Author: عارف حسین

  • جب فیض احمد فیض کو اپنے بھائی سے شکوہ کرنا پڑا

    جب فیض احمد فیض کو اپنے بھائی سے شکوہ کرنا پڑا

    موت ایک اٹل حقیقت ہے۔ کڑوی اور دل خراش، لیکن انسان مشیّتِ ایزدی کے آگے بے بس ہے۔ ہر ادنیٰ و اعلیٰ، خاص و عام، امیر غریب سبھی کو اس جہانِ رنگ و بُو سے ایک روز جانا پڑے گا۔

    اسی موضوع پر یہ شعر آپ نے بھی سنا ہو گا

    موت سے کس کو رستگاری ہے
    آج وہ، کل ہماری باری ہے

    ہر عام آدمی کی طرح فن کار اور اہلِ قلم بھی اپنوں کی دائمی جدائی کا صدمہ اٹھاتے ہیں اور رفتگاں کو شدّت سے یاد کرتے ہیں اور یہ شدّت، یہ کرب اُن کی قوّتِ متخیلہ سے اُن کے فن میں ڈھل کر ہمارے سامنے آتا ہے۔ اردو شاعری میں اس کی مثال مراثی اور حزنیہ کلام ہے۔

    یہاں‌ ہم اردو زبان کے عالمی شہرت یافتہ، ترقی پسند شاعر فیض احمد فیض کی ایک ایسی ہی نظم پیش کررہے ہیں‌ جو انھوں‌ نے اپنے بھائی کی رحلت کے بعد ان کی یاد میں‌ لکھی تھی۔ اس نظم کا عنوان "نوحہ” ہے جس میں فیض نے بھائی کے لیے اپنی محبّت کا اظہار کرتے ہوئے ان کی دائمی جدائی کے کرب کو کچھ اس طرح بیان کیا ہے۔

    نوحہ
    مجھ کو شکوہ ہے مرے بھائی کہ تم جاتے ہوئے
    لے گئے ساتھ مری عمرِ گزشتہ کی کتاب

    اس میں تو میری بہت قیمتی تصویریں تھیں
    اس میں بچپن تھا مرا اور مرا عہدِ شباب

    اس کے بدلے مجھے تم دے گئے جاتے جاتے
    اپنے غم کا یہ دمکتا ہوا خوں رنگ گلاب

    کیا کروں بھائی یہ اعزاز میں کیوں کر پہنوں
    مجھ سے لے لو مری سب چاک قمیصوں کا حساب

    آخری بار ہے لو مان لو اک یہ بھی سوال
    آج تک تم سے میں لوٹا نہیں مایوسِ جواب

    آ کے لے جاؤ تم اپنا یہ دمکتا ہوا پھول
    مجھ کو لوٹا دو مری عمرِ گزشتہ کی کتاب

  • ‘کمانِ ابرو’ اور ‘نوکِ پلک’ کو سائنس دانوں کی زبانی جانیے

    ‘کمانِ ابرو’ اور ‘نوکِ پلک’ کو سائنس دانوں کی زبانی جانیے

    اردو زبان میں شعرا نے ابرو (بھوں) اور مژہ (پلک) کو طرح طرح سے اپنے اشعار میں باندھا ہے۔ اپنے محبوب کو حُسن و جمال میں یکتا، ادا میں منفرد اور یگانہ ثابت کرنے کے لیے جانے کتنے ہی قصیدے لکھے ہیں‌، لیکن یہ اشعار اور قصائد سائنس کی نظر میں‌ کوئی اہمیت نہیں‌ رکھتے۔ سائنسی تحقیق یکسر مختلف اور عقلی دلائل کے ساتھ تجربہ گاہ کے نتائج کی روشنی میں ابرو اور پلکوں‌ کو بیان کرتی ہے۔

    آئیے جانتے ہیں‌ کہ سائنس دانوں‌ کی نظر میں‌ یہ کیسے اہم ہیں اور ہمارے چہرے پر ان کی موجودگی کا کیا مقصد ہے۔

    سائنس دانوں‌ کا خیال ہے کہ ہمارے چہرے پر موجود ابرو یا جسے ہم بھوں بھی کہتے ہیں، اس لیے ہیں کہ ہم سورج کی تیز روشنی میں‌ ہر شے کو ٹھیک اور تاحدِّ نگاہ دیکھ سکیں۔

    ہماری آنکھوں کے اوپر محراب کی صورت یہ اَبرو بارش کے وقت سَر سے ٹپکنے والے پانی یا غضب کی گرمی اور سورج کی تمازت کے سبب بہنے والے پسینے کو بھی روکتی ہیں۔

    اس سے پہلے کہ ہم مزید تفصیل میں‌ جائیں، آپ ایک چھوٹا سا، مگر دل چسپ تجربہ کرکے دیکھیے۔ اس تجربے کا نتیجہ آپ کو ابرو کی اہمیت اور اس کے کام کو سمجھنے میں‌ مدد دے گا۔

    کسی ٹیوب لائٹ یا روشن بلب وغیرہ پر نگاہ ٹکاتے ہوئے اپنی آنکھیں‌ بند کر لیں۔ آپ بند آنکھوں‌ کے ساتھ بھی مسلسل روشنی محسوس کرسکتے ہیں، لیکن جیسے ہی اپنے دونوں‌ ابرو کو نیچے کی طرف حرکت دیں گے یا پیشانی کو سکیڑیں گے تو اچانک تاریکی یا سیاہ دھبّا نظر آنے لگے گا۔ یہ ہے وہ کام جو یہ ابرو انجام دیتے ہیں۔

