Author: عارف حسین

  • افغانستان: صوبہ بلخ کی قدیم تاریخ اور مدفون خزانے کے بارے میں جانیے

    افغانستان: صوبہ بلخ کی قدیم تاریخ اور مدفون خزانے کے بارے میں جانیے

    آج کا افغانستان امریکا کی بدترین شکست، اتحادی افواج کے مکمل انخلا کے بعد اس سرزمین پر طالبان کی فتح اور اقتدار کے لیے دنیا بھر میں زیرِ بحث ہے۔ چند دہائیوں پہلے اسی ملک میں شکست کے بعد دنیا نے روس کا نقشہ ‘بگڑتا’ دیکھا تھا اور بعد میں وہاں طالبان نے اپنی حکومت قائم کی تھی۔

    آج پھر یہ ملک سیاسی انتشار اور افراتفری کا شکار نظر آرہا ہے، لیکن ماہرین کے مطابق ہزاروں سال پہلے ایک چوتھائی دنیا میں یہ سلطنت خوش حالی اور فلسفہ پھیلانے میں اہم کردار ادا کرتی رہی ہے۔

    یہی افغانستان تاریخ کے مختلف ادوار میں اپنی تہذیب و ثقافت، علم و فنون، صنعت گری اور تجارت کے حوالے سے بھی پہچانا جاتا رہا ہے۔ صدیوں پہلے بھی اس ملک کے مختلف علاقہ جات کابل، ہرات، قندھار، غزنی، بدخشاں اور بلخ دنیا میں مشہور تھے۔

    ہندو کش کے اونچے پہاڑوں میں گھرا افغانستان ایک زمین بند ملک ہے۔ اس کے دشوار گزار، پہاڑی اور نیم ہموار راستے بھی غیرملکی افواج کی مہمّات کی ناکامی کی ایک وجہ ہیں۔

    ہمارا یہ پڑوسی ملک خطّے کے دیگر تمام ممالک سے بھی تاریخ و مذہب اور ثقافتی اعتبار سے نہایت گہرے اور قریبی تعلقات رکھتا ہے۔ اس تمہید کے ساتھ ہم آپ کو افغانستان کے شمالی صوبے بلخ کے قدیم اور اہم تاریخی مقامات کے بارے میں بتاتے ہیں جو آپ کی دل چسپی کا باعث بنے گا۔

    دراصل بلخ اپنے تاریخی تجارتی راستے کی وجہ سے اہمیت کا حامل رہا ہے۔ صوبہ بلخ چار ہزار سال سے اس خطّے میں سیاسی، معاشی، مذہبی اور سماجی لحاظ سے اس علاقے کو اہمیت کا حامل بناتا رہا ہے۔

    مؤرخین کے مطابق آج کے افغانستان میں‌ شامل باختر ایک ایسا تاریخی اہمیت کا حامل میدانی علاقہ ہے جو کبھی کئی دیگر علاقوں پر مشتمل ایک ریاست تھی جس کے بادشاہ کا سکندرِ اعظم کی فوج سے آمنا سامنا ہوا اور اس بادشاہ کے قتل کے لگ بھگ پندرہ سو سال بعد چنگیز خان کی فوج نے بھی اس علاقے کو تاراج کیا۔ اس زمانے میں باختر کا دارُالسّلطنت شہر بکترا (بلخ) تھا جو اب افغانستان میں شامل ہے۔

    تاریخ بتاتی ہے کہ 35 سو سال قبل زرتشت مذہب کے بانی بھی اسی علاقے میں رہے اور قیاس کیا جاتا ہے کہ یہیں ان کی وفات ہوئی۔ بعد میں اس خطّے میں اسلام کی روشنی پھیلی تو یہاں کے لوگوں نے بھی اسلام قبول کر لیا۔

    فارسی کے مشہور شاعر اور عظیم بزرگ مولانا رومی بھی یہیں پیدا ہوئے اور کہا جاتا ہے کہ ان کا مدفن بھی بلخ ہی میں واقع ہے۔

    مؤرخین نے کتابوں میں اس علاقے میں مٹّی سے تعمیر کردہ ایک دیوار کا تذکرہ کیا ہے جو بلخ کے زرخیز علاقوں کو صحرا کے اثرات سے محفوظ رکھنے کے لیے بنائی گئی تھی۔ یہ دیوار اس دور کی اہم اور قابلِ ذکر دریافت ہے۔

    اسی بلخ کے شہر دولت آباد کا ایک چھوٹا سا گاؤں زادیان اپنے مٹّی کے ایک خوب صورت اور عظیمُ الشان مینار کی وجہ سے ماہرینِ آثارِ قدیمہ اور مؤرخین کی توجّہ کا مرکز رہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ بارہویں صدی میں تعمیر کردہ اس مینار کو اس وقت کوئی نام نہیں دیا گیا تھا۔

    یہاں سے تھوڑے ہی فاصلے پر چشمۂ شفا کا نخلستان ہے جہاں واقع قربان گاہ میں ایک بہت بڑا اور وزنی پتّھر موجود ہے جس کے بارے میں مشہور ہے کہ یہاں زرتشت بیٹھ کر عبادت کیا کرتے تھے۔ اس پتّھر کے اوپر ایک سوراخ بھی ہے اور خیال کیا جاتا ہے کہ اس کے منہ پر زرتشت تیل ڈال کر آگ لگاتے تھے۔ یہ آگ بھڑکتی رہتی تھی جسے دور دور سے دیکھا جاسکتا تھا۔

  • کیا سورج کے مقابلے میں چاند گرہن تعداد میں زیادہ ہوتے ہیں؟

    کیا سورج کے مقابلے میں چاند گرہن تعداد میں زیادہ ہوتے ہیں؟

    ماسٹر رام چندر برطانوی ہند کی ایک عالم فاضل شخصیت اور ریاضی کے مشہور معلّم تھے جنھوں نے الجبرا اور علمِ مثلث پر کتابیں لکھیں اور اپنے علمی و تحقیقی مضامین کے سبب قارئین میں مقبول ہوئے۔

    رام چندر کی دو تصنیفات کا انگلستان میں بھی چرچا ہوا اور اس وقت کی سرکار نے انھیں گراں قدر علمی کاوش پر انعام و اکرام سے نوازا۔ کائنات اور علمِ ہیئت بھی ماسٹر رام چندر کی دل چسپی کا میدان رہا ہے۔

    انھوں نے اس سلسلے میں ایک رسالے کے توسط سے اپنی تحریر میں چند سوالات اٹھائے تھے اور بعد میں خود ہی اپنے مشاہدہ و تحقیق سے اسے واضح کیا تھا۔ ان کا یہ مضمون ہم آپ کے حسنِ مطالعہ کی نذر کررہے ہیں۔

    واضح رہے کہ ماسٹر رام چندر کا سنِ‌ وفات 1880ء ہے۔ پیشِ نظر تحریر مصنّف کے مخصوص اور منفرد طرزِ بیان کی حامل ہے جو پُرلطف اور زبان کی چاشنی لیے ہوئے ہے۔ مضمون ملاحظہ کیجیے۔

    "اس عاصی نے شائقینِ علمِ ہیئت سے یہ سوال کیا تھا کہ کیا باعث ہے کہ چاند گرہن بہ نسبت سورج گرہن کے تعداد میں زیادہ ہوتے ہیں، لیکن اب تک کسی نے جواب اس سوال کا نہ دیا۔ پس یہ احقر اس کا جواب خود لکھتا ہے….۔”

    "واضح ہو کہ چاند ایک جسم نورانی بالذّات نہیں ہے بلکہ جو روشنی اس پر نظر آتی ہے وہ اس پر آفتاب سے آتی ہے۔ پس ظاہر ہے کہ اگر کوئی شے چاند اور سورج کے مابین آجائے تو چاند پر تاریکی ہو جائے گی اور اس تاریکی کو گرہن کہتے ہیں۔

