Author: عارف حسین

  • پروین شاکرکی مختصرسوانح حیات – آڈیو

    پروین شاکرکی مختصرسوانح حیات – آڈیو

    عکسِ خوشبو ہوں، بکھرنے سے نہ روکے کوئی
    اور بکھر جاؤں تو مجھ کو نہ سمیٹے کوئی

    اردو کی مقبول شاعرہ پروین شاکر کا یہ شعر ان کے پہلے مجموعۂ کلام "خوشبو” میں شامل ہے۔ پروین شاکر جوانی میں ٹریفک حادثے میں چل بسی تھیں۔ ازدواجی زندگی کی تلخیوں کے بعد شوہر سے علیحدگی اور بطور شاعرہ پروین شاکر کی مقبولیت کے سفر پر عارف حسین کا پوڈ کاسٹ….

    ARIF AZIZ · Parveen Shakir

    پاکستان اور دنیا بھر سے آڈیو خبریں ARY Podcast

  • اسد محمد خاں کی سال گرہ اور رائٹرز اینڈ ریڈرز کیفے کا جلسہ

    اسد محمد خاں کی سال گرہ اور رائٹرز اینڈ ریڈرز کیفے کا جلسہ

    اردو کے باکمال افسانہ نگاروں کی فہرست میں اسد محمد خاں کا نام نمایاں ہے۔ وہ زندہ کہانیاں بُننے کا فن جانتے ہیں۔ اپنے اسلوب سے اردو افسانے آبیاری کرنے والے اسد محمد خاں کا مزاح ہمیں چونکا دیتا ہے۔ وہ اپنے کرداروں کے لہجے پر کمال گرفت رکھتے ہیں۔ ان کا ہر افسانہ ایک نئے پن کا احساس دلاتا ہے۔

    اردو کے یہ صاحبِ طرز فکشن نگار زندگی کی ۹۲ بہاریں دیکھ چکے ہیں۔ ان کے جنم دن کی مناسبت سے رائٹرز اینڈر ریڈرز کیفے کے زیر اہتمام ایک خصوصی تقریب منعقد کی گئی، جس میں قلم کاروں نے انھیں خراجِ تحسین پیش کیا۔ آئیے، اسد محمد خاں کے حالات زیست پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

    مختصر تعارف
    اسد محمد خاں نے 26 ستمبر 1932ء کو ریاست بھوپال میں آنکھ کھولی۔ مطالعے کا شوق بچپن ہی سے تھا۔ انگریزی جاسوسی ادب پڑھا اور سنجیدہ ادب کی جانب متوجہ ہوئے۔ زمانۂ طالبِ‌ علمی میں انقلابی ہوگئے، اور ایک موقع پر سرکار مخالف پوسٹر لگانے کی پاداش میں گرفتار بھی ہوئے۔ 1950ء میں پاکستان آگئے اور کراچی میں بسے۔ یہاں تعلیم مکمل کی اور ملازمت کا آغاز کیا۔

    فن و ادب کے حوالے سے بات کی جائے تو اسد محمد خاں نے افسانہ نگاری، تراجم اور شاعری کے علاوہ ریڈیو اور بعد ازاں ٹیلی وژن کے لیے گیت، ڈرامے اور فیچر بھی لکھے۔ ان کا پہلا افسانہ (باسودے کی مریم) شایع ہوا تو ہر طرف ان کی دھوم مچ گئی۔ یہ افسانہ ”فنون“ میں شایع ہوا تھا۔ اسی پرچے میں ”مئی دادا“ نے جگہ پائی۔ پھر تو ایک سلسلہ چل نکلا۔ افسانے ان کے قلم سے نکلتے چلے گئے اور یادگار ٹھیرے۔

    82ء میں اسد محمد خاں کی پہلی کتاب ”کھڑکی بھر آسمان“ (افسانے، نظمیں) شایع ہوئی۔ افسانوی مجموعہ ”برج خموشاں“ 90ء میں منظر عام پر آیا۔ 97ء میں ”غصے کی نئی فصل“ (افسانے) اور ”رُکے ہوئے ساون“ (گیت) شایع ہوئے۔ کتاب ”نربدا اور دوسری کہانیاں“ 2003ء میں شایع ہوئی۔ 2006ء تک تحریر کردہ افسانوں کو ”جو کہانیاں لکھیں“ کے نام سے کتاب میں اکٹھا کیا گیا۔ 2006ء ہی میں ”تیسرے پہر کی کہانیاں“ اور 2010ء میں ”ایک ٹکڑا دھوپ کا“ کی اشاعت ہوئی۔

    مصنّف کو قومی ادبی ایوارڈ (اکادمی ادبیات پاکستان)، احمد ندیم قاسمی ایوارڈ، مجلس فروغِ اردو ادب انعام، دوہا قطر،2007- شیخ ایاز ایوارڈ برائے ادب اور پاکستان میں حکومت نے تمغائے امتیاز سے نوازا۔

    رائٹرز اینڈ ریڈرز کیفے کا جلسہ
    رائٹرز اینڈ ریڈرز پاکستان کی فعال ترین ادبی تنظیموں میں سے ایک ہے، جس کی روح رواں ممتاز شاعرہ، مترجم، نقاد اور مدرس، ڈاکٹر تنویر انجم ہیں۔ اس تنظیم کے زیر اہتمام متنوع موضوعات پر کئی اہم نشستیں منعقد ہوچکی ہیں، جن میں کئی ادبی موضوعات پر سیر حاصل گفتگو ہوئی۔ ان سیشنز میں جہاں بڑی تعداد میں علم و ادب کا شوق رکھنے والے اور اہلِ قلم شرکت کرتے ہیں، وہیں فیس بک اور یوٹیوب اسٹریمنگ کی بدولت جلسے کی کارروائی آن لائن بھی دیکھی جاتی ہے۔

    خاں صاحب کی سال گرہ اور نوّے واں اجلاس
    رائٹرز اینڈ ریڈرز کیفے کے ۹۰ ویں اجلاس میں اسد محمد خاں کی ۹۲ ویں سال گرہ منائی گئی۔ اس مجلس کی صدارت ڈاکٹر فاطمہ حسن نے کی۔ اسپیکرز میں جناب اخلاق احمد، جناب انعام ندیم، جناب رفاقت حیات، ڈاکٹر رخسانہ صبا (جن کا مضمون انجلا ہمیش نے پڑھا) اور جوہر مہدی شامل تھے۔ پروگرام کی میزبانی معروف شاعرہ اور صحافی، ناصرہ زبیری نے انجام دیں۔ مقررین نے جہاں اسد محمد خاں کے فکشن کے فنی محاسن پر روشنی ڈالی، وہیں ان کے باکمال گیت اور شاعری پر بھی بات کی۔

    اس موقع پر خاں صاحب نے اپنے فن افسانہ نگاری سے متعلق یادیں شرکاء سے بانٹیں اور اپنے اوّلین افسانہ کی لکھت اور قاسمی صاحب کی موجودگی میں اسے پڑھنے کا تذکرہ کیا۔اس تقریب میں صدر آرٹس کونسل، احمد شاہ نے بھی اسد محمد خاں کو شان دار الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا۔

    تقریب کی صدر، ڈاکٹر فاطمہ حسن اپنے صدارتی خطبے میں تمام اسپیکرز کے مضامین کا احاطہ کرتے ہوئے اسد محمد خاں کے فن و اسلوب کے مختلف پہلوؤں پر بات کی۔ تقریب کے آخر میں تالیوں کی گونج میں اسد محمد خاں نے اپنے جنم دن کا کیک کاٹا۔

  • جوزف کونریڈ کے سو سال اور "رائٹرز اینڈ ریڈرز کیفے”

    جوزف کونریڈ کے سو سال اور "رائٹرز اینڈ ریڈرز کیفے”

    بڑے ادیب کی تخلیق کئی عشروں کا احاطہ کرتی ہے، وہ صدیوں پر پھیل جاتی ہے اور ادیب کے گزر جانے کے بعد بھی برسوں پڑھی جاتی ہے۔ اس پر تنقیدی مباحث جاری رہتے ہیں اور ادبی دنیا میں اس کا حوالہ دیا جاتا ہے۔

    جوزف کونریڈ (Joseph Conrad) بھی ایسا ہی ایک ادیب تھا، جس کا عالمی ادب میں خوب چرچا ہوا، اس کا اندازہ ان تقاریب سے لگایا جاسکتا ہے جو اس ادیب کی وفات کے سو برس مکمل ہونے پر اس کی یاد میں منعقد کی جارہی ہیں۔

    گزشتہ دنوں آرٹس کونسل کراچی میں بھی ایسی ہی ایک تقریب "رائٹرز اینڈ ریڈرز کیفے” کے زیرِ اہتمام منعقد ہوئی، جس میں اس باکمال ادیب کے فن و اسلوب کا ذکر چھڑا، تو کئی نئے سوالات اور ان کے جواب سامنے آئے جن سے بہت کچھ سیکھنے اور جاننے کا موقع ملتا ہے۔ اس تقریب کا احوال جاننے سے پہلے جوزف کونریڈ کی زندگی پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

