Author: عارف حسین

  • 2020ء: ‘میں سانس نہیں لے پا رہا ہوں!’

    2020ء: ‘میں سانس نہیں لے پا رہا ہوں!’

    امریکا کے اُس شہری کی جلد کا رنگ کالا تھا اور وہ غیرمسلح تھا۔ دنیا اُسے مظلوم کہتی ہے، کیوں کہ جس وقت اس کی موت واقع ہوئی، وہ ایک پولیس افسر کی گرفت میں‌ تھا۔ مکمل طور پر بے بس اور وہ وہاں‌ سے بھاگ بھی نہیں‌ سکتا تھا۔ اس کے گرد دوسرے پولیس اہل کار بھی موجود تھے۔

    25 مئی 2020ء کو، اس سیاہ فام، غیر مسلح شخص کو ایک سفید فام پولیس افسر نے ‘موت کے گھاٹ’ اتار دیا۔ اس کا نام جارج فلوئیڈ تھا جسے ایک سڑک پر پولیس افسر نے ‘قابو’ کیا اور پھر اس کی گردن پر اپنا گھٹنا رکھ دیا۔ 46 سالہ جارج یہ بوجھ برداشت نہ کرسکا اور اس نے دَم توڑ دیا۔

    پولیس کی اس بربریت اور سفاکی کی ویڈیو منظرِ عام پر آئی تو لوگوں کو معلوم ہوا کہ سڑک پر تکلیف دہ حالت میں پڑا ہوا سیاہ فام شخص اور وہاں موجود افراد اُس پولیس افسر کو گردن پر دباؤ کم کرنے کے لیے کہہ رہے ہیں۔

    جارج کہہ رہا تھا، ’میں سانس نہیں لے پا رہا ہوں۔‘ لیکن اس کی یہ آواز پولیس افسر کو اپنے ارادے سے باز نہیں‌ رکھ سکی اور جارج فلوئیڈ مر گیا۔

    اس سیاہ فام کے آخری جملے نے امریکیوں کو غم و غصّے اور احتجاج کی طرف دھکیل دیا۔ اس دردناک منظر کو دیکھنے والے امریکیوں اور دنیا کے مختلف ممالک کے شہریوں نے ‘بلیک لائیوز میٹر’ کا نعرہ بلند کیا اور عظیم ریاست اور سپر پاور ہونے کے دعوے دار امریکا کو اس غیر انسانی سلوک اور ناانصافی پر مطعون کرتے ہوئے جارج کے لیے انصاف کا مطالبہ کردیا۔

    امریکا کی تاریخ میں‌ 2020ء کا یہ واقعہ سیاہ فام افراد سے نفرت، تعصب اور ظلم و ناانصافی کی بدترین مثال کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔

    گو کہ امریکا میں‌ کسی سیاہ فام کی ہجوم یا پولیس کے ہاتھوں ہلاکت کا یہ پہلا واقعہ نہیں، لیکن اس واقعے نے کووڈ 19 کی وبا کے دوران لوگوں‌ کو اس کے خلاف اجتماع اور سڑکوں پر مظاہروں پر مجبور کردیا تھا۔ ان میں‌ سفید فام امریکی بھی شامل تھے۔

    سیاہ فام امریکا کی کُل آبادی کا 13 فی صد بتائے جاتے ہیں۔ ان کے اجداد افریقی تھے جنھوں نے غلام کی حیثیت سے اس سرزمین پر قدم رکھا تھا۔ آج بھی امریکا میں غلاموں‌ کی یہ اولادیں‌ رہائش، تعلیم اور روزگار کے حوالے سے بدترین مسائل سے دوچار ہیں۔ انھیں‌ تعصب اور نسل پرستی کے عفریت کا سامنا ہے جس کے خلاف کئی تنظیمیں سرگرمِ عمل ہیں، لیکن تارکینِ وطن سیاہ فام افراد پر پولیس تشدد اور ان کی ہلاکتوں کا سلسلہ جاری ہے۔

    2020ء میں‌ نسل پرستی کے خلاف ‘بلیک لائیوز میٹر’ وہ بڑی تحریک تھی جس نے کرونا وائرس سے خوف زدہ انسانوں دنیا بھر میں اکٹھا ہوکر اس کے خلاف احتجاج پر اکسایا۔

    امریکا میں نسل پرستی، سیاہ فام افراد سے امتیازی سلوک اور پولیس کے ہاتھوں قتل کے ایسے واقعات کے خلاف سڑکوں پر آنے والوں کا کہنا تھاکہ صدیوں پرانی عصبیت اور مخصوص ذہنیت کے نتیجے میں پروان چڑھنے والی سوچ نے ایک اور نہتّے اور بے بس انسان سے اس کی زندگی چھین لی۔

    اس واقعے کے خلاف آسٹریلیا، برطانیہ، فرانس اور ہالینڈ میں بھی احتجاجی اجتماعات ہوئے، اور‌ شرکا نے نسلی مساوات اور سیاہ فام امریکیوں‌ کے حق میں‌ آواز بلند کی اور بلیک لائیوز میٹر کی تحریک نے زور پکڑا۔ امریکا میں‌ مظاہرین جائے وقوع پر جمع ہوئے اور جارج کے آخری الفاظ دہراتے رہے۔

    اس برس انتخابات نے ثابت کیا کہ ڈونلڈ ٹرمپ بھی امریکی عوام کو محبوب نہیں‌ رہے اور انھیں وائٹ ہاؤس سے رخصت ہونا پڑے گا، لیکن اس سے پہلے انھوں نے احتجاجی مظاہرین کو بھی اپنے سخت اور متنازع بیان کی وجہ سے مایوس اور ناراض کیا تھا۔

    ڈونلڈ ٹرمپ افریقی اور جنوبی امریکی ممالک کے تارکینِ وطن کے بارے میں اشتعال انگیز کلمات ادا کرنے سے خود کو نہیں روک سکے تھے جس نے اس بحث کو بھی جنم دیا کہ کیا وہ نسل پرست ہیں؟

    گو سیاہ فاموں کے حق میں مظاہرے امریکا میں‌ پہلے بھی ہوتے رہے ہیں، لیکن اس گزرتے ہوئے سال میں‌ جارج فلوئیڈ کی موت نے ایک بار پھر امریکی معاشرے کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور نسلی امتیاز کے خلاف اس کے آخری الفاظ اور اس کی فریاد ایک نعرہ بن گئی۔

