Author: عارف حسین

  • اوکس بیکر "قاتل” یا "فاتح”؟

    اوکس بیکر "قاتل” یا "فاتح”؟

    اگر آپ ایک عام ڈیل ڈول والے انسان ہیں اور کسی روز اوکس بیکر کو بغیر دیکھے، جیساکہ فون پر اس کے ساتھ الجھ پڑے ہیں تو یقینا یہ پریشان کن ہے۔ جب آپ کا سامنا اوکس بیکر سے ہو گا تو اسے دیکھ کر ہی آپ کا دَم نکل سکتا ہے۔

    کمان جیسے ابرو، لمبی مونچھیں اور کرخت چہرے کے ساتھ اس چوڑے چکلے جسم والے انسان سے کوئی بھی بھڑنا نہیں‌ چاہے گا اور یہ جان کر تو ہرگز ہرگز نہیں‌ کہ وہ ایک پہلوان ہے اور ریسلنگ کے اکھاڑے میں طاقت آزمائی کے دوران دو حریفوں کو ابدی نیند سُلا چکا ہے۔

    ویسے اب یہ کسی طور ممکن نہیں‌ کہ کبھی آپ کا اوکس بیکر سے سامنا ہو، کیوں کہ وہ اب اس دنیا میں نہیں رہے!

    1934 میں پیدا ہونے والے ڈگلس بیکر نے ریسلنگ کی دنیا میں اوکس بیکر کے نام سے شہرت پائی۔ اس کا تعلق امریکا سے تھا جہاں 2014 میں‌ اس کی زندگی کا سفر تمام ہوچکا ہے۔

    ہم نے جن دو ریسلروں کی مقابلے کے دوران ہلاکت کا ذکر کیا ہے، ان کی موت بھی قتل نہیں‌ بلکہ حادثاتی تھی۔

    وہ ایسے بدقسمت ریسلر تھے جو رِنگ میں اوکس کا مقابلہ کرنے کے دوران داؤ پیچ برداشت نہ کرسکے اور اس پہلوان کے وار کی وجہ سے ان کی حرکتِ قلب بند ہوگئی۔ طبی رپورٹ میں‌ اسے ہارٹ اٹیک کہا گیا۔

    پہلا واقعہ 1971 کا ہے جب اوکس بیکر نے اپنے حریف البرٹو ٹورس کو سخت مقابلے کے دوران ایک داﺅ لگایا اور اس دوران ٹورس حرکتِ قلب بند ہوجانے سے چل بسا۔

    1972 میں یعنی اس افسوس ناک حادثے کے اگلے سال ہی ریسلر رے کیونکل بھی رِنگ میں اوکس کو شکست دینے کا خواب سجائے اترا، لیکن مقابلے کے دوران ہارٹ اٹیک کی وجہ سے جان کی بازی ہار گیا۔

    ان مقابلوں کے "قاتل فاتح” اوکس بیکر پر کوئی مقدمہ چلا اور نہ ہی کسی نے حریف ریسلروں کی موت کا الزام دیا۔

  • سعادت حسن منٹو کی زندگی کی کہانی (تصاویر)

    سعادت حسن منٹو کی زندگی کی کہانی (تصاویر)

    اپنے معاصرین میں منٹو کیوں ممتاز ہوئے، اور کیا وجہ ہے کہ آج بھی انھیں پڑھا اور پسند کیا جاتا ہے؟

     


    یوں تو کئی قابل، نہایت باصلاحیت لکھاری اور تخلیقی جوہر سے مالا مال ادیب منٹو کے ہم عصر اور اس دور کے اہم نام شمار کیے جاتے ہیں۔ انھوں نے نثر کی متعدد اصناف میں اردو ادب کے لیے بہت کچھ لکھا، مگر منٹو سب پر سبقت لے گئے۔

     
    منٹو کا تذکرہ آج بھی ہوتا ہے، اس ادیب کو صرف پڑھا ہی نہیں جاتا بلکہ اس کے موضوعات کو‌ زیرِ بحث لایا جاتا ہے۔

     

     

    شاید ایسا اس لیے ہے کہ سعادت حسن منٹو نے سماجی حقیقتوں، سچائیوں، تلخیوں کو بیان کیا اور اس حوالے سے کوئی رعایت نہیں کی۔ آج اسی ادیب کا یومِ پیدائش منایا جارہا ہے۔

