Author: انور خان

  • کراچی میں 16واں عالمی کتاب میلہ سج گیا

    کراچی میں 16واں عالمی کتاب میلہ سج گیا

    کراچی میں پاکستان پبلشرز اور بک سیلرز ایسوسی ایشن کی جانب سے پانچ روزہ 16 واں سالانہ بین الاقوامی کتب میلہ سج گیا جو تین جنوری تک جاری رہے گا۔

    علم و ادب کے مسکن، روشنیوں کے شہر کراچی میں ایک مرتبہ عالمی کتب میلے کا انعقاد کیا گیا ہے جس کا افتتاح وزیر تعلیم و ثقافت سندھ سردار علی شاہ، معروف ادیب انور مقصود سمیت دیگر اہم شخصیات نے کیا۔

    سولہواں سالانہ بین الاقوامی کتب میلہ کراچی کے ایکسپو سینٹر کے تینوں ہال میں سجایا گیا ہے، جس کا سفر سنہ 2005 میں شروع ہوا تھا اور آج تک جاری ہے۔

    کتب میلے میں 330 سے زائد اسٹال لگائے جائیں گے جہاں تمام موضوعات پر انتہائی کم قیمت میں کتابیں دستیاب ہیں، میلے میں پاکستان سمیت ترکی، سنگاپور، چین، ملایئشیا، برطانیہ، متحدہ امارات سمیت دیگر ممالک کے پبلیشرز شرکت کریں گے۔

    عالمی کتب میلے میں سترہ ممالک کے چالیس ادارے حصّے لے رہے ہیں جب کہ پاکستان سے بھی 137 نامور پبلشرز نے اپنے اسٹالز لگائے ہیں۔

    اس بڑے کتب میلے کا آغاز صبح دس بجے ہو گا اور علم و ادب اور کتب بینی کا شوق رکھنے والے رات 9 بجے تک میلے میں سجائے جانے والے اسٹالز سے اپنی دلچسپی اور پسند کے موضوعات پر کتابیں خرید سکیں گے

    انور مقصود نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج کی تقریب میں دو لوگ ہیں سردار اور دوسرے پیر اور دونوں کی اصل زندگی میں تعلیم سے کوئی واسطہ نہیں لیکن ہماری خوش نصیبی ہے کہ ایک وزیر تعلیم ہیں اور ایک رہے ہیں۔

    ایکسپو سینٹر میں سولہویں عالمی کتب میلے کی افتتاحی تقریب میں عزیز خالد چیئرمین پی پی بی اے، صدر آرٹس کونسل احمد شاہ، مصنف انور مقصود اور ادیبہ فاطمہ حسن اور سابق وزیر تعلیم پیر مظہر الحق اور موجودہ وزیرتعلیم سردار شاہ نے شرکت کی۔

  • جامعہ کراچی: داخلہ فارم جمع کرانے کی تاریخ میں کل تک توسیع

    جامعہ کراچی: داخلہ فارم جمع کرانے کی تاریخ میں کل تک توسیع

    کراچی: جامعہ کراچی میں اوپن میرٹ اور مخصوص نشستوں کی بنیاد پر ہونے والے داخلوں کے لیے فارم جمع کرانے کی تاریخ میں ایک دن کی توسیع کر دی گئی ہے۔

    انچارج ڈائریکٹوریٹ آف ایڈمیشنز جامعہ کراچی ڈاکٹر صائمہ اختر کے مطابق اوپن میرٹ اور مخصوص نشستوں (Reserved Seats) کی بنیاد پر ہونے والے داخلوں کے لیے فارم جمع کرانے کی تاریخ میں ایک دن کی توسیع کر دی گئی ہے۔

    اب داخلہ فارم 29 دسمبر 2021 تک جمع کرائے جا سکتے ہیں۔

    مخصوص نشستوں میں اسپورٹس، کراچی یونیورسٹی ایمپلائز، معذور افراد (اسپیشل پرسنز)، آرمڈ فورسز، وکلا کے بچے، فاٹا، شمالی علاقہ جات و آزاد جموں کشمیر، اندرون سندھ اور بلوچستان کی نشستیں شامل ہیں۔

    سالانہ جلسہ تقسیم اسناد میں شرکت

    جامعہ کراچی کے رجسٹرار پروفیسر ڈاکٹر عبدالوحید کے مطابق سالانہ جلسہ تقسیم اسناد 2020-2021 میں شرکت کے لیے رجسٹریشن فارم جمع کرانے کی تاریخ میں 14 جنوری 2022 تک توسیع کر دی گئی ہے۔

