سے پیش کیا جا رہا ہے، جو ڈگریاں یہاں دی گئیں، اس میں بھی کچھ کے لفافے خالی ہیں، ڈگری پرنٹ کروانے کے پیسے یونیورسٹی کے پاس نہیں تھے۔

    دل چسپ امر یہ بھی ہے کہ گورنر سندھ نے خطاب کے آغاز میں وفاقی وزیر تعلیم خالد مقبول صدیقی اور وائس ضابطہ خان شنواری سمیت تمام افراد کو سلام پیش کیا، اور پھر کہا اب فیصلہ آپ کریں کہ جو تقریر میں اب یہاں کروں، وہ لکھی ہوئی کروں یا دل سے کروں؟ اس جامعہ میں اساتذہ کی تنخواہیں ہی نہیں ہیں، یہ اردو یونیورسٹی کراچی میں ہے اس لیے اس کا حال اتنا برا ہے۔

    وزیر اعلیٰ سندھ کے احکامات کے باوجود جامعات میں تدریسی عمل بحال نہ ہو سکا

    انھوں نے کہا جو حالات اردو یونیورسٹی کے ہیں ایسا لگ رہا ہے کچھ عرصے بعد یہ یونیورسٹی سیلانی چلائے گی، پتا نہیں اس مجبور یونیورسٹی کو کہاں لے کر جا رہے ہیں، ایک جماعت نے دعویٰ کیا تھا کہ گورنر ہاؤس کو جامعات میں تبدیل کریں گے، ساڑھے تین سال انھوں نے کچھ نہ کیا۔

    واضح رہے کہ وفاقی اردو یونیورسٹی کی 13 سال بعد تقسیم اسناد کی تقریب آج منعقد ہوئی ہے اور یہ یونیورسٹی کی پانچویں سالانہ تقسیم انعامات کی تقرب ہوگی، جس میں 231 مجموعی فارغ التحصیل طلبہ کو ڈگریاں تفویض کی جا رہی ہیں، بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے طلبہ کو 127 خصوصی تمغے عطا کیے جا رہے ہیں، 97 طلبہ کو گولڈ، 18 طلبہ کو سلور، اور 12 طلبہ کانسی کے تمغے دیے جا رہے ہیں۔

  • وزیر اعلیٰ سندھ کے احکامات کے باوجود جامعات میں تدریسی عمل بحال نہ ہو سکا

    وزیر اعلیٰ سندھ کے احکامات کے باوجود جامعات میں تدریسی عمل بحال نہ ہو سکا

    کراچی: سندھ کی جامعات میں اساتذہ کے احتجاج کا 9 واں روز ہے، جامعات کی ترمیمی ایکٹ کے خلاف کلاسوں کا بائیکاٹ غیر معینہ مدت تک برقرار رہے گا۔

    وزیر اعلیٰ سندھ کے احکامات کے باوجود تدریسی عمل بحال نہ ہو سکا، فاپواسا سندھ چیپٹر نے تدریسی عمل بحال کرنے سے انکار کر دیا، سندھ بھر کی جامعات میں آج بھی اساتذہ کی جانب سے احتجاج اور مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔

    فاپواسا کا کہنا ہے کہ ترمیمی ایکٹ اور کنٹریکٹ پر اساتذہ کی بھرتی قبول نہیں ہے، اساتذہ کے بیرون ملک تعلیمی دوروں پر این او سی یونیورسٹی اینڈ بورڈ کے حوالے کرنے کا فیصلہ بھی قبول نہیں ہے۔

    ادھر وزیر اعلیٰ سندھ نے حکم دیا تھا کہ سندھ بھر کی جامعات کے وائس چانسلر تدریسی عمل فوری بحال کرائیں، اگر تدریسی عمل بحال نہ ہوا تو وائس چانسلرز سے پوچھا جائے گا۔ سندھ پروفیسر اینڈ لیکچرار ایسوسی ایشن نے بھی احتجاج میں شامل ہونے کی دھمکی دے دی ہے۔

