Author: عارف حسین

  • مشہور جہاز راں ابنِ ماجد کو عربوں کا جان ہملٹن کیوں کہتے ہیں؟

    مشہور جہاز راں ابنِ ماجد کو عربوں کا جان ہملٹن کیوں کہتے ہیں؟

    ایک زمانہ تھا جب طویل مسافت طے کرنے اور دور دراز کے ملکوں تک پہنچنے کا واحد ذریعہ بحری جہاز ہوتے تھے۔ یہ بحری جہاز جہاں مسافروں کو ان کی منزل تک پہنچاتے، وہیں تجارتی مقاصد کے لیے بھی استعمال ہوتے۔ ایسے ہی ایک بحری جہاز کا ناخدا شہاب الدین احمد ابنِ ماجد تھا۔

    یہ پندرھویں صدی عیسوی کا ایک عرب جہاز راں تھا جسے بحری راستوں اور جغرافیہ کا ماہر کہا جاتا ہے۔ اس عرب جہاز راں کے بارے میں مشہور ہے کہ اس نے مشہور پرتگالی مہم جُو اور قزاق واسکوڈے گاما کو اس کی ایک سمندری مہم کے لیے ہندوستان کا راستہ بتایا تھا۔ تاریخ میں عرب جہاز راں ابنِ‌ ماجد کی واسکوڈے گاما سے ملاقات اور سمندری مہم میں اس کی راہ نمائی کا تذکرہ ضرور موجود ہے، لیکن ابنِ ماجد کی اسلامی دنیا میں وجہِ شہرت اس کی وہ تصنیف ہے جو کتابُ الفوائد کے نام سے منظرِ عام پر آئی تھی۔

    عرب جہاز راں اور مصنّف نے اپنے علم، تجربات اور مشاہدات کی بنیاد پر ایک ایسی کتاب تصنیف کی تھی جس میں بحرِ ہند، بحرِ قلزم، خلیجِ فارس اور مجمعُ الجزائر میں جہاز رانی کے لیے راہ نمائی کی گئی ہے اور کئی مفید باتیں درج ہیں۔ اہلِ یورپ ابنِ ماجد کی تصنیف اور اس کی معلومات کے معترف ہيں۔ اس مسلمان جہاز راں کو عربوں کا جان ہملٹن بھی کہا جاتا ہے۔

    ابنِ ماجد کا سنِ پیدائش 1432ء بتایا جاتا ہے۔ وہ 1500 عیسوی میں دنیا سے رخصت ہوگیا تھا۔

    ابنِ ماجد کی تصنیف کردہ کتب کی تعداد 38 بتائی جاتی ہے۔ مؤرخین کے مطابق اس کی اکثر کتب فلکیات، بحریات اور جہاز رانی کے موضوعات کا احاطہ کرتی ہیں۔

    ایک فرانسیسی مستشرق فیراں کے مطابق جہاز رانی اور سمندری علوم پر ابنِ ماجد نے جدید انداز میں بہت اہم اور مفید معلومات اکٹھا کی ہیں۔

  • مرزا سودا، جس سے خفا ہوجاتے، اس کے لیے مصیبت ہوجاتی تھی

    مرزا سودا، جس سے خفا ہوجاتے، اس کے لیے مصیبت ہوجاتی تھی

    مرزا مُحمّد رفیع سوؔدا کے باپ دلّی میں تجارت کرتے تھے اور اُن کی گنتی وہاں کے دولت مندوں میں ہوئی تھی، اِس لیے سوؔدا نے اچھّی تعلیم پائی۔ اور خوش حال زندگی بسر کی۔

    دلّی کی حالت اچھّی نہیں تھی، مگر سوؔدا کو اتنی پریشانی نہیں تھی۔ ان کے تعلقات بادشاہ سے بھی تھے اور بڑے بڑے امیروں سے بھی، مگر جب دلّی رہنے کے قابل نہیں رہ گئی تو وہ بھی نکلے اور فرخ آباد اور ٹانڈہ کے نوابوں کے یہاں چلے گئے جہاں اُن کی بہت عزّت ہوئی۔

    لکھنؤ میں بھی سوؔدا کی آؤ بھگت ہوئی۔ یہاں کے شاعروں سے اِن کے مقابلے بھی ہوئے اور ایک دوسرے کی ہجویں بھی خوب لکھی گئیں۔ سوؔدا نے لکھنؤ ہی میں 1781 میں انتقال کیا، وہ ہر قسم کی شاعری میں کمال رکھتے تھے۔ غزل، مثنوی، قصیدہ، مرثیہ، ہجو، رُباعی، پہیلیاں، اُن کے دیوان میں سبھی چیزیں موجود ہیں، لیکن اُن کو سب سے زیادہ کمال قصیدہ، ہجو اور مرثیہ لکھنے میں حاصل تھا۔

    ان کی غزلیں بھی بہت اچھّی ہوتی تھیں، لیکن اتنی دل کش نہیں جتنی میرؔ اور دردؔ کی غزل اور اس کے لیے جیسی سادہ زبان، گداز سے بھری ہوئی طبیعت اور عاشقانہ کیفیت کی ضرورت ہے، وہ سوؔدا کے یہاں اتنی نہیں تھی۔ قصیدے البتہ وہ شان دار لکھتے تھے۔ ہجویں زہر میں بُجھی ہوئی ہوتی تھیں جس کے پیچھے پڑ جاتے تھے اس کے لیے مصیبت ہو جاتی تھی۔

    کہا جاتا ہے کہ ان کا ایک ملازم تھا جس کا نام غنچہ تھا، وہ ہر وقت قلم دان لیے ساتھ رہتا تھا۔ جب کسی سے خفا ہوتے تو کہتے تھے "لانا تو غنچہ میرا قلم دان، ذرا اس کی خبر لے لوں!” مگر یاد رکھنا چاہیے کہ ان ہجوؤں میں محض لوگوں کی بُرائیاں نہیں ہوتی تھیں بلکہ اس زمانے میں جو پریشانی، بیکاری، بد اخلاقی اور غریبی تھی، ان سب کا بیان بھی دل چسپ مگر غم ناک طریقے پر ہوتا گیا۔ ہنسی ہنسی میں رونے کی باتیں ہوتی تھیں، اِسی طرح ان کے مرثیے بھی بہت اچھّے اور اثر کرنے والے ہوتے تھے۔ ان تمام باتوں کو سامنے رکھا جائے تو یقیناً یہ ماننا پڑتا ہے کہ وہ اردو کے بہت بڑے شاعر تھے۔

