Author: عارف حسین

  • سی پی آر: زندگی بچانے کی یہ کوشش کم ہی کام یاب ہوتی ہے

    سی پی آر: زندگی بچانے کی یہ کوشش کم ہی کام یاب ہوتی ہے

    کارڈیو پلمونری ریسسیٹیشن (cardiopulmonary resuscitation) جسے مختصراً "سی پی آر” بھی کہتے ہیں، کسی انسان کی جان بچانے کے لیے اپنایا جانے والی ہنگامی طبی امداد ہوتی ہے۔

    یہ دراصل کسی وجہ سے اپنا کام انجام نہ دینے والے دل اور پھیپھڑوں کو دوبارہ فعال کرنے کے لیے کی جانے والی کوشش ہوتی ہے۔ تاہم اس کا انحصار حادثے یا بیماری کی نوعیت پر ہوتا ہے۔

    یہ عمل کارڈیو پلمونری اریسٹ کی صورت میں انجام دیا جاتا ہے، جس کا سادہ سا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کسی فرد کا دل بند اور اس کا سانس لینے کا عمل رک گیا ہے۔

    اگر معالج محسوس کرے کہ وہ ہنگامی طبی امداد کے ذریعے کسی فرد کے دل کی دھڑکن اور سانس بحال کرسکتا ہے تو وہ یہ طریقہ اپنا سکتا ہے۔

    سی پی آر کے دوران معالج متاثرہ فرد کے سینے کو زور زور سے نیچے کی طرف دباتا ہے۔

    ایسے فرد کے دل کو بجلی کے جھٹکے دیے جاسکتے ہیں جس سے اس کی دھڑکن بحال ہونے کے امکانات ہوتے ہیں۔

    منہ کے ذریعے متاثرہ فرد کی سانس کی نالی کو ہوا پہنچانا یا پھیپھڑوں تک سانس پہنچانے کی کوشش کرنا۔

    سی پی آر کا طریقہ اس وقت اپنایا جاتا ہے جب کسی کو شدید چوٹ لگی ہو یا دل کا دورہ پڑا ہو اور اس کی دھڑکن بند ہو اور پھیپھڑوں نے کام کرنا چھوڑ دیا ہو۔ یہ بھی ضروری ہے کہ ایسے مریض کو بروقت اسپتال لایا گیا ہو۔ تاہم سی پی آر مریض کی حاالت اور ڈاکٹر کی صوابدید پر منحصر ہے۔ معالج یہ بہتر بتا سکتا ہے کہ اس طریقے سے دل اور سانس کی بحالی کے کتنے امکان ہیں۔

    طبی محققین کے مطابق دل اور سانس کو بحال کرنے کی اس کوشش کے کبھی ضمنی اثرات بھی سامنے آسکتے ہیں جن میں سینے پر نیل پڑجانا، پسلیوں کا ٹوٹ جانا یا پھیپھڑوں میں سوراخ ہو جانا شامل ہیں۔ اسی طرح بعض مریض طبی امداد میں کام یابی کے بعد کوما میں جاسکتے ہیں یا ان کی ذہنی حالت کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اسی طرح بعض دوسری طبی پیچیدگیاں بھی سر اٹھا سکتی جو کسی کو چند گھنٹوں یا چند دنوں بعد موت کے منہ میں دھکیل دیتی ہیں۔

    ماہرین کہتے ہیں کہ سی پی آر کا سہارا لینے کے باوجود دل کی دھڑکن یا سانس بحال کرنے میں اکثر کام یابی نہیں ہوتی بلکہ اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ کسی کا دل اور سانس لینے کا عمل کیوں بند ہوا تھا اور متاثرہ فرد کی عام صحت کیسی ہے۔

  • جب فرید آباد میں مسلم لیگ کا پرچم لہرایا گیا!

    جب فرید آباد میں مسلم لیگ کا پرچم لہرایا گیا!