  • 2021ء: ہمارا مستقبل اپاہج نہیں‌ ہو گا؟

    2021ء: ہمارا مستقبل اپاہج نہیں‌ ہو گا؟

    دنیا کے لیے 2020ء کرونا کی وبا کے سبب بھیانک ثابت ہوا۔ خوف زدہ انسانوں نے اموات دیکھیں‌ اور گھروں تک محدود ہو رہے۔ کرونا کی ہلاکت خیزی کا سامنا کرنے والی اس دنیا کے دو ممالک ایسے ہیں جنھیں‌ اس سال بھی پولیو وائرس سے لڑنے کے لیے وسائل اور افرادی قوّت صرف کرنا پڑی ہے۔ یہ ممالک پاکستان اور افغانستان ہیں‌۔

    اس وقت جب دنیا کرونا کی وبا کے ساتھ ہر شعبے میں کئی تبدیلیاں دیکھ رہی ہے اور عالمی معیشت متاثر ہوئی ہے، تب پاکستان صرف اسی وبا کے خلاف نہیں بلکہ انسدادِ پولیو مہمّات پر بھی وسائل اور رقم خرچ کررہا ہے۔

    پاکستان ایک ایسا ملک ہے جس پر عالمی اداروں کے قرضوں کا بوجھ بڑھتا جارہا ہے۔ یہاں‌ غربت ہے، لوگ بنیادی سہولیات سے محروم ہیں اور منہگائی نے ان کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ ان حالات میں‌ ایک طرف کرونا کے وار جاری ہیں اور دوسری جانب ہم مکمل طور پر پولیو کا خاتمہ نہیں‌ کرسکے ہیں اور پاکستان کو اس حوالے سے کئی رکاوٹوں‌ اور مشکلات کا سامنا ہے۔

    پولیو کا مرض پانچ سال تک کی عمر کے بچّوں کو متاثر کرتا ہے اور وہ جسمانی معذوری کا شکار اور بعض کیسز میں موت کے منہ میں‌ چلے جاتے ہیں۔

    2020ء میں‌ بھی پاکستان میں پولیو کیسز سامنے آئے اور جنوری سے اس وقت تک یہ تعداد 83 ہوچکی ہے جب کہ لیبارٹریوں میں‌ موجود مزید نمونوں‌ کی جانچ کے بعد رواں برس میں‌ پولیو کیسز‌ کی کُل تعداد بڑھ سکتی ہے۔

    اعداد و شمار کے مطابق صوبہ پنجاب میں 14 کیسز، سندھ اور خیبرپختون خوا سے 22، بلوچستان میں‌ 25 پولیو کیسز رپورٹ ہوئے۔ گزشتہ سال یعنی 2019ء میں‌ پولیو کے کُل 147 کیس سامنے آئے تھے۔

    پولیو مائلائٹس یا پولیو ایک وبائی مرض ہے جس کا سبب ایک وائرس ہے اور یہ وائرس اعصابی نظام کو نشانہ بناتا ہے۔ یہ ولیو وائرس ٹانگوں اور جسم کے دوسرے اعضا کے پٹھوں کو متاثر کرتا ہے اور معذوری یا بعض صورتوں محض چند گھنٹوں کے اندر اپنے شکار کو موت کی نیند سُلا دیتا ہے۔

    پاکستان اور افغانستان میں ہر سال پولیو کے قطرے پلانے کے لیے باقاعدہ مہم چلائی جاتی ہے اور پولیو ڈے کا انعقاد بھی کیا جاتا ہے جس کا مقصد اس موذی کے خلاف لوگوں‌ کو بیدار کرنا اور انھیں‌ اس خطرے سے آگاہی دینا ہے۔

    اس گزرتے ہوئے سال میں‌ پاکستان ایک بار پھر اس عزم کا اعادہ کر رہا ہے کہ وہ اپنے مستقبل کو اپاہج ہونے سے بچائے گا اور پولیو فری پاکستان کا خواب پورا ہو گا۔

    حال ہی میں‌ پاکستان اور افغانستان نے انسدادِ پولیو کے لیے مشترکہ کوششوں کے حوالے سے ویڈیو کانفرنس بھی کی ہے۔ دونوں ممالک نے اتفاق کیا ہے کہ 2021ء میں بیک وقت پولیو مہمات کا آغاز کیا جائے گا اور اس حوالے سے لوگوں کو آگاہی دی جائے گی۔

    پاکستان میں‌ اس سال 4 کروڑ کے قریب پانچ سال سے کم عمر کے بچّوں کو ویکسین کے قطرے پلانے کے لیے مہم شروع کی گئی تھی۔ پولیو ورکر گھر گھر جاکر بچّوں کو یہ دوا پلاتے ہیں۔

    دنیا کی طرح ہم بھی نئے سال کو خوش آمدید کہنے جارہے ہیں، لیکن 2021ء میں‌ ہمیں صرف کرونا کا مقابلہ ہی نہیں کرنا ہے، بلکہ‌ پولیو کے خلاف بھی جنگ جیتنے کی تیّاری کرنا ہوگی۔

  • ایک شعر کا وہ مشہور مصرع جسے آپ نے بھی دہرایا ہوگا

    ایک شعر کا وہ مشہور مصرع جسے آپ نے بھی دہرایا ہوگا

    لالہ مادھو رام جوہر مرزا غالب کے ہم عصر شعرا میں سے ایک تھے۔ ان کے کئی اشعار ضرب المثل کا درجہ رکھتے ہیں۔ ان کا تعلق فرخ آباد (ہندوستان) سے تھا۔

    اپنے زمانے میں‌ استاد شعرا میں‌ شمار ہوتے تھے۔ ان کی ایک غزل باذوق قارئین کی نذر ہے جس کا ایک مصرع بہت مشہور ہے۔ شاید کبھی آپ نے بھی موقع کی مناسبت سے اپنی بات کہنے کے لیے یہ مصرع پڑھا ہو۔ ہم جس ضرب المثل بن جانے والے مصرع کی بات کررہے ہیں، وہ پیشِ نظر غزل میں شامل ہے۔ غزل ملاحظہ کیجیے۔