    سودا کے چند اشعار ملاحظہ کیجیے۔

    کیفیتِ چشم اس کی مجھے یاد ہے سوداؔ
    ساغر کو مرے ہاتھ سے لیجو کہ چلا میں

    فکر معاش، عشقِ بتاں، یادِ رفتگاں
    اس زندگی میں اب کوئی کیا کیا، کِیا کرے

    سوداؔ خدا کے واسطے کر قصّہ مختصر
    اپنی تو نیند اڑ گئی تیرے فسانے میں

    دل کے ٹکڑوں کو بغل بیچ لیے پھرتا ہوں
    کچھ علاج اس کا بھی اے شیشہ گراں ہے کہ نہیں

    گُل پھینکے ہے اوروں کی طرف بلکہ ثمر بھی
    اے خانہ بر اندازِ چمن کچھ تو ادھر بھی

  • ویلما روڈولف: اپاہج لڑکی جو زندگی کی دوڑ میں سب سے آگے نکل گئی

    ویلما روڈولف: اپاہج لڑکی جو زندگی کی دوڑ میں سب سے آگے نکل گئی

    بعض لوگ زندگی میں بہت دشواریاں اور سختیاں جھیلتے ہیں۔ وہ کئی کٹھن اور صبر آزما مراحل سے گزرنے کے بعد ایک روز خاموشی سے مٹی میں مل جاتے ہیں۔

    ان میں وہ بھی شامل ہیں جنھیں غربت اور تنگ دستی کے ہاتھوں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور وہ بھی جو مالی مسائل کے ساتھ ساتھ مختلف بیماریوں اور جسمانی معذوری کا بھی شکار ہوتے ہیں۔ اگر ہم سے کوئی بھی حالات کی سختیوں اور مسائل کے انبار کے باوجود آگے بڑھنے کی ٹھان لے اور اپنی منزل کا تعین کرکے سفر شروع کردے تو اس کے اندر توانائی، حوصلہ اور وہ لگن اور جوش و ولولہ پیدا ہوجاتا ہے جو اسے حالات سے پنجہ آزمائی اور طوفانوں کا مقابلہ کرنے کے قابل بنا دیتا ہے اور ایک وقت آتا ہے جب وہ اپنے غیر معمولی اور حیرت انگیز کارناموں سے دنیا کو متوجہ کر لیتا ہے۔

    ویلما روڈولف (Wilma Glodean Rudolph) ایک ایسی ہی لڑکی تھی جس نے معمولی گھرانے میں آنکھ کھولی۔ اس کے والد نے دو شادیاں کی تھیں اور ان کی 22 اولادوں میں ویلما کا نمبر بیسواں تھا۔ والد ریلوے میں دوسروں کا بوجھ ڈھوتے تھے۔ گزر بسر مشکل تھی، وقت ملتا تو اضافی آمدن کے لیے کوئی بھی کام کرنے کو تیّار ہو جاتے۔

    ویلما کا سنِ پیدائش 1940ء اور وطن امریکا ہے۔ وہ پانچ سال کی تھی جب پولیو وائرس نے اسے اپنا نشانہ بنایا۔ پولیو کے سبب اس بچّی کی بائیں ٹانگ متاثر ہوئی اور اس کا پیر مفلوج ہوگیا۔ وہ چلنے پھرنے سے قاصر تھی۔ ڈاکٹروں نے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ وہ کبھی نہیں چل پائے گی۔ اس کے ناتواں پیر کو مصنوعی سہارے سے چلنے کے قابل بنایا گیا تھا۔ وہ نو برس کی تھی تو اسے مخصوص جوتوں کے استعمال کا مشورہ دیا گیا۔

    ویلما دوسرے بچّوں کو دوڑتے بھاگتے دیکھتی تھی تو رنجیدہ ہوجاتی اور اس کا دل بھر آتا۔ وہ دوڑنا چاہتی تھی۔ تیز، بہت تیز اور زندگی کی ہر دوڑ میں اوّل آنا چاہتی تھی۔ یہ اس کا خواب تھا یا اس معذوری کے نتیجے میں پیدا ہونے والا احساسِ محرومی، لیکن اس نے اپنی اس کم زوری کو اپنی طاقت بنایا اور واقعی دنیا کی سب سے تیز رفتار لڑکی بننے کا اعزاز اپنے نام کیا۔

    ایک روز اس لڑکی نے پختہ ارادہ کیا کہ وہ اپنے پیروں پر چلے گی اور کچھ کر کے دکھائے گی۔ اس کے سامنے ایک مقصد تھا جس نے اس کے اندر ایک نئی روح پھونک دی تھی، وہ تکلیف اور درد کے باوجود گھر میں چلنے کی مشق کرنے لگی۔ اس کا حوصلہ سلامت رہا اور جنون بڑھتا چلا گیا جس نے ایک روز اسے بغیر سہارے کے چلنے پھرنے کے قابل بنا دیا۔

    1952ء جب وہ بارہ سال کی ہوئی تو اس نے دوڑنا شروع کردیا۔ ویلما کے مطابق وہ اپنے محلّے میں ہم عمروں کے ساتھ اچھل کود اور ان سے ریس لگانے لگی تھی۔ یہ اس کی ایک بڑی کام یابی تھی اور ویلما اس پر نہایت مسرور تھی۔

    ویلما نے اسکول میں منعقد ہونے والے کھیل کود کے مقابلوں میں حصّہ لینا شروع کردیا۔ ایک دن جب وہ اسکول میں باسکٹ بال کھیل رہی تھی تو اسے کوچ نے بلایا، اس کی حوصلہ افزائی کی اور کہا کہ بحیثیت تجربہ کار کوچ میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ تم عام بچّوں کی بہ نسبت تیز رفتار ہو اور میرا مشورہ ہے کہ تم باسکٹ بال کے بجائے مختصر فاصلے کی دوڑ (Sprints) میں حصّہ لو۔ ویلما کو اس کا مشورہ پسند آیا اور اس نے دوڑنے کی باقاعدہ ٹریننگ لینی شروع کی۔ وہ اپنی قوّتِ ارادی اور حوصلے کے سبب بہت جلد قومی سطح کے مقابلوں میں حصّہ لینے کے قابل ہوگئی۔ اساتذہ اور کوچ اس کی مدد اور حوصلہ افزائی کرتے تھے اور اس کی کام یابی پر سبھی مسرور تھے۔

