Author: عارف حسین

  • جھنجھٹ تو ہے، مگر دل چسپ! ذرا یہ سات نام لکھ کر دیکھیے

    جھنجھٹ تو ہے، مگر دل چسپ! ذرا یہ سات نام لکھ کر دیکھیے

    ارضیات اور جغرافیہ کے ماہرین نے زمین کے طول و عرض، خشکی اور سمندر سے متعلق حقائق اور اعداد و شمار اکٹھے کرنے کے بعد بالآخر اپنی دانش کے مطابق اسے بحر و برّ میں تقسیم کر دیا، لیکن یہ معاملہ آج بھی ایک جھنجھٹ ہی ہے۔

    ‘‘برّ’’ وہ لفظ ہے جو خشکی کے لیے بولا جاتا ہے جب کہ ‘‘اعظم’’ کا مطلب بڑا ہے۔ یوں برِّاعظم سے مراد ہے خشکی(زمین) کا بہت بڑا ٹکڑا جسے انگریزی زبان میں Continent کہتے ہیں۔

    ہمیں معلوم ہے کہ دنیا سات برِّاعظموں پر مشتمل ہے جن کے نام ایشیا، یورپ، افریقا، انٹارکٹیکا، آسٹریلیا، شمالی امریکا اور جنوبی امریکا ہیں، لیکن اس میں بھی جھگڑا ہے۔ ماہرینِ ارضیات کے بعض گروہ کا ماننا ہے کہ دنیا پانچ برِّاعظموں پر مشتمل ہے۔

    اگر اب آپ اس دل چسپ جھنجھٹ میں پڑنا چاہتے ہیں تو گوگل پر اولمپک تنظیم کا پرچم دیکھیے۔

    اولمپک کا باوقار نشان بھی پانچ دائروں پر مشتمل ہے اور یہ کھیلوں کی دنیا میں پانچ برِّاعظموں کی نمائندگی کی علامت ہے۔

    اب ایک دل چسپ انکشاف کی طرف چلتے ہیں۔

    ذرا ایک صفحے پر انگریزی زبان میں برِّاعظموں کے نام تو لکھیے۔

    آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ جس حرف سے کسی برِّاعظم کا نام شروع ہو رہا ہے، وہی اس کا آخری حرف بھی ہے۔

  • پرتگال کی سیر کیجیے

    پرتگال کی سیر کیجیے

    بحرِاوقیانوس کے کنارے آباد پرتگال جنوب مغربی یورپ کاحصّہ ہے۔ جغرافیائی حقیقت اپنی جگہ مگر یہ بات شاید آپ کی دل چسپی کا باعث ہو کہ پرتگال کسی پڑوسی ملک سے محروم ہے۔

    اسی ملک پرتگال سے تعلق رکھتے ہیں انتونیو گوتریس، جن کا ملکی ذرایع ابلاغ میں خوب چرچا ہو رہا ہے۔ وہ پاکستان میں ہیں اوراہم تقاریب میں شرکت کے ساتھ مختلف تاریخی مقامات کا دورہ بھی کررہے ہیں جس سے وہ ہماری تاریخ، اس خطے کی تہذیب، ثقافت اور رسم و رواج کے بارے میں جان سکیں گے۔

    ہم بھی انتونیو گوتریس کے وطن پرتگال چلتے ہیں جس پر صدیوں پہلے مسلمان حکم رانی کیا کرتے تھے۔

    پرتگال کے مشرق اور شمال میں صرف اسپین آبادہے۔یوں کہیے کہ اسپین کی سرحد کے علاوہ اس ملک کے باسی ہر طرف ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر دیکھتے ہیں۔

    رقبے کے اعتبار سے اسے ایک چھوٹا ملک کہا جاسکتا ہے، لیکن یورپ میں مختلف حوالوں سےپرتگال اہمیت رکھتا ہے۔ قدیم زمانے میں بھی اس علاقے کو یورپ کےلیے راستے اور گزر گاہ کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔

    تاریخی اعتبار سے یہ علاقہ مسلم اسپین کاحصہ رہاہے۔ تاہم اس سے قبل یہاں مختلف تہذیبوں کااثر رہا، جن کے آثار میں رومیوں کے دور کی آبادیاں اور شہرقابلِ ذکر ہیں۔ 868عیسوی میں پرتگال ایک عیسائی ریاست میں تبدیل ہو گیا جب کہ 1139 میں یہاں خود مختار شاہی ریاست قائم کر دی گئی۔ یہاں ایک زمانےمیں یہودی بھی بڑی تعداد میں آباد تھے۔

    1910 کے بعد پرتگال نے جمہوریت کا سفر شروع کیا۔ تاہم 1974 کے انقلاب نے اس ملک کی سیاست اور سماج پر گہرے اثرات مرتب کیے اور یہاں کے دستور میں ریاست کا سربراہ صدر ِمملکت ٹھیرا جس کا انتخاب قوم براہِ راست کرتی ہے۔ وزیرِاعظم اور اس کی کابینہ کے ہاتھوں میں ملکی نظم و نسق اور انتظامات آئے۔

    پاکستان کا دورہ کرنے والے انتونیو گوتریس نے پرتگال کے شہر لزبن میں آنکھ کھولی اور انجینئرنگ کی تعلیم مکمل کر کے اسسٹنٹ پروفیسر کی حیثیت سے تدریس کا سلسلہ شروع کیا، مگر بعد میں سیاسی مصروفیات کی وجہ سے یہ سلسلہ ترک کر دیا۔ سوشلسٹ پارٹی کے یہ راہ نما پرتگال کے وزیرِ اعظم کے عہدے تک پہنچے اور آج اقوامِ متحدہ کے جنرل سیکرٹری کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔

  • شالنی جسے بشیر احمد کی تلاش مقبوضہ کشمیر لے گئی

    شالنی جسے بشیر احمد کی تلاش مقبوضہ کشمیر لے گئی

    یہ کہانی آپ کو جموں و کشمیر کے ایک دور دراز گاؤں تک لے جائے گی۔

    اس کی مصنف مادھوری وجے ہیں‌اور یہ انگریزی زبان میں‌ تحریر کردہ کہانی ہے۔ نوجوان ناول نگار کو ان کی تخلیق پر ادب کی دنیا کا نقد انعام 25 لاکھ روپے بھی دیا گیا ہے۔

    یہ ناول مقبوضہ کشمیر کی موجودہ صورتِ حال میں ایک بار پھر زیرِ بحث آرہا ہے۔

    مادھوری وجے کا یہ ناول "دی فار فیلڈ” کے نام سے شایع ہوا تھا۔

    اس کہانی کا اسلوب اور انداز ایسا ہے کہ قاری ہندوستانی فوج کے کشمیریوں پر مظالم اور بربریت کو گویا خود دیکھ سکتا ہے۔ آئیے اس ناول کے مرکزی کردار شالنی سے ملتے ہیں۔
    شالنی زندگی کی تیس بہاریں دیکھ چکی ہے۔ اس کی پیدائش بنگلور کی ہے، لیکن اب وہ کشمیر جارہی ہے۔

    بنگلور میں اس کی ماں نے ہمیشہ کے لیے اسے الوداع کہہ دیا۔ اس کی موت کے وقت شالنی چوبیس برس کی تھی۔

    والدہ کی موت کا غم بھلانے کی کوشش کرتے ہوئے شالنی بنگلور ہی میں ملازمت کر لیتی ہے، لیکن ایک موقع پر برطرفی کے بعد وہ جموں و کشمیر کے ایک چھوٹے سے گاؤں جانے کا فیصلہ کرتی ہے۔ اس فیصلے کی وجہ بشیر احمد ہے جسے اس نے بچپن میں دیکھا تھا۔

