Author: عارف حسین

  • عروسِ تہذیب کو لباس و زیور بخشنے والے! (تصاویر)

    عروسِ تہذیب کو لباس و زیور بخشنے والے! (تصاویر)

    یکم مئی، محنت کشوں، مزدوں کا دن۔

    آج مستقل روزگار، مناسب اور بروقت اجرت، سازگار ماحول اور کام کی جگہوں پر مزدوروں کی جانوں کے تحفظ کی آواز بلند کرنے کا دن ہے، محنت کشوں کی عظمت کو تسلیم کرنے، فن اور ہنر کو سراہنے کا دن ہے، جو دنیا میں اسی جذبے سے منایا گیاکہ کرونا کی وجہ سے روزی روٹی کو ترسے ہوئے اس طبقے کی مدد کی جائے گی اور ہم پاکستانی بھی حسبِ توفیق راشن اور خوراک اپنے ان ہم وطنوں تک پہنچائیں گے۔

    یہاں‌ ہم چند تصاویر شیئر کررہے ہیں جو مختلف پیشوں اور شعبوں اور ان سے منسلک محنت کشوں اور مزدوروں کی ہیں۔

     

  • لاک ڈاؤن: کیا آم باغات سے بازار تک پہنچ سکے گا؟

    لاک ڈاؤن: کیا آم باغات سے بازار تک پہنچ سکے گا؟

    آم کی فصل بُور پر ہے اور ہر سال موسمِ گرما میں سیکڑوں مزدور اس رسیلے اور گودے والے پھل کو باغات میں اکٹھا کرتے نظر آتے ہیں۔ اور یہ مہینہ تو ہے ہی اس پھل کے پیڑ سے اتر کر ہم تک پہنچنے کا۔

    برصغیر میں آم کو پھلوں کا بادشاہ کہا جاتا ہے۔ یہ پھل اپنے پیڑ سے کچا بھی اتارا جاتا ہے جو عام طور پر اچار اور مختلف پکوانوں میں استعمال ہوتا ہے، لیکن پکنے کے بعد تو جیسے اس کی سج دھج ہی نرالی ہوتی ہے اور مخصوص مہک کے ساتھ پیلے رنگ کا یہ پھل خوب بکتا ہے۔

    یہ آم کا مہینہ ہے، لیکن ملک بھر میں کرونا کے باعث لاک ڈاؤن کی وجہ سے آم کے بیوپاری اور اس سیزن میں‌ کام کرنے والے مزدور بہت پریشان ہیں۔

    ماہرینِ زراعت کے مطابق اپریل ہی میں ملک کے مختلف علاقوں میں آموں کے باغات میں مزدور پہنچنا شروع ہوجاتے تھے جس سے ان کی روزی روٹی جڑی ہوتی ہے۔ زرعی زمین کے مالک آموں کے باغات کو معاوضہ طے کرکے ٹھیکے پر دے دیتے تھے، لیکن اس سال نہ صرف عام اجتماعات پر پابندی ہے بلکہ ذرایع نقل و حمل اور آمدورفت پابندی اور بندشوں کا شکار ہے۔

    ماہرین کے مطابق اس سال منڈیوں تک پھلوں کے بادشاہ کا پہنچنا مشکل ہے اور عوام کی اکثریت اس کا لطف اٹھانے سے محروم ہوسکتی ہے۔ اس سیزن میں یومیہ کئی ٹن آم نہ صرف اکٹھا ہوتا تھا بلکہ ٹرکوں اور مختلف گاڑیوں میں لاد کر بازاروں میں پہنچایا جاتا تھا جس سے کئی لوگوں کو روزگار میسر آتا تھا۔

    اس سال پیڑوں پر کچے پکے آموں کے درمیان کوئل اور پپیہے کی دل موہ لینے والی اور مدھر کوک تو سنائی دے رہی ہے، مگر فطرت کے اس حُسن میں اداسی کا رنگ بھی شامل ہے۔

  • اُن سے ملیے جو اِن دنوں "غائب” ہیں (تصاویر)

    اُن سے ملیے جو اِن دنوں "غائب” ہیں (تصاویر)