    رات دن چین ہم اے رشکِ قمر رکھتے ہیں
    شام اودھ کی تو بنارس کی سحر رکھتے ہیں

    بھانپ ہی لیں گے اشارہ سرِ محفل جو کیا
    تاڑنے والے قیامت کی نظر رکھتے ہیں

    ڈھونڈھ لیتا میں اگر اور کسی جا ہوتے
    کیا کہوں آپ دلِ غیر میں گھر رکھتے ہیں

    اشک قابو میں نہیں راز چھپاؤں کیوں کر
    دشمنی مجھ سے مرے دیدۂ تر رکھتے ہیں

    کون ہیں ہم سے سوا ناز اٹھانے والے
    سامنے آئیں جو دل اور جگر رکھتے ہیں

    حالِ دل یار کو محفل میں سناؤں کیوں کر
    مدعی کان اِدھر اور اُدھر رکھتے ہیں

    جلوۂ یار کسی کو نظر آتا کب ہے
    دیکھتے ہیں وہی اس کو جو نظر رکھتے ہیں

    عاشقوں پر ہے دکھانے کو عتاب اے جوہرؔ
    دل میں محبوب عنایت کی نظر رکھتے ہیں

    غزل آپ نے پڑھ لی ہے، اور یقیناَ جان گئے ہوں گے کہ ہم کس مصرع کی بات کررہے تھے۔

    یہ مصرع ہے: ‘تاڑنے والے قیامت کی نظر رکھتے ہیں’

  • کووڈ 19 سے قبل آنے والی وبائیں‌ اور دنیا پر ان کے اثرات

    کووڈ 19 سے قبل آنے والی وبائیں‌ اور دنیا پر ان کے اثرات

    ہزار ہا صدیوں سے روئے زمین پر زندہ رہنے کے لیے جتن کرتے انسان نے کئی قیامت خیز منظر دیکھے، طرح طرح کی افتاد کا سامنا کیا اور ناگہانی آفات کا شکار ہوا۔

    کبھی دریا بپھرے تو کہیں سمندر کی لہروں نے بے رحمی کا ثبوت دیا، کبھی جیتے جاگتے شہروں کو گرد و باد کے طوفان نے انسانوں کا مدفن بنا چھوڑا۔ زلزلے آئے، شدید بارشیں ہوئیں اور موسم کی سختیوں کے آگے انسان ڈھیر ہورہا۔ اسی طرح مہلک امراض اور وبائیں بھی انسانوں کی ‘قاتل’ ثابت ہوئیں۔

    آج دنیا کو کرونا کی وبا کا سامنا ہے جس نے لاکھوں انسانوں کو موت کی نیند سلا دیا ہے جس طرح ماضی میں مختلف خطّوں میں طاعون، چیچک، اسپینش فلو جیسی وباؤں اور مہلک امراض نے لاکھوں‌، کروڑوں انسانوں کو ہلاک کردیا تھا۔

    جس طرح آج ہم کرونا کی وبا کے سبب اپنے سماج اور طرزِ زندگی میں بدلاؤ دیکھ رہے ہیں، اسی طرح ماضی کی بعض وباؤں نے جہاں کروڑوں کی تعداد میں انسانوں‌ کی زندگی کا خاتمہ کیا‌، وہیں دنیا بھر میں نمایاں تبدیلیوں کا محرّک ثابت ہوئیں۔

    یہاں ہم چند مہلک وبائی امراض کا ذکر کرتے ہوئے ان وباؤں‌ کی بات کریں‌ گے جنھوں نے دنیا کا نقشہ ہی بدل ڈالا۔

    ماضی کے ہلاکت خیز وبائی امراض
    ہسپانوی فلو نے 1918ء میں سَر اٹھایا اور 1920ء تک اس مہلک وبا نے دس کروڑ انسانوں میں‌ موت بانٹ دی تھی۔ دنیا اس وقت پہلی جنگِ عظیم کی تباہی کے اثرات جھیل رہی تھی اور اس وبا نے زندگی مزید دشوار کردی۔ ہسپانوی فلو سے ہلاک ہونے والوں میں خاصی تعداد جوانوں کی تھی۔

    ایک وبا ایشیائی فلو کے نام سے تاریخ میں ‘زندہ’ ہے جو 20 لاکھ انسانوں کی قاتل ثابت ہوئی۔ 1957ء میں چین سے فلو کی یہ قسم دنیا بھر میں پھیل گئی اور ایک سال کے اندر فقط امریکا ہی میں 70 ہزار لوگ اس کے ہاتھوں ہلاک ہوگئے۔

    1915ء میں‌ نیند کی وبا نے سر اٹھایا جس کا سبب ایک جرثومہ تھا۔ 1925ء تک اس مصیبت نے لگ بھگ 15 لاکھ انسانوں کی زندگی ختم کردی تھی۔ یہ گردن توڑ بخار کی ایک شکل تھی جس میں مریض پر شدید غنودگی طاری ہو جاتی تھی۔

    اگر ہم وباؤں کے ساتھ مختلف مہلک جراثیمی امراض‌ کی بات کریں تو ہیضہ، خسرہ، ملیریا کے علاوہ انفلوئنزا، ہنٹا، ایبولا، کانگو وائرس، ڈینگی نے بھی دنیا کو متاثر کیا تھا، لیکن بعض‌ وبائیں‌ ایسی ہیں‌ جنھوں نے دنیا کا نقشہ بدل دیا۔ ان وباؤں میں مغربی یورپ میں‌ پھیلنے والا طاعون جسے بلیک ڈیتھ کہا جاتا ہے، 1350ء کا طاعون، 15 ویں صدی میں امریکا میں پھوٹنے والی چیچک کی وبا، 1801ء میں افریقی ملک ہیٹی کا زرد بخار اور 1641ء میں‌ شمالی چین کا طاعون قابلِ ذکر ہیں۔

    دنیا میں بڑی تبدیلیوں کا محرّک بننے والی وباؤں پر ایک نظر

    جسٹینین طاعون
    آغاز کرتے ہیں جسٹینین طاعون سے جس کا زمانہ 541ء کا ہے۔ ماہرین کا اندازہ ہے کہ اس طاعون نے ڈھائی کروڑ انسانوں کی جان لی تھی۔ اس کی مدت دو سال بتائی جاتی ہے، لیکن اس عرصے میں اس مہلک وبا نے اس زمانے کی بازنطینی ریاست اور ساسانی سلطنتوں کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ وبا کے بعد خطّے کی تاریخ کا رُخ ہی بدل گیا اور چند عشروں بعد ہی عرب اس خطّے کی سیاسی طاقتوں کو پیچھے دھکیلنے میں‌ کام یاب رہے۔

    انتونین
    انتونین کی وبا لگ بھگ 50 لاکھ اور بعض ماہرین کے مطابق ایک کروڑ انسانوں کی موت کا سبب بنی تھی۔ اس وبا نے 165 سے 180 عیسوی تک انسانوں‌ کو خوف زدہ کیے رکھا۔ یہ وہ وقت ہے جب رومی سلطنت کا عروج تھا۔ اس زمانے میں یورپ کا بڑا حصّہ اس سے متاثر ہوا اور لوگوں‌ کے حالات بدتر ہوگئے جس نے افراتفری اور انتشار کو جنم دیا۔ مشہور حکیم جالینوس اسی دور میں گزرا ہے جس نے اس مرض کے بارے میں بھی لکھا تھا۔

