Author: عارف حسین

  • ایک مستری کی غلطی جو مشہور ادیب کی موت کا سبب بن گئی

    ایک مستری کی غلطی جو مشہور ادیب کی موت کا سبب بن گئی

    ایملی زولا کی موت ایک حادثہ تھی۔ یہ 1902 کی بات ہے جب‌ وہ گہری نیند میں اس جہانِ رنگ و بُو کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ گیا۔ اس کی موت بظاہر ایک مستری کی غلطی کے سبب واقع ہوئی تھی۔

    اس حادثے کی تفصیل سے پہلے ایملی زولا کا تعارف اور اس کی عملی زندگی کے بارے میں جان لیجیے۔

    ایملی زولا فرانس کا معروف ناول نگار، ڈراما نویس اور صحافی تھا جس نے غربت دیکھی اور تنگ دستی میں‌ پلا بڑھا۔ اس کے والد کا تعلق اٹلی سے جب کہ والدہ فرانسیسی تھیں۔ اس کا سن پیدائش 1840 ہے۔

    ایملی زولا متعدد محکموں میں کلرک کے طور پر کام کرنے کے بعد ایک اخبار سے منسلک ہوگیا اور شہرت کا سفر شروع کیا۔ وہ ادب میں فطرت نگاری کی تحریک میں نمایاں‌ تھا۔ اس نیچرلسٹ ادیب نے موپساں جیسے نام ور اور دیگر ہم عصر ادیبوں کے ساتھ اپنی کہانیاں‌ چھپوائیں اور خوب شہرت سمیٹی۔ دنیا بھر کے نقاد مانتے ہیں کہ فرانسیسی ناول نگار وکٹر ہیوگو کے بعد فرانس میں سب سے زیادہ ایملی زولا کو پڑھا گیا۔

    وہ کھرا، نڈر اور بے باک لکھاری تھا۔ زولا نے مصلحت سے کام لینا سیکھا ہی نہ تھا۔ اس کی زندگی میں سنسنی خیز موڑ فرانس کے صدر کے نام 1898 میں لکھے گئے ایک خط کی صورت سامنے آیا۔ یہ خط ایک اخبار کے اوّلین صفحے پر شایع ہوا جس میں‌ زولا نے فرانس کی فوجی انتظامیہ کی کرپشن کی نشان دہی کی تھی۔ اس خط کی وجہ سے دنیا میں فرانس کی بڑی بدنامی ہوئی۔ حکومت نے زولا پر مقدمہ کر دیا اور اسے عدالت سے ایک سال کی سزا سنا دی گئی۔ تاہم زولا فرار ہو کر انگلستان پہنچ گیا اور وہاں سیاسی پناہ لے لی۔

    اس خط کا پس منظر وہ سازش تھی جس میں‌ پھنسائے گئے ایک یہودی کیپٹن نے کسی طرح‌ اس کے خلاف زولا کی مدد حاصل کی اور درخواست کی کہ وہ اِس سازش کو بے نقاب کرے۔ اس پر فرانس میں‌‌ خوب بحث ہوئی اور کیپٹن کے خلاف مقدمہ واپس لے لیا گیا، یہی نہیں بلکہ اسے پورے اعزازات سمیت بری کر دیا گیا اور یوں‌ یہ کیس ختم ہوا تو زولا بھی واپس پیرس آ گیا۔

    وہ وطن واپسی کے بعد اپنے تخلیقی کام میں‌ مشغول ہوگیا، لیکن اپنے کیے کی قیمت اسے چکانا ہی پڑی۔ واپسی پر اسے فرانس کی سرکار نے مقدمے میں‌ گھسیٹا، لیکن عدالت میں‌ سّچائی سامنے آنے پر حکومت کو کارروائی سے پیچھے ہٹنا پڑا، لیکن ریاست اس کا وجود برداشت نہ کرسکی اور مشہور ہے کہ اسے "قتل” کروایا گیا تھا۔

    اب چلتے ہیں اس غلطی کی طرف جو اس ادیب کی موت کا سبب بنی۔ ایک روز کوئی مستری زولا کے گھر کی چمنی ٹھیک کرنے آیا۔ اس نے اپنا کام نمٹایا اور چلا گیا، لیکن غلطی سے چمنی کے بند پائپ کو صاف کرنا بھول گیا اور زولا کے کمرے میں‌ کوئلوں کی گیس بھر گئی۔ وہ دَم گھٹنے سے مر گیا۔ سب نے اسے ایک حادثہ ہی مانا تھا، لیکن زولا کی موت کے دس سال بعد مستری نے انکشاف کیا کہ سیاسی وجوہات پر اسی نے ارادتآ زولا کے گھر کی چمنی کو بند کیا تھا اور یوں‌ گیس بھرنے سے اس کی موت ہوگئی۔