    رجسٹریشن کے لیے درخواست فارم جامعہ کراچی کی ویب سائٹ www.uok.edu.pk پر دستیاب ہیں، رجسٹریشن فارم کی متعلقہ شعبہ جات کے صدور، ڈائریکٹرز اور جامعہ کراچی کے سلور جوبلی گیٹ پر واقع ڈپٹی رجسٹرار اکیڈمک کے کاؤنٹر سے تصدیق کرائی جائے گی۔

    جامعہ کراچی کے سلور جوبلی گیٹ پر واقع بینک الفلاح کے برانچ پر 7500 روپے کے فیس واؤچر کی ادائیگی کے بعد یہ رجسٹریشن فارم مع فیس واؤچر، صبح 10 بجے تا دوپہر ایک تک (جمعہ 12:00 بجے تک) اولڈ ایڈمنسٹریشن بلاک فرسٹ فلور ڈپٹی رجسٹرار اکیڈمک آفس میں جمع کرایا جا سکتا ہے۔

    واضح رہے کہ فیس واؤچر جامعہ کراچی کے سلور جوبلی گیٹ پر واقع بینک الفلاح کے برانچ سے حاصل کیے جا سکتے ہیں۔

  • 2021: سندھ میں 7 ہزار سے زائد بچے نمونیہ سے جاں بحق

    2021: سندھ میں 7 ہزار سے زائد بچے نمونیہ سے جاں بحق

    کراچی: صوبہ سندھ میں رواں برس سات ہزار سے زائد بچے نمونیہ کے باعث جان کی بازی ہار گئے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق محکمہ صحت سندھ نے کہا ہے کہ 2021 میں صوبے میں 7 ہزار 462 بچے نمونیہ سے زندگی کی بازی ہار گئے۔

    محکمہ صحت کے مطابق صوبے میں رواں سال مجموعی طور پر 27 ہزار 136 بچے نمونیہ سے متاثر ہوئے تھے، جب کہ جان کی بازی ہارنے والے تمام بچوں کی عمریں 5 سال سے کم تھیں۔

    رواں سال 5 سال سے زائد عمر کے 8 ہزار 534 بچے نمونیہ سے متاثر ہوئے، جن میں سے 46 بچے صحت یاب نہ ہو سکے اور انتقال کر گئے۔

    غذائیت کی کمی اور امراض، تھرپارکر میں‌ موت کا رقص جاری

    محکمہ صحت کے مطابق نمونیہ انفیکشن کا تناسب دیہی علاقوں میں زیادہ رہا، وہاں 60 فی صد بچے بیماری سے متاثر ہوئے جب کہ شہری علاقوں میں 40 فی صد بچے نمونیہ سے متاثر ہوئے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ متاثرہ بیش تر بچوں کو نمونیہ ویکسین لگی ہی نہیں تھی۔

    ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ بچوں میں اموات کی سب سے بڑی وجہ نمونیہ ہی ہے، سرکاری سطح پر پیدائش کے 6، 10 اور 14 ہفتے پر ویکسین کی 3 ڈوزز لگائی جاتی ہیں، نمونیہ کی علامات میں سانس کا تیز چلنا، بخار، متلی، جسم پر نیلے دھبے، کھانسی شامل ہے۔

    واضح رہے کہ صوبہ سندھ کے ضلع تھرپارکر میں بچوں میں غذائیت کی کمی اور مختلف امراض سے بدستور موت کا رقص جاری ہے، سول اسپتال مٹھی میں غذائیت کی کمی و دیگر امراض میں مبتلا مزید 4 بچے دم توڑ گئے ہیں، جس کے بعد رواں سال جاں بحق بچوں کی تعداد 620 تک جا پہنچی ہے۔

  • پاکستان میں اومیکرون کیسز کی تعداد کتنی؟

    پاکستان میں اومیکرون کیسز کی تعداد کتنی؟

    اسلام آباد: پاکستان کے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ (این آئی ایچ) نے کہا ہے کہ پاکستان میں اب تک اومیکرون کے 75 کیسز سامنے آ چکے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق قومی ادارۂ صحت نے کرونا وائرس کے نئے ویرینٹ سے متعلق اعداد و شمار کے حوالے سے بتایا ہے کہ ملک میں کیسز کی تعداد پچھتر ہو چکی ہے۔

