Author: عارف حسین

  • سر سیّد نے اردو زبان اور ادب کو کیا دیا؟

    سر سیّد نے اردو زبان اور ادب کو کیا دیا؟

    سر سیّد کے جس قدر کارنامے ہیں، اگرچہ رفارمیشن اور اصلاح کی حیثیت ہر جگہ نظر آتی ہے، لیکن جو چیزیں خصوصیت کے ساتھ ان کی اصلاح کی بدولت ذرہ سے آفتاب بن گئیں، ان میں ایک اردو لٹریچر بھی ہے۔

    سر سید ہی کی بدولت اردو اس قابل ہوئی کہ عشق و عاشقی کے دائرہ سے نکل کر ملکی، سیاسی، اخلاقی، تاریخی ہر قسم کے مضامین اس زور اور اثر، وسعت و جامعیت، سادگی اور صفائی سے ادا کر سکتی ہے، کہ خود اس کے استاد، یعنی فارسی زبان کو آج تک یہ بات نصیب نہیں۔

    ملک میں آج بڑے بڑے انشا پرداز موجود ہیں، جو اپنے اپنے مخصوص دائرۂ مضمون کے حکم راں ہیں، لیکن ان میں سے ایک شخص بھی نہیں جو سر سید کے بارِاحسان سے گردن اٹھا سکتا ہو۔ بعض بالکل ان کے دامنِ تربیت میں پلے ہیں، بعضوں نے دور سے فیض اٹھایا ہے، بعض نے مدعیانہ اپنا الگ رستہ نکالا، تاہم سر سید کی فیض پذیری سے بالکل آزاد کیونکر رہ سکتے تھے۔

    سر سیّد کی جس زمانہ میں نشوونما ہوئی، دلی میں اہل کمال کا مجمع تھا، اور امرا اور رؤسا سے لے کر ادنیٰ طبقہ تک میں علمی مذاق پھیلا ہوا تھا۔ سر سید جس سوسائٹی کے ممبر تھے، اس کے بڑے ارکان مفتی صدر الدین خان آزودہ، مرزا غالب اور مولانا صہبائی تھے۔ ان میں سے ہر شخص تصنیف و تالیف کا مالک تھا، اور ان ہی بزرگوں کی صحبت کا اثر تھا کہ سرسید نے ابتدا ہی میں جو مشغلۂ علمی اختیار کیا، وہ تصنیف و تالیف کا مشغلہ تھا۔

    زمانہ جانتا ہے کہ مجھ کو سر سید کے مذہبی مسائل سے سخت اختلاف تھا، اور میں ان کے بہت سے عقائد و خیالات کو بالکل غلط سمجھتا تھا، تاہم اس سے مجھ کو کبھی انکار نہ ہو سکا کہ ان مسائل کو سر سیّد نے جس طرح اردو زبان میں ادا کیا ہے کوئی اور شخص کبھی ادا نہیں کر سکتا۔

    (مقالات شبلی سے ایک ورق)

  • ضد اور انا "دیوا” کو لے ڈوبی

    ضد اور انا "دیوا” کو لے ڈوبی

    بولی وڈ میں پروڈیوسر اور اداکاروں کے درمیان معاوضے یا اسکرپٹ میں ردوبدل اور جھگڑے فلموں کو شوٹنگ شروع ہونے کے بعد یا اس سے پہلے ہی "انجام” سے دوچار کردینے کا باعث بنتے رہے ہیں۔

    یہاں ہم امیتابھ بچن کی اس فلم کا ذکر کررہے ہیں جس کی شوٹنگ چند ہفتے جاری رہنے کے بعد روک دی گئی تھی۔

    فلم ”دیوا“ کا اسکرپٹ سبھاش گھئی نے خصوصی طور پر لکھوایا تھا۔ ان کی خواہش تھی کہ وہ سپر اسٹار امیتابھ بچن کے ساتھ کام کریں۔ جب اس اسٹوری کے لیے امیتابھ بچن سے بات کی تو انھیں فلم کا اسکرپٹ اور اس میں اپنا کردار پسند آیا اور معاملات طے کرکے شوٹنگ کا آغاز کر دیا گیا۔