    پس اب دیکھنا چاہیے کہ چاند گرہن کی صورت میں کون سی شے حائل چاند اور آفتاب میں ہو جاتی ہے۔ واضح ہو کہ شے مذکور کرّۂ زمین ہے کہ جب یہ چاند اور سورج کے بیچ میں آتی ہے، اس وقت روشنی آفتاب کی چاند پر گرنے سے موقوف ہو جاتی ہے۔ اس کا خیال شکل ذیل کے ملاحظہ کرنے سے خوب اچھی طرح سے دل میں آجائے گا۔

    چاند گرہن کے نقشے سے واضح ہے کہ جس وقت زمین ٹھیک مابین آفتاب اور چاند کے ہوتی ہے اس وقت پرچھائیں یعنی سایہ زمین کا اوپر چاند کے گرتا ہے اور چوں کہ زمین نسبت چاند کے بہت بڑی ہے، اس، واسطے اس کا سایہ بھی بڑا ہے۔ یہاں تک کہ جس وقت چاند زمین کے سایہ میں آجاتا ہے تو تھوڑی دیر کے بعد اسے طے کرکے وہ نکلتا ہے اور شکل سے واضح ہے کہ چاند گرہن اس خلقت کو جو اس نصف کرّۂ زمین پر رہتے ہیں، جو سامنے چاند کے ہیں نظر آئے گا یعنی جن کو کہ چاند اس وقت نظرآنا ہوگا ان کو اس کا گرہن بھی دکھائی دے گا۔

    پس یہاں سے یہ معلوم ہوا کہ سارے چاند گرہن نظر آتے ہیں، لیکن سورج گرہن کی صورت میں یہ نہیں ہوتا اور اس کا باعث یہ ہے کہ جس وقت کہ چاند ٹھیک ما بین زمین اور آفتاب کے آتا ہے اس وقت چاند کے حائل ہونے سے روشنی آفتاب کی زمین تک نہیں پہنچتی ہے لیکن چاند ایک چھوٹا کرّہ ہے اور اس کی پرچھائیں یعنی سایہ اس قدر بڑا نہیں ہوتا کہ ساری زمین کو گھیر لے یعنی ساری زمین پر سایہ کردے فقط ایک تھوڑا حصہ کرّۂ زمین کی تاریکی میں آتا ہے اور باقی پر روشنی بدستور قائم رہتی ہے۔

    یہاں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ سورج گرہن سب خلقت کو نظر نہ آوے (آئے) یعنی بعض جائے (جگہ) وہ دکھائی دیتا ہے اور بعض جائے نہیں۔

    اکثر ایسا ہوتا ہے کہ سورج گرہن فقط کسی جائے سمندر میں دکھلائی دے سکتا ہے اور چوں کہ وہاں کوئی آدمی نہیں ہوتا تو اس گرہن کی کسی کو بھی خبر نہیں ہوتی۔ پس معلوم ہوا کہ باعث سورج گرہن کے کم ہونے کا یہ ہے کہ وہ سب مقاموں پر نظر نہیں آتے۔ سورج گرہن کے کم واقع ہونے کی ایک خوب مثال یہ ہے۔

    واضح ہو کہ بادل زمین سے بہت چھوٹے ہوتے ہیں اور اسی واسطے ان کا سایہ ساری زمین پر نہیں ہو سکتا ہے۔ تھوڑی سی دور تک ان کا سایہ ہوتا ہے اور باقی مقاموں سے آفتاب بخوبی نظر آتا ہے اور وہاں دھوپ کھلی ہوتی ہے۔ یہی حال سورج گرہن کا ہے کہ چاند مانند ایک نہایت بڑے بادل کے ہے لیکن تب بھی زمین سے چھوٹا ہے اور اس باعث سے اس کا سایہ آفتاب کو ساری زمین سے نہیں چھپا سکتا ہے یعنی گرہن سورج کا سارے نصف کرّۂ زمین پر نظر نہیں آتا ہے۔”

  • جدوجہدِ آزادی: شدھی اور سَنگَھٹن تحریکوں نے ہندو انتہا پسند ذہنیت کو بے نقاب کیا

    جدوجہدِ آزادی: شدھی اور سَنگَھٹن تحریکوں نے ہندو انتہا پسند ذہنیت کو بے نقاب کیا

    ناکام غدر کے بعد جب ایسٹ انڈیا کمپنی کے گھناؤنے اور پُر فریب کردار کو سمیٹ کر برطانیہ نے ہندوستان کو اپنی کالونی بنایا اور یہاں انگریز راج قائم ہوا تو مسلمان اور ہندو سیاسی و سماجی راہ نما اور اکابرین نے متحد ہوکر انگریزوں کو اپنے وطن سے نکالنے اور اپنی حکومت قائم کرنے کا خواب دیکھنا شروع کیا۔

    اس وقت ہندو مسلم اتحاد کے نعرے نے زور پکڑا، لیکن اس سے قبل کئی واقعات اور سانحات رونما ہو چکے تھے جن سے ثابت ہوتا تھا کہ ہندوستان میں دو بڑی قومیں آباد ہیں جو اپنے مذہب، رہن سہن، روایات اور ثقافت کے اعتبار سے ہر طرح جداگانہ شناخت رکھتی ہیں اور اکٹھے نہیں‌ رہ سکتیں۔

    ہندو مسلم اتحاد کا سنہری خواب تحریکِ خلافت کے دوران ہی ادھورا نظر آنے لگا تھا اور جونہی یہ تحریکِ کم زور پڑی ہندو مسلم فسادات کا ایک طویل اور خوف ناک سلسلہ چل نکلا۔

    1920ء کے بعد ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان ہر قسم کے تعلقات بڑھتی ہوئی کشیدگی کی نذر ہونے لگے۔ اس کشیدگی کی انتہا کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 1923ء میں 11، اگلے سال 18، 1925ء میں 16 اور اس کے ایک سال بعد یعنی 1926ء میں 35 اور اگلے ہی برس 37 افسوس ناک واقعات رونما ہوئے جو ہندو مسلم فسادات کا نتیجہ تھے۔ ہر سال ایسے واقعات بڑھتے رہے جب کہ چھوٹے اور معمولی نوعیت کی تکرار اور جھگڑے عام ہوتے جارہے تھے۔

    تاریخ سے ثابت ہے کہ ہندو شروع ہی سے مسلمانوں کو اپنا مطیع و حاشیہ نشیں بنا کر رکھنے کا خواب دیکھتے آئے تھے جس کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ وہ جس ہندوستان میں‌ رہتے تھے، اس پر صدیوں سے مسلمان حکم رانی کررہے تھے اور دہلی میں ان کا تخت سجا رہا تھا۔

    مغل سلطنت کے کم زور پڑ جانے کے بعد اور انگریزوں کی آمد سے قبل بھی یہاں مختلف چھوٹے بڑے علاقے مسلمان حکم رانوں کے زیرِ‌نگیں تھے اور ریاستوں پر انہی کی حکم رانی تھی۔

    ہندو احساسِ محرومی کا شکار بھی تھے اور خود کو مسلمانوں کا محکوم خیال کرتے تھے جب کہ انھیں مغل دور میں مذہبی اور ہر قسم کی آزادی حاصل تھی۔ ان کی عبادت گاہیں محفوظ تھیں اور وہ اپنے رسم و رواج اور طور طریقوں کے مطابق زندگی بسر کررہے تھے۔

    انگریزوں کی آمد کے بعد مخصوص ذہنیت اور انتہا پسندوں نے ہندو مسلم تعلقات کو خراب کرنے کی کوششیں شروع کیں اور خیال کیا کہ انگریزوں سے ساز باز اور سازشیں کرکے اقتدار حاصل کرسکیں گے۔