    جوزف کونریڈ کون تھا؟

    جوزف کونریڈ ایک پولش نژاد برطانوی ادیب تھا، جسے اپنے موضوعات، منفرد انداز بیان کے ساتھ انسانی فطرت اور اس کی نفسیات کو بیان کرنے کے لیے آج بھی یاد کیا جاتا ہے۔ جوزف کونریڈ نے 1857ء میں آنکھ کھولی، اور اس کی زندگی کا یہ سفر 1924 میں تمام ہوا۔ کونریڈ نے اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ بحری سفر میں گزارا، اور اس کے تجربات کونریڈ کی تحریروں میں بھی جھلکتے ہیں۔ اس کے مشہور ناولوں میں ہارٹ آف ڈارکنس، لارڈ جم، اور نوسٹرو مو شامل ہیں۔

    یہ ناولز وجودیت، نوآبادیاتی نظام اور اخلاقی گراوٹ جیسے موضوعات کو کمال مہارت سے منظر کرتے ہیں۔ ہارٹ آف ڈارکنس(Heart of Darkness) کونریڈ کا سب سے مقبول ناول ہے، جسے یورپی سامراجیت پر ایک گہری تنقید تصور کیا جاتا ہے، جو انسانی فطرت کے تاریک پہلو اور افریقا میں نوآبادیاتی دور کے مظالم کو بیان کرتا ہے۔ گو بعد میں چنوا اچیبے سمیت مختلف ناقدین نے جوزف کونریڈ پر تعصب برتنے اور نوآبادیاتی نظام کی شبیہہ سازی کا الزام بھی لگایا۔ جوزف کونریڈ کے اس مشہورِ زمانہ ناول، ہارٹ آف ڈراکنس کا ترجمہ اردو کے ممتاز ادیب اور مترجم، سلیم الرحمان صاحب نے قلبِ ظلمات کے نام سے کیا۔

    تذکرہ رائٹرز اینڈ ریڈرز کیفے کا:

    رائٹرز اینڈ ریڈرز کیفے ایک ادبی تنظیم ہے، جس میں شامل ارکان کی اکثریت قلم قیبلے سے ہے۔ اس کی ہفتہ وار نشستیں آرٹس کونسل کی جوش ملیح آبادی لائبریری میں منعقد ہوتی ہیں، جہاں کراچی کے ادبا کی بڑی تعداد باقاعدگی سے شرکت کرتی ہے، ساتھ ہی اس کی فیس بک پر لائیو اسٹریمنگ کے ذریعے دیگر شہروں میں بسنے والے بھی اس سے استفادہ کرتے ہیں۔ اس کی روحِ رواں معروف شاعر، مترجم، نقاد اور انگریزی ادب کی استاد ڈاکٹر تنویر انجم ہیں۔ گزشتہ دو برس میں اس کے نوے اجلاس ہوچکے ہیں، جن میں ادب، سماج، سیاست، اور فلم سمیت فنون لطیفہ کی تمام اصناف زیر بحث آئیں۔

    جوزف کونریڈ اور کیفے کے ۸۹ اجلاس کی جھلکیاں:

    ماہ ستمبر کی بارہ تاریخ کو رائٹرز اینڈ ریڈرز کیفے نے "جوزف کونریڈ کے سو سال” کے عنوان سے آرٹس کونسل میں ایک تقریب سجائی، جس کی صدارت دنیائے صحافت و ادب کی ممتاز شخصیت، غازی صلاح الدین نے کی۔

    اس تقریب میں ڈاکٹر تنویر انجم، سید کاشف رضا، ماخام خٹک، بشام خالد اور وشال خالد نے جوزف کونریڈ کے فن کے مختلف پہلوئوں کا احاطہ کیا۔ سید طلحہ علی نے اس کی نظامت کی۔

    اپنے صدارتی خطے میں غازی صلاح الدین نے کہا کہ جوزف کونریڈ کا مطالعہ پاکستانی نوجوانوں کے لیے اہمیت کا حامل ہے، وہ ایک اہم ادیب تھا، جس نے نیا طرز اسلوب اختیار کیا اور نوآبادیاتی نظام کے سقم عیاں کیے۔

    مقررین میں حشام خالد نے جوزف کونریڈ کے ناول "لارڈ جم”، جب کہ ماخام خٹک اور وشال خالد نے ہارٹ آف دی ڈارک نیس کے مختلف پہلوئوں کا احاطہ کیا۔ سید کاشف رضا نے جوزف کونریڈ کے ناولز یوتھ اور Typhoon کے فنی محاسن پرروشنی ڈالی۔

    اس موقع پر شرکا نے بھی مقررین سے سوالات کیے۔ یہ مکالمہ ڈھائی گھنٹے جاری رہا، جس میں اس ممتاز قلم کار پر سیر حاصل بحث ہوئی۔

    حرفِ آخر:

    قارئین، آج کے دور میں جوزف کونریڈ کو پڑھنا اس لیے بھی اہم ہے کہ اُن کے موضوعات طاقت، شناخت، اور عالمی استحصال جیسے موجودہ مسائل سے گہرا تعلق رکھتے ہیں۔ ان کی نثر قارئین کو عصری مسائل پر تنقیدی نگاہ ڈالنے کی دعوت دیتی ہے، ساتھ ہی ہمیں یہ خبر بھی دیتی ہے کہ نوآبادیاتی دور کے انگریز ادیب بھی ایک حد تک اپنے سانچے سے باہر جاسکتے تھے، چاہے وہ کتنے ہی باغی کیوں نہ ہوں۔

  • تین مچھلیاں (حکایت)

    تین مچھلیاں (حکایت)

    کسی دریا کے کنارے چھوٹا سا جوہڑ تھا جس میں تین مچھلیاں رہتی تھیں۔ ان میں ایک بہت عقلمند اور ہوشیار تھی، دوسری نسبتاً‌ کم ہوشیار اور تیسری بہت ہی کاہل تھی، لیکن آپس میں بہت پیار اور اتفاق سے رہتی تھیں۔ اس پیار محبت اور اتحاد میں بڑا کردار عقلمند مچھلی کا تھا۔ وہ دوسری دونوں مچھلیوں کو اچھے اچھے مشورے دیتی اور ان کا خیال رکھتی تھی۔

    جس جوہڑ میں وہ تینوں مچھلیاں رہتی تھیں وہاں انسانوں کی آمدورفت بہت کم تھی، مگر اس کا پانی دریا سے ایک چھوٹی سی کھاڑی کے راستے ملا ہوا تھا۔ کبھی دریا کا پانی اس جگہ پر آ جاتا اور کبھی تینوں مچھلیاں کھاڑی کے راستے کھلے دریا میں چلی جاتیں اور پھر کچھ دیر گھوم پھر کر خوش و خرم واپس آ جاتیں۔

    ایک دن دو مچھیرے ادھر آ نکلے۔ وہ سارا دن دریا میں جال ڈالے بیٹھے رہے، مگر آج ان کو زیادہ کامیابی نہ ہوئی، کیوں کہ کھلے دریا میں مچھلیوں کو مچھیروں کے جال سے بچنے کے زیادہ مواقع میسّر تھے۔ تھک ہار کر دونوں مچھیرے کچھ دیر کے لیے اپنے جال دریا کے کنارے پر چھوڑ کر سستانے کے لیے بیٹھ گئے۔ اتفاقاً وہ ان تینوں مچھلیوں کے جوہڑ کی طرف ہی آ نکلے تھے۔ تینوں مچھلیاں اپنی عادت کے مطابق اٹھکھیلیاں کر رہی تھیں۔

    "ارے! وہ دیکھو مچھلیاں!” ایک مچھیرے کی نظر جوہڑ کے پانی پر پڑ گئی تھی۔

    "واقعی! یہ تو بڑی موٹی تازی ہیں۔ دوسرے نے کہا۔ آؤ جلدی سے جال لے آئیں۔” دونوں مچھیرے جلدی سے اپنے جال لینے چلے گئے۔

    ان دونوں مچھیروں کی گفتگو عقلمند مچھلی نے سن لی تھی۔ وہ بہت پریشان ہوئی۔ اسے خطرے کا احساس ہو گیا تھا۔ اس نے فوری طور پر اپنی دونوں سہیلیوں کو خطرے سے آگاہ کیا۔ اب تو وہ دونوں بھی بہت پریشان ہوئیں۔ ان دونوں مچھلیوں نے عقلمند مچھلی کی منت و سماجت کی کہ جان بچانے کا کوئی طریقہ بتائے۔

    "چلو یہاں سے دریا کی طرف بھاگ چلیں۔” عقلمند مچھلی نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔

    "مگر وہاں بھی مچھیرے ہوں گے۔” کاہل مچھلی نے کہا۔

    "ہاں، یہ تو ہے، مگر کھلے دریا میں ہم زیادہ محفوظ ہوں گے۔” عقلمند مچھلی نے جواب دیا۔

    "بات تو ٹھیک ہے۔” دوسری مچھلی نے ہاں میں ہاں ملائی۔

    "لیکن اتنی جلدی بھی کیا ہے؟ کچھ دیر تو رک جاؤ۔ مچھیروں کو آنے میں دیر لگے گی۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ آج ادھر آئیں ہی نہیں۔” کاہل مچھلی نے کہا۔

    عقلمند مچھلی نے اسے سمجھایا، "دیکھو، وقت بہت کم ہے۔ ہمیں اس طرح‌ نہیں سوچنا چاہیے بلکہ احتیاط کا تقاضا ہے کہ اپنی حفاظت کا سامان کریں۔”

