Author: انور خان

  • ‘جولائی 2020 کے بعد سندھ میں پولیو کا کوئی کیس سامنے نہیں آیا’

    ‘جولائی 2020 کے بعد سندھ میں پولیو کا کوئی کیس سامنے نہیں آیا’

    کراچی: وزیراعلیٰ سندھ مرادعلی شاہ کا کہنا ہے کہ جولائی2020 کے بعد سندھ میں پولیو کا کوئی کیس سامنے نہیں آیا، والدین سے اپیل ہے کہ بچوں کو پولیو کے قطرے ضرور پلائیں۔

    تفصیلات کے مطابق وزیراعلیٰ سندھ مرادعلی شاہ سوبھراج اسپتال پہنچے ، جہاں انھوں نے بچوں کو پولیوکےقطرے پلاکر پولیومہم کا افتتاح کیا ، اس موقع پروزیرصحت سندھ ڈاکٹرعذرا پیچوہوبھی موجود تھیں۔

    افتتاح کے موقع پر وزیراعلیٰ سندھ مرادعلی شاہ نے کہا کہ مہم میں 90 لاکھ بچوں کو پولیو کے قطرے پلائے جائیں گے ، جولائی2020کےبعدسندھ میں پولیو کا کوئی کیس سامنے نہیں آیا۔

    مرادعلی شاہ کا کہنا تھا کہ مہم کے دوران 12سال کے بچوں کو کویڈ کی ویکسین بھی دی جائےگی،والدین سے اپیل ہے کہ بچوں کو پولیو کےقطرے ضرور پلائیں ، سب مل کر اس کے خلاف مہم جاری رکھیں گے۔

    انھوں نے کہا کہ دنیا بھر میں یہ قطرے پلائے گئے اور یہ وبا ختم ہوئی ہے ، پوری دنیا میں پولیو صرف پاکستان اور افغانستان میں ہے ، پولیو ورکرز کو سلام پیش کرتا ہوں۔

  • عالمی اُردو کانفرنس کا تیسرا روز، اردو افسانے پر ادیبوں اور نقادوں کا اظہار خیال

    عالمی اُردو کانفرنس کا تیسرا روز، اردو افسانے پر ادیبوں اور نقادوں کا اظہار خیال

    کراچی: آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں چار روزہ چودھویں عالمی اُردو کانفرنس پورے آب و تاب سے جاری ہے، کانفرنس کے تیسرے روز پہلے سیشن ”اردو افسانے کا منظرنامہ“ کا انعقاد کیا گیا، جس کی صدارت زاہدہ حنا اور عامر حسین نے انجام دی۔

    ”اردو افسانہ آزادی کے بعد اور اس کے امکانات“ پر خالد فتح محمد، ”پون صدی کے اردو افسانے میں ہیئت و اسلوب کے تجربات“ پر اسلام آباد سے آن لائن محمد حمید شاہد، ”آزادی کے بعد بدلتا انسانی سماج اور اردو افسانہ“ پر امجد طفیل، ”پچھتر برس میں کہانی کی تلاش“ پر اخلا ق احمد اور ”جدید افسانہ اور نئی معنوی تشکیلات“ کے موضوع پر بھارت کے شہر دہلی سے خالد جاوید نے آن لائن اظہارِ خیال کیا، نظامت کے فرائض اقبال خورشید نے انجام دیے۔

    زاہدہ حنا نے کہا کہ ہم اپنے افسانوں میں مختلف شہروں اور وہاں کے رہنے والوں کا عکس دیکھتے ہیں، کئی بڑے افسانہ نگاروں نے بہت خوب صورت اور اچھے افسانے لکھے ہیں جنھیں پڑھ کر تادیر قارئین یاد رکھتے ہیں، عامر حسین نے کہا کہ افسانہ نگاری میں حقیقت نگاری کے علاوہ بھی بہت کچھ ہوتا ہے گزشتہ سالوں میں اردو افسانے کی ترقی کی جو بات کی جا رہی ہے وہ اردو افسانے نے اس سے پہلے ہی کر لی تھی۔

    خالد جاوید نے دہلی سے آن لائن خطاب میں کہا کہ کسی بھی ادبی فن پارے میں زبان ہی وہ شے ہے جو سماج سے مکالمے کو پیش کرتی ہے، ہمارے افسانہ نگاروں نے جس چیز کو نظر انداز کیا ہے وہ افسانے کی زبان ہی ہے کیوں کہ زبان کے برتنے میں یہ نظر آ جاتا ہے کہ وہی بات کی جا رہی ہے جو نظر تو آتی تھی مگر زبان اسے کہہ نہیں پا رہی تھی، انھوں نے کہا کہ زبان کی خاموشی کو اس کا جائز مقام دینے والے افسانہ نگار بہت کم ہیں۔

