Author: انور خان

  • پاکستان میں بیماریوں کی شرح بڑھتی جا رہی ہے، طبی ماہرین و محققین

    پاکستان میں بیماریوں کی شرح بڑھتی جا رہی ہے، طبی ماہرین و محققین

    طبی ماہرین اور محققین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں بیماریوں کی شرح بڑھتی جا رہی ہے اور لوگوں کی علاج کی استطاعت ختم ہونے کے قریب ہے، بیماریوں کا بڑھتا ہوا دباؤ ملکی معیشت کو بھی متاثر کر رہا ہے، ان حالات میں صرف ایک ہی راستہ ہے کہ لوگوں کو بیماریوں سے بچاؤ اور روک تھام کے لیے آگہی دیں۔

    ماہرین نے زور دیا کہ فارما فزیشن تعلقات کے حوالے سے قانون سازی کی ضرورت ہے کیونکہ اس کا بوجھ عوام کو اٹھانا پڑ رہا ہے۔

    ان خیالات کا اظہار انہوں نے پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن کی ستائسیویں دو سالہ کنونشن کے افتتاحی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

    کنونشن سے سابق وفاقی وزیر صحت ڈاکٹر ظفر مرزا، سندھ ہائر ایجوکیشن کے چیئرمین ڈاکٹر طارق رفیع، ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کے سی ای او ڈاکٹر عاصم رئوف، پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن کے نومنتخب صدر پروفیسر عاطف حفیظ صدیقی، کراچی کے صدر ڈاکٹر عبداللہ متقی، دوا ساز ادارے فارمیوو کے ایم ڈی ہارون قاسم، ڈائریکٹر رفاء انسٹیٹیوٹ ڈاکٹر ذکی الدین احمد، معروف اسلامی اسکالر خلیل الرحمٰن چشتی، معروف ماہر امراض سینہ ڈاکٹر جاوید اے خان، ڈاکٹر سہیل اختر، ڈاؤ یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر سعید قریشی سمیت دیگر ماہرین نے بھی خطاب کیا۔

    امریکی نژاد پاکستانی نیورولوجسٹ پروفیسر ٹیپو صدیق کا کہنا تھا کہ پاکستان میں بیماریوں کی شرح بڑھ رہی ہے لیکن پاکستان کے وسائل ایسے نہیں کہ تمام لوگوں کا علاج کیا جا سکے، بڑھتی بیماریوں کے دباؤ اور اخراجات کو حکومت برداشت کر سکتی ہے اور نہ پرائیویٹ ادارے و عوام اس کا بوجھ اٹھا سکتے ہیں۔

    ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں بیماریوں کی شرح بڑھتی جا رہی ہے اور لوگوں کی علاج کی استطاعت ختم ہونے کے قریب ہے، بیماریوں کا بڑھتا ہوا دباؤ ملکی معیشت کو بھی متاثر کر رہا ہے، ان حالات میں صرف ایک ہی آپشن ہے کہ ہم لوگوں کو بیماریوں سے بچائو اور روک تھام کے لیے آگہی دیں۔

    انہوں نے کہا کہ ہمیں لوگوں کو بتانا ہوگا کہ بیماریوں سے کیسے بچا جا سکتا ہے، لوگوں کو سبزی کھانے اور گوشت، تیل، چینی اور نمک ترک کرنے کی ترغیب دینی ہوگی، انہیں بتانا ہوگا کہ ان کی صحت کے لیے ورزش کو معمول بنانا کتنا اہم ہے۔

    سابق وفاقی وزیر صحت ڈاکٹر ظفر مرزا نے کہا کہ پاکستان اپنے جی ڈی پی کا ایک فیصد سے بھی کم صحت کے شعبے پر خرچ کرتا ہے، اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ صحت کا شعبہ کبھی بھی کسی حکومت کی ترجیح نہیں رہا، میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کو اسے بڑھا کر 5 فیصد کرنا ہوگا۔

    ان کا کہنا تھا کہ ہماری جامعات میں ہیلتھ سسٹم پڑھایا ہی نہیں جاتا اور یہ سمجھتا جاتا ہے کہ جو ڈاکٹر ان جامعات سے پڑھ کر آئے گا وہ ہیلتھ سسٹم کو سمجھتا ہوگا اور اسے پتہ ہوگا کہ یہ سسٹم کیسے کام کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہر سسٹممیں کوئی فالٹس ہوتے ہیں ہمارے ہیلتھ کیئر سسٹم میں بھی فالٹس ہیں۔

    ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کے سی ای او ڈاکٹر عاصم رئوف کا کہنا تھا کہ فزیشن فارما تعلقات کے نتیجے میں ایسی دوائیں مارکیٹ میں آرہی ہیں جس کے عوام متحمل نہیں ہو سکتے جو عوام کی جیب پر بوجھ بن رہی ہیں، ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی اس سے آگاہ ہے، ہم نے اخلاقی مارکیٹنگ کے لیے سفارشات تیار کی ہیں، اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر ان سفارشات کو فائنل کیا ہے ، اس پر عملدرآمد کرائیں گے اور کمپنیوں کو پابند کریں گے کہ وہ اپنے اخراجات سے آگاہ کریں گے کہ انہوں نے کانفرنسز اور فزیشنز پر کتنے اخراجات کیے۔

    ان کا کہنا تھا کہ اگر کوئی گٹھ جوڑ عوام کی جیب پر بھاری ثابت ہو رہا ہوگا تو اس کو روکنے کے لیے مزید اقدامات اٹھائیں گے اور اگر کوئی خلاف ورزی کرے گا تو اس کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں سے بھی مدد حاصل کریں گے۔

    مقامی دوا ساز ادارے فارمیوو کے ایم ڈی ہارون قاسم نے کہا آج پیما کنونشن میں ایک اچھی گفتگو ہوئی ہے، ان کو جاری رہنا چاییے جو ریگولیٹری اتھارٹیز ہیں ڈریپ اور پی پی ایم اے اور پی ایم ڈی سی انہیں مل کر اس پر بات چیت جاری رکھنا چاہیے اور کسی نتیجے پر پہنچنا چاہیے، ہماری مشترکہ کوشش ہے کہ مریض کو معیاری اور اچھی دوا ملے جس سے وہ صحت یاب ہواور صحت مند معاشرے کا قیام عمل میں آئے۔

    سندھ ہائر ایجوکیشن سندھ کے چیئرمین ڈاکٹر طارق رفیع کا کہنا تھا کہ ہمیں میڈیکل ایجوکیشن کا سلیبس از سر نو مرتب کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ میڈیکل ایجوکیشن اچھا ڈاکٹر تو بنا رہی ہے لیکن اچھا انسان نہیں بن رہا، انہوں نے کہا کہ ڈاکٹروں میں اچھائی انسانی ہمدردی اور معاشرے کی بہتری کے لیے جذبات نظر نہیں آتے، اسکول میں میڈکل کالجز میں بائیو ایتھکس اور لٹریچر پڑھانا چاہیے تاکہ انہیں انسانی احساسات اور جذبات اور تکلیفوں کا احساس ہو سکے۔

    پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن کراچی کے صدر ڈاکٹر عبداللہ متقی کا کہنا تھا کہ اس کنونشن میں ملک بھر سے ڈاکٹرز شریک ہیں، کنونشن میں سائنٹیفک، پلینری سیشنز، بیماریوں کی شرح میں اضافے، خواتین ڈاکٹروں کے مسائل اور صحت کے شعبے میں ہونے والی جدت پر بات چیت ہو رہی ہے۔

    کنونشن اتوار کو مزید تفصیلی سیشنز کے ساتھ جاری رہے گا، جن میں ذیابیطس، آرتھوپیڈکس، اعصابی امراض اور دیگر موضوعات شامل ہیں۔

  • یونیسف سندھ میں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات برداشت کرنے والے اسکول تعمیر کرنے کے لیے متحرک

    یونیسف سندھ میں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات برداشت کرنے والے اسکول تعمیر کرنے کے لیے متحرک

    کراچی: یونیسف پاکستان کے سربراہ عبداللہ فاصل کا کہنا ہے کہ ہیٹ ویو سے لے کر سیلاب تک موسمیاتی تبدیلی کے تباہ کن اثرات کی وجہ سے بچوں کو بار بار تعلیم سے محروم ہونا پڑ رہا ہے، صوبہ سندھ میں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات برداشت کرنے والے اسکول تعمیر کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

    تفصیلات کے مطابق یونیسف کا کہنا ہے کہ پاکستان کے جنوبی حصوں میں مون سون بارشوں اور سیلاب نے تباہی مچا دی ہے، پاکستان کے سیلاب سے متاثرہ صوبے سندھ میں 2 لاکھ 30 ہزار بچوں کو تعلیم کی فراہمی معطل ہے، یونیسف نے پاکستان میں ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کی صلاحیتوں کے حامل اسکولوں اور بچوں کی ضروری خدمات میں فوری سرمایہ کاری پر زور دیا۔

