Author: انور خان

  • سندھ کی بڑی یونی ورسٹی میں چینی زبان پر ڈگری پروگرام کا معاہدہ ہو گیا

    سندھ کی بڑی یونی ورسٹی میں چینی زبان پر ڈگری پروگرام کا معاہدہ ہو گیا

    کراچی: جامعہ کراچی میں چینی زبان اور ثقافت پر مبنی 4 سالہ ڈگری پروگرام شروع کرنے کے حوالے سے مفاہمتی یادداشت پر دستخط کر دیے گئے۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق کراچی یونی ورسٹی میں ڈگری پروگرام کے لیے پہلے 2 سال کلاسز جامعہ کراچی کے کنفیوشس انسٹی ٹیوٹ برائے چینی زبان جب کہ آخری 2 سال کی کلاسز سچوان نارمل یونی ورسٹی چین میں ہوں گی۔

    یہ پروگرام جامعہ کراچی اور چین کی سچوان نارمل یونی ورسٹی کے اشتراک اور سینٹر آف لینگویج ایجوکیشن اینڈ کوآپریشن (چین) کے تعاون سے شروع کیا جا رہا ہے، جامعہ کراچی میں چینی زبان اور ثقافت پر مبنی چار سالہ ڈگری پروگرام شروع کرنے کے حوالے سے مفاہمتی یادداشت پر دستخط کی تقریب بدھ کے روز وائس چانسلر سیکریٹریٹ جامعہ کراچی میں منعقد ہوئی۔

    جامعہ کراچی کی جانب سے شیخ الجامعہ پروفیسر ڈاکٹر خالد محمود عراقی نے مفاہمتی یادداشت پر دستخط کیے جب کہ کنفیوشس انسٹی ٹیوٹ برائے چینی زبان کے چینی ڈائریکٹر شاؤپنگ نے معاہدے پر دستخط کیے، دستخط کے سلسلے میں ڈائریکٹر شاؤپنگ نے سچوان نارمل یونی ورسٹی کے صدر پروفیسر ڈاکٹر وانگ مینگی (Professor Dr Wang Mingyi) اور سینٹر آف لینگویج ایجوکیشن اینڈ کوآپریشن (چین) کے ڈائریکٹر پروفیسر ڈاکٹر ماجیانفی (Professor Dr Ma Jianfei) کی نمائندگی کی۔

    پاکستان اور چین کے درمیان ایک اور بڑا معاہدہ طے پاگیا

    مفاہمتی یادداشت کے مطابق جامعہ کراچی کے طلبہ پہلے دو سال کی کلاسز جامعہ کراچی کے کنفیوشس انسٹی ٹیوٹ برائے چینی زبان جب کہ آخری دو سال کا تدریسی عمل سچوان نارمل یونی ورسٹی چین میں مکمل کریں گے، یہ پروگرام شروع کر کے جامعہ کراچی پاکستان کی پہلی جامعہ بن گئی ہے۔

    اس موقع پر جامعہ کراچی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر خالد محمود عراقی نے کہا کہ کنفیوشس انسٹی ٹیوٹ برائے چینی زبان کا بنیادی مقصد پاکستانی طلبہ کو چینی زبان اور ثقافت سے روشناس کرانا ہے، عصر حاضر میں چین ایک بڑی عالمی معیشت بن کر ابھرا ہے، سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں بھی نئے سنگ میل عبور کر رہا ہے اس ضمن میں چینی زبان اور کلچر سے آگاہی انتہائی ناگزیر ہے۔

    انھوں نے کہا اس ضمن میں طلبہ اور اساتذہ کے ایکس چینج پروگرامز اور ریجنل اسٹڈی پروگرامز بھی منعقد کیے جائیں گے، چین میں دوران تدریس سینٹر فار لینگویج ایجوکیشن اینڈ کوآپریشن طلبہ کو اسکالر شپ فراہم کرے گا جس میں ٹیوشن اور رہائش کے اخراجات شامل ہیں۔

    چینی ڈائریکٹر پروفیسر ژانگ شاؤپنگ (Zhang Xiaoping) نے کہا کہ جامعہ کراچی میں قائم کنفیوشش انسٹی ٹیوٹ ملک کا سب سے بڑا انسٹی ٹیوٹ بن چکا ہے جس میں 30 چینی اساتذہ، 2 مقامی اساتذہ اور جامعہ کراچی سمیت 6 ٹیچنگ سائٹز ہیں جس میں 7 ہزارسے زائد طلبہ انرولڈ ہیں۔

    دستخط تقریب میں رجسٹرار جامعہ کراچی پروفیسر ڈاکٹر سلیم شہزاد، کنفیوشس انسٹی ٹیوٹ برائے چینی زبان کے پاکستانی ڈائریکٹر پروفیسر ڈاکٹر ناصر الدین خان، ممبر سنڈیکیٹ جامعہ کراچی صاحب زادہ معظم قریشی، ناظم امتحانات ڈاکٹر سید ظفر حسین، ناظم مالیات طارق کلیم، مشیر امور طلبہ ڈاکٹر سید عاصم علی، فارن اسٹوڈنٹس ایڈوائزر ڈاکٹر شمائلہ شفقت اور چائنیز فیکلٹی ممبران اور دیگر بھی موجود تھے۔

  • وفاقی حکومت کے ملازمین کی تعداد کم کر کے اخراجات بچانے کا فیصلہ

    وفاقی حکومت کے ملازمین کی تعداد کم کر کے اخراجات بچانے کا فیصلہ

    اسلام آباد: وفاقی حکومت نے ایک سال سے خالی گریڈ 1 سے 16 تک تمام اسامیوں کو ختم کرنے کی ہدایت کردی، ملازمین کی زیادہ تعداد کی وجہ سے تنخواہوں اور اخراجات میں بے تحاشہ اضافہ ہوچکا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی اداروں میں ایک سال سے زائد عرصے سے خالی آسامیاں ختم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، وزارت خزانہ کے جاری کردہ میمورنڈم میں کہا گیا ہے کہ اسکیل 1 سے 16 تک خالی آسامیوں پربھرتی نہیں ہوگی۔