    مگر دوسری مچھلیوں کی سمجھ میں بات نہ آئی۔ ایک تو تھی کم عقل اور دوسری بہت کاہل۔ مجبور ہو کر عقلمند مچھلی کھاڑی سے ہوتی ہوئی کھلے دریا میں چلی گئی۔ اس اثنا میں مچھیرے اپنا جال اٹھائے اس جوہڑ کی طرف آچکے تھے، جہاں انہوں نے مچھلیاں دیکھی تھیں۔ ان کی آوازیں اس مچھلی نے سنیں جو کم ہوشیار تھی۔ وہ سمجھ گئی کہ عقلمند مچھلی نے صحیح کہا تھا۔ اب بھی وقت ہے یہاں سے نکل جائے تو جان بچ سکتی ہے، چناچہ فوراً ہی اس نے کھاڑی میں راستہ دیکھا اور اس سے پہلے کہ مچھیرے جال پھینک کر کھاڑی کا راستہ بند کرتے وہ دریا میں پہنچ گئی۔ لیکن تیسری اور کاہل مچھلی اس بات کا انتظار کررہی تھی کہ اسے مچھیروں کا جال نظر آئے۔ وہ یہ خیال کیے ہوئے تھی کہ شاید مچھیرے اپنا ارادہ بدل لیں گے اور یہ سوچیں‌ گے کہ اتنے سے پانی میں شکار کرنا کسی شکاری کو زیب نہیں دیتا۔ جوہڑ کی مچھلی شکار کی تو کیا تیر مارا۔ اصل میں یہ باتیں‌ بہت پہلے اس طرف آنے والے کچھ مچھیروں سے سن چکی تھی۔ وہ جوہڑ کے پاس بیٹھے ایسی باتیں‌ کررہے تھے۔ اس مچھلی کو سستی اور کاہلی نے گویا مفلوج کردیا تھا کہ وہ موقع کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے احتیاط کرنے سے غافل ہوگئی۔ آج برا دن تھا۔ مچھیروں نے کھاڑی پر جال پھینک کر آہستہ آہستہ کھینچنا شروع کیا۔ اب تو کاہل مچھلی بہت پچھتائی مگر وہ کھاڑی سے کھلے دریا میں‌ نہیں جاسکی اور لمحوں میں جال میں پھنس گئی۔ آخر وہ مچھیروں کو پیاری ہوگئی۔

    (ادبِ اطفال سے انتخاب)

  • ڈاکٹر ابواللیث صدیقی: علم و ادب کی دنیا کا ایک بڑا نام

    ڈاکٹر ابواللیث صدیقی: علم و ادب کی دنیا کا ایک بڑا نام

    متحدہ ہندوستان میں برطانوی راج کے دوران علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے اردو ادب میں پہلے پی ایچ ڈی اسکالر ڈاکٹر ابواللیث صدیقی تھے۔ قیامِ پاکستان کے بعد وہ ہجرت کر کے کراچی آگئے اور اردو ادب میں بحیثیت ماہرِ لسانیات، محقّق، نقّاد شہرت پائی۔

    ڈاکٹر ابواللیث صدیقی جامعہ کراچی میں شعبۂ اردو کے سربراہ بھی رہے اور کولمبیا یونیورسٹی سے وزیٹنگ پروفیسر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ ابواللیث صدیقی 15 جون 1916ء میں آگرہ میں‌ پیدا ہوئے۔ ان کی تعلیم وکٹوریہ ہائی اسکول، آگرہ مشن اسکول اور اسلامیہ ہائی اسکول بدایوں سے ہوئی۔ 1942ء میں انھوں نے اردو ادب میں پی ایچ ڈی کی سند پائی تھی۔

    ڈاکٹر صاحب ایک باصلاحیت اور نہایت قابل قلم کار تھے۔ ان کی متعدد کتابیں‌ شایع ہوئیں جن میں ایک خود نوشت بھی شامل ہے۔ ڈاکٹر معین الدّین عقیل نے اس کا مقدمہ تحریر کرتے ہوئے لکھا ہے: “ڈاکٹر ابواللیث صدیقی زمانۂ طالب علمی ہی سے مضامین و مقالات لکھنے لگے تھے جو جامعہ دہلی، علی گڑھ میگزین علی گڑھ، ہمایوں لاہور، معارف اعظم گڑھ اور نگار لکھنؤ میں شائع ہوتے رہے۔ تنقید اور تحقیق دونوں ہی میں ڈاکٹر صاحب کی دل چسپی یکساں تھی۔ بعد میں لسانیات اور خاص طور پر اردو لسانیات ان کا محبوب موضوع بن گیا۔ ان کے پی ایچ ڈی کے تحقیق مقالے لکھنؤ کا دبستانِ شاعری نے، جو شعبہ اردو مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کا پہلا تحقیقی کام تھا، انھیں اسی زمانے میں شہرت سے ہم کنار کر دیا تھا۔ یہ مقالہ بھارت اور پاکستان میں کئی بار شائع ہوا۔“

    اسی خود نوشت میں ہمیں ڈاکٹر صاحب کی ایک تحریر بھی پڑھنے کو ملتی ہے جس میں وہ اپنا خاندانی پس منظر بتاتے ہیں۔ ملاحظہ کیجیے۔ ”میں اپنے نام کے ساتھ صدیقی لکھتا ہوں۔ یعنی حضرت ابوبکر صدیق کی آل میں ہوں۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے گیارہویں سیڑھی میں ایک بزرگ فخرالعلماء انشا عمدةُ المالک، ملک حمیدالدّین سبزواری تھے۔ سلطان غیاث الدین بلبن کے عہد میں ان کے صاحبزادے صدرالدّین ہندوستان آئے اور بدایوں پہنچے۔ اس وقت بدایوں کے قاضی محلّے میں آج بھی وہ مسجد موجود ہے جو دادے حمید کی مسجد کہلاتی ہے۔ اسی میں قاضی حمید الدّین کا مزار ہے۔ خاندانی قبرستان حوضِ قاضی کے نام سے مشہور ہے۔ چنانچہ میرے والد، والدہ اور بھائی کا مدفن بھی وہی قبرستان ہے۔

    ڈاکٹر صاحب مزید لکھتے ہیں: فروری 1979ء میں قیامِ پاکستان کے بعد پہلی مرتبہ بدایوں جانے کا اتفاق ہوا۔ قاضی محلّہ اب پنجابی ٹولہ کہلاتی ہے اور محلّے میں مسلمانوں کا ایک گھر بھی باقی نہیں۔ اپنی ننھیال کے مکانات دیکھے، جو دیوان خانہ تھا اور جس کے دروازے پر کبھی سچ مچ ہاتھی جو جھومتا اور اب کھنڈر تھا۔ جس میں چند ہندو خاندان آباد تھے۔ خود اپنا وہ مکان جو 1911ء میں میری والدہ نے بڑے شوق سے تعمیر کرایا تھا اور جس کی بارہ دری کے شیشوں سے مزین روکار، جس کا ترکی طرز کا شیش محل نما دیوان ایسے معلوم ہوتے تھے کہ جیسے روتے روتے آنکھیں خشک اور بے نور ہوگئی ہیں۔ اور جن میں روشن اور چمکدار آنکھوں کی جگہ خالی گڑھے رہ گئے ہوں۔ جو تاریخ، ماضی حال اور مستقبل پر مرثیہ خواں ہو۔ یہ عمارتیں جو کبھی امارت، دولت اور فارغ البالی کی نشانیاں تھیں آج اپنے مکینوں کو ڈھونڈتی ہیں جو ان کے وارث تھے اور آج ہزاروں میل دور ہیں۔ جن کے قدم اب ان میں کبھی نہیں آئیں گے۔”

    یہ تحریر بتاتی ہے کہ ڈاکٹر ابواللیث صدیقی ایک خوش حال خاندان کے فرد تھے اور اب وہ اس کا کرب محسوس کرتے ہیں، لیکن تقسیمِ‌ ہند کے ساتھ اس دور کے ہر مہاجر خاندان کو کسی ایسے ہی المیّہ کا سامنا کرنا پڑا تھا اور جس کے گھاؤ کبھی مندمل نہیں ہوسکتے۔ ڈاکٹر ابواللیث صدیقی نے اپنے پی ایچ ڈی کے حوالے سے بھی ایک دل چسپ واقعہ رقم کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ”جب میں نے اپنا پی ایچ ڈی کا مقالہ ”لکھنؤ کے دبستانِ شاعری” مکمل کر کے پیش کیا تو اس کے جو ممتحن مقرر ہوئے ان میں نگران کی حیثیت سے پروفیسر رشید احمد صدیقی کے علاوہ مولانا حسرت موہانی، نواب صدر یار جنگ بہادر، حبیب الرحمن شیروانی اور ڈاکٹر محی الدّین قادری زور شامل تھے۔ ڈاکٹر زور کا تعلق شاعری کی تنقید یا لکھنؤ سے بالکل نہ تھا لیکن انہوں نے یورپ سے پی، ایچ، ڈی کیا تھا اور یونیورسٹی والے چاہتے تھے کہ ان کے اردو کے پہلے پی، ایچ، ڈی کا ممتحن ایک ایسا شخص ہو جو یورپ میں لکھے جانے والے مقالات کی Methodology پر نظر رکھتا ہو۔ زور صاحب یہ شرط پوری کرتے تھے، بہرحال زبانی امتحان کے لیے حسرت موہانی اور ڈاکٹر زور صاحب علی گڑھ تشریف لائے۔ دونوں کے لینے کے لیے ریلوے اسٹیشن پر گیا اور دونوں کو رشید صاحب کے ہاں پہنچا دیا۔ اپنا تعارف قصداً نہ کرایا۔ دوسرے دن شعبے میں زبانی امتحان شروع ہوا تو میں حاضر تھا۔ زور صاحب نے رشید صاحب سے کہا۔ ”تو صاحب امیدوار کو بلائیے۔” رشید صاحب نے میری طرف اشارہ کر کے کہا۔ ”یہ حاضر ہیں۔” زور صاحب نے بڑی حسرت سے مجھے دیکھ کر کہا، ”آپ ہیں! میں تو مقالہ پڑھ کر سمجھا تھا کہ لکھنے والا شیروانی پہنے داڑھی رکھے، پان کھائے، لکھنوی ٹوپی پہنے ہوگا۔ آپ ”اردو” سے زیادہ ”انگریزی” نظر آئے۔”