    فرید آباد میں مسلمان اقلیت میں تھے، لیکن مطلبی اور ہاشمی کا اتنا دبدبہ اور اثر تھا کہ وہاں کے ہندوؤں کا فرید آباد کے مسلمان اور بالخصوص خاندان ہاشمی کے افراد کو ”میاں جی“ اور ”مولوی صاحب“ کہتے ہوئے منہ خشک ہوتا تھا۔

    حق یوں ہے کہ یہ ہر سہ برادران گرامی کے اقبال کا کرشمہ تھا کہ فرید آباد جیسی چھوٹی سی بستی میں جناب ہاشمی صاحب کے ہاتھوں مسلم لیگ کا پرچم لہرایا گیا، ترانے پڑھے گئے۔ اس طرح فرید آباد کی یہ چھوٹی سی سرزمین مسلم لیگ، قائد اعظم، اردو زبان زندہ باد اور ”لے کر رہیں گے پاکستان“ کے فلک شگاف نعروں سے گونج اٹھی۔

    مغرب کی نماز کے بعد فرید آباد کی جامع مسجد میں ایک شان دار جلسہ منعقد ہوا۔ نمازیوں کے علاوہ فرید آباد کے بیشتر مسلمان وہاں پہلو بہ پہلو سر جوڑ کر بیٹھے ہوئے تھے۔

    تلاوتِ کلامِ پاک کے بعد میں نے اقبال کی مشہور نظم ”طلوعِ اسلام، سے ”خدائے لم یزل کا دستِ قدرت، تُو زبان تُو ہے“ والا ایک بند پڑھا، اتفاق سے میں ایک شعر کا مصرع غلط پڑھ گیا۔

    ہاشمی صاحب نے جو پہلی ہی صف میں تشریف رکھتے تھے مجھے نہ ٹوکنے کے انداز میں اس طرح ٹوکا ”واہ سبحان اللہ مکرر پڑھیے۔“ ناخواندہ عوام نے میری اس غلطی کو محسوس کیا یا نہیں، لیکن دوبارہ میں نے اس شعر کو بالکل صحیح اور زیادہ ترنم کے ساتھ پڑھا اور پھر کئی بار اسی شعر کو نعرہ اللہ اکبر کی گونج میں پڑھنا پڑا۔

    دوسرے دن صبح تمام کارکن فرید آباد میں مسلم لیگ کا جھنڈا گاڑ کر دہلی رخصت ہوئے۔ ہاشمی صاحب، ابو تمیم اور چند اہلِ فرید آباد ہمیں بس اسٹاپ تک چھوڑنے کے لیے آئے۔

    الغرض پاکستان وجود میں آیا، لیکن حروفِ آزادی کی طرح منتشر اور پراگندہ، علم و ادب کے گہواروں، تہذیب و تمدن کے سرچشموں سے محروم، دلی غائب، لکھنؤ ندارد، اکبر آباد گم، حیدرآباد دکن غتر بود، پنجاب و بنگال بود و نابود۔

    (ممتاز علمی و ادبی شخصیت سید ہاشمی فرید آبادی کے متعلق سید یوسف بخاری دہلوی کی یادوں سے ایک ورق)

  • آئیے "بجٹ” کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں!

    آئیے "بجٹ” کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں!

    جس طرح ایک عام آدمی یا کوئی تنخواہ دار اپنی گھریلو اور دوسری متعلقہ ضروریات کے لیے ماہانہ آمدن اور اخراجات میں توازن قائم رکھنے کے لیے سوچ بچار کرتا ہے یا ماہانہ بنیاد پر مالی امور چلانے کے لیے کوئی طریقہ اور اپنی کمائی اور صَرف کو جاننے، سمجھنے کے لیے پیمانہ مقرر کرتا ہے، بالکل اسی طرح حکومتیں بھی مالیاتی نظام کے تحت سالانہ بنیادوں پر مختلف صورتوں میں اپنی آمدن، اخراجات، خسارے اور مالی بچت کے لیے بجٹ کا اعلان کرتی ہیں۔