    اخلاق احمد نے کہا کہ ہمارے افسانہ نگار یا مختصر کہانی نویس کسی بھی دوسرے بڑے کہانی نویس سے کم نہیں ہیں، میں چالیس برس سے یہ سن رہا ہوں کہ اردو افسانہ ختم ہوگیا ہے اور یہ باتیں اب بھی جاری ہیں مگر میرا دل چاہتا ہے کہ میں یہ کہنے والوں سے سوال ضرور پوچھوں کہ انہوں نے آخری افسانہ یا کہانی کب اور کس کی پڑھی تھی۔

    امجد طفیل نے کہا کہ جو قومیں اپنی ناکامی کو یاد نہیں رکھتیں وہ کبھی بھی اپنا بہتر مستقبل نہیں دیکھ سکتیں، ہجرت کے وقت جو انتقالِ آبادی ہوا اس وقت اگر ان مسائل کو درست انداز میں حل کر لیا جاتا تو وہ بحران کبھی پیدا نہیں ہوتا جس سے ہم آج بھی نبرد آزما ہیں۔ انھوں نے کہا کہ سماج میں جو بھی تبدیلیاں آرہی تھیں یا جو تبدیلیاں آنے والی تھیں ہمارا افسانہ نگار انہیں پیش کر رہا تھا۔

    محمد حمید شاہد نے اسلام آباد سے آن لائن گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پون صدی کے افسانے دیکھیں گے تو بہت کچھ بدلا ہوا نظر آئے گا جس کا ادراک سعادت حسن منٹو اور دیگر افسانہ نگاروں کو بھی تھا، انہوں نے کہاکہ افسانے کو اس کے تناظر میں سمجھنے کی ضرورت ہے جب وجود ہی میں اتنی اُتھل پُتھل ہو تو وہاں ایک افسانہ نگار کس طرح لکھ سکتا ہے کہ جس کا بیانیہ بھی ہموار ہو۔

    خالد فتح محمد نے کہا کہ اردو افسانہ اردو فکشن کا ایک مضبوط ستون رہا ہے، پریم چند کو جدید اردو افسانے کا جدامجد کہا جاسکتا ہے، اردو افسانے کو پریم چند نے زندگی کے ساتھ جوڑا تھا، آزادی کے پہلے دن ہی سے دھوکہ دہی کا لامتناہی سلسلہ جاری ہوا جو آج تک جاری ہے، تقسیم کے بعد افسانے میں تبدیلیاں آنا شروع ہوگئی تھیں۔

    ”مشتاق احمد یوسفی – سو برس“ کے عنوان سے بھی ایک سیشن کا انعقاد ہوا۔ نشست سے مستنصر حسین تارڑ اور اسلام آباد سے افتخار احمد نے آن لائن اظہارِ خیال کیا جب کہ نظامت کے فرائض ڈاکٹر فاطمہ حسن نے انجام دیے۔

    مستنصر حسین تارڑ نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کسی کو جاننے کے لیے اُس کے قریب رہنا ضروری نہیں، ادیب اپنے ادب کی تخلیق میں ہوتا ہے، مشتاق احمد یوسفی سے میں نے بہت کچھ سیکھا، جس طرح قرة العین اور بیدی دوسرے نہیں مشتاق احمد یوسفی بھی ایک ہی ہے۔

    جس زمانے میں وہ لندن میں موجود تھے تو اُس وقت اُنھوں نے مجھے وہاں سے ایک خط ارسال کیا جو آج تک میرے پاس محفوظ ہے، انھوں نے ازراہِ تفنّن کہا کہ ہم میں سے بہت سے سینئر لوگ پڑے پڑے سینئر ہو جاتے ہیں کیوں کہ یہ ضروری نہیں ہے کہ عمر بڑھنے کے ساتھ آپ کی دانش میں بھی اضافہ ہو، مشتاق احمد یوسفی نے جو لکھا وہ کمال لکھا، وہ بہت بڑے نثر نگار تھے۔

    افتخار عارف نے کہا کہ ہمارے زمانے میں بڑے بڑے مزاح نگار پیدا ہوئے ہیں جنھوں نے اس شعبے میں بہت عمدہ کام کیا ہے، ان سب کی اہمیت اپنی جگہ مسلمہ ہے مگر ان سب مزاح نگاروں میں مشتاق احمد یوسفی اس طرح بڑے نظر آتے ہیں کہ دیگر میں نمایاں ہو جاتے ہیں۔

    انھوں نے کہا کہ مشتاق احمد یوسفی کے لکھے ہوئے مضامین اپنے مخصوص رنگ کے باعث مختلف اور منفرد نظر آتے ہیں ، پاکستان کی اردو کی شناخت کے جو بڑے لوگ سامنے آئے ہیں اُن میں مشتاق احمد یوسفی کا نمایاں مقام ہے۔