    انہی دنوں آسٹریلیا کے مشہور میلبورن اولمپک مقابلے کا چرچا ہونے لگا۔ ویلما نے مقابلے میں شرکت کی خواہش ظاہر کی اور اس کی مراد بر آئی۔ یہ 1956ء کا اولمپک مقابلہ تھا جس میں 16 سالہ ویلما نے کانسی کا تمغا اپنے نام کیا۔

    1960ء کے اولمپک مقابلوں سے پہلے ہی ویلما نے دو سو میٹر دوڑ کا مقابلہ جیت کر عالمی ریکارڈ بنا ڈالا تھا اور جب اولمپک مقابلے کا انعقاد ہوا تو وہ پھر میدان میں تھی۔ اس بار ویلما نے دوڑ کے مقابلے میں تین گولڈ میڈل حاصل کیے۔

    اس مقابلے میں ویلما کو امریکا کی ایسی پہلی خاتون کھلاڑی بننے کا اعزاز بھی حاصل ہوا جو ایک ہی اولمپک میں تین ریسوں کی لگاتار فاتح رہی اور جس نے تینوں گولڈ میڈل اپنے نام کیے۔

    پولیو کے سبب معذوری اور اپاہج ہوجانے والی اس لڑکی نے ثابت کیا کہ پختہ ارادہ اور ہمارا عزم ہمیں زندگی کی ہر دوڑ کا فاتح بنا سکتا ہے۔ ویلما کو جہاں کھیل کی دنیا کے کئی انعامات اور اعزازات سے نوازا گیا، وہیں امریکی حکومت نے اس کے نام سے ایک ایوارڈ کا اجرا بھی کیا جو خاتون کھلاڑیوں کو شان دار کارکردگی کا مظاہرہ کرنے پر دیا جاتا ہے۔

    12 نومبر 1994ء کو ویلما کی زندگی کا سفر ہمیشہ کے لیے تمام ہوا۔ اسے کینسر کا مرض لاحق ہوگیا تھا۔ امریکا میں کھیلوں کے میدانوں میں یادگار کے طور پر ویلما کے مجسمے نصب ہیں اور زیرِ تربیت کھلاڑیوں کو اس لڑکی کی زندگی اور فتوحات کی کہانی سنائی جاتی ہے اور ان کے لیے عزم و ہمّت کی مثال بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔

  • شہرۂ آفاق میوزیم کی بانی مادام تساؤ کی زندگی کیسے بسر ہوئی؟

    شہرۂ آفاق میوزیم کی بانی مادام تساؤ کی زندگی کیسے بسر ہوئی؟

    مشہورِ زمانہ مادام تساؤ میوزیم کے بارے میں تو آپ نے بہت کچھ سنا ہوگا۔ دنیا کے کئی ممالک میں اس میوزیم کی شاخیں‌ قائم ہیں جن میں عالمی شہرت یافتہ شخصیات کے مومی مجسمے نمائش کے لیے رکھے گئے ہیں، لیکن کیا آپ مادام تساؤ کو بھی جانتے ہیں؟

    مادام تساؤ 1761ء میں فرانس میں پیدا ہوئی تھیں۔ انھوں نے زندگی کی 88 بہاریں دیکھیں اور 16 اپریل 1850ء کو لندن میں‌ ہمیشہ کے لیے اپنی آنکھیں‌ موند لیں۔

    مادام تساؤ ایک مجسمہ ساز تھیں۔ اس فن میں‌ ان کا کمال اور انفرایت موم سے تیّار کردہ مجسمے تھے۔ ان کا نام میری تساؤ تھا جو مادام تساؤ مشہور ہوئیں۔ میری تساؤ نے چھوٹی عمر میں سوئٹزر لینڈ کے ایک ڈاکٹر سے مجسمہ سازی سیکھی تھی۔ اس کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ میری تساؤ کی والدہ سوئٹزر لینڈ کے ایک ڈاکٹر کے گھر ملازمت کرتی تھیں، جو ایک طبیب ہی نہیں ماہر موم تراش بھی تھا۔ اسی ڈاکٹر کے گھر آمدورفت کے دوران میری تساؤ کو موم سے نقش و نگار بنانے میں‌ دل چسپی پیدا ہوگئی اور ہوں انھوں نے اس ڈاکٹر سے مجسمہ سازی کا فن سیکھا۔

    ابتدائی دور میں مادام تساؤ نے روسو، والٹیر اور رابسپیئر جیسی قد آور شخصیات کے مومی مجسمے بنائے اور اپنے وقت کی کئی مشہور اور نمایاں‌ شخصیات کے مومی پیکر تیّار کیے، بعد میں انھیں انقلابِ فرانس کی بھینٹ چڑھنے والے کئی نمایاں لوگوں کے مجسمے بنانے پر مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور ایک موقع پر وہ اپنا دیس چھوڑنے پر مجبور ہوگئیں۔

    مادام تساؤ نے انقلاب کے دوران مارے جانے والوں کے مجسمے بنائے تھے اور ظلم و ستم کی وہ کہانی گویا موم پر نقش کردی تھی جسے سرکار دنیا کے سامنے نہیں‌ لانا چاہتی تھی، تب انھیں قید و بند کی صعوبتیں جھیلنا پڑیں۔ ایک مقدمے میں مادام تساؤ کو سزائے موت سنا دی گئی۔ تاہم وہ کسی طرح بچ نکلنے میں کام یاب رہیں اور یورپ کی خاک چھاننے کے بعد برطانیہ چلی گئیں اور پھر وہیں کی ہو رہیں۔

    1835ء میں جب وہ لندن میں تھیں، تو انھوں نے اپنے فن پاروں کی نمائش کے لیے اُس اوّلین مومی عجائب خانے کی بنیاد رکھی جو آج لگ بھگ دو صدیوں بعد بھی دنیا کی توجّہ اور دل چسپی کا مرکز بنا ہوا ہے۔ یہ میوزیم ایک تاریخی یادگار اور اہم تفریح گاہ ہے جس کی اب دنیا کے مختلف ممالک میں دو درجن سے زائد شاخیں قائم ہوچکی ہیں۔

    مادام تساؤ کے مرکزی عجائب خانے میں سیاست، سماج، ادب، فنون اور کھیل کے میدان کی نام ور اور باکمال شخصیات کے مومی مجسمے موجود ہیں۔ اس مومی عجائب گھر میں مادام تساؤ نے ایک گوشہ بنام چیمبر آف ہارر، انقلابِ فرانس کی بھینٹ چڑھ جانے والوں کے لیے مخصوص کیا تھا۔ اس میں نہ صرف بعض نمایاں‌ اور مشہور مقتولین کے مومی مجسمے رکھے گئے تھے بلکہ مشہور قاتلوں اور سفاک مجرموں کو بھی جگہ دی گئی تھی۔ یہ سب مادام تساؤ کے ہاتھ سے تیّار کردہ مجسمے تھے۔