     

     

    گوگل نے اپنے ڈوڈل پر منٹو کو نمایاں کیا ہے جس کا مقصد انھیں خراجِ عقیدت پیش کرنا ہے۔

     

     

    منٹو کی یہ تصاویر ان کی زندگی کے مختلف برسوں کی ہیں۔

     

     

    منٹو بھی دنیا کے اسٹیج کا ایک کردار تھے، اور ہر کردار کی طرح ان کی زندگی کی کہانی بھی موت کے ساتھ مکمل ہوئی۔ 1955 ان کی وفات کا سال ہے۔

     

     

    افسانے اور مختصر کہانیوں کے علاوہ منٹو کے لکھے ہوئے خاکے اور مختلف موضوعات پر ان کے مضامین بھی اردو ادب کا سرمایہ ہیں۔

  • دلّی ہم نے دیکھا….

    دلّی ہم نے دیکھا….

    میں جامعہ کے غیر مقیم طالبِ علموں میں سے تھا، یعنی جامعہ کی کسی اقامت گاہ میں نہیں رہتا تھا۔ میرا قیام بستی نظام الدین میں بھیا احسان الحق کے دولت کدے "علی منزل” میں تھا جو حضرت نظام الدین اولیا، امیر خسرو اور غالب کی ابدی آرام گاہوں سے متصل تھا۔

    روزانہ صبح میں بھیا احسان الحق کے صاحب زادے شبلی کے ساتھ تانگے پر بستی نظام الدین سے قرول باغ جاتا اور دن بھر جامعہ میں گزارنے کے بعد شام کو واپس آتا۔

    درگاہ حضرت نظام الدین تو علی منزل سے دو قدم پر ہی تھی۔ بستی سے نکل کر بڑی سڑک پر آئیے تو سڑک کی دوسری جانب ہمایوں کا مقبرہ ہے۔ اسی سڑک پر آگے چل کر پرانا قلعہ آتا ہے۔

    پرانے قلعے سے اور آگے چلیے تو پرانی دہلی کے حدود میں داخل ہونے سے قبل فیروز شاہ کا کوٹلا ملے گا۔

    پرانی دہلی میں فیض بازار سے اردو بازار پہنچنے پر سامنے پریڈ کے لق و دق میدان کے پرے دائیں جانب لال قلعہ نظر آئے گا اور بائیں جانب قریب ہی جامعہ مسجد کی پُرشکوہ عمارت۔

    پریڈ کے میدان میں 1857 کی جنگِ آزادی سے قبل مغل دربار کے منصب داروں، امرا اور رؤسا کے محلات تھے، 1857 کی جنگِ آزادی کے ناکام ہونے پر انگریزوں نے لوٹ مار کے بعد ان محلات کو اس بری طرح مسمار کیا کہ آج اس میدان کو دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ اب سے ڈیڑھ سو برس قبل یہ دلی کا اعلیٰ ترین رہائشی علاقہ تھا۔

    (دہلی کی بستی نظام الدین سے قرول باغ تک ماضی کی نشانیوں اور یادگاروں کا تذکرہ خلیق ابراہیم خلیق کے قلم سے)

  • آرتھر فلپ اور پینگوئن کی پریڈ

    آرتھر فلپ اور پینگوئن کی پریڈ

    آسٹریلیا کے باسی ایڈمرل آرتھر فلپ کو بحری فوج کے ایک ایسے افسر کے طور پر یاد کرتے ہیں جس نے اپنی ذہانت اور لیاقت سے کام لے کر اس خطے میں حقِ ملکیت اور آباد کاری سے متعلق تنازع کے تصفیے میں اہم کردار ادا کیا۔ 1814 میں اس دنیا سے رخصت ہونے والا آرتھر فلپ ریاست نیو ساؤتھ ویلز کا پہلا گورنر بھی رہا۔

    یہ سترھویں صدی عیسوی کی بات ہے جب اس سرزمین کے ایک حصے پر برطانیہ نے دعویٰ کیا اوربرطانوی کالونیاں بساتا چلا گیا۔ مقامی آبادی نے اسے مداخلت تصور کیا۔ تب ایک موقع پر آرتھر فلپ نے اس خطے میں‌ دریافت ہونے والے جزائر اور نئے علاقوں کی ملکیت اور آباد کاری سے متعلق مذاکرات کی سربراہی کی اور فریقین میں تصفیہ کروا کے تاریخ کے صفحات میں اپنا نام لکھوایا۔