    1987 میں اخبارات میں اس فلم کا بڑا چرچا ہوا، مگر اچانک یہ خبر سامنے آئی کہ فلم کی شوٹنگ روک دی گئی ہے۔

    بولی وڈ سے "اندر” کی خبر لانے والوں کا کہنا تھاکہ انڈسٹری کے دونوں بڑے ناموں کے درمیان کچھ معاملات پر بات بگڑی اور انھوں نے اسے اپنی انا کا مسئلہ بنا لیا۔

    سبھاش گھئی سمجھتے تھے کہ وہ فلم کے ڈائریکٹر اور پروڈیوسر ہیں اس لیے ان کی ہر بات مانی جائے جب کہ بگ باس کا کہنا تھاکہ وہ اپنی مرضی کے مطابق کام کریں گے اور جہاں ضرورت محسوس ہو گی سین میں ردوبدل کروائیں گے۔
    یوں یہ فلم ضد اور انا کی نذر ہو گئی اور چند ہفتوں بعد اس کی شوٹنگ روک دی گئی۔

  • غلط دلائل سے صحیح بات منوانے کی کوشش

    غلط دلائل سے صحیح بات منوانے کی کوشش

    مرزا کرتے وہی ہیں جو ان کا دل چاہے، لیکن اس کی تاویل عجیب و غریب کرتے ہیں۔ صحیح بات کو غلط دلائل سے ثابت کرنے کا یہ ناقابلِ رشک ملکہ شاذ و نادر ہی مردوں کے حصے میں آتا ہے۔

    اب سگریٹ کو ہی لیجیے۔ ہمیں کسی کے سگریٹ نہ پینے پر کوئی اعتراض نہیں، لیکن مرزا سگریٹ چھوڑنے کا جو فلسفیانہ جواز ہر بار پیش کرتے ہیں، وہ عام آدمی کے دماغ میں بغیر آپریشن کے نہیں گھس سکتا۔

    مہینوں وہ یہ ذہن نشین کراتے رہے کہ سگریٹ پینے سے گھریلو مسائل پر سوچ بچار کرنے میں مدد ملتی ہے۔

    اور جب ہم نے اپنے حالات اور ان کی حجت سے قائل ہو کر سگریٹ شروع کر دی اور اس کے عادی ہو گئے تو انھوں نے چھوڑ دی۔

    کہنے لگے، بات یہ ہے کہ گھریلو بجٹ کے جن مسائل پر سگریٹ پی پی کر غور کیا کرتا تھا وہ در اصل پیدا ہی کثرتِ سگریٹ نوشی سے ہوئے تھے۔


    (ممتاز مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی کی کتاب "چراغ تلے” سے انتخاب)

  • لینن کے البم Double Fantasy کا کور!

    لینن کے البم Double Fantasy کا کور!

    دنیا بھر کے کروڑوں شیدائیوں کے محبوب گلوکار، جان لینن کی زندگی شعلۂ مستعجل کے مانند بھڑکی اور آن کی آن میں بجھ گئی۔ وہ صرف چالیس کا تھا جب اسے سفاکی کے ساتھ قتل کر دیا گیا۔

    8 ستمبر 1980 کو شام پانچ بجے وہ اپنی بیوی کے ساتھ ریاست ڈکوٹا میں واقع اپنے اپارٹمنٹ سے ریکارڈنگ اسٹوڈیو جانے کے لیے باہر نکلا۔ راستے میں آٹو گراف کے خواہش مندوں نے انہیں گھیر لیا۔ ان میں وہ آدمی مارک ڈیوڈ چیپ مین بھی تھا جس کے ہاتھ اس کے خون سے رنگنے والے تھے۔

    اس نے آٹو گراف حاصل کرنے کے لیے لینن کی مشہور البم Double Fantasy کا کور آگے بڑھایا جس پر لینن نے دستخط کر دیے۔