    دنیا کو تشویش ہے کہ آخر شمالی کوریا کے سپریم لیڈر کم جونگ اُن ہیں کہاں؟

    جزیرہ نما کوریا دوسری جنگ عظیم کے بعد منقسم ہوا۔ شمالی کوریا نے آمرانہ طرزِ حکومت، جنگی جنون اور جوہری ہتھیاروں کی تیاری کی وجہ سے پابندیوں کا سامنا کیا اور دنیا میں تنہا ہوتا چلا گیا۔

    15 اپریل کو کم جونگ اُن کے داد کا یومِ پیدائش منایا گیا تھا جو شمالی کوریا کے بانی مانے جاتے ہیں اور ان کی سال گرہ کی تقریب شمالی کوریا میں بہت اہمیت رکھتی ہے۔

    یہ تقریبا ناممکن ہے کہ اس تقریب میں ملک کا سپریم لیڈر شریک نہ ہو، لیکن اس سال کم جونگ اُن کو تقریب میں نہیں دیکھا گیا۔

    یہی نہیں بلکہ تقریب کے بعد اور کرونا کی وبا کے دوران کسی بھی موقع پر انھیں نہیں‌ دیکھا گیا جس کے بعد ان کے شدید بیمار ہونے اور موت کی افواہیں گردش کررہی ہیں۔

    آپ ان تصویروں میں اُنھیں دیکھ سکتے ہیں، جنھیں دیکھنے کے لیے دنیا اور عالمی طاقتیں بے تاب ہیں۔

    ایک تصویر میں کم جونگ اُن دور بین سے سرحدی علاقے کا جائزہ لیتے نظر آرہے ہیں، مگر کیا انھیں بھی کسی طاقت وَر دور بین کی مدد سے دیکھا جاسکتا ہے؟

  • پیاری ڈکار……

    پیاری ڈکار……

    کونسل کی ممبری نہیں چاہتا۔ قوم کی لیڈری نہیں مانگتا۔ کوئی خطاب درکار نہیں۔ موٹر، اور شملہ کی کسی کوٹھی کی تمنا نہیں۔ میں توخدا سے اور اگر کسی دوسرے میں دینے کی قدرت ہو تو اس سے بھی صرف ایک ”ڈکار“ طلب کرتا ہوں۔

    چاہتا یہ ہوں کہ اپنے طوفانی پیٹ کے بادلوں کو حلق میں بلاؤں اور پوری گرج کے ساتھ باہر برساؤں۔ یعنی کڑا کے دار ڈکار لوں۔ پَر کیا کروں یہ نئے فیشن والے مجھے زور سے ڈکار لینے نہیں دیتے۔ کہتے ہیں ڈکار آنے لگے تو ہونٹوں کو بھینچ لو اور ناک کے نتھنوں سے اسے چپ چاپ اڑا دو۔ آواز سے ڈکار لینا بڑی بے تہذیبی ہے۔

    مجھے یاد ہے یہ جیمس لا ٹوش، یو پی کے لفٹیننٹ گورنر علی گڑھ کے کالج میں مہمان تھے۔ رات کے کھانے میں مجھ جیسے ایک گنوار نے میز پر زور سے ڈکارلے لی۔ سب جنٹلمین اس بیچارے دہقانی کو نفرت سے دیکھنے لگے، برابر ایک شوخ و طرار فیشن ایبل تشریف فرما تھے۔ انہوں نے نظرِ حقارت سے ایک قدم اور آگے بڑھا دیا۔ جیب سے گھڑی نکالی اور اس کو بغوردیکھنے لگے۔ غریب ڈکاری پہلے ہی گھبرا گیا تھا۔ مجمع کی حالت میں متاثر ہو رہا تھا۔ برابر میں گھڑی دیکھی گئی تو اس نے بے اختیار سوال کیا۔

    ”جناب کیا وقت ہے۔“ شریر فیشن پرست بولا۔ ”گھڑی شاید غلط ہے۔ اس میں نو بجے ہیں، مگر وقت بارہ بجے کا ہے کیوں کہ ابھی توپ کی آواز آئی تھی۔“ بیچارہ ڈکار لینے والا یہ سن کر پانی پانی ہوگیا کہ اس کی ڈکار کو توپ سے تشبیہہ دی گئی۔