    یونیسف پاکستان کے سربراہ عبداللہ فاصل نے اس حوالے سے تفصیل بتائی، انھوں نے کہا پاکستان کو پہلے ہی تعلیمی ایمرجنسی کا سامنا ہے اور 26.2 ملین بچے اسکولوں سے باہر ہیں، ہمیں امید ہے کہ بارش کا پانی تیزی سے کم ہوگا، اور بچے اپنے کلاسوں میں واپس جا سکیں گے، لیکن اندیشہ ہے کہ اسکولوں کی طویل بندش سے بچوں کی واپسی کے امکانات کم ہو جائیں گے۔

    انھوں نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کے باعث 1300 سے زائد اسکولوں کو نقصان پہنچا ہے، جن میں سے 228 مکمل طور پر تباہ ہو چکے ہیں، محکمہ تعلیم سندھ کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق سیلابی پانی جمع ہونے کی وجہ سے 450 سے زائد اسکول کام نہیں کر رہے ہیں، جس کا فوری اثر بچوں کی تعلیم پر پڑے گا۔

    عبداللہ فاصل کے مطابق یکم جولائی سے اب تک صوبے بھر میں مون سون کی بارشوں کے باعث 76 افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں، جن میں سے نصف بچے ہیں، صوبہ سندھ میں دریاؤں میں طغیانی سے آبادیاں زیر آب آ گئی ہیں، جس کے نتیجے میں 10 آفت زدہ اضلاع میں ایک لاکھ 40 ہزار بچے اور خاندان بے گھر ہو گئے ہیں۔

    انھوں نے کہا یونیسف کی ٹیمیں تیزی سے متاثرہ خاندانوں کی ضروریات کا جائزہ لے رہی ہیں اور تعلیمی سہولیات تک رسائی بحال کرنے اور متاثرین کی جلد بحالی کو یقینی بنانے کے لیے فوری اور طویل مدتی منصوبوں پر حکومت اور مقامی شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہیں۔

    سندھ 2022 کے تباہ کن سیلاب کے دوران سب سے زیادہ متاثر ہونے والا صوبہ تھا، جہاں صحت اور تعلیم کی سہولیات سمیت اہم بنیادی ڈھانچا راتوں رات تباہ ہو گیا تھا، گزشتہ تباہی کے اثرات سے اب تک لڑتے متاثرہ خاندان ایک بار پھر شدید موسم کی زد پر ہیں، جس کی سب سے بھاری قیمت بچوں کو چکانی پڑ رہی ہے۔

    عبداللہ فاضل کا کہنا تھا کہ مون سون نے ایک بار پھر پاکستان بھر میں زندگیاں اُجاڑ دی ہیں۔ بچوں نے اپنی زندگیاں، گھر اور اسکول کھو دیے ہیں۔ ہمیں بچوں کے لیے موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کی صلاحیتوں کی حامل تعلیمی سہولیات اور خدمات میں فوری سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ ہمیں موسمیاتی تبدیلی کے خطرات سے دوچار اس ملک میں جدت طرازی، حالات کے مطابق خود کو ڈھالنے کی صلاحیتوں کے فروغ اورنقصانات کو کم سے کم کرنے اور موسمیاتی تغیر کے پیش نظر بچوں کے لیے پائیدار سہولیات ترتیب دینے کے لیے شراکت داروں کا ایک اتحاد تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔

    یونیسف کے چلڈرن کلائمیٹ رسک انڈیکس (سی سی آر آئی) میں پاکستان 163 ممالک میں سے 14 ویں نمبر پر ہے، جہاں بچوں کو موسمیاتی تبدیلی اور اس کے نقصان دہ اثرات کے ’شدید ترین خطرے‘ کا سامنا ہے۔

  • سمندری طوفان  کے کراچی سے ٹکرانے کا خطرہ؟ چیف میٹرولوجسٹ  کا اہم بیان آگیا

    سمندری طوفان کے کراچی سے ٹکرانے کا خطرہ؟ چیف میٹرولوجسٹ کا اہم بیان آگیا

    کراچی : چیف میٹرولوجسٹ سردار سرفراز نے بحیرۂ عرب میں اٹھنے والے سمندری طوفان کے کراچی سے ٹکرانے کے حوالے سے بتادیا۔