    سپلا نے اس پر رد عمل میں کہا کہ وزیر اعلیٰ کا بیان اساتذہ کی تضحیک ہے، سندھ حکومت کی تعلیم دشمن پالیسیاں قبول نہیں، وائس چانسلرز اور چیئرمین بورڈز، پروفیسرز میں سے میرٹ پر لگانے ہوں گے، ہم فاپواسا کے مطالبات کی بھرپور حمایت کرتے ہیں، بیوروکریسی فارمولا تعلیم کے ساتھ بھونڈا مذاق ہے۔

    پیپلز پارٹی نے پیکا ایکٹ کی حمایت کا فیصلہ کر لیا، ذرائع

    مرکزی صدر سندھ سپلا منور عباس اور سیکریٹری جنرل غلام مصطفیٰ کاکا نے مشترکہ بیان میں کہا کہ حکومت نے جامعات اور تعلیمی بورڈز کے حوالے سے نئی پالیسی کو واپس نہ لیا تو فاپواسا کی طرح سپلا بھی امتحانی بائیکاٹ سمیت، یونیورسٹی اساتذہ کے ساتھ مل کر بھرپور احتجاجی تحریک چلائے گی۔

    واضح رہے کہ فاپواسا سندھ چیٹر کے تحت آج کراچی پریس کلب پر سندھ بھر کی اساتذہ تنظیمیں ترمیمی ایکٹ کے خلاف بائیکایٹ کریں گی۔

  • سرکاری جامعات کا معیار کمزور ہوا تو طلبہ نجی جامعات کا رخ کرینگے، اساتذہ کا کھلا خط

    سرکاری جامعات کا معیار کمزور ہوا تو طلبہ نجی جامعات کا رخ کرینگے، اساتذہ کا کھلا خط

    سرکاری جامعات میں ترمیمی ایکٹ کا معاملہ پیچیدہ صورت اختیار کرگیا ہے، سرکاری جامعات میں تدریسی عمل چھٹے دن بھی معطل رہا۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق آج بھی سندھ بھر کی جامعات میں احتجاجی مظاہرے ہوں گ، انجمن اساتذہ جامعہ کراچی اور فپواسا کے رہنما آج پریس کلب میں آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان کرینگے، اساتذہ نے طلبہ و طالبات اور والدین کے نام کھلا خط جاری کردیا ہے۔

    انجمن اساتذہ جامعہ کراچی نے طلبہ و طالبات اور والدین کو مہم میں شامل ہونے کی دعوت دیدی ہے، اساتذہ نے طلبا کے نام جاری خط میں کہا کہ سرکاری جامعات کا معیار کمزور ہوا تو طلبا مجبوراً نجی جامعات کارخ کریں گے۔

    خط کے متن میں کہا گیا کہ بیورو کریٹس کو وائس چانسلر کے طور پر تعینات کرنے سے نظام تعلیم کمزور ہوگا، این او سی کی غیرضروری شرط مسائل مالی وسائل کی کمی تحقیقی سرگرمیوں کو کمزور کرے گی۔

    اساتذہ کے خط میں کہا گیا کہ یہ وقت تعلیم حاصل کرنے کا نہیں بلکہ اپنی تعلیم کے تحفظ کا وقت ہے، سب نے ملکر جدوجہد نہ کی تو جامعات بھی اسکولوں، کالجز اور تعلیمی بورڈ کی طرح غیر معیاری بن جائے گی۔

    خط کے متن میں کہا گیا کہ طالبعلم اپنے دوستوں رشتہ داروں اور کلاس روم میں اس بات کو اجاگر کریں، سوشل میڈیا پر اساتذہ کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا جائے۔

    سیکریٹری انجمن اساتذہ جامعہ کراچی ڈاکٹر معروف بن رؤف کی جانب سے سندھ بھر کے اساتذہ اور طلبہ و طالبات کے نام خط میں مزید کہا گیا کہ والدین اور اساتذہ احتجاجی مظاہرے میں شرکت کریں۔