    اس زمانہ میں لوگوں کو سیلف گورنمنٹ کی خواہش ہے۔ ہندوستانیوں کو عام مفلسی کی شکایت ہے۔ میں تو نہ وہ چاہتا ہوں۔ نہ اس کا شکوہ کرتا ہوں۔ مجھ کو تو انگریزی سرکار سے صرف آزاد ڈکار کی آرزو ہے۔ میں اس سے ادب سے مانگوں گا۔ خوشامد سے مانگوں گا۔ زور سے مانگوں گا۔ جدوجہد کروں گا۔ ایجی ٹیشن مچاؤں گا۔ پُر زور تقریریں کروں گا۔ کونسل میں جاکر سوالوں کی بوچھاڑ سے اونریبل ممبروں کا دم ناک میں کر دوں گا۔

    لوگو! میں نے تو بہت کوشش کی کہ چپکے سے ڈکار لینے کی عادت ہوجائے۔ ایک دن سوڈا واٹر پی کر اس بھونچال ڈکار کو ناک سے نکالنا بھی چاہتا تھا، مگر کم بخت دماغ میں الجھ کر رہ گئی۔ آنکھوں سے پانی نکلنے لگا اور بڑی دیر تک کچھ سانس رکا رکا سا رہا۔

    ذرا تو انصاف کرو۔ میرے ابّا ڈکار زورسے لیتے تھے۔ میری اماں کو بھی یہی عادت تھی۔ میں نے نئی دنیا کی ہم نشینی سے پہلے ہمیشہ زور ہی سے ڈکار لی۔ اب اس عادت کو کیونکر بدلوں۔ ڈکار آتی ہے تو پیٹ پکڑ لیتا ہوں۔ آنکھیں مچکا مچکا کے زور لگاتا ہوں کہ موذی ناک میں آجائے اور گونگی بن کر نکل جائے، مگر ایسی بد ذات ہے، نہیں مانتی۔ حلق کو کھرچتی ہوئی منہ میں گھس آتی ہے اور ڈنکا بجا کر باہر نکلتی ہے۔

    کیوں بھائیو! تم میں سے کون کون میری حمایت کرے گا اور نئی روشنی کی فیشن ایبل سوسائٹی سے مجھ کو اس ایکسٹریمسٹ حرکت کی اجازت دلوائے گا۔ ہائے میں پچھلے زمانہ میں کیوں نہ پیدا ہوا۔ خوب بے فکری سے ڈکاریں لیتا۔ ایسے وقت میں جنم ہوا ہے کہ بات بات پر فیشن کی مہر لگی ہوئی ہے۔

    تم نے میرا ساتھ نہ دیا تو میں ماش کی دال کھانے والے یتیموں میں شامل ہو جاؤں گا۔ کیسے خوش قسمت لوگ ہیں، دکانوں پر بیٹھے ڈکاریں لیا کرتے ہیں۔ اپنا اپنا نصیبا ہے۔ ہم ترستے ہیں اور وہ نہایت مصرفانہ انداز میں ڈکاروں کو برابر خرچ کرتے رہتے ہیں۔

    پیاری ڈکار میں کہاں تک لکھے جاؤں۔ لکھنے سے کچھ حاصل نہیں۔ صبر بڑی چیز ہے۔

    (معروف ادیب اور مضمون نگار خواجہ حسن نظامی کا شگفتہ شکوہ)

  • انسانوں کے درمیان انفرادیت اور شخصیت کی دیوار!

    انسانوں کے درمیان انفرادیت اور شخصیت کی دیوار!