    تفصیلات کے مطابق بحیرۂ عرب میں اٹھنے والا سمندری طوفان اس وقت کراچی سے تقریباً 200 کلومیٹر دور ہے اور 60 سے 70 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے بڑھ رہا ہے اور آج شام تک شمال مشرقی بحیرہ عرب اور ملحقہ سندھ کی ساحلی پٹی میں داخل ہوسکتا ہے۔

    چیف میٹرولوجسٹ سردار سرفراز نے اس حوالے سے بتایا کہ طوفان کارخ ساوتھ ویسٹ کی جانب ہے اور کراچی اور سندھ کی ساحلی پٹی کا ممکنہ طوفان کے ٹکرانے کا کوئی امکان نہیں تاہم اس کےآثرات سے سندھ بھر تیز بارشیں ہوں گی۔

    سردار سرفراز کا کہنا تھا کہاس قبل 1976میں اگست کے مہینے میں طوفان بننا تھا ، کراچی اگست کے مہینے میں اس نوعیت امکانات کم ہوتے ہیں، ریڑھی گوٹھ ابراہیم حیدری اور بلوچستان کی ساحلی پٹی پر طوفان کے اثرات سے زیادہ ہوں گے اور سمندر میں طغیانی ہو سکتی ہے۔

    انھوں نے مزید بتایا کہ بلوچستان کی ساحلی پٹی پر بھی طوفان کے اثرات ہوں گے، طوفان بلوچستان کے قریب سے گزرتا ہوا عمان کی جانب بڑھے گا۔

  • سندھ میں بارشیں، محکمہ تعلیم کا چھٹیوں سے متعلق اہم فیصلہ

    سندھ میں بارشیں، محکمہ تعلیم کا چھٹیوں سے متعلق اہم فیصلہ

    کراچی: سندھ میں مون سون سسٹم کی انٹری کے بعد محکمہ تعلیم سندھ نے چھٹی سے متعلق ڈپٹی کمشنرز کوخط لکھ دیا۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق محکمہ تعلیم سندھ کی جانب سے ڈپٹی کمشنرز کو بھیجے خط میں کہا گیا ہے کہ بارشوں کے باعث تعلیمی اداروں میں چھٹی کااختیار ڈپٹی کمشنرز کے پاس ہوگا۔

    خط میں مزید کہا گیا ہے کہ بارشوں کے بعد صورتحال پر ڈی سیز تعطیل سے متعلق خود فیصلہ کرسکتے ہیں جبکہ ڈی سیز محکمہ تعلیم سے مشاورت کے بعد اپنے ضلع میں چھٹی دینے کا مجازہو گا۔

    واضح رہے کہ بارش برسانے والا سسٹم کراچی سے 320 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے، چیف میٹرولوجسٹ سردار سرفراز نے شہر میں سیلابی صورتحال کا خدشہ ظاہر کردیا۔

    سندھ میں بارشوں کا دھواں دھار اسپیل جاری ہے، کراچی کے مختلف علاقوں میں بھی بادل وقفے وقفے سے برس رہے ہیں۔

    محکمہ موسمیات کا کہنا ہے کہ ڈیپ ڈیپریشن رات سے شہر میں داخل ہوچکاہے، سسٹم کے زیر اثر گرج چمک اورتیز ہواؤں کیساتھ بادل برسیں گے اور 28 سے33 نارٹیکل مائل کی رفتار سے ہوائیں چل سکتی ہیں۔

    چیف میٹرولوجسٹ سردار سرفراز نے بتایا کہ بارش برسانے والا سسٹم شہر قائد سے 320 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے، جس سے شہر میں اربن فلاڈنگ کا بھی خدشہ ہے، اس لئے شہری احتیاط کریں۔

    سردار سرفراز کا کہنا تھا کہ ہوا کا کم دباؤ اس وقت بھارتی گجرات کی جانب ہے، شہر میں آندھی دوبارہ چل سکتی ہے اور 100 سے 200 ملی میٹر تک بارش ہوسکتی ہے۔

    ملک گیر ہڑتال پر تاجر تنظیمیں 2 حصوں میں تقسیم

    انھوں نے بتایا کہ کل تک سسٹم شہر کے جنوب کی جانب قریب ہوجائے گا، جس سے شہر میں موسلادھار بارش کا امکان زیادہ ہے۔

  • ذیابیطس کے مفت علاج کے لیے ملک بھر میں 3000 کلینکس کا نیٹ ورک قائم

    ذیابیطس کے مفت علاج کے لیے ملک بھر میں 3000 کلینکس کا نیٹ ورک قائم

    کراچی: پاکستان بھر میں ذیابیطس کے مریضوں کو مفت علاج اور طبی معاونت فراہم کرنے کے لیے 3,000 ذیابیطس کلینکس کا نیٹ ورک قائم کیا گیا ہے، اس نیٹ ورک کے تحت روزانہ تقریباً 75,000 مریضوں کو بلا معاوضہ علاج اور رہنمائی فراہم کی جائے گی۔