    اب غور کیجیے کہ جب آپ کسی ایسے مقام پر ہوں جہاں‌ دھول مٹّی اڑ رہی ہو تو اس سے بچنے کے لیے آپ اپنی آنکھیں بند کر لیتے ہیں‌، لیکن‌ اسی مقام پر اپنا راستہ یا اشیا کو دیکھنے کے لیے نیم وا آنکھوں‌ کے ساتھ اپنے ابرو کو اُسی تجربے کے مطابق مخصوص طریقے سے حرکت دیتے ہیں تو آگے بڑھ پاتے ہیں۔ یعنی یہ ابرو اس موقع پر ڈھال اور کسی محافظ کا کام انجام دیتے ہیں۔

    اب چلتے ہیں‌ پلکوں کی طرف جو کچھ اسی قسم کا کام انجام دیتی ہیں۔ ہماری آنکھوں کے پپوٹوں سے جڑی ہوئی پلکیں‌ بھی ہماری محافظ ہیں۔

    پلکیں‌ ایسے ہی ہیں جیسے بلّی یا چوہے کہ منہ پر بال (مونچھیں) ہوتی ہیں۔ یہ انتہائی حسّاس ہوتی ہیں اور مہین و معمولی شے کے چُھو جانے پر دماغ کو فوراً سگنلز بھیجتی ہیں اور اس کے نتیجے میں انسان ضروری ردّعمل ظاہر کرتا ہے۔ مثلاً اگر کوئی تنکا، دھول مٹّی آنکھوں میں پڑنے لگے تو پلکوں‌ اور دماغ کے مابین سگنل کا تبادلہ ہوتا ہے اور ہم آنکھیں‌ بند کرلیتے ہیں۔

    آپ نے کبھی فوٹو گرافر کو دیکھا ہے جو‌ بار بار مخصوص کپڑے سے کیمرے کا لینس صاف کرتا رہتا ہے؟ وہ معمولی گردوغبار اور دھول مٹّی کے ذرّات کو صاف کرتا جاتا ہے، ورنہ تصویر اچّھی نہیں‌ آئے گی۔

    ہماری پلکوں‌ کے جھپکنے کی بھی وجہ یہی ہے۔ ہم مسلسل گرد و غبار کا سامنا کرتے ہیں جس کی صفائی کا قدرت نے انتظام کر رکھا ہے۔ پلکیں‌ جھپکانے پر ہماری آنکھوں کے غدود، معمولی نمی (آنسو) چھوڑتے ہیں جو گرد و غبار کو پردہ چشم سے ہٹا دیتا ہے اور یوں اس اہم عضو میں نصب قدرتی لینس کی بدولت ہم دنیا کو دیکھتے رہتے ہیں۔

  • انگریزوں کا عدن پر بزور قبضہ

    انگریزوں کا عدن پر بزور قبضہ

    محمد مصطفٰی خاں شیفتہؔ اردو ہی نہیں‌ فارسی زبان کے بھی عمدہ شاعر تھے، انھوں‌ نے شاعری کے ساتھ نثر بھی خوب لکھی اور تنقید و تذکرہ کے علاوہ حجازِ مقدس کے اپنے سفر کو بھی صبطِ تحریر میں لائے اور اسے کتابی شکل دی۔ شیفتہ نواب خاندان کے تھے اور مال و روپیہ کی کچھ کمی نہ تھی۔

    اردو ادب کے یہ نام ور اور اپنے وقت کے رئیس 1254ھ (1839ء) میں‌ بغرضِ ادائیگیِ فریضۂ حج دلّی سے روانہ ہوئے تھے۔ انھوں‌ نے اپنے اس سفر کا تمام احوال سپردِ قلم کیا ہے۔

    یہاں‌ ہم ان کے ‘سفر نامہ حجاز’ سے موجود یمن کے شہر عدن سے متعلق چند سطور نقل کررہے ہیں‌ جس سے آپ کو معلوم ہوگاکہ اس زمانے میں کس طرح انگریزوں نے عدن پر قبضہ کیا تھا اور اس ریاست کے والی سے اس کی زمین کو چھین لیا تھا۔ اگر آپ شیفتہ کے اس سفر کی مکمل روداد پڑھیں تو یہ بھی اندازہ ہو گاکہ آج سہولیات کی وجہ سے حج کتنا آسان ہوگیا ہے، لیکن ایک دور ایسا بھی تھا جب لوگ بہت سی مشکلات جھیل کر اور صعوبتیں برداشت کرکے یہ مقدس فریضہ انجام دیتے تھے۔

    سمندری جہاز دلی سے روانہ ہوا تو پروگرام کے مطابق بمبئی پہنچا اور پھر وہاں سے حجاز کے لیے یہ قافلہ آگے بڑھا تھا۔ اس بارے میں شیفتہ کی زبانی جانیے۔

    15 شعبان 1255ھ (1840ء) کو ہمارا بادبانی جہاز بمبئی سے روانہ ہوا اور 5 رمضان المبارک کو عدن کی بندرگاہ پر پہنچا۔ عدن میں چند پختہ مکانات کے سوا باقی سب مکانات خس پوش ہیں۔

    ہم نے سید زین کے ہاں قیام کیا جو اسی بستی کے سربر آوردہ مشائخ میں سے ہیں، پہلے سے کوئی واقفیت نہ ہونے کے باوجود کمال درجے کی شفقت و محبت سے پیش آئے۔