    طاعون کی وبا اور یورپ
    یہ 1346ء کی بات ہے جب ایک وبائی مرض نے بحیرہ روم، فرانس اور شمالی افریقا میں ہر طرف گویا موت بانٹنا شروع کردی۔ متاثرہ علاقوں کی آدھی آبادی مٹ گئی۔ اس بوبونک طاعون نے یورپی سماج، معیشت اور سیاست کو بدترین دوراہے پر لا کھڑا کیا۔ یہ وبا مغربی یورپ میں‌ پھوٹی تھی، اور اس نے وہاں جاگیرداری نظام کو ہلا کر رکھ دیا۔

    مسلسل اموات کے سبب زمین داروں اور اشرافیہ کو نوکروں اور کسانوں کی کمی کا مسئلہ درپیش تھا۔ محنت کشوں کی اکثریت موت کے منہ میں چلی گئی تھی۔

    وبا تھمی تو وہاں بھوک اور بدحالی منڈلا رہی تھی۔ اب غریب اور محنت کش طبقہ معقول اجرت اور معاوضہ چاہتا تھا۔ امرا کی ضرورت کا اندازہ کرتے ہوئے مزدوروں میں ان سے سودے بازی کی ہمّت پیدا ہوئی اور انھوں نے بہتر معاوضہ اور اجرت طلب کی۔ اسی وبا کے بعد یورپ دو حصّوں مغربی اور مشرقی یورپ میں بٹ گیا تھا۔

    مغربی یورپ کے کسان اور محنت کش اکٹھے ہوگئے اور انھوں‌ نے مختلف ٹیکس اور محاصل دینے سے انکار کرتے ہوئے اس کے خلاف باقاعدہ تحریک شروع کردی۔

    کسانوں نے جرمانوں اور جبری مشقت کے خلاف مہم چلائی اور مغربی یورپ میں‌ پھیل گئے۔ وہ بادشاہت کا زمانہ تھا، اور 1381ء میں عوام نے شاہی احکامات ماننے اور مزید ٹیکس دینے سے انکار کردیا۔ یوں وہاں سیاسی اور انتظامی تبدیلیوں کی ضرورت محسوس ہوئی۔ تب کسانوں کے حالات بھی کسی قدر بہتر ہوئے۔

    دوسری طرف مشرقی یورپ بھی اس وبا سے متاثر ہوا تھا، لیکن وہاں اس وبا کے بعد مختلف صورتِ حال نظر آئی۔ وہاں جاگیرداری نظام مزید مستحکم ہوا جس کے مختلف اسباب ہیں۔ تاہم یہ بھی ایک بڑی تبدیلی تھی۔

    مشرقی اور مغربی یورپ 1600ء تک الگ الگ طاقت بنے اور یہ وبا کے بعد پیدا ہونے والے حالات ہی کا نتیجہ تھا۔

    نوآبادیاتی نظام اور چیچک کی وبا
    پندرھویں صدی کے آخری برس امریکا میں چیچک کی وبا سے ہلاکتوں اور موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے تاریخ میں یاد رکھے گئے ہیں۔

    برطانیہ میں یونیورسٹی کالج لندن کے ایک علمی اور تحقیقی مطالعے سے یہ بات سامنے آئی کہ یورپ کی توسیع کی خواہش کے نتیجے میں اس خطّے کی آبادی ایک سو سال میں صرف پانچ یا چھے ملین رہ گئی تھی۔ ان میں زیادہ اموات نو آبادیاتی نظام کا نتیجہ تھیں، کیوں کہ مختلف برسوں کے دوران مہمّات سَر کرکے اپنے آبائی علاقوں‌ کو لوٹنے والے اپنے ساتھ وبائی امراض‌ بھی لائے اور وہ اس سے بے خبر تھے۔ انہی میں سب سے بڑا قاتل چیچک تھا جس نے امریکا میں پنجے گاڑ دیے۔ بعد میں‌ اس وبا کے ہمہ گیر اثرات ظاہر ہوئے۔

    ان وباؤں کے سبب افرادی قوّت کی کمی اور انسانی آبادیوں کا توازن بگڑنے سے کھیتی باڑی کم ہو گئی اور اس نے ماحول کو بھی متاثر کیا۔زمین جنگلات میں تبدیل ہونے لگی اور اس کے نتیجے میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج کم ہوگیا جس سے دنیا کے بعض خطّوں میں درجہ حرارت بھی گر گیا۔

    سائنس دانوں کا خیال ہے کہ اس کے ساتھ ہی بڑے آتش فشاں پھٹے اور ایک ایسا دور گزرا جسے "لٹل آئس ایج” کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس میں سب سے زیادہ یورپ متاثر ہوا، جہاں فصلوں کو شدید نقصان پہنچا اور قحط پڑا۔

    چین کا وبائی مرض جو منگ بادشاہت کو لے ڈوبا
    منگ خاندان نے تقریباً تین صدیوں تک چین پر راج کیا، لیکن طاعون کی وبا نے مشرقی ایشیا میں اس کی طاقت اور اثر رسوخ کو تباہ کردیا۔1641ء میں شمالی چین میں وبائی مرض سے کچھ علاقوں میں بیس سے چالیس فی صد آبادی ختم ہوگئی۔

    طاعون سے پہلے وہاں خشک سالی اور ٹڈی دل نے بھی پنجے گاڑ رکھے تھے جس کے بعد وہاں لوگ بھوک سے مرنے لگے۔ اس طاعون نے حالات کو مزید خراب کردیا اور ایک یلغار نے منگ خاندان کی تین صدیوں پرانی بادشاہت کو بھی نگل لیا۔

    ہیٹی کا زرد بخار جس نے ‘کالونیوں’ کا راستہ روکا
    کہتے ہیں ہیٹی میں پھیلنے والی وبا ہی تھی جس نے فرانس کو شمالی امریکا سے باہر نکالا اور نوآبادیاتی نظام کا راستہ روکا جس کے بعد امریکا کو وسعت ملی اور اس کی طاقت میں تیزی سے اضافہ ہوا۔

    یہ 1801ء کی بات ہے جب یورپ نوآبادیاتی نظام پر توجہ دے رہا تھا۔ ہیٹی میں زرد بخار کی وبا پھیل گئی جس نے تقریباً پچاس ہزار فوجی، انتظامی افسران، معالج اور ملاحوں کی جان لے لی۔ وہاں بغاوت پھوٹ پڑی اور اس وقت وہاں سے فرانس کے صرف تین ہزار مرد زندہ لوٹنے میں‌ کام یاب ہوئے۔