    مالیاتی امور اور ملکی سطح پر پیش کیے جانے والے بجٹ کو سمجھنا اور اس پر بحث کرنا کسی بھی عام آدمی کے لیے مشکل ہے، لیکن یہ حکومتی بجٹ عوام کو ریلیف دینے کے علاوہ مشکلات سے بھی دوچار کرسکتا ہے۔

    ہمارے ملک میں جب بھی کسی حکومت کی جانب سے بجٹ پیش کیا گیا حزبِ اختلاف نے اعتراضات اور کڑی تنقید کی اور اسے عوام دشمن یا ان کی مالی مشکلات میں اضافے کا سبب بتایا۔ تحریکِ انصاف نے اپنے دورِ حکومت میں دوسرا سالانہ بجٹ پیش کیا ہے جس پر مباحث کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔

    بجٹ سے متعلق یہ بنیادی معلومات آپ کی توجہ اور دل چسپی کے لیے پیش ہیں۔

    کسی بھی ملک میں مالیات کا نظام، اس ملک کے سرکاری خزانے سے متعلق وزارت دیکھتی ہے۔ مالیات کا یہ نظام دراصل کسی حکومت کے محصول یا خرچ پر نظر رکھتے ہوئے اسے سنبھالتا ہے۔

    بجٹ کو دو حصوں میں‌ تقسیم کیا جاسکتا ہے جس میں ایک حکومتی آمدنی اور دوسرا اخراجات ہیں۔

    ہمارے ملک میں بجٹ کی وزیراعظم سے منظوری لینے کے بعد پارلیمنٹ میں پیش کیا جاتا ہے اور یہی تمام جمہوری حکومتوں کا طور ہے۔

    حکومتی آمدنی کی بات کی جائے تو یہ مختلف طریقوں سے سرکاری خزانے تک پہنچنے والی رقم ہے جن میں مختلف اشیائے ضرورت پر ٹیکس کا پیسہ، ریاستی وسائل اور ذخائر کو افراد یا ادارے استعمال کرنا چاہیں تو مخصوص رقم یا محصول کی مد میں خطیر رقم سرکاری خزانے میں جمع کراتے ہیں۔

    اسی طرح کے مختلف شعبوں میں لین دین اور خرید وفروخت بھی سرکاری خزانے کو مالی فائدہ پہنچاتی ہے۔

    اگر حکومتی اخراجات کو مختصرا بیان کیا جائے تو یہ وہ پیسہ ہوتا ہے جو کوئی بھی حکومت مختلف شعبوں میں‌ اور مختلف سرکاری منصوبوں پر لگاتی ہے، اسی طرح حکومت کو سرکاری ملازمین کی تنخواہوں، پنشن وغیرہ پر بھی رقم خرچ کرنا پڑتی ہے۔

  • بجلی جانے پر جنریٹر چلانے والے مائیکل فیراڈے کو نہ بھولیں

    بجلی جانے پر جنریٹر چلانے والے مائیکل فیراڈے کو نہ بھولیں

    موسمِ گرما میں پاکستان کے عوام کو بجلی کی لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے دہری مصیبت اٹھانا پڑتی ہے۔ ان دنوں ملک بھر میں شدید گرمی پڑ رہی ہے اور بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے باعث سبھی کو مشکلات کا سامنا ہے۔

    مال دار، خوش حال یا متوسط طبقہ تو جنریٹر کے ذریعے اپنا کام نکال لیتا ہے، لیکن ملک کے غریب اور دیہاڑی دار طبقے کے لیے تو دو وقت کی روٹی کا حصول ہی مشکل ہے، وہ جنریٹر یا ایسے کسی دوسری سہولت کا سوچ بھی نہیں‌ دیکھ سکتے۔