    عدن پر آج کل انگریزوں کی حکومت ہے۔ سات ماہ گزرے انہوں نے سابق حکم راں سے اس شہر کو چھین لیا۔ اس کا سبب یہ ہوا کہ انگلستان کی حکومت کو اپنے دخانی جہازوں کے لیے جو سویز کے راستے لندن آتے جاتے ہیں، ایک ایسا مقام مطلوب تھا جہاں سے سامان، "آب و آتش” آسانی سے فراہم ہو سکے، چناں چہ انہوں نے فرماں روائے عدن کو پیشکش کی کہ عدن کی آمدنی سے زیادہ ہم سے لو اور یہاں کی حکومت ہمارے حوالے کر دو۔

    امیرِ عدن ایک ناتجربہ کار سیدھا سادہ آدمی تھا، اس نے نتائج پر غور کیے بغیر معاہدہ لکھ دیا۔ جب انگریزوں نے عدن کا قبضہ مانگا تو اس کی آنکھیں کھلیں۔ قبضہ دینے سے گریز کیا، اس پر انگریزوں نے اس سے لڑائی چھیڑ دی اور عدن پر بزور قبضہ کر لیا۔

    جس رقم کا امیر سے وعدہ کیا تھا وہ بھی اسے نہ دی۔ میرے آنے سے ایک دن پہلے ایک جھڑپ ہو بھی چکی ہے۔

    عدن کا شہر سمندر کے ساحل سے تین کوس دور ہے، یہ مسافت شہر جانے والے بحری مسافروں کے لیے انتہائی تکلیف کا باعث ہے، کیوں کہ آنے جانے کے لیے خاص انتظام کرنا پڑتا ہے۔ دو رات عدن میں قیام کر کے 7 رمضان کو واپس جہاز پر آئے۔

  • کالا نمک اور آئینِ قیصری‌

    کالا نمک اور آئینِ قیصری‌

    مولوی ذکاءُ اللہ کی کتاب آئینِ قیصری میں لکھا ہے کہ "پہلے لوگ پیٹ کے خلل کا علاج کرنے کے لیے چورن و کالا نمک و سکنجبین گھروں میں رکھتے تھے۔” یہ کتاب 1904ء کی ہے، یعنی سو سال پہلے کی۔ اس میں‌ نظامِ ہضم کی عام شکایت کا حل جہاں چورن اور سکنجبین کو بتایا ہے، وہیں کالے نمک کا ذکر بھی کیا ہے جو آج بھی عام استعمال ہوتا ہے اور یہاں‌ ہم اسی مرکب کو اپنا موضوع بنا رہے ہیں۔

    آئینِ قیصری کی مذکورہ سطر سے تو واضح ہے کہ شکایاتِ معدہ میں‌ کالے نمک کو نافع تصوّر کیا جاتا تھا، مگر اس حوالے سے کوئی ٹھوس اور جامع سائنسی تحقیق نہیں ہے کہ یہ صحّت کے لیے کتنا مفید ہے، اس کے باوجود پاک و ہند میں‌ آج بھی لوگ اسے نظامِ ہضم کی عام شکایات دور کرنے کے لیے ٹوٹکے کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔

    ہمالیائی نمک، سلیمانی نمک، کالا لونڑ، یہ سب اسی کرشمۂ قدرت کے نام ہیں۔ صدیوں سے حکیم و طبیب امراضِ معدہ میں اسی مرکّب پر بھروسا کرتے آئے ہیں۔

    برصغیر پاک و ہند اس لحاظ سے خوش قسمت ہے کہ یہ نمک یہاں ہمالیہ کے پہاڑی سلسلوں میں‌ پایا جاتا ہے، لیکن اسے مانگ پوری کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر مصنوعی طریقے سے بھی بنایا جاتا ہے۔ یہ کام بھٹیوں میں انجام پاتا ہے جہاں عام نمک میں دوسرے اجزا ملا کر یہ مرکّب تیّار ہوتا ہے۔

    یہ عام نمک (سوڈیم کلورائیڈ) ہی ہوتا ہے، لیکن اس میں چند اجزا قدرتی طور پر شامل ہوجاتے ہیں جس سے اس کی رنگت گلابی مائل خاکستری ہوجاتی ہے۔

    کالے نمک کا رنگ اور اس کی خاص بُو کا سبب اس میں موجود آئرن سلفائیڈ بھی ہوتا ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ یہی کیمیائی مرکّب انڈوں اور دودھ کے خراب ہوجانے پر ان سے آنے والی بدبُو کا سبب بھی ہے، لیکن نمک کے ساتھ یہ مختلف "سلوک” کرتا ہے۔

    آج جدید طرزِ علاج اور ادویہ کے استعمال کے سبب کالا نمک کچن میں یا پیس کر اس کی پڑیا تو کوئی اپنی جیب میں نہیں رکھتا، لیکن صدیوں سے یہ مرکّب بدہضمی، تیزابیت، سینے کی جلن، گیس وغیرہ سے نجات دلانے کے لیے استعمال ہوتا آیا ہے‌۔

    بہت زیادہ چکنائی والی چیزیں کھانے کی صورت میں پیدا ہونے والی معدے کی شکایت کو دور کرنا ہو تو چٹکی بھر نمک پانی کے ساتھ پی جائیں۔ اس میں موجود معدنیات معدے کی اس گڑبڑ سے نجات دلا دیں گی۔