    وہ ایک ٹیکسٹائل سیلز مین اور وجیہہ صورت مرد تھا۔ اب وہ اسے تلاش کرنا چاہتی ہے۔ شالنی کسی طرح مقبوضہ کشمیر پہنچ جاتی ہے۔ کہانی کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں رہائش کے دوران شالنی ہندوستانی فوج کے سپاہیوں سے خوف محسوس کرتی۔ وہ کشمیری عوام کے مسائل اور ان پر ظلم و ستم دیکھتی تو تڑپ اٹھتی تھی اور پھر اس نے ان کی کہانیاں بیان کرنا شروع کر دیں۔

    ناول کا یہ مرکزی کردار آسان اور سادہ زبان میں ایک ایسے خطے کے بارے میں قارئین کو بتاتا ہے جہاں ریاستی تشدد اور ظلم و ستم کی مختلف صورتیں عام ہیں اور زندگی سسک رہی ہے۔

    بھارت میں موجودہ حکومت کے متنازع شہریت بل اور مقبوضہ کشمیر کے خودمختار اور انتظامی امور سے متعلق بدترین فیصلوں کے بعد مادھوری وجے کے اس ناول کو بہت اہمیت دی جارہی ہے۔

  • دہلی کا وہ علاقہ جسے بھارتی میڈیا نے منی پاکستان مان لیا

    دہلی کا وہ علاقہ جسے بھارتی میڈیا نے منی پاکستان مان لیا

    شہریت کا متنازع قانون اور بھارت میں اس کے خلاف احتجاجی مظاہرے دنیا کی نظروں میں ہیں اور میڈیا پر مودی سرکار کے فیصلوں اور اقدامات سے متعلق مباحث جاری ہیں۔

    مودی سرکار کے مظالم اور خاص طور پر مسلمانوں کو ان کے بنیادی حق سے محروم کرنے کی کوشش کے خلاف مسلمان ہی نہیں بلکہ ہر سنجیدہ اور باشعور شہری سڑکوں پر احتجاجی مظاہروں میں شریک ہے۔ ان مظاہروں‌ کے دوران جہاں‌ دہلی کے جامعہ ملیہ اسلامیہ کا بہت چرچا ہوا، وہیں شاہین باغ نے بھی دنیا کی توجہ حاصل کی جس میں سیکڑوں خواتین دن رات دھرنا دیے ہوئے ہیں. ان کی اکثریت مسلمان ہے۔ شاہین باغ میں‌ مائیں اپنے شیرخوار بچوں کے ساتھ نظر آتی ہیں جب کہ بزرگ خواتین بھی گھنٹوں بیٹھ کر اپنا احتجاج ریکارڈ کروا رہی ہیں۔

    یہ چند سطور اسی شاہین باغ کے بارے میں ہیں

    شاہین باغ بھارتی دارُالحکومت دہلی کے ایک ضلع میں واقع ہے جو جنوبی دہلی کے مضافات میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس کے مشرق میں دریائے جمنا بہتا ہے۔

    لوٹس ٹیمپل، اوکھلا ریلوے اسٹیشن اور نہرو پلیس شاہین باغ کے قرب و جوار میں موجود چند سیاحتی مقامات ہیں۔

    یہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کا وہ نزدیکی علاقہ ہے جہاں دسمبر میں متنازع قانون کے خلاف احتجاج کے دوران ریاستی اداروں نے کارروائی کی تھی۔ اس کے علاوہ جامعہ ہمدرد بھی یہاں کا ایک تعلیمی ادارہ ہے۔

    آمدورفت اور شہر بھر تک رسائی کے حوالے سے دیکھا جائے تو نوئیڈا، جیسولا، اوکھلا انڈسٹریل ایریا، فرید آباد اس کے قریبی اور اہم علاقے ہیں جب کہ ایک میٹرو ٹرین ریلوے اسٹیشن اس علاقے کو مرکزی دہلی میٹرو نیٹ ورک سے جوڑتا ہے۔

    شاہین باغ کے دھرنے میں چوں کہ اکثریت مسلمان خواتین کی ہے تو بھارتی میڈیا نے اسے منی پاکستان کہنا شروع کر دیا ہے۔

  • وہ امیر ترین امریکی جو اپنی کہنی کی وجہ سے مذاق کا نشانہ بنا!