    اگر آپ کو خوش قسمتی سے جنریٹر کی سہولت میسر ہے تو یہ بھی جان لیں کہ جنریٹر، جس کی مدد سے آپ بجلی جانے کے بعد پنکھوں کی ہوا اور کم از کم برقی قمقموں کی روشنی حاصل کرلیتے ہیں، کس انگریز سائنس داں کے طبیعیاتی قانون پر کام کرتا ہے؟

    یہ مائیکل فیراڈے ہیں جنھوں نے فزکس اور کیمسٹری کے میدان میں کار ہائے نمایاں انجام دیے۔ انھوں نے 1831 میں الیکٹرو میگنیٹک انڈکشن کا قانون پیش کیا تھا۔

    مائیکل فیراڈے نے دریافت کیا کہ برقی کرنٹ، مقناطیسی میدان پیدا کرتا ہے اور مسلسل بدلاؤ سے مقناطیسی میدان سے برقی کرنٹ پیدا ہوتا ہے۔

    اس سائنس داں کی انقلابی تھیوری کے نتیجے میں جنریٹر سے کرنٹ پیدا کرنا ممکن ہوا اور آج یہ مشین جدید شکل میں ہماری زندگی کی مشکلات کو کم کررہی ہے۔

    سادہ لفظوں میں‌ بیان کیا جائے تو فیراڈے نے اپنے سائنسی قانون میں یہ بھی‌ بتایا کہ مقناطیسی میدان کی تبدیلی جتنی تیز ہو گی، وولٹیج بھی اتنا ہی زیادہ پیدا ہوگا۔ آج اسی اصول کی مدد سے جنریٹر بنائے جاتے ہیں اور بجلی پیدا کی جاتی ہے۔

  • اداکارہ کے دیدار سے محروم شاعر نے کیا کیا؟

    اداکارہ کے دیدار سے محروم شاعر نے کیا کیا؟

    جوش ملیح آبادی کی خود نوشت "یادوں کی بارات” ایک ایسی کتاب ہے جس نے اپنے زمانے کی کئی بلند پایہ اور مشہور شخصیات کی نجی زندگی کو گویا سب کے سامنے عریاں کر دیا، لیکن یہی نہیں انھوں نے خود اپنے بارے میں بھی وہ سب لکھا جس نے ان کی شخصیت کو متنازع بنا دیا تھا۔

    جوش ایک قادر الکلام شاعر تھے اور علم و ادب کی دنیا میں شہرت کے ساتھ ساتھ بہت بدنام بھی۔ ان کی حسن پرستی مشہور ہے۔ جوش صاحب رباعی کے بھی زبردست شاعر تھے۔ ان کی ایک رباعی پڑھیے جس کا پس منظر آپ کی دل چسپی کا باعث بنے گا۔

    کہتے ہیں بمبئی (ممبئی) میں جوش ملیح آبادی ایک ایسے مکان میں ٹھہرے جس میں اوپر کی منزل پر ایک اداکارہ رہتی تھی، لیکن مکان کی ساخت کچھ ایسی تھی کہ اس کا دیدار نہ ہو سکتا تھا، ایک روز جوش نے اس پر یہ رباعی لکھی۔

    میرے کمرے کی چھت پہ اُس بُت کا مکان
    جلوے کا نہیں ہے پھر بھی کوئی امکان
    گویا اے جوش میں ہوں ایسا مزدور
    جو بھوک میں ہو سر پہ اُٹھائے ہوئے خوان

    (ادبی دنیا کے لطائف اور مختلف شخصیات کے تذکرے)

  • قطر: الخور، الوکرہ اور اُم سعید کے بارے میں‌ پڑھیے

    قطر: الخور، الوکرہ اور اُم سعید کے بارے میں‌ پڑھیے

    دنیائے اسلام میں عرب خطوں کو ہمیشہ ایک امتیاز اور خاص مقام حاصل رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ قطر کے بھی اسلامی ممالک سے نہایت قریبی اور برادرانہ تعلقات ہیں۔