    1842ء میں اس فن کار نے اپنا مومی پیکر بھی تراشا جسے آج بھی مرکزی میوزیم کے داخلی دروازے پر دیکھا جاسکتا ہے۔

    لندن کے علاوہ واشنگٹن، نیو یارک، ایمسٹرڈیم، برلن، بینکاک، ٹوکیو، بھارت اور بیجنگ میں بھی اس عجائب خانۂ موم کی شاخیں موجود ہیں۔

  • ’کوما گاتا مارو‘ کے 376 مسافروں پر کیا بیتی؟ تاریخ کے فراموش کردہ اوراق

    ’کوما گاتا مارو‘ کے 376 مسافروں پر کیا بیتی؟ تاریخ کے فراموش کردہ اوراق

    اپریل 1914 میں بحری جہاز ’کوما گاتا مارو‘ نے ہندوستان کے ساحل سے اپنے سفر کا آغاز کیا تھا۔ اس جہاز پر 376 مسافر اپنے پیاروں کی جدائی کا کرب سہنے کے لیے خود کو کب کا آمادہ کرچکے تھے۔ ان کی آنکھوں میں تیرتا نم جب جب کم ہوتا تو ان سے وہ خواب جھلکنے لگتا جس کی تکمیل کے لیے وہ اپنا گھر بار چھوڑ کر سات سمندر پار جارہے تھے۔

    یہ مسافر خوش حال اور آسودہ زندگی کی خاطر ایک نئی سرزمین پر بسنے کا خواب آنکھوں میں‌ سجائے وطن سے دور جارہے تھے۔

    برطانوی راج میں پنجاب سے روانہ ہونے والے ان مسافروں میں 337 سکھ، 27 مسلمان اور 12 ہندو شامل تھے۔ ان میں سے 24 کو کینیڈا کی سرزمین پر قدم رکھنے کی اجازت دے دی گئی تھی، لیکن 325 مسافروں کی مراد پوری نہ ہوسکی اور انھیں ہندوستان لوٹنے پر مجبور کردیا گیا جہاں ایک حادثہ ان کا منتظر تھا۔

    ان نامراد مسافروں میں 20 ایسے بھی تھے جنھیں واپسی پر زندگی سے محروم ہونا پڑا۔

    اس زمانے میں سلطنتِ برطانیہ کی جانب سے سفر پر کوئی پابندی یا کسی قسم کی قید نہ تھی۔ طویل سفر کے بعد جب بحری جہاز ’کوما گاتا مارو‘ کینیڈا کے ساحل سے قریب تھا تو اسے بندر گاہ سے تین میل دور پانی میں روک لیا گیا۔ معلوم ہوا کہ انھیں کینیڈا میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ہے۔ اس پر بحری جہاز کے کپتان نے قانونی مدد لینے کا فیصلہ کیا اور صلاح مشورے کے بعد ایک وکیل کے ذریعے حکام کے خلاف مقدمہ کردیا گیا۔

    یہ وہ زمانہ تھا جب آج کے ترقّی یافتہ اور مہذّب معاشروں میں نسلی امتیاز اور ہر قسم کی تفریق عام تھی۔ خاص طور پر کینیڈا میں اس وقت ’وائٹ کینیڈا‘ نامی تحریک زوروں پر تھی اور کہا رہا تھاکہ کینیڈا صرف گوروں کا وطن ہے، اس وقت نسل پرستوں کی جانب سے ان سیکڑوں ہندوستانیوں سے سخت نفرت کا اظہار کیا جا رہا تھا۔

    ہندوستانیوں کے وکیل کو بھی نسل پرستوں کی جانب سے دھمکیاں دی جانے لگیں۔ تاہم مقدمہ دائر ہوچکا تھا جو طول پکڑتا گیا اور کوما گاتا مارو کے مسافروں کی مشکل اور ان کی بے چینی بھی بڑھتی گئی۔ جہاز پر ذخیرہ شدہ خوراک اور غذائی اجناس ختم ہوجانے کے بعد نوبت فاقے تک آگئی اور مسافر بیمار پڑ گئے۔

    مسافر زیادہ دن تک اس مشکل کا مقابلہ نہیں کرسکے اور لوٹ جانے میں عافیت جانی۔ یوں یہ جہاز ہندوستان کی جانب روانہ ہوا، جہاں اس کے مسافروں پر ایک نئی افتاد ٹوٹ پڑی۔

    یہ بحری جہاز 27 ستمبر کو ہندوستان میں کولکتہ کے ساحل کے قریب پہنچا تو اسے وہاں مسلح نگرانوں نے روک لیا اور مسافروں کو پنجاب کے مفرور اور باغی سمجھ کر اُن پر گولیاں برسا دیں۔ بیس مسافر جان سے گئے۔ اس وقت کے حکام کا خیال تھا کہ یہ لوگ ’غدر پارٹی‘ کے باغی ہیں جو اُن دنوں شمالی امریکا میں سرگرمِ عمل تھی۔

    یہ واقعہ کینیڈا جیسے جمہوریت پسند اور انسانی حقوق و مساوات کے علم بردار ملک میں اس وقت جاری نسلی امتیاز اور تعصّب کے ایک بدترین دور کی یاد دلاتا ہے۔

    مغربی بنگال میں ’کوما گاتا مارو‘ اور اس کے بدقسمت مسافروں کی ایک یادگار بھی موجود ہے جسے 1952 میں تعمیر کیا گیا تھا۔ اس کا افتتاح اس وقت کے بھارتی وزیرِاعظم جواہر لعل نہرو نے کیا تھا۔

  • فاطمہ نسومر: 20 سالہ لڑکی جو فرانس کی طاقت وَر فوج کے مقابلے میں ڈٹ گئی

    فاطمہ نسومر: 20 سالہ لڑکی جو فرانس کی طاقت وَر فوج کے مقابلے میں ڈٹ گئی

    شمالی افریقا کے ملک الجزائر کی تاریخ پڑھیے تو معلوم ہو گا کہ یہاں کے عوام نے انیسویں صدی میں فرانس کے استعماری عزائم اور اس کی طاقت وَر افواج کے بدترین مظالم کا سامنا کیا تھا اور آزادی کے لیے طویل جنگ لڑی تھی۔