    اردو کے اس ممتاز ڈاکٹر ابواللیث صدیقی کی چند اہم تصانیف میں مصحفی: اس کا عہد اور شاعری، جرأت: اس کا عہد اور شاعری، نظیر اکبر آبادی: اس کا عہد اور شاعری، تاریخِ زبان و ادبِ اردو، بیسویں صدی کا اردو ادب اور تاریخِ اصولِ تنقید شامل ہیں جب کہ ان کی خود نوشت کا نام رفت و بود ہے۔ ان کے مضامین پر مشتمل تین مجموعے غزل اور متغزلین، روایت اور تجربے اور ادب اور لسانیات بھی شایع ہوئے۔

    ڈاکٹر صاحب کو زمانۂ طالبِ علمی میں علی گڑھ کے آفتاب ہوسٹل میں جن نابغانِ عصر اور قابل شخصیات کی صحبت میّسر آئی، ان میں اختر حسین رائے پوری، سبطِ حسن، حیات اللہ انصاری، فضل الرّحمن انصاری شامل تھے۔ اسی زمانے میں انھیں اپنی تعلیمی قابلیت کے سبب علی گڑھ کے اکابرین کی خصوصی توجہ اور ان کی شفقت و عنایت بھی نصیب ہوئی جن میں نواب سَر راس مسعود اور پروفیسر محمد حبیب کا ذکر ابواللیث صدیقی نے اپنی خود نوشت میں خاص طور پر کیا ہے۔

    ڈاکٹر ابواللیث صدیقی کا انتقال 7 ستمبر 1994ء کو ہوا۔ ان کی تدفین جامعہ کراچی کے قبرستان میں کی گئی۔

  • اندو رانی اور سروجنی کی کہانی جنھیں مقروض باپ نے فلم میں کام کرنے کی اجازت دی

    اندو رانی اور سروجنی کی کہانی جنھیں مقروض باپ نے فلم میں کام کرنے کی اجازت دی

    متحدہ ہندوستان میں پہلی بولتی فلم بنانے والے اردشیر ایرانی تھے اور اس کی فلم کا نام تھا عالم آراء۔ یہ مارچ 1931 کی بات ہے اور پھر بمبئی، کلکتہ اور لاہور کے فلمی مراکز میں بولتی فلمیں بنانے کا گویا ایک مقابلہ شروع ہوگیا۔ اس دور میں کئی نئے چہرے بھی پردۂ سیمیں پر جلوہ گر ہوئے اور کام یابیاں سمیٹیں۔ ان میں دو بہنیں اندو رانی اور سروجنی بھی شامل تھیں۔

    اُس دور میں انگریزی کلچر سے متأثر گھرانوں‌ کو چھوڑ کر اکثریت خواہ مسلمان ہوں، ہندو یا سکھ اور عیسائی فلم میں‌ کام کرنے کو معیوب سمجھتے تھے۔ عشرت جہاں اور اس کی بڑی بہن روشن جہاں‌ اسی ہندوستانی معاشرے کا حصّہ تھیں جس میں‌ لڑکوں‌ کا بھی فلمی دنیا میں قدم رکھنا آسان نہیں تھا، اور ان حالات میں عام اور روایتی گھرانوں کی لڑکیاں تو اس کا تصور بھی نہیں کرسکتی تھیں۔ لیکن ان کی والدہ منور جہاں ایک ایسے گھرانے کی عورت تھیں جہاں انھیں لڑکی ہونے کے باوجود تعلیم بھی دلوائی گئی اور انھوں نے ملازمت بھی کی۔ اس کے باوجود ان کی بیٹیوں کا فلم میں کام کرنا اتنا آسان نہیں‌ تھا۔ یہ اُس وقت ہوا جب والد شیخ امام الدّین کو مالی مشکلات نے گھیر لیا اور وہ مقروض ہوگئے۔ تب وہ اپنی بیٹیوں کو فلم میں کام دلوانے کی غرض سے خود پُونا لے گئے۔

    شیخ صاحب کی سات اولادیں تھیں۔ وہ دہلی کے ایک متوسط گھرانے کے فرد تھے جس میں‌ عشرت جہاں نے 1922ء میں‌ آنکھ کھولی۔ روشن جہاں اس سے بڑی تھی۔ ان دونوں کی والدہ منوّر جہاں ہندوستان کے مشہور حاذق طبیب اور علمی شخصیت حکیم اجمل خان کے اسکول کی اوّلین طالبات میں سے ایک تھیں۔ وہ ایک معالج کی حیثیت سے دو شاہی ریاستوں میں کام کرکے اپنے کنبے کی کفالت کرتی رہیں۔ جب کہ شیخ امام الدّین کو جوا کھیلنے کا شوق منہگا پڑ گیا۔ وہ مقروض ہوگئے تھے۔

    ایک روز انھیں معلوم ہوا کہ ان کی بیٹی روشن جہاں نے ایک فلم اسٹوڈیو‌ سے خط کتابت کی ہے اور انھیں مثبت جواب ملا ہے۔ ان کی بیٹی روشن جہاں نے فلم میں کام کرنے کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے سرسوتی فلم اسٹوڈیو کو اپنے مکتوب کے ساتھ اپنی ایک تصویر بھیجی تھی۔ وہاں سے انھیں 300 روپے ماہانہ کی نوکری کی پیشکش کی گئی۔ والد نے پہلے تو اپنی بیٹی کو اس جرأت پر خوب مارا اور بڑی درگت بنائی۔ مگر پھر خیال آیا کہ بیٹیوں کی کمائی سے وہ قرض سے نجات پاسکتے ہیں۔

    وہ عشرت جہاں اور روشن جہاں کے ساتھ پونا پہنچ گئے جہاں فلم ساز ایسے خوب صورت چہروں کی تلاش میں رہتے تھے جو اردو یا ہندی روانی سے بول سکتے تھے۔ ان بہنوں کو دادا صاحب ٹورن کی کمپنی بنام سرسوتی سینیٹون میں کام مل گیا اور عشرت جہاں کو اندو رانی جب کہ اس کی بہن روشن جہاں کو سروجنی کے نام سے بڑے پردے پر متعارف کروایا گیا۔ ان کو حسبِ وعدہ ماہانہ 300 روپے تنخواہ ملنے لگی۔ والد نے کمپنی سے تین ماہ کی پیشگی رقم لی اور دہلی لوٹ گئے۔ اندو رانی اور سروجنی کو اس نئے شہر میں ان کی نانی کا سہارے چھوڑا گیا تھا۔ پونا میں قیام کے دوران ان بہنوں کے ایک فلمی اداکار وسنت راؤ پہلوان کے ساتھ اچھے مراسم ہو گئے۔ وہ اسے ’’چاچا جی‘‘ کہتی تھیں۔

    بطور اداکارہ اندو رانی نے پونا میں‌ رہتے ہوئے سب سے پہلے ساوتری نامی مراٹھی فلم میں ایک چھوٹی بہن کا معمولی کردار ادا کیا۔ بدقسمتی سے یہ مراٹھی فلم فلاپ ہوگئی اور دادا صاحب تورنے کا اسٹوڈیو بند ہوگیا۔ اب ان بہنوں نے بمبئی شفٹ ہونے کا فیصلہ کیا۔