    اپنے خیالات و جذبات، اپنے دکھ سکھ، اپنے غم و مسرت کو اتنی اہمیت دینا کہ آدمی انہی کا ہو کر رہ جائے، ایک قسم کی ذہنی بیماری ہے۔

    غموں کو اتنی زیادہ اہمیت دینے سے آدمی میں دنیا بے زاری، کلبیّت، جھلاہٹ اور مایوسی پیدا ہوتی ہے اور خوشیوں کو اتنا اہم سمجھنے سے خود غرضی، خود پرستی اور خود بینی جنم لیتی ہے۔ بس اتنا ہی تو ہے کہ ہمارے غم ہمیں تباہ کر دیتے ہیں، ہماری شخصیت کو مٹا دیتے ہیں اور ہماری خوشیاں ہمیں جِلا دیتی ہیں، بنا سنوار دیتی ہیں، لیکن ہمارا بننا سنورنا، ہمارا مٹنا مٹانا دوسروں کی زندگی پر کیا اثر ڈالتا ہے؟

    ہم رو رہے ہیں تو دوسرے ہمارے ساتھ کیوں روئیں؟ ہم ہنس رہے ہیں تو دوسرے ہمارے ساتھ کیوں ہنسیں؟ ہمارے پاؤں میں کانٹا گڑا ہے تو دوسروں کو تکلیف کیوں پہنچے؟ ہمیں پھولوں کی سیج میسر ہے تو دوسروں کو راحت کیوں ہو؟

    انسان، انسان کے درمیان انفرادیت اور شخصیت کی دیوار کھنچی ہوئی ہے۔ ادب اس دیوار کی بنیادوں کو مضبوط کرنے کا کام نہیں کرتا، ادب شخصی اور ذاتی غموں اور مسرتوں کی ڈائری نہیں ہوتا۔ اس کا کام تو انسان کو انسان کے قریب لانا ہے۔

    انسان انسان کے درمیان کھنچی ہوئی شخصیت کی دیوار کو توڑ کر انہیں ایک دوسرے کے دکھ سکھ کا ساتھی بنانا ہے۔ وہ اپنے دکھ سکھ کو دوسروں کی نظر سے دیکھنے اور دوسروں کے دلوں میں جھانک کر ان کے دکھ سکھ کو سمجھنے کی ایک مقدس اور مبارک کوشش ہے۔

    ادب کی سب سے بڑی قدر اس کی انسانیت، اس کی مخلوق دوستی، اس کی انسانوں کو ایک دوسرے سے قریب لانے کی خواہش ہے۔ ہر بڑا شاعر اور ادیب اپنی آواز کو، اپنے دل کی دھڑکنوں کو، عام انسانوں کی آواز، عام انسانوں کے دلوں کی دھڑکنوں سے ملانے، عام انسانوں کے دکھ سکھ، امیدوں اور آرزوؤں کی ترجمانی کرنے، عالمِ خارجی کے گوناگوں پہلوؤں اور حیات و کائنات کے رنگا رنگ مظہروں سے دل چسپی رکھنے اور اپنی شخصیت اور عالمِ خارجی کے درمیان توازن قائم رکھنے کی وجہ سے بڑا ہے۔

    زندگی کے انفرادی شعور سے ایک فرد کے ذاتی غموں اور خوشیوں، آرزوؤں اور حسرتوں، امیدوں اور مایوسیوں، ناکامیوں اور کامرانیوں غرض ایک فرد کی زندگی میں پیش آنے والے واقعات اور حادثوں کی ڈائری تو لکھی جا سکتی ہے، لیکن زندگی کی تنقید، زندگی کے مستقبل کے امکانات کا اندازہ، زندگی کے ماضی و حال کے صالح عناصر کی پرکھ، ایک بہتر انسان اور بہتر معاشرے کا تصور انفرادی شعور کے بس کی بات نہیں۔

    یہ بصیرت تو صرف انسانی ذہن کے اجتماعی طرزِ فکر اور انسانی زندگی کے اجتماعی ذہنی و عملی رجحانات کے علم ہی سے حاصل ہو سکتی ہے اور کسی طرح نہیں۔

    (اردو زبان میں تنقید، نظم اور نثر میں اپنی تخلیقات اور روایتی ڈگر سے ہٹ کر فکر کا اظہار کرنے والے سلیم احمد کے ایک مضمون سے انتخاب)