    خزانہ ڈویژن کا کہنا ہے کہ حتمی منظوری وفاقی کابینہ سے لی جائے گی، مذکورہ فیصلہ تنظیم نو سے متعلق کابینہ کمیٹی کے اجلاس میں کیا گیا تھا۔ فیصلے کا اطلاق تمام وزارتوں، ڈویژنز اور ایگزیکٹیو دفاتر پر ہوگا۔

    خزانہ ڈویژن کے مطابق گزشتہ ایک دہائی سے وفاقی حکومت کے ملازمین کی تعداد مسلسل بڑھتی رہی اور اس کی وجہ سے سالانہ تنخواہوں کا بل بھی 3 گنا بڑھ گیا۔ پنشن کی ادائیگی کے اخراجات پورے کرنا بھی مشکل ہو رہا ہے۔

    ڈویژن کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت کے 95 فیصد ملازمین گریڈ 1 سے 16 تک کے ہیں، تنخواہوں کا 85 فیصد بل ان ملازمین پر خرچ ہوتا ہے۔

    خزانہ ڈویژن کا مزید کہنا ہے کہ وزیر اعظم غیر ضروری اخراجات میں کمی کے خواہاں ہیں، ورلڈ بینک بھی سرکاری اداروں میں رائٹ سائزنگ پر زور دے چکا ہے۔

    اس ضمن میں اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو ضروری کارروائی کے لیے ہدایات جاری کردی گئی ہیں۔

  • کورونا کیسز میں اضافہ، ماہرین صحت کا مکمل لاک ڈاؤن کا مطالبہ

    کورونا کیسز میں اضافہ، ماہرین صحت کا مکمل لاک ڈاؤن کا مطالبہ

    کراچی : پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کامکمل لاک ڈاؤن کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ مویشی منڈی لگانے پر مکمل پابندی لگائی جائے ، سوشل میڈیا پر لوگوں سے کہا جارہا ہےاسپتال نہ جائیں، ڈاکٹرز انجکشن لگاکر کورونا کا شکار کردیں گے۔

    پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر قیصرسجاد نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا 22 جنوری کو پی ایم اے نے ہیلتھ الرٹ جاری کیا تھا ، اس حساب سے تیاری نہییں کی گئی ، رمضان میں تمام چیزیں کھول دی گئیں،عید پر سب گلے ملے، احتیاطی تدابیر نہ اپنانے کانتیجہ آپ کےسامنےہے۔

    ڈاکٹر قیصر سجاد کا کہنا تھا کہ لوگ ایس اوپیزپرعمل درآمد نہیں کررہےہیں اور ڈاکٹرزکی بات نہیں مان رہےہیں ، کورونا کے کیسزمیں دن بدن اضافہ ہوتا جارہا ہے، اعدادوشمار کے مطابق کوروناکے2لاکھ15ہزارکےقریب کیسزہوچکے ہیں۔

    پی ایم اے سیکریٹری جنرل نے کہا کہ ہمارےپاس یونیفام پالیسی نہیں ہے، گزشتہ دنوں سے شہرمیں خود کی صورتحال پیداہوگئی ، لوگوں نےگھروں میں ہی اسپتال بناناشروع کردیا تھا۔

    انھوں نے ڈاکٹروں سے گزارش کی کہ برانڈکانام نہ لیں ، ڈاکٹرزبرانڈکانام بتادیتےہیں پھروہ ادویات غائب ہوجاتی ہیں، جس کو موقع لگتاہےمتعلقہ ادوایات غائب کرکے ملک کولوٹتا ہے۔

    ڈاکٹر قیصر سجاد نے کہا کہ لوگ خوف سے اپنا ٹیسٹ نہیں کراتے، ہم اب کورونا پازیٹو کاطبی علامات کی بنیاد پر فیصلہ کررہے ہیں ، ٹیسٹنگ کااسمارٹ لاک ڈاؤن سےکوئی تعلق نہیں، کوروناسےاتنی زیادہ اموات ہورہی ہیں کہ لوگ ڈر گئے ہیں، کچھ لوگ میری بات کوکنفرم کرنے کیلئے ٹیسٹ کراتے ہیں لیکن اب زیادہ تر لوگ ٹیسٹ نہیں کروارہے۔

    پی ایم اے سیکریٹری جنرل کا کہنا تھا کہ کراچی،لاہور،اسلام آبادسے پتہ چلا صرف گلیوں کوٹینٹ لگا کر بند کیا گیا، ٹینٹ کے اندرساری چیزیں ویسےہی چل رہی ہوتی ہیں جیسےعام زندگی، اسمارٹ لاک ڈاؤن کا خاطر خواہ فائدہ حاصل نہیں ہورہا۔

    انھوں نے کہا کہ سب سے بڑا مسئلہ ڈاکٹرز اور اسپتالوں پردباؤ کا بڑھنا ہے، 3ہزارسےزائدڈاکٹرز،پیرامیڈیکس اسٹاف آئسولیشن میں ہیں، سوشل میڈیا پر کورونا پر طرح طرح کی باتیں پھیلائی جارہی ہیں، لوگوں سے کہا جارہا ہےاسپتال نہ جائیں، تاثردیاجارہاہےکہ ڈاکٹرزانجکشن لگاکرکوروناکاشکارکردیں گے۔

    ڈاکٹر قیصر سجاد کا کہنا تھا کہ یہ سب سسٹم میں خرابی کےباعث ہورہاہے، سیاستدان جودواپریس کانفرنس میں بتاتےہیں وہ لوگ ذخیرہ کر لیتے ہیں ، اسمارٹ لاک ڈاؤن کانتیجہ 15دن بعد سا منے آتا ہے۔

    پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کامکمل لاک ڈاؤن کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کورونا سے عوام کو محفوظ رکھنے کیلئےمکمل لاک ڈاؤن کیا جائے ، ادویات اور سامان کی کمی کو پورا کیا جائے اور نجی اور سرکاری اسپتالوں فری علاج کیا جائے، نجی اسپتالوں کو ادائیگی حکومت کرائے۔