  • شہرہ آفاق قصیدہ بردہ شریف پڑھنے والے مہدی ظہیر

    شہرہ آفاق قصیدہ بردہ شریف پڑھنے والے مہدی ظہیر

    مہدی ظہیر کا نام کئی قارئین کے لیے نیا ہوسکتا ہے، لیکن قصیدہ بردہ شریف وہ شہرہ آفاق نعتیہ کلام ہے جو سبھی نے سنا اور پڑھا بھی ہو گا۔

    یہ قصیدہ امام بوصیری نے لکھا تھا جس میں سرورِ کائنات ﷺ سے والہانہ عقیدت اور محبت کا اظہار کیا گیا ہے۔ یہ نعتیہ کلام اسلامی دنیا میں‌ بے‌ حد مقبول ہے، خاص طور پر سلسلہ تصوف میں‌ اس کلام کو بے حد عقیدت، عزّت اور توقیر حاصل ہے۔ دنیا کے معروف نعت خواں اس کلام کو پڑھنا باعثِ اعزاز سمجھتے ہیں اور اسے دینی مجالس و روحانی محافل میں نہایت ذوق و شوق سے سنا جاتا ہے۔

    پاکستان میں‌ بھی ہر مشہور نعت خواں‌ نے یہ قصیدہ پڑھا ہے، لیکن مہدی ظہیر وہ نام ہے جس کے پُرسوز لحن نے اس قصیدے کا لُطف دوبالا کردیا اور خاص بات یہ ہے کہ مہدی ظہیر کو عربی زبان پر عبور حاصل تھا۔ انھوں نے قصیدہ بردہ شریف کے اشعار پڑھتے ہوئے کلام کے جوہرِ عقیدت، وفورِ شوق اور کیفیات کا گویا حق ادا کردیا۔

    اب آپ مہدی ظہیر کا مختصر تعارف پڑھ لیں۔ مہدی ظہیر 1927 کو لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام افتخار مہدی تھا۔

    وہ پاکستان کے ممتاز موسیقار، گلوکار، شاعر اور براڈ کاسٹر تھے۔ انھیں اردو کے علاوہ عربی زبان پر عبور حاصل تھا اور ان کی آواز میں یہ قصیدہ پاکستان ہی نہیں دنیا بھر میں سنا گیا۔

    1974 میں جب لاہور میں دوسری اسلامی سربراہ کانفرنس منعقد ہوئی تو اس کا ترانہ بھی بہت مقبول ہوا جس کے بول تھے، ہم تا بہ ابد سعی و تغیر کے ولی ہیں، ہم مصطفوی، مصطفوی، مصطفوی ہیں۔۔۔۔

    یہ ترانہ بھی مہدی ظہیر نے گایا تھا۔ ان کی آواز میں ملک کے طول و عرض میں گونجنے والے اس ترانے کی بازگشت برادر اسلامی ممالک میں بھی سنائی دی۔

  • بھنگ کی تجارت ڈھنگ سے کیجیے!

    بھنگ کی تجارت ڈھنگ سے کیجیے!

    تحریر: عارف حسین

    کیا واقعی ایک بدنام جنگلی پودا ہمیں بلین ڈالرز کی مارکیٹ میں قدم رکھنے کا موقع دے سکتا ہے؟

    ہم بات کر رہے ہیں بھنگ کی، جس کے پودے کی وفاقی کابینہ نے تجارتی اور طبی استعمال کی اجازت دے دی ہے۔ پاکستان کے وفاقی وزیرِ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے ٹوئٹر پر اسے موجودہ حکومت کا ایک اہم فیصلہ قرار دیا ہے۔

    بھنگ کا مختلف شکلوں‌ میں ‌استعمال برصغیر میں‌ عام ہے جب کہ تجارتی مقاصد کے لیے امریکا کی بات کریں تو وہاں‌ بھنگ کی صنعت تیز رفتاری سے ترقی کررہی ہے اور بعض‌ ماہرین نے خیال ظاہر کیا تھا کہ‌ 2020 تک اس کی فروخت 22 ارب ڈالر تک پہنچ سکتی ہے۔

    پاکستانی حکومت کے بھنگ سے متعلق فیصلے پر "خبر دار” ہونے کے بعد ہم نے تھوڑا جھجھکتے ہوئے اس پودے کے خواص اور فوائد کے بارے میں‌ پڑھا تو یہ جانا کہ:

    نیک نے نیک سمجھا، بَد نے بد جانا "تجھے”
    جس کا جتنا ظرف تھا اتنا ہی پہچانا "تجھے”

    ایسا لگتا ہے کہ صدیوں‌ سے خاص طور پر برصغیر میں‌ بھنگ کو ڈھنگ سے کسی نے استعمال ہی نہیں‌ کیا اور یوں ہر کسی نے اسے بُرا سمجھا۔

    دراصل بھنگ کے پتّے اور پھول نشہ آور ہوتے ہیں اور مشہور ہے کہ اس کا نشہ دماغ کو سکون اور راحت بخشتا ہے۔