    جان اور یوکو چند گھنٹے بعد ریکارڈنگ اسٹوڈیو سے فارغ ہوکر واپس آئے اور کار سے اترے تو چیپ مین وہاں موجود تھا۔ اس نے لینن کو پکارا۔

    ”مسٹر لینن…“ پھر اس نے اپنے پستول کی چار گولیاں لینن کے جسم میں اتاردیں۔ پولیس پہنچی تو چیپ مین بڑے سکون کے عالم میں اپنی جگہ کھڑا ہوا تھا، البتہ اس نے اپنا پستول نیچے پھینک دیا تھا۔ تمام ریڈیو اور ٹی وی اسٹیشنوں نے معمول کے پروگرام روک کر جان لینن کے انتقال کی خبر نشر کی۔

    یوکو اونو نے اپیل جاری کی، ”جان بنی نوع انسان سے محبت کرتا تھا۔ براہِ کرم، آپ بھی اس سے محبت کا اظہار کریں۔“

    14 دسمبر کو دنیا بھر میں جان لینن کے کروڑوں مداحوں نے اس کی یاد میں سَر جھکا کر اسے نذرانہ محبت پیش کیا۔

    (ممتاز شاعر، ادیب اور سینئر صحافی احفاظ الرّحمٰن کی کتاب ”جنگ جاری رہے گی“ سے ایک ورق)

  • طیارہ حادثہ: ماڈل کالونی کی بھی سُنیے!

    طیارہ حادثہ: ماڈل کالونی کی بھی سُنیے!

    کراچی میں مسافر طیارے کے حادثے کے بعد فضا سوگوار ہے اور جائے حادثہ سے لاشیں اکٹھی کرنے، متاثرین کی مدد کے ساتھ ساتھ تحقیقاتی سرگرمیاں بھی جاری ہیں۔

    قومی ایئر لائن کا طیارہ قائد اعظم انٹرنیشل ایئر پورٹ کے نزدیک گنجان آباد علاقے کی رہائشی عمارتوں پر گر کر تباہ ہوا جسے ماڈل کالونی کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ یہ ملیر چھاؤنی سے ملحق بڑی آبادی ہے۔

    ماڈل کالونی میں مختلف شعبوں سے وابستہ متعدد اہم اور مشہور شخصیات بھی آباد ہیں یا ماضی میں رہائش پزیر رہی ہیں۔ ان میں معین اختر، ابراہیم نفیس، زیبا شہناز، روبی نیازی اور کئی اہم اور قابلِ ذکر شخصیات شامل ہیں جو مختلف سرکاری اور نجی ادارو‌ں میں اہم عہدوں پر فائز رہی ہیں۔

    طیارہ جناح گارڈن نامی آبادی کی رہائشی عمارتوں پر گرا جس کی کسی کثیر منزلہ عمارت سے ایئر پورٹ کا رَن وے اور اس پر جہازوں کی آمدورفت کا آسانی سے نظارہ کیا جاسکتا ہے۔

    ماڈل کالونی کا وہ مرکزی روڈ جس سے ملحق آبادی میں یہ حادثہ پیش آیا ہے، اس لحاظ سے نہایت اہمیت رکھتا ہے کہ یہ ایک جانب سپر ہائی وے کو نکلتا ہے اور دوسری طرف سفر کرنے والوں کو شارع فیصل تک پہنچا دیتا ہے۔ اسی روڈ پر سفر کرتے ہوئے آپ گلستان جوہر بھی جاسکتے ہیں۔

    ماڈل کالونی کے اکثر رہائشی مکانات کا رقبہ 120 سے 400 گز ہے جب کہ ملیر کھوکھرا پار، ملیر سٹی، شمی سوسائٹی، رفاہِ عام، جامعہ ملیہ، شاہ فیصل کالونی اور قائد آباد سے یہاں کئی لوگ کاروبار کی غرض سے بھی آتے ہیں۔ اس علاقے میں مختلف تجارتی عمارتیں، سپر اسٹورز اور عام دکانوں میں رات گئے تک کاروباری سرگرمیاں جاری رہتی ہیں۔