    اس افریقی وبا نے نپولین کو نوآبادیاتی عزائم ترک کرنے پر مجبور کردیا۔کہتے زرد بخار نے نہ صرف ہیٹی بلکہ شمالی امریکا کو بھی فرانس کی نوآبادیات بننے سے بچا لیا۔

    جانوروں میں پھیلنے والی بیماری اور نئی کالونیاں
    یہ کوئی وبائی مرض نہ تھا بلکہ 1888ء سے 1897ء کے جانوروں میں پھیلنے والا وائرس تھا جسے رینڈر پیسٹ وائرس کہتے ہیں۔ اسے مویشیوں کا طاعون بھی کہا گیا ہے۔ اس وائرس نے افریقا میں 90 فی صد مویشیوں کو ہلاک کردیا جو بھوک اور بدحالی کا سبب بنا اور وہاں‌ افراتفری اور بدانتظامی پھیلی۔ زرد بخار کے برعکس اس طاعون نے یورپ کو نئی کالونیاں قائم کرنے کا موقع دے۔

    طاقت ور یورپی ممالک نے انیسویں صدی کے آخر میں افریقا میں افراتفری اور بدحالی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے وہاں‌ قدم جمائے۔ فرانس، جرمنی، پرتگال، بیلجیئم اور اٹلی سمیت یورپ کے 14 ممالک نے کئی افریقی علاقوں پر بعد میں اپنا حقِ حکم رانی منوایا اور نقشہ سازی کی اور 1900ء تک اس برّاعظم کے 90 فی صد حصّے پر ان ممالک کا تسلط قائم ہوگیا۔

  • جب مشہورِ زمانہ مہم جُو بیئر گرلز بلندی سے زمین پر گرا

    جب مشہورِ زمانہ مہم جُو بیئر گرلز بلندی سے زمین پر گرا

    ایڈورڈ مائیکل گرلز کا تعلق برطانیہ سے ہے۔ وہ 1974ء کو پیدا ہوا۔ اسے شروع ہی سے مہم جوئی اور جسمانی طاقت کے مظاہروں کا شوق تھا جس کا ایک سبب شاید یہ تھا کہ وہ ایک ایسے خاندان میں‌ پیدا ہوا جو کھیلوں کا شائق تھا۔ اس کے دادا اور ان کے بزرگ بھی کرکٹر تھے۔ گھر میں‌ اس کے والد جسمانی تن درستی برقرار رکھنے کے لیے ورزش اور دوڑ وغیرہ کو اہمیت دیتے تھے۔

    وہ بڑا ہوا تو والد نے اسے بلندی پر چڑھنا، چھلانگ لگانا سکھایا، اس کا خوف دور کیا اور پھر اسے کراٹے سیکھنے کے لیے بھیجا جہاں اس نے بلیک بیلٹ حاصل کی۔ تیراکی اور غوطہ خوری میں مہارت اس کے شوق اور دل چسپی کا نتیجہ تھی۔

    اب فطرت اور جنگلی حیات میں اس کا تجسس بڑھا۔ وہ دنیا کی بلند ترین چوٹیوں کو سَر کرنا چاہتا تھا۔ یہ خواب اس نے کم عمری میں‌ دیکھا تھا۔

    اسکول سے فراغت کے بعد اس نے کوہ پیمائی کا شوق پورا کیا۔ اس نے چند سال برطانوی فوج کے رضا کار کی حیثیت سے بھی کام کیا اور پھر اسے 1996ء میں ایک حادثہ پیش آیا جس کا شکار کوئی عام انسان ہوتا تو شاید زندگی کی طرف اس کا لوٹنا آسان نہ ہوتا۔

    وہ زمیبیا میں فری فال پیرا شوٹنگ کر رہا تھا اور سطحِ سمندر سے 16000 فٹ کی بلندی پر تھا جب پیرا شوٹ پھٹ گیا۔ وہ بلندی سے نیچے کی طرف آرہا تھا تو پیرا شوٹ اس کے گرد لپٹ گیا۔ زمین پر گرنے والے اس نوجوان کی ریڑھ کی ہڈّی تین جگہ سے شکستہ ہوچکی تھی۔ اس کے سرجن کے بقول لگتا تھا کہ وہ زندگی بھر کے لیے اپاہج ہوجائے گا۔ وہ تقریباً ایک سال تک بستر پر اپنا علاج کرواتا پڑا رہا۔

    یہ حادثہ اسے نہ تو توڑ سکا، نہ ہی اسے کم زور بنا سکا بلکہ اس نے محض 18 ماہ بعد ہمّت اور حوصلے کی ایک مثال قائم کی۔ 16 مئی 1998ء کو اس نے دنیا کی بلند ترین چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ سَر کی۔ وہ 23 برس کا تھا جب یہ کارنامہ انجام دیا۔

    یہ عالی ہمّت کون ہے؟ دنیا اسے بیئر گرلز کے نام سے جانتی ہے۔ جی ہاں، یہ کہانی تھی ڈسکوری چینل کے پروگرام ’مین وورسز وائلڈ‘ کے مقبول میزبان اور مشہورِ زمانہ مہم جُو کی۔

  • نتاشا کمپوش: اسکول جانے والی طالبہ جو آٹھ سال بعد گھر لوٹی

    نتاشا کمپوش: اسکول جانے والی طالبہ جو آٹھ سال بعد گھر لوٹی

    اگر آسٹریا کے شہر ویانا کے ایک حقیقی واقعے کو کچھ دیر کے لیے ہم کہانی فرض کرلیں‌، تو اسے دو ابواب میں بانٹا جاسکتا ہے۔

    پہلا باب ایک بدترین صبح کی اُس ساعت کے بطن سے جنم لیتا ہے جس میں ایک دس سالہ طالبہ اسکول جانے کے لیے گھر سے نکلتی ہے، لیکن معمول کے مطابق چھٹّی کے بعد وہ اپنے گھر نہیں پہنچتی۔ تب اس کی تلاش شروع ہوتی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ وہ اسکول ہی نہیں‌ آئی تھی۔ یہ 2 مارچ، 1998ء کی بات ہے۔

    پھر وہ کہاں‌ گئی اور اگر وہ اپنی مرضی سے کہیں‌ گئی تھی تو گھر کیوں‌ نہیں‌ لوٹی؟ راستے میں کوئی حادثہ پیش آیا یا اسے اغوا کرلیا گیا؟

    والدین کے سامنے سوال ہی سوال تھے۔ بیٹی کی جدائی کا غم انھیں‌ نڈھال کیے دے رہا تھا۔ ماں کا جگر چھلنی تھا۔ بچّی کا باپ پولیس اسٹیشن میں گم شدگی کی رپورٹ درج کرواتے ہوئے رو پڑا تھا۔