    وسنت راؤ پہلوان کے مشورے سے انھوں نے بمبئی میں ایک ہندو کالونی میں فلیٹ کرایہ پر لیا اور یہاں 30 کی دہائی میں اندو رانی نے فدا وطن، پرتیما، بلڈاگ اور انصاف جیسی فلموں میں کام کیا۔ اسی زمانے میں اندو رانی کو ساتھی اداکار پریم ادیب سے محبت ہوگئی۔ لیکن وہ شادی کے لیے اپنے خاندان کی مخالفت مول لینے کی ہمّت نہ کرسکا تو اداکارہ نے اس سے دوری اختیار کرلی۔ بمبئی میں قیام کے دوران کئی پروڈیوسر ان بہنوں کے پاس آئے جن میں وی شانتا رام بھی شامل تھے۔ وی شانتا رام نے اندو رانی کو 300 روپے ماہانہ پر نوکری دینے کو کہا تو اداکارہ نے اپنی بہن یعنی سروجنی اور اپنے چاچا جی کے لیے بھی کام مانگا۔ شانتا رام نے اس کی بہن سروجنی کے لیے تو رضامندی ظاہر کی لیکن وسنت راؤ پہلوان کو قبول نہ کیا۔ اس لیے یہ سلسلہ آگے نہیں‌ بڑھ سکا۔ پہلوان اس کے فوراً بعد بمبئی سے چلے گئے۔ ایک روز نام ور فلم ساز سہراب مودی اور کیکی مودی ان کے گھر آئے۔ سہراب مودی نے اندو رانی اور اس کی بہن سروجنی کو 450 روپے ماہانہ تنخواہ دینے کا وعدہ کیا اور یوں وہ ان کے اسٹوڈیو پہنچ گئیں جس کا نام منروا مووی ٹون تھا۔ ابھی یہ سلسلہ شروع ہی ہوا تھا کہ موہن پکچرز کے رمنک لال شاہ اور ان کے دوست نانا بھائی بھٹ نے بھی ان اداکاراؤں سے رابطہ کیا۔ رمنک لال سے معاملہ 500 روپے تنخواہ پر طے پایا اور اس طرح 1938ء سے دونوں بہنیں رمنک لال شاہ کے ساتھ کام کرنے لگیں۔ سروجنی نے لگ بھگ دو درجن فلموں‌ میں کام کیا۔ اس کی چھوٹی بہن اندو رانی نے بھی مرکزی اور سائڈ ہیروئن کے رول بہت عمدگی سے نبھائے۔

    1939ء میں اندو رانی نے رمنک لال شاہ سے خفیہ شادی کرلی تھی۔ وہ 17 برس کی تھی۔ جب کہ سروجنی نے موہن پکچرز کے مرکزی ہدایت کار نانو بھائی وکیل سے شادی کر کے اپنا گھر بسا لیا۔ 1943ء کے بعد ان کا فلمی سفر جیسے تھم گیا تھا۔ 1949ء میں ان کی آخری فلم ریلیز ہوئی اور پھر ان بہنوں کو مزید کام نہیں ملا۔ لیکن جب تک وہ فلموں سے خاصا پیسا بنا چکی تھیں۔

    اندو رانی اور سروجنی نے تین فلموں میں ایک ساتھ کام کیا تھا، اور یہ جادوئی کنگن (1940)، حاتم طائی کی بیٹی اور تاج محل تھیں۔ اندو رانی نے اپنے دور کے کئی مشہور ہیروز کے ساتھ کام کیا، جن میں پریم ادیب، جینت، جیون، یعقوب، مبارک، سشیل کمار، یوسف آفندی، نذیر وغیرہ شامل ہیں۔

    رمنک لال شاہ اور اندو رانی دونوں بہت فیاض اور تعاون کرنے والے انسان تھے۔ ان کے چھے بچّے تھے۔ رمنک لال شاہ کا انتقال 1973 میں ہوا۔ اندو رانی امریکا منتقل ہو گئیں اور وہیں اپنے بیٹوں کے ساتھ باقی عمر کاٹ دی۔ اندو رانی 17 فروری 2012 کو انتقال کرگئی تھیں۔ ان کی تدفین کیلیفورنیا کے ایک قصبے میں کی گئی۔

    (تلخیص و ترجمہ)

  • اسماعیل ہنیہ: شہادت کا ایک پھول اور کِھلا!

    اسماعیل ہنیہ: شہادت کا ایک پھول اور کِھلا!

    31 جولائی کو شہادت کا ایک اور پھول کھلا اور اسماعیل ہنیہ بھی مادرِ‌ گیتی پر نثار ہو گئے۔ یہ ارضِ فلسطین کا آخری بیٹا نہیں تھا جس نے اب آنکھیں موند لی ہیں بلکہ اسماعیل ہنیہ کی شہادت کے بعد کفایہ پر مزاحمت کا رنگ مزید گہرا ہوگیا ہے۔ اب یحیٰی السنوار سامنے آئے ہیں جنھیں اکثر خان یونس کے قصاب کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔

    اسماعیل ہنیہ نے آزادی کے راستے میں اپنی جان ہی نہیں‌ گنوائی ہے بلکہ وہ اپنا گھر بار، اپنے لختِ جگر اور اعزّہ کی قربانیاں بھی دے چکے تھے۔ ان کی شہادت کے بعد قطر کے دارالحکومت دوحہ میں حماس کا اجلاس ہوا اور نئے سربراہ کے طور پر یحیٰی السنوار کا نام سامنے آیا۔ ایک طرف اسرائیل کی غزہ اور دیگر علاقوں میں فلسطینیوں پر بمباری جاری ہے اور دوسری جانب حماس کے حالیہ فیصلے نے گویا شاخِ زیتون کی چمک اور اس کے روغن کی آب و تاب مزید بڑھا دی ہے۔ یحیٰی السنوار کا انتخاب اس عزم کا اعادہ بھی ہے کہ اسرائیل کے خلاف مزاحمت تیز ہوگی اور حماس کی کارروائیاں جاری رہیں گی۔ پچھلے سال 7 اکتوبر کو اسرائیل میں حماس کی کارروائی کے بعد صیہونی فوج نے فلسطینیوں پر گولہ بارود برسانے کا جو سلسلہ شروع کیا تھا، وہ تاحال جاری ہے۔ امریکا کی ناجائز اولاد اسرائیل اپنے دفاع کے نام پر فلسطینیوں کی نسل کشی میں بہت آگے نکل گیا ہے۔ اسرائیل کے حملوں میں اسماعیل ہنیہ سے قبل بھی حماس کے متعدد راہ نما اور کارکن مارے جا چکے ہیں اور اب اسرائیل نے کہا ہے کہ وہ یحییٰ سنوار کو بھی نشانہ بنائے گا۔ حماس کے سیاسی ونگ کے سربراہ اسماعیل ہنیہ تو ایک عرصہ سے متحدہ عرب امارات میں مقیم تھے۔ انھیں مسعود پزشکیان کی بطور صدر تقریبِ حلف برداری میں مدعو کیا گیا تھا اور وہیں تہران میں ایک فضائی حملہ میں انھیں شہید کردیا گیا۔ اس کا الزام اسرائیل پر عائد کیا جارہا ہے، لیکن اسرائیل نے اس پر چپ سادھ رکھی ہے جب کہ ایران نے اسرائیل سے بدلہ لینے کا اعلان کیا ہے اور اب مشرقِ وسطیٰ‌ پر جنگ کے بادل منڈلا رہے ہیں۔

    ارضِ فلسطین پر صیہونی ریاست کا قیام اور اس کے لیے صدیوں سے وہاں بسے ہوئے عرب مسلمانوں‌ کی جبراً بے دخلی اس دنیا کی تاریخ کا سب سے بڑا ننگ اور غضب ہے۔ دنیا یہ بھی دیکھ رہی ہے کہ اسرائیل کس طرح‌ نہتے فلسطینیوں اور محدود وسائل اور صلاحیت کے حامل حماس اور دوسرے مزاحمتی گروہوں سے اپنی تربیت یافتہ اور باقاعدہ فوج کے ذریعے جنگ لڑتے ہوئے بین الاقوامی قوانین اور اصولوں کو روند رہا ہے، لیکن‌ اس پر خاموشی اختیار کررکھی ہے۔ غزہ میں انسانی آبادیوں، گھروں اور اسپتالوں پر بمباری، فلسطینیوں کو ڈھال بنا کر حماس کے خلاف کارروائی، طبّی امداد اور خوراک پہچانے والی تنظیموں کے رضا کاروں کو نشانہ بنانا اور گولہ بارود کی زد پر رکھنا اسرائیل کے نزدیک اگر جنگ ہے، تو حماس اور دوسر ے مزاحمتی گروہ یہ جنگ اُس وقت تک جاری رکھنے کا عزم کیے ہوئے ہیں جب تک ایک بھی رکن زندہ ہے۔

    دنیا کی تاریخ بتاتی ہے کہ کئی جنگوں‌ اور خوں ریز واقعات کی بنیاد جبر اور وہ ناانصافی تھی جس سے نفرت اور انتقام کا جذبہ ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل ہوا۔ اقوام یا مختلف خطّوں میں لسانی، مذہبی اور ثقافتی گروہوں کو جب بھی موقع ملا انھوں نے اپنے دشمن کو انتقام کی آگ میں پھونک دیا۔ کیا اسرائیل یہ سمجھتا ہے کہ جن بچّوں کی آنکھوں کے سامنے ان کے والدین، بہن بھائی مارے جارہے ہیں، وہ بڑے ہو کر اسرائیل کا وجود تسلیم کرلیں‌ گے یا موقع ملنے پر اپنی زمین چھوڑ کر کسی دوسرے ملک چلے جائیں گے تاکہ باقی ماندہ زندگی وہاں عافیت سے بسر کرسکیں؟ فلسطین یا کسی بھی سرزمین سے اس قوم کا وجود مٹانا آسان نہیں‌ جو صدیوں سے وہاں بسی ہوئی ہے۔ اقوامِ عالم میں بدنام اور دہشت گرد اسرائیل یہ بات بخوبی جانتا ہے کہ صیہونی ریاست کے قیام اور استحکام کے لیے اس کا یہ قتلِ عام اور تشدد ہر فلسطینی بچّے میں جذبۂ حریّت اور انتقام کو مہمیز دے رہا ہے۔ اس لیے یاد رکھنا چاہیے کہ اسرائیل کا مقصد صرف غزہ اور دیگر علاقوں سے فلسطینیوں کی بے دخلی ہی نہیں ہوگا بلکہ وہ فلسطینی مسلمانوں‌ کی نسل کُشی کا عزم کیے ہوئے ہے۔ اس بات کو تقویت ملتی ہے، وزیرِ اعظم نیتن یاہو کے اُس بیان سے جس میں وہ دنیا سے شیطانی قوت (حماس) کو جڑ سے اکھاڑ دینے کا عزم ظاہر کرتے ہوئے عہدنامۂ عتیق (تورات) سے ایک پیرا کا حوالہ دیتا ہے۔ دنیا کے مختلف ممالک میں دانش ور اور انسان دوست شخصیات نے نیتن یاہو کے اس بیان کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے اور اسے سفاک اور جنونی کہا ہے۔