    آرتھر فلپ ہی وہ شخص ہے جس کے نام پر یہاں ایک جزیرہ بھی آباد ہے، جس کی آبادی بہت کم، مگر یہ خوب صورت اور اپنے قدرتی حسن، صاف ستھری آب و ہوا اور جنگلی حیات کی وجہ سے مشہور ہے۔ اسے فلپ آئس لینڈ کا نام دیا گیا ہے۔

    اس علاقے کو آرتھر فلپ ہی نے دریافت کیا تھا۔ یہ جزیرہ میلبورن شہر سے تقریباً 148 کلو میٹر کے فاصلے پر جنوب مشرق میں واقع ہے۔ کہتے ہیں وہ 1798 میں بحری سفر کے دوران یہاں پہنچا تھا۔ اس جزیرے کا کل رقبہ ایک سو مربع کلو میٹر ہے۔

    آج یہ ایک مشہور سیاحتی مقام ہے جہاں کئی خوب صورت پارک، تفریح گاہیں قائم کی گئی ہیں۔ یہاں مقامی شہری اور ملک کے دوسرے علاقوں سے گھومنے پھرنے کے لیے لوگ آتے ہیں اور خاص طور پر چراگاہوں میں پھرتی گائیں، کینگرو، اڑتے ہوئے پرندوں، اور مخصوص مقامات پر احاطے کے اندر آزاد گھومتے دیگر جانوروں کو دیکھ کر خوش ہوتے ہیں۔

    اس پُرفضا مقام کا حُسن بڑھاتے پینگوئن تو بچوں، بڑوں سبھی کو اپنی طرف متوجہ کرلیتے ہیں اور لوگ خاص طور پر ان کی "پریڈ” دیکھنے یہاں کا رخ کرتے ہیں۔ ساحل پر اس خوب صورت جاندار کے لیے گھر بھی بنائے گئے ہیں جن میں ان کے بچوں کی شرارتیں، شوخیاں دیکھنے والوں کو مسکرانے پر مجبور کردیتی ہیں۔

  • انسانی خون میں موجود پلازما کا کام کیا ہے؟

    انسانی خون میں موجود پلازما کا کام کیا ہے؟

    طبی سائنس انسانی جسم میں دوڑنے والے خون کو دو حصوں میں تقسیم کرتی ہے۔ ماہرین کے مطابق خون دراصل پلازما اور سیلز پر مشتمل ہوتا ہے جن میں‌ شامل مختلف اجزا اپنا اپنا کام انجام دیتے ہیں۔

    دنیا بھر میں کرونا کی وبا کے علاج کی کوششوں میں جہاں ویکسین کی تیاری کے لیے ماہرین مصروفِ عمل ہیں، وہیں پلازما تھراپی سے بھی کرونا کے مریض کو اس وائرس سے لڑنے میں مدد دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔

    پلازما تھراپی کے لیے ماہرین کو ایسے فرد کے خون کی ضرورت پڑتی ہے جو کرونا کو شکست دے چکا ہو۔ یعنی کرونا سے صحت یاب ہوجانے والے مریض کے خون سے متاثرہ انسان کی قوتِ مدافعت بڑھانے کا عمل پلازما تھراپی کہلاتا ہے۔

    پاکستان میں بھی اس وقت پلازما تھراپی کا شور سنائی دے رہا ہے، تاہم یہ فوری اور مؤثر طریقہ علاج نہیں ہے۔

    انسانی خون میں موجود پلازما کے بارے میں‌ جانیے۔

    پلازما کیا ہوتا ہے؟

    انسانی جسم میں موجود خون کا وہ شفاف حصہ جو خون کے خلیات علیحدہ کرنے کے بعد حاصل ہوتا ہے، اسے پلازما کہتے ہیں۔ اس میں اینٹی باڈیز اور پروٹین شامل ہوتے ہیں۔ پلازما 90 فی صد پانی ہوتا ہے جس میں 10 فی صد اینٹی باڈیز موجود ہوتی ہیں۔ طبی محققین کے مطابق انسانی خون میں پلازما کی مقدار 55 فی صد ہوتی ہے۔