    جناح گارڈن میں‌ داخل ہونے کے بجائے اگر ماڈل کالونی کے اس مرکزی روڈ پر محض چند منٹ کی مسافت طے کی جائے تو یہاں کئی شادی ہالز اور مشہور ریستوراں یا فاسٹ فوڈ کے مراکز بھی موجود ہیں۔

    جائے حادثہ اور ایئرپورٹ سے ملحق آبادی پر نظر ڈالیں تو ایک بڑا مسئلہ اور انسانی جانوں اور املاک کے لیے سنگین خطرہ یہاں کی مسلسل اور بے قاعدہ تعمیرات ہیں۔ اس علاقے میں‌ فلیٹوں کے علاوہ کئی منزلہ رہائشی مکانات موجود ہیں جن کی متعلقہ اداروں سے اجازت نہیں لی گئی۔ اسی طرح تجاوزات کی بھرمار ہے جس سے سڑکیں اور گلیاں تنگ ہوچکی ہیں۔ عام خیال ہے کہ ایئر پورٹ کے نزدیک بلند عمارتیں تعمیر کرنے کی اجازت نہیں‌ ہے، تاہم یہاں اس بات کا خیال نہیں‌ رکھا گیا جو مستقبل میں کسی اور بڑے حادثے کا سبب بن سکتا ہے۔

  • طیارہ یا ہوائی جہاز کیا ہوتا ہے؟

    طیارہ یا ہوائی جہاز کیا ہوتا ہے؟

    طیارہ جسے Airplane یا Aeroplane بھی کہتے ہیں، انجن اور پروں کی مدد سے ہوا میں اڑان بھرنے کے بعد مخصوص فاصلے تک گھنٹوں پرواز کرسکتا ہے۔

    دور دراز مقامات تک انسانوں کو سفر کی سہولت فراہم کرنے اور سامان کی منتقلی کے لیے چند بڑی اور حیرت انگیز ایجادات میں ہوائی جہاز بھی شامل ہے۔

    کوئی بھی طیارہ فضا میں پرواز کرنے والی ایسی ایجاد ہے جو اپنی مخصوص ساخت اور مشینری یا اس میں موجود ضروری آلات کی وجہ سے زمین پر ہر قسم کی نقل و حرکت یقینی بنانے اور ہمارے لیے کارآمد دیگر بھاری مشینوں سے بالکل مختلف ہے۔ اس فرق کو سمجھنے کے لیے آپ مسافر ٹرین، مال بردار ٹرک اور بڑی بسوں کو تصور کریں۔

    سادہ الفاظ میں کہیں تو ہوائی جہاز ایک مخصوص ساخت والی بھاری مشین ہوتی ہے، جسے عام طور پر Airplane کہا جاتا ہے، لیکن سائنس اور مشینوں کی دنیا کے ماہر اسے fixed-wing aircraft کہتے ہیں۔

    مختلف مقاصد کے لیے مختلف طیارے استعمال کیے جاتے ہیں جو سائز میں‌ بڑے اور چھوٹے ہوتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ ان کی ساخت، ان میں نصب مشینری اور آلات بھی مختلف ہوتے ہیں۔ تاہم ان کے اڑان بھرنے، پرواز کرنے اور زمین پر اترنے کی بنیادی تکنیک اور سائنسی کلیہ مشترک ہوتا ہے۔

    طیاروں کی نہایت عام اقسام میں مسافر بردار اور جنگی طیارے شامل ہیں۔ ہیلی کاپٹر بھی ہوائی جہاز کی ایک قسم ہے۔

  • "صدر بننے سے کوئی فرق نہیں پڑتا!”

    "صدر بننے سے کوئی فرق نہیں پڑتا!”

    چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یاد ہے
    ہم کو اب تک عاشقی کا وہ زمانہ یاد ہے

    مولانا حسرت موہانی نے عشقیہ مضامین یا رومانوی جذبات کو اپنی شاعری میں نہایت سلیقے اور خوب صورتی سے نبھایا۔ انھوں نے اپنے دور میں غزل کے روایتی موضوعات کو ایک خاص تازگی اور ندرت بخشی ہے۔ یہاں ہم نے جو شعر آپ کی نذر کیا ہے، وہ حسرت کی مشہور ترین غزل کا مطلع ہے۔ اسے متعدد گلوکاروں‌ نے اپنی آواز دی اور اسے لوگوں نے بہت پسند کیا۔

    حسرت موہانی شاعری ہی نہیں بلکہ اپنے نظریات اور سیاسی و عوامی جدوجہد کے لیے بھی مشہور ہیں۔ مشہور ادیب اور صحافی ابراہیم جلیس نے اپنی کتاب ”آسمان کے باشندے“ میں مولانا حسرت موہانی کا تذکرہ کیا ہے جو آپ کی دل چسپی کے لیے پیش ہے۔

    ”مولانا حسرت اپنی ساری زندگی حکومت سے دور اور عوام سے قریب تر رہے۔ اتنے قریب کہ انھوں نے ساری زندگی ریل میں عوام کے ڈبے یعنی تھرڈ کلاس میں سفر کیا۔“

    مولانا شوکت علی مرحوم ایک واقعے کے راوی ہیں کہ مولانا حسرت جب خلافت کانفرنس کے صدر کی حیثیت سے الٰہ آباد روانہ ہورہے تھے تو مولانا شوکت علی نے مشورہ دیا۔

    ”مولانا آپ سیکنڈ کلاس میں سفر کیجیے۔ بی اماں بھی ساتھ ہوں گی، مصارف خلافت کمیٹی ادا کرے گی۔“ مولانا ناراض ہوگئے اور بولے:

    ”صدر بننے سے کوئی فرق نہیں پڑتا، میں تیسرے درجے ہی میں سفر کروں گا اور خلافت فنڈ سے ایک حبہ بھی نہیں لوں گا۔“

  • جیو فینسنگ کیا ہے؟

    جیو فینسنگ کیا ہے؟

    "جرم” ایک سماجی اصطلاح ہے اور اس کی عام تعریف یہ ہوسکتی ہے کہ کسی شخص کا وہ فعل جو قانون کی‌ خلاف ورزی ہو اور ریاست میں اس کی کوئی سزا مقرر ہو۔

    جرم کئی طرح کا ہوتا ہے یا یہ کہہ لیں کہ اس کی مختلف اقسام ہیں۔ پولیس کسی واقعے کے ملزم تک پہنچنے کے لیے مختلف سائنسی طریقے اور جدید آلات استعمال کرسکتی ہے۔

    کئی جرائم ایسے ہوتے ہیں جن کا کوئی عینی شاہد اور گواہ نہیں ہوتا اور جائے وقوع سے بہت کم ٹھوس شواہد مل پاتے ہیں جس سے مجرم تک پہنچنا مشکل ہوجاتا ہے۔ موجودہ دور میں اس صورت میں تحقیقات کے لیے جدید آلات اور طریقہ اپنایا جاتا ہے جس میں موبائل فون کے ریکارڈ سے مدد لینا بھی شامل ہے۔

    اگر ہم ایسے قتل کی بات کریں جس کا کوئی گواہ نہ ہو اور شواہد بھی کم ہوں تو قاتل تک پہنچنے کے لیے پولیس جیو فینسنگ کا سہارا لیتی ہے۔

    مقتول کے موبائل فون پر کالوں کا ریکارڈ اور دوسرے ڈیٹا کے ساتھ مشتبہ شخص یا قاتل کی موجودگی کا پتا چلانے کی کوشش اسی طریقے سے کی جاتی ہے۔

    پولیس کسی خاص نمبر کے لیے موبائل فون کمپنیوں کی مدد بھی لیتی ہے جب کہ کسی موبائل فون کی لوکیشن معلوم کرنے والے آلات سے یہ جاننے کی کوشش کی جاتی ہے کہ فلاں شخص کس وقت کس جگہ موجود تھا۔ اس کے ماہر کسی شخص کی مختلف اوقات میں موجودگی کا کھوج لگا کر اس تک پہنچتے ہیں جس کے بعد ابتدائی پوچھ گچھ اور تفتیش شروع کی جاتی ہے۔