  • دلّی والے اشرف صبوحی کا تذکرہ

    دلّی والے اشرف صبوحی کا تذکرہ

    اردو زبان و ادب کو بیش قیمت تخلیقی سرمائے سے مالا مال کرنے اور نثر یا نظم کے میدان میں اپنے اسلوب اور منفرد موضوعات کی وجہ سے پہچان بنانے والوں میں اشرف صبوحی بھی شامل ہیں۔

    انھیں ایک صاحب اسلوب ادیب کی حیثیت سے اردو ادب میں خاص مقام اور مرتبہ حاصل ہے۔ آج ان کا یومِ وفات منایا جارہا ہے۔ اشرف صبوحی کا اصل نام سید ولی اشرف تھا۔ 11 مئی 1905 کو دہلی میں پیدا ہونے والے اشرف صبوحی 22 اپریل 1990 کو کراچی میں وفات پا گئے تھے۔

    اشرف صبوحی کا تعلق ڈپٹی نذیر احمد کے خانوادے سے تھا۔ ان کی نثر رواں اور نہایت خوب صورت ہے اور یہی وجہ ہے کہ انھیں صاحب اسلوب ادیب کہا جاتا ہے۔ اشرف صبوحی کی تصانیف میں دہلی کی چند عجیب ہستیاں، غبار کارواں، جھروکے اور انگریزی ادب کے تراجم شامل ہیں۔ انھوں نے بچوں کے لیے بھی لکھا۔ دلّی سے متعلق اشرف صبوحی کی تحریر سے ایک پارہ باذوق قارئین کے لیے نقل کیا جارہا ہے۔

    دلّی میں جب تک شاہی رہی، دن عید، رات شبِ برات تھی۔ ایک کماتا کنبہ بھر کھاتا۔ نہ ٹیکس تھے نہ اتنی گرانی۔

    ہر چیز سستی، غدر کے بعد تک روپے کا پچیس سیر آٹا۔ پکا دو سیر ڈھائی سیر گھی۔ بکری کا اچھے سے اچھا گوشت چار یا چھے پیسے سیر، ترکاریاں پڑی سڑتیں۔ کون پوچھتا؟

    مکانوں کا کرایہ برائے نام۔ اوّل تو غریب یا امیر سب کے مرنے جینے کے ٹھکانے اپنے الگ۔ پکا محل نہ سہی کچی کھپریل سہی، دوسرے غیر جگہ بسے بھی تو مفت برابر۔ آٹھ آنے، روپے دو روپے حد تین، اس سے زیادہ نہ کوئی دیتا نہ لیتا۔

    ان فارغ البالیوں اور راحتوں کے بعد مہینے کے تیس دن میں اکتیس میلے کیوں نہ ہوتے؟ روز ایک نہ ایک تہوار رکھا تھا۔

  • دلوں کے فاتح معین اختر کی یادگار تصاویر

    دلوں کے فاتح معین اختر کی یادگار تصاویر

    اسٹیج پرفارمنس سے فلم کے پردے تک معین اختر نے خود کو ہر روپ میں باکمال اور منفرد آرٹسٹ ثابت کیا۔ سنجیدہ اور مزاحیہ اداکاری کے علاوہ مختلف شوز کی میزبانی کرتے ہوئے انھوں نے اپنی پرفارمنس سے نہ صرف لوگوں کو محظوظ کیا بلکہ انھیں اپنا گرویدہ بنا لیا۔

    لیجنڈ اداکار اور کمپیئر معین اختر ایک گلوکار، صدا کار، اسکرپٹ رائٹر اور تخلیقی جوہر سے مالا مال نقال تھے۔
    کروڑوں دلوں پر راج کرنے والے اس فن کار کی نویں برسی پر ان کی چند تصویریں دیکھیے۔

     

  • آرزو لکھنوی کی "سریلی بانسری” یاد آرہی ہے!

    آرزو لکھنوی کی "سریلی بانسری” یاد آرہی ہے!