    پلازما کیا کام کرتا ہے؟

    کسی بھی انسان کے خون میں موجود پلازما دراصل بلڈ میں شامل خلیات اور اس کے ساتھ پروٹین کو تیرنے میں مدد دیتا ہے جب کہ پلازما میں موجود اینٹی باڈیز انسانی جسم کی قوتِ مدافعت بڑھاتی ہیں۔

    خون سے الگ کیے جانے والا پلازما زرد رنگ کا ہوتا ہے۔

  • فلم ڈائریکٹر نے مشہور اداکار راج کپور کو تھپڑ کیوں مارا؟

    فلم ڈائریکٹر نے مشہور اداکار راج کپور کو تھپڑ کیوں مارا؟

    ’بامبے ٹاکیز‘ نے بیسویں صدی کے 30 ویں عشرے میں ہندوستان کے فلم سازوں اور شائقین کو اپنی جانب متوجہ کیا اور اس بینر تلے بننے والی فلمیں سپر ہٹ ثابت ہوئیں۔ اسی فلم اسٹوڈیو سے دلیپ کمار، مدھوبالا، راج کپور، دیوآنند جیسے فن کاروں کی شہرت کا سفر بھی شروع ہوا۔

    ہندوستانی سنیما کے مشہور اداکار راج کپور نے اسی اسٹوڈیو میں ڈانٹ سنی اور انھیں ایک روز تھپڑ بھی پڑا۔

    فلم ’جوار بھاٹا‘ کی شوٹنگ کی جارہی تھی جس میں راج کپور کا بھی ایک کردار تھا۔ فلم کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر کیدار شرما تھے۔

    ایک سین کی عکس بندی کے لیے جب وہ شوٹنگ شروع کرنے کو کہتے تو راج کپور کیمرے کے سامنے آتے اور اپنے بال ٹھیک کرنے لگتے۔ ایسا دو تین بار ہوا اور جب بار بار راج کپور نے یہی حرکت کی تو کیدار شرما برداشت نہ کرسکے اور آگے بڑھ کر انھیں ایک تھپڑ لگا دیا۔

    ڈائریکٹر کی جھڑکیاں اور وہ تھپڑ راج کپور کے کام آیا اور ہندی سنیما کے شائقین نے انھیں بے حد سراہا اور ان کے کام کو پسند کیا، بعد کے برسوں میں راج کپور اپنی صلاحیتوں کی وجہ سے باکمال فن کاروں کی صف میں‌ کھڑے ہوئے اور ان کی فلمیں کام یاب ثابت ہوئیں۔

    (ہندوستانی سنیما سے متعلق راج نارائن کی یادداشتوں سے ایک ورق)

  • پاکستان کا فنانس سیکرٹری اور بھکاری ( دل چسپ واقعہ)

    پاکستان کا فنانس سیکرٹری اور بھکاری ( دل چسپ واقعہ)

    ممتاز حسن پاکستان کی ان چند شخصیات میں سے ایک ہیں جو اپنی ذہانت، علم اور شائستگی و شرافت کی وجہ سے بھی پہچانے جاتے ہیں۔

    سول سرونٹ اور مالیاتی امور کے ماہر کے علاوہ انھیں محقق، شاعر، براڈ کاسٹر اور معتبر ناقد کی حیثیت سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔

    ان کی دل چسپی تاریخ اور قدیم آثار میں تھی۔ اہم عہدوں پر فائز رہتے ہوئے کئی اہم ذمہ داریاں نبھانے والے ممتاز حسن نے اپنی تمام مصروفیات کے باوجود مطالعہ کی عادت ترک نہ کی، وہ علم و ادب کے شائق اور مطالعے کے رسیا تھے۔ نہایت سادہ مزاج اور عجز و انکسار کا پیکر ممتاز حسن سے متعلق ان کی پوتی شازیہ حسن نے ایک واقعہ بیان کیا جو نہ صرف یہ کہ مرحوم کی زندگی کے ایک خوب صورت رُخ یعنی ان کی سادگی اور شرافت کا عکاس ہے بلکہ نہایت دل چسپ بھی ہے۔