    ڈاکٹر قیصر سجاد نے مزید کہا کہ مویشی منڈی لگانے پر مکمل پابندی لگائی جائے، منڈی لگانے پر پابندی نہ لگائی توکیسزمیں خطرناک اضافہ ہوگا، مویشی منڈیاں لگانی ہیں تو شہرسےباہرلگائیں، شہرکےاندرمویشی منڈیاں لگانےپرپابندی ہونی چاہئے، مویشی منڈیوں سےکانگووائرس پھیلنےکاخطرہ بھی ہے، پاکستان میں سب کی باتیں سنی اورمانی گئیں مگرڈبلیو ایچ اوکی نہیں۔

  • وہ کیسے تھے؟ منور حسن کی زندگی پر ایک نظر

    وہ کیسے تھے؟ منور حسن کی زندگی پر ایک نظر

    دنیا بھر میں تحریک اسلامی سے تعلق رکھنے والے لاکھوں احباب کے لیے یہ خبر بڑے افسوس کے ساتھ سنی اور پڑھی گئی کہ سابق امیر جماعت اسلامی پاکستان اور سابق ناظم اعلی اسلامی جمیعت طلبہ پاکستان سید منور حسن آج جہان فانی سے رخصت ہو گئے۔

    وہ گزشتہ کئی برسوں سے پارکنسن کے مرض میں مبتلا تھے، ان کی طبیعت میں اتار چڑھاؤ کافی عرصے سے جاری تھا لیکن تین ہفتے قبل ان کو اچانک طبیعت بگڑنے پر مقامی اسپتال میں داخل کیا گیا تھا اور ایک ہفتے سے وہ انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں زیر علاج تھے، چند دن قبل ڈاکٹروں نے ان کی سانس کی تکلیف کی وجہ سے انھیں وینٹی لیٹر پر منتقل کر دیا تھا۔

    ڈاکٹر پروفیسر سلیم اللہ خان کی سربراہی میں چار ڈاکٹروں آغا خان کے ڈاکٹر عبدالواسع شاکر، امام کلینک کے ڈاکٹر اظہر چغتائی اور ڈاکٹر عبد اللہ المتقی کا بورڈ ان کا علاج کر رہا تھا، آج ان کی طبیعت اچانک بگڑ گئی، ڈاکٹروں نے بر وقت ہر ممکن طبی علاج کیا لیکن وہ اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ سید منور حسن کے انتقال سے پاکستان ایک سچے محب وطن، اسلام کے مخلص داعی ، جابر حکمرانوں کے سامنے ڈنکے کی چوٹ پر کلمہ حق کہنے والے نڈر مجاہد اور ملک میں اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے زندگی بھر جدوجہد کرنے والے ایک بڑے بے لوث رہنما سے محروم ہو گیا۔

    سابق امیر جماعت اسلامی سید منور حسن خالق حقیقی سے جاملے

    انھوں نے اپنے پس ماندگان میں بیوہ محترمہ عائشہ منور سابق رکن قومی اسمبلی و سیکریٹری جنرل جماعت اسلامی خواتین، بیٹے طلحہ منور، 2 بھائیوں، سید شفیق حسن سابق جنرل منیجر ٹیکسٹائلز، سابق ڈائریکٹر جنرل پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن سید ارشاد حسن اور دنیا بھر میں پھیلے ہوئے تحریک اسلامی کے لاکھوں شیدائیوں کو سوگوار چھوڑا ہے۔ ان کے سب سے بڑے بھائی سید مجتبیٰ حسن سابق چیف انجیئر پی ڈبلیو ڈی اور ایک بہن کا پہلے ہی انتقال ہو چکا ہے۔

    منور حسن کی عمر 79 برس تھی، وہ 2008 سے 2013 تک امیر جماعت اسلامی پاکستان، 1993 سے 2008 تک سیکریٹری جنرل، 1992-93 تک اسسٹنٹ سیکریٹری جنرل، اور 1989 سے 1991 تک امیر جماعت اسلامی کراچی اور 12 سال تک اس کے سیکریٹری جنرل رہے۔ جب کہ 1966 سے 1968 تک اسلامی جمیعت طلبہ کے ناظم اعلیٰ رہے۔ وہ اپنے وقت کے مقبول طالب علم لیڈر تھے۔ سید منور حسن نے پوری زندگی اسلامی نظام حیات کے نفاذ کی جدوجہد میں گزاری۔ وہ جماعت اسلامی میں درویشوں کے اس قافلے میں شامل تھے جنھوں نے اسلام کو سوچ سمجھ کر از سر نو قبول کیا اور اپنی پوری زندگی اس کی اشاعت و تبلیغ کے لیے وقف کی، انھوں نے اعلیٰ تعلیم، وسائل اور مواقع رکھنے کے باوجود امیرانہ بود و باش چھوڑ کر فقیرانہ طرز زندگی کو اختیار کیا۔

    5 اگست 1941 کو پیدا ہونے والے سید منور حسن کا تعلق دہلی کے ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ، متمول اور دینی اقدار کے حامل خاندان سے تھا جس نے پاکستان کے قیام کے بعد کراچی میں سکونت اختیار کی، اپنے بہن بھائیوں میں وہ سب سے چھوٹے تھے، ان کے اندر بچپن ہی سے قائدانہ صلاحیتیں موجود تھیں، تقریری مباحثوں میں حصہ لینا ان کا شوق اور مشغلہ تھا۔ گورنمنٹ کالج ناظم آباد میں اس وقت کی بائیں بازو کی طلبہ تنظیم این ایس ایف میں شامل ہوئے اور جلد اس کی کراچی شاخ کے صدر بن گئے۔ اسی دوران ان کا رابطہ اسلامی جمیعت طلبہ کے بعض مخلص کارکنوں سے ہوا، جنھوں نے ان کو جمیعت میں شامل ہونے کی دعوت دی اور مولانا مودودی کا لٹریچر پڑھنے کو دیا۔

