Author: عارف حسین

  • شہاب حسن دہلوی: بہاولپور کا ایک دہلوی مؤرخ

    شہاب حسن دہلوی: بہاولپور کا ایک دہلوی مؤرخ

    اردو ادب میں شہاب دہلوی کو ایک شاعر، مؤرخ، محقق اور متعدد کتابوں کے مصنّف کے طور پر پہچانا جاتا ہے جو مشہور جریدے الزبیر کے مدیر تھے۔ شہاب دہلوی تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان کے مشہور شہر بہاولپور آبسے تھے اور اس شہر سے ان کی محبّت تادمِ آخر قائم رہی۔ اسی محبت نے شہاب دہلوی کو بہاولپور کی تاریخ اور تہذیب و ثقافت پر تحقیقی کام پر مجبور کیا اور انھوں نے متعدد کتابیں یادگار چھوڑیں۔

    شہاب دہلوی 29 اگست 1990 کو انتقال کرگئے تھے او آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔ ان کا اصل نام سید مسعود حسن رضوی تھا۔ ان کے خاندان کے بزرگ قیامِ پاکستان سے عشروں پہلے دہلی سے بہاولپور آئے تھے اور یہاں ریاستی عہدوں پر فائز رہے تھے۔ شہاب دہلوی 20 اکتوبر 1922 کو پیدا ہوئے۔ ان کی پیدائش دہلی کی تھی۔ ان کے والد اور تایا بھی نہ صرف شاعر اور ادیب تھے بلکہ علمی و ادبی سرگرمیوں کے ساتھ دہلی شہر میں اشاعتی ادارہ بنام مطبع رضوی قائم کر رکھا تھا۔ شہاب دہلوی نے آنکھ کھولی تو گھر میں کتابیں دیکھیں اور علمی و ادبی موضوعات پر گفتگو سنتے رہے۔ یوں ان میں بھی پڑھنے لکھنے کا شوق پیدا ہوا اور مطالعہ نے ان کے ذہن کو سیراب کیا۔ بڑے ہوئے تو عملی زندگی کا آغاز دہلی کے ایک ماہنامہ الہام کے اجرا سے کیا۔ بہاولپور آنے کے بعد شہاب دہلوی نے نہ صرف الہام کا دوبارہ اجرا کیا بلکہ یہاں کی سیاسی اور سماجی سرگرمیوں میں بھی وہ بڑھ چڑھ کر حصہ لینے لگے۔ یہ وہ شہر تھا جہاں ان کے بزرگوں کے نقشِ قدم موجود تھے۔ لوگ اس خاندان سے واقف تھے اور یوں شہاب دہلوی کو بہاولپور سے اپنی محبّت کا جواز مل گیا۔ انھوں نے شعر و ادب کے ساتھ اس علاقے کی تہذیب و ثقافت اور زبان و تاریخ کو محفوظ کرنے کا بیڑا اٹھایا۔ شہاب دہلوی نے تاریخی اور ثقافتی اعتبار سے بہاول پور اور اس خطّے پر نظر ڈالتے ہوئے یہاں کی دینی اور روحانی شخصیات کا خاص طور پر تذکرہ کیا ہے اور روحانی فضا کو اپنی کتابوں کا موضوع بنایا ہے۔ ان کتابوں میں مشاہیر بہاولپور، اولیائے بہاولپور، خواجہ غلام فرید: حیات و شاعری اور وادیٔ جمنا سے وادیٔ ہاکڑہ تک شامل ہیں۔ بطور محقّق شہاب دہلوی کا گراں قدر کام ان کو بہاولپور کی تاریخ و ثقافت کا مستند مؤرخ ثابت کرتا ہے۔

    شہاب حسن دہلوی کا کلام نقوش شہاب، گل و سنگ، اور موجِ نور کے نام سے شائع ہوا۔

  • فیراڈے: سائنس کی دنیا کا ناقابلِ فراموش نام

    فیراڈے: سائنس کی دنیا کا ناقابلِ فراموش نام

    آج مختلف شعبہ ہائے حیات میں ہماری تیز رفتار اور حیران کن ترقّی کے ساتھ ایجاد و صنّاعی کا یہ محیّر العقول سفر بالخصوص انیسویں صدی کے سائنس دانوں کے مرہونِ منت ہے اور یہ تاریخ کا ناقابلِ فراموش باب ہے۔

    اُس دور کے سائنسی تجربات نہ صرف انقلاب آفریں ثابت ہوئے بلکہ اسی زمانے کی مشینیں اور دوسری ایجادات آج جدید سانچے میں‌‌ ڈھل کر ہمارے لیے مفید اور کارآمد ثابت ہورہی ہیں۔ یہ تمہید عظیم سائنس داں مائیکل فیراڈے کا تذکرہ ہیں جس کے بارے میں کہا گیا:

    "جب ہم اس کی ایجادات اور سائنس اور صنعت پر ان کے اثرات دیکھتے ہیں تو کوئی اعزاز اتنا بڑا نظر نہیں آتا کہ فیراڈے کو دیا جاسکے، جو ہر زمانے کا عظیم ترین سائنس دان ہے۔”

    مائیکل فیراڈے انگلستان میں 22 ستمبر 1791ء کو پیدا ہوا۔ فیراڈے کا باپ لوہار تھا، والدین غریب تھے اس لیے وہ کسی اچھے اسکول میں نہیں پڑھ سکا اور واجبی تعلیم پائی۔ اس نے لکھنا پڑھنا اور کچھ حساب کتاب سیکھا، مگر ذہانت نے اس کی دل چسپی کے میدان میں لازوال شہرت اور جاودانی بخشی۔ اس نے زندگی کی 76 بہاریں دیکھیں۔ فیراڈے 25 اگست 1867ء کو کیمیا اور برقیات کے میدان کا انقلاب آفریں خزانہ چھوڑ کر دنیا سے چلا گیا۔

    فیراڈے کے ان سائنسی کارناموں نے زمین پر زندگی کو بدل کر رکھ دیا۔ اس کا اصل میدان کیمیا تھا جس میں اس نے برقناطیسی قوّت اور برقناطیسی کیمیا پر بہت کام کیا۔ مائیکل فیراڈے نے بہت سی اہم دریافتیں کیں جن میں اہم ترین دریافت بینزین ہے جو ایک کیمیائی مادّہ ہے۔کلورین گیس پر فیراڈے کی تحقیق نہایت اہمیت رکھتی ہے۔ تاہم اس سائنس دان کی وجہِ شہرت بجلی اور مقناطیسیت پر ان کے تجربات اور تحقیق ہے۔

    آج بجلی گھروں میں موجود بڑی بڑی مشینوں یعنی جنریٹروں سے جو بجلی حاصل کی جاتی ہے، وہ فیراڈے کے اصول کے مطابق ہی پیدا کی جاتی ہے۔ یہی بجلی دورِ جدید میں زندگی کو رواں دواں اور کاموں کو جاری و ساری رکھے ہوئے ہے۔

    مائیکل فیراڈے جب عمر کے چودھویں سال میں تھا تو ایک جلد ساز کے پاس کام سیکھنے بیٹھ گیا۔ یہاں اکثر لوگ سائنس کے موضوع پر اپنی کتب اور رسائل بھی جلد بندی کے لیے دے جاتے تھے۔ فیراڈے نے ان کا مطالعہ شروع کیا اور وہیں سے سائنسی تجربات کی جانب راغب ہوا۔ اس کا شوق اس قدر بڑھ گیا کہ وہ 1812ء میں لندن کے شاہی ادارے میں سائنسی لیکچر سننے کے لیے جانے لگا۔ ایک مرتبہ فیراڈے کی ملاقات مشہور سائنس دان سرہمفری ڈیوی سے ہوئی جنھوں نے اسے شاہی ادارے میں لیبارٹری اسسٹنٹ رکھ لیا اور فیراڈے سائنس داں بنا۔

    1823ء میں اس نے مایع کلورین گیس تیّار کرنے والے پہلے سائنس دان کے طور پر کام یابی سمیٹی اور اس کے اگلے برس بینزین دریافت کیا۔ فیراڈے کی ایک ایجاد وہ شیشہ بھی تھا جس میں سے حرارت نہیں گزر سکتی تھی۔

    1820ء میں ڈنمارک کے ایک سائنس دان نے ثابت کیا تھا کہ برقی رو سے مقناطیسی قوّت پیدا کی جاسکتی ہے۔ اس پر غور کرتے ہوئے فیراڈے کے ذہن میں یہ خیال آیا کہ بالکل اسی طرح مقناطیسی قوّت سے برقی رو بھی تو پیدا کی جا سکتی ہے اور اس نے اس پر تحقیقی کام شروع کر دیا۔ قبل ازیں فیراڈے نے بجلی اور مقناطیسیت کو استعمال کرکے بجلی سے حرکت پیدا کرنے کا طریقہ دریافت کیا۔ اسی طریقے پر 1830ء میں بجلی کی پہلی موٹر تیّار کر لی اور اگلے سال تجربات کے بعد یہ جانا کہ جب کسی مقناطیس کے قطبین کے درمیان کسی تار کو حرکت دی جائے تو برقی رو پیدا ہوتی ہے۔

    فیراڈے کی ان دریافتوں نے بڑے پیمانے پر برقی رو پیدا کرنے کا راستہ کھول دیا اور اسی بنیاد پر بجلی گھر میں بجلی پیدا کرنے والے بڑے بڑے جنریٹروں کی تیّاری اور تنصیب عمل میں لائی گئی۔ اس کے بعد فیراڈے ٹرانسفارمر بنانے میں لگ گئے۔ یہ وہی ٹرانسفارمر ہمارے گھر کے قریب کسی بجلی گھر کے ساتھ موجود ہوتا ہے۔ یہ بجلی کی تاروں میں موجود بہت زیادہ برقی توانائی کو گھروں کی ضرورت کے مطابق تبدیل کرکے گزرنے دیتا ہے۔

    برقی رو اور اس سے متعلق انقلاب برپا کردیننے والی مشینوں اور آلات کے ساتھ فیراڈے نے کیمیائی مادّوں پر بجلی کے اثرات کا بھی مطالعہ کیا۔