    ہم اکثر عرب امارات، اس کی مختلف ریاستوں اور قطر جیسے بڑے شہروں کا نام سنتے رہتے ہیں، لیکن ان کا محلِ وقوع، قصبات اور چھوٹے شہروں کے اہم مقامات کے بارے میں کم ہی جانتے ہیں۔ آج ہم آپ کو قطر کے ان شہروں کے بارے میں‌ مختصرا بتا رہے ہیں جن کا نام آپ نے بہت کم سنا ہوگا۔

    خوش حال اور مال دار ریاست قطر کو اس کی مضبوط معیشت کی وجہ سے عالمی سطح پر بہت اہمیت دی جاتی ہے۔ قطر ایک جزیرہ نما ہے۔ یہ تین اطراف سے سمندر سے گھرا ہوا ہے۔ اس کا جنوب مغربی حصہ سعودی عرب کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ قطر کا سب سے بڑا شہر دوہا ہے جسے تجارتی، صنعتی سرگرمیوں کا مرکز کہہ سکتے ہیں۔

    دوہا میں جدید تعمیرات کے ساتھ زندگی کی تمام سہولیات اور ضروریات لوگو‌ں کو میسر ہیں جب کہ سڑکوں، پلوں کا بہترین نظام، اس کی خوب صورتی کا انتظام کیا گیا ہے، پارکنگ ایریاز، خریداری کے بڑے بڑے مراکز کے علاوہ شہر کو ایک معیاری سسٹم کے تحت چلایا جاتا ہے۔

    لیکن قطر میں‌ دوہا کے علاوہ دوسرے شہر بھی خوب صورتی میں کچھ کم نہیں ہیں۔ تاہم ان کو معروف معنوں میں شہر نہیں بلکہ قصبات کہا جاسکتا ہے۔ یہ کم آبادی والے علاقے ہیں جو ساحل سے قریب ہیں اور انھیں‌ جدید ذرایع آمدورفت اور نقل و حمل کی سہولیات کی وجہ سے ملک کے مرکز اور تمام شہروں سے جوڑا گیا ہے۔

    پورے ملک میں جدید ترین موٹر وے پر تیز رفتار گاڑیاں رواں دواں ہوتی ہیں اور یوں شہر سے قصبات تک آنا جانا آسان ہو گیا ہے۔ قطر کے چند قصبے یہ ہیں۔

    الخور
    دوہا کے شما ل میں لگ بھگ 37 کلو میٹر کا فاصلہ طے کریں تو چھوٹا سا مگر خوب صورت اور صاف ستھرا قصبہ واقع ہے۔ اسے نہایت جدید طریقے سے تعمیر کیا گیا ہے۔ اس کی سڑکیں کشادہ اور دو رویہ ہیں اور ان کے کناروں پر پام یا کھجور کے درخت لگے ہیں۔ سڑک کے ساتھ ساتھ خوب صورت پھول دار پودے بھی ہیں۔ یہاں ایک قدیم قلعے کے آثار اور ایک عجائب گھر بھی ہے۔ اس قصبے سے آگے صنعتی علا قہ شروع ہوجاتا ہے جسے الخور کمیونٹی کہتے ہیں۔

    الوکرہ
    دوہا سے تقریباً 20 کلو میٹر جنوب میں واقع یہ قطر کا قدیم ترین قصبہ ہے۔ الخور کی طرح یہ بھی ایک بہت خوب صورت مقام ہے۔ ساحلِ سمندر کے کنارے آباد یہ شہر سیاحوں کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔ یہاں کی خوب صورت مساجد میں جامع شعیبؓ رومی، جامع حمزہؓ بن عبدالمطلب مشہور ہیں۔