    یہ نمک کھانے کو ہضم کرنے میں مدد دیتا ہے اور کہتے ہیں‌ کہ اس سے کولیسٹرول اور شوگر لیول کنٹرول ہوتا ہے۔

    یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس نمک سے پٹّھوں کے اکڑنے کی شکایت رفع ہوسکتی ہے۔ اس کی وجہ کالے نمک میں موجود پوٹاشیم ہے۔

    بعض‌ لوگ اسے جوڑوں کے درد میں مرہم کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور خواتین میں ہسٹریا کی بیماری کا علاج بھی اسی سے کیا جاتا ہے، لیکن اس کے یہ فوائد کسی سائنسی تحقیق سے ثابت نہیں‌ ہیں۔

    کالے نمک کا روزانہ استعمال صحّت کے لیے مضر ثابت ہو سکتا ہے، کیوں‌ کہ اس میں آئیو ڈین نہیں ہوتا۔ اس میں‌ موجود آئرن سلفائیڈ بھی مضر اثرات مرتب کرسکتا ہے، لیکن نمک کا ایک حصّہ ہونے کی وجہ سے یہ کنٹرول میں رہتا ہے۔ تاہم زیادہ استعمال کی صورت میں نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔

    کالے نمک کو حسبِ ضرورت گیس اور تیزابیت سے نجات حاصل کرنے کے لیے مخصوص مقدار میں استعمال ضرور کریں، لیکن اس حوالے سے احتیاط ضروری ہے۔

    اس قدرتی مرکّب کو کبھی کبھار مرغن غذاؤں اور مسالے دار کھانوں میں عام نمک کے متبادل کے طور پر بھی استعمال کیا جاسکتا ہے، جو پکوان کو ایک نئی خوش بُو اور ذائقہ دے گا، لیکن اسے مستقل استعمال نہیں‌ کیا جاسکتا۔

  • نوبیل انعام یافتہ پرل بَک کی پیاری دنیا کا تذکرہ

    نوبیل انعام یافتہ پرل بَک کی پیاری دنیا کا تذکرہ

    پرل بک (Pearl Sydenstricker Buck) کا تعلق امریکا سے تھا، جن کی عمر کے کئی برس چین میں گزرے اور انھیں وہاں‌ کی زندگی اور سماج کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ اپنے انہی مشاہدات اور تجربات کو انھوں نے ایک ناول میں سمیٹ لیا۔ اور ان کی اس ادبی کاوش نے انھیں پلٹزر اور بعد میں نوبیل انعام یافتہ بنایا۔

    پرل بک فکشن رائٹر کی حیثیت سے مشہور ہیں۔ وہ 1892ء میں امریکا میں پیدا ہوئیں۔ والد مذہب کے پرچارک تھے اور تبلیغی مشن کے ساتھ چین میں کئی سال گزارے جہاں 1934ء تک پرل بک کو بھی رہنے بسنے اور اس دوران خاص طور پر دیہاتی ماحول کا مشاہدہ کرنے کا موقع ملا۔ اسی دور کے اپنے مشاہدات اور تجربات ان کے ناول کا حصّہ بنے۔ یہ ناول بیسٹ سیلر ثابت ہوا۔

    اس ناول کا نام گُڈ ارتھ (Good Earth) ہے جسے ‘پیاری زمین’ کے نام سے اردو میں ترجمہ کیا گیا اور یہ کام ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری جیسے نام ور پاکستانی ترقی پسند افسانہ نگار، نقّاد، ماہرِ لسانیات، محقق اور مترجم نے کیا جن کا یہ ترجمہ انجمن ترقیِ اردو دہلی نے شایع کیا۔

    مصنّفہ نے اپنے ناول میں ایک کسان وانگ لنگ کی زندگی کو دکھایا ہے جس نے انتہائی غربت جھیلی اور اسی دوران ہمّت کرکے اپنا کام شروع کیا۔ ایک باندی سے شادی کے بعد اس کی مستقل مزاجی اور محنت نے اس کی زمینوں کو وسعت دی۔ حالات موافق رہے اور وہ ایک کسان سے زمین دار بنتا گیا۔ ناول میں مصنفہ نے یہ بتایا ہے کہ انسان بالخصوص ایک کسان کا زمین کے ساتھ اٹوٹ رشتہ ہوتا ہے، وہ اسے کبھی ختم نہیں‌ کرپاتا۔

    اس ناول میں ایک تاریخی قحط کا ذکر بھی کیا گیا ہے جس کے بعد کسان اور اس کا خاندان بھوک کے ہاتھوں مجبور ہو کر اپنی زمین چھوڑ کر شہر میں آباد ہوتا ہے۔ وہ بھیک اور مانگ تانگ کر بھی گزارہ کرتے ہیں۔

    کہانی جیسے جیسے آگے بڑھتی ہے کسان وانگ لنگ کی زندگی میں‌ اتار چڑھاؤ آتے رہتے ہیں اور مصنفہ انسانی فطرت، غربت اور اس کے پیٹ سے جنم لینے والے مسائل، مال و دولت کے بعد پیدا ہونے والی خرابیوں کے ساتھ سماجی نفسیات کے پہلوؤں کو بھی بیان کرتی چلی جاتی ہیں۔ یہ چند بہترین اور یادگار ناولوں میں سے ایک ہے جس کا اردو ترجمہ بھی نہایت شان دار ہے۔