    خاندانی دینی پس منظر کی وجہ سے انھوں نے اس لٹریچر کا مطالعہ شروع کیا تو ان کی دنیا ہی بدل گئی اور وہ یکا یک بائیں بازو سے دائیں بازو کے لیڈر بن گئے، اسلامی جمیعت طلبہ میں ایسے شامل ہوئے کہ پھر مڑ کر کبھی پیچھے نہیں دیکھا۔ پروفیسر خورشید احمد، ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری، خرم جاہ مراد، اور محبوب علی شیخ نے اس جوہر قابل کو فوری طور پر اپنی تربیت میں لے لیا اور اسے جمیعت کا بہترین نظریاتی رہنما بنا دیا۔

    1963 میں وہ کراچی یونی ورسٹی اور 1964 میں کراچی کے ناظم منتخب ہوئے، اسی برس ہی میں کراچی یونی ورسٹی سے انھوں نے سوشیالوجی میں اور 1966 میں اسلامک اسٹڈیز میں ماسٹر کیا۔ 1966 میں ناظم اعلیٰ بنے اور 1968 تک اس پر فائز رہے۔ تعلیم اور جمیعت سے فارغ ہوتے ہی وہ جماعت اسلامی میں شامل ہو گئے اور جلد ہی انھیں پہلے نائب قیم، پھر قیم اور 1989 میں کراچی جماعت کا امیر مقرر کیا گیا۔ قبل ازیں وہ اسلامی ریسرچ اکیڈیمی کے ریسرچ فیلو ، سیکریٹری، ڈائریکٹر اور انگریزی جریدے Criterion کے ایڈیٹر بھی رہے۔

    ملکی سیاست میں اچھی سوجھ بوجھ رکھنے کی وجہ سے ان کا شمار جماعت اسلامی کے ان رہنماؤں میں رہا ہے جن کا رابطہ حکمراں اور دوسری اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ رہتا تھا، مارچ 1977 کے عام انتخابات میں انھوں نے کراچی سے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑا اور پاکستان بھر میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل کیے لیکن پیپلز پارٹی کی حکومت کے خلاف قومی اتحاد کی ملک گیر تحریک اور مارشل لا لگنے کی وجہ سے یہ انتخابات ہی کالعدم ہو گئے اور اسمبلی کام نہ کر سکی، ان کے مقابلے میں پیپلز پارٹی کے امیدوار ممتاز دانشور جمیل الدین عالی تھے۔

    انھوں نے 2013 کے عام انتخابات میں جماعت اسلامی کی شکست کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے جماعت کی سربراہی سے مستعفی ہونے کی پیش کش کی لیکن مرکزی مجلس شوریٰ نے ان کی یہ پیش کش مسترد کی، تاہم اسی سال امارت کے انتخابات میں ارکان جماعت نے سراج الحق کو امیر جماعت منتخب کر لیا جو اس وقت صوبہ سرحد (موجودہ خیبر پختون خواہ ) کے امیر تھے اور اسلامی جمیعت طلبہ کے سابق ناظم اعلیٰ رہ چکے تھے۔

    سید منور حسن اپنے تقویٰ، زندگی کے رویوں اور معاملات میں قرون اولیٰ کے مسلمانوں کی یاد گار تھے جن کی زندگی کا ایک ایک لمحہ دین کی سربلندی کی جدوجہد میں گزرا اور جن کا ایک ایک عمل قرآن و سنت کی تعلیمات کا عکاس اور مظہر تھا۔

  • ماہرین صحت نے لوڈ شیڈنگ کو کرونا کے پھیلاؤ کی نئی وجہ قرار دے دیا

    ماہرین صحت نے لوڈ شیڈنگ کو کرونا کے پھیلاؤ کی نئی وجہ قرار دے دیا

    کراچی: ماہرین صحت نے لوڈ شیڈنگ کو کرونا کے پھیلاؤ کی نئی وجہ قرار دے دیا ہے، حکومت سے ماہرین صحت نے لوڈ شیڈنگ فوری ختم کرنے کا مطالبہ کر دیا۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق کراچی میں بدترین غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ کا سلسلہ برقرار ہے، جس سے گھروں میں کرونا وائرس کے آئسولیٹ مریض شدید مشکلات کا شکار ہو گئے ہیں۔

    شدید حبس اور گرمی کے باعث گھروں میں قرنطینہ کرنے والے افراد گھروں سے نکلنے پر مجبور ہو گئے، جس سے وائرس کے مزید پھیلاؤ کا خدشہ بڑھ گیا ہے، ماہرین صحت نے اس صورت حال کے پیش نظر حکومت سے لوڈ شیڈنگ فوری ختم کرنے کی اپیل کر دی ہے۔

    ماہر امراض قلب ڈاکٹر سلمان احمد غوری، قومی ادارہ امراض قلب

    ماہرین امراض قلب کا کہنا ہے کہ بدترین لوڈشیڈنگ کو کنٹرول نہ کیا گیا تو سماجی فاصلے کا اصول بے کار ہو جائے گا، اور کرونا کیسز میں اضافہ سامنے آئے گا، اس لیے حکومت لوڈ شیڈنگ کا فوری خاتمہ کرے۔

    واضح رہے کہ شہر میں لوڈ شیڈنگ کے باعث کرونا کے مریض بھی گھروں سے باہر فٹ پاتھوں اور گلیوں میں بیٹھنے پر مجبور ہو چکے ہیں، لوڈ شیڈنگ کے باعث گھر والوں سے بھی رابطے میں آتے ہیں۔

    گیس کی قلت کے نام پر لوڈ شیڈنگ، کے الیکٹرک کے دعوے کی حقیقت سامنے آگئی

    ماہر امراض قلب ڈاکٹر اعجاز احمد نے اے آر وائی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا شدید گرمی کے باعث ڈی ہائیڈریشن میں اضافہ ہوتا ہے، لوڈ شیڈنگ کے دوران بخار میں مبتلا مریض گھر رہے گا تو مشکلات بڑھ جائیں گی، کرونا کے مریض کو بخار کی وجہ سے گرم ماحول مشکلات پیدا کرتا ہے، اس صورت حال کو کنٹرول کرنا ہوگا۔

