Author: عارف حسین

  • "پانی حلق سے اتر جاتا ہے؟”

    "پانی حلق سے اتر جاتا ہے؟”

    آئیے، ایک اور مہربان سے آپ کو ملواؤں۔ ان کی تکنیک قدرے مختلف ہے۔

    میری صورت دیکھتے ہی ایسے ہراساں ہوتے ہیں کہ کلیجہ مُنہ کو آتا ہے۔ ان کا معمول ہے کہ کمرے میں بغیر کھٹکھٹائے داخل ہوتے ہیں اور میرے سلام کا جواب دیے بغیر تیمار داروں کے پاس پنجوں کے بل جاتے ہیں۔

    پھر کُھسر پُھسر ہوتی ہے۔ البتہ کبھی کبھی کوئی اچٹتا ہوا فقرہ مجھے بھی سنائی دے جاتا ہے۔ مثلاً:

    "صدقہ دیجیے۔ جمعرات کی رات بھاری ہوتی ہے”
    "پانی حلق سے اتر جاتا ہے؟”
    ” آدمی پہچان لیتے ہیں؟”

    یقین جانیے یہ سُن کر پانی سَر سے گزر جاتا ہے اور میں تو رہا ایک طرف، خود تیمار دار میری صورت نہیں پہچان سکتے۔

    سرگوشیوں کے دوران ایک دو دفعہ میں نے خود دخل دے کر بقائمیِ ہوش و حواس عرض کرنا چاہا کہ میں بفضلِ تعالٰی چاق و چوبند ہوں۔ صرف پیچیدہ دواؤں میں مبتلا ہوں، مگر وہ اس مسئلہ کو قابلِ دست اندازیِ مریض نہیں سمجھتے اور اپنی شہادت کی انگلی ہونٹوں پر رکھ کر مجھے خاموش رہنے کا اشارہ کرتے ہیں۔

    میرے اعلانِ صحت اور ان کی پُر زور تردید سے تیمار داروں کو میری دماغی صحت پر شبہ ہونے لگتا ہے۔ یوں بھی اگر بخار سو ڈگری سے اوپر ہو جائے تو میں ہذیان بکنے لگتا ہوں جسے بیگم، اقبالِ گناہ اور رشتے دار وصیّت سمجھ کر ڈانٹتے ہیں اور بچّے ڈانٹ سمجھ کر سہم جاتے ہیں۔

    میں ابھی تک فیصلہ نہیں کر سکا کہ یہ حضرت مزاج پُرسی کرنے آتے ہیں یا پُرسا دینے۔ ان کے جانے کے بعد میں واقعی محسوس کرتا ہوں کہ بس اب چل چلاؤ ہے۔ سانس لیتے ہوئے دھڑکا لگا رہتا ہے کہ روایتی ہچکی نہ آ جائے۔ ذرا گرمی لگتی ہے تو خیال ہوتا ہے کہ شاید آخری پسینا ہے اور طبعیت تھوڑی بحال ہوتی ہے تو ہڑ بڑا کر اُٹھ بیٹھتا ہوں کہ کہیں سنبھالا نہ ہو۔

    (مشتاق احمد یوسفی کی شگفتہ تحریر سے ایک پارہ)

  • میٹھی اور سریلی ہنسی کے ساتھ ایک انکشاف!

    میٹھی اور سریلی ہنسی کے ساتھ ایک انکشاف!

    1957 میں مشہور امریکی ادارے پی، ای، این نے مخصوص رقم ایشیائی ممالک کی ہر زبان کے لیے، پانچ سال کے بہترین مطبوعہ افسانے پر انعام کے لیے مختص کی اور دو ہزار روپے پاکستان اور ہزار اُردو کے حصے میں پڑے۔

    مقابلے کا اعلان ہوا۔ ججوں کے نام سنے تو بڑے ہی ثقہ تھے۔ مولوی عبدالحق، پروفیسر مرزا محمد عسکری اور مولانا صلاح الدین احمد۔ چنانچہ میں نے بھی اللہ کا نام لے کر اکھاڑے میں اپنا مطبوعہ ناولٹ ”چڑھتا سورج“ اتار دیا۔