    فرانس نے 1830ء میں الجزائر پر قبضہ کیا تھا جو 132 سال تک برقرار رہا۔ اس عرصے میں‌ فرانس نے اپنی اس نو آبادی میں مسلسل مزاحمت اور احتجاجی تحاریک کو کچلنے کے لیے ہر حربہ اور ہر راستہ اختیار کیا، لیکن 1954ء اور 1962ء میں اسے ایک طویل گوریلا جنگ لڑنا پڑی جس کے بعد الجزائر میں آزادی کا سورج طلوع ہوا۔ کہتے ہیں صرف اس عرصے میں ہلاکتوں کی تعداد لاکھوں‌ میں‌ تھی۔

    تاریخ بتاتی ہے کہ یہاں کے لوگ ساتویں صدی عیسوی میں اسلام سے متعارف ہوئے تھے اور ایک ایسے ہی مسلمان گھرانے میں آنکھ کھولنے والی فاطمہ نسومر وہ جنگجو تھی جس نے فرانس کی استعماری فوج کے خلاف شدید مزاحمت کی اور میدانِ جنگ میں‌ دشمن کا مقابلہ کیا۔

    ‘خولہ الجزائر’ کے نام سے یاد کی جانے والی فاطمہ نسومر نے فرانسیسی افواج کے مقابلے کے لیے ہزاروں جنگجوؤں کا لشکر تیّار کیا۔ انھوں نے نوجوانوں میں‌ جذبہ آزادی کو ابھارا اور فرانسیسی مظالم کے خلاف لڑنے پر آمادہ کیا۔

    فاطمہ نسومر کا سنِ پیدائش 1830ء ہے اور 1850ء میں جب وہ فقط 20 سال کی تھیں، فرانس کے خلاف جاری ایک مزاحمتی تحریک کا حصّہ بنیں اور غیرمعمولی قائدانہ صلاحیت اور اپنی دلیری کے سبب حملہ آور دستوں کی قیادت کی۔ الجزائر کی اس جنگجو خاتون نے متعدد جھڑپوں میں فرانسیسی فوج کو جانی و مالی نقصان پہنچایا، لیکن ایک بڑی طاقت اور منظّم فوج کا زیادہ عرصے مقابلہ آسان نہ تھا۔ فاطمہ نسومر کی فرانس کے خلاف مسلح مزاحمت دو سے ڈھائی سال تک جاری رہی اور انھیں‌ گرفتار کر لیا گیا۔

    بغاوت اور فرانس کو جانی و مالی نقصان پہنچانے کے ‘جرم’ میں فاطمہ نسومر کو قید کی سزا سنائی گئی۔ فاطمہ نسومر 33 سال کی عمر میں‌ دورانِ قید زندگی کی بازی ہار گئیں۔

    الجزائر کی‌ چند سڑکیں اور درس گاہیں اس بہادر خاتون سے منسوب ہیں جب کہ متعدد مقامات پر ان کے یادگاری مجسمے بھی نصب ہیں۔

  • مارگریٹ تھیچر کی پالیسیوں سے برطانیہ میں بے روزگاری کی شرح بڑھ گئی تھی

    مارگریٹ تھیچر کی پالیسیوں سے برطانیہ میں بے روزگاری کی شرح بڑھ گئی تھی

    جنوبی بحرِ اوقیانوس میں ارجنٹائن کے ساحل سے 480 کلومیٹر کے فاصلے پر موجود جزائر کا مجموعہ فاک لینڈ کے نام سے مشہور ہے۔ اس میں 776 چھوٹے جزائر اور دو بڑے جزیرے مشرقی فاک لینڈ اور مغربی فاک لینڈ کہلاتے ہیں۔ یہ رقبے کے اعتبار سے 12,000 مربع کلومیٹر سے زائد پر محیط ہیں اور یہاں کی‌ آبادی 3 ہزار نفوس پر مشتمل ہے۔

    ان جزائر کا انتظام 1833ء سے برطانیہ نے سنبھال رکھا ہے، لیکن ارجنٹائن بھی ان پر اپنا حقِ ملکیت جتاتا ہے اور اس حوالے سے دونوں ممالک کے مابین تعلقات کشیدہ رہے ہیں۔ برطانیہ اور ارجنٹائن کے درمیان 1982ء میں ان جزائر پر قبضے کے لیے جنگ بھی ہوچکی ہے جس میں ارجنٹائن کو پیچھے ہٹنا پڑا تھا۔

    1982ء میں‌ مارگریٹ تھیچر برطانیہ کی حکم راں تھیں اور جب ان جزائر پر قبضے کے لیے ارجنٹائن کی جانب سے فوجی کارروائی کی گئی تو مارگریٹ تھیچر نے طاقت ہی سے اس کا جواب دینے کا فیصلہ کیا۔

    برطانیہ کی سابق وزیرِ اعظم مارگریٹ تھیچر 2013ء میں‌ آج ہی کے روز انتقال کرگئی تھیں۔ ان کی موت سے صرف ایک ماہ قبل یعنی 10 مارچ 2013ء کو فاک لینڈ میں‌ عوامی ریفرنڈم میں‌ وہاں کے باسیوں‌ نے برطانیہ کی عمل داری قبول کی تھی۔ ارجنٹائن کے حق میں‌ صرف 3 ووٹ آئے تھے۔

    مارگریٹ تھیچر کو برطانیہ میں ‘آئرن لیڈی’ کہا جاتا ہے۔ وہ مضبوط اعصاب کی مالک اور اپنے فیصلے پر ڈٹ جانے والی خاتون تھیں۔ 3 اپریل 1982ء کو ارجنٹائن نے ان جزائر پر قبضہ کرنے کے لیے فوج اتاری تو انھوں نے وزیرِ اعظم کی حیثیت سے جنگ کے لیے ایک سو جنگی بحری جہاز اور 27 ہزار فوجی روانہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ اپریل میں شروع ہونے والی فاک لینڈ جنگ 74 دنوں تک جاری رہی اور جون کے مہینے میں‌ ارجنٹائن کی فوج نے ہتھیار ڈال دیے۔

    مارگریٹ تھیچر کے فوجی کارروائی کے فیصلے کی برطانوی عوام نے بھی کھل کر تائید اور حمایت کی تھی اور اسی فیصلے نے انھیں‌ برطانیہ کے اگلے عام انتخابات میں بھی کام یاب کروایا۔

    اگلی بار بھاری کام یابی کے بعد مارگریٹ تھیچر نے اپنے ایک مشکل ترین فیصلے سے خود کو پھر آئرن لیڈی ثابت کیا، ان کے اس دورِ حکومت میں برطانیہ میں نمایاں اقتصادی تبدیلیاں دیکھنے میں آئیں۔