    وہ امیر ترین امریکی جو اپنی کہنی کی وجہ سے مذاق کا نشانہ بنا!

    دولت اور جائیداد تو اصل میں اسٹیو وین نے اپنے جوئے خانوں کی کمائی سے بنائی ہے، مگر امریکا میں اسے ریئل اسٹیٹ دنیا کا بادشاہ مانا جاتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ وہ فائن آرٹ کا دلداہ اور فن و ثقافت کا بڑا قدر دان بھی ہے۔

    اس کے رئیل اسٹیٹ کے کاروبار اور آرٹ میں دل چسپی کی اصل وجہ سبھی جانتے ہیں، یعنی غیرقانونی اور ناجائز طریقے سے اکٹھی کی گئی دولت اور خود کو قانون کی گرفت سے بچانے کے لیے اس نے یہ سب کر رکھا ہے۔

    اسٹیو وین دنیا بھر کے نام وَر آرٹسٹوں کے فن پارے خریدنے کے لیے بھی مشہور ہے۔ وہ کوئی بھی تخلیق منہ مانگے داموں خرید کر اپنی آرٹ گیلری میں منتقل کر لیتا ہے۔

    چند سال پہلے تک شہرہ آفاق مصور پابلو پکاسو کی مشہورِ زمانہ پینٹنگ لیغیو بھی اس کی آرٹ گیلری کی زینت تھی۔

    یہ 2006 کی بات ہے جب اسٹیو وین کے ایک کاروباری شناسا نے اس شاہ کار کو خریدنے کی خواہش ظاہر کی۔ اسٹیو وین نے ہامی بھر لی۔

    سودا طے ہوا اور ایک شام اپنے چند دوستوں کے ساتھ وہ خواہش مند اسٹیو وین کی آرٹ گیلری میں اسی پینٹنگ کے قریب کھڑا تھا۔ ان کا موضوعِ بحث پابلو پکاسو، اس کا فن اور وہی پینٹنگ تھی جو چند گھنٹوں بعد اسٹیو وین کی ملکیت نہ رہتی، مگر ایک حادثے نے ان کے ارادوں اور خواہشات پر پانی پھیر دیا۔

    دورانِ گفتگو پینٹنگ کے نزدیک موجود اسٹیو وِن اچانک پیچھے ہٹا اور اپنی کہنی کو کچھ اس زور سے حرکت دی کہ وہ اس تصویر میں گویا گڑ گئی اور اس میں سوراخ ہوگیا۔

    پینٹنگ کا سودا اُسی وقت منسوخ ہوگیا۔ میڈیا نے اسٹیو وین کو چار کروڑ ڈالر کی کہنی والا کہہ کر اس واقعے کی تفصیلات ناظرین تک پہنچائیں۔ امریکا بھر میں اس امیر ترین شخص اور آرٹ کے قدر دان کا مذاق اڑایا گیا۔

    ماہرین نے اسٹیو وین کی خواہش پر اس فن پارے کو اصل حالت میں‌ لا کر دوبارہ گیلری میں سجا دیا۔

    دل چسپ بات یہ ہے کہ چند سال بعد یعنی 2013 میں اسٹیو وین نے اُسی کاروباری دوست کے ہاتھوں‌ وہی فن پارہ پچھلے سودے کی نسبت کئی گنا زیادہ پر فروخت کردیا۔

    (تلخیص و ترجمہ: عارف حسین)

  • الماریوں میں‌ سجی کتابوں‌ کے درمیان رکھی ہوئی لاشیں!