    وہ لکھتی ہیں، ”وزارتِ مالیات میں دادا شب و روز مصروف رہے، وہ رقم جیب میں رکھنا بھول جاتے تھے، ایک روز سرِ راہ کسی فقیر سے سامنا ہوگیا، فقیر کے سوال پر دادا نے معذرت کی اور کہا ان کے پاس اسے دینے کے لیے فی الحال کچھ بھی نہیں ہے۔ فقیر نے یہ سن کے جیب سے ایک سکہ نکالا اور دادا کی طرف بڑھا دیا۔ دادا اس کی شکل دیکھتے رہ گئے۔“

  • اَشوری کون تھے؟

    اَشوری کون تھے؟

    اقوام اور تہذیبوں کے ہزاروں برس پر پھیلے سلسلے کو قدیم آثاروں کی دریافت کے بعد جب جاننے کی کوشش کی گئی تو ماہرین نے اپنے علم اور دورِ جدید کے آلات کی مدد سے ان کے دور کے سیاسی، سماجی حالات، رہن سہن اور طور طریقوں کے بارے میں‌ اندازہ لگایا اور قیاس کر کے تاریخ مرتب کی جس میں سے ایک اشوریہ تہذیب بھی ہے۔

    آثار و تاریخ کے ماہرین کے مطابق اشوریہ کا زمانہ تقریباً دو ہزار برس قبل مسیح کا ہے۔ یہ شمالی عراق کے دریا دجلہ اور فرات کے وسط میں پھلنے پھولنے والی ایک تہذیب تھی جسے اس زمانے کے اشوریہ حکم رانوں اور سورماؤں نے عظیم سلطنت کے طور پر منوایا۔

    اشوریہ کا دورِ عروج آیا تو یہ مصر، شام، لبنان، آرمینیا اور بابل تک پھیل گئی۔ ماہرین کے مطابق اس تہذیب نے شہر اشور کو اپنا مرکز بنایا ہوا تھا اور اسی نسبت سے بعد میں یہ اشوریہ سلطنت مشہور ہوئی۔ تاریخ بتاتی ہے کہ یہ تہذیب خاصی زرخیز اور تمدن سے آشنا تھی۔ اپنے مذہبی عقائد کے مطابق اشوریوں نے معبد اور دیگر عمارتیں بھی تعمیر کی تھیں۔

    شاہِ اشور بنی پال کے اس دنیا سے جانے کے بعد یہ سلطنت زوال کی طرف بڑھی اور کہتے ہیں کہ اہلِ بابل نے انھیں نینوا سے نکال کر خود اس پر قبضہ کرلیا اور پھر اشوری سلطنت کا خاتمہ بھی کر دیا۔

    ماہرین نے قدیم آثار اور اشیا کی مدد سے جانا کہ اشوری علوم و فنون کے دل دادہ تھے۔ ان میں‌ غاروں کی دیوارں، چٹانوں پر مختلف جانوروں، جنگجوؤں اور اشیا کی تصاویر، مجسمے وغیرہ شامل ہیں۔ اس تہذیب کے کھنڈرات بتاتے ہیں کہ اس زمانے میں‌ شاہِ اشور کے کہنے پر کتب خانے بھی بنائے گئے جن میں مذہب، تاریخ، جغرافیہ اور دیگر موضوعات پر کتابیں موجود تھیں۔

    ہزاروں برس پہلے کے کتب خانوں میں کاغذی کتابیں‌ نہیں‌ تھیں بلکہ اس زمانے میں عالم اور قابل شخصیات اپنی تحقیق، مشاہدات اور تجربات کو کچی مٹی سے بڑی بڑی تختیوں پر تصویری شکل میں محفوظ کرواتے تھے۔ ان تختیوں یا لوحوں پر قدیم سومیری دور کی طرح علامتوں، مختلف اجسام کی اشکال اور اشاروں کے ساتھ ان لکیروں سے مختلف معلومات محفوظ کی جاتی تھیں، جنھیں اس دور میں آج کی طرح الفاظ اور زبان کا درجہ حاصل تھا اور وہ سمجھی اور پڑھی جاسکتی تھیں۔

    (قدیم تاریخ اور آثار سے انتخاب)

  • غزلیں اور نظمیں فراہم کرنے والا ادارہ!

    غزلیں اور نظمیں فراہم کرنے والا ادارہ!