    ماہر امراض قلب ڈاکٹر اعجاز احمد

    ماہر امراض قلب ڈاکٹر سلمان احمد غوری نے کہا کہ لوڈ شیڈنگ سے کو وِڈ 19 کے مریضوں کے لیے صورت حال مزید خراب ہوگی، اس شدید گرمی لوگ بلبلا کر گھروں سے باہر نکلتے ہیں، کرونا کو روکنے میں حکومتی کوشش رائگاں جائے گی، چھوٹے گھروں میں لوڈ شیڈنگ کے باعث سماجی رابطے کے اصول پر عمل بھی مشکل ہو جاتا ہے۔

    انھوں نے کہا کہ بجلی کی عدم موجودگی میں بے شمار کرونا مریض بھی گھروں سے نکل جاتے ہیں، اس لیے اس کے خاتمے کے لیے فوری پالیسی بنائی جائے، کرونا وائرس کو روکنے کی کوششیں لوڈ شیڈنگ کے باعث ناکام ہو سکتی ہیں۔

  • کراچی میں کون کون سے علاقے کورونا ہاٹ اسپاٹ میں شامل ؟ تفصیلات جاری

    کراچی میں کون کون سے علاقے کورونا ہاٹ اسپاٹ میں شامل ؟ تفصیلات جاری

    کراچی : شہر قائد میں کورونا ہاٹ اسپاٹ کی تفصیلات سامنے آگئیں، جن میں کورنگی ٹاون، شاہ فیصل ٹاون، لانڈھی ٹاون، اورنگی ٹاون، کیماڑی ٹاون سمیت دیگر علاقے شامل ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق محکمہ صحت سندھ نے کراچی میں کورونا ہاٹ اسپاٹ کی تفصیلات جاری کردیں اور کہا کورنگی ٹاون کی دس یونین کونسل ہاٹ اسپاٹ میں آتی ہیں ، جن میں بلال کالونی ، ناصرکالونی، چکرا گوٹھ ، مصطفی تاج کالونی ، سو کوارٹر، گلزار کالونی، کورنگی اسکیم 33، زمان ٹاون، حسرت موہانی کالونی، شامل ہیں۔

    محکمہ صحت کا کہنا ہے کہ بھٹائی کالونی مین کورنگی کی ہاٹ اسپاٹ میں شامل ہے، کورنگی ٹاون میں بارہ سو 22 افراد کورونا سے متاثراور 29 ہلاک ہوئے۔

    رپورٹ کے مطابق شاہ فیصل ٹاون میں ناتھا خان، سادات کالونی، ڈرک کالونی ، ریتا پلاٹ، موریا خان، رفاہ عام سوسائٹی ، الفلاح، کینٹ یوسی نو اور یوسی 8 بھی ہاٹ اسپاٹ میں شامل ہیں ، شاہ فیصل ٹاون میں کورونا سے 24 افرادہلاک اور583 افراد متاثر ہوئے۔

    محکمہ صحت سندھ کا کہنا ہے کہ کراچی میں لانڈھی ٹاون بھٹونگر، اجمیرکالونی، لانڈھی اٹھ ، عوامی کالونی ، برنی کالونی، شیر آباد، کورنگی الیون بھی لانڈھی ٹآون کے ہاٹ اسپاٹ میں شامل ہیں، لانڈھی ٹاون میں 15 افراد ہلاک اور 339 افراد کورنا سے متاثر ہوئے۔

    محکمہ صحت نے کورنگی ڈسٹرکٹ میں شامل ملیر کے علاقوں ماڈل کالونی، کالا بورڈ، سعود آباد اورکھوکھرا پاربھی ملیر کے ہاٹ اسپاٹ میں شامل کیا گیا ہے، ملیر کے ان علاقوں میں چھ افراد ہلاک اور 380افراد کورونا سے متاثر ہوئے۔

    کراچی کے ڈسٹرکٹ ویسٹ سائٹ ٹاون میں پاک کالونی، پرانا گولیمار،جہان آباد ، میٹرول ، باوانی چالی، فرنٹ کالونی، بنارس ، قصبہ کالونی اور اسلامیہ کالونی بھی ہاٹ اسپاٹ ایریاز میں شامل ہیں ، ڈسٹرکٹ ویسٹ سائٹ ٹاون میں 19 افراد ہلاک اور299 افراد کورونا سے متاثر ہیں۔

    اسی طرح اورنگی ٹاون میں مومن آباد، ہریانہ ،حنیف آباد، محمد نگر، مدینہ کالونی، غازی آباد، چشتی نگر، بلال کالونی، اسلام چوک ، گبول کالونی، داتا نگر اور مجاہد نگر بھی ہاٹ اسپاٹ کی فہرست میں شامل ہیں ، اورنگی ٹاون میں کورونا سے 20افراد ہلاک اور 201 افراد متاثر ہوئے۔

    کیماڑی ٹاون میں بھٹہ ولیج ، سلطان آباد،کیماڑی،بابا بھٹ شاہ ، مچھر کالونی، ماڑی پور، شیر شاہ ، کابو پٹ کو بھی ہاٹ اسپاٹ میں شامل کیا گیا ،کیماڑی ٹاون میں گیارہ افراد ہلاک اور 148 افراد کورونا سے متاثر ہوئے۔

    بلدیہ ٹاون میں گلشن غازی،اتحاد ٹاون، اسلام نگر، نئی آبادی، سعید آباد ، مسلم مجاہد کالونی، مہاجر کیمپ اور رشیدہ آباد بھی ہاٹ اسپاٹ میں شامل ہیں ، کیانکہ بلدیہ ٹاون میں 14 افراد ہلاک اور 286 افراد کورونا سے متاثر ہوئے۔