    1841ء میں فیراڈے پر فالج کا حملہ ہوا جس سے اس کے اعصاب بری طرح متاثر ہوئے۔ اس کی یادداشت خراب ہو گئی تھی۔ وہ اپنے پچھلے تجربات اور ان کے نتائج کو بھول جاتا تھا۔ تین سال تک وہ کوئی کام نہیں کر سکا اور اپنی بیوی کے ساتھ سوئٹزر لینڈ چلا گیا۔ طبیعت میں بہتر ہونے کے بعد وہ دوبارہ عملی زندگی میں مگن ہوگیا مگر یادداشت وقت کے ساتھ جواب دیتی گئی اور ایک روز مطالعہ و تحقیق کے دوران ہی چل بسا۔

    آج ہم برقی سائنس میں فیراڈے کی تحقیق و ایجاد کے طفیل ہی اپنے تمام کام سہولت اور بڑی آسانی سے انجام دے رہے ہیں۔ وہ بلاشبہ ایک مثالی شخصیت تھا جس کا تذکرہ رہتی دنیا تک کیا جاتا رہے گا۔

  • پی ٹی وی کے سینئر اداکار محمود صدیقی کی برسی

    پی ٹی وی کے سینئر اداکار محمود صدیقی کی برسی

    پاکستان ٹیلی وژن کے اداکاروں میں محمود صدیقی کو ان کے منفرد انداز اور دلنواز لب و لہجے کی بدولت پہچانا جاتا تھا۔ ان کا شمار سینئر اداکاروں میں ہوا۔ انھوں نے پی ٹی وی کے کئی ڈراموں میں یادگار کردار نبھائے۔

    محمود صدیقی 2000ء میں آج ہی کے روز وفات پاگئے تھے۔ ان کا تعلق سندھ کے مشہور شہر سکھر سے تھا۔ محمود صدیقی نے 1944ء میں ایک چھوٹے سے قصبے میں آنکھ کھولی۔ ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد انھوں‌ نے قانون کی مضمون میں ڈگری حاصل کی۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب سندھ سے تعلق رکھنے والے نام ور شاعر اور ادیب شیخ ایاز بھی وکالت کے پیشے سے وابستہ تھے۔ محمود صدیقی نے ان کے جونیئر کے طور پر وکالت کا آغاز کیا تھا۔ شیخ ایاز کی صحبت میں انھیں بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا محمود صدیقی شروع ہی سے انسانی حقوق کا شعور رکھتے تھے اور سیاسی و سماجی کاموں میں دل چسپی لیتے تھے۔
    انھوں نے ایک نظریاتی کارکن کے طور پر خود کو سیاسی پلیٹ فارم سے متحرک کرنے کا فیصلہ کیا تو سندھ پیپلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن ان کا انتخاب تھی۔ وہ اس سے وابستہ ہوگئے۔ اس زمانہ میں محمود صدیقی نے قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔

    محمود صدیقی نے مختصر عرصہ ریڈیو پاکستان میں بطور اناؤنسر بھی گزارا اور قلیل مدّت کے لیے روزنامہ ’’ہلالِ پاکستان‘‘ سے بھی وابستہ رہے۔ 1973ء میں محمود صدیقی نے پاکستان ٹیلی وژن کے ایک سندھی ڈرامہ بدمعاش سے اداکاری کا آغاز کیا۔ بعد کے برسوں‌ میں وہ زینت، گلن وار چوکری، تلاش اور رانی جی کہانی میں نظر آئے اور اپنے مخصوص انداز کی وجہ سے پی ٹی وی کے ناظرین میں خاصے مقبول ہوئے۔ تاہم ان کی وجہِ شہرت اردو زبان میں پی ٹی وی کا ڈرامہ ’’دیواریں‘‘ تھا۔ اس ڈرامہ نے محمود صدیقی کو ملک گیر شہرت دی اور پھر انھیں مزید ڈراموں میں کام کرنے کا موقع ملا اور یہ سبھی یادگار ثابت ہوئے۔ ان میں مشہور ڈرامہ جنگل، قربتوں کی تلاش، دنیا دیوانی اور کارواں شامل ہیں۔ محمود صدیقی کو ڈرامہ کارواں میں بہترین اداکاری پر پی ٹی وی ایوارڈ بھی دیا گیا۔

    محمود صدیقی نے پرائیویٹ سیکٹر کے لیے ایک سیریل نہلے پہ دہلا کے نام سے بنائی تھی جو بہت مقبول ہوئی تھی۔

    اداکار محمود صدیقی کراچی میں ڈالمیا روڈ پر ایک قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • معین احسن جذبی: کچھ یادیں، کچھ باتیں

    معین احسن جذبی: کچھ یادیں، کچھ باتیں

    معین احسن جذبی کا نام اردو ادب کے معتبر اور نمایاں شاعروں میں شامل ہے جن کی غزلوں کے متعدد اشعار کو ضرب المثل کا درجہ حاصل ہوا اور جذبی کو بہت سراہا گیا۔

    ادبی مضامین اور مشاہیر کی تحریریں پڑھنے کے لیے لنک کھولیں
    معین احسن جذبی 13 فروری 2005ء کو ہندوستان کے مشہور شہر علی گڑھ میں انتقال کر گئے تھے۔ بھارت سے تعلق رکھنے والے شاعر، نقاد اور فکشن رائٹر جو غضنفر کے نام سے پہچانے جاتے ہیں، انھوں نے معین احسن جذبی سے اپنی ایک ملاقات کا مختصر احوال اور ان کے فن و شخصیت پر ایک مضمون سپردِ قلم کیا تھا جس سے کچھ پارے ہم یہاں‌ نقل کر رہے ہیں۔ غضنفر لکھتے ہیں:

    کچھ نام ایسے بھی ہوتے ہیں جو دوسرے ناموں میں بھی جذب ہو جاتے ہیں اور اس طرح جذب ہوتے ہیں کہ دوسرے نام جب بھی لیے جاتے ہیں تو وہ بھی ان کے ساتھ خودبخود سامنے آجاتے ہیں۔ ایسا ہی ایک نام جذبی کا ہے، جو فیضؔ، جوشؔ، اور مجازؔ کے ناموں کے ہمراہ اپنے آپ ابھر آتا ہے، مگر جوش، فیض اور مجاز کے ساتھ جذبی کا نام یوں ہی نہیں ابھرتا بلکہ اس لیے اپنی صدا بلند کرتا ہے کہ میدانِ شعر و سخن میں جذبی نے بھی وہی جذب و مستی دکھائی ہے اور اسی جوش و خروش کا مظاہر ہ کیا ہے جس کا نظارہ جوش، فیض اور مجاز کے شعری کارناموں میں نظر آتا ہے۔

    یہ اور بات ہے کہ جذبی ان سے مختلف ہیں کہ جوش، فیض اور مجاز کی شہرت کے اسباب کچھ دوسرے بھی ہیں جب کہ جذبی صرف اور صرف اپنی شعری کاوشوں کے بل بوتے پر مشہور ہوئے۔ جذبی نے جوش کی طرح سر پر یادوں کا سہرا باندھ کر اپنی کوئی بارات نہیں نکالی۔ نہ ہی وہ فیض کی صورت دیگر سرگرمیوں میں سرگرم ہوئے اور زنجیر گھسیٹتے ہوئے پا بہ جولاں کوئے یار سے سوئے دار گئے۔ مجاز کی مانند مجنوں بن کر انھوں نے کسی لالہ رخ کے کاشانے کے چکّر بھی نہیں لگائے اور نہ ہی اپنی رودادِ سخنِ مختصر میں بلا نوشی کے قصّے جوڑے۔ وہ تو بس مثلِ ملنگ ایک گوشے میں پڑے رہے اور وہیں بیٹھے بیٹھے گدازِ شب میں اپنی شاعری کی شمع فروزاں کرتے رہے۔ خلوت میں پڑے پڑے شعری کشف کے ذریعے حیات و کائنات سے پردے اٹھاتے رہے اور یہ انکشافات کرتے رہے،

    دل کو ہونا تھا جستجو میں خراب
    پاس تھی ورنہ منزلِ مقصود

    تجھے آسماں ناز ہے ایک شفق پر
    زمیں پر تو ہیں کتنے خونیں نظارے

    یہ سوچتا ہوں کہ بدلا بھی ہے نظامِ الم
    یہ دیکھتا ہوں کہ موجِ نشاط بھی ہے کہیں

    اے موجِ بلا ان کو بھی ذرا دو چار تھپیڑے ہلکے سے
    کچھ لوگ ابھی تک ساحل سے طوفاں کا نظارہ کرتے ہیں

    اپنے ان محسوسات و انکشافات کی شمعِ فروزاں سے صدر جمہوریۂ ہند اندر کمار گجرال اور امریکہ کے سابق وزیرِ خارجہ میڈلین البرائٹ تک کے ذہن و دل کو روشن کرنے والے جذبی کی اپنی زیست کا چراغ بچپن سے لے کر پیری تک ہمیشہ آندھیوں کی زد پہ رہا۔ کبھی باپ کی بے رخی اور بے توجہی کے جھونکے اٹھے، کبھی بے مہری حالات کے جھکّڑ چلے، کبھی ناقدریوں اور بے اعتنائیوں کے گرد باد گردش میں آئے۔ کبھی ناانصافیوں اور زیادتیوں کے بگولے کھڑے ہوئے، ان سب کے زور اور شور سے چراغِ حیاتِ جذبی ٹمٹمایا تو بہت مگر جذبی نے اپنے وجود کی لو کو مدھم نہیں ہونے دیا۔ ایسا بھی نہیں کہ ان حملوں کو وہ چپ چاپ سہہ گئے۔ کسی قسم کا کوئی انتقام نہیں لیا۔ انھوں نے ایک ایک سے انتقام لیا البتہ ان کے انتقام کا طریقہ الگ تھا۔ بدلہ لینے کا انھوں نے نرالا انداز نکالا۔

    باپ کی بے رخی کا بدلہ لینے کے لیے انھوں نے اپنے بیٹے پر توجہ مرکوز کر دی اور ایسی توجہ مرکوز کی کہ بیٹے نے تعلیم سے لے کر ملازمت تک کے سارے مراحل ایک مرکز پر رہ کر طے کر لیے۔ ملازمت کے وہ تمام مدراج بھی جو تدریسی شعبوں میں حاصل کیے جاتے ہیں۔ جذبی نے اپنی طرح اپنے بیٹے کو یہاں وہاں اور ادھر اُدھر بھٹکنے نہیں دیا۔ گویا اپنی توجہ سے سہیل کو یمن کے بجائے علی گڑھ کے افق سے طلو ع کردیا۔