  • اک آئنہ تھا سو ٹوٹ گیا….عبید اللہ علیم

    اک آئنہ تھا سو ٹوٹ گیا….عبید اللہ علیم

    عبید اللہ علیم کا شمار اردو کے ممتاز شعرا میں‌ ہوتا ہے۔ 1998 میں وہ اس دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔ آج عبید اللہ علیم کا یومِ وفات ہے۔

    1939 کو بھوپال کے ایک گھرانے میں آنکھ کھولنے والے عبید اللہ علیم کا خاندان تقسیم کے بعد پاکستان آگیا۔ یہاں اردو میں ایم اے کی سند حاصل کرنے کے بعد عبید اللہ علیم نے پاکستان ٹیلی ویژن میں بطور پروڈیوسر ملازمت اختیار کر لی، مگر یہ سلسلہ زیادہ عرصہ نہ چل سکا اور اختلافات کے بعد انھو‌ں نے استعفیٰ دے دیا۔

    عبیداللہ علیم کے شعری مجموعوں میں چاند چہرہ ستارہ آنکھیں، ویران سرائے کا دیا، نگارِ صبح کی امید میں شامل ہیں۔

    عبید اللہ علیم کی یہ مشہور غزل آپ کے ذوقِ مطالعہ کی نذر ہے۔

    کچھ دن تو بسو مری آنکھوں میں
    پھر خواب اگر ہو جاؤ تو کیا

    کوئی رنگ تو دو مرے چہرے کو
    پھر زخم اگر مہکاؤ تو کیا

    جب ہم ہی نہ مہکے پھر صاحب
    تم باد صبا کہلاؤ تو کیا

    اک آئنہ تھا سو ٹوٹ گیا
    اب خود سے اگر شرماؤ تو کیا

    تم آس بندھانے والے تھے
    اب تم بھی ہمیں ٹھکراؤ تو کیا

    دنیا بھی وہی اور تم بھی وہی
    پھر تم سے آس لگاؤ تو کیا

    میں تنہا تھا میں تنہا ہوں
    تم آؤ تو کیا نہ آؤ تو کیا

    جب دیکھنے والا کوئی نہیں
    بجھ جاؤ تو کیا گہناؤ تو کیا

    اب وہم ہے یہ دنیا اس میں
    کچھ کھوؤ تو کیا اور پاؤ تو کیا

    ہے یوں بھی زیاں اور یوں بھی زیاں
    جی جاؤ تو کیا مر جاؤ تو کیا

  • آ کے ہم کو بھی ”تا” کرے کوئی!

    آ کے ہم کو بھی ”تا” کرے کوئی!

    بابائے ظرافت سید ضمیر جعفری کو ہم سے بچھڑے بیس برس بیت چکے ہیں۔ اردو ادب میں‌ نثر ہو یا نظم طنز و مزاح کے لیے مشہور شخصیات میں‌ ضمیر جعفری‌ کا نام اپنے موضوعات اور شائستہ انداز کی وجہ سے سرِفہرست رہے گا۔

    سماج کے مختلف مسائل، خوبیوں اور خامیوں‌ کو اجاگر کرنے کے ساتھ انھوں نے ہماری تفریحِ طبع کا خوب سامان کیا۔

    سید ضمیر جعفری نے ہمیشہ پُر وقار انداز میں بامقصد تفریح کا موقع دیا۔ ان کی یہ غزل آپ کو ضرور مسکرانے پر مجبور کردے گی۔

    نمکین غزل
    شب کو دلیا دلا کرے کوئی
    صبح کو ناشتہ کرے کوئی

    آدمی سے سلوک دنیا کا
    جیسے انڈا تلا کرے کوئی

    سوچتا ہوں کہ اس زمانے میں
    دادی اماں کو کیا کرے کوئی

    جس سے گھر ہی چلے نہ ملک چلے
    ایسی تعلیم کیا کرے کوئی

    ایسی قسمت کہاں ضمیرؔ اپنی
    آ کے پیچھے سے ”تا” کرے کوئی