    وہ برطانیہ کی پہلی خاتون وزیرِاعظم تھیں، ان کا پورا نام مارگریٹ ہلڈا تھیچر تھا۔ وہ اپنے ارادوں کی پختگی اور سخت گیر مؤقف کے لیے ہی مشہور نہیں‌ تھیں‌ بلکہ ناقدین انھیں‌ سخت اور مفاہمت نہ کرنے والی خاتون بھی کہتے تھے۔

    مارگریٹ تھیچر نے ثابت کیا کہ ملکی سیاست اور اس عہدے کے لیے ان کا انتخاب غلط نہ تھا۔ اپنے دور میں انھوں‌ نے کئی سیاسی، اقتصادی اور عسکری فیصلے کیے جو نہایت مشکل تھے، لیکن انھوں نے اس پر اپنی سخت مخالفت اور تنقید کی بھی پروا نہ کی۔

    انھیں تین بار اپنے ملک کے اہم ترین منصب کے لیے منتخب کیا گیا۔

    مارگریٹ تھیچر کا سنِ پیدائش 1925ء ہے۔ وہ گرانتھم، لنکاشائر میں پیدا ہوئی تھیں۔
    ان کے والد سبزی فروش تھے۔ وہ ایک جُزوقتی مبلغ اور مقامی کونسلر بھی تھے جن کا ان کی بیٹی کی زندگی پر اثر تھا۔

    وہ کہتی تھیں کہ ’میرے والد نے میری ایسی تربیت کی ہے کہ میں ہر اس چیز پر یقین کروں جس پر مجھے یقین ہو۔‘

    آکسفورڈ میں تعلیم حاصل کرنے والی مارگریٹ تھیچر کیمسٹری کے مضمون میں ڈگری لینے کے بعد 1947ء سے لے کر1951ء تک ایک ادارے میں تحقیق میں مصروف رہیں۔

    1951ء میں شادی کے بعد بھی مارگریٹ تھیچر نے تعلیمی سلسلہ جاری رکھا، مگر اب وکالت ان کا مضمون تھا۔ 1953ء میں امتحان میں کام یابی کے بعد وہ ٹیکس اٹارنی بن گئیں۔ یہاں سے انھیں سیاست کے میدان میں قدم رکھنے کا موقع ملا اور وہ کنزرویٹو پارٹی سے وابستہ ہو گئیں۔

    مارگریٹ تھیچر 1959ء میں اپنی جماعت کے ٹکٹ پر دارالعوام کی رکن منتخب ہوئیں۔ ان کی سیاسی بصیرت اور اہلیت نے انھیں آگے بڑھنے کا موقع دیا اور ایک روز وہ برطانیہ کی وزیراعظم بنیں۔

    مارگریٹ تھیچر کے دور میں برطانیہ میں کئی شعبوں میں اصلاحات کے سبب وہاں عوام کو کئی مشکلات پیش آئیں اور انھیں تنقید کا نشانہ بنایا گیا، لیکن بعد میں‌ ان اصلاحات اور بطور وزیرِ اعظم مارگریٹ تھیچر کے فیصلوں کے مثبت اثرات ظاہر ہونے لگے۔ ان کی پالیسیوں کے باعث برطانیہ میں بے روز گاری کی شرح بہت بڑھ گئی تھی، تاہم وقت کے ساتھ ساتھ انہی پالیسیوں کی وجہ سے برطانوی معیشت میں دیرپا ترقّی دیکھنے میں آئی۔

    ان کی پالیسیوں کے تحت برطانیہ میں نجکاری کا عمل تیز ہوا۔ انھوں نے اپنے ملک میں ’فری مارکیٹ اکانومی‘ کی ترقّی کے لیے کام کیا۔ ان کے دور میں مزدور یونین تنظیموں کے اثرات کو کم کرنے اور نجکاری کے لیے قوانین متعارف کرانے کے علاوہ کونسل کے گھروں میں رہنے والوں کو وہی گھر خریدنے کی اجازت جیسے اہم فیصلے کیے گئے تھے۔

    برطانیہ اور ارجنٹائن جنگ کے دوران ان کی کام یاب خارجہ پالیسی کو بھی بہت سراہا جاتا ہے۔

    بعض ناقدین کی نظر میں سخت مزاج اور اپنا مؤقف تبدیل نہ کرنے والی مارگریٹ تھیچر کے بارے میں ان کے بعد وزیرِاعظم کا عہدہ سنبھالنے والے سَر جان میجر نے کہا تھا، ’ان کی اقتصادی اور مزدور تنظیموں کے قوانین میں اصلاحات اور فاک لینڈ جزیروں پر برطانوی کنٹرول یقینی بنانے کے اقدامات نے انھیں ایک اعلیٰ پائے کے سیاست دان ثابت کیا۔ یہ ایسی کام یابیاں تھیں جو شاید کوئی اور راہ نما حاصل نہیں کر سکتا تھا۔‘

    مارگریٹ تھیچر بیسویں صدی کی اہم ترین سیاسی شخصیات میں شمار کی جاتی ہیں جنھوں‌ نے 1979ء، 1983ء، اور 1987ء کے عام انتخابات میں کام یابی حاصل کی تھی۔

    برطانیہ کی آئرن لیڈی 1992ء میں پارلیمان کے ایوانِ زیریں ریٹائر ہوئیں۔ ان کی سیاست کا بعد میں بھی آنے والے راہ نماؤں کی پالیسیوں پر گہرا اثر رہا۔

  • ‘عہد شکن’ اور قاتل جسے انگلستان کے عوام ‘شیر دل’ مانتے ہیں!

    ‘عہد شکن’ اور قاتل جسے انگلستان کے عوام ‘شیر دل’ مانتے ہیں!