    ایک زمانہ تھا جب غزل وارداتِ قلبی، جذبات اور کیفیات سے سجی ہوتی تھی اور شعرا کے کلام کو رعایتِ لفظی، تشبیہات، استعاروں کے ساتھ نکتہ آفرینی منفرد اور مقبول بناتی تھی۔ اسی دور میں آرزو لکھنوی نے ہم عصروں میں اپنا نام اور مقام بنایا۔

    آج آرزو لکھنوی کی برسی منائی جارہی ہے۔ 16 اپریل 1951 کو کراچی میں ان کا انتقال ہو گیا تھا۔

    اردو زبان کے اس خوش فکر شاعر کا اصل نام سید انوار حسین تھا۔ وہ لکھنؤ کے ایک ایسے گھرانے سے تعلق رکھتے تھے جس کا اوڑھنا بچھونا شاعری تھا۔

    نوعمری میں شعر کہنے لگے اور آرزو تخلص کیا۔ غزل کے ساتھ فلم کے لیے گیت نگاری بھی کی اور اسی عرصے میں ریڈیو کے لیے چند ڈرامے اور فلموں کے مکالمے بھی لکھے۔ تاہم ان کی وجہِ شہرت شاعری اور خاص طور پر غزل گوئی ہے۔

    آرزو لکھنوی نے جن فلموں کے مکالمے لکھے ان میں اسٹریٹ سنگر، جوانی کی ریت، لگن، لالہ جی، روٹی، پرایا دھن اور دیگر شامل ہیں۔ اس زمانے میں کلکتہ فلم اور تھیٹر سے متعلق سرگرمیوں کا مرکز ہوا کرتا تھا جہاں اس سلسلے میں آرزو نے بھی قیام کیا۔

    اردو زبان کے اس معروف شاعر کا کلام فغانِ آرزو، جہانِ آرزو اور سریلی بانسری کے عنوان سے کتابوں میں محفوظ ہے۔ آرزو لکھنوی کے کلام سے چند اشعار پیش ہیں۔

    دفعتاً ترکِ تعلق میں بھی رسوائی ہے
    الجھے دامن کو چھڑاتے نہیں جھٹکا دے کر

    نگاہیں اس قدر قاتل کہ اُف اُف
    ادائیں اس قدر پیاری کہ توبہ

    وفا تم سے کریں گے، دکھ سہیں گے، ناز اٹھائیں گے
    جسے آتا ہے دل دینا اسے ہر کام آتا ہے

  • فقیر محمد فقیر: پنجابی زبان اور ادب کا روشن حوالہ

    فقیر محمد فقیر: پنجابی زبان اور ادب کا روشن حوالہ

    روزنامہ امروز کی ادارت کے دنوں میں ڈاکٹر فقیر صاحب سے آئے دن میری ملاقات رہتی تھی۔

    وہ ایک وجہیہ انسان تھے اور ان کے باطن میں لہریں لیتی ہوئی محبت، ان کے چہرے پر ایک مستقل میٹھی مسکراہٹ کی صورت میں موجود رہتی تھی۔

    جب میں نے ان کی زبان سے ان کا کلام سنتا تو اندازہ ہوتا کہ یہ شخص کیسے ڈوب کر شعر کہتا ہے اور اس کے منہ سے نکلا ہوا ہر لفظ بلاغت کی شعاعیں بکھیرتا محسوس ہوتا ہے۔

    پنجابی ہونے کے باوجود مجھے ان کے اشعار کے بعض الفاظ کے معنیٰ سمجھنے میں دقت ہوتی تھی اور میں برملا اپنی اس مشکل کا اظہار کر دیتا تھا۔

    وہ کھل کر مسکراتے اور مجھے ان الفاظ کے معنیٰ بتاتے اور ساتھ ہی یہ بھی واضح کرتے چلے جاتے تھے کہ یہ لفظ گوجرانوالہ کے علاقے میں تو اسی طرح بولا جاتا ہے جیسا میں نے استعمال کیا ہے، مگر شیخوپورہ، سیالکوٹ، گجرات، لائل پور (فیصل آباد)، جھنگ اور منٹگمری (ساہیوال) اور ملتان میں اس کا تلفظ بھی مختلف ہے اور اس کے معنیٰ میں بھی ہلکا ہلکا پیاز کے چھلکے کے برابر اختلاف ہے۔