    ماہر ذیابطیس اور ہیلتھ پروموشن فاؤنڈیشن کے وائس چیئرمین پروفیسر عبدالباسط نے اس سلسلے میں ہفتے کے روز افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ نیشنل ڈائبٹیز نیٹ ورک (NDN) کے تحت چلنے والے ان کلینکس میں مریضوں کو 50 فی صد رعایتی قیمت پر ادویات اور انسولین بھی فراہم کی جائے گی۔

    انھوں نے کہا اس وقت پاکستان میں لاکھوں افراد شوگر کے مرض کا علاج نہ ہونے کے باعث مستقل معزور (پاؤں کے زخم) اور قبل از وقت موت کا شکار ہو رہے ہیں، یہ نیٹ ورک ان لاکھوں افراد کو ذیابیطس کا معیاری علاج اور دیکھ بھال فراہم کرے گا۔

    پروفیسر عبدالباسط کے مطابق کراچی میں ان کلینکس کا کامیابی سے تجربہ کیا گیا، جس کے بعد ملک بھر میں جانے کا فیصلہ کیا گیا، یہ کلینکس خصوصاً ان علاقوں میں قائم کیے جائیں گے جہاں صحت کی سہولیات ناپید ہیں۔

    ہر کلینک روزانہ 25 ذیابیطس مریضوں کو مفت مشاورت فراہم کرے گا اور اس طرح تین ہزار کلینکس پر روزانہ 75 ہزار افراد کو علاج کی مفت سہولیات میسر آئیں گی۔ پروفیسر باسط کے مطابق ان مریضوں کو 50 فی صد رعایت پر دوائیں، انسولین اور 25 فی صد رعایت پر لیبارٹری ٹیسٹ فراہم کیے جائیں گے، جس کے لیے چغتائی لیب کے ساتھ شراکت داری کی گئی ہے۔

    انھوں نے بتایا روزانہ تقریباً 35-40 افراد ذیابیطس کی پیچیدگیوں کی وجہ سے اپنی ٹانگیں اور پاؤں کٹوا بیٹھتے ہیں، اگر بروقت اقدامات نہ کیے گئے تو اس سال کے آخر تک 600,000 افراد کی ٹانگیں کٹنے کا خطرہ ہے۔

    گیٹس فارما کے مینیجنگ ڈائریکٹر خالد محمود نے کہا کہ پاکستان میں صحت کی صورتحال اور حالات کچھ افریقی ممالک سے بھی بدتر ہیں، جوہری طاقت ہونے کے باوجود پاکستان کو ویکسینیشن کی کوریج، غذائیت، اور زچہ و بچہ کی صحت کے شعبوں میں چیلنجز کا سامنا ہے۔

    خیال رہے کہ نجی شعبے کی جانب سے شروع کیا جانے والا یہ دنیا میں صحت کا سب سے بڑا مفت نیٹ ورک ہوگا، یہ ہیلتھ پروموشن فاؤنڈیشن کے تحت این ڈی این اور مصنوعی ذہانت پر مبنی ہیلتھ کیئر پلیٹ فارم ’میری صحت‘ اور گیٹس فارما کے تعاون سے شروع کیا گیا ہے۔

  • بلاول بھٹو کا پنجاب حکومت کو معیاری اسپتال بنانے کا چیلنج

    بلاول بھٹو کا پنجاب حکومت کو معیاری اسپتال بنانے کا چیلنج

    چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو نے پنجاب حکومت کو سندھ جیسے معیاری اسپتال بنانےکا چیلنج دے دیا۔

    جناح اسپتال کراچی میں دو نئے یونٹس کی افتتاحی تقریب سے خطاب میں انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے الیکشن میں ڈبیٹ کا کہا تھا وزیراعلیٰ صاحب! جب وزیراعظم کراچی آئیں تو ان کو این آئی سی وی ڈی اور جےپی ایم سی کا دورہ کرائیں پھر ہم انہیں مشورہ دیں گے پنجاب میں بھی ایسے اسپتال بنائیں جس طرح سندھ میں مفت علاج ہو رہا ہے اسی طرح لاہور میں بھی ہو، ہم مراد علی شاہ اور ڈاکٹر عذرا کو پنجاب بھیجنے کےلیے بھی تیار ہیں۔