    انیسویں صدی میں فرانس کے ایک کلیسا کی مرمت اور بحالی کے دوران ایک جگہ سے سیسے کا ڈبّہ کسی کے ہاتھ لگا جس میں نہایت بوسیدہ کپڑے کا ٹکڑا موجود تھا۔ اس ڈبّے پر لاطینی زبان میں درج عبارت کچھ یوں پڑھی گئی: ‘یہاں انگلستان کے عوام کے بادشاہ رچرڈ کا دل رکھا گیا ہے۔‘

    شہنشاہِ انگلستان، رچرڈ اوّل کو دنیا سے گئے ہزار سال ہونے کو آئے ہیں۔ اس نے 1157ء میں ‌آنکھ کھولی اور 6 اپریل 1199ء کو زندگی کی بازی ہار گیا۔

    اس نے کنگ رچرڈ اوّل کی حیثیت سے 1189ء میں اپنی بادشاہت کا اعلان کیا تھا اور وفات تک شہنشاہِ انگلستان رہا۔ وہ عیسائی عوام میں ‘شیر دل’ کے لقب سے مشہور تھا۔ اس نے صلیبی جنگوں میں‌ حصّہ لیا اور اپنے دور کے کئی مسلمان سپہ سالاروں اور ان کی افواج کا مقابلہ کیا۔

    مشہور ہے کہ وہ بہت دلیر اور اولوالعزم تھا۔ اس نے ہر محاذِ جنگ پر دلیری اور شجاعت کے جوہر دکھائے اور اکثر فتح یاب ہوا۔ مؤرخین کے مطابق کنگ رچرڈ نے خود کو اپنے عوام کی قیادت کا اہل ثابت کیا تھا۔ وہ مختلف ادوار میں انگلستان کے چھوٹے بڑے علاقوں کا منتظم رہ چکا تھا اور حکم رانی کا خاصا تجربہ ہوچکا تھا، لیکن بعض کے نزدیک وہ کسی بڑے جنگی معرکے کے لیے فوج کی قیادت کی اہلیت نہیں‌ رکھتا تھا۔

    کنگ رچرڈ اوّل صلیبی جنگ میں خطروں کی پروا کیے بغیر آگے بڑھتا رہا، اکثر محاذوں پر خوب دادِ شجاعت سمیٹی ، لیکن اپنا یروشلم کی فتح کا خواب پورا نہ کرسکا۔ اس نے عظیم مسلمان فاتح سلطان صلاح الدّین ایوبی کے لشکر کا بھی مقابلہ کیا تھا۔

    رچرڈ کی موت کے حوالے سے مشہور ہے کہ وہ وسطی فرانس میں ایک جنگ کے دوران زخمی ہو گیا تھا اور وہیں دَم توڑ دیا۔ بعض جگہ لکھا ہے کہ وہ صلیبی جنگ کے دوران مارا گیا تھا اور یہ ایک مذہب کے ماننے والوں کے نزدیک مقدّس جنگ تھی۔ اسی لیے شیر دل کو بہت عزّت اور احترام دیا گیا۔

    شہنشاہ کی موت کے بعد فیصلہ کیا گیا کہ اس کا دل محفوظ کر لیا جائے اور اسے ہمیشہ یاد رکھا جائے۔ یوں شیر دل کا دل رُوئین (Rouen) کے ایک کلیسا میں محفوظ ہوا جسے انیسویں صدی میں وہاں سے نکال کر اس پر تحقیق کی گئی۔

    محققین کے مطابق اس زمانے میں‌ ادویّہ سازوں نے مخصوص مرہم تیّار کیا اور یوں شہنشاہ کے دل کو گلنے سڑنے سے ‘محفوظ’ بنانے کے بعد اسے نہایت خاص قسم کے کپڑے میں لپیٹ کر کلیسا میں رکھ دیا گیا۔ یہ کپڑا بھی سیسے (پارہ) اور خاص قسم کی جڑی بوٹیوں سے تیّار کیا گیا تھا۔

    انیسویں صدی میں جب اس ڈبّے کو کھولا گیا تو وہاں کپڑے کے نام پر بچنے والے تاروں کو ہٹانے پر اس میں سے صرف مٹیالا سفوف ہی نکل سکا جس پر تحقیق کے دوران جدید دور کے ماہرین نے اندازہ لگایا کہ شہنشاہ اپنی موت کے وقت لگ بھگ 42 برس کا تھا۔

    رچرڈ اوّل اپنی بدعہدی کے لیے بھی مشہور ہے اور مسلمان اسے ظالم اور قاتل کے طور پر جانتے ہیں۔

  • وہ خواب جو خطِ ‌نستعلیق کی ایجاد کا سبب بنا

    وہ خواب جو خطِ ‌نستعلیق کی ایجاد کا سبب بنا

    خوش نویسی اور خطّاطی باصرہ نواز، دیدہ زیب اور دل نشیں طرزِ تحریر کا نام ہے جو املا انشا کی صورت گری کی خاص اور مرصّع شکل ہے۔ ہم اپنی عام تحاریر کو کسی بھی قلم سے کاغذ پر لکھ لیتے ہیں، لیکن خوش نویسی اور خطّاطی باقاعدہ فن ہے جو مخصوص قلم اور روشنائی، برش اور رنگوں کے ساتھ خاص مقصد کے تحت کی جاتی ہے۔ یہ مرقّعِ کمالِ فن کسی بھی خطّاط کی مشق و مہارت کا نمونہ ہوتے ہیں اور خوب صورت و دل کش معلوم ہوتے ہیں۔

    خوش نویسی اور خطّاطی نفاست، سلیقہ قرینہ، توازن اور جمالیات کا متقاضی فن ہے۔ اگر اسلامی دنیا کی بات کی جائے تو اس فن میں مختلف ادوار میں‌ کئی نام سامنے آئے جنھوں نے نہ صرف شہرت اور نام و مقام پیدا کیا بلکہ اس فن کے باعث عزّت اور تکریم بھی پائی۔

    میر علی تبریزی ایسے ہی ایک خطّاط تھے، جنھیں خطِ نستعلیق کا بانی کہا جاتا ہے۔ وہ چودھویں صدی میں ہرات، افغانستان میں پیدا ہوئے۔ ان کی وفات 1452ء میں ہوئی۔ میر علی تبریزی کو قدوةُ الکتاب کے لقب سے بھی جانا جاتا ہے۔

    خطِ نستعلیق جو اردو، فارسی، پشتو تحریر میں‌ عام استعمال ہوتا ہے، انہی کا ایجاد کردہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ میر علی تبریزی نے دو رسم ہائے خط کی خصوصیات کا مطالعہ کرنے کے بعد انھیں‌ بہم کر کے نیا خط یعنی نستعلیق ایجاد کیا، لیکن اس حوالے سے ان کا ایک خواب بھی مشہور ہے۔

    میر علی ماہرِ فن اور استاد خطّاط ہونے کے علاوہ شاعر کی حیثیت سے بھی جانے جاتے ہیں۔