  • جامعہ کراچی: داخلہ ٹیسٹ کی تاریخ کا اعلان

    جامعہ کراچی: داخلہ ٹیسٹ کی تاریخ کا اعلان

    کراچی: جامعہ کراچی میں تعلیمی سال 2022 کے لیے بی ای، بی ایس اور بی ایڈ (آنرز) کا داخلہ ٹیسٹ 12 دسمبر کو ہوگا۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی یونیورسٹی میں تعلیمی سال 2022 کے ڈاکٹر آف فارمیسی، ڈاکٹر آف فزیکل تھراپی، بی ای، بی ایس اور بی ایڈ (آنرز) پروگرام کے لیے داخلہ ٹیسٹ اتوار 12 دسمبر 2021 کو منعقد ہوگا۔

    داخلہ ٹیسٹ میں 15 ہزار سے زائد امیدوار شریک ہوں گے، تمام امیدواروں کو ایڈمٹ کارڈ جاری کر دیے گئے ہیں جس پر رپورٹنگ ٹائم امتحانی مرکز اور کمرۂ امتحان کا نمبر درج ہے۔

    داخلہ ٹیسٹ میں شرکت کرنے والے امیدواروں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ صبح 10:00 بجے اپنے اصل شناختی کارڈ اور ایڈمٹ کارڈ کے ساتھ اپنے متعلقہ امتحانی مرکز پر حاضری کو یقینی بنائیں۔

    شیخ الجامعہ پروفیسر ڈاکٹر خالد محمود عراقی کی ہدایت پر تمام امتحانی مراکز پر سینیٹائزر، فیس ماسک اور تھرمل گن کی موجودگی کو یقینی بنایا گیا ہے۔

    تھرمل گن سے ٹمپریچر چیک کرنے کے بعد طلبہ کو کمرہ امتحان میں بیٹھنے کی اجازت دی جائے گی۔

    طلبہ و طالبات اور ان کے والدین کی سہولت کے پیش نظر جامعہ کراچی کے سلور جوبلی اور مسکن گیٹس پر پوائنٹس (بسوں) کی موجودگی کو یقینی بنایا جائے گا۔

  • ہولناک بیماری میں مبتلا بچے کو دوسری سالگرہ سے ایک دن قبل نئی زندگی مل گئی

    ہولناک بیماری میں مبتلا بچے کو دوسری سالگرہ سے ایک دن قبل نئی زندگی مل گئی

    کراچی: پاکستان میں‌ ایک ہولناک بیماری میں‌ مبتلا بچے کو ملک کی پہلی جین تھراپی سے سال گرہ سے محض ایک دن قبل نئی زندگی مل گئی۔

    تفصیلات کے مطابق آغا خان یونیورسٹی اسپتال میں جینیات کے ماہرین نے اسپائنل مسکولر ایٹرفی (Spinal Muscular Atrophy) کے علاج کے لیے پاکستان میں پہلی مرتبہ جین تھراپی انجام دی، جس کے خاطر خواہ نتائج حاصل ہوئے ہیں۔

    چنیوٹ سے تعلق رکھنے والے 2 سالہ بچے شاویز کو 6 ماہ کی عمر میں اسپائنل مسکولر ایٹرفی (SMA) کی تشخیص ہوئی تھی۔ اس بیماری میں مریضوں کو پٹھوں کی کمزوری، پٹھوں کے تناؤ میں کمی، محدود نقل و حرکت، سانس کے مسائل، اعصابی و عضلاتی صلاحیتوں میں تاخیر اور اسکولیوسس (ریڑھ کی ہڈی میں خم آنا) اور صحت کے دیگر سنگین مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔ اس بیماری میں مبتلا بہت سے بچے اپنی دوسری سالگرہ سے زیادہ زندہ نہیں رہ پاتے۔

    اس خبر نے شاویز کے والدین کو ہلا کر رکھ دیا تھا، کیوں کہ شاویز کی بڑی بہن بھی اسی بیماری میں مبتلا رہی تھی، اس لیے وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ ان کے بچے کی زندگی کے لیے اس بات کے کیا معنی ہیں۔ شاویز کے والد لیاقت علی غوری نے کہا کہ اگرچہ ہماری ایک بیٹی کی بھی یہی حالت تھی، لیکن کسی ڈاکٹر نے ہمیں کبھی نہیں بتایا کہ دوبارہ امید سے ہونے کی صورت میں یہ حالت پھر پیدا ہو سکتی ہے۔