    الماریوں میں‌ سجی کتابوں‌ کے درمیان رکھی ہوئی لاشیں!

    آئیے سوئٹزرلینڈ کی ایک قدیم اور پُرشکوہ عمارت کی سیر کو چلتے ہیں۔

    اس عمارت میں‌ ایک کتب خانہ ہے جو ایبے لائبریری کے نام سے مشہور ہے۔ عمارت کا منفرد طرزِ تعمیر، خوب صورتی اور سجاوٹ دیکھ کر آپ دم بخود رہ جائیں گے۔ یہی نہیں بلکہ اندر جاکر آپ خوف زدہ بھی ہوسکتے ہیں۔ اگر داخل ہونے سے پہلے آپ یہ جان لیں‌ کہ اس عظیم الشان عمارت میں چند حنوط شدہ جسم بھی رکھے ہوئے ہیں تو فیصلہ کرسکتے ہیں‌ کہ اندر داخل ہونا ہے یا نہیں، مگر ہمیں یقین ہے کہ تجسس خوف پر غالب آجائے گا اور آپ سوئٹزر لینڈ کے علاقے سینٹ گالیں‌ کی اس لائبریری کے اندر  ضرور جائیں گے۔

    یہ کتب خانہ قدیم رسائل، نوادر اور حیرت انگیز موضوعات پر کتابوں سے بھرا ہوا ہے۔ یہاں کئی مخطوطات اور قدیم نقشے بھی محفوظ ہیں۔ صدیوں پہلے یہاں ایک معبد قائم کیا گیا تھا اور بعد کے ادوار میں یہاں کتب خانہ بنا دیا گیا۔ آج اس دو منزلہ کتب خانے کی شہرت دنیا بھر میں ہے۔

    یہ کتب خانہ ایک بڑے ہال پر مشتمل ہے جس میں ہر طرف لکڑی کی الماریوں میں کتابیں محفوظ ہیں۔ یہاں کے در و دیوار سے اس عمارت کی شان و شوکت اور اس کا حسن جھلکتا ہے۔ یہاں لکڑی کا کام نہایت نفیس اور باریکی سے کیا گیا ہے۔ الماریوں کے علاوہ زینے اور چھت کو جس مہارت سے منقش اور مزین کیا گیا ہے اس کی نظیر کم ہی ملتی ہے۔

    یہ عمارت فنِ تعمیر کا ایک شاہ کار بھی مانی جاتی ہے جس میں ہوا اور روشنی کی آمدورفت کا خاص اہتمام کیا گیا ہے جب کہ اس کے ہال کی بناوٹ بھی ایک خاص پیمائش اور ڈھب سے کی گئی ہے۔ 1983 میں اسے عالمی ورثہ قرار دیا گیا تھا۔

    اب چلتے ہیں لائبریری میں موجود حنوط شدہ لاشوں کی طرف۔ کہتے ہیں کہ یہ لگ بھگ تیرہ سو برس پہلے حنوط کیے گئے جسم ہیں جو مرکزی ہال میں کتابوں کی الماریوں کے درمیان رکھے ہوئے ہیں۔

  • جب ایتھوپیا کے شہنشاہ کا محافظ اٹلی کے میدان میں‌ ننگے پاؤں دوڑا…

    جب ایتھوپیا کے شہنشاہ کا محافظ اٹلی کے میدان میں‌ ننگے پاؤں دوڑا…

    ابیبے بیکیلا شہنشاہِ ایتھوپیا کا ذاتی محافظ تھا جس نے ننگے پاؤں دوڑ کر ایک فتح کا تاج اپنے سَر پر سجایا اور پہلی بار کھیلوں کے مقابلوں میں اس ملک نے سونے کا تمغہ حاصل کیا۔

    یہ 1960 کی بات ہے جب اٹلی کے اولمپک مقابلوں کا انعقاد کیا گیا تھا۔ یہ فتح اس لیے بھی نہایت اہم تھی کہ اس ملک نے اٹلی ہی کے تسلط سے آزادی حاصل کی تھی۔ اور ابھی اس آزادی کو صرف بیس برس ہی بیتے تھے۔