    کسی ایک لفظ کے بارے میں میرا استفسار ان سے پنجابی زبان اور روز مرہ سے متعلق باقاعدہ ایک بلیغ تقریر برآمد کروا لیتا تھا اور مجھے اپنی معلومات میں اس اضافے سے تسکین محسوس ہوتی تھی۔

    مولانا عبدالمجید سالک جیسے اردو کے اتنے بڑے ادیب اور اخبار نویس اور شاعر کی پنجابی دوستی کا اصل محرک ڈاکٹر فقیر محمد فقیر کی شخصیت تھی۔

    ڈاکٹر صاحب کے پا س پنجابی الفاظ کا بے حد ذخیرہ تھا۔ وہ جب بھی گفتگو فرماتے تھے یا اپنا کلام مجھے سناتے تو مجھے سید وارث شاہ کا شاہ کار یاد آجاتا۔

    (ممتاز ادیب، شاعر اور محقق فقیر محمد فقیر کو خاص طور پر پنجابی ادب اور زبان کے حوالے سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا، ان کے بارے میں یہ سطور مشہور شاعر احمد ندیم قاسمی کے ایک مضمون سے منتخب کی گئی ہیں)

  • مرزا غالب اور دل آزاری

    مرزا غالب اور دل آزاری

    غالب کا عام طریقہ یہ تھا کہ جب تک واقعی اچھا شعر نہ ہوتا، تعریف نہ کرتے اور خاموش بیٹھے رہتے۔

    خواجہ حالی فرماتے ہیں کہ اس بنا پر بعض معاصرین ان سے آزردہ رہتے تھے اور ضد میں آکر ان کی شاعری پر طرح طرح کی نکتہ چینیاں کرتے تھے۔ ویسے غالب طبعاً صلح جو تھے اور ہر شخص کی دلداری کا انتہائی خیال رکھتے تھے۔

    "تذکرہ غوثیہ” میں ایک واقعہ حضرت غوث علی شاہ پانی پتی کی زبانی مرقوم ہے کہ ایک روز مرزا، رجب علی بیگ سرور، مصنف فسانہ عجائب سے ملے۔ اثنائے گفتگو پوچھا کہ اُردو زبان کس کتاب کی عمدہ ہے۔ جواب ملا کہ "چہار درویش” کی۔

    سرور نے "فسانہ عجائب” کا نام لیا۔ غالب کو معلوم نہ تھا کہ خود مصنفِ "فسانہ عجائب” استفسار کررہا ہے۔ بے تکلف جواب دیا۔ "اجی لاحول ولا قوۃ” اس میں لطفِ زبان کہاں۔ ایک تک بندی اور بھٹیار خانہ جمع ہے۔

    جب سرور چلے گئے اور غالب کو معلوم ہوا کہ یہ "فسانہ عجائب” کے مصنف تھے تو بہت افسوس کیا اور کہا، "ظالمو پہلے سے کیوں نہ کہا۔”

    دوسرے دن غوث علی شاہ صاحب ملے، انھیں سارا قصہ سنایا اور کہا کہ حضرت! یہ امر مجھ سے بے خبری میں سرزد ہوگیا۔ آئیے آج سرور کے مکان پر چلیں اور کل کی مکافات کر آئیں۔

    چناں چہ وہاں گئے۔ مزاج پرسی کے بعد غالب نے عبارت آرائی کا ذکر چھیڑا اور بولے، جناب مولوی صاحب رات میں نے "فسانہ عجائب” کو بہ غور دیکھا تو اس کی خوبی عبارت اور رنگینی کا کیا بیان کروں، نہایت ہی فصیح و بلیغ ہے۔ غرض اس قسم کی باتوں سے سرور کو مسرور کیا۔

    دوسرے دن ان کی دعوت کی اور غوث علی شاہ صاحب کو بھی بلایا۔

    شاہ صاحب یہ واقعہ بیان فرمانے کے بعد کہتے ہیں:

    "مرزا صاحب کا مذہب یہ تھا کہ دل آزاری بڑا گناہ ہے۔” لیکن اشعار کی داد میں راہِ حق سے بال برابر بھی انحراف گوارا نہ تھا۔

    (مولانا غلام رسول مہر کی کتاب سے انتخاب)