    حکومت سندھ کی جانب سے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت جناح اسپتال میں 120 بستروں پر مشتمل ڈیپارٹمنٹ آف سائیکاٹری اینڈ بیہیویورل سائنسز ،  110 بستروں پر مشتمل ڈیپارٹمنٹ آف نیورولوجی اینڈ اسٹروک یونٹ اور کینسر کےعلاج کے لیے جدید طریقہ علاج سائبر نائف کا افتتاح کیا گیا

    وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس کینسر کا ریڈیالوجی سینٹر دنیا کے دس بہترین ڈپارٹمنٹ میں شامل ہے، جو پروسیجر پہلے نوے منٹ میں ہوتا ہے اس سائبر نائف کی مشین میں بیس منٹ میں ہو جائے گا اور اس مشین سے چار گنا زیادہ مریضوں کا علاج ہوگا۔

    ان کا کہنا تھا نج پاکستان کے کسی سرکاری اسپتال میں پیٹ سٹی کی سہولت نہیں ہے لیکن ہم جناح اسپتال میں یہ سہولت بھی مفت دے رہے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ سائبر نائف کے پہلے دو یونٹ تھے آج تیسرے یونٹ کا افتتاح بھی ہوگیا اور اب جناح اسپتال دنیا کے دس بہترین اسپتالوں میں شامل ہے۔

    وزیر اعلیٰ سندھ کا کہنا تھا کہ باقی صوبوں میں ہیلتھ انشورنس کی بات ہوتی رہتی ہے ہیلتھ انشورنس کا مطلب ہے، پرائیویٹ اسپتالوں کو پیسہ دیں  ہم نے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ بنائی اور علاج کی بہترین سہولتیں دینا شروع کیں ۔

    انہوں نے کہا کہ 18 ترمیم کے بعد تین اسپتال وفاق سے ہمیں دیے گئے اور وفاق نے اچانک ان اسپتالوں کے بجٹ ختم کردیے تھے اور ہم نے 2011 میں ایک اعشاریہ نو ارب روپے دینے ہیں ہم نے ان اسپتالوں میں دو ہزار بیڈ سے چار ہزار بیڈ پر لے آئے ہیں۔ہر سال سو بیڈز کا اضافہ کر رہے ہیں جو پچاس سال میں نہیں ہوا وہ سات آٹھ سال میں کرکے دکھایا۔

    انہوں نے کہا کہ مجھے نہیں پتہ لوگ ٹی وی پر آنے کے لیے وقت کیسے نکالتے ہیں، میں کام بتانے سے زیادہ کام کرنے پر یقین رکھتا ہوں ، اگر میں ٹی وی پر آکر بتاتا رہوں گا تو کام کیسے کروں گا، اسی لیے ہمارے چیئرمین صاحب بھی کچھ ناراض ہیں کہ میں ٹی وی پر نظر نہیں آتا ۔

    وزیر صحت سندھ ڈاکٹر عذرا پیچوہو کا کہنا تھا کہ ہمارے ہاں ہیومن ریسورس کی کمی ہے، ڈاکٹر پروفیسرز کی شدید کمی ہے، پیرامیڈیکس کی شدید کمی ہے اس لیے ہمیں ایچ آر کی ضرورت ہے.

  • صدر مملکت کا ڈاکٹر سلیمان شہاب الدین کے لیے ستارہ امتیاز کا اعلان

    صدر مملکت کا ڈاکٹر سلیمان شہاب الدین کے لیے ستارہ امتیاز کا اعلان

    کراچی: صدر مملکت آصف علی زرداری نے آغا خان یونیورسٹی کے صدر ڈاکٹر سلیمان شہاب الدین کے لیے ستارہ امتیاز کا اعلان کیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق پاکستان کے یوم آزادی کے موقع پر صدر آصف علی زرداری نے آغا خان یونیورسٹی کے صدر اور وائس چانسلر ڈاکٹر سلیمان شہاب الدین کو پاکستان میں تعلیم اور معیار زندگی کی بہتری کے لیے ان کی گراں قدر کی خدمات پر ستارہ امتیاز سے نوازا۔