    ہندو مسلم تعلقات خراب کرنے کی ابتدا ہندوؤں کی جانب سے ہوئی جنھوں نے پنڈت مدن موہن مالویہ، لالہ لاجپت رائے اور شردھا نند کی قیادت میں سَنگَھٹن اور شدھی تحریکیں شروع کیں۔ سَنگَھٹن کے معنی ایک ساتھ جوڑ کر مضبوطی سے باندھنا تھا۔ اس تحریک کا مقصد ہندوؤں کی تعلیم و تربیت کرنا، انھیں نظم و نسق اور مختلف امور کا ماہر بنانا، اور مخالفین سے اپنا دفاع سکھانا تھا جس کے لیے ایسے اسلحہ کا استعمال بھی سکھایا جاتا جس سے فسادات کی صورت میں مسلمانوں کے خلاف کام لینا مقصود تھا۔ ہندو نوجوانوں کو لاٹھیوں، اینٹوں کے ٹکڑوں اور بنوٹ کا دشمن پر استعمال سکھایا جارہا تھا۔

    دوسری طرف شدھی تحریک کا شور ہونے لگا جس کا مطلب تھا پاک کرنا۔ یعنی وہ لوگ جو اسلام کے ہمہ گیر اور آفاقی نظریات اور اس کی تعلیمات سے متاثر ہوکر ہندو مت ترک کر کے مسلمان ہو گئے تھے انھیں مجبور کرکے دوبارہ ہندو مت میں داخل کر لیا جائے۔

    ان حالات میں ہندو مسلم اتحاد کا نعرہ محض فریب ہی تھا۔ ان دونوں تحریکوں کا مقصد ہندوستان سے مسلمانوں کے وجود کو مٹانا تھا اور اسے بڑے بڑے ہندو راہ نماؤں کی حمایت حاصل تھی۔

    ایسی تحریکوں کے انتہا پسند ہندو لیڈروں نے مسلمانوں کے بارے میں اپنی ذہنیت کا کھلم کھلا اظہار شروع کردیا تھا اور ڈاکٹر مونجے نے اودھ ہندو سبھا کی صدارت کرتے ہوئے کہا کہ ’’جس طرح انگلستان انگریزوں کا، فرانس فرانسیسیوں اور جرمن جرمنوں کا ملک ہے اسی طرح ہندوستان ہندوؤں کا ملک ہے۔‘‘ ہندو چاہتے تھے کہ یا تو مسلمانوں کو ہندوستان سے نکال دیا جائے یا انھیں ہندو مت قبول کرنے پر مجبور کردیا جائے۔

    جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا کہ ہندوستان میں فرقہ وارانہ فسادات وسیع پیمانے پر ہونے لگے اور ان کا دائرہ پھیلتا جارہا تھا اور ہندو مسلمانوں کے خون کے پیاسے ہو رہے تھے، لیکن مسلم زعما بالخصوص قائدِاعظم ان مایوس کن حالات میں بھی ہندو مسلم اتحاد کے لیے کوشاں تھے۔ تاہم جلد ہی انھیں بھی احساس ہو گیا کہ علیحدہ وطن کا حصول ناگزیر ہے۔

    مصوّرِ پاکستان ڈاکٹر علّامہ اقبال کی بات کی جائے تو وہ برطانوی راج میں ہندوستانی آئین کے مطابق مسلمانوں کے لیے جداگانہ طرزِ‌ انتخاب سمیت علیحدہ ریاست کو اُس وقت بھی اہمیت دے رہے تھے جب قائداعظم سمیت دیگر مسلمان راہ نما ہندو مسلم اتحاد کے نعروں کے پیچھے چھپی ہندوؤں کی ذہنیت کا صحیح اندازہ نہیں لگا پائے تھے۔

    علّامہ اقبال نے ایک موقع پر واضح طور پر کہا کہ مسلمانوں کو ہندوستان میں بحثیت مسلمان زندہ رہنا ہے تو ان کو جلد از جلد اپنی اصلاح و ترقی کے لیے سعی و کوشش کرنی چاہیے اور ایک علیحدہ سیاسی پروگرام بنانا چاہیے۔

    بیسویں صدی كے آغاز پر جو حالات اور فسادات سمیت دیگر واقعات رونما ہوئے تو مسلمان قائدین اور اکابرین نے علیحدہ تشخص کی بات کرتے ہوئے الگ سیاسی پلیٹ فارم بنانے كی کوششیں تیز کردیں اور بے شمار قربانیوں کے بعد پاکستان حاصل کیا۔

  • میاں بشیر احمد اور وہ نظمیں جو بانیِ پاکستان کے مثالی کردار اور لازوال قیادت کی غمّاز ہیں

    میاں بشیر احمد اور وہ نظمیں جو بانیِ پاکستان کے مثالی کردار اور لازوال قیادت کی غمّاز ہیں

    ہندوستان کی تاریخ میں‌ آزادی کی تحریک اور علیحدہ وطن پاکستان کے حصول کے لیے پہلی مرتبہ طول و عرض میں پھیلے ہوئے مسلمان جس عظیم مدبّر، سیاست داں اور راہ برِ وقت کی ولولہ انگیز قیادت میں اکٹھے ہوئے تھے، دنیا انھیں ایک ذہین اور نہایت قابل وکیل محمد علی جناح کے نام سے پہلے ہی جانتی تھی۔

    محمد علی جناح جب مسلمانوں کے راہ بَر و قائد بنے تو ان کے رفقا اور قریبی ساتھی ان کے مثالی کردار اور ان کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں سے بھی واقف ہوئے۔ انھیں یقین ہو چلا تھا کہ اب منزل قریب ہے اور قائدِ‌ اعظم کی قیادت میں متحد ہوکر مسلمان جلد علیحدہ وطن حاصل کرلیں گے۔

    اس تمہید کے ساتھ ہم یہاں آزادی کے ایک متوالے کا تذکرہ کررہے ہیں جن کا نام میاں بشیر احمد تھا۔ وہ تحریکِ پاکستان کے سرگرم کارکن تھے اور قائدِ اعظم محمد علی جناح کے معتمد رفقا میں شامل تھے۔

    میاں بشیر احمد کی تحریک اور آزادی کے لیے کوششیں اور اپنی قیادت کے ساتھ محنت، بھاگ دوڑ، قربانیاں اور مسلم لیگ کے لیے خدمات ایک الگ باب ہیں، لیکن وہ ایک ایسے شاعر بھی تھے جن کی نظموں کے ذریعے مسلمانانِ ہند نے جانا کہ خدا نے محمد علی جناح کی صورت میں انھیں کیسا نقشِ تابندہ عطا کیا ہے جو دراصل نشانِ منزل بھی ہے۔

    میاں بشیر احمد بانی پاکستان کے وہ مخلص ساتھی تھے جنھوں نے اپنی بساط سے بڑھ کر ان کا اور مسلم لیگ کا ساتھ دیا۔

    اُس وقت ہندوستان کے مسلمانوں سے قائدِاعظم محمد علی جناح کے کردار اور ان کی شخصیت کا نہایت خوب صورت اور منفرد انداز میں جامع تعارف کروانے والے میاں بشیر احمد کی زندگی کے چند اوراق ہم آپ کے سامنے رکھ رہے ہیں۔