    اپنی ناقدریوں کا انتقام یوں لیا کہ صبر و تحمل کو ہتھیار بنالیا اور اسے ایسا صیقل کیا کہ غالب ایوارڈ، اقبال سمّان، کل ہند بہادر شاہ ظفر ایوارڈ وغیرہ جیسے انعامات خود بخود ان کی جھولی میں آگرے۔ اپنے اسی صبر و تحمل سے انصاف پسندوں کو اپنے ساتھ کیا اور ان کے ذریعے اپنے دشمنوں کو بنا کچھ بولے اور کچھ کیے ذلیل و خوار بھی کر دیا اور ان کے اسی تحمل کی بدولت ان کی تخلیقات مجموعوں سے نکل کر پرائمری سطح سے لے کر ایم۔ اے تک کے نصابات میں داخل ہوگئیں اور ان کے بعض اشعار ایک ایک صاحبِ ذوق کی روح کا حصہ بن گئے۔

    مجھے افسوس ہے کہ میں بہت قریب رہ کر بھی اس صوفی منش شاعرِ ملنگ اور مردِ آہن سے تقریباً دو ڈھائی سال کی مدّت میں ایک بار بھی نہ مل سکا۔ اور ملا بھی تو علی گڑھ سے باہر سیوان کے ایک مشاعرے میں۔ جذبی سے نہ ملنے کے دو اسباب تھے۔ ایک تو ان کے ادبی قد کا رعب جو عموماً قد شناس طالب علموں کے دل و دماغ پر طاری رہتا ہے اور دوسرے ان کی گوشہ نشینی اور اس گوشہ نشینی کے باعث یونی ورسٹی کیمپس کی فضاؤں میں پھیلی ہوئی ان کی بد دماغی کی افواہ۔ میں جذبی سے اس لیے بھی ملنا چاہتا تھا کہ انھیں کے ہم عصر شاعر فراقؔ گورکھپوری کا یہ شعر میری خواہش بن کر میرے ذہن میں گونجا کرتا تھا کہ،

    آنے والی نسلیں تم پر فخر کریں گی ہم عصرو
    جب یہ کہو گے ان سے تم کہ ہم نے فراق کو دیکھا تھا

    مگر میں جب بھی ان کے گھر جانے کا ارادہ کرتا تو کبھی ان کے ادبی قد کا جنّ آگے بڑھ کر میرا راستہ روک دیتا تھا تو کبھی ان کی بد دماغی کی افواہ کا دیو میری راہ میں آکھڑا ہوتا حالاں کہ جب میں ان سے ملا تو ان کے ارد گرد نہ کوئی جنّ تھا اور نہ کوئی دیو۔ وہاں تو ایک ایسا مخلص، ملنسار اور باغ و بہار انسان تھا جو طالب علموں کے ساتھ بھی برابری کا سلوک اور دوستانہ برتاؤ کر رہا تھا اور خردوں کی صحبت میں بھی پوری طرح کھل کر ہنسی مذاق کے گل کھلارہا تھا اور لطف و انبساط کے گوہر لٹا رہا تھا۔

    احمد جمال پاشا نے جب میرا تعارف کرایا تو جذبی صاحب اس درجہ خوش ہوئے جیسا کہ کوئی مشفق استاد یا شفیق باپ ہوتا ہے۔ مجھ سے ان کے خوش ہونے کی میرے خیال میں تین وجہیں رہی ہوں گی، پہلی وجہ یہ کہ میں اس شعبے کا طالب علم تھا جسے جذبی نے اپنا گھر سمجھا۔ دوسری یہ کہ میں اس زبان میں ریسرچ کررہا تھا جو انھیں اپنی جان کی طرح عزیز تھی اور تیسری شاید یہ کہ میرے اندر بھی وہ صلاحیت موجود تھی جس کی بدولت کوئی تخلیقی فن کار کسی کو اپنے قبیلے کا فرد سمجھنے لگتا ہے۔ ان میں قوی تر سبب یہ تھا کہ میں ان کے شعبے کا طالبِ علم تھا جو اس حقیقت کا غماز بھی تھا کہ اُن کو اپنے شعبے سے کس درجہ لگاؤ تھا، مگر افسوس کہ اس شعبے نے ان کے ساتھ دشمنوں جیسا سلوک کیا اور اس حد تک گزند پہنچائی کہ انھوں نے برسوں اس کی طرف رخ نہیں کیا۔ یہ شعبے کی کوئی نئی بات نہیں تھی، بلکہ یہ روایت پہلے سے چلی آرہی تھی اور بعد تک باقی رہی۔ اس روایت کی آگ میں رشید احمد صدیقی بھی جلے، آلِ احمد سرور بھی جھلسے اور کئی دوسرے بھی اس کی لپٹوں میں لپیٹ لیے گئے۔ اس شعبے کی ایک مثبت اور مضبوط روایت بھی رہی۔ وہ یہ کہ بہت دنوں تک اس میں تخلیقیت کا بول بالا رہا۔ رشید احمد صدیقی، مجنوں گورکھ پوری، آلِ احمد سرور، معین احسن جذبی، خورشید الاسلام، خلیل الرحمان اعظمی، راہی معصوم رضا، شہریار، قاضی عبدالستار ایک سے ایک مشہورِ زمانہ تخلیق کار اس سے وابستہ رہے اور اپنے فن پاروں سے اس کے نام میں چار چاند لگاتے رہے مگر دل کو گداز کرنے، ذہن کو بالیدہ بنانے اور روح کو گرمانے والی اس روایت کو کسی کی نظر لگ گئی۔ غیر تخلیقیت کے سحر نے اس کے ارد گرد ایسا حصار کھڑا کیا کہ تخلیقیت کا داخلہ بند ہوگیا۔ تخلیقیت کے اکّے دکّے نمائندے کسی طرح داخل ہونے میں کام یاب ہوئے بھی تو وہ ہمیشہ غیر تخلیقی بلاؤں کی زد پہ رہے۔

    سیوان کی اس ملاقات میں گوشہ نشینی اختیار کرنے اور مسلسل چپّی سادھ لینے والے جذبی نے ایسی جلوت پسندی اور محفل بازی کا ثبوت دیا کہ ہم دنگ رہ گئے۔ دورانِ دورِ میکشی انھوں نے ایسے ایسے قصّے سنائے اور نشے کی ترنگوں کے ساتھ لطائف کے ایسے ایسے شگوفے چھوڑے کہ ہم لوٹ پوٹ ہوگئے۔ عالمِ سرور میں ایک ایسا مقام بھی آیا جہاں جذبی نے ترنم سے غزلیں بھی سنائیں۔ ترنم سے غزلیں سنتے وقت بار بار مجھے ایک واقعہ یاد آتا رہا: کسی محفل میں یونی ورسٹی کے ایک استاد نے جذبی سے ترنم کی فرمائش کر دی۔ جسے سن کر جذبی چراغ پا ہوگئے اور غصّے میں ایسا دیپک راگ الاپنا شروع کیا کہ لیکچرر صاحب کو اپنا دامن بچانا مشکل ہوگیا۔ وہ تو بھلا ہو اس محفل میں موجود کچھ نبض شناس سینئر استادوں کا کہ جنھوں نے انگلیوں میں دبے سگار کو ماچس کی تیلی دکھا دکھا کر جذبی کی حالتِ جذب کو ٹھنڈا کیا ورنہ تو اس جونیر استاد کا اس دن خدا ہی حافظ تھا۔

    اس واقعہ کے ساتھ ساتھ میں جذبی کی شخصیت کو سمجھنے کی کوشش کرتا رہا کہ ایک طرف تو جذبی کسی استاد کی درخواست پر برہمی کا اظہار کرتے ہیں اور دوسری جانب بغیر کسی فرمائش کے طلبہ کو ترنم سے غزل سناتے ہیں۔ جذبی کی شخصیت کا یہ تضاد پوری طرح تو سمجھ میں نہیں آیا، ہاں اتنا ضرور محسوس ہوا کہ جذبی طریقتِ شعر و سخن کے مجذوب تھے۔ مجذوب جو صرف من کی سنتا ہے۔ من کہتا ہے تو اللہ ھو کا نعرۂ مستانہ بھی لگاتا ہے اور من نہیں کہتا ہے تو بس ہُو کا عالم لیتا ہے۔

    غضنفر اپنے اس خاکے میں مزید لکھتے ہیں، دوسرے دن جب میں احمد جمال پاشا سے رخصت کی اجازت لینے گیا تو انھوں نے بتایا کہ جذبی صاحب میرے اخلاق اور فرماں برداری کی بڑی تعریف کر رہے تھے اور میرے ایک شعر کی بھی۔ جمال پاشا نے یہ بھی بتایا کہ جذبی صاحب Talent کی بڑی قدر کرتے ہیں اور اپنے لائق شاگردوں سے محبت بھی بہت فرماتے ہیں اور ان کی یہ محبت ہی ہے کہ گوشہ نشینی اختیار کر لینے کے باوجود میری دعوت پر یہاں تشریف لائے اور یہاں تک آنے میں خاصی زحمت بھی اٹھائی۔

    ’’پاشا صاحب! آپ تو انھیں بہت قریب سے جانتے ہیں اور یہاں کی اس مختصر ملاقات میں مجھے بھی محسوس ہوا کہ وہ مجلسی آدمی ہیں اور کافی زندہ دل بھی۔

    ’’پھر ان کی اس گوشہ نشینی کا کیا راز ہے؟ وہ گھر سے کیوں نہیں نکلتے؟ شعبے میں کیوں نہیں آتے؟ یونیورسٹی کی محفلوں میں شرکت کیوں نہیں کرتے؟ دنیا سے بے زار کیوں ہو گئے ہیں؟

    میری بات پر جمال پاشا خاصے اداس ہوگئے اور مجھے مخاطب کرتے ہوئے نہایت سنجیدہ لہجے میں بولے :

    ’’غضنفر! تم جذبی صاحب کے کچھ شعر سن لو، شاید تمھارے سوالوں کا جواب مل جائے۔‘‘

    اس حرص و ہوا کی دنیا میں ہم کیا چاہیں، ہم کیا مانگیں
    جو چاہا ہم کو مل نہ سکا، جو مانگا وہ بھی پانہ سکے