    بھنگ کے پتّوں اور پھولوں کی خاص ترکیب سے مشروب اور چرس تیار کی جاتی ہے اور برصغیر میں صدیوں‌ سے اسے استعمال کیا جارہا ہے۔ اس پودے کو ہندی بھنگ، ہندی سن، قنبِ ہندی اور گانجا بھی کہا جاتا ہے۔

    پچھلے سال ایک جرمن ادارے کی تحقیقی رپورٹ پڑھنے کا اتفاق ہوا جس کے مطابق پاکستان کا سب سے بڑا شہر کراچی دنیا کا دوسرا سب سے زیادہ چرس استعمال کرنے والا شہر ہے جب کہ اس حوالے سے امریکا کا شہر نیویارک پہلے نمبر پر ہے۔

    جرمن کمپنی کے اعداد و شمار کے مطابق کراچی میں 42 ٹن چرس پھونکی جاتی ہے۔ اسی رپورٹ کے مطابق بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں‌ 38 ٹن سے زائد چرس پی جاتی ہے۔

    امریکا کی ریاست کیلیفورنیا کے ایک ڈاکٹر کی کہانی بھی سنتے چلیے جس نے ایک چار سالہ بچّے کو بھنگ والے بسکٹ تجویز کیے تھے اور اس کا لائسنس منسوخ کردیا گیا۔

    ڈاکٹر ولیم ایڈلمین قدرتی اجزا سے بنی ہوئی ادویات کے ماہر ہیں۔ انھوں‌ نے یہ نسخہ ایک ایسے بچے کے لیے تجویز کیا جو بہت زیادہ چڑچڑا تھا اور اسے شدید غصہ آتا تھا۔

    ڈاکٹر نے اس بچّے کے والدین کو مخصوص مقدار میں بھنگ یا چرس دینے کا مشورہ اس کا مزاج ٹھنڈا رکھنے کے لیے دیا تھا۔ تاہم دل چسپ بات یہ ہے کہ معالج کے لائسنس کی منسوخی کی وجہ بھنگ استعمال کروانا نہیں‌ تھا بلکہ متعقلہ بورڈ نے اس کی اطلاع ملنے پر تحقیق کی تو ڈاکٹر ولیم کو ’علاج میں غفلت‘ برتنے کا مرتکب پایا۔ بورڈ کی نظر میں‌ ڈاکٹر کا فرض تھا کہ وہ بچّے والد کو اس کے علاج کے لیے نفسیاتی ماہر کے پاس جانے کا مشورہ دیتا۔

    ریاست کیلیفورنیا میں چرس یا بھنگ کے طبی استعمال کو 1996 میں جائز قرار دیا گیا تھا اور اسی طرح امریکا کی دیگر ریاستوں اور دنیا کے کئی ممالک میں‌ حکومتوں نے بھنگ کے تجارتی اور طبی استعمال کی اجازت دے رکھی ہے اور اس سے ان ممالک کو مالی فائدہ ہورہا ہے۔

    امریکا کی ورجینیا کامن ویلتھ یونیورسٹی کی 2013 کی ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ بھنگ یا چرس کے استعمال سے مرگی اور دیگر اعصابی بیماریوں سے بچاؤ میں مدد ملتی ہے۔ اسی طرح‌ دیگر اداروں‌ کی مختلف برسوں‌ کے دوران طبی تحقیق کے نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ بھنگ کا عرق، رس، خمیر یا چرس گلوکوما یا سبز موتیے سے بچاؤ میں معاون ہے۔ واضح رہے کہ گلوکوما کا مرض مستقل اندھے پن کا سبب بن سکتا ہے۔

    اسی طرح چرس کا استعمال الزائمر کا خطرہ کم کرسکتا ہے۔ تاہم یہ اسی صورت میں‌ ممکن ہے جب معالج کی ہدایت کے مطابق اس کا استعمال بطور دوا کیا جائے۔

    امریکا کی کینسر سے متعلق ویب سائٹ نے 2015 میں ایک رپورٹ شایع کی تھی جس کے مطابق بھنگ یا چرس سے کینسر کے خطرات میں کمی لائی جاسکتی ہے۔

    طبی محققین کے مطابق بھنگ کے محدود استعمال سے ہیپاٹائٹس سی کے انسانی جسم پر منفی اثرات میں بھی کمی دیکھی گئی ہے۔

    حکومت کے اس فیصلے کے بعد پاکستان میں‌ بھنگ کا پودا لگانا، اس کی خرید و فروخت کرنا، اس کا نقل و حمل آسان اور قانونی شکل اختیار کرلے گا اور یہ صنعت حکومت اور سرمایہ کاروں کے لیے منافع بخش ثابت ہو گی، لیکن ضروری ہے کہ جامع اور ٹھوس پالیسی بناتے ہوئے بھنگ کا نشے کے لیے استعمال روکا جائے اور متعلقہ محکمہ اس کی تجارت اور خرید و فروخت کے عمل کی مکمل اور کڑی نگرانی بھی کرے۔

  • لاک ڈاؤن: کچن کو تجربات کی "بھینٹ” چڑھا دیا جائے تو….!