    واضح رہے کہ اسپائنل مسکولر ایٹرفی (یعنی ریڑھ کی ہڈی کے پٹھوں کی لاغری) موروثی بیماریوں کا ایک مجموعہ ہے، جو حرام مغز اور اس سے متصل دماغ کے پچھلے حصے میں موجود موٹر نیورونز، اور عصبی خلیات کو تباہ کر دیتا ہے، جو انسانی ڈھانچے کے اہم پٹھوں کی سرگرمی کو کنٹرول کرتے ہیں، جیسا کہ بولنا، چلنا، سانس لینا اور کھانا نگلنا، اس بیماری سے پٹھے کمزور اور تباہ ہو جاتے ہیں۔

    دوسری طرف پاکستان میں اسپائنل مسکولر ایٹرفی کے پھیلاؤ کا تجزیہ کرنے کے لیے معلوماتی مواد کا فقدان ہے، ماہرین کا کہنا ہے کہ رشتے داروں کے درمیان شادیاں اس کی سب سے زیادہ عام وجہ ہے۔ عالمی معلوماتی مواد یہ ظاہر کرتا ہے کہ ہر 10 ہزار میں سے ایک زندہ پیدائش اسپائنل مسکولر ایٹرفی سے متاثر ہوتی ہے، اور جینیاتی طور پر جس کے منتقل ہونے کی تعداد ہر پچاس میں تقریباً ایک ہے۔

    لیاقت علی غوری بیٹی کے معاملے میں اس حوالے سے کچھ تحقیق و جستجو کر چکے تھے، اس لیے جانتے تھے کہ 2019 تک پاکستان میں اس کے علاج کا کوئی طریقہ کار موجود نہیں تھا، پھر معلوم ہوا کہ بین الاقوامی فارماسیوٹیکل کمپنی نوارٹس (Novartis) نے اس بیماری کے علاج کے لیے ایک جین تھراپی کی دوا تیار کر لی ہے، اس دوا کے امریکا اور یورپ میں مریضوں پر استعمال سے خوش آئند نتائج ظاہر ہوئے۔

    یہ ایک نئی دوا ہے جس میں اس بیماری کے علاج کے لیے صرف ایک خوراک درکار ہوتی ہے، لیکن اس دوا کی قیمت کئی ملین ڈالرز میں ہے، جو کہ ظاہر ہے کہ بہت سے لوگوں کی پہنچ سے دور ہے، لیکن نوارٹس نے سال میں 100 مریضوں کو بلا معاوضہ یہ دوا فراہم کرنے کے لیے عالمی سطح پر اس دوا تک رسائی کے لیے ایک منظم پروگرام پیش کیا۔ اور شاویز اس دوا کے لیے نوارٹس کی طرف سے منتخب کیا گیا ایک ایسا خوش قسمت مریض تھا جو پاکستان میں اپنی نوعیت کا پہلا امیدوار بن گیا۔

    آغا خان یونیورسٹی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر اور چیئر، ڈویژ ن آف ویمن اینڈ چائلڈ ہیلتھ ڈاکٹر سلمان کرمانی اور ان کی ٹیم نے شاویز کو جون 2020 میں دیکھا تھا، جب وہ ڈیڑھ سال کا تھا، اور اس کے لیے نوارٹس کے منظم رسائی پروگرام کا حصہ بننے کی درخواست دی تھی۔

    جلد ہی انھیں دوا کے لیے نامزدگی حاصل ہوگئی، ڈاکٹر کرمانی کی ٹیم نے اگلے 6 مہینے عملے کی ٹریننگ میں گزارے، اور دوا حاصل کرنے کے لیے اداروں کے ساتھ کام کیا اور یہ تجزیہ کرنے کے لیے کہ آیا شاویز دوا حاصل کرنے کے لائق ہے، اس کے کچھ ضروری ٹیسٹس کیے گئے۔

    یوں، آخرکار شاویز کو اس کی دوسری سالگرہ سے ایک دن پہلے یہ دوا دی گئی، اس کے بعد سے اس نے نمایاں بہتری ظاہر کی ہے۔

  • تعلیمی اداروں میں موسم سرما کی چھٹیاں کب ہوں گی؟ اعلان ہوگیا

    تعلیمی اداروں میں موسم سرما کی چھٹیاں کب ہوں گی؟ اعلان ہوگیا

    کراچی : سندھ حکومت نے تعلیمی اداروں میں موسم سرما کی چھٹیاں 20 دسمبر سے یکم جنوری تک کرنے کا اعلان کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق محکمہ تعلیم سندھ نے موسم سرماکی چھٹیاں 20 دسمبر سے یکم جنوری تک کرنے کا فیصلہ کرلیا ، محکمہ تعلیم ورکنگ کمیٹی کے اجلاس میں موسم سرما کی چھٹیاں کرنے کی منظوری دی گئی۔

    سندھ میں تعلیمی ادارے اسکول و کالجز 20 دسمبر سے یکم جنوری تک بند رہیں گے اور 3جنوری کو تعلیمی اداروں میں تدریسی سرگرمیاں بحال کردی جائیں۔ گی۔