    ابیبے بیکیلا نے 42 کلومیٹر کا فاصلہ دو گھنٹے اور پندرہ منٹ میں طے کرکے عالمی ریکارڈ قائم کیا تھا۔

    شاہِ ایتھوپیا کے اس محافظ نے مقابلے میں ننگے پائوں دوڑنا کیوں پسند کیا؟ جواب اسی کی زبانی سنیے۔

    "میں اٹلی کو دکھانا چاہتا تھا کہ ایتھوپیا کے باشندے کتنے مضبوط اور طاقت ور ہیں۔”

    میراتھن ریس کے حوالے سے ایتھوپیا کے باشندے دنیا بھر میں مشہور ہیں۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ غربت، پسماندگی، جنگ اور خوں ریز معرکے دیکھنے والے ایتھوپیائی کھلاڑیوں کا کہنا ہے کہ ان کے ملک میں ہر شخص مسلسل حرکت میں رہتا ہے۔

    یورپ کو ٹیکنالوجی پر زیادہ بھروسا ہے اور کسی مقابلے کی تیاری کرنے کا ان کا انداز ہم سے بہت مختلف ہے۔ اس کے برعکس ایتھوپیا میں سب کچھ ایک قسم کی دوڑ سے مشروط ہے۔ ہر چھوٹی بڑی چیز کا حصول، کام یابی بھاگ دوڑ سے جڑی ہوئی ہے۔

    ایتھوپیا کے باشندوں کا کہنا ہے کہ بچے اسکول کی جانب دوڑ لگاتے ہوئے نظر آتے ہیں، ان کے لیے پینے اور استعمال کے پانی کا حصول ایک مسئلہ ہے۔ وہ کنویں سے پانی لانے کے لیے بھی دوڑ لگاتے ہیں اور وہ ننگے پاؤں ہوتے ہیں۔

    ابیبے بیکیلا نے اپنے ملک کے لیے کارنامہ انجام دیا تھا اور یہی وجہ ہے کہ وہاں اس کھلاڑی کو ہمیشہ بہت عزت اور احترام دیا گیا۔

    اٹلی کے ایک میدان میں دنیا بھر کے کھلاڑیوں کے ساتھ ننگے پاؤں دوڑ لگاتے ہوئے کام یابی اپنے نام کرنے والے ابیبے بیکیلا نے 1973 میں ہمیشہ کے لیے دنیا چھوڑ دی، مگر ایتھوپیا کی تاریخ میں ان کا نام آج بھی زندہ ہے۔

  • آزارِ عشق میں‌ مبتلا وکیل کو مسیحا کی تلاش

    آزارِ عشق میں‌ مبتلا وکیل کو مسیحا کی تلاش

    غالب کے رفقا میں سے ایک حاتم علی بیگ بھی تھے۔

    پیشہ ان کا وکالت تھا۔ برطانوی دور میں‌ ہائی کورٹ سے وابستہ رہے۔ اپنی پیشہ ورانہ مصروفیات کے ساتھ علمی اور ادبی سرگرمیاں‌ بھی جاری رکھیں‌۔ نہایت باذوق اور شاعر بھی تھے، مگر ان کا بہت کم کلام سامنے آیا ہے۔

    حاتم علی بیگ کا تخلص مہر تھا۔ ان کی ایک غزل آپ کے حسنِ ذوق کی نذر ہے۔

    ذکرِ جاناں کر جو تجھ سے ہو سکے
    واعظ، احساں کر جو تجھ سے ہو سکے

    رازِ دل ظاہر نہ ہو اے دودِ آہ
    داغ پنہاں کر جو تجھ سے ہو سکے

    اے مسیحا مجھ کو ہے آزارِ عشق
    میرا درماں کر جو تجھ سے ہو سکے

    چپ ہے کیوں او بُت خدا کے واسطے
    کچھ تو ہوں ہاں کر جو تجھ سے ہو سکے

    دل تو اس پر آج صدقے ہو گیا
    تُو بھی اے جاں کر جو تجھ سے ہو سکے

    وہ پری میری مسخر، ہو یہ کام
    اے سلیماں کر جو تجھ سے ہو سکے!