    مہکا نہ کوئی پھول نہ چٹکی کوئی کلی
    دل خون ہو کے صرفِ گلستاں ہوا تو کیا

    زندگی اک شورشِ آلام ہے میرے لیے
    جو نفس ہے گردشِ ایام ہے میرے لیے

    اور آخر میں یہ شعر بھی،

    دنیا نے ہمیں چھوڑا جذبی، ہم چھوڑ نہ دیں کیوں دنیا کو
    دنیا کو سمجھ کر بیٹھے ہیں، اب دنیا دنیا کون کرے

    واقعی ان شعروں سے میرے سوالوں کے جواب مل گئے اور غورکرنے پر یہ راز بھی کھل گیا کہ گوشہ نشینی اختیار کرنے کے باوجود علی گڑھ سے میلوں دور احمد جمال پاشا کی محفل میں جذبی کیوں گئے؟ اور اپنے قریب کی محفلوں میں کیوں نہیں آتے؟

    جذبی کی رودادِ سفر اور اندازِ حیات پر غور کرتے وقت یہ بھی محسوس ہوا کہ جذبی سادہ اور سیدھے ضرور تھے، مگر ان میں ٹیڑھ پن بھی بہت تھا۔ ان کی شخصیت کے اسی ٹیڑھ پن نے انھیں زمانہ تو زمانہ اپنے باپ کے آگے بھی جھکنے نہیں دیا۔ اسی نے انھیں بھیڑ سے نکال کر الگ کیا، منفرد بنایا، مضبوط کیا، مسرور کیا۔ لگتا ہے جذبی کے رفیقِ کار مشہور شاعر خلیل الرحمن اعظمی نے اپنا یہ شعر شاید جذبی کے لیے بھی کہا تھا،

    لوگ ہم جیسے تھے اور ہم سے خدا بن کے ملے
    ہم وہ کافر ہیں کہ جن سے کوئی سجدہ نہ ہوا

  • بہادر یار جنگ: ایک دل موہ لینے والی قد آور شخصیت

    بہادر یار جنگ: ایک دل موہ لینے والی قد آور شخصیت

    ہندوستان میں مسلمانوں کے تہذیبی و دینی تشخص کی حفاظت کرتے ہوئے پاکستان کے قیام کی بھرپور حمایت کرنے والوں میں بہادر یار جنگ کا نام سرِ فہرست ہے۔ وہ ایک عظیم مسلمان راہ نما، ایک مدبر اور ایسی شخصیت تھے جن کی زندگی کا مقصد تحریکِ آزادی کی کام یابی رہا۔

    بہادر یار جنگ نے بہت کم عمر پائی اور مشہور ہے کہ انھیں‌ زہر دیا گیا تھا۔ وہ 1905ء میں پیدا ہوئے اور 25 جون 1944ء میں انتقال کرگئے۔ لیکن اسی مختصر عمر میں بہادر یار جنگ نے بڑا نام و مقام، عزّت و مرتبہ پایا اور ہندوستان بھر میں مسلمانوں اور دیگر مذاہب کے ماننے والوں سے بھی اپنے علم اور لیاقت و ذہانت کو منوایا۔

    بہارد یار جنگ مسلم لیگ کے سرگرم راہ نما تھے جنھیں خطیبِ سحرُ البیان کہا جاتا ہے۔ وہ قلم کے دھنی اور شعلہ بیاں مقرر تھے۔ یہاں ہم بانیٔ کُل ہند مجلسِ تعمیرِ ملّت کے اہم رکن سید خلیل اللہ حسینی کی ایک تحریر نقل کر رہے ہیں‌ جو ایک عرصہ بہادر یار جنگ کے ساتھ رہے۔ سید خلیل اللہ حسینی لکھتے ہیں، "بہادر خاں اگر صرف خطیب ہوتے تو اپنی ساری مشّاقیِ خطابت اور مقررانہ عظمت کے باوجود پھر بھی قائدِ ملّت نہ ہوتے۔ اگر ان کی غیر معمولی تنظیمی صلاحیت کی تعریف مقصود ہے تو بلاشبہ اس میدانِ اجتماعی میں بھی وہ اپنی نظیر آپ تھے، لیکن تنظیمی صلاحیت ان کی عظمت کا راز نہ تھی۔”

    "اگر ان کی دل موہ لینے والی قد آور شخصیت کی ستائش کی جاتی ہے تو بھی بے جا ہے کہ ایک عظیم اور پُراسرار شخصیت اپنے دلربا تبسم سے دلوں کو مٹّھی میں لے لیتی ہے اور دلوں کو مسخّر کرنے کا ان کا فن خوبانِ شہر کے لیے بھی باعثِ صد رشک و حسرت تھا لیکن یہ دلآویزیِ طبع بجائے خود عظمتِ بہادر خاں کی کلید نہیں ہے۔”

    "بہادر خان کی عظمت کا راز یہ تھا کہ وہ ایک انسان تھے، انسانوں کی دنیا میں انسان تھے اور یہی بڑی غیر معمولی بات ہے!”

    "لوگوں سے ملنے جلنے کے انداز، چھوٹوں سے محبت، اور بڑوں کا ادب، ان صفات کا پیکر میں نے تو صرف بہادر خان کو دیکھا۔ چھوٹوں سے شفقت کا تو میں بھی گواہ ہوں۔ میں ایک کم عمر طالب علم کی حیثیت سے درسِ اقبال کی محفلوں میں جاتا اور کسی کونے میں بیٹھ جاتا۔”

    "ایک مرتبہ وہ میرے قریب آئے۔ نام پوچھا، تعلیم کے بارے میں سوال کیا اور ہمّت افزائی کے چند کلمات کہے، بات آئی گئی ہو گئی۔”

    "اب اس کے بعد یہ حالت ہو گئی کہ وہ موٹر میں جارہے ہوں اور میں سائیکل پر، لیکن سلام میں پہل ہوتی موٹر میں سے۔ پہلی مرتبہ جب دار السلام روڈ پر ایسا سابقہ ہوا تو جواب دینے میں غالباً میرے دونوں ہاتھ اٹھ گئے اور میں سائیکل سے گرتا گرتا بچا۔”

    "ایک چپراسی صاحب، بہادر خان کے بڑے اعتماد کے کارکن تھے۔ ایک دفعہ جب وہ ملنے گئے اور کمرہ میں بلا لیے گئے تو بچارے ٹھٹک سے گئے۔ کیوں کہ اس وقت بہادر خان سے ان کے ناظم صاحب مصروفِ تکلم تھے۔ بہادر خان نے بات کو تاڑ لیا اور کہا کہ آپ چپراسی ہوں گے دفتر میں، میرے پاس تو سب برابر ہیں بلکہ آپ تو میرے رفیق ہیں۔ یہ کہہ کر ان کو اپنے بازو صوفہ پر بٹھا لیا۔”

    "ایسے واقعات کا انبار لگایا جا سکتا ہے اور ایسا واقعہ بہادر خان کی شرافت، خلوص، انسانی محبت اور جذبۂ خدمت کا ثبوت دیتا رہے گا۔ بہادر خاں کا حال پہاڑ کی بلند چوٹی کا سا تھا۔ دور سے دیکھیے تو جاہ و جلال کا منظر، قریب ہوتے جائیے تو آنکھوں کو ٹھنڈک، دل کو طراوت اور طبیعت کو تازگی ملتی۔ پھر دنیا کا منظر ہی کچھ اور حسین نظر آتا۔”

    پروفیسر خواجہ قطب الدّین نے ان کی برسی کے موقع پر ایک مضمون پڑھا تھا جس کے چند پارے پیشِ‌ خدمت ہیں۔ وہ لکھتے ہیں، محمد بہادر خان فروری 1905ء کو حیدرآباد دکن میں پیدا ہوئے۔ ان کی ولادت کے چند دن بعد ہی ان کی والدہ وفات پاگئیں۔ بہادر خان کی نانی نے جو ایک نہایت سمجھ دار اور مذہبی خاتون تھیں ان کی پرورش کی۔ اٹھارہ سال کے ہوئے تو والد کا سایہ بھی سر سے اٹھ گیا۔ والد کے انتقال کے وقت جاگیر قرضوں کے بوجھ سے دبی ہوئی تھی۔ نواب صاحب نے غیر معمولی تدبّر اور انتظامی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا اور تھوڑی سی مدّت میں قرضوں سے نجات حاصل کرلی۔ جاگیر کے حالات سنبھل گئے تو نواب صاحب نے حج بیتُ اﷲ کا عزم کیا۔ حج سے فارغ ہوکر مسلم ممالک کی سیاحت کی، سیّاحت سے واپسی کے بعد خاکسار تحریک سے وابستگی اختیار کرلی اور ساتھ ہی ریاست کی ایک سیاسی و مذہبی تنظیم مجلسِ اتحادُ المسلمین میں بھی شامل ہوگئے۔

    1944ء میں بہادر یار جنگ خاکسار تحریک سے علیحدہ ہوگئے اور اپنی ساری توجہ مجلسِ اتحادُ المسلمین کی طرف مرکوز کردی۔ انھوں نے مجلس میں ایک رضا کار تنظیم قائم کی۔ بہادر یار جنگ کی قائدانہ صلاحیتوں نے مسلمانانِ حیدر آباد(دکن) میں ایک نیا قومی جذبہ پیدا کردیا۔

    سیاست میں ان کے ہیرو قائدِ اعظم تھے جن کی زندگی سے انھوں نے عزم و ثبات کا سبق سیکھا تھا۔ ان میں قائدِاعظم کی سی اصول پرستی تھی اور وہی بے باکی اور صاف گوئی۔ وہ نڈر اور جری تھے۔ مجاہد کی طرح ہر محاذ پر ڈٹ جاتے اور غازی کی طرح کام یاب اور کام ران رہتے۔ دوسری خصوصیت ان کی خطابت تھی۔ قدرت نے انھیں یہ نعمت بطورِ خاص عطا کی تھی اور اس کا استعمال بھی انھوں نے ہر موقع اور ہر محل پر صحیح کیا۔ بغیر کسی تیاری کے وہ ہر موضوع پر بے تکان بولتے تھے۔ انھوں نے تحریکِ پاکستان کو فروغ دینے میں جس خلوص و تن دِہی سے حصہ لیا تھا اس کی وجہ بھی یہی تھی کہ وہ اسلام کے بڑے شیدائی تھے۔ ان کی دلی تمنّا تھی کہ ایک ایسی مملکت برصغیر کے اندر بنائی جائے جہاں اسلامی آئین و قوانین نافذ ہوں۔