    کچھ عرصے بعد اخبارات کے ذریعے پتا چلا کہ بالاتفاق رائے انعام کا حق دار میرا ناولٹ قرار پایا۔ دل میں سوچا کہ مولانا صلاح الدین احمد میرے قدیمی مداحوں اور قدر دانوں میں تھے ہی، یقیناً انھوں نے اپنی رائے تو میرے حق میں دی ہی ہوگی بلکہ ان دونوں بزرگوں کو بھی میرے ناولٹ کے محاسن کی نشان دہی کی ہوگی۔

    تقریباً سال بھر بعد میں لاہور گیا، اور حسبِ معمول مولانا سے ملنے پہنچا، پہلے تو منتظر رہا کہ خود ہی کچھ ذکر چھیڑیں، جب ادھر ادھر کی خاصی باتیں ہوئیں تو پھر میں نے ہی لجائے لجائے انداز اور دبے دبے لہجے میں اس بندہ نوازی کو یاد دلاتے ہوئے شکریہ ادا کیا۔

    مگر وہ مخصوص میٹھی میٹھی، سریلی سریلی ہنسی ہنستے ہوئے بولے۔

    ”میاں میرا شکریہ مفت میں ادا کررہے ہو، تراشوں کا وہ بنڈل میرے پاس آیا ضرور تھا اور پھر پیہم تقاضے بھی آتے رہے، مگر میں بہت عدیم الفرصت تھا، کھولنے کی بھی نوبت نہ آئی۔

    آخر تابکے، ایک مراسلے کے ذریعے اطلاع ملی کہ مولوی عبدالحق اور پروفیسر مرزا محمد عسکری نے بالاتفاق رائے فیصلہ آپ کے حق میں دے دیا تو پھر جب کثرتِ رائے کا اظہار ہوگیا تو میری رائے اگر ان سے متفق ہوتی تو بھی کارِ فضول تھی اور مخالف ہوتی تو بھی تحصیل لاحاصل۔

    ہاں البتہ آپ کے اس مفت کے شکریے کا شکریہ۔

    (ممتاز ادیب، مترجم اور محقق ابوالفضل صدیقی کی کتاب ”عہد ساز لوگ“ سے ایک ورق)

  • مظہرؔ جانِ جاناں کے بارے میں آپ کیا جانتے ہیں؟

    مظہرؔ جانِ جاناں کے بارے میں آپ کیا جانتے ہیں؟

    مظہرؔ جانِ جاناں اُن شعرا میں سے ایک ہیں جنھوں نے اردو زبان اور ادب کے ارتقائی دور میں غزل کہی اور اسے خاص طور پر ابہام سے دور رکھتے ہوئے معاصر شعرا کے برعکس اپنے کلام میں شستہ زبان برتی۔

    وہ اپنے دور کے اہم شعرا میں شمار کیے گئے۔ مختلف ادبی تذکروں میں مظہرؔ جانِ جاناں کی پیدائش کا سال 1699 درج ہے۔

    ان کے والد اورنگریب عالم گیر کے دربار میں اہم منصب پر فائز تھے۔ کہتے ہیں بادشاہ اورنگزیب نے ان کا نام جانِ جان رکھا تھا، لیکن مشہور جانَ جاناں کے نام سے ہوئے۔ ان کی عرفیت شمسُ الدین تھی اور شاعری شروع کی تو مظہرؔ تخلص اختیار کیا۔

    شاعری کے ساتھ علمِ حدیث، فقہ اور تاریخ میں بھی کمال رکھتے تھے۔ انھیں ایک صوفی اور روحانی بزرگ کی حیثیت سے بھی پہچانا جاتا ہے۔

    اولیائے کرام کے بڑے محب اور ارادت مند رہے اور خود بھی رشد و ہدایت کے حوالے سے مشہور ہیں۔ سیکڑوں لوگ خصوصاً روہیلے آپ کے مرید تھے۔

    1780 میں مظہرؔ جانِ جاناں اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ وہ فارسی اور اردو دونوں زبانوں کے شاعر تھے، لیکن ان کا بہت کم کلام منظرِ عام پر آسکا۔

    مظہرؔ جانِ جاناں کی ایک غزل آپ کے حسنِ ذوق کی نذر ہے۔

    چلی اب گُل کے ہاتھوں سے لٹا  کر  کارواں اپنا
    نہ چھوڑا ہائے بلبل نے چمن میں کچھ نشاں اپنا