    میاں بشیر احمد کون تھے؟
    ان کا تعلق اس خانوادے سے تھا جس نے تحریکِ آزادی اور قیامِ پاکستان کے لیے بہت سی خدمات انجام دیں۔ میاں بشیر احمد برطانوی ہندوستان کے پہلے مسلمان چیف جسٹس میاں محمد شاہ دین ہمایوں کے فرزند تھے جنھیں شاعرِ مشرق علّامہ اقبال نے اپنی نظم میں خراجِ عقیدت بھی پیش کیا ہے۔ میاں شاہ دین لاہور کی ممتاز سماجی اور ادبی شخصیت تھے اور علاّمہ اقبال کے ادبی سرپرستوں میں سے ایک تھے۔ یوں ایک علمی و ادبی ماحول میں میاں بشیر احمد کی پرورش ہوئی اور تعلیم و تربیت کے بعد انھوں نے خود بھی شاعری کا مشغلہ اختیار کیا۔ انھوں نے ایک ادبی رسالہ بھی نکالا تھا جس کا نام ہمایوں تھا۔

    تحریکِ پاکستان اور علیحدہ وطن کی جدوجہد شروع ہوئی تو میاں بشیر احمد قائدِاعظم کے قریب آگئے اور ان کے وفادار و جاں نثار ساتھیوں میں شمار کیے جانے لگے۔

    میاں بشیر احمد نے قائدِ اعظم کا تعارف کس منفرد اور شایانِ شان انداز سے کروایا؟

    میاں بشیر احمد عمدہ شاعر تھے۔ انھوں نے اپنی نظموں میں قائداعظم کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے ہندوستان کے باسیوں کو بتایا کہ ان کا قائد عزم و ارادے کا پکّا، روشن اور مضبوط کردار کا مالک ہے جس کی ولولہ انگیز قیادت میں اور مسلمانوں کے اتحاد اور اتفاق سے جلد ہمارا خواب پورا ہو گا۔

    یہ کلام آپ نے ضرور سنا ہوگا۔

    ملّت کا پاسباں ہے محمد علی جناح
    ملّت ہے جسم، جاں ہے محمد علی جناح

    یہ میاں بشیر احمد کی مشہور نظم کا ایک شعر ہے۔ قائدِ اعظم کی شخصیت و کردار اور ان کی قیادت کے حوالے سے میاں بشیر احمد کی ایک اور مشہور نظم کا ایک شعر ملاحظہ کیجیے۔

    ملّت ہے فوج، فوج کا سردار ہے جناح
    اسلامیانِ ہند کی تلوار ہے جناح

    یہ وہ نظمیں تھیں جنھیں تحریکی جلسوں میں پڑھا اور سنا گیا اور یہ اشعار ہندوستان کے کونے کونے میں بسنے والے مسلمانوں تک پہنچے اور ان کے دل میں‌ قائدِ اعظم کی عظمت و محبّت جگائی اور ان کی قیادت پر مسلمانوں کا یقین اور اعتماد بڑھایا۔

    قائد اور تحریکِ پاکستان کے لیے مسلمانوں میں جوش و ولولہ پیدا کرنے اور آزادی کے متوالوں کا حوصلہ اور ہمّت بڑھانے کے لیے ان نظموں کو گلوکاروں کی آواز میں ریکارڈ کرکے مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے نشر کیا گیا۔

    قیامِ‌ پاکستان سے قبل 1946ء میں یہ نظمیں ہندوستان بھر سنی گئیں اور ہر جلسے اور تقریب میں آزادی کے متوالوں کی زبان پر جاری رہیں۔ آج بھی میاں بشیر احمد کی یہ نظمیں اسی جوش و جذبے سے سنی جاتی ہیں اور یومِ‌ آزادی پر قائدِ اعظم محمد علی جناح کو خراجِ‌ تحسین پیش کرنے کا ذریعہ اور ان کے لیے قوم کے جذبات اور احساسات کی عکاس ہیں۔

    قیامِ پاکستان کے بعد میاں بشیر احمد کو ترکی میں پاکستان کا سفیر مقرر کیا گیا تھا۔ وہ 1971ء میں وفات پاگئے۔

  • دوستی کیسا ناتا؟ (عالمی یومِ دوستی پر ایک تحریر)

    دوستی کیسا ناتا؟ (عالمی یومِ دوستی پر ایک تحریر)

    دوستی کیسا ناتا؟ دوستی ایسا ناتا جو سونے سے بھی منہگا۔ افشاں احمد کی آواز میں یہ خوب صورت گیت ہماری سماعتوں میں آج بھی تازہ ہے اور ایک سنہری یاد کے طور پر محفوظ ہے۔

    نئے ہزاریے میں آنکھ کھولنے والوں نے بھی شاید یہ گیت سنا ہو جس کے میٹھے اور شیریں بول ہر دل میں اتر جاتے ہیں اور وہ آفاقی پیغام ہم تک پہنچتا ہے جسے آج عالمی یومِ دوستی کی مناسبت سے تازہ کرنے کی ضرورت ہے۔

    ایک دوسرے سے ربط و تعلق، آشنائی، نسبت و سروکار، انسیت اور لگائو اور اسی فطری جذبے اور ضرورت کے تحت آپس میں میل جول کو ہم دوستی کا نام دے سکتے ہیں۔ دیکھا جائے تو پیدائش کے ساتھ ہی انسان ایسے تعلق اور ربطِ باہمی کی بنیاد بھی رکھتا چلا جاتا ہے جو بڑھتی ہوئی عمر کے ساتھ اور سنِ شعور کو پہنچنے پر اس کے اختیار اور خواہش و مرضی کے تابع ہوجاتا ہے اور اسی کو ہم دوستی کا نام دیتے ہیں۔

    تعلق کی اس لڑی میں بالخصوص ہم عمر عزیز و اقارب کے ساتھ پڑوسی، ساتھی طلبا اور زندگی کے مختلف ادوار میں ملنے والے شامل ہوتے چلے جاتے ہیں۔

    دنیا بھر کی طرح آج پاکستان میں بھی دوستی کا عالمی دن منایا جارہا ہے، جس کا مقصد اس خاص تعلق کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہے۔

    کہا جاتا ہے کہ ’ورلڈ فرینڈ شپ ڈے‘ منانے کا باقاعدہ آغاز 1958ء میں پیرا گوائے سے ہوا جو بعد میں دنیا بھر میں منائے جانے لگا، لیکن 27 اپریل 2011ء کو اقوامِ ِمتحدہ نے ہر سال 30 جولائی کو عالمی سطح پر یہ دن منانے کا اعلان کیا۔

    موجودہ دور میں جہاں سوشل میڈیا اور سماجی رابطوں کی ویب سائٹوں کے ذریعے ہم اپنے ملک ہی نہیں دنیا بھر میں مختلف رنگ و نسل، ‌مذہب و ثقافت سے جڑے اجنبی اور انجان لوگوں سے شناسائی پیدا کررہے ہیں اور یہ تعلق یا شناسائی دوستی میں بدل رہی ہے تو اس دن کو باقاعدہ منانے کی اہمیت بھی بڑھ رہی ہے۔

    پُرخلوص اور بے غرض دوست ضرور بنائیے، پیار اور محبّت بانٹیے، خوشی و مسرّت، راحت و آزمائش کی گھڑی میں دوست کا ساتھ دیجیے، لیکن ایک بار اردو کے بڑے شاعر حفیظ ہوشیارپوری کا یہ شعر پڑھ ضرور لیجیے۔

    دوستی عام ہے لیکن اے دوست
    دوست ملتا ہے بڑی مشکل سے!

  • جب راج گھاٹ پر ہر طرف موت کا راج تھا!

    جب راج گھاٹ پر ہر طرف موت کا راج تھا!