    ہر دن بچّی کی تلاش ناکام ثابت ہوئی اور پاس پڑوس سے پوچھ گچھ کا کوئی نتیجہ نہ نکلا۔

    آٹھ سال بیت گئے، لیکن کوئی سراغ نہ ملا۔ البتہ 12 سالہ ایک بچّے کا کہنا تھا کہ اس نے دو آدمیوں کو دیکھا تھا جنھوں نے سفید رنگ کی ایک وین میں اُس لڑکی کو گھسیٹ کر ڈالا اور آگے بڑھ گئے۔ وہ بس یہی دیکھ سکا تھا۔ پولیس نے اس کی نشان دہی پر اس مقام کا معائنہ کیا اور شواہد اکٹھے کرنے کی کوشش کرتے ہوئے وہاں آس پاس سبھی سے معلوم کرلیا، لیکن کوئی کچھ نہیں‌ بتا سکا۔

    اس کہانی کے دوسرے اور بہار آفریدہ حصّے کی طرف بڑھیں‌ تو یہ 23 اگست 2006ء کی بات ہے جب 18 سال کی نوجوان لڑکی اپنی ماں کی بانہوں میں‌ تھی۔ یقین کرنا مشکل تھا۔ ماں نے ایک نظر میں اپنی بیٹی کو پہچان لیا۔ باپ نے اسے گلے لگایا اور آنسو بہتے چلے گئے۔ خوشی کے آنسو۔ ان کی بیٹی زندہ سلامت ان کے سامنے تھی۔ وہ گھر لوٹ آئی تھی۔

    یہ ایک حقیقی واقعہ ہے جس میں ویانا کی رہائشی نتاشا کمپوش کو اس کے گھر سے محض‌ آدھے گھنٹے کی ڈرائیو پر واقع ایک گھر کے تہ خانے میں آٹھ سال تک رکھا گیا اور ایک روز اسے وہاں سے فرار ہونے کا موقع مل گیا۔

    پولیس اور انتظامیہ نے ڈی این اے ٹیسٹ کے نتائج سامنے آنے کے بعد کہا کہ یہی وہ نتاشا کمپوش ہے جو آٹھ سال قبل لاپتا ہوگئی تھی۔

    والدین اور نتاشا کے انٹرویو آسٹرین ٹیلی ویژن اور مقامی ریڈیو پر نشر ہوئے جب کہ اخبارات نے بھی اس خبر کو شایع کیا۔ اس طرح گویا سبھی ان کی خوشی میں‌ شریک ہوئے۔

    نتاشا کمپوش کی ماں‌ کا کہنا تھاکہ ’میں نے اپنی بچّی کو دیکھتے ہی بانہوں میں لے لیا۔ مجھے یقین تھا کہ میری بیٹی زندہ ہے۔‘

    نتاشا کی ماں نے بتایا کہ بچّی نے انھیں‌ ’ماما موسی‘ کہہ کر بلایا، جیسا کہ وہ پیار میں اکثر کہا کرتی تھی۔‘

    نتاشا کمپوش کے والد لاڈونگ کاچ کی آواز بھرائی ہوئی تھی۔ میڈیا سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ مجھے یقین نہیں تھا کہ میں اپنی زندگی میں اپنی بیٹی کو دوبارہ دیکھ سکوں گا، لیکن میں نے اس کی کھلونا کار ہمیشہ سے اپنے پاس رکھی تھی اور اپنے ذہن میں یہ خیال کبھی نہیں آنے دیا کہ وہ مر گئی ہے۔

    اب اس شخص کا تذکرہ جس نے نتاشا کو قید میں‌ رکھا تھا، لیکن یہ جان لیجیے کہ 44 سالہ ولفگینگ پرکلوپل نے اُسی روز خود کشی کر لی تھی جس دن نتاشا اس کے گھر سے فرار ہوئی تھی۔ وہ ٹرین کے سامنے آگیا تھا اور یوں پولیس اغوا کار سے محرکات اور اس کارروائی کا اصل مقصد نہیں‌ جان سکی۔

    نتاشا نے پولیس کو اس کے گھر تک پہنچایا اور وہ جگہ اور اپنے زیرِ استعمال اشیا دکھائیں‌ جو دراصل گیراج کے نیچے ایک تہ خانے میں رکھی ہوئی تھیں۔ یہیں‌ نتاشا کے شب و روز گزر رہے تھے۔

    دل چسپ بات یہ ہے کہ جب نتاشا اغوا ہوئی تھی تو پولیس نے پرکلوپل سے بھی پوچھ گچھ کی تھی۔ اس وقت وہ اپنی کار میں کہیں‌ جارہا تھا اور ناکہ بندی کے دوران سات سو سے زائد سفید رنگ کی وین اور مختلف کاروں کو روکنے کے دوران پرکلوپل کو بھی روکا گیا تھا، لیکن پولیس کو اس پر ذرا بھی شک نہیں‌ ہوا تھا۔

    ایک روز نتاشا نے کار صاف کرتے ہوئے دیکھا کہ گھر کا دروازہ بند نہیں‌ ہے اور ایسا کبھی نہیں‌ ہوتا۔ وہ باہر نکلی تو لمحوں میں‌ اندازہ لگا لیا کہ اغوا کار دروازہ بند کرنا بھول گیا ہے اور یہ فرار ہونے کا بہترین موقع ہے۔ اس نے فوراً ایک جانب دوڑ لگا دی اور یوں اپنے والدین تک پہنچی۔

    نتاشا کے مطابق وہ شخص اسے کھانے پینے کو دیتا تھا، اس کی دوسری ضرویات پوری کرتا تھا۔ یہی نہیں‌ بلکہ اس نے نتاشا کو لکھنا، پڑھنا اور حساب بھی سکھایا تھا۔

    وہ نتاشا کو اپنے ساتھ باہر بھی لے جاتا تھا، جہاں ہر وقت اس کا ہاتھ تھامے رکھتا۔ اس دوران نتاشا نے جب کسی کو اپنی جانب متوجہ پایا تو اسے آنکھوں کے اشارے سے اپنی مدد کے لیے کہا، لیکن اس کی یہ کوشش کام یاب نہیں‌ ہوئی۔

    وہ چھوٹی تھی اور اغوا کار کا ڈر اس کے دل میں تھا۔ باہر پرکلوپل کی موجودگی میں ہاتھوں کے اشارے یا باڈی لینگویج سے کسی راہ گیر کو کوئی بات سمجھانا آسان نہیں‌ تھا۔