    نوبیل انعام یافتہ ناول نگار پرل بک 1973ء کو 80 سال کی عمر میں اس دنیا سے رخصت ہوگئی تھیں۔

  • عظیم ناول نگار قرۃُ‌ العین حیدر کی ‘ایک پرانی کہانی’

    عظیم ناول نگار قرۃُ‌ العین حیدر کی ‘ایک پرانی کہانی’

    دوستو! اردو زبان کی نام وَر ادیب قرۃ العین حیدر کی تاریخِ پیدائش 20 جنوری ہے۔ وہ 1926ء کو علی گڑھ میں پیدا ہوئی تھیں۔ قرۃُ العین حیدر نے دنیائے ادب میں اپنے افسانوں اور ناول نگاری کی وجہ سے شہرت اور بلند مقام حاصل کیا۔ وہ ممتاز فکشن رائٹر تھیں‌ جن کا ناول ’’ آگ کا دریا ‘‘ بہت مشہور ہے۔ انھیں‌ علم و ادب کی دنیا کے کئی معتبر اعزازات سے نوازا گیا اور ادب کی نام وَر شخصیات نے ان کے فن اور صلاحیتوں کا اعتراف کیا۔

    آج قرۃُ العین حیدر ہمارے درمیان موجود نہیں‌، لیکن ان کی ادبی تخلیقات ہمیشہ ان کی اور ان کے کمالِ فن کی یاد تازہ کرتی رہیں‌ گی۔2007ء میں قرۃُ العین حیدر وفات پاگئی تھیں۔ انھیں ہندوستان میں‌ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے قبرستان میں سپردِ‌ خاک کیا گیا۔

    دوستو! قرۃُ العین حیدر کے یومِ پیدائش پر ان کے اس مختصر تعارف کے ساتھ ہم یہاں بچّوں کے لیے لکھی گئی اُن کی ایک کہانی بھی نقل کررہے ہیں‌۔ یہ کہانی جہاں آپ کو مطالعے کی طرف راغب کرے گی، وہیں یہ بات خوش گوار حیرت کا باعث بنے گی کہ اپنے عہد کی ایک عظیم تخلیق کار کی نظر میں بچّوں‌ کی کتنی اہمیت تھی‌ کہ ان کے لیے وقت نکالا اور یہ دل چسپ کہانی بُنی۔

    "ایک پرانی کہانی”
    لاکھوں برس گزرے۔ آسمان پر شمال کی طرف سفید بادلوں کے پہاڑ کے ایک بڑے غار میں ایک بہت بڑا ریچھ رہا کرتا تھا۔ یہ ریچھ دن بھر پڑا سوتا رہتا اور شام کے وقت اٹھ کر ستاروں کو چھیڑتا اور ان سے شرارتیں کیا کرتا تھا۔ اس کی بدتمیزیوں اور شرارتوں سے آسمان پر بسنے والے تنگ آگئے تھے۔

    کبھی تو وہ کسی ننھے سے ستارے کو گیند کی طرح لڑھکا دیتا اور وہ ستارہ قلابازیاں کھاتا دنیا میں آ گرتا یا کبھی وہ انہیں اپنی اصلی جگہ سے ہٹا دیتا اور وہ بے چارے ادھر ادھر بھٹکتے پھرتے۔

    آخرایک دن تنگ آکر وہ سات ستارے جنہیں سات بہنیں کہتے ہیں۔ چاند کے عقل مند بوڑھے آدمی کے پاس گئے اور ریچھ کی شرارتوں کا ذکر کرکے اس سے مدد چاہی۔

    بوڑھا تھوڑی دیر تو سَر کھجاتا رہا۔ پھر بولا ’’اچھا میں اس نامعقول کی خوب مرمت کروں گا۔ تم فکر نہ کرو۔‘‘

    ساتوں بہنوں نے اس کا شکریہ ادا کیا۔ اور خوش خوش واپس چلی گئیں۔

    دوسرے دن چاند کے بوڑھے نے ریچھ کو اپنے قریب بلا کر خوب ڈانٹا اور کہا کہ ’’اگر تم زیادہ شرارتیں کرو گے تو تم کو آسمانی بستی سے نکال دیا جائے گا۔ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ ان ننھے منّے ستاروں کی روشنی سے دنیا میں انسان اور جہاز اپنا اپنا راستہ دیکھتے ہیں، لیکن تم انہیں روز کھیل کھیل میں ختم کر دیتے ہو۔ تمہیں یہ بھی معلوم نہیں کہ جب یہ ستارے اپنی اصلی جگہ پر نہیں رہتے تو دنیا کے مسافر اور جہاز رستہ بھول جاتے ہیں۔

    میاں ریچھ نے اِس کان سنا اور اُس کان نکال دیا اور قہقہہ مار کے بولے۔ ’’میں نے کیا دنیا کے جہازوں اور مسافروں کی روشنی کا ٹھیکہ لے لیا ہے جو ان کی فکر کروں۔ یہ کہہ کر ریچھ چلا گیا۔

    ریچھ کے جانے کے بعد بوڑھے نے بہت دیر سوچا کہ اس شیطان کو کس طرح قابو میں لاؤں۔ یکایک اسے خیال آیا کہ اورین دیو سے مدد لینی چاہیے۔ اورین دیو ایک طاقت وَر ستارے کا نام تھا جو اس زمانے میں بہت اچّھا شکاری سمجھا جاتا تھا۔ اور اس کی طاقت کی وجہ سے سب اسے دیو کہتے تھے۔