    این آئی ایچ کے مطابق اومیکرون ویرینٹ کا پہلا کیس 13 دسمبر کو کراچی میں سامنے آیا تھا، جب کہ شہر قائد سے اب تک اومیکرون ویرینٹ کے 33 کیسز سامنے آ چکے ہیں۔

    قومی ادارۂ صحت کا کہنا ہے کہ اسلام آباد سے اب تک اومیکرون ویرینٹ کے 17 کیسز، لاہور سے 13 کیسز سامنے آ چکے ہیں، جب کہ سامنے آنے والے 12 کیسز کی بیرون ملک ٹریولنگ ہسٹری ہے۔

    اومیکرون موجودہ ویکسینز کی افادیت کے لیے خطرہ، مزید شواہد مل گئے

    این آئی ایچ کے مطابق وفاقی اور صوبائی صحت حکام اومیکرون کے حوالے سے صورت حال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں، اور اومیکرون سے متاثرہ افراد کو فوری آئیسولیٹ کیا جا چکا ہے۔

    ملک میں اومیکرون کا پھیلاؤ روکنے کے لیے ہنگامی ٹریسنگ اور ٹیسٹنگ کا عمل بھی جاری ہے۔

    واضح رہے کہ گزشتہ روز سیکریٹری ہیلتھ سکندر بلوچ نے بتایا تھا کہ لاہور میں اومیکرون کے پہلے کیس کی تصدیق کی گئی ہے، جب کہ مزید 12 مشتبہ افراد کے سیمپل ٹیسٹ کے لیے بھجوائے گئے ہیں۔

  • کراچی میں اومیکرون ویرینٹ کے 6 مشتبہ کیسز سامنے آ گئے

    کراچی میں اومیکرون ویرینٹ کے 6 مشتبہ کیسز سامنے آ گئے

    کراچی: شہر قائد میں کرونا وائرس کے سب سے زیادہ متعدی ویرینٹ اومیکرون کے 6 مشتبہ کیسز سامنے آ گئے ہیں۔

    ذرائع محکمہ صحت کے مطابق 6 ایسے افراد بیرون ملک سے کراچی پہنچے ہیں، جن میں ابتدائی طور پر کرونا وائرس کی تصدیق ہو گئی ہے۔

    محکمہ صحت کے ذرائع کا کہنا ہے کہ مذکورہ افراد کو قرنطینہ سینٹر منتقل کر دیا گیا ہے، ان میں سے 4 افراد جنوبی افریقہ اور 2 برطانیہ سے کراچی پہنچے ہیں۔

    ذرائع کے مطابق کرونا متاثرہ افراد کے خون کے نمونے جینوم سیکویسنگ کے لیے نجی اسپتال پہنچا دیے گئے، اور اومیکرون کی تصدیق کے لیے جینوم سیکویسنگ شروع کر دی گئی ہے۔

    بلوچستان میں‌ اومیکرون کے 12 مشتبہ کیسز سامنے آنے پر ہل چل

    یاد رہے کہ ایک ہفتہ قبل شہر قائد میں اومیکرون کا دوسرا کیس رپورٹ ہوا تھا ، تاہم متاثرہ شخص قرنطینہ سے فرار ہوگیا تھا، پینتیس سالہ شخص مزمل برطانیہ سے آیا تھا، تاہم صدر ٹاؤن کی حدود کھارادر کے رہائشی کو دوبارہ پکڑا گیا اور قرنطینہ کر دیا گیا۔

    ادھر صوبہ بلوچستان میں بھی گزشتہ روز 12 مشتبہ افراد کے اومیکرون میں مبتلا ہونے کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے، اے آر وائی نیوز کے مطابق بلوچستان کے علاقے قلات میں بارہ افراد کے اومیکرون سے متاثر ہونے کی اطلاعات سامنے آئی ہیں۔

  • عابد علی کی دل کی 2 رگیں بند ہونے کا انکشاف، ایسی حالت میں کرکٹ کھیلنا ‘معجزہ’ قرار

    عابد علی کی دل کی 2 رگیں بند ہونے کا انکشاف، ایسی حالت میں کرکٹ کھیلنا ‘معجزہ’ قرار

    کراچی: پاکستانی ٹیسٹ کرکٹر عابد علی کی 2 رگیں بند ہونے کا انکشاف ہوا ہے، ڈاکٹرز نے ایسی حالت میں ان کے کرکٹ کھیلنے کو معجزہ قرار دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق آج کراچی میں جاری قائد اعظم ٹرافی کے میچ میں عابد علی کو سینے اور بائیں ہاتھ میں درد کی شکایت ہوئی تھی، جس پر انھیں ٹبا ہارٹ منتقل کر دیا گیا تھا۔