    ستارہ امتیاز پاکستان کا تیسرا سب سے بڑا سول اعزاز ہے اور صدر پاکستان کی جانب سے فنون، ادب، کھیل، سائنس اور سماجی خدمات سمیت مختلف شعبوں میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والوں کی غیر معمولی خدمات کے اعتراف میں یہ ایوارڈ دیا جاتا ہے۔ اس ایوارڈ کا مقصد ان لوگوں کو اعزاز دینا ہے جنھوں نے ملکی ترقی کے لیے کار ہائے نمایاں انجام دیے ہیں۔ ڈاکٹر شہاب الدین کو یہ ایوارڈ 23 مارچ 2025 کو اسلام آباد میں سرمایہ کاری سے متعلق ایک تقریب میں دیا جائے گا۔

    صدر شہاب الدین کے دور میں آغا خان یونیورسٹی میں طلبہ اور فیکلٹی کی تعداد میں اضافہ ہوا اور تحقیق، تعلیم اور پالیسی سازی میں اس کے اثرات نظر آئے۔ ڈاکٹر شہاب الدین کی قیادت میں آغا خان یونیورسٹی نے پاکستان میں تحقیق کے میدان میں اعلیٰ مقام حاصل کیا اور بین الاقوامی سطح پر اعلیٰ درجے کے مطالعہ جات اور اسٹڈیز کی اشاعت اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

    2022 کے تباہ کن سیلاب جیسے بحران کے دوران ڈاکٹر شہاب الدین کی نگرانی نے اہم کردار ادا کیا۔ آغا خان یونیورسٹی نے ان کی رہنمائی میں متاثرہ علاقوں میں سیلاب کے کیمپوں میں موجود افراد کو صحت، تعلیم سمیت ضروری امداد فراہم کی۔

    بطور صدر صرف اپنے ابتدائی دو سالوں کے دوران ڈاکٹر شہاب الدین نے بین الاقوامی اور مقامی سطح پر اہم شراکتیں قائم کیں، جن میں امریکا کی مشی گن یونیورسٹی اور واشنگٹن یونیورسٹی، کینیڈا میں میک ماسٹر یونیورسٹی، آئرلینڈ کی مینوتھ یونیورسٹی، یونیورسٹی آف دارالسلام، پاکستان میں انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن اور دیگر شامل ہیں۔

    دریں اثنا، آغا خان یونیورسٹی انیقہ بانو کا جشن بھی منا رہا ہے جو انسٹیٹیوٹ فار ایجوکیشنل ڈیولپمنٹ کی سابق طالبہ ہیں اور انھیں صدر پاکستان کی جانب سے فخر پاکستان کے اعزاز سے نوازا گیا ہے۔ آغا خان یونیورسٹی انسٹیٹیوٹ فار ایجوکیشنل ڈیولپمنٹ کا حصہ بننے کے بعد اپنی سماعت سے محروم بیٹی کی پرورش کے چیلنجوں کا سامنا کرنے کے بعد انیقہ نے اپنے شوہر افضل رسول کے ساتھ مل کر نرجس خاتون کے نام سے سماعت سے محروم بچوں کے اسکول کی بنیاد رکھی۔ وہ اسکردو کے گورنمنٹ کالج آف ایجوکیشن فار ویمن میں انسٹرکٹر کے طور پر بھی خدمات انجام دے رہی ہیں جو تعلیم کے لیے ان کی لگن اور مختلف معذور بچوں کی مدد کی شاندار مثال ہے۔

  • کیمبرج امتحانات کے نتائج کا اعلان ہو گیا

    کیمبرج امتحانات کے نتائج کا اعلان ہو گیا

    کراچی: کیمبرج ایجوکیشن کے تحت مئی جون امتحانی سیریز کے نتائج آج جاری کر دیے گئے۔

    تفصیلات کے مطابق کیمبرج آئی جی سی ایس ای، او لیول اور انٹرنیشنل اے ایس اینڈ اے لیول کے مئی جون امتحانی سیریز کے نتائج کا اعلان ہو گیا۔

    عالمی سطح پر مئی جون 2024 میں کیمبرج کے بین الاقوامی امتحانات کے لیے 1.6 ملین سے زیادہ رجسٹریشن ہوئی، پچھلے سال کی نسبت رجسٹریشن کی تعداد میں 9 فی صد اضافہ ہوا ہے۔

    پاکستان میں 683 اسکولوں میں 10 ہزار سے زائد طلبہ کیمبرج او لیول اور اے لیول امتحانات میں شریک ہوئے تھے، کیمبرج او لیولز اور آئی جی سی ایس ایز کے لیے 2 لاکھ 26 ہزار سے زیادہ اندراجات ہوئے۔ کیمبرج انٹرنیشنل اے ایس اینڈ اے لیولز کے لیے ملک بھر کے طلبہ کی جانب سے 1 لاکھ 25 ہزار سے زیادہ اندراجات ہوئے تھے۔