  • فیض‌ کی نظم کے وہ دو مصرعے جو ہندو دھرم کے لیے خطرہ بن گئے!

    فیض‌ کی نظم کے وہ دو مصرعے جو ہندو دھرم کے لیے خطرہ بن گئے!

    تعجب ہے کہ ہندتوا کی "عظمت” ترقی پسند اور انقلابی شاعر فیض احمد فیض کی صرف ایک نظم کے دو مصرعوں‌ کی وجہ سے خطرے میں ہے۔ یہی نہیں بلکہ مودی سرکار کے "تگڑے” فیصلے بھی علامہ اقبال، جالب اور فیض کے انقلاب آفریں کلام اور مزاحمتی ترانوں کی صورت سخت مزاحمت کا سامنا کر رہے ہیں!

    بھارت میں مودی سرکار کی بدمعاشی اور غنڈہ گردی اور خصوصاً مسلمانوں کے خلاف کارروائیوں کا سلسلہ جاری ہے، لیکن بدترین جبر اور ڈرانے دھمکانے کے باوجود بھارتی مسلمان شہریت کے قانون کے خلاف احتجاج اور مظاہرے کررہے ہیں جس میں ہر گزرتے دن کے ساتھ تیزی آتی جارہی ہے۔ ان حالات میں ایک بھارتی یونیورسٹی ترقی پسند اور انسان دوست نظریات کے لیے دنیا بھر میں مشہور شاعر فیض احمد فیض کی نظم کی وجہ سے خوف زدہ نظر آرہی ہے۔

    اقبال بانو کی آواز میں یہ نظم کسے یاد نہیں۔ ہم دیکھیں گے، لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے! دہائیوں پہلے اس کلام نے سننے والوں کو اپنے سحر میں گرفتار کیا تھا، اس کی گونج سرحد پار بھی سنائی دی تھی اور آج پھر ظلم، ناانصافی اور جبر کے خلاف بھارت میں اسی کلام کے ذریعے ظالم کو للکارا گیا تو اسے ہندو مخالف قرار دے کر تحقیق شروع کر دی گئی ہے۔

    واقعہ یہ ہے کہ ایک مظاہرے کے دوران کان پور کی آئی آئی ٹی یونیورسٹی میں طلبا نے یہ نظم پڑھی جس پر ایک فیکلٹی ممبر نے کہا ہے کہ فیض کا یہ کلام ہندو مذہب کی مخالفت کرتا ہے۔ اس شکایت کا نوٹس لے کر جامعہ نے ایک پینل تشکیل دے دیا جو اس بات کا تعین کرے گا کہ واقعی نظم سے ہندو مذہب کو کوئی خطرہ ہے یا نہیں۔
    فیض کی نظم کے یہ دو مصرعے بعض طلبا اور جامعہ کے اراکین کے لیے تکلیف اور تشویش کا باعث ہیں۔ وہ مصرعے یہ ہیں۔
    سب بت اٹھوائے جائیں گے ،بس نام رہے گا اللہ کا