    خیال رہے دیگر صوبوں کی جانب سے تعلیمی اداروں میں موسم سرما کی چھٹیوں کا اعلان نہیں کیا گیا۔

    یاد رہے وزیر تعلیم سندھ سردار شاہ کا کہنا تھا کہ موسم سرما کی تعطیلات ضرور ہوں گی بچوں کو پڑھائی سے بریک بھی چاہیے، چھٹیوں کی تاریخ پر کوئی سفارش نہیں کی۔ ورکنگ کمیٹی خود انتخاب کرے کی چھٹیاں کن تاریخوں میں دی جائیں۔

  • کراچی میں اومی کرون وائرس کے مشتبہ کیسز سے متعلق وزیر صحت سندھ کا اہم بیان

    کراچی میں اومی کرون وائرس کے مشتبہ کیسز سے متعلق وزیر صحت سندھ کا اہم بیان

    کراچی : وزیر صحت سندھ ڈاکٹر عذرا پیچوہو نے کراچی میں اومی کرون وائرس کے مشتبہ کیسز سے متعلق اپنے بیان میں کہا ہے کہ کیسز کی جینومک اسٹڈی کے نتائج آنے میں 2 ہفتے کاوقت لگ سکتا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق وزیر صحت سندھ ڈاکٹر عذرا پیچوہو نے اومی کرون ویرینٹ کے معاملے پر اپنے ویڈیو بیان میں کہا ہے کہ اومی کرون وائرس کے مشتبہ کیس کی جینومک اسٹڈی جاری ہے، جینومک اسٹڈی کے نتائج آنے میں 2 ہفتے کاوقت لگ سکتا ہے۔

    عذراپیچوہو نے بتایا کہ مریضہ میں علامات سے لگ رہا ہے وائرس اومی کرون ہے، اومی کرون وائرس تیزی سے پھیلتا ہے تاہم اموات کاتناسب کم ہے، جنوبی افریقہ سے رپورٹس کےمطابق اومی کرون سے زیادہ اموات رپورٹ نہیں۔

    وزیر صحت سندھ کا کہنا تھا کہ وائرس کی کسی بھی قسم سے بچنے کا بہترین حل ویکسین ہے ویکسین نہ کرانے کی وجہ سے وائرس تیزی سے پھیلتا ہے، مشتبہ مریضہ ویکسین شدہ نہیں۔

    انھوں نے مزید کہا کہ جن لوگوں نے ویکسین نہیں لگائی ہے وہ فوری طور پر ویکسین لگوائیں ، پہلی ڈوز کے حامل افراد فوری طور پر دوسری ڈوز لگوائیں اور یسے افراد جو دونوں ڈوز مکمل کرچکے ہیں وہ فوری طور پر بوسٹر ڈوز لگوائیں۔

    عذراپیچوہو کا کہنا تھا کہ ویکسی نیشن اور بوسٹر ڈوزبچاوٴ کا واحد طریقہ ہے، بیماری بہر حال بیماری ہوتی ہے ہلکی ہو یا مہلک۔

  • طلبہ کے داخلوں کا معاملہ: سندھ حکومت کا پنجاب یونیورسٹی کو خط

    طلبہ کے داخلوں کا معاملہ: سندھ حکومت کا پنجاب یونیورسٹی کو خط

    پنجاب یونیورسٹی کی جانب سے انٹرمیڈیٹ کے نتائج میں تاخیر پر سندھ کے طلبہ کے داخلے رد کرنے پر سندھ ‏حکومت نےوفاق اور پنجاب یونیورسٹی کو خط لکھ دیا۔ ‏

    سندھ حکومت نے وفاقی حکومت اور پنجاب یونیورسٹی کو خط لکھتے ہوئے کہا ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ سندھ ‏کے طلبہ کا مستقبل داؤ پر ہے جس میں طلبہ کا کوئی قصور نہیں ان کے داخلہ نہ روکے جائیں۔

    سندھ کے وزیر جامعات و بورڈز محمد اسماعیل راہو کا کہنا تھا کہ پنجاب یونیورسٹی اور دیگر یونیورسٹیوں میں ‏سندھ کےطلبہ کے عارضی داخلے معطل کرنا سخت ناانصافی ہے وفاق اور پنجاب حکومت جانتے ہیں کہ کورونا ‏کی وجہ سے سب سے زیادہ ملک میں تعلیمی عمل متاثر ہوا ہے۔‎