    کیمبرج او لیول اور آئی جی سی ایس ایز میں پاکستان اسٹڈیز، اسلامیات، ریاضی، انگریزی اور اردو زبان سب سے زیادہ مقبول مضامین تھے، کیمبرج انٹرنیشنل اے ایس اینڈ اے لیول پر طبیعیات، ریاضی، بزنس، کیمیا اور کمپیوٹر سائنس سب سے زیادہ مقبول مضامین ہیں۔

  • نیا  تعلیمی سیشن  شروع ہونے میں 2 دن باقی !  طلبا کے لیے اہم  خبر

    نیا تعلیمی سیشن شروع ہونے میں 2 دن باقی ! طلبا کے لیے اہم خبر

    کراچی : نیا تعلیمی سیشن شروع ہونے میں 2 دن باقی ہے، طلبا کے لیے متعدد کتابوں کی دستیاب کے حوالے سے اہم خبر آگئی۔

    تفصیلات کے مطابق اردو بازار ٹریڈرز ایسوسی ایشن سندھ کے چیئرمین ساجدیوسف نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ 15اگست سےشروع ہونیوالے تعلیمی سیشن میں متعدد کتابیں دستیاب نہیں ہوں گی۔

    ساجدیوسف کا کہنا تھا کہ مارکیٹ میں دسویں جماعت کی ریاضی کی کتاب دستیاب نہیں ہے، جماعت پنجم کی اردو کی کتاب اور کیمسٹری کی نہم جماعت سے لے کر بارویں جماعت تک کی کتاب موجود نہیں۔

    انھوں نے بتایا کہ نہم جماعت،گیارویں اوربارویں جماعت کی فزکس کی کتاب بھی موجودنہیں جبکہ دسویں جماعت کی انگریزی کی کتاب بھی مارکیٹ میں دستیاب نہیں ہے۔

    اردو بازار ٹریڈرز ایسوسی ایشن سندھ کے چیئرمین نے کہا کہ گزشتہ 6ماہ سے نویں اور دسویں جماعت کی کمپیوٹر کی کتاب بھی مارکیٹ میں دستیاب نہیں جبکہ گیارویں اور بارویں جماعت کی بائیولوجی کی کتاب بھی مارکیٹ سے غائب ہے۔

    انھوں نے مطالبہ کیا کہ سازشی پبلشر ٹولے کو سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ سے باہر کیا جائے، ایک پبلشرباربارعدالت گیاجس کی وجہ سےکتابوں کی اشاعت میں تاخیر ہوئی ہے۔

  • قومی ادارہ برائے امراض قلب میں 4 ارب کی مبینہ مالی  بے ضابطگی کا انکشاف

    قومی ادارہ برائے امراض قلب میں 4 ارب کی مبینہ مالی بے ضابطگی کا انکشاف

    کراچی: قومی ادارہ برائے امراض قلب میں 4 ارب روپے کی مبینہ مالی بے ضابطگی کا انکشاف ہوا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی کے قومی ادارہ برائے امراض قلب میں 4 ارب روپے کی مبینہ مالی کرپشن کا انکشاف ہوا ہے، ریکارڈ جمع نہ کرانے اور افسران کی عدم پیشی پر قومی احتساب بیورو (نیب) نے نوٹس جاری کردیا۔

    ذرائع نے بتایا کہ نیب نے انکوائری کے لیے این آئی سی وی ڈی کے افسران کو طلب کرتے ہوئے این آئی سی وی ڈی اور محکمہ صحت سے ریکارڈ مانگ لیا۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ این آئی سی وی ڈی کے فنڈز، ملازمین کی بھرتی اور سیلری کی مد میں مبینہ کرپشن کی گئی، اسپتال انتظامیہ سے بھرتیوں اور خریداری کا ریکارڈ طلب کرلیا گیا ہے۔

    دوسری جانب این آئی سی وی ڈی کے ترجمان نے کہا کہ این آئی سی وی ڈی کو نیب کی جانب سے لیٹر موصول ہوا تھا جس کے بعد سے نیب کیساتھ مکمل تعاون کیا جارہا ہے۔

    ترجمان نے کہا کہ نیب میں این آئی سی وی ڈی کیخلاف مبینہ کرپشن کا کیس نیا نہیں پرانا ہے،  ادارے میں مزید شفافیت لانے کیلئے انٹرنل آڈٹ کو فعال کیا ہے اور ادویات کی چوری کے معاملے پر کمیٹی تشکیل دی گئی ہے۔