    یہ حسرت رہ گئی کیا کیا مزے سے زندگی کرتے
    اگر   ہوتا    چمن اپنا،    گُل اپنا، باغباں اپنا

    الم سے  یاں تلک روئیں کہ آخر  ہو  گئیں رُسوا
    ڈوبایا  ہائے آنکھوں نے  مژہ کا خانداں اپنا

    رقیباں کی نہ کچھ تقصیر ثابت ہے نہ خوباں کی
    مجھے ناحق ستاتا ہے یہ عشقِ بدگماں اپنا

    مرا جی جلتا ہے اس بلبلِ بیکس کی غربت پر
    کہ جن نے آسرے پر گُل کے چھوڑا آشیاں اپنا

    جو تُو نے کی سو دشمن بھی نہیں دشمن سے کرتا ہے
    غلط تھا جانتے تھے تجھ کو جو ہم مہرباں اپنا

  • طبیب کا نسخہ اور علامہ اقبال کا بھولپن

    طبیب کا نسخہ اور علامہ اقبال کا بھولپن

    میاں مصطفیٰ باقر کے مرنے کے بعد ان کے اسکول کا رزلٹ آیا۔

    آٹھویں کلاس میں فرسٹ پاس ہوئے تھے۔ ہیضے کی وبا میں ابھی کمی نہیں آئی تھی۔

    بھتیجے ممتاز حیدر تو اللہ کے فضل سے اچھے ہوگئے، لیکن اب بھانجے عثمان حیدر کو کالرا ہوگیا۔ ماموں ممانی نے متوحش ہوکر بار بار اُن کے ناخن دیکھنا شروع کیے۔ فوراً گاڑی بھیج کر جھوائی ٹولے کے نامی طبیب حکیم عبدالوالی کو بلوایا۔

    حکیم صاحب نے کہا حالت تشویش ناک نہیں۔ ان کا نسخہ بندھوایا گیا۔ دوا ماموں ممانی وقت پر خود کھلاتے رہے۔

    اسی ہفتے علامہ اقبال مصطفیٰ باقر کی تعزیت کے لیے لاہور سے تشریف لائے۔ رات کو اس ہوا دار برآمدے میں ان کا پلنگ بچھتا جہاں عثمان حیدر سوتے تھے۔ دن میں دو چار بار عثمان حیدر کے کمرے میں جاکر علامہ ان کی مزاج پرسی کرتے۔

    ڈاکٹر اقبال کو لکھنؤ آئے دو تین روز ہوئے تھے کہ علی محمد خاں راجا محمود آباد نے اُن کی زبردست دعوت کی۔

    وہاں خوب ڈٹ کر شاعرِ مشرق نے لکھنؤ کا مرغّن نوابی ماحضر تناول فرمایا۔ رات کے گیارہ بجے ہلٹن لین واپس آئے۔ کپڑے تبدیل کیے۔ برآمدے میں جاکر اپنے پلنگ پر سو رہے۔

    رات کے ڈھائی بجے جو اُن کے نالہ ہائے نیم شبی کا وقت تھا، افلاک سے جواب آنے کے بجائے پیٹ میں اٹھا زور کا درد۔ شدت کی مروڑ۔ سوئیٹ نے گھبرا کر رونا شروع کردیا۔

    سارا گھر سورہا تھا۔ میزبانوں کو زحمت نہ دینے کے خیال سے چپکے لیٹے رہے۔ نزدیک پلنگ پر نو عمر عثمان حیدر بے خبر سورہے تھے۔ اقبال نے آہستہ سے اٹھ کر غسل خانے کا رخ کیا، وہاں سے تیسری بار لوٹ کر آئے۔

    برآمدے کی لائٹ جلائی۔ عثمان حیدر کے سرہانے میز پر حکیم عبدالوالی کی دوا کا قدّح رکھا تھا۔ آپ اس کی چوگنی خوراک پی گئے۔ پھر لیٹ رہے۔ پھر غسل خانے گئے۔ واپس آکر مزید دو خوراکیں نوشِ جان کیں۔

    کھٹر پٹر سے عثمان حیدر کی آنکھ کھل گئی۔ دیکھا کہ ڈاکٹر صاحب اپنے بستر کے کنارے بیٹھے ہیں۔ آنکھوں سے آنسو جاری اور اپنے ناخنوں کو غور سے دیکھ رہے ہیں۔