    بہادر یار جنگ کی تحریر بھی زبردست ہوا کرتی تھی جس کا اندازہ "میں مطالعہ کس طرح کرتا تھا؟” کے عنوان سے اس عظیم راہ نما کے مضمون سے کیا جاسکتا ہے۔ ان کا یہ مضمون 1942ء میں شایع ہوا تھا۔ بہادر یار جنگ لکھتے ہیں: "میری حالت ان نوجوانوں سے مختلف نہ تھی جو ابتدائی درسی کتابوں سے فارغ ہو کر عام مطالعہ کی ابتدا کرتے ہیں۔”

    "اس عمر میں جب کہ دماغی صلاحیتیں پوری طرح ابھری ہوئی نہیں ہوتیں اچھی اور بری کتاب کی تمیز بہت کم ہوتی ہے۔ قصص اور حکایات مبتدی کی توجہ کو جلد اپنی طرف پھیر لیتے ہیں۔ میرے مطالعہ کی ابتدا بھی حکاایت و قصص سے ہوئی۔”

    "مدرسہ اور گھر پر اساتذہ کی گرفت سے چھوٹنے کے بعد جو اوقاتِ فرصت مل جاتے وہ زیادہ تر کسی ناول یا افسانہ کی نذر ہو جایا کرتے تھے۔ کھیل کود سے مجھے کچھ زیادہ دل چسپی نہ تھی۔ یا سچّی بات یہ ہے کہ کھیل کود کے قابل ہی نہیں بنایا گیا تھا۔ قد کی بلندی نے اب اعضا میں تھوڑا تناسب پیدا کر دیا ہے۔ ورنہ اپنی عنفوانِ شباب کی تصویر دیکھتا ہوں تو موجودہ متحارب اقوام کے بنائے ہوئے کسی آتش افروز بم کی تشبیہ زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے۔ چار قدم چلتا تھا تو ہانپنے لگتا تھا اور کھیلنے کے بجائے خود دوسروں کے لیے تماشہ بن جاتا تھا۔ اس لیے میری زندگی کا عملی دستور "اگر خواہی سلامت برکنار است” تھا۔ نگاہیں کبھی کھیلتے ہوئے احباب پر پڑتی تھیں اور کبھی صفحاتِ کتاب کے میدان میں دوڑنے لگتی تھیں اور جب پلے گراؤنڈ سے اٹھ کر گاڑی میں سوار ہوتا تو مدرسہ سے گھر پہنچنے تک ناول کے ایک دو باب ضرور ختم ہو جاتے تھے۔”

    "رفتہ رفتہ اس شوق نے جنون کی شکل اختیار کر لی۔ عمر جیسے جیسے بڑھتی گئی یہ جنون ویسے ویسے اعتدال پر آتا گیا۔ ایک طرف موضوعِ مطالعہ میں تبدیلی ہوئی اور افسانوں اور حکایات کی بجائے سوانح عمری اور سیرت کا مطالعہ شروع ہوا اور مطالعہ کے اوقات متعین و معین ہونے لگے۔”

    "بیسویں صدی عیسوی کے ہر نوجوان کی طرح شاعری کا خبط شعور کی ابتدا کے ساتھ پیدا ہو چکا تھا اور شوقِ شعر گوئی نے شعرا کے تذکروں اور دواوین کی طرف متوجہ کردیا تھا۔ آج اپنے کلام کا پرانا نمونہ سامنے آجاتا ہے تو بے اختیار ہونٹوں پر مسکراہٹ کھیلنے لگتی ہے۔ لیکن آج سے 25 برس قبل ہم اپنے آپ کو غالب اور ذوق سے کچھ زیادہ نہیں تو کم بھی نہ سمجھتے تھے۔ ہماری شعر گوئی اور مطالعۂ دواوین کا سب سے اچھا وقت صبح کے ابتدائی لمحات ہوا کرتے تھے۔ لیکن جیسے جیسے ادب نے ایک معیاری کیفیت پیدا کی تو خود بخود یہ احساس ہونے لگا کہ شاعر پیدا ہوتا ہے، بنتا نہیں۔ اور ہماری میز سے ہٹ کر دواوین الماریوں کی زینت بنتے گئے۔ اور بانگِ درا کے سوا میز پر کچھ باقی نہیں رہا۔ آخری دور میں اگر کسی کے کلام نے اقبال کے کلام کا ساتھ دیا تو وہ مولوی روم کی مثنوی اور سعدی کی گلستاں تھی۔”

    "جب ہم اپنے گھر میں جوان اور بڑے سمجھے جانے لگے تو ہماری بیٹھک کے کمرے الگ کر دیے گئے تھے اور احباب کی محفلیں جمنے لگی تھیں۔ لغویات سے فطرتاً نفرت تھی۔ علم و ادب زندگی کا سب سے دل چسپ مشغلہ بن گئے تھے۔ ابتداً محض تفریح کے طور پر میں نے اپنے احباب کے ساتھ مل کر مطالعہ کرنا شروع کیا۔ یعنی یہ ہوتا کہ الہلال، ہمایوں، ہزار داستان، معارف، زمانہ یا کوئی اور معیاری ادبی و علمی رسالہ یا کوئی اچھی کتاب کسی ایک صاحب کے ہاتھ میں ہوتی اور اکثر میں ہی قاری کی خدمت انجام دیا کرتا۔ ایک ایک فقرے پر اکٹھے خیال آرائیاں ہوتیں، اختلاف و اتفاق ہوتا۔ بحث و تکرار ہوتی اور یہ بحث دماغ کے صفحہ پر خیالات کے کبھی نہ مٹنے والے تسامات کا باعث بنتی۔”

    "تجربے نے بتلایا کہ خاموش اور انفرادی مطالعہ سے یہ مشترک مطالعہ کا طریقہ زیادہ مفید اور زیادہ کارآمد ہے، جب سیر و تراجم تذکرہ و تاریخ سے آگے بڑھ کر ذوقِ مطالعہ نے ٹھوس اور سنجیدہ فلسفیانہ و سیاسی، اخلاقی و مذہبی علوم کی طرف توجہ کی تو ایک اور طریقے نے مجھے بہت فائدہ پہنچایا۔ فلسفہ اور علمِ کلام یا مذہب و سیاست کے کوئی مقامات اگر سمجھ میں نہ آتے تو میں ان کو اپنی اس چھوٹی نوٹ بک میں جو میرے جیب کا مستقل سرمایہ بن گئی تھی، نوٹ کرتا اور جن بزرگوں کی نظر ان علوم پر میرے نزدیک عمیق تھی ان سے ملاقات کے جلد سے جلد مواقع تلاش کرتا اور ان سے ان اشکال کو حل کرنے کی کوشش کرتا۔ آج اپنے ان لمحات کو اپنی حیاتِ گزشتہ کا سب سے قیمتی سرمایہ سمجھتا ہوں۔”

    "لوگ صرف کتاب پڑھنے کو مطالعہ سمجھتے ہیں۔ میرے نزدیک کسی کے مطالعہ کا مطالعہ یہی سب سے اچھا مطالعہ ہے۔ جب والد مرحوم کے انتقال کی وجہ سے اٹھارہ برس کی ابتدائی عمر ہی میں میرے سَر پر گھر کی ساری ذمہ داریوں کا بوجھ پڑ گیا اور مدرسہ کی تعلیم ناقص حالت میں ختم ہوگئی۔ تو میرے مطالعہ کا سب سے بہترین طریقہ یہ تھا کہ جن لوگوں نے مختلف اصنافِ علم میں زیادہ سے زیادہ مطالعہ کیا ہو ان کو اپنے اطراف جمع کرلوں یا ان کی خدمت میں حاضر ہو جاؤں اور ان کی عمر بھر کے مطالعہ کا نچوڑ ان سے سنوں اور پھر کانوں کے ذریعہ اس کا مطالعہ کروں، اسی تمنا نے آوارہ گردی و صحرا نوردی پر آمادہ کیا۔”

    "لوگ اوراقِ کاغذ کے مجموعے کو الٹنے اور اس پر لکھی ہوئی سیاہ لکیروں کو پڑھنے کا نام مطالعہ سمجھتے ہیں۔ میرے پیشِ نظر ہمیشہ سے ایک اور کتاب رہی ہے جس کے صرف دو ورق ہیں لیکن جس میں سب کچھ ہے اور یہ کتاب صحیفۂ کائنات ہے۔ آسمان اور زمین کے ان دو اوراق کے درمیان مہر و ماہ، کواکب و سیارات، شفق، قوس قزح، ابر و باد، کوہ صحرا، سمندر و ریگستان نے ایسے ایسے خطوط کھینچے ہیں جن میں فکر کرنے والی نگاہ اپنے لیے سب کچھ حاصل کرسکتی ہے۔”

    "آہ دنیا بدل گئی، فرصت کے وہ رات دن اب خود میرے لیے افسانہ بن گئے۔ اب ان کو جی ڈھونڈتا ہے مگر پا نہیں سکتا۔ قوم و ملّت کی جو ذمہ داریاں ہم نے ابتدائی اوقاتِ فرصت کو صرف کرنے کے لیے اپنی مرضی سے قبول کی تھی، اپنی زندگی کے سارے لمحات پر مسلط ہو گئیں۔ کتاب سامنے آتی ہے تو تنگیِ وقت کا تصور آہ بن کر زبان سے نکلتا ہے۔ اخبار ہی پڑھنے سے فرصت نہیں کتاب کا ذکر کیا۔ اب کتاب پڑھنے کی سب سے اچھی جگہ ریل گاڑی کا ڈبہ ہے اور سفر کی وہ منزلیں جو طے ہونے سے رہ جائیں۔”

  • نہرِ زبیدہ کا قصّہ جس کی تعمیر پر زبیدہ بنتِ جعفر نے بے دریغ اپنی دولت خرچ کی

    نہرِ زبیدہ کا قصّہ جس کی تعمیر پر زبیدہ بنتِ جعفر نے بے دریغ اپنی دولت خرچ کی

    عباسی خلیفہ ہارون الرشید کی شریک حیات زبیدہ بنتِ‌ جعفر کو اسلامی دنیا میں ملکہ کی حیثیت سے جو امتیاز اور عزت و احترام حاصل ہوا، اس کی وجہ ان کی سخاوت اور فیاضی اور بہت سے فلاحی کام ہیں جن میں نہرِ زبیدہ کی تعمیر بھی شامل ہے۔