    آج اسرائیل کی آبادی لگ بھگ 98 لاکھ بتائی جاتی ہے جس میں یہودی اور وہ فلسطینی شامل ہیں جو اسرائیل میں بسے ہوئے ہیں۔ دوسری جانب مقبوضہ فلسطین کا وہ علاقہ ہے جس میں‌ غربِ اردن اور غزہ شامل ہیں اور وہاں کی آبادی پچپن لاکھ ہے۔ لیکن 1948ء سے قبل صورتِ حال مختلف تھی۔ اسرائیلی ریاست کے قیام سے پہلے لگ بھگ پانچ سو دیہات اور قصبات میں آباد ساڑھے سات لاکھ فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے یک دم نکال کر ہمسائیہ ممالک میں دھکیل دیا گیا تھا۔ اسی سال اقوامِ متحدہ نے ایک قرار میں ان فلسطینیوں کی واپسی کا وعدہ کیا۔ لیکن ایسا نہیں ہوا اور فلسطینیوں کی زمین حیلے بہانوں اور طاقت کے بل پر ہتھیانے کا سلسلہ آج تک جاری ہے۔ عرب مسلمانوں کو اسرائیل کی حدود میں جانے کے لیے توہین آمیز سلوک برداشت کرنا پڑتا ہے۔ قدم قدم پر چوکیاں ہیں جہاں تلاشی اور کاغذات دیکھنے کے بہانے ان کی تذلیل کی جاتی ہے۔ ان کی نگرانی کی جاتی ہے اور فلسطینی اپنی ہی زمین پر قیدی کی طرح رہنے پر مجبور ہیں۔ 2018ء میں اسرائیلی عرب شہریوں پر عرصۂ حیات اس وقت مزید تنگ ہو گیا جب پارلیمنٹ نے قومی ریاست کا ایکٹ منظور کیا۔ اس ایکٹ کے تحت اسرائیل کو یہودیوں کا وطن قرار دیا گیا۔ جب کہ غیر یہودیوں کو اس ایکٹ کے ذریعے باضابطہ طور پر درجہ دوم کا شہری بنا دیا گیا۔

    فلسطین میں‌ اترنے والے صیہونیوں نے اپنے گھناؤنے منصوبے کے تحت مقامی لوگوں کی بے دخلی کے ساتھ ان کے تاریخی محلّے اور عمارتیں مسمار کرکے وہاں جدید تعمیرات کی ہیں۔ قدیم آبادیوں کے صدیوں پرانے نام تبدیل کیے اور اپنے تعلیمی نصاب کو اس طرح ترتیب دیا کہ جو تاریخی حقائق کو مسخ اور لسانی و ثقافتی اقدار کو یکسر مٹا کر نئی ریاست کی سیاسی، مذہبی، تاریخی و ثقافتی شناخت کو اجاگر کرے اور نئی نسل اسے قبول کرلے۔ اسرائیلی حکومت نے کتب خانوں اور بلدیہ کی عمارتوں کو اس لیے اڑا دیا کہ کہیں کئی سو سال پرانا ریکارڈ، شہر کی تاریخ اور فلسطین کی اصل شناخت سے متعلق نادر دستاویز موجود ہوں تو باقی نہ رہیں تاکہ ازسرِ‌ نو مرضی کا ریکارڈ بنا کر خطّے میں اپنی شناخت کو قائم کیا جاسکے۔

    فلسطینی شہری فوجی قوانین کے تحت محدود نقل و حرکت کے ساتھ کئی مسائل کا سامنا کررہے ہیں۔ جب کہ 1966ء میں اسرائیل کے فلسطینی شہریوں کو فوجی قوانین سے آزاد کرتے ہوئے ریاست نے قانونی شہری تو تسلیم کیا مگر عملاً وہ اب تک دوسرے درجے کے ہی شہری ہیں۔ ان سے صحت، تعلیم و روزگار اور رہائش سمیت ہر شعبے میں امتیازی سلوک برتا جاتا ہے اور وہ گویا ایک قید خانے میں زندگی بسر کررہے ہیں۔ اس کے علاوہ اسرائیلی عربوں کو ثقافتی اظہار سے روکا گیا ہے۔ حتیٰ کہ فلسطین کا جھنڈا لہرانے پر بھی سزا دی جاسکتی ہے۔

    اسرائیلی فوج دنیا کی ایک تربیت یافتہ اور جدید اسلحے اور جنگی ساز و سامان سے لیس طاقت وَر فوج ہے۔ اسرائیلی فوج اور عرب ممالک سے اس کی جنگیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ اسرائیل نے متحد عرب افواج کا مقابلہ کرتے ہوئے عرب ممالک کے کئی علاقوں پر قبضہ بھی کرلیا تھا، اور آج اسرائیل سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں دوسری اقوام سے آگے ہے۔ اب صرف حماس کی بات کریں تو وہ اپنی مالی اور دفاعی ضروریات کے لیے بالخصوص ایران کی طرف دیکھتا ہے جب کہ لبنان، شام اردن، عراق اور دوسرے عرب ممالک سے امداد کا خواہاں رہتا ہے۔ ادھر اسرائیل کا جاسوس نیٹ ورک بڑا مضبوط ہے اور اسی کی بدولت اسماعیل ہنیہ یا دوسرے حماس اور حزب اللہ کے بڑے راہ نماؤں کو اسرائیل اپنا نشانہ بنا چکا ہے۔ زمینی فوج کے علاوہ اسرائیل کی فضائیہ نے بھی قتلِ عام میں اپنا حصّہ ڈالا ہے۔

    یہ درست ہے کہ حماس، حزب اللہ اور ایران یا دیگر عرب ممالک کے حمایت یافتہ گروہ اسرائیل کو معمولی نقصان پہنچا پاتے ہیں، لیکن اسرائیلی کارروائی کے نتیجے میں فلسطینیوں کو بھاری جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ حالیہ جنگ بھی حماس کی ایک ایسی ہی کارروائی کے جواب میں شروع کی گئی تھی۔ لیکن کیا ایک نادارِ زمانہ، ستم رسیدہ اور درماندہ قوم کو اسرائیل کے آگے سَر جھکا دینا چاہیے تاکہ ان کا گھر بار اور ان سب کی زندگی محفوظ رہے؟ محکوم اقوام کی تاریخ دیکھی جائے تو وہ اس خیال کی نفی کرتی ہے۔ فلسطین بالخصوص غزہ اور دوسرے علاقے وہاں کے باشندوں کے لیے قید خانے سے کم نہیں اور وہ روزانہ جس اذّیت، کرب اور مقبوضہ علاقے میں داخلے پر جس ذلّت اور توہین کا سامنا کئی دہائیوں سے کرتے آرہے ہیں، اور وہاں زندگی اپنا مفہوم کھو چکی ہے۔ لیکن ان حالات میں‌ فلسطین کا مسلمان عالمی ادارۂ انصاف، خاص طور پر اسلامی دنیا کی طرف دیکھتا ہے تو اسے کس قدر رنج اور مایوسی ہوتی ہے۔ وہ یہ سوچتا ہے کہ اپنی آزادی کی جنگ اسے خود ہی لڑنی ہے اور امّتِ مسلمہ کی طرف دیکھنا بے سود ہے۔

    اسماعیل ہنیہ کی شہادت نے جہاں حماس کو دھچکا پہنچایا وہیں ایران کو عالمی سطح پر خفّت کا سامنا بھی کرنا پڑا کیوں کہ اس کے ملک میں ایک مہمان شخصیت کو نہایت آسانی سے قتل کردیا گیا اور اب تک ایران کچھ نہیں کرسکا ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے خلاف ایران کوئی بڑی کارروائی نہیں کرسکے گا اور صرف دھمکیوں تک محدود رہے گا۔ یہ بھی ہمارے سامنے ہے کہ اسرائیل کی جانب سے فلسطین پر جنگ مسلّط کرنے کے بعد سے اب تک کوئی بھی اسلامی ملک زبانی جمع خرچ سے آگے نہیں بڑھ سکا ہے۔ مگر شاید فلسطینی اب اس کے عادی ہوچکے ہیں‌ اور وہ جان چکے ہیں کہ ان کو اپنی جنگ لڑتے رہنا ہے۔ اسماعیل ہنیہ نے بھی کہا تھا، ’اس خون سے ہم مستقبل کی امید پیدا کریں گے اور اپنے لوگوں، اپنے مقصد اور اپنی قوم کے لیے آزادی حاصل کریں گے۔‘