    مصطفیٰ باقر مرحوم کے ناخن نیلے پڑنے کا قصہ انھیں بتایا جا چکا تھا۔

    عثمان حیدر ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھے۔ ادب سے دریافت کیا۔ ”ڈاکٹر صاحب خیریت؟“
    بھرائی ہوئی آواز میں جواب دیا۔

    ”مجھے بھی کالرا ہوگیا۔ جاکر سجّاد کو جگا دو۔“

    اس وقت پو پھٹ رہی تھی۔ باغ میں چڑیوں نے گنجارنا شروع کردیا تھا۔ بڑی خوش گوار ہوا چل رہی تھی اور بارش کی آمد آمد تھی۔ عثمان حیدر نے تیر کی طرح جاکر دوسرے برآمدے میں ماموں جان کو جگایا۔ اس وقت ڈاکٹر اقبال نیم جاں سے اپنے پلنگ پر لیٹ چکے تھے۔

    ماموں نے فوراً آکر منفردِ روزگار مہمان کی یہ حالت دیکھی۔ حواس باختہ سرپٹ پھاٹک کی طرف بھاگے۔

    لکھنؤ کا انگریز کرنل سول سرجن نزدیک ہی ایبٹ روڈ پر رہتا تھا۔ اس کو جاکر جگایا۔ کرنل بھاگم بھاگ ہلٹن لین پہنچا۔ انجکشن لگایا۔ مریض کی تسلی تشفی کی۔

    آدھ گھنٹے بعد علاّمہ پر غنودگی طاری ہوئی۔ کرنل نے نسخہ لکھا۔ مشتاق بیرہ حضرت گنج سے دوا بنوا کر لایا۔ دو گھنٹے بعد علامہ کو پھر اسہال شروع ہوگیا۔ اس وقت تک ڈرائیور آچکا تھا۔ وہ حکیم عبدالوالی کو لینے جھوائی ٹولہ گیا۔

    حکیم صاحب بوکھلائے ہوئے ہلٹن لین پہنچے۔ کرنل کی شیشی دیکھی۔ پھر نسخہ لکھنے بیٹھے۔

    علامہ نے تکیہ سے سَر اٹھا کر نسخہ ملاحظہ فرمایا۔ بولے، ”حکیم صاحب یہ دوائی تو میں پہلے ہی آدھی بوتل پی چکا ہوں۔“

    حکیم صاحب ہکّا بکّا اقبال کو دیکھنے لگے۔ عثمان حیدر والی بوتل اٹھائی۔ اس میں پوری چھے خوراکیں کم تھیں۔

    شاعر مشرق نے بھولپن سے فرمایا، ”حکیم صاحب بات یہ ہوئی کہ میں نے سوچا یہ لڑکا کم عمر ہے۔ اس کی خوراک سے چار گنا زیادہ مجھے کھانی چاہیے، جبھی فائدہ ہوگا۔“

    حکیم عبدالوالی نے زور دار قہقہہ لگایا۔ ”ڈاکٹر صاحب آپ واقعی فلسفی ہیں۔ خدا نے بڑی خیریت کی۔ اگر دو ایک خوراکیں اور پی ہوتیں، لینے کے دینے پڑجاتے۔“

    شام تک علّامہ کی حالت سنبھل گئی، لیکن ان کی علالت کی خبر شہر میں آگ کی طرح پھیل چکی تھی۔ ہلٹن لین میں لوگوں کا تانتا بندھ گیا۔ راجہ صاحب محمود آباد، مشیر حسین قدوائی، جسٹس سمیع اللہ بیگ، سید وزیر حسن صبح شام آکر مزاج پرسی کرتے۔ حکیم عبدالوالی اور کرنل روزانہ آیا کرتے۔

    پانچویں دن راجہ محمود آباد نے فرسٹ کلاس کا درجہ ریزور کروا کے دو ملازموں کے ساتھ علامہ اقبال کو لاہور روانہ کیا۔

    (قرۃ العین حیدر کی کتاب ”کارِ جہاں دراز ہے“ سے انتخاب)

  • فاصلے، دوریاں اور تنہائی….(خوب صورت اشعار)

    فاصلے، دوریاں اور تنہائی….(خوب صورت اشعار)