    یہ نہر مکّہ اور قرب و جوار میں حاجیوں اور زائرین کو لگ بھگ 1200 سال تک پانی کی فراہمی یقینی بناتی رہی۔ ملکہ نے اس منصوبے پر بے دریغ اپنی دولت خرچ کی۔ منصوبہ کی کی تکمیل کے بعد جب ملکہ کو اخراجات کی تفصیل پیش کی گئی تو انھوں نے اسے دریا میں پھینک دیا اور کہا کہ یہ کام اللہ کی رضا کے لیے کیا تھا، اس کا حساب بھی قیامت کے روز ہی ہوگا۔ پوڈ کاسٹ سنیے…

  • ستار طاہر: ایک باکمال ادیب اور شان دار مترجم

    ستار طاہر: ایک باکمال ادیب اور شان دار مترجم

    ستّار طاہر ایک باکمال مصنّف، مؤلف اور شان دار مترجم تھے جنھوں نے بحیثیت مدیر بھی اپنی صلاحیتوں‌ کو منوایا اور اپنے دور کے بہترین جرائد کی ادارت کی اور ان کا وقار بڑھایا۔ اردو زبان میں‌ کئی موضوعات پر مضامین اور کتابوں‌ کے علاوہ ستار طاہر نے غیرملکی ادب کا معیاری ترجمہ اردو زبان میں کیا جنھیں قارئین نے بہت پسند کیا۔ ستار طاہر 1993ء میں‌ آج ہی کے روز انتقال کر گئے تھے۔

    اہلِ علم و ادب میں ستار طاہر اپنی صلاحیتوں، قلم کی روانی اور معیاری تراجم کے لیے مشہور تھے۔ ان کی تحریریں اور تصانیف قارئین میں بے حد پسند کی گئیں۔ ستار طاہر گورداس پور میں یکم مئی 1940ء کو پیدا ہوئے۔ قیامِ پاکستان کے بعد وہ ہجرت کرکے فیصل آباد آگئے۔ زمانۂ طالبِ علمی ہی سے لکھنے پڑھنے سے لگاؤ رہا اور شروع ہی سے مطالعہ کی عادت پختہ ہوگئی تھی۔ اسی شوق نے ستار طاہر کو ادب کی طرف مائل کیا اور تصنیف و تالیف کے ساتھ انھوں نے ترجمہ اس طرح کیا کہ اس پر تخلیق کا گمان ہوتا تھا۔ ستار طاہر نے کالم نگاری بھی کی اور 250 سے زائد کتابیں مرتب کیں کرنے کے علاوہ خاص طور پر روسی ادب کا ترجمہ کیا۔ اپنا قائدِاعظم ایک، دنیا کی سو عظیم کتابیں اور مارشل لاء کا وائٹ پیپر سمیت کئی کتابیں ستار طاہر کے زورِ قلم کا نتیجہ ہیں۔ انھوں نے فلموں کی کہانیاں‌ بھی لکھیں۔ ان میں وعدے کی زنجیر اور میرا نام ہے محبت جیسی فلمیں‌ شامل ہیں۔ ستار طاہر نے ایک مضمون نگار اور کہانی کار کی حیثیت سے مختلف طبقات کی زندگیوں کو اپنی تحریروں میں‌ سمیٹا اور داد و تحسین پائی۔

    ستار طاہر کو جنرل ضیاء الحق کے دورِ آمریت میں‌ جیل کی ہوا بھی کھانا پڑی تھی۔ وہ اپنے نظریات اور افکار کی وجہ سے بھی اہل علم و ادب میں نمایاں‌ پہچان رکھتے تھے۔ ستار طاہر کو جمہوریت اور بھٹو صاحب پر کتاب لکھنے کی پاداش میں جیل بھیجا گیا تھا۔ ستار طاہر کا شمار ان مصنفین میں ہوتا ہے جو قلم کی مزدوری کرنے کے ساتھ ساتھ جمہوریت کے حامی و پرچارک رہے۔

    ان کی متعدد تصانیف میں‌ سورج بکف و شب گزیدہ، حیاتِ سعید، زندہ بھٹو مردہ بھٹو، صدام حسین، مارشل لا کا وائٹ پیپر، تعزیت نامے سرِ فہرست ہیں۔ ان کی ترجمہ کردہ کتب میں ری پبلک، حسن زرگر، دو شہروں کی ایک کہانی، شہزادہ اور فقیر، سرائے، تاراس بلبا اور دنیا کی سو عظیم کتابیں شامل ہیں۔

    حکومتِ پاکستان نے ستّار طاہر کے لیے بعد از مرگ صدارتی ایوارڈ کا اعلان کیا تھا۔ ستار طاہر لاہور میں اسلام پورہ کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • جان اپڈائیک:‌ متحرک زندگی کا ساتھ دینے والا ناول نگار

    جان اپڈائیک:‌ متحرک زندگی کا ساتھ دینے والا ناول نگار

    امریکہ کے صفِ اوّل کے ناول نگار جان اپڈائیک کو بطور ادیب، شاعر اور ادبی ناقد عالمی سطح پر بھی پہچانا جاتا ہے۔ انھوں نے ایک ایسے شخص کی زندگی پر بھی ناول لکھا تھا جس کا مسلمان باپ اپنی امریکی شہریت رکھنے والی بیوی کو چھوڑ کر چلا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ جان اپڈائیک نے نیوجرسی کے پس منظر میں مذہبی انتہا پسندی کو بھی اپنے ایک ناول کا موضوع بنایا تھا۔

    ہم جان اپڈائیک کا تذکرہ ان کے یومِ وفات کی مناسبت سے یہاں کر رہے ہیں۔ اپڈائیک کے بچپن سے آغاز کرتے ہیں جس کے بارے میں انھوں نے اپنے تحریر کردہ مضامین میں لکھا اور بعض انٹرویوز میں‌ بتایا۔ ان کے والد اسکول ٹیچر اور والدہ ادیب تھیں۔ ان کے گھر میں رائٹنگ ٹیبل پر ایک ٹائپ رائٹر دھرا تھا اور اپڈائیک کے مطابق یہ مشین انھیں اپنی جانب کھینچتی تھی۔ وہ شروع ہی سے قلم اور کورے کاغذ کو پسند کرتے تھے اور ساتھ میں ڈاک کے ان خاکی لفافوں کا بھید جاننے کے لیے بے چین ہوجاتا تھا، جو ان کے گھر کے پتے پر موصول ہوتے۔ دنیا جہان کے موضوعات پر کتابیں بھی ان کے گھر میں موجود تھیں۔ یہی نہیں‌ بلکہ وہ والدہ کی زبانی اکثر علمی و ادبی موضوع پر گفتگو اور مباحث بھی بڑے شوق سے سنتے تھے۔ اسی ماحول کے زیرِ اثر جان اپڈائیک نے کتابوں کا مطالعہ شروع کردیا تھا۔

    ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد بچّوں کا ادب پڑھنے کے قابل ہوگئے تو دل چسپ کہانیاں‌ اور مہم جوئی پر مبنی قصّے ان کے مطالعے میں آئے۔ ان کے تخیل نے اڑان بھری اور الفاظ سے نفسِ مضمون پیدا کرنے کے قابل ہوئے تو سب سے پہلے اپنے جذبات اور احساسات کو نظم کیا۔ اس کے بعد نوعمر اپڈائیک نے ایک مختصر مضمون بھی لکھ ڈالا۔ والدین نے ان کی تخلیقی کاوشیں دیکھیں تو خوشی کا اظہار کیا اور بیٹے کی حوصلہ افزائی کی۔ بعد کے برسوں میں والدہ کی راہ نمائی میں جان اپڈائیک نے باقاعدہ اپنا تخلیقی سفر شروع کیا اور پھر وہ امریکہ اور دنیا میں‌ اپنے نظریۂ ادب اور منفرد اسلوب کی وجہ سے پہچانے گئے۔

    جان اپڈائیک اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھے۔ ان کا بچپن عام بچّوں سے کچھ مختلف تھا۔ اپڈائیک روانی سے نہیں بول سکتے تھے اور ایک ایسے مرض میں بھی مبتلا تھے جس میں جلد کی رنگت سفید ہوجاتی ہے اور چہرے پر سرخ نشانات پڑجاتے ہیں، لیکن والدین کی بھرپور توجہ اور پیار و محبّت نے ان کو کسی بھی قسم کے احساسِ کم تری سے دوچار نہیں ہونے دیا۔ اپڈائیک نے بڑے اعتماد سے اپنا قلمی سفر شروع کیا۔ وہ اس بارے میں لکھتے ہیں۔

    ’’میں نے اپنی ماں کو ہمیشہ رائٹنگ ٹیبل پر لکھنے پڑھنے میں مشغول پایا۔ شعور کی سرحدوں کو چُھوا تو معلوم ہوا کہ وہ ایک رائٹر کے طور پر شناخت کی جاتی ہیں۔ انہوں نے میرے اندر لکھنے کا شوق پیدا کیا اور ہر قدم پر میری راہ نمائی کی۔ میرا تخلیقی سفر انہی دنوں کی اُس حوصلہ افزائی اور مدد کا نتیجہ ہے۔‘‘

    18 مارچ 1932ء کو امریکہ میں آنکھ کھولنے والے جان اپڈائیک نے اوّلین تخلیقات کے بعد جب باقاعدہ قلم تھاما تو پہلے اپنے رہائشی علاقے ریڈنگ کے طرزِ زندگی پر ناول لکھا۔ اپڈائیک کی تخلیقات اپنے متنوع موضوعات اور منفرد اسلوبِ نگارش کی بدولت قارئین میں مقبول ہوئیں۔ ان کے عام موضوعات سماجی اقدار اور امریکی شہری تھے جب کہ شارٹ اسٹوریز اور ناولوں میں انہوں نے خاص طور پر مڈل کلاس طبقے کے مسائل کو اجاگر کیا۔