    لاک ڈاؤن: کچن کو تجربات کی "بھینٹ” چڑھا دیا جائے تو….!

    خوش ذائقہ اور مزے مزے کے پکوان اور کھانا پکانے کی نت نئی تراکیب آزماتے ہوئے کوئی ایسی ڈش تیار کرنا جو ذائقے اور چٹخارے کے ساتھ ساتھ غذائیت سے بھی بھرپور ہو، یقینا ایک آرٹ ہے۔

    شکم سیری، جسمانی طاقت اور توانائی برقرار رکھنے کے ساتھ انسان زبان کے چٹخارے کے لیے بھی طرح طرح کے پکوان کرتا رہا ہے اور آج نت نئی ڈشیں، مزے دار کھانے بنانے کو باقاعدہ آرٹ مانا جاتا ہے۔

    یہ تصاویر جو آپ دیکھ رہے ہیں‌، دنیا کے مختلف ممالک کے خاص یا روایتی پکوان کی ہیں جو شاید آپ کی بھوک چمکا دیں، لیکن ہمارا مقصد یہ نہیں‌ ہے۔

    ہم چاہتے ہیں کہ کرونا کی وبا اور اس مشکل وقت میں لاک ڈاؤن کے دوران آپ اپنا وقت ضایع نہ کریں‌ بلکہ کچن میں‌ کچھ نئے تجربات کریں۔

    آسٹریلیا کی ڈش

    ہانگ کانگ سے ایک تصویر

    شاید کینیڈا کے جسٹن ٹروڈر کو بھی یہ ڈش پسند ہو

    سنگا پور کے چکن رائس میں‌ کیا خاص بات ہوسکتی ہے؟

    جنوبی افریقا کی فوڈ اسٹریٹ سے ایک تصویر

    اسپین کا سی فوڈ

    ویتنام کی ڈش

    کرونا کی وجہ سے احتیاط اور بندشِ عامہ یعنی لاک ڈاؤن کے دوران آپ کا کچن ذائقے، غذا اور غذائیت کی "بھینٹ” چڑھ بھی جائے تو اس میں‌ کوئی نقصان نہیں‌ ہے۔

    اس دوران آپ کچھ نیا سیکھ سکیں گے۔

  • فریڈرک فائیری:‌ افریقی ملک زیمبیا کا آرٹ کنگ

    فریڈرک فائیری:‌ افریقی ملک زیمبیا کا آرٹ کنگ

    دنیا میں ایسے لوگ‌ بھی ہیں جو اپنی ذہانت اور عقل سے کام لے کر خود کو جدت طراز، طباع اور صنّاع ثابت کرتے ہیں۔ وہ خود کو منوانا چاہتے ہیں اور اس کے لیے وہ راستہ اختیار کرتے ہیں‌ جس پر ان سے پہلے کسی نے قدم نہ رکھا ہو۔

    فریڈرک فائیری کا شمار انہی لوگوں میں‌ ہوتا ہے جس نے اپنے پیشے میں خود کو دوسروں سے منفرد اور ایک فن کار ثابت کیا ہے۔

    زیمبیا سے تعلق رکھنے والا فریڈرک فائیری ایک ویلڈر ہے۔ اس کی عمر 22 سال ہے۔

    وہ لوہے یا کسی دوسری دھات کے ساتھ شرارے اڑانے والی ویلڈنگ مشین سے دیگر ہنرمندوں کی طرح کام نہیں‌ لیتا بلکہ وہ اس سے فن پارے تیار کرتا ہے۔ وہ ناکارہ دھاتی ٹکڑوں کو کمال مہارت سے آرٹ پیس میں تبدیل کرتا ہے۔

    افریقی ملک کے اس فن کار ویلڈر نے اسکریپ سے پیچیدہ ساخت کے منفرد مجسمے تیار کرکے آرٹ کے شائقین کی توجہ حاصل کر لی ہے۔

    وہ کم عمری میں شفقتِ پدری سے محروم ہوگیا تھا۔ ایک روز فریڈرک فائیری کی والدہ بھی اس کی بہن کو لے کر دوسرے شہر چلی گئیں اور فریڈرک کو اس کے دادا کے ساتھ رہنا پڑا۔

    دادا نے فریڈرک کی ابتدائی تعلیم کے تمام اخراجات اٹھائے اور اسے پڑھاتے رہے، لیکن سیکنڈری جماعت میں‌ پہنچنے پر فریڈرک کو خود مختلف چھوٹے موٹے کام کرکے اپنے اسکول کی فیس ادا کرنا پڑی۔