    پولیس کے مطابق اغوا کار نتاشا سے گھر کے تمام کام اور اپنی کار بھی صاف کرواتا تھا۔

    نتاشا کمپوش کے اغوا پر ناول بھی لکھا گیا، فلم بھی بنی اور خود نتاشا نے اپنی کہانی(آپ بیتی) لکھی اور اسے شایع کروایا ہے۔ نتاشا کی زندگی سے متعلق کوئی خبر ہو، اس واقعے پر مبنی کوئی ناول یا فلم ہو، ضرور آسٹریا کے باسیوں‌ کی توجہ کا مرکز بنتی ہے۔

  • کنگ سولومن مائنز: افریقا کی ایک مشہور مہمّاتی داستان

    کنگ سولومن مائنز: افریقا کی ایک مشہور مہمّاتی داستان

    "کنگ سولومن مائنز” ایک مشہور مہماتی ناول ہے جسے مشہور برطانوی مصنّف ہنری رائڈر ہیگرڈ نے اپنے پُراسرار اور تحیّر پسند قلم سے لکھا تھا۔ یہ ناول 1885ء میں شایع ہوا تھا۔

    اس ناول کی خاص بات یہ ہے کہ اسے مصنف نے افریقا کے ایک سفر کی داستان سے بُنا ہے، جسے اس زمانے میں‌ افریقا کی سرزمین کے پُراسرار واقعات کی پہلی تخیلاتی کاوش کہا گیا۔ تاہم اس ناول کے کرداروں‌ کی مہم افریقا کے نامعلوم مقامات تک محدود نہیں‌ بلکہ وہ دریائے یرموک کے قریب اور شمالی اردن اور شامی علاقوں تک بھی جاتے ہیں۔ اس مہم میں‌ شامل افراد کے سربراہ ایلن کواٹر مین تھے۔ یہ اپنے گروہ کے ایک ساتھی کے بھائی کی تلاش میں‌ نکلتے ہیں، جو ایک روز غائب ہوجاتا ہے۔

    یہاں‌ ہم اپنے قارئین کو سر ہنری رائڈر ہیگرڈ کے بارے میں مختصراً بتاتے چلیں کہ یہ ناول نگار 1856ء میں پیدا ہوا اور 1925ء میں دنیا سے رخصت ہوا۔ انگریزی زبان کے اس ناول نگار کی وجہِ شہرت وہ داستانیں ہیں‌ جو مہم جوئی، اسرار و تحیّر کو اپنے تخیل کی گرفت میں‌ لیتی اور انوکھی یا نامعلوم دنیاؤں کی سیر کراتی ہیں۔

    "کنگ سولومن مائنز” وہ ناول تھا جس کا اردو ترجمہ مظہر الحق علوی نے "گنجِ سلیمان” کے نام سے کیا تھا۔ ہندوستان کے اس معروف مترجم، افسانہ نگار اور ڈرامہ نویس نے انگریزی زبان کے اس ناول کو 1955ء میں اردو کے قالب میں‌ ڈھالا تھا۔

    سر رائڈر ہیگرڈ کے متعدد ناولوں‌ کو غیر معمولی مقبولیت اور ان کے اسلوب کو زبردست پزیرائی حاصل ہوئی۔

    برطانوی مصنف نے افریقا کی سیر و تفریح اور وہاں‌ قیام کے دوران اس برّاعظم کی تہذیب و تمدن کے ساتھ اس کے عجائب و اسرار کو کھوجتے ہوئے انھیں‌ اپنی کہانیوں‌ کا موضوع بنایا۔

    رائڈر ہیگرڈ نے افریقا کو کئی ناولوں کا موضوع بنایا۔ "کنگ سولومن مائنز” وہ لازوال مہماتی داستان ہے جس کے اردو میں پانچ سے زائد ایڈیشن شایع ہوئے۔

  • مشاہیرِ ادب کی نوک جھونک (تصویری خاکے)

    مشاہیرِ ادب کی نوک جھونک (تصویری خاکے)

    اردو ادب میں معاصرانہ چشمک، تخلیقات پر مباحث اور صاحبانِ علم و فن میں چھیڑ چھاڑ کے واقعات آپ نے سنے اور رسائل و جرائد میں پڑھے بھی ہوں‌ گے۔ شاعری کی بات کی جائے تو نام ور اور استاد معاصر شعرا میں‌ نوک جھونک کی مثالیں عام ہیں۔

    شعرا کے درمیان چھیڑ چھاڑ جب علم و فن کے دائرے سے نکلی تو اس نے ذاتیات پر حملے اور صاحبانِ‌ کمال کی جانب سے نہایت پستی کا مظاہرہ بھی دیکھا۔ بحث و اختلاف کو علمی اور اخلاقی حدود کا پابند رکھنا چاہیے، لیکن ایسی چشمکوں‌ اور مباحث میں شخصی کم زوریوں‌ پر گرفت طنزِ قبیح کے سہارے خود کو ثابت کرنے کی کوشش کی گئی جس پر کئی کتب موجود ہیں۔ منطق اور دلیل کے بجائے مشاہیر نے رکیک زبان استعمال کی۔

    میرؔ و سواؔد، انشؔا و مصحفی، ناسؔخ، انیسؔ و دبیر، غالب اور استاد ذوق سمیت کتنے ہی اساتذہ سخن کے درمیان معرکوں‌ کا احوال ہم نے‌ پڑھا یا اس بارے میں‌ سنا ہوا ہے۔ ایسے معاملات میں شعرا کے ساتھ نام وَر نثر نگاروں کو بھی حمایت یا مخالفت میں سامنے آنا پڑا اور یہ سلسلہ آج بھی کسی نہ کسی شکل میں جاری ہے۔ ‌

    محمد طفیل کے زیرِ ادارت شایع ہونے والے معروف ادبی جریدے "نقوش” نے ایک زمانے میں ادبی معرکے نمبر بھی نکالا تھا جس میں مشاہیر کے تذکرے اور ادبی تنازعات پر تحریریں‌ شامل تھیں۔ اس شمارے کے مضامین کی مناسبت سے مدیر نے نام ور تخلیق کاروں کے خاکے (تصویری) بھی شایع کیے تھے۔ یہ خاکے ہمارے قارئین، بالخصوص شائقینِ‌ علم و ادب کی دل چسپی اور توجہ کے لیے پیش ہیں۔

    انیس و دبیر اپنا اپنا رنگ جما رہے ہیں

     

    میر تقی میر ۔۔۔۔۔۔ نکاتُ الشعرا پر شعرا کا احتجاج

     

    مصحفی و انشا

     

    سر سیّد احمد خاں اور اکبر الہ آبادی۔۔۔۔۔۔ اقدار کا تصادم

     

    مولانا ظفر علی خاں جنھیں کئی محاذوں پر لڑنا پڑا

     

    مولانا آزاد اور مولانا ماجد ۔۔۔۔۔۔۔علمی زور آزمائی

     

    حافظ محمود شیرانی۔۔۔۔ دنیا کاعلم گھول کے پی گئے

     

    چراغ حسن حسرت اور ڈاکٹر تاثیر دل لگی کے موڈ میں

     

    جوش ملیح آبادی اور شاہد احمد دہلوی۔۔۔۔۔ بہت چھینٹے اڑے!
  • انسانوں‌ کو شاد باد کرتا میکانگ، برباد ہورہا ہے!