    عظیم ناول نگار، شاعر اور نقّاد جان اپڈائیک کا ایک مضبوط حوالہ ان کی حقیقت پسندی ہے۔ ان کی تحریروں میں انسانی رویّوں اور الجھنوں کے ساتھ سماجی سطح پر شکست و ریخت کی عکاسی کی گئی ہے۔ اپڈائیک کی تخلیقی انفرادیت کا ایک پہلو یہ ہے کہ انہوں نے ان قدروں اور روایات کی پابندی نہیں کی جو حقائق سے چشم پوشی پر اکساتی ہیں اور کسی بھی معاشرے کو تنگ نظری کی طرف دھکیل سکتی ہیں۔ خاص طور پر اخباری مضامین ان کی قوتِ مشاہدہ اور تجزیاتی فکر کی عمدہ مثال ہیں جن کے ذریعے وہ اپنے معاشرے اور عام لوگوں کی ترجمانی کرتے رہے۔ رواں اور سادہ طرزِ تحریر کے باعث نقاد اور اپڈائیک کے ہم عصر بھی ان کے معترف نظر آئے۔ ناقدین کے مطابق اپڈائیک نے انگریزی ادب میں روایت اور نام نہاد اصولوں کی پاس داری کرنے کے بجائے متحرک زندگی کا ساتھ دیا اور اسی خوبی کی بنیاد پر صفِ اوّل کے تخلیق کاروں میں ان کا شمار ہوتا ہے۔

    دورانِ تعلیم جان اپڈائیک ایک مقامی روزنامہ ’’ریڈنگ ایگل‘‘ سے بہ طور کاپی بوائے منسلک ہوگئے۔ یہ ملازمت ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو نکھارنے میں مددگار ثابت ہوئی اور اس عرصے میں ان کا ادبی ذوق اور رجحان خوب پروان چڑھا۔ 1950ء میں اپڈائیک نے ہارورڈ یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا اور انگریزی ادب میں گریجویشن کیا۔ فائن آرٹس میں گہری دل چسپی کے باعث انھوں نے اسکیچ اور کارٹون بنانے کا فن سیکھ لیا تھا۔ اپڈائیک کی حسِ مزاح بھی تیز تھی۔ وہ اپنے فن اور اِسی مہارت کو کام میں لائے اور معاشرتی مسائل اور خامیوں کو طنز و مزاح کے رنگ میں پیش کیا۔ مقامی اخبارات میں ان کے کارٹون شایع ہوئے جو بہت پسند کیے گئے۔ فائن آرٹ میں یہی دل چسپی انہیں آکسفورڈ یونیورسٹی لے گئی جہاں اس کی باقاعدہ تعلیم حاصل کی۔ اس عرصے میں شارٹ اسٹوریز، اخباری مضامین اور شاعری کا سلسلہ جاری رہا اور ایک قلم کار کی حیثیت سے ان کی پہچان کا سفر شروع ہوگیا۔

    انگلینڈ میں حصولِ تعلیم کے دوران اُن کی ملاقات امریکی قلم کاروں ای بی وہائٹ اور کیتھرائن وہائٹ سے ہوئی جنہوں نے اپڈائیک کی تخلیقات کی ستائش کے بعد ’’نیویارکر‘‘ کے لیے لکھنے کی دعوت دی۔ چند ماہ بعد اپڈائیک امریکا لوٹے اور نیویارکر کے لیے لکھنا شروع کیا۔ اس معروف جریدے میں 1954ء میں پہلی بار ان کی ایک اسٹوری چھپی اور پھر یہ سلسلہ دو سال تک جاری رہا۔ اب اپڈائیک کا فن اور ان کا اسلوب بھی اس دور کی ادبی بیٹھکوں میں زیرِ بحث آنے لگا تھا۔ مطالعہ اپڈائیک کے ذہن کو اجالتا اور فکر لکھنے پر آمادہ کرتی رہی۔ شاعر اور کہانی کار کے بعد وہ ایک نقاد کی حیثیت سے بھی سامنے آئے۔ یہ کمال اور ہمہ جہتی ان کے وسیع مطالعے اور تجزیاتی فکر کا نتیجہ تھی۔

    جان اپڈائیک کی شارٹ اسٹوریز اور ناولوں کا چرچا امریکا اور بیرونِ ملک بھی ہونے لگا تھا۔ قارئین کے ساتھ انگریزی ادب کے ناقدین بھی ان کے کمالِ فن کا اعتراف کر چکے تھے۔ اپڈائیک گویا مقبولیت کے ہفت خواں طے کر رہے تھے، لیکن قارئین کے ذہنوں کے پردے پر ان کے محبوب مصنف کا ابھرنے والا خاکہ ابھی بے رنگ تھا۔ وہ اپڈائیک کے حالاتِ زندگی اور نظریات کی بابت کم جانتے تھے۔ اپڈائیک نے 1989ء میں اپنی خود نوشت لکھ کر اس خاکے میں رنگ بھر دیے۔ کہا گیا کہ ان کی اس تصنیف کا طرزِ تحریر ایسا تھا کہ قاری ختم کیے بغیر کتاب چھوڑنا نہ چاہے۔ یوں واقعات کے تسلسل، روانی اور زبان و بیان کی چاشنی کے ساتھ ذات آشنائی کا مرحلہ بھی مکمل ہوا۔

    جان اپڈائیک نے اپنے گردوپیش کے مسائل اور واقعات کو اپنے الفاظ اور اسلوب کا پیراہن عطا کیا اور ان پر کہانیاں بُنیں۔ ان کی تخلیقات متوسط طبقے اور اس کی مجبوریوں پر مصنف کی گرفت اور گہرے مشاہدے کی بہترین مثال ہیں۔

    اپڈائیک مصلحت پسند نہیں رہے اور ہمیشہ اخلاقی جرأت کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے امریکا کے مضافات کی زندگی کے ایسے پہلوؤں پر بات کی جنہیں اُس دور میں ناگفتہ سمجھا جاتا تھا، لیکن انہیں تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا۔ ان کے ناولوں کا موضوع اخلاقی پستی، اقدار کی پامالی اور معاشرتی پیچیدگیوں کے علاوہ جنسی رویّے بھی رہے۔ اس کی ایک مثال ناول Couples ہے جو 1968ء میں منظر عام پر آیا۔ اس ناول کا موضوع بوسٹن اور نواح کی زندگی تھی۔ یہ بیسٹ سیلر ثابت ہوا۔ اسی ناول کے بعد وہ مشہورِ زمانہ امریکی جریدے ’’ٹائم میگزین‘‘ کی کور اسٹوری بنے۔ بعض حلقوں کی جانب سے ان پر نسل پرستی اور زن بیزاری کی تہمت بھی دھری گئی۔ اپڈائیک نے ان الزامات کو مسترد کر دیا۔ وہ اپنے نظریۂ ادب اور فلسفے پر ڈٹے رہے۔ ان کا ناول Bech is Back منظرِ عام پر آیا تو ٹائم میگزین نے ایک بار پھر اس پر اسٹوری شایع کی۔ یہ 1983ء کی بات ہے۔

    اپڈائیک کا پہلا ناول Poorhouse Fair تھا اور 1958ء میں نظموں کا پہلا مجموعہ The Carpentered Hen کے نام سے شایع ہوا۔ اس عرصے میں ان کی شارٹ اسٹوریز نیویارکر کا حصّہ بنتی رہیں جو انگریزی ادب کا شاہ کار تسلیم کی جاتی ہیں۔ انھوں نے بعد میں کئی ناول لکھے جو بہت مقبول ہوئے اور انھیں امریکا اور عالمی سطح پر کئی ادبی ایوارڈ سے نوازا گیا۔

    جان اپڈائیک اپنے آخری ناول کی اشاعت کے ایک برس بعد 27 جنوری 2009ء کو انتقال کرگئے۔ وہ پھیپھڑوں کے سرطان میں مبتلا تھے۔

    (اردو ترجمہ: عارف عزیز)

  • عبدالرّحمٰن چغتائی: عالمی شہرت یافتہ مصوّر کا تذکرہ

    عبدالرّحمٰن چغتائی: عالمی شہرت یافتہ مصوّر کا تذکرہ

    پاکستان میں فنِ مصوّری میں عبدالرّحمٰن چغتائی کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ انھوں نے اسلامی، ہندو مت، بدھ ازم کے ساتھ مغل دور اور پنجاب میں زندگی کو اس تسلسل اور کمال سے اپنے فن پاروں میں پیش کیا کہ مصوّرِ مشرق مشہور ہوئے۔ عبدالرحمٰن چغتائی کے فن پارے دنیا کی مشہور آرٹ گیلریوں میں موجود ہیں۔

    17 جنوری 1975ء کو عبدالرحمٰن چغتائی لاہور میں انتقال کرگئے تھے۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔ ریڈیو پاکستان اور پاکستان ٹیلی ویژن کے ’لوگو‘ عبدالرّحمٰن چغتائی کی ہی اخترا ع اور ان کے کمالِ فن کا نمونہ ہیں۔

    نام ور مصوّر عبدالرّحمٰن چغتائی نے 21 ستمبر 1897ء کو لاہور میں آنکھ کھولی۔ ان کا تعلق عہدِ شاہ جہانی کے مشہور معمار خاندان سے تھا، اور اس گھرانے کے ہنر مندوں نے تاج محل، جامع مسجد دہلی، اور لال قلعہ دہلی کے نقشے تیار کیے تھے۔ عبدالرحمٰن چغتائی کے دادا رنجیت سنگھ کے میرِ تعمیرات بھی رہے۔ چغتائی صاحب کو مصوری کا شوق ہوا تو ابتدائی کوششوں کے ساتھ انھوں نے باقاعدہ تعلیم حاصل کرنے کے لیے 1914ء میں میؤ اسکول آف آرٹس لاہور میں داخلہ لیا اور ڈرائنگ کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کرلیا، پھر استاد میراں بخش سے مصوّری کے اسرار و رموز سیکھے اور پھر میؤ اسکول میں ہی تدریس کے پیشے سے وابستہ ہوئے۔ 1919ء میں جب انھوں نے ہندوستانی مصوّری کی ایک نمائش میں شرکت کی تو اپنے فن کی پذیرائی نے بڑا حوصلہ دیا۔ اس کے بعد انھوں نے اپنے فن پارے کلکتہ کے رسالے ’’ماڈرن ریویو‘‘ میں اشاعت کے لیے بھیجے جنھیں بہت سراہا گیا۔ یوں چغتائی کا پہلا شاہکارِ فن 1919ء میں وجود میں آیا اور دنیائے مصوری میں ان کی آمد کا شور بھی ہوا۔ چغتائی صاحب نے اس فن میں جداگانہ اسلوب اور فن کارانہ روش اختیار کی اور یہ اس قدر مشہور ہوا کہ اس اسلوب کو ’’چغتائی آرٹ ‘‘ کا نام دے دیا گیا۔ انھوں نے اقبال اور غالب کی شاعری کو اپنے فن کی بدولت نقشِ‌ دل پذیر بنا دیا۔ ان کی یہ کاوش ہم عصروں میں چغتائی صاحب کی انفرادیت اور امتیاز بن گئی۔ ناقدین نے چغتائی صاحب کو دو روایتوں کا امین کہا ہے جو ایک طرف ترک، ایرانی اور مغل مصوری پر مبنی تھا تو دوسری جانب ہندوستانی مصوری کی بنیاد پر مبنی بنگالی آرٹ تھا۔