    نجی اسپتال میں ٹیسٹ کرکٹر کی انجیوگرافی اور انجیوپلاسٹی کی گئی ہے، جس سے معلوم ہوا کہ ان کی دو وینز بلاک تھیں، ڈاکٹرز نے مختلف ٹیسٹس کے بعد پہلے سیشن میں انجیوگرافی اور انجیوپلاسٹی کی ہے، اور ایک بلاک وین کو کھول دیا گیا ہے۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق عابد علی کی بلاک وین میں ایک اسٹنٹ ڈالا گیا ہے ، کل دوبارہ انجیوپلاسٹی کے بعد دوسرا اسٹنٹ ڈالا جائے گا۔

    دوران میچ سینے میں تکلیف، عابد علی اسپتال منتقل

    ڈاکٹرز کے مطابق عابد علی کسی اور بیماری کا شکار نہیں ہیں، انھیں ڈاکٹرز نے 2 ماہ مکمل آرام کا مشورہ دیا ہے، اور دو ماہ بعد وہ معمول کی کرکٹ کھیل سکتے ہیں، تاہم ڈاکٹروں نے عابد علی کے 2 وینز بلاکیج کے ساتھ کرکٹ کھیلنے کو معجزہ قرار دے دیا ہے۔

    ادھر پی سی بی نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ سینٹرل پنجاب کے اوپنر عابد علی قائداعظم ٹرافی کے فائنل راؤنڈ میں خیبر پختون خواہ کے خلاف میچ میں آج 61 رنز بنا کر کریز پر موجود تھے کہ انھوں نے سینے میں تکلیف کی شکایت کی.

    پی سی بی کے مطابق کرکٹر عابد علی کو فوری طور پر امراض قلب کے اسپتال منتقل کیا گیا جہاں ان میں اکیوٹ کورونری سینڈروم کی تشخیص ہوئی، ماہر امراض قلب نے ان کے علاج کی نگرانی شروع کر دی ہے.

    پی سی بی کا کہنا تھا کہ مکمل علاج کے لیے پی سی بی ماہر امراض قلب سے مکمل رابطے میں ہے، اور اس وقت عابد علی کی حالت بہتر ہے.

  • سندھ میں ایک اور خطرناک وائرس کے خلاف ویکسینیشن کا منصوبہ

    سندھ میں ایک اور خطرناک وائرس کے خلاف ویکسینیشن کا منصوبہ

    کراچی: وزارت صحت سندھ نے صوبے میں ایک اور خطرناک وائرس ایچ پی وی (ہیومن پیپیلوما وائرس) کے خلاف ویکسینیشن کا منصوبہ بنا لیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق صوبہ سندھ میں خواتین میں ایچ پی وی (Human papillomavirus) سے بچاؤ کی ویکسین لگائی جائے گی، صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر عذرا پیچوہو کا کہنا ہے کہ سندھ پاکستان کا پہلا صوبہ ہوگا جہاں یہ ویکسین لگائی جائے گی۔

    اس سلسلے میں آج وزیر صحت و بہبود آبادی سندھ کی زیر صدارت ایچ پی وی سے متعلق آگاہی اور اس سے ہونے والے کینسر اور دیگر بیماریوں سے بچاؤ کے اقدامات کے سلسلے میں اجلاس منعقد ہوا۔

    انھوں نے کہا اس وقت دنیا کے 70 سے زائد ممالک میں یہ ویکسین لگائی جا رہی ہے، اجلاس میں آگاہی دی گئی کہ ایچ پی وی کی بہت سی اقسام ہیں جس سے متاثرہ خواتین کینسر کا شکار ہو جاتی ہیں، اور یہ وائرس کچھ صورتوں میں مردوں کو بھی متاثر کرتا ہے۔

    خواتین اور خاص طور پر لڑکیوں کو 9 سال کی عمر میں ویکسین لگا کر ایچ پی وی سے بچایا جا سکتا ہے، یہ ویکسین 2 مرحلوں میں لگائی جاتی ہے، پہلی ڈوز کے 6 ماہ بعد دوسری ڈوز لگائی جاتی ہے۔

    صوبائی وزیر نے کہا کہ سندھ حکومت تولیدی صحت کے حقوق سے متعلق قانون سازی کر رہی ہے، ایچ پی وی کے سلسلے میں پارلیمینٹیرینز کو بھی بریفنگ دی جاۓ گی، جلد ویکسین کے لیے لائحہ عمل بنانا ہوگا، تاکہ اس بیماری سے تحفظ کے لیے مؤثر اقدامات کیے جا سکیں۔