    اُمّ سعید
    الوکرہ سے مزید جنوب کی طرف ایک بہت بڑا صنعتی مرکز جس کا نام اُمّ سعید یا مے سعید ہے۔ یہ ساحل سمندر کے نزدیک بسایا گیا ہے۔ یہ صنعتی قصبہ الوکرہ سے 25 کلو میٹر اور دوہا سے 45 کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ شہر کی کشا دہ سڑکیں اور خوب صورت عمارات قابلِ دید ہیں۔

    چوں کہ اس علاقے میں صنعتیں ہیں، لہٰذا یہاں زیادہ تر غیر ملکی آباد ہیں جن میں پاکستانی اور بھارتی بھی شامل ہیں۔ یہاں مختلف کھیل اور تفریحی سرگرمیاں دیکھی جاسکتی ہیں۔

    سی لائین
    یہ قطر کا خوب صورت ساحل ہے جہاں قدرتی حسن اور فطرت کے نظارے دیکھنے اور تفریح کی غرض سے آنے والوں کو داخلے کے لیے باقاعدہ ٹکٹ خریدنا پڑتا ہے۔

  • کیا آپ اکبری اور اصغری کو جانتے ہیں؟

    کیا آپ اکبری اور اصغری کو جانتے ہیں؟

    زمانہ بدلتا ہے تو بعض رواج بھی بدل جاتے ہیں، طور طریقے اور رجحان بھی تبدیل ہوتے ہیں۔

    آج کسی لڑکی کا نام اکبری یا اصغری نہیں رکھا جاتا، لیکن ایک دور تھا جب یہ نام یا عرفیتیں عام تھیں۔

    اردو زبان اور ادب کے طالب علم اور باذوق قارئین کو معلوم ہو گاکہ ہمارے یہاں ناول نویسی کے آغاز کا سہرا مولوی نذیر احمد سَر ہے۔ ناقدین کی اکثریت نے انھیں اردو زبان کا پہلا ناول نویس تسلیم کیا ہے۔

    1869 میں ان کا مشہور ناول’’مراۃ العروس‘‘ شایع ہوا تھا جس میں دو بہنوں کی عادات و اطوار، سلیقے، پھوہڑ پن کو نہایت خوب صورتی سے پیش کیا گیا تھا جس کا مقصد عام اصلاح، لڑکیوں میں عائلی زندگی اور معاشرت کا شعور اجاگر کرنا تھا۔

    ڈپٹی نذیر احمد کے ہاں دہلی کی ٹکسالی زبان بھی ملتی اور کرداروں کے مکالموں میں چاشنی بھی۔ لیکن اس ناول کی کم زوریاں بھی نقادوں نے اجاگر کی ہیں۔ اکثر نے انھیں ناصح اور روایتی سوچ والا بھی کہا ہے۔ تاہم ان کا یہ ناول اس دور کی خوب صورت تخلیقی یادگار ہے۔

    کیا آپ جانتے ہیں‌ اس ناول کے مرکزی اور اہم کرداروں‌ کے نام کیا ہیں؟

    اکبری اور اصغری کے علاوہ اس ناول کے دیگر اہم کرداروں میں ماما عظمت، محمد عاقل، محمد کامل، محمد فاضل، سیٹھ ہزاری مل، دور اندیش خان اور خیراندیش خان شامل ہیں۔

  • ایک اجلی صبح کا خواب دیکھنے والا امریکی سیاہ فام!

    ایک اجلی صبح کا خواب دیکھنے والا امریکی سیاہ فام!