    1857ء میں جب ہندوستان کے آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کی رعایا نے انگریزوں سے باقاعدہ لڑائی کا آغاز کیا تو اسے تاجِ برطانیہ سے بغاوت، سرکشی اور بدعہدی قرار دیا گیا اور بغاوت کو کچلنے کے لیے بے دریغ قتلِ عام شروع کردیا گیا۔

    گرفتار ہوجانے والے آزادی کے متوالوں کو ہنگامہ آرائی اور بلوہ کرنے کے الزام میں بدترین تشدّد، قید و بند اور جلاوطنی جھیلنا پڑی۔ انھیں پھانسیاں دی گئیں اور ‘باغی قیادت’ کو نشانِ عبرت بنانے کے لیے توپ دَم کیا گیا۔ غدر میں کتنے ہی لوگ مارے گئے جن میں‌ نابغۂ روزگار شخصیات، عظیم و نادر ہستیاں بھی شامل تھیں۔

    اس تمہید کے ساتھ شیخ امام بخش صہبائی کا تعارف پڑھ لیجیے جس کے بعد ہم موصوف اور ان کے خاندان پر بروزِ غدر ٹوٹ پڑنے والی قیامت کا تذکرہ کریں گے۔

    شیخ امام بخش صہبائی انیسویں صدی کے فارسی زبان و ادب کے ایک قابلِ قدر عالم، شارح اور شاعر تھے۔ عربی پر بھی عبور رکھتے تھے۔ دہلی ان کا وطن تھا۔ ان کی درست تاریخ و سنِ پیدائش تو کسی کو معلوم نہیں، لیکن غالب قیاس یہی ہے کہ انھوں نے 1805ء میں پیدا ہوئے تھے۔ صہبائی زندگی کی 54 (چوّن) بہاریں دیکھ سکے اور غدر میں‌ ابتلا کے بعد فریبِ ہستی سے واقف ہوئے۔

    صہبائی صاحب کے دو بیٹے محمد عبدُالعزیز اور عبدُالکریم اپنے والد کے تابع فرمان اور مذہب پسند بھی تھے، شوق و ذوقِ علم اور سخن فہمی تو ورثے میں ملی تھی۔ یہ دونوں بھی عزیز اور سوز کے تخلّص سے شاعر مشہور تھے۔

    شیخ امام بخش صہبائی نے گو کہ مختصر عمر پائی، مگر فارسی میں نظم و نثر کی لگ بھگ تیس اور اردو زبان میں تین کتابیں تصنیف کیں۔ ان کی کتب نایاب ہیں اور ان کا کوئی سراغ نہیں ملتا۔

    ان کے زمانے میں اگرچہ فارسی کی جگہ اردو لے چکی تھی، لیکن صہبائی نے نثر اور نظم کے لیے فارسی ہی کو اپنایا۔ انھیں اس زبان میں کمال حاصل تھا اور وہ اپنی فارسی دانی کے لیے مشہور تھے۔ انھیں دہلی کالج میں فارسی کا مدرّس مقرر کیا گیا تھا۔

    افسوس کہ اس نادرِ روزگار کا انجام بڑا دردناک ہوا۔ تذکروں میں آیا ہے کہ غدر کے موقع پر ستمبر میں انگریزوں کے ہاتھوں گرفتار ہوئے اور اپنے 21 اعزّہ سمیت بے دردی سے قتل کیے گئے۔

    رام بابو سکسینہ کی مشہور اور مستند کتاب تاریخِ ادبِ اردو کے دوسرے حصّے میں ان کا ذکر موجود ہے۔ رام بابو سکسینہ لکھتے ہیں:

    ’’صہبائی قدیم دلّی کالج میں فارسی اور عربی کے پروفیسر، بہت روشن خیال اور اخلاقی جرأت کے آدمی تھے۔ فارسی میں ان کو کمال حاصل تھا اور اس زمانے میں جب کہ فارسی کا دور دورہ تھا ایک خاص عزّت اور قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے اور ان کی قابلیت اور شہرت کا طلبا کے دل پر بڑا اثر تھا۔ فنِ شعر میں استاد مشہور تھے اور قلعہ کے اکثر شاہ زادے اور متوسلین ان سے اصلاح لیا کرتے تھے۔ متعدد کتابیں ان سے یادگار ہیں۔ زمانۂ غدر میں مارے گئے اور ان کا مکان کھود کر زمین کے برابر کر دیا گیا۔‘‘

    صہبائی کے احباب و رفقا میں مولانا فضلِ حق خیر آبادی، مفتی صدر الدّین خان آزردہ، سر سیّد احمد خان، ذوق، مومن اور غالب شامل تھے اور انھیں بہادر شاہ ظفر کا تقرّب بھی حاصل تھا۔

    مشہور ہے کہ ان کے شاگردوں میں غیر مسلم نمایاں تعداد میں‌ تھے اور ان کی شہادت کو دو دہائیاں گزرنے کے بعد جب ان کے ایک ہندو شاگرد منشی دین دیال نے ان کے علمی اثاثے کی ترتیب و تدوین کا اہتمام کرنا چاہا تو ملال ہوا کہ ان کی بعض تصانیف کا کوئی سراغ سراغ نہ مل سکا اور نہ ہی ان کے مکمل کوائف اور زندگی کے جامع حالات اکٹھے کیے جاسکے۔ جتنی کتابیں مل سکیں انھیں تین جلدوں‌ میں‌ زیورِ طبع سے آراستہ کردیا گیا۔

    امام بخش صہبائیؔ دہلوی سے سَر سیّد احمد خاں نے اپنی مشہور کتاب ’’آثارُ الصّنادید‘‘ کی ترتیب میں مدد لی تھی جس کا اعتراف انھوں نے اپنی کتاب میں تفصیل سے کیا ہے۔ غالبؔ نے بھی فارسی کے کلام میں صہبائی کا نام لیا ہے۔

    امام بخش صہبائیؔ کو صاحب طرز انشا پرداز اور نکتہ بیں محقق کی حیثیت سے بھی پہچانا جاتا تھا۔ وہ علمِ عروض و قافیہ میں ماہر تھے اور اُس دور کے تمام تذکرہ نگاروں اور ادبا نے ان کی اُستادی اور قادرُ الکلامی کا لوہا مانا ہے۔

    صہبائی اور ان کے خاندان کے 21 افراد کو راج گھاٹ (نئی دہلی) میں جمنا کنارے گولیاں مار کر شہید کیا گیا تھا۔

    مولانا صہبائی کے بھانجے مولانا قادر علی بیان کرتے ہیں: ’’میں صبح کی نماز اپنے ماموں مولانا صہبائیؔ کے ساتھ کٹرہ مہر پرور کی مسجد میں پڑھ رہا تھا کہ گورے دَن دَن کرتے آ پہنچے۔ پہلی رکعت تھی کہ امام کے صافے سے ہماری مشکیں کس لی گئیں۔پھانسیوں کی بجائے باغی گولیوں کا نشانہ بن رہے تھے۔ مسلح سپاہیوں نے اپنی بندوقیں تیارکیں۔ ہم تیس چالیس آدمی ان کے سامنے کھڑے تھے کہ ایک مسلمان افسر نے ہم سے آکر کہا کہ موت تمہارے سَر پر ہے گولیاں تمہارے سامنے ہیں اور دریا تمہاری پشت پر ہے۔تم میں جو لوگ تیرنا جانتے ہیں وہ دریا میں کود پڑیں۔ میں بہت اچھا تیراک تھا، مگر ماموں صاحب یعنی مولانا صہبائیؔ اور ان کے صاحب زادے مولانا سوزؔ تیرنا نہیں جانتے تھے۔ اس لیے دل نے گوارا نہ کیا کہ ان کو چھوڑ کر اپنی جان بچاؤں، لیکن ماموں صاحب نے مجھے اشارہ کیا اس لیے میں دریا میں کود پڑا۔ پچاس یا ساٹھ گز گیا ہوں گا کہ گولیوں کی آوازیں میرے کانوں میں آئیں اور صف بستہ لوگ گر کر مر گئے۔‘‘ (1857ء پس منظر و پیش منظر سے)

    اس الم ناک واقعے پر اکبرالٰہ آبادی کہتے ہیں:

    نوجوانوں کو ہوئیں پھانسیاں بے جرم و قصور
    مار دیں گولیاں پایا جسے کچھ زور آور
    وہی صہبائی جو تھے صاحبِ قولِ فیصل
    ایک ہی ساتھ ہوئے قتل پدر اور پسَر

  • امریکا میں سابق صدور کو کتنی اہمیت دی جاتی ہے؟

    امریکا میں سابق صدور کو کتنی اہمیت دی جاتی ہے؟

    یہ درست ہے کہ امریکا ہر لحاظ سے دنیا پر اپنی برتری ثابت کرنے کے جنون میں‌ مبتلا ہے۔

    امریکا دنیا کی واحد سپر پاور ہونے کا دعویٰ دار تو ہے ہی، لیکن خود کو جمہوریت کا ‘چیمپئن’ بھی سمجھتا ہے جسے اس کے مخالف ترقّی یافتہ اور طاقت وَر ممالک تسلیم نہیں کرتے، مگر ریاست ہائے متحدہ امریکا کے جمہوری نظام اور طرزِ حکومت و سیاست میں چند ایسی خوبیاں بھی ہیں جو لائقِ توجّہ اور دنیا بالخصوص ترقّی پذیر ممالک کے لیے مثال ہیں۔

    پاکستان جیسے ممالک میں‌ ‘جمہوریت’ تو ہے، مگر ملکی تاریخ میں جمہوریت کے لطف و حُسن کا مظاہرہ اور اس کی مثال شاذ ہی ملتی ہے۔ یہ بات آپ کی دل چسپی اور توجّہ کا باعث بنے گی کہ امریکا میں سابق صدور کو نہ صرف سیاسی بصیرت کا حامل اور دانش مند تصوّر کیا جاتا ہے بلکہ ملکی سلامتی اور قوم کے وسیع تر مفاد میں‌ ان کے مشوروں کو بھی اہمیت دی جاتی ہے۔

    ملکی اور عالمی سطح کے مختلف امور پر سابق صدور سے سیاسی مشاورت اور ان کے تجربے سے استفادہ کرنا امریکی جمہوریت کا حُسن ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہاں سابق صدور کو بھی قومی سلامتی کے امور پر باخبر رکھتے ہوئے اس ضمن میں‌ باقاعدہ بریفنگ دی جاتی ہے۔

    امریکا کے جمہوری کلچر میں ضرورت محسوس کرنے پر صدر کی جانب سے متعلقہ عملہ سابق صدر سے رابطہ کرکے کسی بھی اہم معاملے میں‌ مشاورت کرسکتا ہے۔ یہی نہیں‌ بلکہ ملکی مفاد میں سابق صدر ضروری سمجھے تو امریکی صدر سے رابطہ اور ملاقات کرکے بھی اپنی رائے اور مشورہ اس تک پہنچا سکتا ہے۔

  • راجا دین دیال: متحدہ ہندوستان کا ماہر فوٹو گرافر

    راجا دین دیال: متحدہ ہندوستان کا ماہر فوٹو گرافر

    فوٹو گرافی ایک آرٹ ہے۔ ایک زمانہ تھا جب متحدہ ہندستان میں‌ کیمرے کا تصوّر تک نہ تھا اور مناظرِ فطرت ہوں یا پورٹریٹ کے لیے لوگ مصوّر کے محتاج ہوتے تھے۔

    کیمرا ایجاد ہوا تو تصویر کھینچنا آسان ہو گیا، لیکن اس زمانے میں‌ یہ مشین اور ٹیکنالوجی بہت محدود تھی۔ اس وقت کیمروں سے تصویر بنانا اور پھر ان کی ڈویلپنگ کا عمل خاصا محنت اور وقت طلب ہوتا تھا۔ کیمرے کیا تھے، ایک بڑا سا ڈبّا ہوتا تھا، جس سے تصویر کشی کے وقت ایک مخصوص آواز کے ساتھ تیز روشنی آنکھوں‌ پر پڑتی تھی۔ کئی دن انتظار کے بعد موٹے سے مخصوص کاغذ پر تصویر (عکس) ہاتھ میں‌ آتی تھی۔

    اس ایجاد کے حوالے سے کچھ ترقّی ہوئی تو باقاعدہ رِیل والے کیمرے آگئے جن میں مخصوص تعداد میں تصاویر اتارنے کے بعد انھیں‌ اکٹھا دھلوانے کی سہولت ہوگئی۔ یہ تصاویر رنگ و نور کے توازن کے ساتھ نسبتاً صاف ہوتی تھیں۔ اس کے بعد ڈیجیٹل کیمروں کا دور آیا اور آج موبائل فونز نے گویا سب کچھ بدل کر دیا ہے۔ اب ہر شخص فوٹو گرافر ہے، مگر پروفیشنل فوٹو گرافی ایک الگ بات ہے اور کی آج بھی بہت اہمیت ہے۔

    راجا دین دیال کا نام بہت کم لوگوں نے سنا ہو گا جو متحدہ ہندوستان کے ایک پروفیشنل فوٹو گرافر تھے۔

    وہ 1844ء میں‌ میرٹھ کے علاقے سردھنا کے ایک صرّاف خاندان میں پیدا ہوئے۔ تاہم خاندانی پیشہ اپنانے کے بجائے انجینئرنگ کی تعلیم اور فنّی تربیت کے حصول کے لیے کالج میں‌ داخلہ لیا۔ 1866ء میں‌ تعلیم مکمل کی اور اندور شہر کے ڈپارٹمنٹ آف ورکس، سیکریٹریٹ آفس میں ملازم ہوگئے۔

    اس زمانے میں‌ ہندوستان میں‌ اکثریت کیمرے سے نامانوس اور یہ ان کے لیے ایک کرشماتی مشین تھی، لیکن فنّی تعلیم سے بہرہ مند دین دیال کے لیے یہ مشین کسبِ معاش کے ساتھ شہرت کا وسیلہ بنی۔

    راجا دین دیال نے 1870ء کے وسط میں معاوضہ لے کر باقاعدہ فوٹو گرافی شروع کی اور اس غرض سے مختلف شہروں‌ میں‌ فوٹو اسٹوڈیو بھی قائم کیے۔ وہ اس سے قبل 1885ء میں‌ وائسرائے ہند کے لیے فوٹو گرافر کی حیثیت سے ذمہ داریاں‌ انجام دے چکے تھے جب کہ حیدرآباد دکن کے چھٹے نظام میر محبوب علی خان نے انھیں‌ اپنا کورٹ فوٹوگرافر مقّرر کیا تھا۔ اسی آصف جاہی فرماں روا نے انھیں راجا بہادر مصوّر جنگ کے خطاب سے بھی نوازا تھا۔

    اُس زمانے میں‌ فوٹو گرافی ایک آرٹ سے کم نہیں‌ تھی جس میں مہارت کی بنیاد پر راجا دین دیال کو ملکہ وکٹویہ کی جانب سے باقاعدہ سند جاری کی گئی۔ یہ 1897ء کی بات ہے جب تک وہ شاہی خاندان اور ہندوستان میں انگریز سرکار کے لیے متعدد تقاریب اور اہم مواقع پر اپنی خدمات پیش کرچکے تھے۔

    راجا دین دیال نے سب سے پہلے ریاست اندور کے شاہی خاندان کے لیے فوٹو گرافر کے طور پر خدمات انجام دی تھیں‌ اور اسی حوالے سے ان کا نام اور کام جب ایک انگریز عمل دار سر ہنری ڈیلے تک پہنچا تو وہ اسے سراہے بغیر نہ رہ سکا اور دین دیال کی بہت حوصلہ افزائی کی۔