    یہ نظم آپ بھی پڑھیے۔

    ہم دیکھیں گے!
    لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
    وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے
    جو لوحِ ازل میں لکھا ہے
    جب ظلم و ستم کے کوہِ گراں
    روئی کی طرح اُڑ جائیں گے
    ہم محکوموں کے پاؤں تلے
    جب دھرتی دھڑ دھڑ، دھڑکے گی
    اور اہل حکم کے سر اوپر
    جب بجلی کڑ کڑ، کڑکے گی
    جب ارضِ خدا کے کعبے سے
    سب بت اٹھوائے جائیں گے
    ہم اہل صفا مردود حرم
    مسند پہ بٹھائے جائیں گے
    سب تاج اچھالے جائیں گے
    سب تخت گرائے جائیں گے
    بس نام رہے گا اللہ کا
    جو غائب بھی ہے حاضر بھی
    جو منظر بھی ہے ناظر بھی
    اٹھے گا انا الحق کا نعرہ
    جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو
    اور راج کرے گی خلق خدا
    جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو

  • حبیب جالب کی’’دستور‘‘ سے مودی کے دستور کو للکارتے بھارتی

    حبیب جالب کی’’دستور‘‘ سے مودی کے دستور کو للکارتے بھارتی

    سیاسی جبر کے مخالف، مساوات کے پرچارک اور انصاف کے متوالے حبیب جالب کے انقلابی ترانے ہندوستان میں گلی گلی گونج رہے ہیں۔

    جالب کی نظموں کے اشعار نعروں کی صورت مودی سرکار کو للکار رہے ہیں۔ بھارتی شہریت کے متنازع قانون کے خلاف احتجاج اور مظاہروں کے دوران خاص طور پر نوجوانوں نے پاکستان کے اس عظیم انقلابی شاعر کی مشہور ترین نظم دستور کو اپنا نعرہ اور پرچم بنا لیا ہے۔

    حبیب جالب نے ظلم، زیادتی اور ناانصافی کے خلاف جو ترانے لکھے، وہ مقبول ہوئے۔ جو شعر کہا وہ زبان زدِ عام ہوا۔ کسی دور میں مصلحت سے کام نہ لینے والے حبیب جالب ہر مظلوم کے دل کی آواز بنے رہے۔ یہی وجہ ہے کہ دورِ آمریت اور سیاسی جبر کے خلاف بات کریں، طبقاتی نظام سے لڑنا ہو یا کروڑوں عوام کے حق کے لیے آواز اٹھانی ہو، آج بھی حبیب جالب کے ترانے اور ان کے اشعار کا سہارا لیا جاتا ہے۔

    مودی کے جنون کی نذر ہوتے بھارت اور ہندتوا کی آگ میں جلتے ہندوستانی معاشرے کے سنجیدہ، باشعور، نڈر اور بے باک عوام شاعرِ انقلاب کی مشہور نظم ‘‘دستور’’ سے حق و انصاف کا الاؤ بھڑکاتے ہوئے سڑکوں پر نظر آرہے ہیں۔ اجتماعات کے دوران حبیب جالب کی نظمیں‌ پڑھی جارہی ہیں اور بینروں‌ پر ان کے اشعار لکھے ہوئے ہیں۔

    گزشتہ دنوں‌ ایک تصویر دنیا کے سامنے آئی جس میں‌ بھارتی لڑکی نے بینر اوڑھا ہوا ہے جو جالب کی مشہور نظم دستور کے اشعار سے سجا ہوا ہے۔

    دیپ جس کا محلات ہی میں جلے
    چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے
    وہ جو سائے میں ہر مصلحت کے پلے

    ایسے دستور کو صبحِ بے نور کو
    میں نہیں مانتا، میں نہیں جانتا

    میں بھی خائف نہیں تختۂ دار سے
    میں بھی منصور ہوں، کہہ دو اغیار سے
    کیوں ڈراتے ہو زنداں کی دیوار سے

    ظلم کی بات کو، جہل کی رات کو
    میں نہیں مانتا، میں نہیں جانتا

    تم نے لوٹا ہے صدیوں ہمارا سکوں
    اب نہ ہم پر چلے گا تمہارا فسوں
    چارہ گر دردمندوں کے بنتے ہو کیوں

    تم نہیں چارہ گر، کوئی مانے مگر
    میں نہیں مانتا، میں نہیں جانتا!