    یہ سوچ کر بوڑھے نے دوسرے دن اورین دیو کو بلا بھیجا۔ اس کے آنے پر بڑی دیر تک دونوں میں کانا پھوسی ہوتی رہی۔ آخر یہ فیصلہ ہوا کہ وہ آج شام ریچھ کو پکڑنے کی کوشش کرے۔ چنانچہ رات گئے اورین دیو نے شیر کی کھال پہنی اور ریچھ کے غار کی طرف چلا۔ جب ریچھ نے ایک بہت بڑے شیر کو اپنی طرف آتے دیکھا تو اس کے اوسان خطا ہوگئے اور وہ ننھے منے ستاروں سے بنی ہوئی اس سڑک پر جو پریوں کے ملک کو جاتی ہے اور جسے ہم کہکشاں کہتے ہیں، بے تحاشا بھاگا۔

    آخر بڑی دوڑ دھوپ کے بعد طاقت وَر شکاری نے میاں ریچھ کو آلیا اور ان کو پکڑ کر آسمان پر ایک جگہ قید کر دیا جہاں وہ اب تک بندھے کھڑے ہیں۔ اگر تم رات کو قطب ستارے کی طرف دیکھو تو تمہیں اس کے پاس ہی ریچھ بندھا نظر آئے گا جس کو ان سات بہنوں میں سے چار پکڑے کھڑی ہیں۔ باقی تین بہنوں نے اس کی دُم پکڑ رکھی ہے۔

    اگر تم آسمان پر نظر دوڑاؤ تو تمہیں اورین دیو بھی تیر و کمان لیے ریچھ کی طرف نشانہ لگائے کھڑا نظر آئے گا۔

    (یہ کہانی 1967ء میں‌ پٹنہ (بھارت) سے نکلنے والے ایک ڈائجسٹ میں‌ شایع ہوئی تھی)

  • ہالی وڈ کی سیاہ فام حسینہ ڈوروتھی ڈینڈرج کی کہانی

    ہالی وڈ کی سیاہ فام حسینہ ڈوروتھی ڈینڈرج کی کہانی

    یہ بات آپ کے لیے تعجب خیز ہوسکتی ہے کہ ایک سیاہ فام ہالی وڈ میں اپنے روپ سروپ اور دل کشی کے لیے مشہور رہی ہیں۔ یہ ڈوروتھی ڈینڈرج ہیں اور ان کی دل کشی اور صلاحیتوں کا چرچا اس زمانے میں ہوا جب فلمی صنعت میں نسلی امتیاز، تعصّب اور صنفی تفریق کا بھی زور تھا۔

    آئیے ڈوروتھی ڈینڈرج کی زندگی کے اوراق الٹتے ہیں۔

    وہ 1922ء میں پیدا ہوئیں۔ ان کا وطن امریکا تھا۔ ڈوروتھی کی پیدائش سے قبل ہی ان کے والدین میں‌ علیحدگی ہوچکی تھی۔ ڈینڈرج کی ماں بھی اداکارہ تھیں اور ریڈیو ان کی پہچان تھا۔ ان کی دونوں بیٹیاں تھیں‌ جو لڑکپن ہی سے فنونِ لطیفہ میں دل چسپی لینے لگیں۔ انھوں نے اداکاری، رقص اور گائیکی کو اپنا شوق اور پیشہ بنایا۔

    ڈوروتھی ڈینڈرج نے اداکاری ہی نہیں کی، گلوکاری اور رقص میں بھی مہارت حاصل کی اور اپنی صلاحیتوں کو منوایا۔

    یہ وہ زمانہ جب امریکا میں سیاہ فام بدترین نسلی امتیاز اور تعصب جھیل رہے تھے۔ انھیں حقارت اور نفرت ہی نہیں‌ تشدد کا سامنا بھی تھا۔ وہ کئی سہولیات اور مراعات سے صرف اس لیے محروم تھے کہ وہ سیاہ فام غلاموں کی اولاد ہیں۔

    اس زمانے میں ہالی وڈ میں بھی سیاہ فاموں کو چھوٹے اور غیر اہم کرداروں کے قابل سمجھا جاتا تھا، انھیں معمولی نوکری ملتی اور کم تر درجے کا ملازم تصوّر کیا جاتا۔ ان حالات میں ڈینڈرج کا نام ہالی وڈ کے افق پر ایسا چمکا کہ دنیا بھر میں ان کی خوب صورتی اور فن کا چرچا ہونے لگا۔

    کہا جاتا ہے کہ اپنے دور کی خوب صورت ترین اور دل کش اداکارہ مارلن منرو سے پہلے ڈوروتھی ڈینڈرج ہی تھیں جنھیں پُرکشش مانا جاتا تھا۔ انھیں مشہور ترین ‘لائف’ میگزین کے سرورق پر جگہ دی گئی۔ وہ پہلی سیاہ فام اداکارہ تھیں جنھیں میگزین نے ٹائٹل پر سجایا۔

    ڈینڈرج نے 40 اور 50 کی دہائی میں ہالی وڈ کی فلموں میں معمولی کردار نبھائے اور شائقین کو متوجہ کرنے میں‌ کام یاب رہیں۔ 1950ء کے آغاز پر ڈینڈرج نے نائٹ کلبز میں گلوکاری کا شوق پورا کیا اور خوب نام کمایا۔ اسی عرصے میں فلم ‘کارمین جونز’ میں انھیں گلوکارہ کا مرکزی رول آفر ہوا اور یہ فلم کام یاب رہی۔ اس فلم نے آسکر کی ریس میں قدم رکھا تو یہ سیاہ فام بہترین اداکارہ کے زمرے میں نام زد ہوئیں۔ یوں ان کا خوب چرچا ہوا۔