    وہ تصویریں بنانے کا شوق رکھتا تھا۔ ڈرائنگ کرنا اس کا مشغلہ تھا۔ جیسے تیسے فریڈرک نے گریجویشن کی ڈگری حاصل کرلی اور اب اسے معاش کی فکر تھی اور ایک ایسے ملک میں جہاں بہت کم اجرت یا تنخواہیں دی جاتی تھیں، اسے بھی کام کرنا تھا۔

    فریڈرک ذہین بھی تھا اور فن کار بھی۔ اس نے دھاتی تاروں سے مختلف کھلونے اور مجسمے بنا کر سیاحوں اور مقامی لوگوں‌ فروخت کرنا شروع کیا اور خوش قسمتی سے اس کی بنائی ہوئی اشیا مقبول ہونے لگیں، یہی نہیں بلکہ یہ کام مقامی سطح پر اس کی وجہِ شہرت بن گیا تھا۔

    اسی عرصے میں کسی نے اسے فووی (Mfuwe) شہر میں‌ تعلیم و معیشت کی بہتری کے لیے سرگرم ایک خیراتی ادارے کے ڈائریکٹر کیرن بیٹی کے بارے میں‌ بتایا اور یوں‌ فریڈرک ان تک پہنچا۔

    فریڈرک فائیری نے عام ویلڈر کی حیثیت سے خود کو متعارف کرواتے ہوئے ان سے ماہانہ وظیفے پر کام دینے کی درخواست کی۔

    2017 میں فائیری کو ایک ماہر ویلڈر کے سپرد کر دیا گیا اور اسے سیاحتی مقصد کے لیے جاری ایک منصوبے پر کام کے دوران اپنے ہنر کو آزمانے کا موقع ملا۔

    کیرن بیٹی ایک روز اسے کام کرتا ہوا دیکھ رہے تھے کہ اچانک ان کے ذہن میں ایک خیال آیا۔ انھوں‌ نے بہت سا دھاتی اسکریپ فائیری کو تھما دیا اور کہا کہ اسے کوئی قابلِ ذکر شکل دو اور وہ حوصلہ افزائی بہت کام آئی، آج فائیری زیمبیا کا ایک عام ویلڈر نہیں‌ بلکہ آرٹسٹ ہے اور لوگوں میں‌ مقبول ہے۔

    فریڈرک فائیری کو مقامی لوگوں نے ناکارہ دھاتی ٹکڑے، چابیاں، خراب اور گلی سڑی بائیکیں، اسپارک ہو جانے والے پلگ اور الیکٹرک وائر اور اسی قسم کا دوسرا سامان پہنچانا شروع کردیا ہے جسے وہ پھینک دینا چاہتے ہیں اور وہ ان کے لیے کارآمد نہیں‌ رہا۔ یہ نوجوان ان سے بیش قیمت فن پارے تیار کررہا ہے۔ وہ انھیں جانور، مختلف عمارتوں اور انسانی شکلوں میں‌ ڈھال دیتا ہے۔

    یہ نوجوان ویلڈر اپنے فن پاروں کی فروخت سے حاصل ہونے رقم فلاحی منصوبے پر خرچ کررہا ہے۔ وہ آرٹ کی تعلیم حاصل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے اور اپنے سہانے مستقبل کے لیے پُرامید ہے۔

    (تلخیص و ترجمہ: عارف حسین)

  • کوئی نہیں‌ جانتا گاسپر پر کیا گزری….!

    کوئی نہیں‌ جانتا گاسپر پر کیا گزری….!

    سمندروں اور دریاؤں میں صدیوں سے انسان کشتیوں اور بڑے بڑے جہازوں کے ذریعے سفر کررہا ہے۔

    کوئی تجارت کی غرض سے تو کسی نے نئے دیس کو اپنا ٹھکانہ بنانے کے لیے اور کسی نے مہم جوئی یا سیاحت کی خواہش میں سمندر کے راستے سفر اختیار کیا۔ ہزاروں سال کے دوران کئی جہاز منزل تک بخیروعافیت پہنچے اور کئی ڈوب گئے یا ان پر سوار انسان کسی افتاد کا شکار ہوکر موت کے منہ میں‌ پہنچ گئے۔

    ہم آپ کو پرتگال کے ایک ایسے ہی مہم جو اور جہاز راں کے بارے میں‌ بتا رہے ہیں جس کی پُراسرار گم شدگی کو لگ بھگ پانچ صدیاں بیت چکی ہیں۔

    وہ زمانہ تھا 1501 کا جب پرتگال کا گاسپر(Gaspar de Lemos) جو سمندری راستوں کی تلاش اور نئے جزیروں کی دریافت میں شہرت رکھتا تھا، اس نے ایک مہم کا قصد کیا۔