    متحدہ ہندوستان کے اس فوٹو گرافر کی تصاویر اور اپنے کام میں‌ مہارت کا چرچا ہوا تو مقامی راجا اور فرماں روا، امرا اور انگریز سرکار بھی اس کی خدمات حاصل کرنے لگے راجا دین دیال نے انگریز گورنر جنرل کے وسطی ہند کے دورے کو بھی کیمرے کی آنکھ سے دیکھا اور مختلف لمحات کو تصویر کیا۔

    1868ء میں دین دیال نے لالا دین دیال اینڈ سنز کے نام سے اپنا اسٹوڈیو بنایا اور اس کے تحت سرکاری سطح پر ہندوستان کے منادر، مختلف تاریخی عمارات اور پُرفضا مقامات کی تصاویر کھینچیں۔ اس فوٹو گرافر نے سکندر آباد کے علاوہ 1870ء میں‌ اندور شہر جب کہ 1896ء میں‌ بمبئی میں‌ بھی اسٹوڈیو قائم کیا۔

    1875ء میں برطانیہ کے شاہی خاندان کی ہندوستان آمد پر انھوں نے فوٹو گرافر کی حیثیت سے تقریبات اور شاہی خاندان کی زندگی کے کئی لمحات کو عکس بند کیا۔ انھوں نے نہ صرف سیاسی اور عوامی تقاریب کے دوران عکّاسی کی بلکہ شاہی محلّات، باغات اور مختلف عمارتوں کو بھی اپنے کیمرے میں قید کیا تھا۔ شاہانِ وقت اور والیانِ ریاست کے علاوہ انھوں نے متعدد مشہور مقامات اور شخصیات کی تصاویر محفوظ کیں۔

    دین دیال نے 1880ء کے آغاز پر سر لیپل گریفن کے ساتھ بھی فوٹو گرافر کی حیثیت سے وقت گزارا۔ انھوں‌ نے ہندوستان کے تاریخی مقامات اور آثارِ قدیمہ کا دورہ کیا تھا اور اس موقع پر جو 86 تصاویر ”یادگارِ وسطی ہندوستان” کے نام سے محفوظ کی گئی تھیں، آج بھی میوزیم میں‌ موجود ہیں۔

    سرکاری ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعد 1885ء میں‌ راجا دین دیال نے حیدرآباد دکن کے چھٹے نظام اور 1897ء میں‌ ملکہ وکٹوریہ کے فوٹو گرافر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔

    راجا دین دیال کے کیمرے سے کھینچی گئیں نادر اور یادگار تصاویر نہ صرف بھارت بلکہ برطانیہ میں بھی شاہی میوزیم میں محفوظ ہیں‌ اور دنیا کے مختلف ممالک میں ان کی خصوصی طور پر نمائش کا اہتمام کیا جاتا ہے۔

  • خاتون صحافی جس نے 72 دن میں‌ دنیا کے گرد چکّر لگانے کا ریکارڈ بنایا

    خاتون صحافی جس نے 72 دن میں‌ دنیا کے گرد چکّر لگانے کا ریکارڈ بنایا

    یہ 1880ء کی بات ہے جب امریکی شہر پٹسبرگ کے مشہور اور کثیرالاشاعت روزنامہ "پٹسبرگ ڈسپیچ” میں‌ ایک مضمون شایع ہوا جو عورت ذات سے متعلق مصنّف کے دقیانوسی خیالات اور روایتی سوچ کا عکّاس تھا۔

    یہ مضمون الزبتھ کوکرن سیمین کی نظر سے بھی گزرا جو اس شہر میں‌ نووارد تھی۔ مضمون نگار کا کہنا تھاکہ کسی بھی معاشرے میں بہترین اور مثالی عورت وہی ہوتی ہے، جو شادی کے بعد بچّے پیدا کرے اور ان کی پرورش کرنے کے ساتھ ساتھ گھر داری میں بھی اچّھی ثابت ہو۔

    الزبتھ کو یہ تحریر فضول خیالات اور احمقانہ تصوّرات کا مجموعہ لگی جس کے بعد اس نے اخبار کے مدیر کو فرضی نام سے ایک خط لکھا۔

    اس نوجوان لڑکی نے مضمون کے مندرجات پر غم و غصّے کا اظہار کرتے ہوئے عورت کے فرائض، اس کی گھریلو ذمہ داریوں‌ اور معاشرے میں‌ اس کی اہمیت اور کردار کے حوالے سے اپنے خیالات مدیر تک پہنچا دیے۔

    Lonely Orphan Girl (تنہا یتیم لڑکی) کے قلمی نام سے خط پڑھ کر اخبار کے مدیر جارج میڈن بہت متاثر ہوئے۔ انھوں نے اخبار ہی کے ذریعے اس لڑکی کو پیغام دیا کہ وہ ان سے رابطہ کرے۔ یوں‌ ان کی ملاقات ہوئی جس میں‌ جارج میڈن نے اس کے خیالات اور طرزِ تحریر کو بھی سراہا اور اخبار کے لیے مزید مضامین لکھنے پر اصرار کیا۔ یوں‌ الزبتھ نے باقاعدہ مضمون نگاری شروع کی اور پھر عملی صحافت میں‌ قدم رکھ دیا۔

    وہ اپنے قلمی نام نَیلی بِلے (Nellie Bly) سے پہچانی گئی۔ اس زمانے میں‌ خواتین قلمی نام سے لکھا کرتی تھیں‌ اور الزبتھ نے بھی مدیر کے مشورے سے قلمی نام اپنایا تھا۔

    اس کا پہلا مضمون، ’’دی گرل پزل‘‘ (The Girl Puzzle) کے عنوان سے جارج میڈن تک پہنچا تو اس بار بھی وہ متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ اس مضمون کی اشاعت کے ساتھ ہی جارج نے الزبتھ کو اخبار میں کُل وقتی ملازمت کی پیش کش کردی جو اس نے قبول کرلی۔

    عملی صحافت سے منسلک ہونے کے بعد تحقیقاتی رپورٹر کی حیثیت سے اس نے بڑا نام کمایا۔ وہ خواتین اور فیشن سے متعلق صفحے کی ذمہ دار تھی اور مضمون نگاری کے ساتھ تحقیقاتی رپورٹنگ بھی کرنے لگی، لیکن اس کے لیے نَیلی بِلے نے جو راستہ اختیار کیا وہ سب سے جدا تھا۔ وہ اپنے مضامین اور خبر کے لیے بھیس بدل کر حقائق اور معلومات اکٹھا کرنے لگی جس نے اسے اپنے شعبے میں‌ منفرد اور نمایاں‌ کیا۔

    نَیلی بِلے نے مزدور پیشہ اور کارخانوں کی ملازم عورتوں کے ابتر حالات کو موضوع بنایا۔ اس نے کارخانوں میں مختلف کام کرنے والی عورتوں‌ کے حالات پر تحقیقی اور جامع مضامین کا ایک سلسلہ تحریر کیا، جس پر سرمایہ دار اور کارخانوں کے مالکان اس کے خلاف ہو گئے اور ان کی شکایات پر اس کے قلم کو مخصوص موضوعات تک محدود اور پابند کردیا گیا، تب اس نے بطور غیر ملکی نامہ نگار کام کرنے کا فیصلہ کیا۔

    اس کے بعد وہ اپنی ایک تحقیقاتی رپورٹ کی تکمیل اور مہم جُوئی کی غرض سے دنیا کے گرد چکّر لگانے کے ارادے سے نکلی۔ اس نے 72 دن میں اپنا سفر مکمل کیا جو ایک ریکارڈ تھا۔ اسی کے ساتھ نَیلی بِلے نے پاگل کا بہروپ بھر کر ایک ذہنی بیماری کے ادارے سے متعلق معلومات بھی اکٹھی کیں اور یہ اس کی وجہِ شہرت بنا۔