  • راجہ مہدی علی خاں: یادگار نثر، لازوال نغمات کا خالق

    راجہ مہدی علی خاں: یادگار نثر، لازوال نغمات کا خالق

    راجہ مہدی علی خاں کا نام تو شاید فن و ادب کے شیدائیوں نے سنا ہوگا، لیکن نئی نسل کے قارئین بحیثیت ادیب اور شاعر راجہ مہدی علی خاں کے قلم کی روانی اور جولانیِ طبع سے بہت کم واقف ہوں‌ گے۔ انھیں بیسویں صدی کا منفرد مزاح نگار، مقبول ترین ادیب اور دلوں پر اثر کرنے والے گیتوں کا شاعر مانا جاتا ہے۔ راجہ مہدی علی خاں 1966ء میں آج ہی کے روز ممبئی میں‌ وفات پاگئے تھے۔

    راجہ صاحب کی شخصیت بھی خاصی دل چسپ اور مختلف تھی۔ علمی و ادبی حلقوں کے ساتھ وہ ہندوستان کی فلم انڈسٹری میں بہت مشہور تھے۔ بیشتر ہم عصر ادیبوں اور شاعروں سے راجہ صاحب کے گہرے مراسم رہے۔ اس دور کے رسائل و جرائد میں ان کی تحریریں باقاعدگی سے شائع ہوتی تھیں اور اُن کے پُرکشش رشحاتِ قلم نے اردو داں طقبہ کو ان کا گرویدہ بنا دیا تھا۔ نثر اور نظم دونوں میدانوں میں اس تخلیق کار نے شہرت حاصل کی۔ ان کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ قاری ان کی تحریروں کے منتظر رہتے۔ حلقۂ یاراں میں ان کا خوب ذکر رہتا اور ادیب و شاعر، فن کار اپنی مجلسوں‌ میں ان کی گفتگو سے لطف اندوز ہوتے تھے۔

    راجہ مہدی علی خاں طنز و مزاح پر مبنی اپنے مضامین اور شاعری کے علاوہ فلمی گیت نگاری کے لیے بھی معروف تھے۔ انھوں نے غیر منقسم ہندوستان میں پنجاب کے صوبے کرم آباد میں آنکھ کھولی تھی۔ ادبی تذکروں میں‌ لکھا ہے کہ ان کا تعلق وزیر آباد سے تھا جو بعد میں‌ پاکستان کا حصّہ بنا۔ راجہ صاحب زمین دار خاندان میں 1915ء میں پیدا ہوئے۔ وہ بہت چھوٹی عمر میں والد کے سایۂ شفقت سے محروم ہوگئے۔ ان کی والدہ علم و ادب سے وابستہ اور صاحبِ دیوان شاعرہ تھیں۔ راجہ مہدی علی خان کو بھی شروع ہی سے اردو شاعری سے شغف ہوگیا۔ ان کی پرورش خالص علمی اور ادبی ماحول میں ہوئی تھی اور یہی وجہ تھی کہ صرف دس برس کی عمر میں بچّوں کا ایک رسالہ بھی جاری کیا۔ تقسیمِ ہند سے قبل راجہ صاحب دہلی منتقل ہوگئے تھے اور اپنی تخلیقی صلاحیتوں کی بدولت آل انڈیا ریڈیو میں ملازم ہوگئے۔ اردو کے مشہور افسانہ نگار سعادت حسن منٹو سے ان کی دوستی گہری ہو گئی اور ان کے کہنے پر راجہ مہدی علی خاں بمبئی میں فلمی دنیا میں قسمت آزمانے کو پہنچے تھے۔

    راجہ صاحب نے اپنی پہلی فلم ’’شہید‘‘ کے ایک ہی گانے سے اپنی شاعری کا سکّہ جما دیا۔ یہ نغمہ تھا، ’’وطن کی راہ میں وطن کے نوجواں شہید ہوں‘‘ اور دوسرا گیت ’’آجا بے دردی بلما کوئی رو رو پُکارے‘‘ بھی بے حد مقبول ہوا اور سدا بہار فلمی نغمات میں شامل ہوئے۔ دوسری فلم ’’دو بھائی‘‘ کے سبھی گیت راجہ مہدی علی خاں نے لکھے تھے جو بے حد پسند کیے گئے۔

    اردو زبان کے اس مقبول ادیب اور شاعر کے مشہور گیتوں‌ میں ’’پوچھو ہمیں، ہم اُن کے لیے کیا کیا نذرانے لائے ہیں…‘‘، ’’آپ کی نظروں نے سمجھا پیار کے قابل مجھے…‘‘ ، ’’جو ہم نے داستاں اپنی سنائی…‘‘ ،’’اگر مجھ سے محبت ہے مجھے سب اپنے غم دے دو…‘‘ اور ’’تو جہاں جہاں رہے گا میرا سایہ ساتھ ہوگا…‘‘ جیسے گیت شامل ہیں جنھیں‌ آج بھی بہت ذوق و شوق سے سنا جاتا ہے۔

    راجہ صاحب کا فلمی دنیا میں سفر بیس برس جاری رہا اور اس عرصہ میں‌ انھوں نے بھارت میں‌ لگ بھگ 75 فلموں کے لیے گانے تحریر کیے۔ راجہ مہدی علی خاں بہترین مترجم بھی تھے۔ ان کی تصنیف و تالیف کردہ متعدد کتب میں راج کماری چمپا، مضراب، ملکاؤں کے رومان، چاند کا گناہ بہت مشہور ہیں۔

  • جامِ جہاں نما اور آئینۂ سکندری

    جامِ جہاں نما اور آئینۂ سکندری

    اگر تاریخِ عالم میں سکندر کا نام ایک غیرمعمولی شخصیت، باتدبیر حکم راں اور بہترین فوجی کمانڈر کے طور پر محفوظ ہے تو فارس کے بادشاہ دارا کا تذکرہ بھی بہادر فوجی اور باصلاحیت حکم راں کی حیثیت سے بہت اہمیت رکھا ہے جس نے سکندرِ اعظم کی فتوحات کا راستہ روکا تھا۔

    نوجوان سکندرِ اعظم نے وسیع میدانوں میں بڑے بڑے سورماؤں‌ کو شکست دے کر دنیا پر راج کیا لیکن دارا سوّم بھی 30 لاکھ مربع کلومیٹر پر محیط وسیع سلطنت رکھتا تھا۔ دارا کی سلطنت کی وسعت اس زمانے کے فن پاروں سے بھی عیاں ہے جن میں اس کے مختلف حصّوں کا امتزاج نظر آتا ہے۔ بحیثیت جنگجو اور حکم راں، مغرب کے نزدیک دارا نے ہمیشہ سخت رویہ اپنایا اور وہ اپنے ایک عزیز کے ہاتھوں مارا گیا۔ 330 قبلِ مسیح میں دارا کی موت کے بعد سلطنتِ فارس کا خاتمہ ہوا اور دنیا کی تاریخ میں سکندرِ اعظم کی عالی شان سلطنت وجود میں آئی۔ ان حکم رانوں اور فوجی کمانڈروں کا ذکر تاریخ کے اوراق تک محدود نہیں بلکہ دنیا کی مختلف زبانوں کا ادب بھی ان کے نام اور کارناموں سے بھرا پڑا ہے۔ یہ نام دلیری، شجاعت، خوش نصیبی کا استعارہ بھی بنے اور ان سے جڑے واقعات نے شاعری میں صنعتِ تلمیح کی صورت میں جگہ پائی۔ اس میں جامِ جہاں نما اور آئینۂ سکندری پر کئی نثر پارے اور اشعار پڑھنے کو ملتے ہیں۔ یہ دونوں عجیب و غریب یا اس زمانے کے اعتبار سے کرشماتی چیزیں ہیں جس میں کچھ حقیقت ہے یا نہیں، یہ جاننے کے لیے تاریخی کتب کھنگالی جاسکتی ہیں۔ لیکن اہلِ فن و قلم ان کا تذکرہ کچھ اس طرح کرتے ہیں:

    سکندر اور ایران کے بادشاہ دارا کے درمیان کئی جنگیں ہوئیں لیکن سکندر دارا کی تدبیروں کی وجہ سے شکست کھا جاتا تھا۔ دارا جامِ جہاں نما کی مدد سے سکندر کی تمام نقل و حرکت اور تیاریوں سے آگاہ ہو جاتا اور سکندر کی تمام تیاریاں دھری کی دھری رہ جاتیں۔ آخر کار اس نے حکومت کے مدبروں اور سائنس دانوں کی مدد سے شہر اسکندریہ کے ساحل پرایک آئینہ بنانے میں کام یابی حاصل کر لی، جس سے وہ دشمن کی نقل و حرکت اور سربستہ رازوں سے آگاہی حاصل کرسکے۔ یہ آئینہ سکندر نےایک اونچے مینار پر نصب کرایا تھا، اس آئینے کی مدد سے دشمن کی نقل و حرکت کا اندازہ سو میل کی مسافت سے ہوجاتا تھا۔ اس تلمیح کا استعمال ان اشعار میں دیکھیے۔

    سکندر کیوں نہ جاوے بحرِ حیرت میں کہ مشتاقاں
    تمہارے مکھ اگے درپن کوں درپن کر نہیں گنتے
    شاعر: ولی دکنی

    خاکِ آئینہ سے ہے نامِ سکندر روشن
    روشنی دیکھتا گر دل کی صفائی کرتا
    شاعر: ذوق