    گڈاپ ڈسٹرکٹ ویسٹ کے متاثرہ علاقوں میں سونگل، معمار آباد، یوسف گوٹھ اور منگھوپیر شامل ہیں، گڈاپ ڈسٹرکٹ ویسٹ میں سات افراد ہلاک اور 87 افراد متاثر ہوئے جبکہ ڈسٹرکٹ ایسٹ کے یوسی ون دہلی مرکنٹائی سوسائٹی، یوسی ٹو سوک سینٹر ، یوسی تھری کی پیر پی ائی بی کالونی، یوسی فورعیسی نگری، یوسی فائیو گلشن اقبال بھی ہاٹ اسپاٹ میں شامل ہیں۔

    یوسی چھ گیلانی ریلوے اسٹیشن، یوسی ویسن ڈالمیا ، یوسی اٹھ جمالی کالونی ، یوسی نو گلشن اقبال، یوسی دس پہلوان گوٹھ ، یوسی گیارہ میٹروول کالونی، یوسی بارہ گلزار ہجری، یوسی تیرہ صفورہ گوٹھ ، اور یوسی چودہ فیصل کینٹ بھی کورونا سے متاثرہ علاقوں میں شامل ہیں، گلشن ٹاون میں 97 افراد ہلاک اور 3101 افراد کورونا سے متاثر ہیں۔

    ڈسٹرکٹ ایسٹ میں جمشید ٹاون کے ہاٹ اسپارٹ میں یوسی 1 اختر کالونی،یوسی 2 منظور کالونئ،یوسی 3 عاظم بستی ، یوسی 4 چنیسر گوٹھ اور یوسی 5 محمود آباد ، یوسی 6 پی ای سی ایس ایچ1،یوسی 7 پی ای سی ایس ایچ 2 ، یوسی 8 جٹ لائن ،یوسی 9 جیکب لائن ،یوسی 10 کواٹرز ،یوسی 11 گارڈن ایسٹ اور پاکستان کواٹرز شامل ہیں ، جمشید ٹاون میں کورونا سے 50 ہلاکتیں اور 1196 افراد کورونا سے متاثر ہیں۔

    ڈسٹرکٹ ساوتھ کے ہاٹ اسپارٹ میں لیاری ٹاون کے علاقے آگرا تاج،دریا آباد،نیا آباد،کھڈا سوسائٹی، بغدادی ،شاہ بیگ لاین،بہار کالونی ،رنگی وارا،سنگو لین،چاکی واڑا اور علامہ کالونی کے علاقے شامل ہیں ، لیاری ٹاون میں اب تک 36 ہلاکتیں اور 993 افراد کورونا سے متاثر ہوئے۔

    ڈسٹرکٹ ملیر بن قاسم ٹاون میں ابراہیم حیدری، ریڑھی گوٹھ، بھنس کالونی، قائد آباد، لانڈھی پانچ، گلشن حدیدچھ نمبر اور گھگھر پھاٹک یوسی سیون بھی ہاٹ اسپاٹ میں شامل ہیں، بن قاسم ٹاون کے ان علاقوں میں نو افراد ہلاک اور 130 افراد کورونا سے متاثر ہوئے۔

    ملیر ٹاون میں جعفر طیار، غریب آباد، غازی بروہی گوٹھ، ملیر کینٹ یوسی اٹھ بھی ہاٹ اسپاٹ میں شامل ہیں، ملیر ٹان میں ایک شخص ہلاک، اور 57 افراد کورونا سے متاثر ہیں ، اسی طرح لانڈھی ٹاون میں مظفر اباد یوسی ون، مسلم آباد یوسی ٹو، داود چورنگی ، مومن آباد یوسی چار، شرافی گوٹھ بھی ہاٹ اسپاٹ میں شامل ہیں، لانڈھی ٹاون کے ان علاقوں میں 13 افراد ہلاک اور13افراد کورونا سے متاثر ہیں۔

    ضلع ملیر کے علاقے گڈاپ میں کورونا سے متاثر ہاٹ اسپاٹ میں مراد میمن گوٹھ ،درسانواور گڈاپ یوسی تھری شامل ہیں، ان علاقوں میں تین افراد ہلاک اور 31 افراد کورونا سے متاثر ہوئے۔

    ضلع وسطی گلبرک ٹاون میں شامل ہاٹ اسپاٹ میں گلبرک ٹاون، عزیز آباد، کریم آباد،عائشہ منزل ، انچولی ، نصیر آبادم یاسین آباد، واٹر پمپ اور شفیق مل کا علاقہ بھی شامل ہیں ، گلبرک ٹاون کے ان علاقوں میں 35افراد ہلاک ہوئے۔

  • مذکرات کامیاب، گرینڈ ہیلتھ الائنس کا او پی ڈیز کھولنے کا اعلان

    مذکرات کامیاب، گرینڈ ہیلتھ الائنس کا او پی ڈیز کھولنے کا اعلان

    کراچی: سندھ حکومت سے مذاکرات کامیاب ہونے کے بعد گرینڈ ہیلتھ الائنس نے اپنا احتجاج ختم کرنے کا اعلان کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق 14 دن کے احتجاج کے بعد گرینڈ ہیلتھ الائنس اپنے تمام مطالبات منوانے میں کامیاب ہوگئے، صوبائی وزرا سعید غنی اور ناصر حسین شاہ سے کامیاب مذاکرات کے بعد گرینڈ ہیلتھ الائنس نے اوپی ڈیز کھولنے کا اعلان کر دیا۔

    گرینڈ ہیلتھ الائنس کے ڈاکٹر محبوب کا کہنا ہے کہ سندھ بھر میں کل سے تمام سرکاری اسپتالوں میں او پی ڈیز کھول دی جائیں گی، تمام ہیلتھ ورکر کو مارچ2020 سے ہیلتھ رسک الاؤنس دیا جائے گا۔

    ڈاکٹر محبوب کا کہنا ہے کہ کورونا سے متاثرہ عملے کے لئے الگ آئسولیشن وارڈ قائم کیا جائے گا،اسپتالوں کی سیکورٹی پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا جو بھی پرتشدد کارروائیوں میں ملوث ہوگا ان کے خلاف کارروائی ہو گی۔