    ڈاکٹر عذرا پیچوہو نے کہا سندھ میں عورتوں میں ہونے والے کینسرز کی تشخیص کا ڈیٹا مرتب کیا جائے گا تا کہ کینسر کے اسباب اور علاج میں مدد مل سکے۔

    ایچ پی وی کیا ہے؟

    ہیومن پیپیلوما وائرس (HPV) متعلقہ وائرسز کا ایک گروپ ہے، جو جسم کے مختلف حصوں پر مسے پیدا کر سکتے ہیں، اس کی 200 سے زیادہ اقسام ہیں، جن میں تقریباً 40 وائرسز متاثرہ شخص کے ساتھ براہ راست جنسی رابطے کے ذریعے پھیلتے ہیں۔

    علاج

    خود وائرس (HPV) کا کوئی علاج نہیں ہے، ویکسین کے ذریعے اس سے بچاؤ ممکن ہے، تاہم اس وائرس سے لاحق ہونے والے صحت کے مسائل کا علاج موجود ہے، جیسا کہ تولیدی اعضا کے آس پاس مسے، سروائیکل (بچہ دانی کے سرے کی) تبدیلیاں، اور سروائیکل کینسر۔

  • قرنطینہ سے فرار اومیکرون سے متاثرہ شخص کے حوالے سے اہم خبر

    قرنطینہ سے فرار اومیکرون سے متاثرہ شخص کے حوالے سے اہم خبر

    کراچی: چند دن قبل شہر قائد کے ایک نجی اسپتال سے فرار ہونے والا اومیکرون متاثرہ شخص کو دوبارہ پکڑ لیا گیا ہے۔

    ذرائع محکمۂ صحت حکومت سندھ کے مطابق نجی اسپتال سے فرار ہونے والے اومیکرون کے متاثرہ مریض 35 سالہ مزمل کو دوبارہ قرنطینہ کر دیا گیا ہے۔

    مزمل کراچی میں صدر ٹاؤن کی حدود کھارادر کا رہائشی ہے، مزمل کرونا وائرس کے اومیکرون ویرینٹ کا پاکستان میں دوسرا کیس ہے۔

    محکمہ صحت کا کہنا ہے کہ مزمل کو اسپتال سے فرار ہونے کے بعد 15 دسمبر کو انتظامیہ کی مدد سے پکڑا گیا تھا، اور اب وہ قطر اسپتال میں قرنطینہ میں رکھا گیا ہے۔

    کراچی میں ‘اومی کرون’ کا دوسرا کیس رپورٹ، متاثرہ شخص قرنطینہ سے فرار

    محکمۂ صحت کی ہدایت پر قرنطینہ سنیٹر کی سیکیورٹی بھی سخت کر دی گئی ہے۔

    رپورٹس کے مطابق محکمۂ صحت کی ٹیم نے برطانیہ سے آمد کے بعد مزمل کا ٹیسٹ کیا تھا، جو مثبت آ گیا تھا، ان کا کرونا اور اومیکرون دونوں ٹیسٹ پازیٹو تھے۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ قرنطیہ سے فرار ہونے والے اومیکرون کے دوسرے متاثرہ شخص کے لیے قرنطینہ میں سخت حفاظتی انتظامات کیے گئے ہیں۔

  • کراچی میں ‘اومی کرون’ کا دوسرا کیس رپورٹ، متاثرہ شخص قرنطینہ سے فرار

    کراچی میں ‘اومی کرون’ کا دوسرا کیس رپورٹ، متاثرہ شخص قرنطینہ سے فرار

    کراچی : شہر قائد میں اومی کرون کا دوسرا کیس رپورٹ ہوا ، تاہم متاثرہ شخص قرنطینہ سے فرار ہوگیا ہے، پینتیس سالہ شخص برطانیہ سے آیا تھا۔

    تفصیلات کے مطابق پاکستان میں اومی کرون کا دوسرا کیس سامنے آگیا ، اس حوالے سے ذرائع محکمہ صحت نے کہا ہے کہ پینتیس سالہ شخص برطانیہ سے کراچی پہنچا تھا، جس میں پہلےکورونا اوربعد میں امیکرون کی تصدیق ہوئی۔