    کہتے ہیں تنہائی خوف کو جنم دیتی ہے اور خوف پر قابو پانے میں مدد بھی۔ اسی طرح کبھی ایسا موقع بھی آتا ہے جب اپنوں سے دوری اختیار کرنا اور مصلحت کے تحت میل جول نہ رکھنا ہی بہتر ہوتا ہے۔

    کرونا نے ہمیں ایک دوسرے سے دُور، اور ہم سے بعض افراد کو تنہا رہنے پر مجبور کر دیا ہے، لیکن یاد رہے کہ یہ دوری، فاصلے اور تنہائی ہماری زندگی اور صحت کو محفوظ بنا سکتی ہے۔ یہ سماجی فاصلہ وقتی ہے اور اسی میں ہماری بہتری ہے۔

    آئیے، فاصلے، دوری اور تنہائی پر جذبات اور احساسات سے گندھے اشعار پڑھتے ہیں۔

    قربتیں لاکھ خوب صورت ہوں
    دوریوں میں بھی دل کشی ہے ابھی
    ***
    فاصلے ایسے بھی ہوں گے یہ کبھی سوچا نہ تھا
    سامنے بیٹھا تھا میرے اور وہ میرا نہ تھا
    ***
    محبت کی تو کوئی حد، کوئی سرحد نہیں ہوتی
    ہمارے درمیاں یہ فاصلے، کیسے نکل آئے
    ***
    ہر وقت کا ہنسنا تجھے برباد نہ کر دے
    تنہائی كے لمحوں میں کبھی رو بھی لیا کر
    ***
    مجھے تنہائی کی عادت ہے میری بات چھوڑیں
    یہ لیجے آپ کا گھر آ گیا ہے ہات چھوڑیں
    ***
    خواب کی طرح بکھر جانے کو جی چاہتا ہے
    ایسی تنہائی کہ مر جانے کو جی چاہتا ہے
    ***
    بھلا ہم ملے بھی تو کیا ملے وہی دوریاں وہی فاصلے
    نہ کبھی ہمارے قدم بڑھے نہ کبھی تمہاری جھجک گئی
    ***
    جس کی ایما پہ کیا ترکِ تعلق سب سے
    اب وہی شخص مجھے طعنۂ تنہائی دے
    ***
    ہم تم میں کل دوری بھی ہو سکتی ہے
    وجہ کوئی مجبوری بھی ہو سکتی ہے
    ***
    ہم نے تمام رات جلائی ہیں خواہشیں
    دل ڈر گیا تھا برف سی تنہائی دیکھ کر
    ***
    ہمارا ربط کہاں بستیوں کی رونق سے
    ہمارا تم پہ بھی کب اختیار تنہائی
    ***
    تیرا پہلو تیرے دِل کے طرح آباد رہے
    تجھ پہ گزرے نہ قیامت شب تنہائی کی
    ***
    کچھ تو تنہائی کی راتوں میں سہارا ہوتا
    تم نہ ہوتے نہ سہی ذکر تمہارا ہوتا

  • دارا سنگھ: پہلوانی سے اداکاری تک

    دارا سنگھ: پہلوانی سے اداکاری تک

    لمبے چوڑے دارا سنگھ کو بچپن ہی سے کسرت اور پہلوانی کا شوق تھا۔

    کُشتی لڑنے کے لیے کم عمری میں تربیت حاصل کرنا شروع کر دی۔ استاد سے داؤ پیچ سیکھ کر ایک روز جب مقامی اکھاڑے میں اترے تو جیسے ان کی خوشی کا کوئی ٹھکانا نہ رہا۔

    ابتدائی اور آزمائشی مقابلوں میں پہلوانوں سے زور آزمائی میں کبھی چت ہوئے تو کسی پر بھاری پڑگئے۔

    پھر وہ دن آیا جب اکھاڑے میں واقعی ایک حریف کا سامنا کیا اور اسے یوں چِت کیا کہ تماشائی دنگ رہ گئے۔

    بعد کے برسوں میں انھیں مقامی اکھاڑے سے لے کر عالمی سطح پر منعقدہ کُشتی کے مقابلوں میں ٹائٹل اپنے نام کرنے کا موقع ملا۔

    دارا سنگھ نے عالمی سطح پر مقام بنانے کے ساتھ ساتھ رستمِِ پنجاب اور پھر رستمِِ ہند کا خطاب بھی حاصل کیا۔