    ”جناب والا! میں بچپن ہی سے اس نظریہ کا قائل ہوں کہ شعرا تین قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک پیدائشی شاعر، دوسرا موروثی شاعر اور تیسرا نمائشی شاعر۔

    ان دنوں ہر طرف نمائشی شعرا کی بھر مار ہے جو کہیں سے غزلیں، سہ غزلیں لکھوا کر لاتے ہیں، انہیں مشاعروں میں پڑھ کر نام کماتے ہیں۔ چوں کہ میں ابتدا ہی سے پیدائشی شاعر رہا ہوں اس لیے میں نے یہ فیصلہ کرلیا تھا کہ بڑا ہو کر ایک ایسی کمپنی قائم کروں گا جہاں سے نمائشی شعرا کو سستے داموں پر غزلیں اور نظمیں فراہم کی جائیں۔

    چناں چہ میں نے نہایت قلیل سرمائے سے کمپنی کا آغاز کیا۔ میں نے ایک سیکنڈ ہینڈ قلم اور ایک سیکنڈ ہینڈ دوات خریدی اور مستقبل کی طرف روانہ ہوگیا۔

    ابتدا میں میرا طریقہ کار یہ تھا کہ میں اپنے ہاتھ میں قلم پکڑ کر گلی گلی، آوازیں لگاتا پھرتا کہ ’غزل لکھوائیے، نظم کی اصلاح کروائیے۔ وہ دن میرے لیے سخت آزمائش کے تھے۔ جب ہر طرف پیدائشی شاعر نظر آیا کرتے تھے، لیکن رفتہ رفتہ نمائشی شعرا بھی نمودار ہونے لگے اور میرا کاروبار چل پڑا۔

    آج اس کمپنی کا پروپرائٹر ہوں۔ اب چار پیدائشی شعرا کے علاوہ ایک میوزک ڈائریکٹر کی خدمات بھی حاصل کرلی ہیں۔ پھر میں نے اپنی کمپنی میں ایک نیا شعبہ بھی قائم کیا ہے جسے شعبہ سامعین کا نام دیا گیا ہے۔ اس شعبے کے ذمہ یہ کام ہے کہ وہ مشاعروں میں سامعین کو روانہ کرے اور کمپنی کی فراہم کردہ غزلوں پر کچھ ایسی داد دے کہ اچھے خاصے نمائشی شاعر پر ”پیدائشی شاعر“ کا گمان ہونے لگ جائے۔

    چناں چہ میں فی سامع سواری خرچ کے علاوہ دو روپے چارج کرتا ہوں۔ میرا یہ شعبہ بھی دن دونی رات چوگنی ترقی کررہا ہے کیوں کہ مشاعرے زیادہ تر راتوں ہی میں منعقد ہوتے ہیں۔

    (ممتاز مزاح نگار مجتبیٰ حسین کی شگفتہ تحریر سے انتخاب)

  • بھورے خاں آشفتہ کا مردہ!

    بھورے خاں آشفتہ کا مردہ!

    ہم نے لکھنؤ میں ہندوستان کے ایک محقق کاظم علی خاں سے پوچھ لیا۔
    ”آج کل آپ کس موضوع پر تحقیق کررہے ہیں؟“

    انھوں نے جواب دیا۔ ”مصحفی کے ایک ہم عصر بھورے خاں آشفتہؔ کے سالِ وفات پر تحقیق جاری ہے۔“

    اس کے بعد دو گھنٹے تک وہ ہمیں اس کے نتائج سے مستفید فرماتے رہے۔

    جب بھورے خاں آشفتہ کا مردہ اچھی طرح خراب ہوچکا تو انھوں نے ہماری طرف ایسی نظروں سے دیکھا جیسے ہم ہی بھورے خاں آشفتہ ہوں۔

    پوچھا، ”آپ کی کیا رائے ہے؟“

    ہم نے کہا، ”آپ نے بھورے خاں کے ساتھ ہمارا بھی سالِ وفات ہی نہیں، تاریخ، مہینہ اور دن بھی متعین کردیا ہے۔“

    ہمارے جواب پر وہ خوش ہوئے اور کہنے لگے، ”جی ہاں تحقیق میں ایسا اکثر ہوتا ہے کہ آپ کسی ایک شخص کا سالِ وفات تلاش کریں تو بہت سوں کے سال ہائے وفات خود بخود معلوم ہوتے چلے جاتے ہیں۔“

    (مشفق خواجہ کے قلم سے)