    انسانوں‌ کو شاد باد کرتا میکانگ، برباد ہورہا ہے!

    ہماری زمین شور مچاتے رواں دواں دریاؤں، حسین و جمیل وادیوں‌ میں خوب صورت جھیلوں، دل آویز چشموں اور دل پذیر جھرنوں سے سجی ہوئی ہے جن میں‌ سانس لیتی رنگ برنگی اور نوع بہ نوع آبی حیات، بیش قیمت نباتات قدرت کی فیّاضی اور بے شمار عنایات کا مظہر ہیں۔

    دریائے میکانگ بھی قدرت کی صنّاعی کا ایک عظیم نشان ہے جو مشرقی ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیا میں‌ طوالت اور حجم کے اعتبار سے دنیا بارھواں بڑا دریا ہے۔

    اس دریا کے کنارے کئی بستیاں آباد ہیں اور ان کے باسی اسی دریا سے معاش کرتے اور کنبے کا پیٹ بھرتے ہیں۔

    مختلف ممالک میں‌ اس دریا سے مچھیروں اور ملّاحوں کا روزگار وابستہ ہے جب کہ دریا کے قریب بسنے والے کسانوں کی فصلیں‌ اسی دریا کے پانی سے لہلہاتی ہیں اور یہی ان کے باغات کو ثمر بار کرتا ہے۔ میکانگ کے ساتھ آباد اکثر علاقے چاول کی سب سے زیادہ پیداوار کے لیے پہچانے جاتے ہیں۔

    دریائے میکانگ پر کشتیوں‌ کے ذریعے تجارت اور عام اشیائے ضرورت کی خرید و فروخت اور لین دین کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے۔

    دریائے میکانگ کی لمبائی تقریباً 4350 کلومیٹر ہے۔ یہ سطحِ مرتفع تبت سے نکلنے کے بعد جنوبی چین کے صوبے یونان اور میانمار سے ہوتا ہوا لاؤس اور تھائی لینڈ کے درمیان بٹ جاتا ہے اور گویا آبی سرحد تشکیل دیتا ہے۔ آگے اس دریا سے کمبوڈیا اور ویت نام فیض یاب ہوتے ہیں اور یہ بحیرۂ جنوبی چین میں‌ اترجاتا ہے۔

    موسمی تغیرات کے علاوہ انسانوں‌ کی غفلت اور کوتاہیوں کے سبب آبی آلودگی سنگین مسئلہ بن چکی ہے جس کے باعث سمندر، دریاؤں اور جھیلوں کا حُسن اور ان کی خوب صورتی ماند پڑ گئی ہے اور ان سے پیوست حیات کو شدید خطرہ ہے۔

    دریائے میکانگ بھی آلودہ ہوچکا ہے اور ترحّم آمیز نظروں سے مہذّب انسانوں کی طرف دیکھ رہا ہے۔

  • "سانگھڑ”: آزادی کے متوالوں کی داستان

    "سانگھڑ”: آزادی کے متوالوں کی داستان

    سانگھڑ صوبہ سندھ کا تاریخی شہر ہے جس نے اپنے دور کے حکم رانوں، ‌سورماؤں، حُریت پسندوں کو دیکھا اور یہاں کی مٹی کئی اہم واقعات کا گواہ ہے۔ برطانوی راج آیا تو سانگھڑ نے آزادی کے متوالوں کے تیور بھی دیکھے۔ سندھ کے اسی علاقے کے دلیروں اور بہادروں کی داستان "سانگھڑ” کے نام سے محمد عثمان ڈیپلائی نے رقم کی تھی جو سندھی زبان میں ان کی مشہور اور قابلِ ذکر ادبی کاوش ہے۔

    1981ء) سندھی اور اردو زبان کے معروف ادیب، مترجم اور جیّد صحافی محمد عثمان ڈیپلائی 1908 میں‌ پیدا ہوئے۔ ضلع تھرپارکر کے اس باسی کو شروع ہی سے علم و ادب سے رغبت ہوگئی اور باقاعدہ اور رسمی تعلیم حاصل نہ کرنے کے باوجود علم و فنون میں‌ ان کی دل چسپی اور لگن نے انھیں‌ اردو اور سندھی زبانوں‌ کے ادیبوں کی صف میں‌ لاکھڑا کیا۔ ڈراما نویسی بھی ان کا ایک حوالہ ہے۔

    محمد عثمان ڈیپلائی نوعمری ہی میں سندھی اور اردو زبان میں کہانیاں لکھنے لگے تھے اور بعد کے برسوں‌ میں‌ علمی اور ادبی مضمون نگاری کے ساتھ تاریخی ناول نگاری میں‌ شہرت اور مقام حاصل کیا۔

    محمد عثمان ڈیپلائی سندھی زبان کے اخبار کے بانی اور مدیر رہے۔ انھوں نے آزادی صحافت کی خاطر قید و بند کی صعوبت بھی برداشت کی۔

    "سانگھڑ” وہ ناول ہے جس میں‌ انھوں‌ نے انگریز سامراج کے خلاف آزادی کی سندھ کی زمین پر جدوجہد کو موضوع بنایا ہے۔ ان کا یہ ناول دراصل پیر صبغت اللہ شاہ راشدی اور ان کے ساتھیوں‌ کی آزادی کی داستان ہے۔

    حکومتِ پاکستان نے بعد از مرگ صدارتی اعزاز برائے حسنِ کارکردگی ان کے نام کیا تھا۔ محمد عثمان ڈیپلائی 1981 کو وفات پا گئے تھے۔ ان کے ناولوں‌ میں‌ گلستانِ حسن، گمراہ مسافر، مجاہدِ‌ کشمیر، عید جو چنڈ، سنگ دل شہزادی، مجاہدِ مصر، جب کہ ڈراما اسلام تے مقدمو، اور افسانے درد جو شہر کے نام سے شایع ہوئے۔