    سیاہ فام مارٹن لوتھر کنگ کو دنیا ایک عظیم راہ نما اور انسانی حقوق کا علم بردار مانتی ہے۔

    امریکا کی جنوبی ریاست جارجیا کے ایک سیاہ فام پادری کے گھر آنکھ کھولنے والے مارٹن لوتھر کنگ کو نفرت کے ایک پرچارک نے قتل کردیا، لیکن ان کی فکر آج بھی زندہ ہے اور زمین پر بسنے والے اربوں انسانوں کو دوستی، مساوات، بھائی چارہ، مدد اور تعاون کے لیے آمادہ کرتی اور روشن راستوں پر مل کر آگے بڑھنے کی ترغیب دیتی ہے۔

    مارٹن لوتھر کنگ نے افریقی امریکی شہریوں کے حقوق کی شان دار اور پُرامن مہم چلائی اور امریکا میں شہریوں کے مساوی حقوق کے عظیم راہ نما بن کر ابھرے۔

    ان دنوں امریکا میں ایک سیاہ فام شخص کی ہلاکت کے بعد احتجاج اور پُرتشدد مظاہرے ہورہے ہیں جو دنیا بھر میں پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کی شہ سرخیوں میں‌ ہیں۔

    امریکا میں سیاہ فاموں کی تاریخ چار سو سال پر محیط ہے جب کہ رنگ و نسل کی بنیاد پر تعصب اور قتل و غارت گری کا سلسلہ بھی دہائیوں سے جاری ہے۔

    مارٹن لوتھر کنگ عدم تشدد کا فلسفہ سامنے رکھتے ہوئے نسلی تفریق کے خاتمے کی کوشش کی اور ان کی جدوجہد نے حقوق کے راستے میں کئی سنگِ میل طے کیے۔

    مارٹن لوتھر کنگ کی ایک تقریر دنیا بھر میں مشہور ہے اور اسے شان دار خطاب اور عظیم تقریر شمار کیا جاتا ہے۔ مارٹن لوتھر کنگ نے یہ تقریر 28 اگست 1963 کو کی تھی۔

    اس تقریر کا یہ ٹکڑا دنیا بھر میں سنا اور پڑھا گیا اور ان کی تقریر کے مختلف زبانوں میں تراجم ہوئے۔

    ’’میرا اک خواب ہے کہ جارجیا کی سرخ پہاڑیوں پر ایک دن سفید فام آقاؤں اور سیاہ فام غلاموں کے وارث ایک دوسرے سے معانقہ کریں۔

    میرا اک خواب ہے کہ میرے بچے اپنے رنگ کے بجائے اپنے کردار کے سبب پہچانے جائیں۔۔۔۔‘‘

    اس تقریر میں مارٹن لوتھر نے نسلی تعصب پر مبنی امتیازی قوانین کے خاتمے کا مطالبہ کیا تھا جو امریکا کی مختلف ریاستوں میں‌ نافذ تھے جن کے تحت سیاہ فام غلام شہریت اور بنیادی حقوق سے محروم تھے۔ اس شان دار تقریر کو I have a dream کے عنوان سے یاد کیا جاتا ہے۔

  • دکن کے شوقیہ گلوکار

    دکن کے شوقیہ گلوکار

    دکن کے شوقیہ موسیقاروں میں، جن کا ہر مجلس میں چرچا تھا سب سے پہلا نمبر عبدالرّؤف کا تھا۔

    عبدالرّؤف غالباً محکمہ رجسٹریشن بلدہ میں سب رجسٹرار تھے، لیکن شوقیہ گاتے تھے۔ گلے میں نور تھا۔ میں نے ان کو مختلف مجلسوں میں گاتے دیکھا ہے، جب وہ سُر کو تال سے ہم آہنگ کرتے تو ہر طرف سے داد و تحسین کی صدائیں بلند ہوتیں۔

    جب وہ آواز کا جادو جگاتے تو پوری محفل پر سناٹا چھا جاتا۔ ان کی آواز پپیہے کی آواز کی طرح تھی۔ حیرتؔ (شاعر) صاحب کی بدولت میری ان سے رسمی ملاقات تھی۔