    نَیلی بِلے نے 1864ء میں امریکا میں آنکھ کھولی، وہ کم عمر تھی جب والد دنیا سے رخصت ہوگئے اور والدہ نے نئے شہر میں‌ سکونت اختیار کرلی جہاں اس نے عملی زندگی کا آغاز کیا۔ وہ صحافی اور مصنّف ہی نہیں صنعت کار، موجد اور سماجی خدمت گار بھی تھی۔ 1922ء میں نَیلی بِلے کا انتقال ہوگیا تھا۔

    لڑکپن تک اہلِ خانہ اور حلقۂ احباب اسے "پنکی” کی عرفیت سے پکارتے رہے۔ گلابی رنگ اسے شروع ہی سے بہت پسند تھا، وہ زیادہ تر اسی رنگ کے ملبوسات زیبِ تن کرتی تھی، مگر سیماب صفت اور پُرجوش الزبتھ نے نوجوانی میں اپنی اس عرفیت کو ترک کردیا۔ اب وہ ایک سنجیدہ، متین اور نفیس خاتون کے طور پر اپنا تعارف کروانا چاہتی تھی۔ وہ سمجھتی تھی کہ یہ عرفیت اس کی شخصیت کو دھندلا رہی ہے۔ اس نے اپنا "سَر نیم” بھی تبدیل کرلیا۔

    بعد کے برسوں میں قسمت اس پر مہربان ہوئی اور اس نے واقعی ایک باصلاحیت اور قابل لڑکی کے طور پر خود کو منوایا جس کا کام نہایت سنجیدہ اور اہم نوعیت کا تھا، وہ عورتوں کے حقوق اور ان سے ناانصافیوں‌ کے خلاف اپنے قلم کے ذریعے آواز بلند کررہی تھی۔ اس نے سچّ لکھا اور حقائق و معلومات تک رسائی کے لیے اپنی زندگی بھی خطرے میں‌ ڈالی۔ نَیلی بِلے امریکا میں تحقیقاتی صحافت کے اوّلین ناموں‌ میں سے ایک ہے۔

  • یورپی ملک بلغاریہ کی بنیا باشی مسجد جو سلطنتِ عثمانیہ کی یادگار ہے

    یورپی ملک بلغاریہ کی بنیا باشی مسجد جو سلطنتِ عثمانیہ کی یادگار ہے

    بلغاریہ کبھی سلطنتِ عثمانیہ کے زیرِ نگیں‌ اور جنوب مشرقی یورپ میں خطّۂ بلقان کا حصّہ تھا۔ آج یہ جمہوریہ بلغاریہ کے نام سے دنیا کے نقشے پر موجود ملک ہے جس کا دارُالحکومت صوفیہ ہے۔

    بلغاریہ کی سرحدیں شمال میں رومانیہ، مغرب میں سربیا، مقدونیہ اور جنوب میں یونان اور ترکی سے ملتی ہیں۔

    عثمانی سلاطین نے اپنے دور میں‌ یہاں کئی محلّات، پُل، سرائے، گزرگاہیں اور دیگر تعمیرات کروائی تھیں جو ترک طرزِ تعمیر کا شاہ کار اور اس دور کی خوب صورت یادگار ہیں۔ اسی زمانے میں بلغاریہ میں‌ مساجد بھی تعمیر کی گئیں‌ جن میں سے ایک دارُالحکومت صوفیہ میں "بنیا باشی مسجد” (Banya Bashi Mosque) کے نام سے موجود ہے۔

    خلافتِ‌ عثمانیہ کے زوال اور خطّے میں آزاد ریاستوں کے قیام کے بعد یہاں اس دور کی مساجد اور دیگر عمارتوں کی حیثیت یا تو تبدیل کردی گئی یا ان کا نام و نشان مٹا دیا گیا، لیکن صوفیہ کی یہ واحد قدیم مسجد آج بھی قائم ہے اور اس کی مذہبی حیثیت بھی برقرار ہے۔

    بنیا باشی کو یورپ کی قدیم مساجد میں شمار کیا جاتا ہے جو 1576ء میں تعمیر کی گئی تھی۔ اس وقت صوفیہ سلطنتِ عثمانیہ کا حصّہ تھا۔ بلغاریہ پر لگ بھگ پانچ صدیوں تک عثمانی سلاطین نے حکم رانی کی تھی۔

    صوفیہ کی اس مسجد کا نقشہ اور ڈیزائن عثمانی دور کے مشہور اور ماہر معمار سنان پاشا کا بنایا ہوا تھا۔ بنیا باشی مسجد کا منفرد طرزِ تعمیر اپنی جگہ لیکن اس کی ایک اہم خصوصیت یہ تھی کہ اسے قدرتی گرم چشموں کے اوپر بنایا گیا تھا۔

    اس مسجد کا وسیع گنبد اور بلند مینار اسے اپنے طرزِ‌ تعمیر میں‌ منفرد بناتے ہیں اور یہی اس کی شہرت کا باعث بھی ہے۔

    اس مسجد کے معمار سنان پاشا اناطولیہ کے ایک عیسائی جوڑے کے گھر پیدا ہوئے تھے، جنھوں‌ نے بعد میں استنبول ہجرت کی اور یہاں اسلام قبول کیا۔ انھوں نے مختلف ترک حکم رانوں کا دور دیکھا اور ان کے حکم پر ترکی اور سلطنتِ‌ عثمانیہ کے زیرِ‌نگیں مختلف علاقوں میں‌ بطور ماہر معمار خدمات انجام دیں۔

    بلغاریہ میں‌ چند دہائیوں قبل تک مسلمانوں نے مذہبی بنیادوں‌ پر کئی پابندیوں‌ کا سامنا کیا اور ان کے مذہبی تشخص کو خطرہ رہا، لیکن اب شہروں اور دیہات میں‌ مساجد کی تعمیر کا سلسلہ شروع ہوا ہے اور مسلمان اقلیتی حقوق کے تحت اپنے اخبار و رسائل کی اشاعت اور ان کے اجرا کی اجازت رکھتے ہیں۔

    بلغاریہ میں عثمانی عہد کی یادگار بنیا باشی مسجد کے تذکرے کے ساتھ اگر ہم بلقان اور اس خطّے کی تاریخ کو جاننے کی کوشش کریں‌ تو معلوم ہو گا کہ ‘بلقان’ ترکی زبان کا لفظ ہے۔ یہ لفظ پہاڑیوں کے معنیٰ‌ میں‌ استعمال ہوتا ہے۔ اس علاقے کو ترک وراثت کا حصّہ کہا جاسکتا ہے۔

    چودھویں صدی عیسوی تک یہاں‌ ہنگری کے بادشاہ کا راج تھا۔ ترک فوجوں نے خطۂ بلقان کے اس حکم راں کو شکست دے کر 1463ء میں بوسنیا کو سلطنتِ عثمانیہ میں شامل کیا اور یوں‌ یہاں اسلامی دور کا آغاز ہوا۔

    یورپی مؤرخین بھی تسلیم کرتے ہیں‌ کہ اس خطّے میں‌ ترکوں کی حکم رانی کے بعد علم و ادب کو فروغ ملا اور یہاں‌ مدارس اور جامعات قائم کی گئیں۔ ترکوں نے اس خطّے میں مذہبی رواداری کو بھی فروغ دیا۔ انھوں‌ نے یہاں مساجد ہی نہیں‌ تعمیر کروائیں‌ بلکہ یتیم خانے، لائبریریاں اور مختلف عالی شان عمارتیں بھی بنوائیں‌ جو ترک طرزِ‌ تعمیر کا شاہ کار ہیں۔

    سلطنتِ عثمانیہ کے کم زور پڑنے کے بعد 1878ء میں خطۂ بلقان سے ترکوں کی حکومت بھی ختم ہوگئی۔