    انہوں نے کہا کہ میڈیکل عملے کے گریڈ 11 سے 12 میں ترقی اور ڈاکٹرز کی گریڈ 17 سے 18 میں فوری طور پر پروموشن دی جائے گی جب کہ اگلے دو ہفتوں میں فنانس ڈویژن سے گرینڈ ہیلتھ الائنس کے تمام مطالبات کے نوٹیفکیشن جاری ہوں گے۔

  • کراچی: اسپتالوں میں کرونا مریضوں کے لیے 15 وینٹی لیٹرز خالی رہ گئے

    کراچی: اسپتالوں میں کرونا مریضوں کے لیے 15 وینٹی لیٹرز خالی رہ گئے

    کراچی: شہر قائد کے سرکاری و نجی اسپتالوں میں کرونا وائرس کے مریضوں کے لیے صرف 15 وینٹی لیٹرز خالی رہ گئے ہیں۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق صوبائی محکمہ صحت سے حاصل کردہ اعداد و شمار میں کہا گیا ہے کہ شہید محترمہ بینظیر بھٹو ایکسیڈنٹ اینڈ ٹراما سینٹر میں کرونا وائرس کے مریضوں کے لیے مختص تمام 26 وینٹی لیٹرز اور جناح اسپتال کراچی میں تمام 24 وینٹی لیٹرز بھر گئے ہیں۔

    ایس آئی یو ٹی میں تمام 20، او ایم آئی اسپتال میں تمام 6، لیاقت نیشنل اسپتال میں تمام 14، پٹیل اسپتال میں تمام 7، التمش اسپتال میں تمام 7، انڈس اسپتال میں تمام 15، ڈاکٹر ضیاء الدین اسپتال کلفٹن میں تمام 4، ڈاکٹر ضیاء الدین اسپتال نارتھ ناظم آباد میں تمام 13 اور آغا خان یونی ورسٹی اسپتال میں تمام 17 وینٹی لیٹرز مریضوں سے بھر گئے ہیں۔

    کرونا مریضوں کے لیے کہاں کتنے وینٹی لیٹرز دستیاب ہیں؟

    اس وقت سول اسپتال کراچی میں کرونا وائرس کے مریضوں کے لیے مختص کیے گئے 12 میں سے 2 وینٹی لیٹرز، ڈاؤ یونی ورسٹی اسپتال اوجھا کیمپس میں مختص 13 میں سے 1 جب کہ لیاری جنرل اسپتال میں مختص 31 میں سے 12 وینٹی لیٹرز خالی ہیں۔

    اس کے علاوہ قومی ادارہ صحت برائے اطفال میں بھی 4 وینٹی لیٹر خالی ہیں لیکن وہ بچوں کے وینٹی لیٹر ہیں، بچوں کو اس مرض میں وینٹی لیٹر پر ڈالنے کی تاحال ضرورت نہیں پڑی، نہ ان پر بڑوں کو ڈالا جا سکتا ہے۔

    خیال رہے کہ ڈھائی کروڑ آبادی والے شہر میں صرف 15 وینٹی لیٹرز کا خالی رہ جانا تشویش ناک ہے جو تیزی سے بڑھتے ہوئے مریضوں کے پیش نظر بہت جلد بھر جائیں گے جس کے بعد اسپتالوں میں وینٹی لیٹرز کے حصول کے لیے افراتفری کی صورت حال سامنے آنے کا خدشہ ہے۔

    واضح رہے کہ کراچی میں سرکاری و نجی سطح پر کرونا وائرس کے مریضوں کے لیے 216 وینٹی لیٹرز مختص کیے گئے ہیں جن میں سے بچوں کے 4 وینٹی لیٹر ہٹا کر 212 وینٹی لیٹرز میں سے 197 وینٹی لیٹرز مریضوں سے بھر چکے ہیں جب کہ صرف 15 وینٹی لیٹرز خالی ہیں۔

  • ڈاکٹرز نے لاک ڈاؤن کا عندیہ دے دیا

    ڈاکٹرز نے لاک ڈاؤن کا عندیہ دے دیا

    کراچی: پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن نے ڈاکٹر پر فائرنگ کرنے والے اہلکار کو سخت سزا دینے کا مطالبہ کرتے ہوئے صوبائی حکومت کو بڑی دھمکی دے دی۔

    کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن (پی ایم اے) کے عہدیداران کا کہنا تھا کہ قومی ادارہ برائے امراضِ قلب (این آئی سی وی ڈی) کے ڈاکٹر پر فائرنگ کا واقعہ قابلِ مذمت ہے، ڈاکٹرزمشکل حالات کے باوجودفرائض انجام دیتے ہیں، فائرنگ کے واقعے کی اعلیٰ سطح پر تحقیقات کی جائے اور سی ٹی ڈی اہلکار کو سخت سزا دی جائے۔

    پی ایم اے عہدیداران نے ڈاکٹر کو سیکیورٹی فراہم کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ’کرونا مسئلے کے باوجود بھی مختلف اسپتالوں میں تعینات ڈاکٹرز کو تحفظ فراہم نہیں کیا جارہا، سندھ اسمبلی،سندھ سیکریٹریٹ میں میٹل ڈیٹیکٹر ہیں مگر اسپتالوں میں مشینیں نصب نہیں کی گئیں، اسی وجہ سے ایک شخص اسپتال میں اسلحہ لے کر آیا۔

    ڈاکٹرز کی تنظیم کے عہدیداران نے صوبائی حکومت سے مطالبہ کیا کہ واقعے میں ملوث عناصر کے خلاف فوری کارروائی کی جائے، اگر ڈاکٹرز کو سیکیورٹی فراہم نہ کی گئی تو ہم بھی اسپتالوں میں لاک ڈاؤن کردیں گے۔