    آج سے 40 سال پہلے میں نے رفیقانِ حیدرآباد کے عنوان سے نظم کہی تھی جس میں اپنے دوستوں سے شکوہ کیا تھا کہ وہ عہدِ ماضی کو یاد نہیں کرتے۔ ان میں رؤف، میر ابن علی، ماہر، حیرت، جوش، حکیم آزاد انصاری کا خاص طور پر ذکر کیا تھا۔

    میر ابن علی، میر محفوظ علی کے صاحبزادے تھے۔ محلہ ملہ پلی میں رہتے تھے۔ علی گڑھ کے گریجویٹ تھے۔ علم، مجلس اور حاضر جوابی کے ساتھ موسیقی میں بھی دسترس رکھتے۔ موسیقی کی محفلیں ان کے دم سے رونق پاتی تھیں۔ پولیس ایکشن کے بعد وہ مددگار کوتوالی بلدہ ہوگئے تھے۔ ایک گیت جس کے بول تھے، ”کایہ کا پنجرہ ڈولے“ بہت ہی عمدہ گاتے تھے۔

    طبلے کی تھاپ اور ہارمونیم پر جب یہ گیت گاتے تو اہل محفل وارفتہ ہوجاتے۔ میں نے اکثر ان کی محفلوں میں شرکت کی ہے۔

    معزالدین صدر محاسبی میں ملازم تھے۔ موسیقی کے رسیا تھے۔ حیرت صاحب سے گہرے مراسم تھے۔ ان کی بدولت میں بھی ایک دو مرتبہ ان کی بزم موسیقی میں شریک ہوا تھا۔ گاتے اچھا تھے۔ ان کے گانے میں بڑا کیف تھا۔


    (معروف نثر نگار، شاعر اور تاریخ نویس اعجاز الحق قدوسی کی کتاب ”میری زندگی کے 75سال“ سے ایک ورق)

  • کیا آپ بندر روڈ والے مرزا غالب کو جانتے ہیں؟

    کیا آپ بندر روڈ والے مرزا غالب کو جانتے ہیں؟

    پاکستان میں اسٹیج سے لے کر ریڈیو تک اپنی فن کاری اور صدا کاری کی صلاحیتوں کا خوبی سے اظہار کرنے کے بعد سبحانی بایونس نے ٹیلی وژن اسکرین پر اپنی پرفارمنس سے ناظرین کے دل جیتے اور نام و مقام بنایا۔ آج اس باکمال اور اپنے فن میں‌ یکتا اداکار کی برسی ہے۔

    مشہور فن کار سبحانی بایونس 31 مئی 2006 کو کراچی میں وفات پاگئے تھے۔ ان کا تعلق حیدرآباد دکن( اورنگ آباد) سے تھا جہاں انھوں نے 1924 میں آنکھ کھولی۔

    انھوں نے قیامِ پاکستان کے بعد اسٹیج سے اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا۔ اس زمانے میں خواجہ معین الدین جیسے عظیم ڈراما نگار کے ساتھ انھیں بھی کام کرنے کا موقع ملا اور ان کے متعدد ڈراموں میں سبحانی بایونس نے لازوال کردار ادا کیے جن میں مشہور ترین ڈراما "مرزا غالب بندر روڈ پر” تھا، اسی طرح "تعلیمِ بالغاں” میں ان کا کردار آج بھی کئی ذہنوں‌ میں‌ تازہ ہے۔

    سبحانی بایونس نے پاکستان ٹیلی ویژن کے مشہور ترین ڈراموں خدا کی بستی، تاریخ و تمثیل، قصہ چہار درویش، رشتے ناتے، دو دونی پانچ، رات ریت اور ہوا، دائرے، وقت کا آسمان، با ادب باملاحظہ ہوشیار اور تنہائیاں میں بھی اپنی اداکاری سے ناظرین کو محظوظ کیا۔

    پرفارمنگ آرٹ کی دنیا میں ان کا نام آج بھی نہایت عزت اور احترام سے لیا جاتا ہے۔

    سبحانی بایونس کراچی میں عزیز آباد کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