    گاسپر کے والد بھی سمندری مہم جو تھے اور ان کے بیٹے نے ان کے ساتھ کئی سمندری سفر کیے تھے جس نے اسے نڈر اور بہادر بنا دیا تھا۔ وہ بڑا ہوا تو خود کو ایک ماہر جہاز راں کے طور پر منوانے میں کام یاب ہوا۔

    یہ نوجوان جہاز راں باصلاحیت تھا اور بہادر بھی جس نے اسے اپنے دور کے دوسرے ملاحوں سے ممتاز کیا اور اس میدان میں گاسپر کی خوب شہرت ہوئی یہاں تک کہ پرتگال کے بادشاہ نے اسے نئے جزیروں کی دریافت اور یورپ سے ایشیا تک محفوظ اور آسان بحری راستوں کا کھوج لگانے کی ذمہ داری سونپ دی۔

    بادشاہ کو کیا معلوم تھا کہ وہ جس نوجوان کو اس کی قابلیت اور علمیت سے مرعوب ہو کر ذمہ داری سونپ رہا ہے، وہ کبھی پرتگال نہیں لوٹے گا اور کسی کو اس کا نام و نشان تک نہ ملے گا۔

    یہ بہادر ملاح اپنے ساتھیوں کو لے کر اس دور کے معلوم سمندری راستوں پر روانہ ہوا اور پھر اس کی کوئی خبر نہ آئی۔

    1502 میں گاسپر کا بھائی اس کی تلاش میں انہی راستوں پر نکلا جو گاسپر کی مہم کا حصہ تھے، لیکن وہ بھی واپس نہیں لوٹ سکا۔ ممکن ہے کہ اسے بھی سمندر میں کوئی حادثہ پیش آ گیا ہو، لیکن تاریخ کے اس نام ور مہم جو گیسپر کا انجام کیا ہوا، اور اس کے بھائی پر کیا بیتی، اس بارے میں کچھ بھی واضح نہیں‌ ہے۔

    گاسپر کی ابتدائی زندگی، اس کا گھر بار اور دیگر احوال بھی تاریخ کے صفحات میں‌ درج نہیں‌ ہیں۔ صرف اتنا ہی لکھا ہے کہ وہ ایک ماہر جہاز راں اور بہادر انسان تھا جس کی ساری زندگی سمندر کے سفر میں گزری۔

  • "نمک دان” والے مجید لاہوری کی آٹے کے لیے دہائی

    "نمک دان” والے مجید لاہوری کی آٹے کے لیے دہائی

    اردو ادب میں نثر اور نظم کے میدان میں طنز و مزاح کے لیے مشہور مجید لاہوری کی آج برسی منائی جارہی ہے۔

    نام ور مزاح نگار، کالم نویس، صحافی اور ادبی رسالے "نمک دان” کے مدیر مجید لاہوری کا انتقال 26 جون 1957 کو ہوا تھا۔

    مجید لاہوری کا اصل نام عبدالمجید چوہان تھا۔ وہ 1913 میں پنجاب کے شہر گجرات میں پیدا ہوئے۔

    مجید لاہوری نے 1938 میں روزنامہ انقلاب، لاہور سے صحافت کا آغاز کیا اور اس کے بعد کئی اخبارات میں ذمہ داریاں نبھائیں۔ وہ محکمہ پبلسٹی سے بھی وابستہ رہے۔ 1947 میں کراچی آگئے اور انصاف، انجام اور خورشید میں خدمات انجام دینے کے بعد ایک مشہور روزنامے سے وابستہ ہوگئے اور "حرف و حکایت” کے عنوان سے کالم لکھنا شروع کیا۔

    مجیدؔ لاہوری نے طنز و مزاح کے لیے نثر اور نظم دونوں اصناف کا سہارا لیا۔ ان کا ذہن اور قلم معاشرے کے سنجیدہ اور سنگین مسائل کی نشان دہی کرتے ہوئے طبقاتی فرق، نا ہم واریوں، سیاست اور سماج کی کم زوریوں کو سامنے لاتا رہا۔ ان کی تخلیقات میں غربا کے لیے رمضانی، مذہبی سیاسی لیڈروں کے لیے گل شیر خاں، چور بازار دولت مندوں کے لیے ٹیوب جی ٹائر جی اور کمیونسٹوں کے لیے لال خاں کی علامتیں پڑھی جاسکتی ہیں جو ان کے قارئین میں بے حد مقبول ہوئیں۔

    تحریف ان کا خاص فن ہے اور اس کے ذریعے وہ نہایت شگفتگی اور لطیف انداز سے اپنے دل کی بات قارئین سے کہتے رہے۔

    نمک دان وہ پندرہ روزہ ادبی پرچہ تھا جسے انھوں نے اپنی تخلیقات اور معیاری تحریروں کے انتخاب سے سجا کر قارئین تک پہنچایا اور اسے مقبول بنایا۔