    ‘آئی لینڈ ان دی سن’ اور ‘پورگی اینڈ بیس’ وہ فلمیں‌ تھیں‌ جنھیں‌ سنیما بینوں نے بہت پسند کیا اور ڈینڈرج کی اداکاری سے متاثر ہوئے۔

    ہالی وڈ کی اس سیاہ فام حسینہ نے 1965ء میں یہ دنیا ہمیشہ کے لیے چھوڑ دی۔ موت کے وقت ان کی عمر محض 42 سال تھی۔ ڈوروتھی ڈینڈرج کی موت پر ہالی وڈ میں باقاعدہ سوگ کا سماں تھا۔

  • ہنسیے مگر ہنسی کا مزا ہم سے پوچھیے

    ہنسیے مگر ہنسی کا مزا ہم سے پوچھیے

    محمد حیدر خاں کا تعلق بارہ بنکی (اودھ) سے تھا، اور اسی نسبت سے اپنے تخلص خمار کے ساتھ بارہ بنکوی لگایا۔ دنیائے ادب میں‌ انھیں‌ خمار بارہ بنکوی کے نام سے شناخت کیا گیا اور فنِ شاعری میں مقبول ہوئے۔

    اردو زبان کے اس نام ور شاعر نے پندرہ، سولہ برس کی عمر سے شاعری کا آغاز کیا تھا۔ مشاعروں میں‌ ان کا ترنم بہت مشہور تھا۔ خمار نے فلمی نغمات بھی لکھے اور ان کا کلام بہت مقبول ہوا۔

    خمار بارہ بنکوی کی ایک غزل باذوق قارئین کی نذر ہے۔

    اک پل میں اک صدی کا مزا ہم سے پوچھیے
    دو دن کی زندگی کا مزا ہم سے پوچھیے

    بھولے ہیں رفتہ رفتہ انہیں مدتوں میں ہم
    قسطوں میں خودکشی کا مزا ہم سے پوچھیے

    آغازِ عاشقی کا مزا آپ جانیے
    انجامِ عاشقی کا مزا ہم سے پوچھیے

    جلتے دیوں میں جلتے گھروں جیسی ضو کہاں
    سرکار روشنی کا مزا ہم سے پوچھیے

    وہ جان ہی گئے کہ ہمیں ان سے پیار ہے
    آنکھوں کی مخبری کا مزا ہم سے پوچھیے

    ہنسنے کا شوق ہم کو بھی تھا آپ کی طرح
    ہنسیے مگر ہنسی کا مزا ہم سے پوچھیے

    ہم توبہ کر کے مر گئے بے موت اے خمارؔ
    توہینِ مے کشی کا مزا ہم سے پوچھیے

  • حاجی لق لق کی ‘آمدنی اور خرچ’ پڑھیے

    حاجی لق لق کی ‘آمدنی اور خرچ’ پڑھیے

    اصل نام تو ان کا عطا محمد تھا، لیکن دنیائے ادب میں حاجی لق لق کے نام سے مشہور ہیں۔ لق لق ان کا تخلّص ہے۔

    حاجی لق لق 1898 میں پیدا ہوئے اور 1961 میں لاہور میں وفات پائی۔ طنز و مزاح میں نام ور ہوئے۔ سماجی اور سیاسی موضوعات کو شاعری میں‌ سمویا اور مسائل و مشکلات کی نشان دہی کرتے ہوئے عوام کے جذبات کی ترجمانی کی۔

    حاجی لق لق نے اس نظم ‘آمدنی اور خرچ’ میں منہگائی اور حالات کے مارے عوام کی مالی مشکلات اور ضروریات کے بوجھ کا جو نقشہ کھینچا تھا، وہ آج بھی اسی شدّت سے بالخصوص غریب و متوسط طبقے کے مصائب و آلام اور ان کی ابتر حالت کا عکّاس ہے۔

    نظم ملاحظہ کیجیے۔

    ‘ آمدنی اور خرچ’
    کرایہ مکاں کا ادا کرنے جاؤں
    کہ بزاز و خیّاط کا بِل چکاؤں
    دوا لاؤں یا ڈاکٹر کو بلاؤں
    کہ میں ٹیکس والوں سے پیچھا چھڑاؤں
    خدارا بتاؤ کہاں بھاگ جاؤں

    میں اس ڈیڑھ آنے میں کیا کیا بناؤں

    بہت بڑھ گیا ہے مکاں کا کرایہ
    ادھر نل کے آبِ رواں کا کرایہ
    بقایا ہے ‘برقِ تپاں’ کا کرایہ
    زمیں پر ہے اب آسماں کا کرایہ
    ہے بچوں کی فیس اور چندہ ضروری
    کتب کاپیوں کا پلندہ ضروری
    شکم پروری کا ہے دھندہ ضروری
    یہ آدم کی ایجادِ بندہ ضروری
    بلا کے مصارف ہیں کیا تاب لاؤں