    آئینۂ سکندری اردو ادب کا خاص موضوع رہا ہے اور عوام میں اس کی شہرت کو دیکھتے ہوئے برطانوی دور میں اسی نام سے ایک ہفت روزہ بھی جاری کیا گیا تھا۔ یہ فارسی زبان میں نکلنے والا ہفت روزہ اخبار تھا۔ اسے مولوی سراج الدّین نے آئینۂ سکندر کے نام سے فروری 1831ء میں کولکتہ سے جاری کیا۔ یہ ہفت روزہ 14 صفحات پر مشتمل تھا اور ہر دو شنبہ کو نکلتا تھا۔ مشہور ہے کہ اس اخبار کو عظیم شاعر مرزا اسد اللہ خان غالب کا تعاون حاصل تھا۔ ان کا فارسی کلام بھی آئینۂ سکندر میں شائع ہوتا تھا۔ اس ہفت روزہ کی خاص بات یہ تھی کہ ہر خبر کی سرخی کے نیچے ایک شعر بھی لکھا جاتا تھا۔ اسی طرح جامِ جہاں نما، برصغیر پاک و ہند میں پہلا اردو اخبار مشہور ہے جو 1822ء میں کلکتے سے ہری ہردت نے جاری کیا تھا۔ لیکن چند ہفتوں کے بعد اسے فارسی زبان میں شائع کرنا شروع کردیا گیا تھا۔

  • ٹوائلٹ سیٹ جیسے سَر والی کروڑوں سال پرانی مخلوق دریافت

    ٹوائلٹ سیٹ جیسے سَر والی کروڑوں سال پرانی مخلوق دریافت

    سائنس دانوں نے ڈائناسار سے چار کروڑ سال قدیم ایک مخلوق کی محفوظ باقیات دریافت کی ہیں جس کا سَر دیکھ کر ماہرینِ رکازیات (paleontologist) بھی حیران رہ گئے۔

    ماہرین کے مطابق یہ ایسا فقاریہ (ریڑھ کی ہڈی رکھنے والا) ہے جس کی باقیات میں سب سے نمایاں اس کی دو فٹ لمبی کھوپڑی ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ اس کا سَر ایک ٹوائلٹ سیٹ کی طرح چپٹا ہے۔

    سائنسی جریدے نیچر میں اس دریافت سے متعلق مقالہ پر مبنی رپورٹ کے مطابق برفانی دور کی اس مخلوق کا مسکن دلدلی علاقے تھے جہاں یہ زیادہ تر دلدل کی تہ میں رہتا تھا۔ یہ جانور گہری اور انتہائی گدلی جھیلوں میں بھی پائے جاتے تھے۔ ارضیات اور جانداروں کے باہمی تعلق اور ارتقائی عمل پر تحقیق میں‌ مصروف ماہرین نے اس قدیم جاندار کو گایاشیا جینی اے (Gaiasia jennyae) کا نام دیا ہے۔

    محققین کا کہنا ہے کہ یہ چار ٹانگوں‌ کی مدد سے رینگنے والے خوف ناک جانوروں میں جسامت کے لحاظ سے ایک بڑا حیوان ہے۔ اس کی باقیات کی لمبائی آٹھ فٹ ہے جس میں اس کی کھوپڑی اور آپس میں جڑے ہوئے دانت نمایاں ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ گایاشیا جینی اے اپنے آس پاس کسی جانور کی موجودگی کو محسوس کر کے اپنے مخصوص بناوٹ کے حامل منہ کو پوری طرح کھول دیتا اور انتظار کرتا کہ شکار کب اس کے قریب آئے اور وہ اسے جھپٹ لے۔ ریسرچ میں بتایا گیا ہے کہ گایاشیا جینی اے اپنے دانت کسی شکار کے جسم میں‌ گاڑنے کے بعد اسے نگل جانے کی صلاحیت رکھتا تھا۔

    اس مخلوق کی باقیات نمیبیا سے ملی ہیں۔ یہ جنوبی افریقہ کا شمال کی طرف وہ علاقہ ہے جو ہزاروں سال سے اسی محلِ وقوع کے ساتھ کسی اور نام سے پہچانا جاتا ہوگا اور یہ وہ زمانہ تھا جب برفانی دور ختم ہورہا تھا۔ اس کے علاوہ دلدلی زمین تیزی سے خشک ہو رہی تھی اور جنگل بنتی جا رہی تھی۔ اس وقت جانوروں کے مختلف گروہ موجود تھے جو بدلتے ہوئے ماحولیاتی نظام کے ساتھ معدوم ہوگئے اور کچھ مختلف شکلوں میں زندہ رہے۔

    ماہرینِ حیاتیات کا خیال ہے کہ جسامت میں ایک آدمی سے بھی بڑا گایاشیا جینی اے (Gaiasia jennyae) بہت طاقت ور اور بھاری بھرکم جانور رہا ہوگا۔ شکاگو کے فیلڈ میوزیم میں این ایس ایف کے پوسٹ ڈاکٹریٹ فیلو اور نیچر اسٹڈی کے شریک سرکردہ مصنف جیسن پارڈو کہتے ہیں کہ "اس کے منہ کے سامنے پورے حصّے میں بڑے دانت ہیں۔ یہ اس کے بڑے شکاری ہونے کو ظاہر کرتا ہے، لیکن ممکنہ طور پر گایاشیا جینی اے نسبتاً سست اور گھات لگانے والا شکاری بھی ہے۔”

    بیونس آئرس یونیورسٹی کی کلاڈیا مارسیکانو، اور ان کے ساتھی ماہرین کی اس دریافت پر تحقیق کے بعد قدیم دور کے حیاتیاتی نظام سے متعلق اہم معلومات اور بعض دل چسپ حقائق سامنے آئے ہیں۔ اس جانور کی باقیات کے مختلف نمونوں پر مزید تحقیق کی جارہی ہے۔ کلاڈیا مارسیکانو، جو پارڈو کے تحقیقی کام میں شریک مصنّف بھی ہیں، کہتی ہیں، "ہم نے ایک بہت بڑا نمونہ کسی پتّھر کی طرح پڑا ہوا پایا، جسے غور سے دیکھنے پر ہم ششدر رہ گئے۔ اسے دیکھ کر اندازہ ہوا کہ یہ بالکل مختلف چیز ہے۔ سب بہت پُرجوش نظر آرہے تھے۔” مارسیکانو نے مزید کہا، "کھوپڑی کا ابتدائی معائنہ کرنے کے بعد ہی اس کے اگلے حصّے کی ساخت نے خاص طور پر میری توجہ اپنی جانب کھینچ لی تھی۔ یہ اس مخلوق کا واضح طور پر نظر آنے والا واحد حصّہ تھا، اور یہ ظاہر کرتا تھا کہ غیر معمولی طور پر آپس میں جڑ جانے والے بڑے دانتوں سے قدیم دور میں چوپائے منفرد طریقے سے شکار کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔”

    ماہرین پر مشتمل اس ٹیم نے ایسے کئی نمونے تلاش کر لیے تھے، جن میں سے ایک میں اس مخلوق کی کھوپڑی اور ریڑھ کی ہڈی نمایاں تھی اور اس کی بنیاد پر گایاشیا جینی اے کی شکل و جسامت کا اچھی طرح اندازہ لگانا ممکن ہوا۔ پارڈو کا کہنا ہے کہ "یہ بہت اچھی بات تھی کہ اس میں ایک مکمل کھوپڑی بھی شامل تھی، جسے ہم اس عمر کے دوسرے جانوروں سے موازنہ کرنے کے لیے استعمال کرسکتے تھے اور اس بات کا اندازہ لگا سکتے تھے کہ یہ جانور کیا ہے اور کیا چیز اسے منفرد بناتی ہے۔” اس مخلوق پر تحقیق سے معلوم ہوا کہ اس میں بہت کچھ ہے جو اسے خاص بناتا ہے۔ پارڈو کا خیال ہے کہ گایاشیا جینی اے ایک اسٹیم ٹیٹراپوڈ (stem tetrapods) ہے۔ اس سے مراد ابتدائی چار ٹانگوں والے فقاری جانور ہیں۔ لیکن پارڈو کے یہ پہلے والے اسٹیم ٹیٹراپوڈ کے گروپ کی مخلوق ہے۔ پارڈو کے مطابق "کچھ اور قدیم جانوروں کی باقیات اس خطّے میں اب بھی موجود ہیں، جو 300 ملین سال پہلے کے ہیں، لیکن وہ چھوٹے تھے، جب کہ گایاشیا جینی اے بڑی اور بکثرت پائی جانے والی مخلوق ہے اور ایسا لگتا ہے کہ یہ اپنے ماحولیاتی نظام کا سب سے بڑا شکاری تھا۔”

    گایاشیا جینی اے اس دور کی صرف ایک جاندار نوع ہے اور اس کی باقیات کا ملنا ماہرینِ حیاتیات کو کئی اہم معلومات اور ماحولیاتی نظام پر تحقیق میں مدد دے گا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس جاندار کے یہ نمونے ہمیں بتاتے ہیں کہ اس وقت جانوروں کے بہت سے گروہ نمودار ہوئے تھے جن میں سے اکثر اس طرح ناپید ہوگئے کہ ہم واقعی نہیں جانتے وہ کہاں ہیں۔