    آج ملک میں کرونا کی وجہ سے لاک ڈاؤن نے مزدور پیشہ اور غریب طبقے کو روزی روٹی کے لیے ترسا دیا ہے۔ پیٹرول نایاب، آٹا بحران، بجلی، گیس غائب ہونے کی خبریں ہم پڑھتے، سنتے رہتے ہیں۔ مجید لاہوری کی ایک مزاحیہ غزل کے چند اشعار دیکھیے۔

    چیختے ہیں مفلس و نادار آٹا چاہیے
    لکھ رہے ہیں ملک کے اخبار آٹا چاہیے

    از کلفٹن تا بہ مٹروپول حاجت ہو نہ ہو
    کھارا در سے تا بہ گولی مار آٹا چاہیے

    مرغیاں کھا کر گزارہ آپ کا ہوجائے گا
    ہم غریبوں کو تو اے سرکار، آٹا چاہیے

    اور یہ شعر دیکھیے۔

    فاقہ کش پر نزع کا عالم ہے طاری اے مجید
    کہہ رہے ہیں رو کے سب غم خوار آٹا چاہیے

  • فادرز ڈے: "بابا” کو دیکھیے (تصاویر)

    فادرز ڈے: "بابا” کو دیکھیے (تصاویر)

    دنیا بھر میں آج فادرز ڈے منایا جارہا ہے۔ یہ اپنے بابا سے، ابو سے پیار، محبت کا اظہار کرنے کا ایک خوب صورت موقع ہے۔

    آپ عمر کے کسی بھی حصے میں ہوں، اگر آپ کو والد کا انمول، بے ریا، پُرخلوص ساتھ میسر ہے تو ان کی بے پناہ محبت اور شفقت کے جواب میں آپ ان سے لگاوٹ کا اظہار ضرور کیجیے۔

    کوئی رسم، روایت، کوئی قانون "بڑی عمر کے بچوں” کو یہ دن منانے سے نہیں‌ روکتا۔ آئیے اس جہانِ رنگ و بُو میں سراپا شفقت اور پیکرِ ایثار کو دیکھتے ہیں۔

    ایک باپ اپنی ننھی پری کے ساتھ

    افغانستان میں ننھے میاں باپ کے وجود میں‌ سمٹے جارہے ہیں


    عراق سے یہ خوب صورت تصویر


    ملک شام سے ایک بیش قیمت لمحہ


    جنوبی افریقا سے  دل ربا منظر


    ایک پیار بھرا لمحہ، امریکا سے


    اٹلی سے بیش قیمت تصویر


    کیا بابا کی بیٹی کو ڈر لگ رہا ہے؟ چین میں اپنی گڑیا پر پیار لٹاتا باپ

  • طارق عزیز: سفرِ زیست اور کمالِ فن پر مختصر نظر

    طارق عزیز: سفرِ زیست اور کمالِ فن پر مختصر نظر

    علم دوست، شائقِ مطالعہ، قوی حافظے اور زبان و بیان کی صحت کے ساتھ جامع اور مدلل گفتگو کے عادی اور کسی موضوع پر بات چیت کے دوران اپنی علمیت، قابلیت اور مطالعے کا نہایت خوبی سے اظہار کرنے والے طارق عزیز نے حفظِ مراتب کا بھی خیال رکھا۔ ایک نسل ہے جو ان کی معترف، ان کی پرستار اور مشتاق ہے۔

    طارق عزیز کی منفرد آواز اور مخصوص لب و لہجے نے ذہنی آزمائش کے ایک پروگرام کو چار دہائیوں تک نہ صرف ناظرین میں مقبول بنائے رکھا بلکہ پاکستان ٹیلی ویژن کے لیے میزبانی میں کمالِ فن کی ایک مثال قائم کی۔ پروگرام پیش کرنے کا ڈھب، میزبانی کا انداز گویا انہی سے مخصوص ہے۔

    ان کی جامع و پُر لطف گفتگو، برمحل حوالہ، موقع بہ موقع کسی مشہور قول یا شعر کا سہارا لے کر اپنی بات کو آگے بڑھانے والے طارق عزیز اہل محفل کو متوجہ کرنے کا ہنر جانتے تھے۔ ذہانت اور علم میں ممتاز اس فن کار کو ہمہ جہت کہا جائے تو کیا غلط ہو گاکہ شعروسخن کی محفل ہو، عام معلومات، کوئی خاص موضوع ہو یا کسی حوالے سے رائے کا اظہار مقصود ہو طارق عزیز نے اپنے مطالعے، تجربے اور مشاہدے کو یوں سامنے رکھا کہ سب ان کے قائل ہوگئے۔

    معروف کمپیئر، اداکار، ادیب اور شاعر طارق عزیز نے اپنے فن کا سفر ریڈیو پاکستان سے شروع کیا اور جب پاکستان میں ٹیلی ویژن نشریات کا آغاز ہوا تو وہی پہلے میزبان کے طور پر اسکرین پر نظر آئے۔