    میں اس ڈیڑھ آنے میں کیا کیا بناؤں

    عزیزوں کی امداد مہماں نوازی
    غریبوں کو خیرات احساں طرازی
    خوراک اور پوشاک میں دنیا سازی
    ادھر فلم کا شوق اور ادھر عشق بازی
    ضروری یہاں سگریٹ اور پان بھی ہے
    عدالت میں جانے کا امکان بھی ہے
    ہے بھنگی بھی دھوبی بھی دربان بھی ہے
    اور اک ساڑی والے کی دکان بھی ہے
    کہاں جاؤں کس کس سے پیچھا چھڑاؤں

    میں اس ڈیڑھ آنے میں کیا کیا بناؤں

    ہیں میلے بھی اسلامی تہوار بھی ہیں
    ہم ایسے مواقع پہ خوددار بھی ہیں
    بہت خرچ کرنے کو تیار بھی ہیں
    بلا سے جو بے برگ و بے بار بھی ہیں
    کسے داستانِ مصارف سناؤں

    میں اس ڈیڑھ آنے میں کیا کیا بناؤں

  • گرل گائیڈ تحریک کیا ہے؟

    گرل گائیڈ تحریک کیا ہے؟

    گرل گائیڈ موومنٹ بین الاقوامی سطح پر معروف ہے جس کا مقصد لڑکیوں اور عورتوں کی کردار سازی، تربیت کرتے ہوئے انھیں‌ مفید، کارآمد اور مثالی شہری بنانا اور انفرادی طور پر انھیں‌ پُراعتماد، قابل اور ایسا فرد بنانا ہے جو مددگار، معاون اور ایثار و قربانی کا پیکر ہو۔

    اس کی بنیاد اسکاؤٹ تحریک کے بانی رابرٹ بیڈن پاول نے لڑکیوں کے ایک گروہ کی خواہش پر رکھی تھی۔ یہ 1909ء کی بات ہے۔ بعد میں اس گروہ کی شہرت نے دنیا کے دیگر ممالک کی لڑکیوں اور عورتوں کو بھی اس پلیٹ فارم سے جڑنے پر آمادہ کیا اور یوں یہ عالم گیر تحریک بن گئی۔

    ایک زمانہ تھا جب برطانیہ میں بھی لڑکیوں کو کئی پابندیوں کا سامنا تھا اور وہ بوائے اسکاؤٹس کے ساتھ، ان کی طرح مختلف مہارتوں کے مقابلوں، تیراکی، بھاگ دوڑ، جسمانی ورزش اور ایسی سرگرمیوں میں حصّہ نہیں لے سکتی تھیں جو اس وقت معیوب اور خاندان کے لیے باعثِ شرم یا سماجی قدروں کی پامالی تصوّر کی جاتی تھیں۔ اسی طرح ان کا کسی ہنگامی حالت، ناگہانی آفت اور حادثے کی صورت میں مرد رضا کاروں کی طرح انسانوں کی مدد کرنا بھی ممکن نہیں‌ تھا۔

    تب لڑکیوں کے ایک گروہ نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ انھیں‌ بھی سماج میں‌ کسی رکاوٹ کے بغیر انسانیت کی خدمت کا موقع ملنا چاہیے اور اس کے لیے علیحدہ تربیت کا انتظام کیا جانا چاہیے۔ یوں لڑکیوں کو ایک پلیٹ فارم ملا اور 1928ء میں یہ سلسلہ ایک تنظیم کی صورت میں دنیا کے 100 سے زائد ممالک میں پھیل گیا جسے گرل گائیڈ تحریک کا نام دیا گیا۔

    گرل گائیڈ تحریک کا مقصد لڑکیوں اور عورتوں کو صحّت مند ماحول مہیا کرنا، مثبت اور تعمیری سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے انھیں مفید اور کارآمد شہری بنانا ہے جب کہ اس تحریک کے ذریعے انفرادی سطح پر ان کی روحانی تربیت، ذہنی اور جسمانی سرگرمیوں اور صلاحتیوں کو اجاگر کیا جاتا ہے۔

    یہ تحریک خاص طور پر نو عمر لڑکیوں کو روزمرہ زندگی کے تقاضوں اور مسائل سے مؤثر طور پر نمٹنے کے لیے تیّار کرتی ہے جس کے ساتھ وہ سماجی ترقی اور تعاون و مدد کے جذبے کو فروغ دینے کے قابل ہوسکتی ہیں۔

    ایک خاتون گائیڈ کا فرض ہے کہ وہ اپنے معمولات اور فرائض کی انجام دہی کے ساتھ دوسروں کی مدد کرے۔ وہ سب کی ہم درد، راہ نما اور بہن ہوتی ہے۔ گرل گائیڈنگ کا مقصد ہمیشہ اور ہر قسم کے حالات کے لیے تیّار رہنا، ذہنی اور جسمانی طور پر فٹ رہتے ہوئے سماج کے لیے کارآمد ثابت ہونا ہے۔

    آج دنیا بھر میں اس تحریک کی شکلیں مختلف ہیں، لیکن ایک عرصے تک گرل گائڈز مخصوص لباس کے ساتھ سفید جوتے اور پوری بازو والی سفید شرٹ پہنتی تھیں جو ان کی پہچان ہے۔

    5 جنوری 1985ء کو پاکستان کے محکمہ ڈاک نے بھی گرل گائیڈ تحریک کے قیام کی پچھترویں سال گرہ کے موقع پر 60 پیسے مالیت کا ایک یادگاری ڈاک ٹکٹ جاری کیا تھا۔ انھیں گرل اسکاؤٹ بھی کہا جاتا ہے۔