    کہا جاتا ہے کہ میر علی تبریزی نے ایک رات خواب میں ہنسوں (پرندہ) کو پرواز کرتے دیکھا اور دورانِ پرواز ان کے جسم کی لچک اور پَروں کو خوب صورت انداز سے حرکت کرتا دیکھ کر انھیں‌ بہت اچھا لگا۔ بیدار ہونے پر میر علی تبریزی کو اپنا خواب یاد آیا، ان کے ذہن میں یہ خیال بھی آیا کہ تعلیق کی خم داری اور نسخ کی ہندساتی خصوصیات کے امتزاج کا تجربہ کیا جائے۔ انھوں نے ایسا کیا اور یوں خطِ ‌نستعلیق نے وجود پایا۔

  • بھارت: پاکستانی ادیب کا افسانہ نصاب میں شامل

    بھارت: پاکستانی ادیب کا افسانہ نصاب میں شامل

    رشید امجد کے سانحۂ ارتحال پر رنجیدہ و ملول سلام بِن رزّاق نے بتایا کہ رشید امجد کا افسانہ "بگل والا” بھارت کی ریاست مہاراشٹر میں بارہویں جماعت کے نصاب میں شامل کیا گیا ہے۔ ممتاز افسانہ نگار اور مترجم سلام بِن رزّاق مہاراشٹر اردو رائٹرز گِلڈ کے صدر ہیں جن کے مطابق حال ہی میں رشید امجد کا افسانہ نصاب میں‌ شامل کیا گیا ہے۔ یہ افسانہ مختلف ادبی جرائد میں شایع ہوچکا ہے اور مختلف ویب سائٹوں پر گوشۂ ادب میں بھی قارئین کی بڑی تعداد نے اسے پڑھا اور سراہا ہے۔

    5 مارچ 1940ء کو کشمیر میں پیدا ہونے والے رشید امجد پاکستان کے نام وَر افسانہ نگار، نقّاد اور دانش وَر کی حیثیت سے بھارت میں بھی جانے جاتے ہیں۔ ان کا انتقال 3 مارچ 2021ء کو ہوا تھا۔ حکومتِ پاکستان نے رشید امجد کو ’پرائڈ آف پرفارمینس‘ بھی عطا کیا تھا۔ وہ کئی اہم ادبی رسالوں کے مدیر رہے ہیں۔

    اپنی افسانہ نگاری کے بارے میں ڈاکٹر رشیدامجد کہتے ہیں:

    ”میں اس لیے لکھتا ہوں کہ اپنا اظہار چاہتا ہوں۔ اپنے عہد اور اس کے آشوب کو لفظوں میں زندہ کرنا چاہتا ہوں۔ ایک آدرش کی تکمیل چاہتا ہوں کہ کبھی تو وہ غیر طبقاتی آئیڈیل معاشرہ وجود میں آئے گا جہاں میں اور مجھ جیسے سب سَر اٹھا کر چل سکیں گے، ہمیں کوئی فتح کرنے والا نہیں ہوگا، ہماری رائے کی اہمیت ہوگی۔ یہ خواب سہی، میری بات تمنائیں سہی لیکن میری تحریروں کا اثاثہ یہی خواب اور یہی تمنائیں ہیں۔”

    ایک انٹرویو کے دوران رشید امجد نے بتایا تھاکہ وہ کیسے لکھنے کی طرف مائل ہوئے:

    ”ایک ورکشاپ میں ٹائم کیپر کی حیثیت سے کام کرتا تھا۔ مجھے پڑھنے کا بہت شوق تھا لیکن میرے مطالعے کا موضوع زیادہ تر جاسوسی ناول اور ان کے تراجم تھے۔ دفتر میں فارغ وقت میں پڑھتا رہتا تھا۔ وہیں ایک اور نوجوان بھی اسی طرح کتاب پڑھتے دکھائی دیتا تھا۔ ہم نے کتابوں کا تبادلہ شروع کر دیا۔ اس نے بتایا کہ وہ اعجاز راہی کے نام سے لکھتا ہے۔ ایک روز اس نے مجھے اپنی ایک کہانی پڑھنے کو دی۔ کہانی پڑھ کر میں نے اسے کہا کہ ایسی کہانی تو میں بھی لکھ سکتا ہوں۔ اس نے مجھے لکھنے کی ترغیب دی۔ سو دو ایک دنوں بعد میں نے اسے ایک کہانی لکھ کر دکھائی۔ اس نے کہا یہ تو افسانہ ہے اور تم اب باقاعدگی سے لکھا کرو۔ یوں میں نے لکھنا شروع کیا اور پھر مجھے لکھنے کی چاٹ لگ گئی۔ ”

    رشید امجد کی افسانہ نگاری کا آغاز ایوب خان کے مارشل لاء کے زمانے میں ہوا جس کے اثرات ان کے ابتدائی افسانوی میں نمایاں طور پر دیکھے جاسکتے ہیں۔ جب انھوں نے فکری پختگی کی نئی منزلوں کا سفر طے کیا تو دوسرا مارشل لاء جمہوریت کی بساط لپیٹ چکا تھا۔ یہ افسانے جبر کے دور میں لکھے گئے۔ اگرچہ اس دور کو معروف معنوں میں علامتی و تجریدی نام دیا گیا، لیکن اس تکنیک میں سادہ لفظوں میں پوشیدہ معنٰی کےجہان آباد ہیں۔ ڈاکٹر انور سدید کہتے ہیں:

    رشید امجد کا شعری لہجہ، علامتی اظہار اور تجریدی ڈھانچہ سب مل کر اس کے فن کی ایک نمائندہ جہت اور اس کا منفرد تشخص قائم کرتے ہیں۔ اس نے ٹھوس کہانی کو گرفت میں لینے اور سماج کی اصلاحی خدمت سَر انجام دینے کے بجائے اس تاثر کو پکڑنے کی سعی کی جو تجربے کے مرکز میں سیال صورت میں موجود ہوتا ہے اور اکثر شعری انداز میں افسانہ نگار کی طرف سفر کرتا ہے۔

    رشید امجد کے افسانوں میں معاشرے کی انفرادی و اجتماعی سطح کے لحاظ سے ٹوٹ پھوٹ، کرب اور بے چینی کی مختلف کیفیات دکھائی دیتی ہیں۔

    نام ور افسانہ نگار رشید امجد کے افسانوی مجموعوں اور دیگر موضوعات پر کتابوں میں ”ایک عام آدمی کا خواب، بھاگے ہے بیاباں مجھ سے، ریت پر گرفت، پاکستانی ادب تنقید، پت جھڑ میں خود کلامی، تمنّا بے تاب، ست رنگے پرندے کے تعاقب میں” شامل ہیں۔