    عبدالرّحمٰن چغتائی کی برسی پر ان کی یاد تازہ کرتے ہوئے ہم ریاض احمد کی کتاب سے چند یادیں نقل کررہے ہیں جو آپ کی دل چسپی کا باعث بنیں گی۔ وہ لکھتے ہیں:

    "چغتائی صاحب سرورق بنانے کا کوئی معاوضہ قبول نہیں کرتے تھے۔ وہ یہ کام اس نیّت سے کرتے تھے کہ ان کے فن کی زکوٰۃ نکلتی رہے۔ تقسیمِ ہند سے قبل برصغیر بھر سے جو فرمائش بھی انہیں ملی، انہوں نے اس کا احترام کیا اور سرورق بنا کر بھجوا دیا۔

    جان، انجان کی بات ہی نہیں تھی۔ اس پر میں نے کئی لوگوں کو حیران ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔ انہیں یقین نہیں آتا تھا کہ واقعی چغتائی صاحب ان کی کتاب کا سرورق بنا دیں گے۔ اور وہ بھی بلا معاوضہ! لوگ سمجھتے تھے وہ کم از کم ہزاروں روپے مانگیں گے۔

    چغتائی صاحب ع کے بھی بے حد شوقین تھے۔ ہمیشہ سفید رنگ کی ایک خاص سائز کی پتنگ اڑاتے تھے۔ ہوا کا رُخ ہمارے گھر کی طرف ہوتا تو ان کی پتنگ کو دیکھتے ہی ہم پہچان جاتے کہ چغتائی صاحب شوق پورا کر رہے ہیں۔

    کبھی میں ابا جی (نذیر احمد چودھری) کی طرف سے سرورق بنانے کے لیے کہنے جاتا یا ان کے وعدے کے مطابق سرورق لینے کے لیے جاتا تو دروازے پر لگی گھنٹی بجاتا۔ وہ تیسری منزل کی کھڑکی کھول کر نیچے جھانکتے، مجھے دیکھتے اور کھڑکی بند کر کے خود سیڑھیاں اتر کر نیچے تشریف لاتے۔ ایسا وہ اس صورت میں کرتے تھے جب سرورق کے بارے میں کوئی بات سمجھانی ہوتی تھی۔ بصورتِ دیگر سرورق ایک چھینکے میں رکھ کر نیچے لٹکا دیتے تھے۔ سبزی بھی وہ یونہی خریدا کرتے تھے۔

    چغتائی صاحب تکلفات سے بے نیاز تھے۔ وہ اکثر بنیان اور دھوتی پہنے ہوتے۔ آخر میں انہوں نے یہ طریقہ اختیار کیا تھا، شاید آسانی کی خاطر، کہ سرورق کو کلر اسکیم نہیں لگاتے تھے۔ مجھے کہتے: ”ریاض، بلاک بن جائے تو چار چھ پروف نکال لانا، اسی وقت رنگ لگا دوں گا۔ تُو نے کون سا دور سے آنا ہے۔ سامنے ہی تو پریس ہے۔“ میں کہتا: ”جی بہتر۔“

    اچھا چھپا ہوا سرورق دیکھ کر بے خوش ہوتے تھے اور دل کھول کر داد دیتے تھے۔ بلاک بننے میں بھی کوئی کسر رہ گئی ہوتی تو وہ فوراً بھانپ جاتے اور اس کی نشان دہی فرما دیتے۔”

    وہ ایک اچھے افسانہ نگار بھی تھے اور ان کے افسانوں پر مشتمل دو مجموعے بھی شایع ہوئے تھے۔

  • آرٹ بکوالڈ: عالمی شہرت یافتہ طنز نگار

    آرٹ بکوالڈ: عالمی شہرت یافتہ طنز نگار

    آرٹ بکوالڈ (Art Buchwald) اُن چند عالمی شہرت یافتہ اور مقبول طنز نگاروں میں شامل ہیں جو بامقصد اور تعمیری فکر کو پروان چڑھانے کے لیے قلم سے کام لیتے تھے وہ ایک مؤقر اور کثیرالاشاعت امریکی اخبار سے 40 سال بطور کالم نویس منسلک رہے۔ بکوالڈ کو امریکی سماج اور سیاست کا ایک ایسا نکتہ چیں کہا جاسکتا ہے جسے عوام اور خواص میں‌ یکساں احترام اور مقبولیت حاصل رہی۔

    طنز نگار آرٹ بکوالڈ زندہ دل بھی تھے اور نکتہ بیں بھی۔ انھیں زندگی کا خوب ادراک تھا اور اپنے گہرے مشاہدے اور وسیع تجربے سے آرٹ بکوالڈ نے جو کچھ سمجھا اور سیکھا، وہ اپنے کالموں کی شکل میں‌ قارئین تک پہنچایا۔ آرٹ بکوالڈ کی قوّتِ مشاہدہ اور حسِّ ظرافت نے امریکا، بالخصوص واشگٹن کی زندگی اور وہاں کے حالات کو جس خوب صورتی سے اپنی عام تحریروں اور کالموں میں سمویا ہے، اس کی مثال کم ہی ملتی ہے۔ انھیں بہترین طنز نگار مانا جاتا ہے۔

    بکوالڈ کا سنہ پیدائش 1925ء ہے۔ ان کا تعلق نیویارک کے ایک یہودی گھرانے سے تھا۔ آرٹ بکوالڈ کے والد کو کاروبار میں گھاٹا ہوتا رہا جس کے نتیجے میں یہ کنبہ مشکلات میں گھر گیا۔ آرٹ بکوالڈ کو کئی برس یتیم خانے میں گزارنا پڑے تھے۔

    بکوالڈ 2007ء میں آج ہی کے دن چل بسے تھے۔ ان کی عمر 82 سال تھی۔ ’ٹو سون ٹو سے گڈ بائے‘ وہ کتاب تھی جسے آرٹ بکوالڈ نے اپنی وفات سے تقریباً ایک سال پہلے ہی اشاعت کے لیے ناشر کے سپرد کیا تھا۔

    آرٹ بکوالڈ کا پہلا کالم 1949ء میں شائع ہوا تھا۔ اس وقت وہ پیرس میں مقیم تھے۔ انھوں نے اپنا عروج 1970ء کی دہائی کے آغاز میں دیکھا جب انھوں نے اپنے کالموں میں امریکا کے اعلیٰ طبقات اور اشرافیہ پر طنز کرنا شروع کیا۔

    1982ء میں بکوالڈ کو ان کے طنز و مزاح پر مبنی اخباری تبصروں پر پلٹزر انعام سے بھی نوازا گیا۔ 1990ء کے آغاز پر انھوں نے مشہورِ زمانہ پیراماؤنٹ پکچرز پر مقدمہ کردیا تھا۔ ان کا دعویٰ تھا کہ ایڈی مرفی کی فلم ’کمنگ ٹو امریکا‘ کا مرکزی خیال ان کی تحریروں سے ماخوذ ہے۔ اس مقدمے کا امریکا میں‌ بہت شہرہ ہوا اور بکوالڈ کو عدالتی فیصلے کے بعد نو لاکھ ڈالر ملے۔ اسی مقدمہ بازی کے بعد فلم ساز اداروں نے امریکی قوانین میں یہ تبدیلی کروائی کہ کسی کہانی کے بنیادی خیال پر فلم بندی کے لیے مصنّف کو معاوضہ نہیں دیا جائے گا۔

    چار دہائیوں کے دوران جہاں آرٹ بکوالڈ نے کالم نگاری کی وہیں ان کی 33 کتابیں بھی شایع ہوئیں اور قارئین نے انھیں پسند کیا۔ آرٹ بکوالڈ کے سماجی اور سیاسی نوعیت کے موضوعات اور ان کے تیکھے جملوں نے سنجیدہ و باشعور امریکی عوام اور دنیا بھر میں اہلِ علم و ادب کو بھی اپنی جانب متوجہ کیا۔ آرٹ بکوالڈ کا ایک مشہور طنزیہ جملہ ہے، ’اگر آپ کسی انتظامیہ کو طویل عرصے تک نشانہ بنائے رکھیں تو وہ آپ کو اپنا رکن منتخب کر لے گی۔‘ ایک سروے کے مطابق صرف امریکا میں آرٹ بکوالڈ کے مداحوں کی تعداد لاکھوں میں تھی۔ ایک عالی دماغ انسان اور طنز نگار کی حیثیت سے ان کی شہرت امریکا تک محدود نہیں رہی بلکہ جلد وہ دنیا بھر میں پہچانے گئے۔ ان کا طرزِ بیاں دل پذیر اور شگفتہ ہوتا تھا اور ان کی تحریریں‌ بامقصد اور تعمیری سوچ کو پروان چڑھاتی تھیں۔

    اس امریکی طنز نگار کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ وہ 5 سو سے زائد امریکی اور غیر ملکی جرائد کے لیے کالم اور مضامین لکھتے رہے۔ آرٹ بکوالڈ کی جو تحریریں‌ واشنگٹن پوسٹ کی زینت بنیں، ان میں زیادہ تر سیاسی پارٹیوں، سیاست دانوں، حکومت اور اپنے معاشرے پر گہرا طنز کیا ہے۔ ان کی یہ تحریریں ثابت کرتی ہیں‌ کہ وہ ایک بیدار مغز انسان تھے اور یہی وصف آرٹ بکوالڈ کو ان کے ہم عصروں میں بھی ممتاز کرتا ہے۔