    ‎اسماعیل راہو کا کہنا تھا کہ کورونا وبا کے دوران تعلیمی سرگرمیاں زیادہ عرصہ معطل رہیں یا 50 فی صد حاضری ‏پر روٹیشین پالیسی کے تحت جاری رہیں انٹرمیڈیٹ کے امتحانات ہر سال اپریل میں لئے جاتے ہیں لیکن کووڈ 19 ‏وبا کے باعث جولائی 2021 میں لیے گئے کورونا وبا کے باعث امتحانی پرچوں کا شیڈول ستمبر تک جاری رہا۔

    وزیربرائے جامعات بورڈز نے کہا کہ تعلیمی بورڈز میں عملے کی 50 فی صد حاضری کے باعث نتائج کی تیاری اور ‏اعلان میں تاخیر ہوئی، وزارت بین الصوبائی رابطہ کے اجلاس میں امتحانات اور نتائج میں تاخیر کا معاملہ تمام ‏اعلیٰ حکام کے سامنے اٹھایا گیا تھا, سندھ حکومت دیگر صوبوں کے طلبہ کے داخلوں، تعلیمی سرگر میوں اور ‏دیگر معاملات پر بھرپور تعاون فراہم کر رہی ہے.‏

    اسماعیل راہو کا مزید کہنا تھا کہ سندھ حکومت دوسرے صوبوں سے سندھ کے طلبہ کے ساتھ اسی طرح کے ‏ردعمل کی امید رکھتی ہے سیکرٹری یونیورسٹیز اور بورڈز سندھ نے رجسٹرار پنجاب یونیو رسٹی کوخط لکھا ہے۔

  • امتحانات میں کم نمبر حاصل کرنے والے  طلباء و طالبات کیلئے انٹر بورڈ کا بڑا اعلان

    امتحانات میں کم نمبر حاصل کرنے والے طلباء و طالبات کیلئے انٹر بورڈ کا بڑا اعلان

    کراچی :انٹر بورڈ نے امتحانات میں ڈی اور ای گریڈ حاصل کرنے والے طالبعلموں کو اسپیشل امتحان میں شرکت کا موقع فراہم کرنے کا اعلان کردیا، تاکہ یہ امیدوار جامعات میں داخلوں کیلئے اہل ہوسکیں۔

    تفصیلات کے مطابق انٹر بورڈ نے انٹر پری انجینئرنگ کے امتحانات میں پینتالیس فیصد سے کم نمبر حاصل کرنے والے طلبہ و طالبات کو اسپیشل امتحان میں شرکت کا موقع فراہم کرنے کا فیصلہ کرلیا تاکہ یہ امیدوار جامعات میں داخلوں کیلئے اہل ہوسکیں کیونکہ پینتالیس فیصد کم نمبر حاصل کرنے والے طالبعلموں کو جامعات میں داخلہ فراہم نہیں کیا جاتا ہے۔

    چیئرمین انٹر بورڈ کا کہنا ہے کہ جلد خصوصی امتحانات کا اعلان کیا جائے گا، خصوصی امتحانات میں شرکت کرکے ڈی اور ای گریڈ والے طالبعلم نمبروں کو بہتر کرسکتے ہیں۔

    ڈاکٹر سعید الدین نے کہا کہ طالبعلم اپنی پرسنٹیج بہتر بنا کر طالبعلم آئندہ سال جامعات میں داخلے کیلئے خود کو اہل ثابت کرسکتے ہیں۔

    انٹر بورڈ آفس کی اسٹیئرنگ کمیٹی کے فیصلے کے مطابق گذشتہ تعلیمی سال میں فزکس، کیمسٹری ، ریاضی اور بائیولوجی اختیاری مضامین کے امتحانات لئے گئے تھے اور امتحانات میں شرکت کرنے والے ہر طالبعلموں کو پاس کرنا لازمی تھا۔

    ڈی اور ای گریڈ میں کامیاب ہونے والے طلبہ اسٹیئرنگ کمیٹی کی ہدایت پرپاس کئے گئے جبکہ 45 فیصد تک نمبر حاصل کرنے والے طالبعلم جامعات میں داخلے کے اہل نہیں ہوتے۔

    انٹر پری انجینئرنگ میں کامیابی کا تناسب95.55فیصد تھا ، ڈی گریڈ میں 6 ہزار 605 امیدوار کامیاب اور ای گریڈ میں3 ہزار 450امیدوار کا میاب ہوئے تھے۔

  • خاتون کے جگر سے 3 کلو سے زیادہ وزنی ٹیومر نکال لیا گیا

    خاتون کے جگر سے 3 کلو سے زیادہ وزنی ٹیومر نکال لیا گیا

    کراچی: ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کراچی کے لیور ٹرانسپلانٹ سرجنز نے ایک 29 سالہ خاتون کے جگر سے تین کلو گرام سے زیادہ وزنی ٹیومر کامیابی سے نکال لیا۔