    مزید پڑھیں: این آئی سی وی ڈی میں فائرنگ : سی ٹی ڈی اہلکار کیخلاف مقدمہ درج

    پی ایم اے کے عہدیداران نے بتایا کہ ’گزشتہ روز مریض کے ایک تیماردار نے غصے میں آکر ڈاکٹر پر فائرنگ کی اور دھمکی دی کہ وہ بہت بااثر شخص ہے،  اس قسم کےسانحات ہمیں دیوارکے ساتھ لگاسکتے ہیں اور ایسی صورتحال میں ہم کچھ اور سوچنےپر مجبور بھی ہوسکتے ہیں۔

    پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے عہدیداران کا کہنا تھا کہ اس سے قبل اسپتالوں میں شیشے توڑنے کے واقعات پیش آئے مگر اب ڈاکٹر پر اسپتال میں براہ راست فائرنگ کی گئی۔ ڈاکٹرز نے متنبہ کیا کہ حکومت نے اگر مستقبل میں ڈاکٹروں کو تحفظ دینے کے اقدامات نہ کیے اور کوئی واقعہ پیش آیا تو ہم او پی ڈیز بند کرسکتے ہیں، جس سے صرف غریب مریضوں کو نقصان ہوگا، ہم غریب مریضوں کانقصان نہیں چاہتے۔

    واضح رہے کہ قومی ادارہ برائے امراض قلب (این آئی سی وی ڈی) میں گزشتہ روز ہونے والی فائرنگ سے ڈیوٹی ڈاکٹر زخمی ہوگیا تھا جب کہ ملزم موقع سے فرار ہوگیا تھا لیکن سی ٹی ڈی افسران نے فوری کارروائی کرتے ہوئے ملزم گرفتار کرکے پولیس کے حوالے کردیا۔ اسپتال میں فائرنگ کرنے والا ملزم سی ٹی ڈی کا اہلکار کانسٹیبل کامران ہے۔

    اس حوالے سے سی ٹی ڈی کے انچارج راجہ عمر خطاب کا کہنا تھا کہ فائرنگ کرنے والا سی ٹی ڈی سول لائنز میں تعینات ہے۔ انہوں نے بتایا کہ فائرنگ کرنے والے اہلکار کی طبیعت گزشتہ کئی دنوں سے خراب تھی۔

    راجہ عمر خطاب کے مطابق ملزم ایک دن قبل بھی این آئی سی وی ڈی گیا تھا جہاں ماسک نہ پہننے پر گارڈ سے اس کی تلخ کلامی ہوئی تھی۔ دوسری جانب اسپتال کے ذمہ دار ذرائع کا کہنا ہے کہ فائرنگ کرنے والا ملزم گزشتہ روز مریض بن کر آیا تھا اور نیند کی گولیاں مانگ رہا تھا۔

  • پاکستان میں کرونا وائرس کیسز 13 تا 16 اگست عروج پر پہنچ سکتے ہیں: ماہرین

    پاکستان میں کرونا وائرس کیسز 13 تا 16 اگست عروج پر پہنچ سکتے ہیں: ماہرین

    کراچی: ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے وائس چانسلر پروفیسر محمد سعید قریشی کا کہنا ہے کہ ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ کرونا وائرس 80 ہزار پاکستانیوں کی جانیں نگل سکتا ہے، پاکستان میں کرونا وائرس کی پیک 13 تا 16 اگست ہوسکتی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق اسلامک میڈیکل لرنرز ایسوسی ایشن کے زیرِ اہتمام کرونا وائرس کی موجودہ صورتحال اور ہماری ذمہ داری کے عنوان سے آن لائن سیشن منعقد ہوا، سیشن سے ممتاز علمائے کرام مفتی منیب الرحمٰن اور مفتی محمد تقی عثمانی نے بھی خطاب کیا۔

    سیشن سے ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے وائس چانسلر پروفیسر محمد سعید قریشی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بین الاقوامی ماہرین نے پاکستان میں کرونا وائرس کی پیک 13 تا 16 اگست کو قرار دیتے ہوئے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ یہ وبا اس عرصے کے دوران 80 ہزار پاکستانیوں کی جانیں نگل سکتی ہے، ہم اس تباہ کن وبا کے نقصانات کو روک نہیں سکتے۔

    انہوں نے کہا کہ احتیاطی تدابیر پر سختی سے عمل کر کے یہ نقصانات کم کیے جاسکتے ہیں، ویت نام کے عوام نے فروری کے اوائل میں ماسک لگانا شروع کیے تھے جس کی وجہ سے وائرس نے صرف 7 سے 8 سو افراد کو متاثر کیا۔

    پروفیسر محمد سعید قریشی کا کہنا تھا کہ ایک رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں وائرس 40 فیصد آبادی کو متاثر کرچکا ہے۔ ملک کی مجموعی صورتحال بہتر ہونے کے بجائے بگڑتی جارہی ہے۔

    انہوں نے کہا کہ ڈاکٹرز اور طبی عملے کو زیادہ محتاط ہونا پڑے گا، کرونا وارڈ میں فرائض انجام دیتے ہوئے کسی وقفے کے بغیر حفاظتی لباس اور ماسک نہیں اتارنا اور ڈیوٹی کے بعد گھر میں بھی حفاظتی اقدامات کرنے ضروری ہیں۔

    مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے چیئرمین مفتی منیب الرحمٰن نے کہا کہ ہماری مساجد میں ایس او پیز اختیار کی گئیں، انہیں ایس او پیز کی بنیاد پر مسجد نبوی اور عالم اسلام کی دیگر مساجد کو کھولا گیا اور عملدر آمد کروایا جا رہا ہے۔

    مفتی تقی عثمانی کا کہنا تھا کہ احتیاطی تدابیر میں سختی ضروری ہے، ان کی اہمیت سے انکار کرنا ممکن نہیں، کرونا وائرس ایک حقیقت ہے، یہ کوئی سازش نہیں۔ اب علما اور ڈاکٹرز کی ذمہ داری ہے کہ لوگوں کو اس حقیقت سے آگاہ کریں اور احتیاطی تدابیر کی طرف راغب کریں۔