    انھوں نے دولتِ مشترکہ کے منعقدہ کشتی کا مقابلہ جیتا اور ”عالمی چمپئن“ کہلائے۔

    1968 میں دارا سنگھ ورلڈ ریسلنگ چیمپئن شپ کے فاتح بھی بنے۔

    ان کی پہلوانی اور اکھاڑے میں فتوحات ہی ان کی وجہ شہرت نہیں بلکہ ایک حوالہ اداکاری بھی ہے۔ انھوں نے سیاست میں بھی حصہ لیا، مگر اداکاری کے میدان میں خود کو منوانے میں زیادہ کام یاب رہے۔

    اس پہلوان اداکار کی زندگی کے اوراق الٹیں تو معلوم ہوا گا کہ مکمل نام دارا سنگھ رندھاوا تھا۔

    ان کی پیدائش 1928 میں بھارتی پنجاب کے شہر امرتسر میں ہوئی۔ وہ نہایت سادہ مزاج اور شگفتہ طبیعت کے مالک تھے۔ دارا سنگھ نے پہلوانی کے زمانے ہی میں فلم نگری میں قدم رکھ دیے۔

    ”سکندر اعظم“ اور ”ڈاکو منگل سنگھ“ جیسی فلموں سے شروع ہونے والا یہ سفر ”جب وی میٹ“ تک جاری رہا جو 2007 میں سامنے آئی۔ یہ ان کی زندگی کی آخری فلم تھی۔

    اس فلم میں دارا سنگھ نے کرینہ کپور کے دادا کا کردار نبھایا تھا۔ اسی طرح ایک اور مشہور فلم ”کل ہو نہ ہو“ میں بھی وہ اسی روپ میں نظر آئے۔

    دارا سنگھ نے ٹی وی ڈراموں میں بھی اداکاری کی اور ہندی کے علاوہ پنجابی فلموں میں بھی کام کیا۔ ان کی ایک پنجابی فلم ’جگا‘ تھی جس پر انھیں بیسٹ ایکٹر کا ایوارڈ دیا گیا۔

    اس پہلوان نے اداکاری کے بعد فلم نگری میں خود کو بحیثیت پرڈیوسر اور رائٹر بھی آزمایا۔

    12 جولائی کو اَجل نے دارا سنگھ کو "پچھاڑ” دیا۔ یہ 2012 کی بات ہے جب وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے زندگی کے اکھاڑے سے "باہر” ہو گئے۔

    (تلخیص و ترجمہ: عارف عزیز)

  • کرونا سے متاثرہ اِن ممالک کا نام شاید آپ نے پہلی بار سنا ہو

    کرونا سے متاثرہ اِن ممالک کا نام شاید آپ نے پہلی بار سنا ہو

    دنیا کرونا وائرس کی لپیٹ ہے اور ملکی و بین الاقوامی ذرایع ابلاغ کی بدولت جہاں ہم پاکستان، برطانیہ، اٹلی، چین، سعودی عرب اور دیگر ممالک کی تازہ ترین صورتِ حال سے آگاہ و باخبر ہیں، وہیں اس وبا سے متاثرہ بعض ایسے ممالک بھی ہیں جن کے نام آپ نے کبھی نہیں سنے ہوں گے۔

    یہ ریاستی اور انتظامی امور میں‌ آزاد، مکمل خود مختار یا نیم خود مختار ریاستیں اور جزائر ہیں۔

    سان ماریو، یوروگوئے، انڈورا، فارو جزائر، مالڈووا، ری یونین آئی لینڈ، گواڈیلوپ، مارٹینیک، لیختینستائن وہ ممالک ہیں‌ جہاں لوگ کرونا سے متاثرہوئے ہیں۔

    اسی طرح ٹرینیڈاڈ اینڈ ٹوبیگو، گوام، مایوٹ، گرنزی، ٹوگو، سورینیم، جزائر کیمن، ایسواٹینی، کیپ ورد، سینٹ بارتھلیمی، سینٹ ونسینٹ اینڈ دی گریناڈائنز بھی ایسے ممالک یا علاقے ہیں جن کے بارے میں ہم شاید ہی کچھ جانتے ہوں اور یہ بھی کرونا سے متاثر ہیں۔