    تفصیلات کے مطابق ڈاؤ یونیورسٹی میں آپریشن کے ذریعے ایک خاتون ثمینہ بی بی کے جگر سے 3.122 کلو گرام ٹیومر نکال لیا گیا، مریضہ کے اہل خانہ کا کہنا تھا کہ ملک کے بیش تر بڑے سرکاری اور پرائیوٹ اسپتالوں نے آپریشن سے انکار کر دیا تھا۔

    ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے وائس چانسلر پروفیسر سعید قریشی نے بتایا کہ ڈاکٹر جہانزیب حیدر اور ڈاکٹر محمد اقبال کی قیادت میں ٹرانسپلانٹ سرجنز کی ٹیم نے یہ آپریشن کیا، ٹیومر نے مریضہ کے جگر کا 70 فی صد حصہ متاثر کیا تھا اور یہ دوسرے اعضا تک بھی پھیل چکا تھا۔

    کامیاب آپریشن کے بعد خاتون تیزی سے صحت یاب ہو رہی ہیں، پروفیسر سعید قریشی نے کہا کہ یہ ایک مشکل اور خطرناک آپریشن تھا لیکن ڈاؤ کے ٹرانسپلانٹ سرجنز نے خطرہ مول لینے کا فیصلہ کیا اور کامیابی سے سرجری کی۔

    انھوں نے کہا اگرچہ مریضہ کینسر کی وجہ سے اپنے جگر کا 70 فی صد حصہ کھو چکی ہے، لیکن ٹیومر نکالنے کے بعد اب وہ ٹھیک ہو رہی ہے اور امید ہے کہ اس کے بعد وہ نارمل زندگی گزار سکے گی۔

    ڈاکٹر محمد اقبال نے بتایا کہ ثمینہ بی بی ایک چھوٹی بچی کی ماں ہے، رسولی پورے پیٹ میں پھیلنے کی وجہ سے لڑکی انتہائی تکلیف میں تھی، ہمارے کچھ ساتھی ڈاکٹرز نے کہا کہ یہ سرجری نہ کریں، آپریشن کے نتیجے میں مریضہ کی زندگی کو خطرہ ہو سکتا ہے، لیکن لڑکی کی عمر دیکھتے ہوئے آپریشن کا فیصلہ کیا گیا۔

    ڈاکٹر محمد اقبال کے مطابق آپریشن کے دوران خاتون کا جگر مکمل طور پر نہیں نکالا گیا ہے، صرف رسولی نکالی گئی ہے، جو گوشت کے ایک بڑے لوتھڑے کی طرح تھی، جس کی وجہ سے تقریباً 70 فی صد جگر کو بھی کاٹنا پڑا، تاہم مریضہ جگر کے بقیہ حصے پر بھی زندہ رہ سکتی ہے، ہم مریضہ کی حالت پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔

    مریضہ کے شوہر محمد صداقت نے بتایا کہ ان کی اہلیہ کو شوکت خانم میموریل کینسر اسپتال، سندھ انسٹی ٹیوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن، جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر کراچی، ضیاء الدین سمیت تمام بڑے اسپتالوں نے کینسر کی ایڈوانس اسٹیج کی وجہ سے سرجری سے انکار کر دیا تھا۔

    صداقت نے بتایا کہ وہ کے پی کے علاقے مانسہرہ کے رہائشی ہیں اور ان کے پاس صوبائی حکومت کی طرف سے جاری کردہ صحت کارڈ تھا، جس کی وجہ سے ان کے لیے ڈی یو ایچ ایس اوجھا اسپتال میں علاج کروانا آسان ہو گیا۔

  • پاکستان کے کتنے فیصد ڈاکٹر موٹاپے کا شکار؟ حیران کن انکشاف

    پاکستان کے کتنے فیصد ڈاکٹر موٹاپے کا شکار؟ حیران کن انکشاف

    کراچی: پاکستان میں ماہرین امراض قلب سمیت 61 فیصد ڈاکٹر موٹاپے کی بیماری کا شکار ہیں جبکہ ساڑھے سات ‏فیصد ڈاکٹر سگریٹ نوشی کی عادت میں مبتلا ہیں۔

    اس بات کا انکشاف قومی ادارہ برائے امراض قلب کے ریسرچر ڈاکٹر سالک احمد میمن کی جانب سے کی جانے ‏والی تحقیق میں کیا گیا جو کہ اتوار کے روز پانچویں کاڈیالوجی ریسرچ ایوارڈ کی تقسیم انعامات کے موقع پر ‏پیش کی گئی۔

    پاکستان کارڈیک سوسائٹی کی 50 ویں سالانہ کانفرنس کے اختتامی روز پاکستان بھر سے آئے ہوئے نوجوان تحقیق ‏کاروں اور ڈاکٹروں کہ طبی تحقیق اور ریسرچ پیپرز کی جانچ پڑتال کے بعد 6 نوجوان تحقیق کاروں کو نقد انعام ‏دیے گئے۔