    پاکستان میں کئی دہائیوں پر مشتمل ان کے فنی سفر میں "نیلام گھر” جیسے مقبول ترین پروگرام کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ نیلام گھر ذہنی آزمائش کا وہ پروگرام تھا جس نے برسوں ناظرین کو اپنے سحر میں گرفتار رکھا اور یہ سب طارق عزیز کے منفرد اور مخصوص انداز کی بدولت تھا۔

    نیلام گھر کے یہ میزبان اسٹیج پر آمد کے بعد اپنے مخصوص انداز اور منفرد آواز میں جب فقرہ ادا کرتے "دیکھتی آنکھوں، سنتے کانوں کو طارق عزیز کا سلام” تو گویا دلوں میں اتر جاتے۔ اسی طرح حاضرین سے سوال کرنے کے بعد جب جواب لینے ان کی نشست پر پہنچتے اور درست جواب ملتا تو اعلان کرتے، "جواب درست ہے۔” ان کی یہ صدا ہمارے ذہنوں‌ پر نقش ہے۔ چھوٹے بڑے انعامات کے علاوہ نیلام گھر میں‌ معلوماتی مقابلہ جیتنے والوں نے موٹر سائیکل، کار اور کیش پرائز بھی اپنے نام کیے۔

    سنجیدہ و متین طارق عزیز اپنے پروگرام کے دوران حاضرین اور ناظرین کی تفریح اور دل چسپی کا سامان بھی کرتے۔ وہ‌ حاضر باش اور طباع تو تھے ہی، اکثر اپنے شو میں شرکا کے ساتھ ظرافت اور شوخیِ اظہار سے بھی کام لیتے اور سبھی کو ہنسنے، مسکرانے پر مجبور کردیتے۔

    طارق عزیز 1964 میں لاہور سے پی ٹی وی کے میزبان کے طور پر سامنے آئے اور 1975 میں ان کا شو "نیلام گھر” شروع ہوا جسے بعد میں "بزم طارق عزیز” کا نام ہی دے دیا گیا۔

    طارق عزیز 28 اپریل 1936 کو جالندھر میں پیدا ہوئے۔ تقسیمِ ہند کے وقت ان کا خاندان پاکستان آگیا جہاں طارق عزیز کا بچپن ساہیوال میں گزرا اور وہیں ابتدائی تعلیم بھی حاصل کی۔

    پاکستان میں طارق عزیز نے ریڈیو اور ٹی وی کے پروگراموں کی میزبانی کے علاوہ ٹی وی اور فلموں کے لیے بھی اداکاری کی۔ ان کی پہلی فلم انسانیت 1967 میں نمائش کے لیے پیش کی گئی تھی جب کہ سال گرہ، قسم اس وقت کی، کٹار اور ہار گیا انسان بھی مشہور اور قابل ذکر فلمیں ہیں۔

    وہ ادیب اور شاعر بھی تھے۔ انھیں بے شمار اشعار بھی ازبر تھے۔ کالم نویسی بھی کی اور اپنے پروگراموں کا اسکرپٹ بھی لکھا، ان کے کالموں کا ایک مجموعہ داستان کے نام سے جب کہ پنجابی شاعری کا مجموعہ ہمزاد دا دکھ شایع ہوا۔ طارق عزیز نے اردو میں بھی شاعری کی اور اس زبان میں بھی خوب کلام کہا۔

    ان کا یہ شعر بہت مشہور ہوا:

    ہم وہ سیہ نصیب ہیں طارق کہ شہر میں
    کھولیں دکاں کفن کی تو سب مرنا چھوڑ دیں

    طارق عزیز نے سیاست میں بھی حصہ لیا اور 1997 میں قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔

    آج وہ ہم سے ہمیشہ کے لیے جدا ہوگئے ہیں۔ لاہور میں انتقال کرنے والے طارق عزیز نے زندگی کے 84 سال اس عالمِ فانی میں بسر کیے۔

  • طارق عزیز: ایک اور ستارہ ڈوب گیا (تصاویر)

    طارق عزیز: ایک اور ستارہ ڈوب گیا (تصاویر)

    علم و ادب، فنونِ لطیفہ کے مختلف شعبوں کے انتہائی قابل، باصلاحیت اور پرفارمنگ آرٹ کی دنیا میں اپنی منفرد آواز، خوب صورت لب و لہجے، مسحور کن اور پُروقار انداز کے لیے مشہور طارق عزیز بھی دنیا سے رخصت ہوئے۔

    اسٹیج، ریڈیو، ٹیلی ویژن، فلم، ڈراما، اسکرپٹ رائٹنگ، شعر و ادب کی دنیا میں دہائیوں اپنی آب و تاب، چمک دمک دکھانے والا ستارہ ڈوب گیا۔

    "دیکھتی آنکھوں” سے طارق عزیز کی یہ تصاویر دیکھیے۔