  • وہ معافی جس نے انڈونیشیا کی ضد  اور ہالینڈ  کا غرور توڑ  دیا

    وہ معافی جس نے انڈونیشیا کی ضد اور ہالینڈ کا غرور توڑ دیا

    ایشیا اور آسٹریلیا کے درمیان ہزاروں جزائر پر پھیلی ہوئی امارت کو دنیا انڈونیشیا کے نام سے جانتی ہے۔

    انڈونیشیا کی آبادی 22 کروڑ سے تجاوز کرچکی ہے۔ محتاط اندازوں اور مردم شماری کو نظرانداز کرکے یہ تعداد پچیس کروڑ بھی بتائی جاتی ہے۔

    انڈونیشیا کے مختلف جزائر پر دنیا کے دیگر اسلامی ممالک کے مقابلے میں سب سے زیادہ مسلمان بستے ہیں۔ یوں یہ اسلامی دنیا کا سب سے بڑا ملک مانا جاتا ہے۔

    جنوب مشرقی ایشیا کا یہ ملک اس خطّے میں ایک بڑی معیشت کا درجہ رکھتا ہے۔

    جزائر کی تعداد کے لحاظ سے بھی انڈونیشیا سب سے آگے ہے۔ اس ملک کے آباد جزائر کی تعداد 14 ہزار سے زیادہ ہے جب کہ تمام جزیروں کو شمار کیا جائے تو یہ تعداد 27 ہزار تک پہنچتی ہے۔

    ماہرینِ لسانیات کے مطابق انڈونیشیا میں 300 زبانیں لوگوں میں رابطے کا ذریعہ ہیں جب کہ بعض ماہرین کے نزدیک ان جزائر میں 700 بولیاں سمجھی اور بولی جاتی ہے۔

    تاریخ کے صفحات پلٹیں تو معلوم ہو گا کہ آزادی سے پہلے یہاں ہالینڈ کا راج تھا اور یہ خطہ نوآبادیات میں شامل تھا۔
    ان جزائر پر 350 سال تک ولندیزیوں نے اپنا تسلط برقرار رکھا اور یہاں‌ کے لوگ اس کے محکوم تھے۔

    1945 میں ہالینڈ سے آزادی کا اعلان تو کردیا گیا، لیکن ہالینڈ (نیدر لینڈز) نے انڈونیشیا کی خودمختاری اور جزائر کی آزاد حیثیت کو 1949 تک تسلیم نہیں کیا تھا۔

    گزشتہ دنوں ہالینڈ کے بادشاہ ولیم الیگزینڈر اور ملکہ میکسیما نے انڈونیشیا کا پہلا دورہ کیا جس کے دوران ڈچ بادشاہ نے معافی مانگی ہے۔

    انڈونیشیا کے صدارتی محل میں تقریب کے بعد ملک کے صدر جوکو ودودو اور ان کی بیگم اریانا کی موجودگی میں ہالینڈ کے بادشاہ نے تسلیم کیا کہ نوآبادیات کے زمانے میں مقامی لوگوں پر ظلم و ستم ہوا اور ہلاکتیں بھی ہوئیں جس پر ہالینڈ کو افسوس ہے۔

    یہ حقیقت ہے کہ جب بادشاہوں نے طاقت اور اختیار کے نشّے میں اور اپنے مفادات کی غرض سے دیگر اقوام کو اپنا مطیع اور فرماں بردار رکھنا چاہا تو اس کے لیے انہی کے حکم پر ہر قسم کا جبر روا رکھنے کے ساتھ ساتھ قیمتی انسانی جانوں کو بے رحمی اور سفاکی سے قتل کیا گیا۔

    انڈونیشیا، ہمیشہ سے ولندیزی تاج دار کو 40 ہزار معصوم انسانوں کی ہلاکت کا ذمہ دار بتاتا رہا ہے جب کہ ہالینڈ کا مؤقف ہے کہ اس زمانے میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد پندرہ سو سے زیادہ نہ تھی۔

    ہالینڈ کے مؤرخین کے مطابق یہ بھی وہ لوگ تھے جو تاجِ ولندیز کے باغی ہوئے اور ہالینڈ کی امارت اور اطاعت کا انکار کرتے ہوئے مسلح کارروائیاں کررہے تھے۔

    انڈونیشیا کی آزادی کے بعد پہلی بار ہالینڈ کے بادشاہ نے اپنے دورے میں سابق محکوم اور مطیع قوم سے ماضی کے ظلم و ستم اور ہلاکتوں پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے معافی مانگی ہے۔

  • کچھ چیزیں‌ جو ٹوٹ گئیں، تصاویر دیکھیے!