    قومی ادارہ برائے امراض قلب سے وابستہ ڈاکٹر سالک میمن کے مطابق انہوں نے پاکستان بھر کے 159 ڈاکٹروں اور ‏ماہرین امراض قلب کے انٹرویو کئے اور ان کے میڈیکل ٹیسٹ کروائے اور حیران کن طور پر ان میں سے تقریبا 21 ‏فیصد ڈاکٹر موٹاپے کی بیماری یا ‘اوبیسٹی’ کا شکار تھے جبکہ 40 فیصد ڈاکٹروں کا وزن مروجہ پیمانوں سے کافی ‏زیادہ تھا۔ ‏

    ڈاکٹر سالک احمد نے مزید بتایا کہ تقریبا ساڑھے سات فیصد ڈاکٹر سگریٹ نوشی کی عادت میں مبتلا نکلے۔

    انہوں نے مزید بتایا کہ ان تمام ڈاکٹروں میں 26 فیصد سے زائد کے خاندان میں دل کی بیماریاں موجود تھی، لیکن ‏ان میں سے صرف 65 فیصد کو اس بات کا علم تھا کہ انہیں ہفتے میں ڈھائی گھنٹے سے زائد وقت ورزش کرنی ‏چاہیے۔

    تحقیق کے دوران یہ بات بھی سامنے آئی کہ کہ ان تمام ڈاکٹروں میں سے صرف 26فیصد ڈاکٹر باقاعدگی سے ‏ایکسرسائز کرتے ہیں جبکہ دیگر کا کہنا تھا کہ انہیں اتنا ٹائم ہی نہیں ملتا کہ وہ واک یا باقاعدگی کے ساتھ ‏ورزش کرسکیں۔

    اپنی دلچسپ تحقیق کے باوجود ڈاکٹر سالک میمن کارڈیالوجی ریسرچ ایوارڈ حاصل کرنے میں ناکام رہے اور لاہور ‏کے ڈاکٹرز اسپتال کی ڈاکٹر ہما زرتاش کو ہارٹ فیلیئر کے مریضوں میں ‘آرنی’ نامی دوا کے کامیابی سے استعمال پر ‏پہلے انعام سے نوازا گیا جبکہ آغا خان اسپتال کراچی کے سید وقار احمد دوسرے اور قومی ادارہ برائے امراض قلب ‏سے وابستہ ڈاکٹر صنم خواجہ تیسرے انعام کی حقدار قرار پائیں۔ ‏

    پاکستان کارڈیک سوسائٹی نے اس موقع پر پشاور سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر طیبہ درانی، ادارہ برائے امراض قلب ‏کی ڈاکٹر صبا حسین اور آغا خان یونیورسٹی کے میاں مصطفی کمال کو بھی ان کی طبی تحقیق پر نقد انعامات ‏سے نوازا۔

    واضح رہے کہ کارڈیالوجی ریسرچ ایوارڈ مقامی دوا ساز ادارے فارمیو کی مالی معاونت سے دیے جاتے ہیں اور ‏نوجوان تحقیق کاروں کو لاکھوں روپے طبی تحقیق کرنے کے لیے فراہم کیے جاتے ہیں۔

    اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے پاکستان کارڈیک سوسائٹی کے صدر پروفیسر ہارون بابر کا کہنا تھا کہ مقامی طور ‏پر کی جانے والی طبّی تحقیق کے نتیجے میں ہمیں مقامی بیماریوں اور ان عوامل کو جاننے میں مدد ملے گی جن ‏کے نتیجے میں یہ بیماریاں لاحق ہوتی ہیں، جس کے نتیجے میں ہم ان بیماریوں کو بہتر طور پر نمٹنے میں کامیاب ‏ہو سکیں گے۔

    فنڈز فراہم کرنے والے دواساز ادارے فارمیوو کے ڈائریکٹر مارکیٹنگ منصور خان کا کہنا تھا کہ ان کا ادارہ پاکستان ‏میں صحت مند معاشرے کے قیام کے لیے کوشاں ہے جس کے لیے وہ تحقیق کاروں کو تمام مالی وسائل فراہم کر ‏رہے ہیں۔

    کاڈیو کون کے کنوینر اور قومی ادارہ برائے امراض قلب کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر پروفیسر ندیم قمر نے اس موقع پر ‏انعامات حاصل کرنے والے نوجوان تحقیق کاروں کو مبارک باد دی اور امید ظاہر کی کہ آنے والے دنوں میں ‏پاکستانی ریسرچ پوری دنیا میں میں دل کے امراض سمیت دیگر بیماریوں سے نمٹنے کے لیے ماہرین کی توجہ ‏حاصل کر پائے گی۔