    ذرائع نے بتایا کہ متعلقہ شخص کوہوٹل کے قرنطینہ میں رکھاگیاتھا تاہم وہ ہوٹل کے قرنطینہ سے فرار ہوگیا ہے۔

    محکمہ صحت ذرائع کے مطابق قرنطینہ پر سیکیورٹی محکمہ داخلہ پولیس اورمتعلقہ ڈی سی کی ذمہ داری ہے، نجی ہوٹل میں اب بھی 19 افراد قرنطینہ میں ہیں۔

    ذرائع کا کہنا تھا کہ 19 میں سے 5 کی سیکونسنگ ابھی ہونی ہے ، قرنطینہ میں سیکیورٹی اب بھی فراہم نہیں کی گئی ہے ، سیکیورٹی کی عدم فراہمی کے باعث 38 افراد قرنطینہ سے بھاگ چکے ہیں۔

    محکمہ صحت ذرائع نے کہا ہے کہ کیٹیگری سی اورامیکرون والے ممالک پرسفری پابندی لگائی ہے ، برطانیہ کیٹیگری سی میں نہیں آتا۔

  • ’47 ہزار اساتذہ میرٹ پر بھرتی کیے، میری اپنی بہن فیل ہو گئی’

    ’47 ہزار اساتذہ میرٹ پر بھرتی کیے، میری اپنی بہن فیل ہو گئی’

    کراچی: وزیر اطلاعات سندھ سعید غنی نے کہا ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں 47 ہزار اساتذہ ہم نے سو فی صد میرٹ پر بھرتی کیے ہیں، میری اپنی بہن امتحان میں فیل ہوئی۔

    تفصیلات کے مطابق اقرا یونیورسٹی اسکالرشپ ایوارڈ تقریب سے خطاب اور میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سعید غنی نے کہا کہ سندھ میں تعلیم کے شعبے میں ہم بہتری لائے ہیں، صوبے کی تعلیمی پالیسی میں نے خود بنائی تھی لیکن میرٹ پر سختی سے جمے رہے، اور میری اپنی بہن بھی فیل ہو گئی۔

    انھوں نے کہا محکمہ لیبر میرے پاس ہے، ہم مزدوروں کے 10 ہزار بچوں کو ہم تعلیم دیتے ہیں، ہم نے بینظیر مزدور کارڈ کا کام شروع کر دیا ہے، جس کے تحت سہولیات کا دائرہ مزید بڑھائیں گے۔

    سعید غنی نے کہا ہم جو مزدور کارڈ لا رہے ہیں اس سے ہر قسم کے مزدور کو تعلیم مل جائے گی، ہر مزدور سوشل سیکیورٹی کارڈ حاصل کر کے اپنے آپ کو اور بچوں کو محفوظ بنا سکتا ہے، میری نظر میں سب سے بڑا کام صحت اور تعلیم کی فراہمی ہے۔

    ان کا کہنا تھا مزدور کے بچوں کو جیسا ان کا حق ہے اس کے حساب سے تعلیم دیں گے، اٹھارویں ترمیم سے پہلے تعلیم وفاق کا معاملہ تھا، اٹھارویں ترمیم کے بعد بھی 90 فی صد یکساں نظام تعلیم ہے۔

    انھوں نے مزید کہا صوبہ سندھ کا یہ دعویٰ ہے کہ ہم نے سب سے اچھا سسٹم تشکیل دیا ہے، ہم کہتے ہیں ہماری کتابیں تمام صوبوں کو دی جائیں، دیکھیں کہ اگر سندھ مضامین میں بہتری لایا ہے تو تمام صوبوں کو بھی اسے اختیار کرنا چاہیے، جہاں تک میڈیم کی بات ہے تو یہ انتخاب والدین کا ہے کہ وہ سندھی، اردو یا انگلش میڈیم میں پڑھانا چاہتے ہیں۔

    سعید غنی نے کہا سندھ حکومت نے پبلک پرائیوٹ پارٹنرشپ میں اچھے اقدامات اٹھائے، بدقسمتی سے ہمارے حکومتی وسائل اتنے اچھے نہیں ہیں، میرے والد کے پاس فیس کے پیسے نہیں تھے، اور میری والدہ نے گھر کے اچھے کپڑے بیچ کر فیس اداکی تھی، اس کے بعد میرے والد بینک میں ملازم لگے اور بینک گارنٹی کے پیسے بھی ایک ریلوے کے ریٹائرڈ ملازم سے لیے، بچے احساس کریں پڑھیں ان کے والدین کتنی محنت سے کماتے ہیں۔