    کچھ چیزیں‌ جو ٹوٹ گئیں، تصاویر دیکھیے!

    جون ایلیا نے کہا تھا:

    کون اس گھر کی دیکھ بھال کرے
    روز اک چیز ٹوٹ جاتی ہے

    ہمارے استعمال اور کھانے پینے کی مختلف اشیا اکثر ہماری غلطی، بے احتیاطی یا حادثے کے سبب برباد اور ضایع ہو جاتی ہیں۔

    اشیا کی ٹوٹ پھوٹ کوئی انوکھی اور تعجب خیز بات نہیں۔ خود انسان کی زندگی میں‌ شکست و ریخت کا عمل ہمیشہ سے جاری ہے اور یہ سب اسے اپنا حوصلہ، عزم و ہمت اور ارادے کی مضبوطی کو آزمانے کا موقع دیتا ہے۔

    آپ نے بھی کبھی نہ کبھی بے احتیاطی، غلطی کی ہو گی یا کوئی ایسا حادثہ ضرور ہوا ہو گا جس کے نتیجے میں‌ کوئی بیش قیمت یا معمولی اور کارآمد شے ٹوٹ گئی ہو۔

    مختلف ٹوٹی ہوئی اشیا کی یہ تصویریں دیکھیے۔ یاد کیجیے کہ وہ کیا چیز تھی جو آپ سے ٹوٹی تھی۔

     

     

     

     

     

     

     

     

     

     

  • تصویروں‌ میں‌ دیکھیے موسمِ بہار کے رنگ!

    تصویروں‌ میں‌ دیکھیے موسمِ بہار کے رنگ!

    موسمِ بہار کی آمد کا شور ہے۔ گویا ہر کلی تبسم کو بے قرار، ہر غنچہ کھلنے کو تیار اور ہر شجر ہرا بھرا ہونے کو آمادہ ہے۔

    بہار اپنے جوبن پر آئے تو ہر طرف ایک ترنگ، سرمستی، چہکار اور خوشی کا عالم ہوتا ہے۔ فضا گیت گاتی، ہوا مست و بے خود ہوجاتی ہے۔

    پاکستان میں‌ گزشتہ برسوں‌ کے دوران موسمِ بہار کے یہ مختلف رنگ ان تصاویر میں‌ محفوظ ہیں۔

    بہار کے موسم میں‌ رنگ برنگے پھول باغات میں‌ خوش بُو لٹاتے نظر آتے ہیں۔ شجر گویا ہرا رنگ اوڑھ لیتے ہیں۔ پاکستان میں موسمِ بہار کی مناسبت سے پھولوں کی نمائش اور میلوں کا انعقاد کیا جاتا ہے جو خوشی و مسرت کا احساس دلاتے اور انسان کو فطرت کی طرف بلاتے ہیں۔

    بدقسمتی یہ ہے کہ انسان ہی روئے زمین کو سبزہ و گل سے محروم کررہا ہے۔

    حضرتِ انسان نے فطرت کی ان خوش رنگ نزاکتوں، مہکتی لطافتوں، فضا میں چہکتی عنایتوں اور شادابی کی اہمیت و افادیت سمجھتے ہوئے بھی انھیں بچانے کے لیے زبانی جمع خرچ سے نہیں‌ بڑھا ہے اور زمین کو خطرے سے دوچار کر دیا ہے۔

    گلوبل وارمنگ، موسمی تبدیلیوں سے نڈھال روئے زمین پر درختوں کا قتل، باغات کا صفایا کیا جارہا ہے جس کے باعث زمین قدرتی آفات اور انسان امراض و سانحات کا سامنا کررہے ہیں۔

    رواں سال حکومت نے موسمِ بہار کی شجر کاری مہم کے دوران ملک بھر میں دس ارب درخت لگانے کا اعلان کیا ہے۔ یہ مہم 30 جون تک جاری رہے گی جس کا تھیم ہے، کٹے ہوئے جنگلات کی بحالی۔